پروفیسر حافظ احمد یارؒ۔۔۔ کچھ یادیں کچھ باتیں

پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی

حافظ احمد یار ایک خود ساختہ سیلف میڈ سکالر تھے۔ وہ ایک ذہین، محنتی اور پرعزم شخصیت کے مالک تھے۔ گہرے علمی رسوخ کے علاوہ وہ سادہ طبیعت اور صاف گو مزاج کے انسان تھے۔ میں نے انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں دیکھا۔ گھنگھریالے بالوں، سیدھی مانگ اور کج کلاہی انداز کی ایک بھر پور شخصیت کالج کے راستوں اور برآمدوں میں متحرک نظر آتی۔ حافظ صاحب کو کبھی کتابوں کے بغیر نہ دیکھا۔ مدرسے سے کالج پہنچا تھا اور بھاری بھر کم کتابوں کے ماحول سے مختصر کتابوں کاپیوں کے منظر کو حیرت و آسائش کے اندا ز سے دیکھتا تھا۔ کالج کی دو شخصیتیں جاذب نظر تھیں ایک سید ابو بکر غزنویؒ اور دوسرے حافظ احمد یارؒ، ایک عربی کے استاد تھے اور دوسرے اسلامیات کے۔ میں عربی اور معاشیات کا طالب علم تھا اس لئے حافظ صاحب سے شرف تلمذ حاصل نہ ہو سکا۔ دونوں شخصیتوں میں قدر مشترک کتابوں کا بوجھ تھا۔ دونوں کو ہمیشہ کتابوں کی زینت سے مزین دیکھا۔ اس وقت کا اسلامیہ کالج علمی ادبی شخصیتوں کی کہکشاں تھا۔ پروفیسر حمید احمد خان، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹرافتخار صدیقی، سید ابو بکر غزنوی اور حافظ احمد یار (رحمھم اللہ) وغیرہ۔ مجھے ابھی تک وہ مباحثہ یاد ہے جس کا موضوع تھا ’’عقل بڑی کہ بھینس‘‘ اور حافظ صاحب اپنی جاموس پسندی کے باعث یہ ثابت کر رہے تھے کہ بھینس عقل سے بڑی ہوتی ہے۔ سید ابو بکر غزنوی نے انہیں ایک مرتبہ پاپائے کالج کہا تھا کیونکہ کالج پر ان کا رعب تھا۔ پھر حافظ صاحب کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا وہ طلبہ کے ساتھ چھانگا مانگا گئے ہوئے تھے۔ کہ طلبہ نے چھانگا مانگا کے بعض بااثر زائرین کے ساتھ الجھاؤ پیدا کر لیا اور نتیجہ انہیں اسلامیہ کالج چھوڑنا پڑا کیونکہ کالج پر انجمن حمایت اسلام کی حکومت تھی اور وہ انجمن میں رسوخ رکھتے تھے۔ حافظ صاحب نے عزت نفس کو ملازمت پر ترجیح دی اور گھر آ گئے ۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم نے حافظ صاحب کو شعبہ اسلامیات میں جزوقتی ملازمت دی اور ازاں بعد مستقل طور پر شعبہ سے منسلک ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ۱۹۶۴ء میں شعبہ میں چار اسامیاں مشتہر ہوئیں تین پر پہلے ہی ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب ڈاکٹر امان اللہ خان صاحب اور حافظ احمد یار مرحوم کام کر رہے تھے اور چوتھی زاید تھی۔ اس اسامی کیلئے میں بھی امیدوار تھا چنانچہ نومبر ۱۹۶۴ء میں سیلیکشن بورڈ منعقد ہوا اور ہم چاروں انٹرویو کیلئے پیش ہوئے اور چاروں منتخب ہوئے۔ یہ حضرات تو سینئر تھے اور انہیں انہی تاریخوں سے مستقل تصور کیا گیا جن سے وہ کام کر رہے تھے البتہ میری تقرری تازہ تھی۔ ان میں ڈاکٹر امان اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی میری استاد تھے جبکہ حافظ صاحب صرف سینئر بزرگ تھے۔ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی میرے نگران تھے اس لئے مجھے ان سے قرب بھی حاصل تھا اور طبعی مناسبت بھی۔ یہ تعلق خاطر بحمد اللہ ابھی تک قائم ہے۔

حافظ احمد یار مرحوم سے اخلاص، احترام اور محبت کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ ان سے خصوصی تعلق کا سبب، پس منظر کا اشتراک تھا۔ میں بھی ایک دیہاتی تھا اور وہ بھی۔ وہ جھنگ سے اور میں اس وقت کے ضلع سرگودھا سے۔ بدوی مزاج میں اکھڑ پن کا ایک عنصر ہوتا ہے جو میرے نزدیک شخصیت کا حسن ہے۔ جرأتمندی ، صاف گوئی، سادہ دلی اور وفاداری اس مزاج کی چند خصوصیات ہیں۔ حافظ صاحب ان اوصاف کا مرقع تھے۔ وہ جامعہ محمدی ضلع جھنگ کے طالب علم تھے اور میں بھی اس درسگاہ کا ایک ادنیٰ خوشہ چین ہوں۔ پھر ان کی علم دوستی اور تحقیقی شعور انسان کو جذب کرتی تھی۔ اس وقت کے شعبہ اسلامیات میں حافظ صاحب مرحوم منفرد علمی مرتبہ کے انسان تھے۔ جو چیز انہیں اپنے تمام ہمعصروں میں ممتاز کرتی ہے وہ ان کی محنت اور لگن تھی۔ انہیں قرآن اور تقابل ادیان کے مضامین دئیے گئے تو انہوں نے ان موضوعات پر بیشتر بنیادی ماخذ خرید کر اپنی ذاتی لائبریری بھر لی۔ ان کی کلاس میں بیٹھنے والے طالب علم ان کے تبحر علمی اور وسعت معلومات کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بعض اوقات مواد کی ترتیب میں پیچیدگی ہوتی تھی لیکن بلاشبہ وہ اپنے موضوع پر حرف آخر ہوتے۔ انہوں نے بی اے کے نصاب کیلئے سورہ نساء کی تفسیر لکھی جو اپنی نوعیت کی منفرد درسی کتاب تھی۔ سید ابو بکر غزنوی کے ساتھ مل کر اسلامیات اختیاری کیلئے قرآنی سورتوں کا ترجمہ و تشریح لکھا جو زبان و بیان کا حسین نمونہ ہے۔

تحقیقی کام

قرآن حکیم، ان کی مطالعاتی وتحقیقی کاوشوں کا محور تھا۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر انہوں نے بیش قیمت مضامین لکھے۔ خطاطی اور جغرافیہ ان کی دلچسپی کے میدان تھے۔ نیشنل جیو گرافک میگزین کے مستقل خریدار تھے۔ ان کے شغف کا یہ عالم تھا کہ کبھی بات کرنے لگتے تو پھر دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو کر بات کرتے۔ بدقسمتی سے پالیسی سازوں کی تجرباتی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں جلدی ریٹائر ہونا پڑا اور اس طرح شعبہ ایک محقق استاد سے محروم ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے تدریسی و تحقیقی مشاغل جاری رکھے۔ عربی زبان کی تدریس میں انہوں نے نئے افق روشناس کرائے اور قرآن پر تحقیق کے نئے زاویے تلاش کیے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒکے ہاں ان کے مضامین چھپتے رہے۔ ہنوز کام نامکمل تھا کہ پہلے بیماری اور پھر اجل نے آ لیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اہل علم کی ناقد ری ہے۔ جن اداروں یا افراد کے پاس وسائل ہیں انہیں اول تو گہرے علمی کام سے دلچسپی نہیں اور اگر ہے تو ان کے مزاج پر خرکاری کا غلبہ ہے۔ اہل علم کو کربناک حالات میں رکھ کر انہیں زیادہ سے زیادہ نچوڑنے کی کوشش ہوتی ہے اور یوں تجربہ کار دماغ اپنی کمزور جسمانی قوتوں کے باعث جلد ہی عالم بقا کو سدھارتے ہیں۔ تعلیمی ادارے تحقیقی منصوبوں سے تہی دامن ہیں اور معدودے چند تحقیقی ادارے خرکاروں کے تصرف میں ہیں اس طرح ریٹائر ہونے والے قوی دماغ بھی آہستہ آہستہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑتے جاتے ہیں۔

ذاتی تعلق کا تجربہ و مشاہدہ

ان سے براہ راست تلمذ نہ ہونے کے باوجود میں نے انہیں ہمیشہ استاد کی نظر سے دیکھا لیکن انہوں نے ہمیشہ ایک رفیق کی حیثیت سے معاملہ کیا۔ مجھے ہمیشہ ان کا اعتماد حاصل رہا۔ عمر کا جو تفاوت تھا اس میں استاد اور شاگرد ہی کا رشتہ جچتا تھااور میں بے تکلفی کے باوجود احترام کا سلسلہ قائم رکھتا۔ ان کی بے شمار شفقتوں میں سے ایک کا ذکر کافی ہو گا۔ میں ۱۹۷۵ء میں پی ایچ ڈی کیلئے ایڈنبرا یونیورسٹی آ گیا تو شعبے میں حقوق کی حفاظت کا مسئلہ تھا۔ یونیورسٹی نے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی اسامی مشتہر کی تو میرے پاس مقالات اور کتابوں کے نسخے نہ تھے۔ حافظ صاحب مرحوم نے ناشروں سے میری کتابیں حاصل کیں اور انہیں درخواست کے ساتھ جمع کرایا ۔ بعد میں یونیورسٹی کے کباڑ خانے سے جب کتابیں حاصل کیں تو ان پر حافظ صاحب مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہو ا نوٹ موجود تھا۔ ’’انسان کامل‘‘ کا وہ نسخہ شاید اب کہیں میرے گھر ہو گا جس پر یہ عبارت درج تھی ’’یہ کتاب ایسوسی ایٹ پروفیسر کیلئے خالد علوی کی درخواست کے ساتھ جمع کرائی‘‘۔

چیئرمین کی تبدیلیوں کے نظام کے تحت حافظ صاحب مرحوم چیئرمین رہے۔ مجھے ایک دوسرے چیئرمین کا بھی تجربہ ہے۔ ایڈنبر ا جانے سے پہلے میں نے مطبوعہ کتابوں پر ڈی۔لٹ کیلئے درخواست دی تھی۔ یونیورسٹی قانون کے مطابق اگر ریفری پی ایچ ڈی کیلئے سفارش کریں تو پی ایچ ڈی دے دی جاتی تھی۔ ابتدائی ممتحن اور غالباً ایک خارجی ممتحن کی رپورٹیں آ گئی تھیں تو اس وقت کے چیئرمین نے فائل پر نامناسب نوٹ لکھ کر اس کیس کو نہ صرف داخل دفتر کرایا بلکہ اس وقت غیر پی۔ایچ۔ڈی وائس چانسلر کو نامناسب تقویت پہنچا کر اس طرح پی ایچ ڈی حاصل کرنے کا قانون تبدیل کرایا۔ رہے نام اللہ کا۔

صاف گوئی

علامہ صاحب مرحوم کے عہد صدارت میں اساتذہ کا اجتماعی کھانا ہوتا تھا اور بے تکلف ماحول میں علمی بحثیں ، تفریحی چٹکلے اور دوستانہ نوک جھونک ہوتی تھی۔ شعبہ کے ایک سابق محترم استاد سے حافظ صاحب کی نوک جھونک دلچسپ لطائف کی صورت اختیار کرتی اور علامہ صاحب مرحوم سمیت سب لوگ لطف اندوز ہوتے۔ ایک دن یہ استاد ایک اسلامی مورخ پر علمی تبصرہ فرما رہے تھے۔ یہ مورخ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا۔ حافظ صاحب یکایک بول اُٹھے کہ جناب اگر آپ اپنے پی ایچ ڈی کے مورخ کی عربی کتاب کی چار سطریں درست اعراب کے ساتھ پڑھ دیں تو تب میں آپ کو پی ایچ ڈی مانو ں گا؟ جواب میں کھسیانی ہنسی کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ پورا کمرہ قہقوں سے گونج اٹھا۔ حافظ صاحب مرحوم نے جس بیساختگی سے کہا تھا وہ انہی کا حصہ تھا ان کی صاف گوئی کا ایک اور واقعہ میرے ذہن پر نقش کا لحجر ہے۔ ہوا یوں کہ ہم سب لوگ نیشنل سیرت کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ ایک صبح ناشتے کی میز پر علماء و اساتذہ کا جمگھٹا تھا کہ ایک نوجوان مقرر، جواب پروفیسر، علامہ اور ڈاکٹر کہلاتا اور سیاسی و مذہبی رہنما ہے اس وقت اس کی اٹھان تھی اور سرکاری حلقے اسے نمایاں کر رہے تھے،(شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر ا لقادری) نے یکایک اپنی بے لوثی للہیت اور بلامعاوضہ خدمت دین کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا۔ کچھ لوگ توجہ سے اور کچھ بے توجہی سے سن رہے تھے کہ حافظ صاحب کی آواز گونجی ’’اوئے ککھ نہ رہوے تیرا۔ تینوں لاکالج دے ہاسٹل کڈھیا گیا سی تے توں میر کول آیا سی کہ حافظ صاحب کوئی سستامکان دلا دیو میرے پاس کرائے دے زیادہ پیسے نہیں تے ہن کوٹھی تے کار کتھوں آ گئی‘‘ یہ شخص چونکہ شعبے کا طالب علم اور حافظ صاحب کا شاگرد رہ چکا تھا اس لئے کسی بڑی بدتمیزی کی جرات نہ کر سکا۔ صرف اتنا کہہ سکا کہ حافظ صاحب آپ کو حقائق کا پتہ نہیں۔

مرحوم کا انداز یہ تھا کہ وہ مسکراتے یا ہنستے اور پھر بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے۔ میں نے ان میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی۔
میرا ان کے ہاں کبھی کبھار آنا جانا ہوتا تھا ایک دفعہ میں گیا تو دیکھا کہ حافظ صاحب مرحوم بھینس کا دودھ دوہنے میں مصروف ہیں اور بیگم صاحبہ ہاتھ میں بڑی لاٹھی لئے کھڑی ہیں تو میں نے بے تکلفی سے کہا بھابھی یہ لاٹھی بھینس کیلئے ہے کہ حافظ صاحب کیلئے۔ سب ہنس دئیے اور بات آئی گئی ہو گئی ۱۹۹۲ء یا ۱۹۹۳ء کی بات ہے میں برطانیہ سے واپس آیا تو ملنے کے لیے گیا کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں اٹھ کر آنے لگا تو بھابھی کو سلام کیا تو حافظ صاحب مرحوم نے ازراہ تفنن وہ بات یاد کرائی کہ تم نے فلاں وقت یہ بات کہی تھی۔
میرے پاس سکوٹر تھا اور جب پی ایچ ڈی کیلئے جانے لگا تو اسے بیچنے کا ارادہ تھا۔ حافظ صاحب مرحوم نے کہا کہ اسے میرے پاس بیچ دو۔ میں نے کہا مجھے اتنے پیسے ملتے ہیں دیدیں اور لے لیں۔ مجھے کہنے لگے کہ میں تو اتنے پیسے دوں گا اور سکوٹر بھی لوں گا۔ وہ سکوٹر دیر تک چلاتے رہے جب تک ہاتھوں کی گرفت مضبوط تھی اس وقت تک اسے چلایا اور جب ملے تو کہا کہ تمہارا سکوٹر چلا رہا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور سادہ مزاجی کو نوازا۔ دونوں بیٹے ماشاء اللہ خوشحال ہیں ایک بیٹی نے پی ایچ ڈی کی ہے جو ان کے علم، تحقیق اور رسوخ کی زندہ مثال ہے۔

حافظ صاحب مرحوم ہمارے شعبے کے سب سے بڑے عالم اور محقق استاد تھے۔

اللھم اغفر ہ وارحمہ۔