پروفیسر حافظ احمد یارؒ۔۔۔ ایک بے مثال استاد

ڈاکٹر سعید اقبال قریشی

کم و بیش چالیس برس پہلے راقم گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا۔ شمار کروں تو نصف صدی کے قریب کا عرصہ بنتا ہے آنکھیں بند کروں اور ماضی کی طرف لوٹ جائوں تو لگتا ہے کہ کل کی بات ہے جب میرے عربی کے استاد مرحوم ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق نے مجھے ایک دن اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایک جوان سال اسلامیات کے استاد کو کوئی پیغام پہنچانے کا حکم دیا۔ غالباً یہ کسی تحریر کے حصول کا مسئلہ یا کوئی کتاب وغیرہ کا معاملہ تھا۔

میں حکم کی بجا آوری میں اسلامیہ کالج پہنچا اور استفسار کرتے کرتے اس کلاس روم کے دروازے پر جا کھڑا ہوا جس میں ایک نکلتے قدو قامت کے مضبوط جوڑ بند والے اچکن پہنے سر پر ایک بھاری بھر کم ٹوپی جمائے آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں کی عینگ لگائے، گھنی سیاہ داڑھی اور گہرے گندمی رنگت والے استاد بآواز بلند طلبہ کو انتہائی سرگرمی سے پڑھاتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے ڈیل ڈول، نین نقش، لب و لہجہ اور بھاری بھر کم رعب دار آواز سے مجموعی طور پر یہی تاثر اُجاگر ہوا کہ وہ کسی مارشل نسل کے دبنگ جوانمرد ہیں اور دل نے یہ بات بجھائی کہ صوفی صاحب نے پڑھاتے ہوئے فتی کا جو تعارف الفاظ میں کروایا تھا یہ شخص شاید اسی کی تصویر ہے۔ چنانچہ جب کلاس سے فارغ ہو کر باہر نکلے اور بات کرنے کا موقع آیا تو ان کے پر اعتماد انداز گفتگو نے پہلے تاثر کی بھرپور تائید کی۔ جب ان سے مدعا عرض کر کے رخصت ہوا تو ان کی سادگی اور علمیت کے حسین امتزاج نے ایک دل خوش کن گہرا اثرچھوڑا۔ یہ تھے پروفیسر حافظ احمد یار۔

اس واقعہ کے بعد طویل وقفوں سے کئی دفعہ مختلف بہانوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور بتدریج ان کی شفقت کے مواقع بڑھتے رہے یہاں تک کہ دسمبر ۱۹۶۴ء میں ایم۔اے عربی پاس کرنے کے بعد جب ایم۔اے اسلامیات کے لیے شعبہ اسلامیات اولڈ کیمپس پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ تو پھر باقاعدہ حافظ صاحب سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا۔
ہمیں آپ علم تفسیر کا پرچہ پڑھاتے تھے اور خوب مزے سے پڑھاتے تھے۔ متعدد تفاسیر کے سیر حاصل حوالہ جات کے ساتھ بعض تفاسیر ساتھ لا کر روسٹرم پر سجائی ہوتی تھیں لیکچر شروع ہوتا تو اس کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا تسلسل قائم ہو جاتا جس میں قرآن کی تلاوت الفاظ کی تشریح، تفسیری نکات کی وضاحت مفسرین کے اقوال اور بعض اوقات ان کا اپنا اجتہاد بغیر رکاوٹ یا وقفے کے یکے بعد دیگرے رواں دواں چلے آتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک سرگرمی سے جا ری رہتا جب تک کہ اگلے پیریڈ کے استاد دروازے پر نہ آکھڑے ہوتے۔ ہر موضوع میں ڈوب کر پڑھاتے تھے اور سننے والے بھی ساکت و صامت ان کے ساتھ بہے چلے جاتے تھے۔

حافظ صاحب ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۴ء تک اسلامیہ کالج میں پڑھاتے رہے۔ آپ سادہ لوح نکھرے ہوئے علمی ذوق کے متواضع شخص تھے۔ جس موضوع پر بات کرتے انتہائی تیقن اور اعتماد سے کرتے اور بھر پور علمی دلائل سے اسے مزین کرتے۔ عام گفتگو ہو، کلاس روم کا لیکچر ہو یا ریڈیو کی تقریر، ہر موقع پر وہ بہترین علمی رنگ میں ظاہر ہوتے۔ عام بات چیت یا بعض اوقات سرگرم بحث و تمحیص میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جا سکتی تھی کہ غصے میں بہت کم آتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات اگر بحث میں گرما گرمی پیدا ہو جاتی تو درمیان میں کوئی ایسا فقرہ یا بات چست کر جاتے جس سے خود بھی مسکرا دیتے یا ہلکا سا قہقہ لگا دیتے اور دوسرے کو بھی غصے کی حدود سے ورے ہی کھینچ لیتے۔
خوش اخلاقی اور احترام آدمیت ان کی امتیازی خصوصیات میں سے تھیں۔ اپنے مسلمہ اعلیٰ علمی اور تحقیقی مقام کے باوجود اپنے شاگردوں کے ساتھ بھی انتہائی تواضع اور انکساری کا طرزِ عمل ہوتا تھا۔ کئی دفعہ میرے سامنے اس بات پر افسوس کرتے تھے کہ میں نے تمہاری طرح بچپن سے عربی زبان نہیں پڑھی بلکہ بڑی عمر کا ہو کر شروع کی۔ گویا اس بات پر میری بڑائی کر رہے ہوتے۔ حالانکہ صورت حال یہ تھی کہ لغت عربی پر ان کا عبور قابل رشک تھا۔ علم صرف اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ انہیں قرآن کی طرح یاد تھا اور علم نحو پر ان کی دسترس کسی بھی ماہر ترین استاد سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ میں سے میں نے کسی بھی استاد کو عربی فہمی پر ان سے بہتر نہیں پایا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ کالج کی سطح پر عربی پڑھانے والے اکثر و بیشتر اساتذہ سے بہتر عربی پڑھا سکتے تھے تو اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں۔ اس دعوے کا بین ثبوت آپ کا تدریس قرآن کا وہ پروگرام ہے جو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنے ادارے میں ترتیب دیاجس میں تمام قرآن مجید صرفی و نحوی رنگ میں پڑھایا گیا۔

اس پروگرام سے خود حافظ صاحب بہت مطمئن اور خوش تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ڈاکٹر اسرار کے ادارے میں قرآن پڑھانے کا بہت لطف آتا ہے۔ طلبہ سمجھدار ہیں اور دلچسپ انداز میں صرفی و نحوی مسائل پیش کرتے ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ بعض طلبہ تو ٹیلی فون پر بھی خوب دلچسپ نکات اٹھاتے ہیں جن کو حل کرنے میں خوب علمی بحث ہوتی ہے۔

ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں اما م بخاری کو الکبش النطاح (سینگ مارنے والا مینڈھا) روایت کیا ہے۔ یعنی اپنے علم و فن کے ایسے ماہر جو ہر ایک کے سامنے چیلنج بن کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ جب سے حافظ صاحب سے تعارف ہوا، ان کی علمی دسترس سے آگاہی ہو ئی تو دل نے یہی گواہی دی کہ آج کے دور کے الکبش النطاح حافظ احمد یار ہی ہیں۔

عربی زبان و ادب سے ان کا تعلیمی دور سے غیر معمولی ربط و ضبط تھا جس کا پتہ ہمیں اپنے بزرگ دوست پروفیسر حافظ محمد ظہور الحسن ریٹائرڈ پروفیسر کالج آف ایجوکیشن کے بیان کردہ واقعہ سے چلا۔ حافظ ظہور صاحب نے بتایا کہ ایم۔اے عربی میں اول آنے کے بارے میں، میں بہت پُر امید تھا اور اس سلسلے میں خوب تیاری کر رکھی تھی۔ اسی دوران حافظ احمد یار صاحب ہمارے ساتھ آشامل ہوئے اور جب نتیجہ نکلا تو حافظ احمد یار صاحب اول آئے۔ یوں تدریس سے قبل تحصیل علم میں بھی آپ اپنے ہم جماعتوں سے ممتاز رہے اور عربی، ایم۔اے میں اول پوزیشن لے کر تعلیم و تعلم کے میدان میں وارد ہوئے۔

اسلامیہ کالج سول لائنز کے مجلہ فاران ۱۹۸۲ء (سلور جوبلی نمبر) میں درج ان کے اپنے انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کالج میں عربی و اسلامیات پڑحانے کا اس دور کا عملہ دو استادوں یعنی حافظ احمد یار(اسلامیات) اور پروفیسر ابو بکر غزنوی (عربی) پر مشتمل تھا۔ حافظ صاحب مرحوم جس طرح تحصیل علم میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے میں نمایاں طور پر کوشش و محنت کرتے تھے اسی طرح تعلیم مکمل کرنے کے بعد مرحوم پڑھانے میں بھی انتہائی سرگرم استاد تھے۔ ان سے پڑھنے والی پہلی اسلامیات کی جماعت کا نتیجہ ۹۶ فیصد تھا۔ یہ وہ دور تھا جبکہ اسلامیہ کالج میں فقط ڈگری کی کلاسیں ہوتی تھیں۔

پروفیسر ابوبکر غزنوی نے یونیورسٹی سے عربی آنرز کی کلاسیں شروع کرنے کی اجازت طلب کی تو یونیورسٹی نے شرط لگائی کہ عربی آنرز پڑھانے کے لیے کم از کم دو استاد ضرور ہونے چاہیں۔چنانچہ غزنوی صاحب نے حافظ صاحب کو آنرز کی کلاس بھی دے دی۔اور یوں آپ اسلامیات کے ساتھ باقاعدہ عربی آنرز کی تدریس میں بھی شامل رہے اور ابوبکر غزنوی صاحب جیسے ماہر استاد کا مکمل اعتماد حاصل کیے رہے۔

حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں قرآن فہمی اور خدمت قرآن کا خاص جذبہ عطا کیا تھا۔جہاں وہ اس کے معانی کے لطافتوں سے بہرہ ور تھے وہاں وہ اس کے ظاہری حسن و خوبی پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔تدریس کی ذمے داریوں کو انتہائی فرض شناسی کے ساتھ سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجلس علوم اسلامیہ کو بھی بہت فعال بنا رکھا تھا۔اس سلسلے میں انجمن حمایت اسلام کے اصحاب اختیار بھی آپ سے عموما مکمل تعاون کرتے تھے۔قرآن سے غیر معمولی شغف کی وجہ سے ہی انھوں نے اپریل ۱۹۶۱ء میں مطبوعہ قرآن مجید کے نسخوں کی ایک ملک گیر نمائش کا اہتمام کیا جسے بہت سراہا گیا اور دیگر علمی اداروں کے لیے قابل تقلید قرار پایا کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں مطبوعہ قرآن مجید کے نسخوں کی یہ اولیں نمائش تھی جس کا اس اعلیٰ درجے پر اہتمام کیا گیاتھا۔

پہلی کامیابی پر حوصلہ افزائی نے اس ذوق کو اور جلا بخشی چنانچہ ۲۳نومبر ۱۹۶۳ء کو آپ نے سیرت النبی پر لکھی گئی نادر کتب کی بہترین تمائش کا اہتمام کیا اور ان کتب سیرت کی مکمل فہرست تیار کروا کر مجلس علومِ اسلامیہ کے زیر اہتمام طبع کروائی جو اپنی نوعیت کی پہلی فہرست تھی ۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج ہی میں اپنے قیام کے آخری سال یعنی ۱۹۶۴ء میں اسلامی خطاطی کے کثیر نمونوں کی نمائش کا اہتمام کیا جو مختلف اسلامی ادوار اور متعدد مسلم علاقوں کے نمائندہ خط تھے۔ اسی ذوق نے بعد میں رسم الخط قرآنی کی مروجہ صورتوں کی تحقیق کا شوق پیدا کیا۔ اب توجہ اس طرف منعطف ہوئی کہ دیکھا جائے کہ قرآن مجید کو ٹھیک ٹھیک تجویدی قواعد کے مطا بق پڑھانے کے لیے کس کس ملک میں کیا کیا کام کیا گیا۔ چنانچہ اس شوق میں جہاں سے بھی انھیں کسی ایسے نسخہ کا سراغ ملا جو رسم قرآنی کے حوالے سے منفرد مقام رکھتا تھا اسے آپ نے حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس دور میں پیکجز لمٹیڈ نے عکسی تجویدی قرآن طبع کروایا جس میں یہ اہتمام کیا گیا کہ قرآن مجید کی ہر آواز کے لیے تجویدی لحاظ سے ایک مخصوص علامت وضع کیجائے ۔ چنانچہ One-sound -one-symbol کے اصول کے تحت اخفاء اظہار قلقلہ ادغام ناقص ادغام تام اور مقحم و مرقق آوازوں کے لیے مختلف اشکال کے اعراب متعارف کروائے گئے ہیں تاکہ علم تجوید سے ناواقف طلبہ اعراب کی ظاہری اشکال سے مطلوبہ آوازیں نکال لیں اور قرآن کو صحیح طور پر تلاوت کر سکیں ۔ حافظ صاحب مرحوم نے اس طریقے کو اپنے ذوق کے مطابق پایا چنانچہ اپنے گھر میں جو انھوں نے اپنی بچیوں کے ساتھ مل کر محلے کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا اس میں وہ اس پیکچز کے قرآن مجید سے انھیں تعلیم دیتے تھے ۔

کچھ قابل ذکر واقعات

ایک دن مرحوم باتوں باتوں میں فرمانے لگے :سارا سال تو قرآن مجید کی منزل پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ لیکن جب رمضان المبارک قریب آنے لگتا ہے اور فقط ڈیڑھ دو مہینے رہ جاتے ہیں تو غیر ارادی طور پر چلتے پھرتے قرآن مجید زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور رمضان کی آمد پر قرآن سنانے میں کوئی دقت کا سامنا نہیں ہوتا۔

ایک دفعہ میں ان کا نائب ممتحن مقرر ہوا۔ فائنل بنڈل کی پڑتال کے دوران ایک دو نمبر کا ایسا سوال سامنے آیا جو بغیر جانچے رہ گیا تھا۔ مجھے بلایا کہ اسے درست کر دو۔ چونکہ میں مثنی نتیجہ ( (Counterfoil) جمع کرواچکا تھا اس لیے میں نے دفتری کاروائی کی طوالت سے پہلو بچانے کے لیے دلیل دی کہ میں نے دیگر سوالات میں کافی Lenient-Marking کی ہے اس لیے اس سوال کے دو نمبر اگر نہ بھی لگائے جائیں تو طالب علم کی حق تلفی نہیں ہوگی ۔ اس پر کچھ سنجیدہ سے ہو کر اپنے بیٹے کے حوالے سے کہنے لگے : نعم العبد کہا کرتا ہے کہ ممتحن حضرات پرچے جانچنے میں بہت بے نیاز واقع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ یا اس سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہا اور کسی قسم کا حکم صادر نہ کیا۔ یہ بالواسطہ ایسی تنبہہ تھی جو کبھی بھلائے نہیں بھولتی ۔

پیکجز کے عکسی تجویدی قرآن کے آغاز میں ایک مقدمے کی شکل میں تمام تجویدی قواعد اردو میں تفصیل سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ بعض مہربانوں نے مطالبہ کیا کہ اسکا عربی ترجمہ بھی چھپ کر ساتھ منسلک ہونا چاہیے تاکہ اگر یہ قرآن مجید عرب دنیا میں جائے تو انھیں معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں بھی تجویدی ذوق اپنی تمام جزئیات کے ساتھ بخوبی متعارف ہے۔ اس کا ترجمہ پاکستان کے مشہور قاری اظہار احمد صاحب تھانوی مرحوم سے کروایا گیا جو ان دنوں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے تھے۔ اس پر انھیں حق خدمت بھی ان کی حسب منشا اد اکیا گیا لیکن متعدد جگہوں پر قواعد کی تعبیر تشنہ محسوس ہوئی۔ یہ جانتے ہوئے کہ حافظ صاحب مرحوم رسم قرآنی اور تجوید و قراء ت کے اعلی علمی ذوق کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے رموز سے بھی خوب آگاہ ہیں میں وہ ترجمہ لے کر ان کے پاس جا پہنچا ۔ ترجمہ دیکھا تو بے اطمینانی کا اظہار کیا لیکن قاری کا نام پڑھ کر اس ترجمے کو بدلنے پر متردد ہوئے مگر میری درخواست پر بلکہ کہنا چاہئے کہ ضد پر کم و بیش چالیس صفحات پر مشتمل عبارت کا ترجمہ کرنے پر تیار ہو گئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ان سے اپنی ہر بات ہمیشہ منواتا ہی رہا ہوں اور یہ ان کی خاص برادرانہ شان تھی جس کی لطافت آج تک دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہوں۔

کام کی تکمیل کے بعد ایک دن میں ایک لفافے میں کچھ مناسب سی رقم ڈال کر مہربان استاد سے براہ راست لین دین کے ثقیل ماحول سے بچتے ہوئے بالالتزام ان کی عدم موجودگی میں گھر چھوڑ آیا ۔ ابھی گھر واپس آئے ذرا سی دیر ہی ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ۔ فون اٹھایا تو اسی سپاٹ آواز میں حکم ہوا کہ فوراً آئو ۔ مرتا کیا نہ کرتا اسی وقت روانہ ہو گیا۔ چھٹی جس نے آنے والے معاملے سے آگاہ کر دیا تھا لیکن دل ہی دل میں مختلف حرجے سوچ رہا تھا کہ کس طرح لفافے کی واپسی کو ٹالا جائے گا۔ یہ خیال گزرا کہ انھیں بتائونگا کہ قاری صاحب نے والد صاحب مرحوم کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اپنا محنتانہ ، جو کہ انکا یقینا حق تھا، وصول کر لیا۔ ۔۔ لیکن جب میں استاد گرامی کے سامنے ہوا تو انھوں نے لفافہ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے جب انتہائی افسوناک آواز میں کہا : تم نے مجھے سمجھا ہی نہیں ! تو میری تمام دلیلیں فضا میں تحلیل ہو گیئں ۔ یہ ایک شفیق استاد، بھائی یا سرپرست کی ایسی پر درد آواز تھی جس کے اندر پنہاں احتجاج زبان حال سے گویا چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ میرے خلوص کو پیسوں میں نہ تو لو۔ میں نے بے اختیار وہ لفافہ تھام لیا۔ میری آنکھیں اپنے سامنے ان قدیم اساتذہ کا صحیح خلف الرشید دیکھ رہی تھیں جن کے شاگرد ان کے صلبی بیٹوں جیسے حقوق رکھتے تھے اور وہ انھیں فقط لکھاتے پڑھاتے ہی نہیں تھے بلکہ ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ہر قسم کی مادی اور نظریاتی رہبری بھی اپنے فرائض میں شامل سمجھتے تھے، رحمھم اللہ تعالی اجمعین۔ والحمد للہ الذی باسمہ تتم الصالحات