پروفیسر حافظ احمد یارؒ۔۔۔ ایک روشن چراغ

ڈاکٹر طاہرہ بشارت

بلاشبہ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دوسری مخلوقات پر یہ فوقیت علم کی بنا پر عطا کی ہے ۔ ﷲ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا ور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کرتے اور اسے آگے بڑھاتے ہیں ۔ ﷲ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام پروفیسر حافظ احمد یار صاحبؒ کا ہے ۔ جنھوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِبے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا ۔

محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ نے جب ارمغان کے سلسلے کی اس تیسری کڑی (ارمغان حافظ احمد یارؒ) کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرنے کو کہاتو کافی دیر کے لیے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا۔۔۔کہ ایسی شخصیت جو خود میں علم کا ایک انسائیکلوپیڈیا تھی، کا احاطہ چند سطروں میں کیسے کر پاؤں گی کہ جن کی تعلیمی، تدریسی اور تحقیقی خدمات کو بیان کرنے کے لیے مقالے بھی کم پڑ جائیں۔

شعبہ میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے براہ راست پروفیسر حافظ احمد یار صاحبؒ سے کسب فیض کیا ہے ۔ اس حوالے سے بھی اُن کی شخصیت کے بارے میں یوں لکھنا کہ حقِ شاگردی ادا ہو لفظوں کے جامے سے ماورا ہے ۔
گو کہ یہ عرصہ ایک سمسٹر پر مشتمل تھا مگر مختصر دورانیے میں بھی پروفیسر صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ سادہ ،منکسر المزاج اور ہر قسم کے تصنع سے پاک شخصیت کے مالک تھے ۔ مگر اُن کا علمی رعب و دبدبہ سامنے بیٹھے ہوئے شاگردوں کو اپنے سحر میں لے لیتا تھا۔ وہ جس موضوع پر بھی گفتگو کرتے سامعین پر اس میں اپنی مہارت تامہ کا تاثر چھوڑ دیتے ۔بڑے بڑے علمی مسائل کو اس سہولت کے ساتھ بیان کر دیتے کہ سننے والے انگشت بدنداں کر اٹھتے ۔ گو انھوں نے ڈاکٹریٹ ڈگری حاصل نہیں کی تھی (شاید اس سندی تحقیق کی آج کے دور میں زیادہ ضرورت سمجھی جاتی ہے ) مگر اپنے علم اور تحقیق کی بنا پر وہ ایک جید عالم تھے اور آج کے کسی بھی ڈاکٹر سے کم نہ تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ بیک وقت کئی موضوعات اور کئی علوم خصوصاً علوم القرآن کے حوالے سے اُن کا نام سند کا درجہ رکھتا ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ جنھوں نے کبھی بھی اپنی علمی اور پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں برتی۔

پروفیسر صاحب کا تعلق پنجاب کے مشہور تاریخی شہر جھنگ کے نواحی قصبے حبیب سے ہے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔ تاہم آپ کا حصول علم کا شوق آپ کو جھنگ سے گکھڑکے گورنمنٹ نارمل سکول اور پھر وہاں سے پنجاب یونیورسٹی لاہور تک لے آیا ۔ یہاں سے 1954میں ایم اے اسلامیات اور 1957میں ایم اے عربی کے امتحانات بدرجہ اول پاس کیے ۔
حصول تعلیم کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ۔ 1955ء تا 1964ء اسلامیہ کالج سول لائنز میں عربی زبان اور اسلامیات کی تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ 1964ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے وابستہ ہوئے اور1976ء تا 1977ء بطور صدر شعبہ علوم اسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور اپنی خدمات سر انجام دیں۔
پروفیسر صاحب صحیح معنوں میں معلم اور علم کی خدمت کرنے والے تھے یہی وجہ ہے کہ 1980ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے مرکزی انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام قرآن اکیڈمی کے شعبہ تدریس سے وابستگی اختیار کی اور زندگی کے آخری وقت تک اپنے فرائض نہایت محنت لگن اور دل جمعی کے ساتھ ادا کرتے ہے ۔

میں سمجھتی ہوں کہ ارمغان کے ذریعے ان کی علمی خدمات کو اہل علم اور اہل نظر تک پہنچانا لائق تحسین ہے اور اس بات کی علامت بھی کہ ہم اپنے اسلاف کے کردار و گفتار کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے اور ان کی تربیت کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تعمیر ملت میں مزید قدم بڑھانے کی توفیق دے ۔
میں مبارک باد پیش کرتی ہوں ارمغان کی کمیٹی کو خصوصاً پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کہ اُن کی خدمات کی یہ تیسری کڑی ارمغان پروفیسر احمد یارؒ صاحب زیور طبع سے آراستہ ہونے جا رہی ہے ۔ یقینا ان کی کاوشوں کے بغیر اس امر کا پایہ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ میں شکر گزار ہوں ان تمام اہلِ علم کی کہ جنہوں نے اپنی پر خلوص تحریریں ارمغان کے لیے پیش کیں۔ یقینا مستحق ہیں مبارکباد کے صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، شعبہ کے تمام اساتذہ اور تمام تکنیکی سٹاف جن کا تعاون ہر لمحہ شاملِ حال رہا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مزید بہترین کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ بشارت

ڈین فیکلٹی علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب، لاہور