حافظ احمد یار مرحوم و مغفور، بحیثیت استاد

حافظ محمد ابراہیم شیخ

جب ۱۶ مئی ۹۷ء کو اچانک حافظ صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو اپنے غم کی کیفیت کے اظہار میں میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ ’’آج ہم یتیم ہو گئے ہیں ‘‘ اور واقعتا میرے احساسات یہی تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے وہ میرے باپ ہی تو تھے۔ وہ میرے استاد تھے اور حضورﷺ کے فرمان کے مطابق سب سے افضل والدین اساتذہ ہی ہیں۔ یہ میری انتہائی خوش نصیبی تھی کہ مجھے ان سے فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ الحمد للہ کہ میں نے حافظ صاحب سے خوب فیض حاصل کیا اور اس پر بھی اللہ کا شکر ہے کہ جو علم حافظ صاحب سے حاصل کیا تھا اسے اپنی صلاحیتوں کے مطابق آگے پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
(وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔ وجراہ اللہ عنا احسن الجزاء(

استاذ مکرم ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کا ایک بیش بہا خزانہ رکھتے تھے۔ انہیں اگر عربی زبان ، قرآن کریم، حدیث و فقہ پر خوب دسترس حاصل تھی تو وہ تاریخ اور جغرافیہ کا بھی خوب علم رکھتے تھے جس کا ایک مظہران کی بیٹی کا اماکن السیرہ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا وہ مقالہ بھی ہے جو حافظ صاحب کی رہنمائی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ قرآن مجید کے رسم و ضبط کو اردو زبان میں متعارف کرانے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی ہے۔ ان کی عظیم الشان ذاتی لائبریری میں ہر طرح کی کتابیں موجود ہیں۔ اکثر وہ مختلف کتب حاصل کرنے کی تاریخ بھی بیان کیا کرتے تھے۔ وہاں پر کتابوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے جمع کئے گئے قرآن مجید کے طرح طرح کے نادر نسخے اور تلاوت کے کیسٹس بھی موجود ہیں۔

محترم حافظ صاحب کی کچھ باتیں مجھے بہت زیادہ پسند تھیں۔ میں آج خاص طور پر ان کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ مثلا ایک تو ان کی کلاس میں کبھی اکتاہٹ طاری نہیں ہوتی تھی۔ ان کی کلاس ان کی محفل کی طرح شرکاء کے لئے دلچسپی کا بھرپور سامان لئے ہوتی تھی۔ وہ ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ دوسرے ان کی ہمیشہ خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ اپنا زیادہ زیادہ سے اپنا علم طلبہ کومنتقل کر دیں۔ میرے خیال میں استاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کے ذخیرے کو ممکنہ حد تک اپنے طلبہ کو منتقل کر دے، اور حافظ صاحب اس صلاحیت سے خوب مالا مال تھے۔ تیسرے یہ کہ وہ ایک مضمون پڑھاتے پڑھاتے باتوں باتوں میں بہت سی مزید معلومات دے دیا کرتے تھے۔ جیسے ایک مرتبہ انہوں نے ترجمہ قرآن کے پیریڈ میں ہمیں تاج محل کی سیر کرائی تھی۔ چوتھے یہ کہ باتوں ہی باتوں میں اور چلتے چلتے وہ ایسے جملے کہہ جاتے تھے جو موعظت اور نصیحت سے بھرپور ہوتے تھے، بس شرط یہ تھی کہ آدمی متوجہ ہو۔ پانچویں یہ کہ ان کی اپنے کام سے لگن قابلِ دید اور قابلِ رشک تھی۔ جب وہ پڑھانے بیٹھتے تو تین تین پیریڈز کے گزرنے کا پتہ نہ چلتا، نہ ہی حافظ صاحب کے پڑھانے کی ٹون (Tone) میں کوئی فرق آتا اور نہ ہی حافظ صاحب اپنے بیٹھنے کے انداز کو بدلتے۔ اسی طرح اگر وہ کچھ لکھنے بیٹھ جاتے تو بس اذان کی آواز ہی اس میں وقفہ کراتی۔

الغرض صفحات سیاہ ہو جائیں گے لیکن استاد محترم کی خوبیاں اور باتیں ختم نہ ہو پائیں گی۔ مختصراً میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ میں نے بہت اچھے اچھے اساتذہ سے اکتساب علم کیا ہے لیکن حافظ صاحب ہر لحاظ سے ان میں بہترین استاد تھے اور وہ میرے پسندیدہ ترین استاد تھے اور ان شاء اللہ رہیں گے۔ اگرچہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ان کی یادیں تو باقی ہیں، وہ میرا سرمایہ ہیں، ان کا لب و لہجہ میری نگاہوں میں ہے۔ میں جب چاہوں تخیل کی آنکھ سے حافظ صاحب کی کلاس میں پہنچ سکتا ہوں۔

میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔