پروفیسر حافظ احمد یارؒ۔۔۔ ایک سچے عاشقِ قرآن

حافظ عاکف سعید

مرد درویش حافظ صاحب مرحوم عالم باعمل، دل درد مند کے حامل خود داری، وضع داری اور شرافت کے پیکر تو تھے ہی، ایک عاشق قرآن بھی تھے۔ اس مرد درویش کی شخصیت کا مؤخرالذکر پہلو میرے نزدیک دیگر تمام اوصاف پر بھاری ہے اور مجھے یقین ہے کہ عند اللہ بھی مرحوم کا یہ وصف سب سے زیادہ دلربا اور دلفریب قرار پائے گا۔ برصغیر کی عظیم علمی اور جامع الصفات شخصیت مولانا مناظر احسن گیلانی کے بارے میں کسی واقف حال نے بڑے خوبصورت الفاظ کہے تھے کہ ہمارے مولانا کے تو تمام ہی مناظر نہایت حسین ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا کا نام مناظر احسن تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کم و بیش یہی معاملہ حافظ احمد یار مرحوم کا بھی تھا۔
حافظ صاحب مرحوم سے میرا پہلا تعارف ۱۹۷۲۔۷۳ء میں ہوا جب آپ والد محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی دعوت پر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی پہلی سالانہ قرآن کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے۔ مرحوم سے میرا پہلا تعارف یک طرفہ تھا۔ میں ان دنوں ہائی سکول کا طالب علم تھا۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے حافظ صاحب مرحوم کے مقالہ کا موضوع تھا اعجاز قرآن کے مختلف پہلوـ ۔ ان کے مقالے کوسن کر حافظ صاحب مرحوم کا اولین تاثر جو میرے لوح قلب پر ابھرا ہو ایک بھاری بھرکم علمی شخصیت کا تھا۔ میرے لئے یہ امر حیران کن تھا کہ ہو اتنے سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کے دوران بھی لطافب اور خوش خفتاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے اور یوں سامعین کی توجہ اور دلچسپی پرقرار رہتی تھی۔ سالانہ قرآن کانفرنسوں کے انعقاد کا یہ سلسلہ ۱۴، ۱۵ برس جاری رہا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ لاہور میں ہوتے ہوئے کسی قرآن کانفرنس سے حافظ صاحب مرحوم بغیر کسی شدید مجبوری کے غیر حاضر رہے ہوں۔ یہ قرآن حکیم کے ساتھ ان کے والہانہ تعلق ہی تھا کہ انہیں قرآن کانفرنسوں کے ایک ایسے لازمی مقرر اور مقالہ نگار کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی جس کے بغیر کانفرنس نا مکمل اور ادھوری محسوس ہوتی تھی۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد حافظ احمد یار مرحوم ۱۹۸۳ء میں والد محترم کی دعوت پر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے ذیلی ادارے قرآن اکیڈمی کے ساتھ منسلک ہو گئے جہاں پڑھے لکھے (بی اے اور ایم اے پاس ) افراد کے لئے عربی زبان اور ابتدائی دینی تعلیم کے دو سالہ کورس کا انہی دنوں اجرا ہوا تھا۔ میں سمجھتا ہوں یہ خدمت قرآن کا شدید جذبہ ہی تھا کہ حا فظ احمد یار مرحوم نے بہت سی پر کشش آفرز کو ٹھکرا کر مرکزی انجمن خدام القرآن اور اس کے ماتحت ادارے ـ”قرآن اکیڈمی” کے ساتھ وابستہ ہونے کو تر جیح دی۔ بعد میں جب مجھے ان سے زیادہ قریب ہونے کا موقع ملا تو میں نے بارہا ان کے اس جذبہ خدمت قرآنی کو ان کی زبان سے الفاظ کے قالب میں ڈھلتے دیکھا۔ ہو فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کی خدمت کے حوالے س ے مجھے کسی بھی کام میں شرکت کی دعوت دی جائے اور خواہ کہیں بھی بلایا جائے میں جراء ت انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اس جملے کے بین السطور قرآن حکیم کے ساتھ حافظ صاحب مرحوم کے غیر معمو لی تعلق کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قرآن اکیڈمی کے دو سالہ کورس میں ہو طلبہ کو پہلے سال عربی زبان سے بھرپور طور پر روشناس کرانے کے لئے عربی گرامر کی مشہور زمانہ کتاب عربی کا معلم کے چاروں حصے بالا ستیعاب پڑھاتے اور پھر دوسرے سال قواعد عربی کے اجراء کے ساتھ پورے قرآن حکیم کا ترجمہ سبقا سبقا پڑھاتے۔ وہ بلاشبہ اس کورس کے روح رواں تھے۔ جو طالب علم ایک دفعہ ان کے سامنے زانوے تلمز تہہ کر لیتا کوئی دوسرا استاد اس کی نظروں میں جچتا ہی نہ تھا۔ راقم السطور کو اگرچہ راہ راست حافظ صاحب مرحوم سے علمی استفادہ کا زیادہ موقع نہ مل سکا تاہم مرحوم کی قرآن اکیڈمی سے وابستگی کے باعث ۱۹۸۳ء کے بعد سے ان سے میل ملاقات اور انہیں قریب سے دیکھنے کا بھرپور موقع میسر آیا۔ مرحوم کا اپنے تمام شاگردوں بالخصوص راقم کے ساتھ رویہ نہایت مشفقانہ ہوتا۔ کورس کے طلبہ تو دو سال تعلیم مکمل کرکے رخصت و تالیف اور دیگر انتظامی زمہ داریوں کو نبھا رہا تھا لہذا راقم کو قریباروزانہ ہی مرحوم سے ملاقات اور مختلف معاملات میں استفادہ کا موقع ملتا۔ چنانچہ یہ دہ طرفہ تعلق جس کا آغاز ۱۹۸۳ء سے ہوا تھا، مرحوم کی زندگی کے آخری سانس تک نہ صرف برقرار رہا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہا۔

راقم نے محسوس کیا کہ تعلیم و تدریس کے میدان میں مرحوم کی دلچسپی کے اصل موضوعات دو ہی ہیں، ایک عربی زبان اور دوسرے قرآن حکیم۔ کہنے کو یہ دو مو ضوعات ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ عربی زبان اور اس کی تدریس کے ساتھ ان کے تعلق خاطر کا واحد سبب بھی یہی تھا کہ یہ قرآن کی زبان ہے۔ گویا عربی زبان سے دلچسپی بھی قرآن حکیم ہی کی وجہ سے تھی۔ چنانچہ عربی زبان اور قرآن کا ترجمہ پڑھاتے ہوئے ان پر ایک عجیب وارفتگی طاری رہتی اور ہو بلا تکان مسلسل گھنٹوں پڑھاتے رہتے تھے۔ نہ خود ان پر تھکاوٹ طاری ہوتی اور نہ ہی طلبہ میں بوریت کا احساس پیدا ہوتا۔ تدریس (teaching) میں ان کا stamina بے مثال تھا۔ مزاج میں شگفتگی کا یہ عالم تھا کہ مرحوم عربی گرامر پڑھا رہے ہوں یا ترجمہ قرآن، دوران تدریس انہیں موقع و مو ضوع کی مناسبت سے نہایت مناسب حال لطیفے سنانے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی تھی۔ شاید کئی کئی گھنٹے لگا تار عربی زبان اور ترجمہ قرآن پڑھنے کے باوجود طلبہ کے بور نہ ہونے کا ایک ظاہری سبب بھی یہی تھا۔

ان کی یاد داشت اور استحضار ذہنی بلا کا تھا ہر موقع و حال کی مناسبت سے ہو کوئی نہ کوئی لطیفہ سنانے کی نہ صرف قدرت رکھتے تھے بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ سکھوں کے لطیفے بالخصوص انہیں بکثرت یاد تھے۔ بر محل اور بر موقع لطیفہ سنا کر محفل کو بھی کشت زعفران میں تبدیل کرے اور خود بھی محفوظ ہوتے۔ ایسے موقعوں پر ان کا تصنع سے پاک بے ساختہ قہقہ جس میں ایک عجیب معصومانہ کھنک ہوتی تھی، لطیفے کے لطف کو دوبالا کرنے کا باعث بنتا تھا۔

مرحوم کی شگفتہ مزاجی کے حوالے سے ایک واقعہ سنانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ۸۸۔۱۹۸۷ء کے سیشن میں ہم نے طے کیا کہ حافظ صاحب مرحوم کے لیکچرز کی آڈیو ریکارڈنگ کا اہتمام کیا جائے، تاکہ قرآن اکیڈمی لاہور کے طرز پر پاکستان کے دوسرے شہروں میں قائم اداروں میں بھی ان سے استفادہ کیا جا سکے۔ پیش نظر یہ بھی تھا کہ دیگر مدرسین حضرات ان cassetteسے رہنمائی حاصل کر کے تر جمہ قرآن کی تدریس کا کام احسن طریقے پر سر انجام دینے کے قا بل ہو سکیں۔ حافظ صاحب مر حوم کو جب یہ بتایا گیا کہ ہم مکمل ترجمہ قرآن ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے پر یشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح تو مجھے بہت محتاط ہونا پڑے گا، ورنہ میرے لطیفے بھی ریکارڈ ہو جائیں گے، اتنے محتاط اور سنجیدہ انداز میں پڑھانا تو میرے لئے مشکل ہو گا۔ لیکن حافظ صاحب کو ہم نے دلائل سے قائل کر ہی لے ک ہ اس طرح قواعد گرامر کے اجراء کے ساتھ ترجمہ قرآن ریکارڈ ہونے سے اس کی افادیت کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا۔ ترجمہ قرآن کے لیکچرز کی ریکارڈنگ کے دوران شروع کے دو چار دن تو حافظ صاحب مرحوم نے ضبط کیا، لیکن پھر یہ کہہ کر حسب سابق لطیفوں کا آزادانہ استعمال شروع کر دیا کہ اب یہ لطیفے بھی ساتھ ہی ریکارڈ ہوتے ہیں تو ہو جائیں، میں ایسے مصنوعی ما حول میں نہیں پڑھاسکتا۔

حافظ صاحب مرحوم کے ترجمہ قرآن پر مشتمل لیکچرز ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے ۱۸۹ آڈیو کیسٹوں میں بمشکل سما سکے ہیں۔ بلا شبہ یہ کیسٹ طالبان علم قرآن کے لئے ایک اہم کلید اور نعمت عظمیٰ کا درجہ رکھتے ہیں۔ مر کزی انجمن خدام القرآن لاہور اور قرآن اکیڈمی )بانی و موسس ڈاکٹر اسرار احمدؒ)کو یہ فخر حا صل ہے کہ اس نے اس وقیع علمی اثاثے کو محفوظ رکھنے کا سامان کیا۔

حافظ صاحب مرحوم کے قرآن حکیم کے ساتھ عشق اور والہانہ تعلق خاطر کا سب سے بڑا مظہر ۱۹۸۹ء کے ماہ رمضان میں قرآن اکیڈمی میں دورہء ترجمہ قرآن کی تکمیل ہے مجھے اس جملے کی وضاحت کے لئے اس واقعے کا پس منظر قدرے وضاحت سے بیان کرنا ہو گا۔ ۱۹۸۴ء کے ماہ رمضان میں والد محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے جو خود بھی قرآن کے خادمین اور عا شقین میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ نماز ترایح کے ساتھ دورہ ترجمہ قرآن کی ایک درخشاں روایت کا آغاز کیا۔ تراویح کی ہر چار رکعت سے قبل ان میں پڑھی جا نے والی آیات کا مکمل ترجمہ اور مختصر تشریح کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس طرح روزانہ ایک پارے بلکہ سوا پارے کا بیان گرمیوں کی مختصر راتوں میں سحری کے وقت تک جاری رہتا۔ ۱۹۸۵ء میں بھی محترم والد صاحب نے پورا رمضان اسی شان سے بسر کیا اور ماہ رمضان کے اندر اندر ترجمہ قرآن کا دورہ مکمل کیا۔اس پروگرام کی افادیت اور شر کاء کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے اسے قرآن اکیڈمی کی مستقل روایت کا درجہ دے دیا گیا ۔ ۱۹۸۶ء میں محترم والد صاحب نے کراچی میں دورہء ترجمہ قرآن کا پروگرام بنایا تو یہ مسئلہ ایک بہت بڑے سوالیہ نشان کی صورت میںسامنے آیا کہ اب قرآن اکیڈمی لاہور میں ماہ رمضان میں دورہء ترجمہ قرآن کون کرئے؟ محترم ڈاکٹر صاحب کی نگاہ انتخاب حافظ صاحب مرحوم پر پڑی۔ حافظ صاحب مرحوم سے جیسے ہی اس معاملے کا ذکر ہوا انہوں نے بلاتامل آمادگی ظاہر کر دی اور ۶۶ سال کی عمر میں نوجوانوں جیسی ہمت اور فرزانوں جیسے ذوق و شوق کے ساتھ پورے ایک ماہ پر محیط اس نہایت مشقت طلب ذمہ داری کو نہایت عمدگی سے نبھایا اور تشنگان علم قرآن کو سیراب کیا۔

اس کے بعد ۱۹۸۹ء میں دوبارہ بیی صورت پیش آئی۔ محترم والد صاحب اس ماہ رمضان میں پاکستان سے باہر تھے۔ چنانچہ حافظ ا حمد یار صاحب مرحوم کو دوبارہ زحمت دی گئی۔ لیکن ان دنوں حافظ صاحب مرحوم ایک انتہائی تکلیف دہ عارضہ میں مبتلا تھے، ان پر شدید نوعیت کے ULSARIAL-COLITUS کا حملہ ہوا تھا۔ بڑی آنت کی اس سوزش کے باعث انہیں ۲۴ گھنٹے کے دوران بلامبالغہ بیسیوں بار باتھ روم جانے کی حاجت ہوتی تھی۔مرض کے طول پکڑ جانے کے باعث ضعف اور نقاہت طاری رہتی تھی۔ دورہ ترجمہ قرآن جیسی بھاری اور حساس ذمہ داری کا کیا سوال، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے حالات میں کوئی شخص ہلکی سے ہلکی اور خفیف سے خفیف ذمہ داری قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہو سکتا، لیکن آفرین ہے اس عاشق قرآن پر کہ اس انتہائی تکلیف دہ پریشان کن عارضہ کے ساتھ پورے ماہ رمضان پر محیط اس انتہائی کٹھن پروگرام کو خوش اسلوبی سے نبھایا کہ عام لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ مرحوم کسی بھی اعتبار سے علالت کا شکار ہیں۔ ہاں قریبی لوگ جس ان کے اس تکلیف دہ عارضے اور اذیت نات صورب حال سے آگاہ تھے، حافظ صاحب مرحوم کے اس جذبہ بے اختیار شوق کو دیکھ کر حیران و ششدر تھے کہ جس نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ ہم نے اس وقت اعجاز قرآنی کا یہ مظہر بھی کہ اگرچہ عام حالات میںحافظ صاحب مرحوم کو اوسطا دس پندرہ منٹ کے بعد لازما ٹائلٹ جانے کی حاجت ہوتی ، لیکن عجیب بات تھی کہ ہر چار رکعت تراویح سے دقبل قرآن کا ترجمہ کرتے ہوئے ان کا بیان ۳۵ منٹ پر محیط ہوتا، اور جتنا عرصہ ان کا بیان جاری رہتاتھا انہیں حاجت نہ ہوتی ، لیکن بیان کے مکمل ہوتے ہی انہیں اضطراری طور پر باتھ روم جانا پڑتا۔

اس غیر معمولی تکلیف کے ساتھ مسلسل تیس دن روزانہ پانچ پانچ گھنٹے پر محیط پروگرام کو نبھانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ معجزہ بلاشبہ ان کے والہانہ شوق اور عشق قرآنی کا مرہون منت تھا۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کہنے کہ تو نہیں ، لیکن میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے اللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ قرآن حکیم کے ساتھ والہانہ تعلق کا یہ ایک واقعہ بھی ان کی نجات کے لئے کافی ہو گا اور ان کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوگا کہ جن کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب قرآن سے فرمائے گا قرآن پڑھتا جا، جتنی دیر وہ قرآن پڑھتا رہے گا اس کے درجات بلند ہوتے رہیں گے اور اس کا مقام و مرتہ اس کی تلاوت کی ہوئی آخری آیت پر متعین ہوگا۔

فہم قرآن کو عام کرنے اور عربی گرامر کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قرآن حکیم کے الفاظ و آیات کے مفہوم کو اخذ کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی خاطر حافظ صاحب مرحوم نے ـ” لغات و اعراب قرآن” کے نام سے ایک نہایت مفید علمی خدمت کا آغاز کیا تھا ، جو مرکزی انجمن خدام القرآن کے ماہانہ جریدے حکمت قرآن میں سالہاسال تک قسط وار شائع ہوتا رہا۔ حافظ صاحب مرحوم کے قریبی حلقہ احباب میں شامل افراد سے یہ بات مخفی نہ ہو گی کہ حافظ صاحب مرحوم نے خدمت قرآنی کی خاطر اپنی جولانی طبع کے لئے جس میدان کا انتخاب کیا تھا ہو تھا رسم قرآنی اور علامات ضبط۔ حفاظت متن قرآنی کے اعتبار سے بلاشبہ یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل سے۔ لیکن یہ ایک ایسا میدان تخصص (Speacialised-field )ہے جس میں ہاتھ ڈالنے کے لئے بے پناہ فنی مہارت ہی نہیں وسعت مطالعہ اور وسعت نظر بھی درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کام خواص کا نہیں بلکہ اخص الخواص کے کرنے کا ہے۔ الحمد للہ کہ حا فظ صاحب اس کام کے لئے درکار تمام ضروری اوصاف اور فنی مہارت سے پورے طور پر متصف تھے۔ ان کے خصوصی زوق و شوق کی بدولت اس موضوع پر ان کے پاس کثیر علمی مواد جمع ہو گیا تھا جس میں اس موضوع پر ایسی نادر تصانیف بھی شامل تھیں کہ جن کے حصول کے بارے میں کوئی ہم جیسا عام شخص سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اس موضوع پر انہیں ایک اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا، اور اس پہلو سے عالم اسلام کے ان نامور سکالرز میں ان کا شمار ہوتا تھا جو انگلیوں پرگنے جا سکتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ گویا اس اعتبار سے وہ لاکھوں میں سے نہیں کروڑوں میں سے ایک تھے ان کی فنی مہارت کا یہ عالم تھا کہ رسم الخط کی اغلاط کی نشان دہی کرتے تھے جو مصر اور سعودی عرب کی حکومت نے بڑے ادعاء کے ساتھ اور باہتمام خاص شائع کئے تھے۔ چنانچہ اس سارے مواد اور علمی اثاثے کو سمیٹ کر اردو زبان میں کتابی صورت میں مرتب و مدون کرنا محال ہو گیا۔ علامات ضبط اور رسم قرآنی کے مو ضوع پر حافظ صاحب مرحوم کے متعدد علمی مقالات تو پاکستان کے چوٹی کے جرائد میں شائع ہوئے لیکن اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب مرتب کرنے کا خواب شرمندہ تکمیل نہ ہو سکا۔ اس خواب کے شرمندہ تکمیل نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اپنی عمر کے آخری حصے میں بعنی ۱۹۸۹ء سے انہوں نے “لغات و اعراب قرآن” کی تر تیب و تسوید کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کام کی ضرورت و اہمیت کا احساس انہیں قرآن اکیڈمی میں عربی زبان اور ترجمہ قرآن کی تدریس کے دوران ہوا۔ اس اہم کام کی جانب انہیں راغب کرنے میں راقم کی کو ششوں کو بھی دخل حا صل ہے۔ بہر کیف یہ اردو زبان میں اپنی نہج کا منفرد اور اچھوتا کام ہے کہ جس میں قرآن کے ہرہر لفظ کو جسے عربی میں کلمہ کہتے ہیں، چار اندار سے زیر بحث لایا گیا ہے۔ (۱) لغت (۲) اعراب (۳) رسم و الخط(۴) علامات ضبط۔ حافظ صاحب مرحوم کے تجربہ علمی اور وسعت مطالعہ کا یہ نتیجہ تھا کہ یہ کام غیر معمولی طور پر وسعت اختیار کر گیا۔ یہ کام ابھی ابتدائی مراحل میں تھا کہ اللہ کی طرف سے ان کا بالاوا آگیا اور ہو اپنی حیات میں اس کام کو سورۃ البقرۃ کے ۱۳ ویں رکوع سے آگے نہ بڑھا سکے، لیکن اس کام کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتاہے کہ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے ابتدائی ۱۳ رکوع کی لغوی اور اعرابی بحث پر مشتمل یہ عظیم کام ماہنامہ ” حکمت قرآن” میں ۹۳ اقساط میں مکمل ہوا۔ جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۱۲۰۰ بنتی ہے۔ میں یہاں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ لغات و اعراب قرآن کے نام سے جس عظیم علمی کام کا بیڑا حافظ صاحب مرحوم نے اٹھایا تھا اس کام کو آگے بڑھا کر منزل مقصود تک پہنچانے والا کوئی باہمت تا حال سامنے نہیں آسکا، حالانکہ حافظ صاحب مرحوم نے اس عظیم کام کے حوالے سے ۱۲۰۰ صفحات مرتب فرما کر گویا اس کے خطوط اور نشانات راہ کی نشان دہی و ضاحت کے ساتھ فرمادی تھی کہ اب اس کام کو انہی خطوط پر آگے بڑھانا اتنا دشوار نہیں رہا۔ لغات و اعراب قرآن کے اس نامکمل کام کو حا فظ صاحب مرحوم کے بعد اس والہانہ انداز میں آگے بڑھانے کے حوالے سے غالب کا یہ شعر بار بار میرے زہین میں گونجتا ہے کہ :

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

رسم قرآنی اور علامات ضبط کا ذکر چھڑا ہے تو قرآن حکیم کے حوالے سے حافظ صاحب کے ایک اور شوق کا ذکر بھی بے محل نہ ہو گا۔ حافظ صاحب مرحوم کو قرآن حکیم کے مختلف اور متنوع نسخے حاصل کرنے کا بھی جنون کی حد تاک شوق تھا ۔ قرآن مجید کا ہر ہو نسخہ جو کتابت، طباعت ے رسم کے اعتبار سے کسی امتیازی خصوصیت کا حامل ہو اسے ہر قیمت پر حا صل کرنا اور اپنی لائبریری اس اعتبار سے ایک قرآنک میوزیم قرار دی جا سکتی ہے کہ تاج کمپنی اور انجمن حمایت اسلام کے شائع شدہ قرآن حکیم کے خصو صی قدیمی ایڈیشنز سے لے کر سعودی عرب، مصر، مراکش اور افریقہ یورپ کے بے شمار ممالک کے شائع شدہ قرآن ان کی لائبریری کا حصہ ہیں۔ بعض کے رسم الخط ایسے عجیب و غریب اور ہمارے لئے اس درجے نامانوس ہیں کہ ان کو پڑھتے ہوئے دانتوں پسینہ آتا ہے۔ بعض قرآنی نسخے ایسے بھی ہیں کہ جن میں اختلاف قرا ء ت کا لحاظ کرتے ہوئے عام معروف روایت یعنی روایت حفص سے ہٹ کر کسی دوسری روایت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ چنانچہ دوری اور درش کی روایت کے مطابق کتا بت شدہ بعض نادر افریقی نسخے بھی ان کی لائبریری کی زینت ہیں۔

اسی طرح حافظ صاحب مرحوم کو عالم اسلام کے چوٹی کے قراء کی قراء ت کے ریکارڈ جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ قاری عبدالباسط شیخ محمود الحصری اور شیخ صدیقی منشاوی کے علاوہ بعض دیگر نسبتا غیر معروف مصری قراء کی تلاوت کے ریکارڈ بھی ان کی لائبریری میں شامل ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم کا شوق محض Collection تک ہی محدود نہ تھا، بلکہ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ تلاوت کے ان ریکارڈز کو سنتے اور خود بھی باقاعدہ تلاوت کا اہتمام کرتے تھے۔ ان کا یہ معمول تھا کہ ہو رمضان المبارک کے دوران بالخصوص اور روزانہ کی تلاوت میں بالعموم اس امر کا اہتمام کرتے کہ اپنی لائبریری میں موجود قرآن حکیم کے ہر نسخے کو باری باری اس ترتیب سے پڑھا جائے کہ قرآن کا کوئی بھی نسخہ ایسا نہ رہ جائے کہ جس سے انہوں نے تلاوت قرآنی میں استفادہ نہ کیا ہو۔ گویا ہو قرآن کے ہر نسخے کا یہ حق سمجھتے تھے کہ اس کی فردا فردا تلاوت کی جائے۔

میں حیران ہوں کہ حافظ صاحب مرحوم کے قرآن حکیم کے ساتھ والہانہ تعلق کے بیان کا حق بھی میں تا حال کسی درجے میں بھی ادا نہیں کر پایا اور مجھے تو ابھی ان کی شخصیت کے بہت سے ایسے پہلوئوں پر روشنی ڈالنی تھی جو بحیثیت انسان ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ وقت کی تنگی کے پیش نظر اس موضوع پر مزید تفصیلات کو آئندہ کسی نشست کے لئے ادھار رکھتے ہوئے میں صرف چند جملوں میں ان کی شخصیت کے ان نمایاں خدوخال کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا جس کی طرف اشارہ میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں اجمالاکیا تھا۔

حافظ صاحب مرحوم اگرچہ اپنے علم و فضل کے اعتبار سے پاکستان کے چوٹی کے چند افراد میں شمار کئے جانے کے لائق تھے لیکن وہ مزاجا شہرت اور نام و نمود سے دور بھاگنے والے انسان تھے۔ تکبر اور غرور کا کوئی شائبہ تک بھی ان کی شخصیت میں تلاش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ انتہائی سادہ مزاج کے حامل اور حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے۔ وہ ایک علم دوست انسان اور عالم با عمل تھے۔ قرآن سے تعلق کی بدولت انہیں اللہ کی ذات پر گہرا یقین حا صل تھا اور اسی پر وہ توکل اور بھروسہ کرتے تھے۔ علم و فضل میں ممتاز مقام حا صل کرنے کے باوجود ان کا رویہ آخری عمر تک طالب علمانہ رہا۔ اور یہی ان کی علمی ترقی اور عروج کا اصل راز تھا۔ وہ ایک انتہائی کود دار اور انتہائی وضع دار انسان تھے۔ جو نہایت خلیق، ملنسار اور مہمان نوازتو تھے ہی، ایک انتہائی شفیق باپ بھی تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کے ضمن میں آنحضورﷺ کا فرمان ان کے پیش نظر تھا کہ جس میں اس شخص کے لئے خصوصی بشارت کا ذکرہے کہ جو اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تر بیت پر خصوصی توجہ دے۔ان کے اوصاف حمیدہ میں سے ہر ایک کے بارے میں تفصیلات درج کرنے کیلئے میرا قلم مچل رہا ہے، لیکن میں سردست اسے روک کر علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں جو اس عا شق قرآن کی شخصیت کے اوصاف و محاسن کا نہایت عمدگی اور جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتا ہے کہ۔

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اللہ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے قرآن کے ساتھ والہانہ تعلق اور ان کی خدمت قرآنی کو شرف قبول عطا فرماتے ہوئے ان کی خطاوں کو معاف فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں اس طور سے جگہ عطا فرمائے کہ جنت میں ان کے درجات بلند سے بلند تر ہو تے چلے جائیں۔ اور ہمیں بھی اس جذبہ بے اختیار شوق کا کوئی حصہ عطا فرمادے جو مر حوم کی ہر ہر ادا سے جھلکتا نظر آتا ہے آمین یا رب العالمین۔