پروفیسر حافظ احمد یارمرحوم چند یادیں

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

استاد محترم پروفیسر حافظ احمد یار خان مرحوم و مغفور بحیثیت انسان اور بحیثیت استاد ایک عظیم ہستی تھے۔ ان کی شخصیت میں بہت سے پہلو بڑے قابلِ رشک اور قابل تقلید ہیں۔ صاف گوئی آپ کی زندگی کا اصول تھا ۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنا نقطہ نگاہ دلیل کے ساتھ کسی مصلحت بینی کے بغیر پیش فرمادیتے ۔ ۴مارچ ۱۹۷۴ء کو پہلی مرتبہ کلاس روم میں ان کی زیارت ہوئی ۔ اس کے بعدان سے دو برس فیض علم کیا۔ ان سے قرآن حکیم اور عربی زبان و ادب کے دو پرچے پڑھے۔ جس روز ہمارے تدریسی دورانیے کا اختتام ہوا اسی روز ۱۸مئی ۱۹۷۶ء کو استاد محترم ملک محمد اسلم مرحوم اللہ کو پیارے ہوئے۔

آپ کو اللہ نےتبحر علمی عطا کر رکھا تھا۔ عربی زبان پر مکمل عبورتھا۔ آپ اسلامیات کے بنیادی ماخذ سے استفادہ کے بعد کلاسز پڑھاتے ۔ وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل پر تقابلی مطالعہ، مختلف نقطہ ہائے نگا ہ کا تجزیہ کر نے اور دلائل کی بنیاد پر راجح نقطہ نگاہ اختیار کر نے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ کسی مسئلے کے بارے میں علماء کی متفرق آراء میں سے ہر رائے کی تہہ تک پہنچ جانے کا ملکہ حاصل تھا۔

آپ میں علمی و فکری تعصب نام کی کوئی شے نہ تھی۔ جو بات درست ہوتی اسے بلا تامل اختیار کر تے اور اس کا اظہار بھی کرتے۔ حافظ صاحب محترم کا طریقِ تدریس و تحریر یہ تھا کہ کسی موضوع کو نکات (Points)کی شکل میں بیان کرتے۔ بالعموم شروع میں ہی بتلادیتے کہ میں اس موضوع پر ان ان نکات اور عنوانات کے تحت بات کروں گا۔ پھر اسی کے مطابق لیکچر بھی دیتے اور تحریر بھی نکات کے تحت ہوتی ۔ان نکات کے تحت آپ کی تحریر اور تقریر کسی غیر ضروری طوالت کے بغیر ہوتی ۔

اسلامی موضوعات پر تحریر و تقریر میں آپ کے اسلوب میں عقلی ونقلی استدلال کاا متزاج پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ صرف انہی لوگوں کیلئے مفید نہیں ہوتی تھی جو اسلامی تعلیمات کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ وہ لوگ جو اسلام کے بارے میں دوسروں کے پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھتے ہیں یا ان میں الحادی یا انحرافی رجحانات پید ا ہو چکے ہوتے ہیں، ان کیلئے مدلل اور واضح راہنمائی موجود ہوتی ۔

مستشرقین اور متجد دین کی فکری بنیادوں پر عقلی و نقلی اور واقعاتی شواہد کے ساتھ ان کامحاکمہ کر تے ۔ آپ کی تقریر و تحریرمیں کہیں بھی معذرت خواہانہ انداز موجود نہیں ہے۔ کتاب و سنت اور اسلاف کا موقف پورے استدلال کے ساتھ بیان کرتے۔ سورۃ النساء پڑھاتے ہوئے تعداد ازدواج ، یتیم پوتے کی وراثت ، آزادی نسواں اور حقوق نسواں، سود، شراب کی حرمت، اسلام کے نظام حدود و تعزیرات ان جیسے دیگر موضوعات کے بارے میں جدید متجد دین کے نقطہ نگاہ کا انہی کے اسلوب استدلال کے ساتھ ایسا محاکمہ کرتے کہ کسی کے پاس ان دلائل کا توڑ نہ تھا۔

آپ نے ہمیشہ منفرد انداز سے بالکل منفرد موضوعات پر لکھا۔ بی اے کے طلبہ کیلئے سورۃ النساء کی تفسیر ’’ دستور حیاء‘‘کے نا م سے لکھی ۔ اس طرح کی متعدد کتابیں اُس وقت بھی موجود تھیں اور بعد میں بھی لکھی جاتی رہی ہیں۔ لیکن دستور حیاء کا انداز اور علمی معیار بالکل منفرد ہے۔ آپ کے منفرد موضوعات میں علم الرسم کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ’’حکمت قرآن ‘‘ میں سال ہا سال تک چھپنے والے آپ کے مضامین قرآن مجید اور عربی زبان میں آپ کی منفرد اور امتیازی صلاحیتوں کے غماز ہیں۔ آپ کی وفات کے بعد یہ بہت بڑا مسئلہ سامنے آیا کہ اس کام کو اس معیار کے ساتھ کون جاری رکھے گا ۔

آپ کے اعلیٰ ذوق کی گواہ آپ کی ذاتی لائبریری بھی ہے۔ جس میں کوئی عام کتاب شاید ہی ہو۔ بیشتر کتابیں اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی منفرد خصوصیت رکھی ہیں۔ کتابوں کے نایاب یا کمیاب(Rare) ایڈیشن آپ کی لائبریری میں موجود ہیں۔ کتابوں کی دیکھ بھال اتنی ہی کرتے تھے جتنی اپنی جان یا اپنی ملکیتی کسی بھی شے کی۔

حافظ صاحب میرے پی ایچ ۔ ڈی کے مقالہ کے نگران تھے۔ جب میں نے اپنے مقالہ کی تکمیل کی تو مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے ینا بیع الاسلام اورینا بیع القرآن سے استفادہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں ان کی اصل Origins-of-Quranکو پڑھا ہے۔ فرمانے لگے کہ ان اردو کتابوں کو بھی پڑھو ۔ تمھارا کام تب مکمل ہو گا۔ میں نے کتاب کی عدم دستیابی کا کہا تو اپنی لائبریری سے مجھے کتا بیں دیں اور ان کتابوں کی جگہ پر سلیبس رکھیں اور مجھے کہا کہ جب کتاب واپس کر و گے تو تب ہی میں تمھاری رپورٹ لکھوں گا۔ آپ نے ایسا ہی کیا ۔

استاد گرامی کے بارے میں لکھتے ہوئے میری ان معروضات کا اصل مقصد قارئین کرام کو یہ بتانا ہے کہ شعبہ کے تمام اساتذہ جنھوں نے اس کی تاسیس کے ابتدائی برسوں میں اس کی آبیاری کی وہ سب خلوص کا پیکر تھے۔ وہ اس شعبہ کو اپنے گھر سے بھی زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ ان کی زندگیوں کا محور و مرکز شعبہ ہی تھا۔ شعبہ میں تعینات ہونے کے بعد ان کی ترجیحات میں اول وآخر شعبہ ہی تھا۔ آج شعبہ علوم اسلامیہ ترقی کی منازل طے کر تے ہوئے اپنا نام پیدا کر رہا ہے۔ اس درخت کو چھوٹے سے پودے کی شکل میں جن ہستیوں نے لگا یا اور اس کی آبیاری خلوص اور عرق ریزی سے کی تھی ، یہ سب ترقیاں انہی اساتذہ کی محنت کا ثمرہ ہیں۔

استاذالا ساتذہ علامہ علا ؤ الدین صدیقی اپنے ساتھیوں او ر شاگردوں کو شعبہ کی بے لوث خدمت کی ترغیب کے لیے سورۃ القریش کی یہ آیات فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْف بالعموم سنایا کرتے۔ جس کا مقصد یہ پیغام دینا ہوتا کہ شعبہ اسلامیات سے فارغ ہونے والے تلامذہ کو عملی زندگی میں اللہ نے ان کو جو رزق و عزت و شہرت عطا کی اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور شعبہ کی خدمت یعنی دینِ اسلام کی صحیح تبلیغ و تعبیر کو اپنا شعار بنا ئیں۔

شعبہ کے قدیم اساتذہ نے اس کی تاسیس کے آغاز میں مسائل کی کثرت اور سہولیات کی کمی کے باوجود جس تندھی اور خلوص سے کام کیا، شعبہ کی لائبریری کی کتابوں پر لگی ہوئی ، سلپس اور ان کی پشت پر ہاتھ سے لکھے ہوئے نمبر استاد گرامی حافظ احمد یار مرحوم کے خلوص و محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کسی عہد ہ یا منصب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے لائبریری کتابوں کی ترتیب و تنظیم میں نمایاں کام کیا۔ رات تک بیٹھنا شعبہ کے تمام اساتذہ کا روزانہ کا عمل تھا۔ شعبہ کی لائبریری میں کتابیں جس سسٹم کے تحت رکھی گئی ہیں یہ جناب حافظ احمد یار مرحوم کاترتیب دیا ہوا ہے۔

استاد گرامی کا ذوق علم منفرد نوعیت کا تھا۔ اسلامیات کے بنیادی مآخذ پر گہری نگا ہ رکھتے تھے۔ لیکن اس تبخرعلمی کے باوجود آپ میں علمی تکبر اور علمی تعصب ہر گز نہ تھا، تواضع اور باوقار انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ قوت حافظہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ طبیعت کا فطری میلان کسی بات کی حقیقت اور تہہ تک پہنچنا ہوتا تھا۔ ان ہی صلاحیتوں نے آپ میں تجزیہ و تقابل کی صلاحیت بھی پیدا کر دی تھی۔

حافظ صاحب کی بعض باتیں بلکہ تبصرے بڑے منفرد ہو تے تھے۔ مثلاً فرمایا کر تے تھے کہ کسی شخص کا تقریر ، گفتگو یا تحریر میں ضرورت سے زیادہ انکساری اختیار کرنا بلکہ مصنوعی انکساری اختیار کرنا بھی درحقیقت تکبر کی ایک شکل ہے۔ فرماتے کہ غیر ضروری انکساری کا اظہار کر کے انسان اس بات کی توقع کر رہا ہو تا ہے کہ لوگ کہیں کہ نہیں جناب آپ تو بہت بڑے اور منفرد عالم ہیں۔ جب لوگ ایسا کہہ دیتے ہیں۔ تو اس شخص کی بڑا کہلوانے کی خواہش کی تسکین ہوجاتی ہے

ایک دفعہ ایک شاگرد جوخود ایک بڑی خانقاہ کے گدی نشین تھے، انہوں نے حافظ صاحب کو اپنے بزرگوں کے عرس پر مدعو کیا۔ اس دعوت میں اس قدر اصرار تھا کہ انہیں عرس نہیں بلکہ عرس والے کے گھر جانا پڑا۔ پیر صاحب نے مریدوں کے سامنے تعارف کروایا کہ یہ میرے استاد محترم ہیں۔ پھر کیا تھا، مرید آپ کی خدمت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ وہ پاؤں دبانے کیلئے آگے بڑھتے ، حافظ صاحب پیچھے پیچھے ہٹتے جاتے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حافظ صاحب انہیں ہاتھوں سے اپنے سے دور دھکیلنے لگے لیکن مریدوں کو تو یہی بتایا گیا ہوتا ہے کہ جب پیر تمھیں اپنے سے دور دھکیلے تو خدمت کر کے ثواب حاصل کر نے بلکہ برکتیں حاصل کر نے کا یہی تو موقع ہوتا ہے اس لئے وہ حافظ صاحب کی خدمت پر ٹوٹ رہے تھے اور حافظ صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر مریدوں کی پہنچ سے دور چلے گئے ۔ فرمایا کر تے تھے کہ بہت سے مرید ، پیروں کو خدمت میں غلو کر کے انہیں خواہ مخواہ خراب کر دیتے ہیں۔

حافظ صاحب نے اپنی اولاد کی تربیت کس نہج پر کی، اس سلسلے میں دو واقعات مجھے ہر وقت یاد رہتے ہیں۔

حافظ صاحب کے بڑے صاحبزادے (تقریباً ۱۹۷۸ء میں)شادی کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے۔ حافظ صاحب نے یونیورسٹی میں اس کا ذکر کیا۔ ظاہر ہے بیٹے کے بیرون ملک جانے کی اداسی کے احساسات ان پر طاری تھے۔ اس گفتگو میں حافظ صاحب نے جو کچھ فرمایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اولاد کی تربیت کس نہج پر کی۔ فرمانے لگے نعم العبد جہاں کہیں بھی جائے گا۔ دو کام ہر گز نہیں کر ے گا ، کبھی حرام نہیں کھائے گااور کبھی دہریہ نہیں ہو گا۔

حافظ صاحب نے دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز باہر سے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آ پ باہر گئے کچھ دیر جب واپس اندر آئے تو اپنی بیٹی سے کہا کہ مجھے دو سو روپے دو۔ بیٹی نے پوچھا کہ کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ بتا یا کہ کارپوریشن والے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ نے گھر کے اندر ایک کمرہ تعمیر کیا ہے جس کا نقشہ کارپوریشن سے منظور نہیں کروایا۔ لہٰذا اس پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے متبادل کے طور پر یہ کہا ہے کہ اگر دو سو روپے ادا کر دئے جائیں تو یہ جرمانہ نہیں لیا جائے گا۔ بیٹی، جس کی تربیت حافظ صاحب ایسی شخصیت نے کی تھی ، کہنے لگی کہ ابا جان! آپ نے جو گھر ہمارے لئے بنایا ہے، اس کے بارے میں آپ سرکاری کارندوں کو دو سو روپے رشوت دے کر اپنی گردن کو کیوں بھاری کر تے ہیں۔ کارندوں سے کہہ دو کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ تم ہمیں جرمانہ کا ووچر بنا کر بھیج دو، ہم حرام میں تمھیں رشوت نہیں دیں گے۔ حافظ صاحب واپس گئے اور یہی الفاظ کارندوں سے کہہ دئیے ۔ اس کے بعد نہ جرمانہ کا ووچر آیا نہ کوئی سرکاری کارندہ ۔

نجی اور روز مرہ کی محفلوں میں بھی قرآن حکیم کے بارے میں اپنے مطالعے اور تحقیق سے اپنے شاگردوں اور دوستوں کو فیض یا ب کر تے اور اس کے سا تھ ساتھ گزارے ہوئے چند منٹ بھی ہم جیسے لوگوں کیلئے نہایت قیمتی معلومات حاصل کر نے کا ذریعہ بن جاتے۔ آپ کی مجالس میں جہاں قہقہے ہوتے وہاں علمی و سنجیدہ موضوعات پر بڑے نپے تلے تبصرے ،آپ کی تحقیق اور وسعت مطالعہ کے شاہد عدل ہوتے۔