حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ یادوں کے آئینے میں

ڈاکٹر حافظ محمد طفیل

محترم حافظ احمد یار مرحوم سے میرے پہلی ملاقات اگست ۔ستمبر ۱۹۶۸ء میں ہوئی۔ جب راقم الحروف ایم۔ اے علوم اسلامیہ کے طالب علم کی حیثیت سے اس شعبہ سے وابستہ ہوا۔

حافظ احمد یارؒ میرے استاذ محترم تھے۔ مجھے ان سے قلبی لگائو تھا۔ ان کی شخصیت میرے لیے ایک ماڈل تھی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا۔ یہ سب امور نہ ایک نشست میں بیان کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ایک تحریر میں سموئے جا سکتے ہیں۔ اس لیے میں اپنی چند یادیں آپ سے share کرنے کو کوشش کروں گا۔

حافظ احمد یار قرآن حکیم کے حافظ تھے۔ وہ قدیم و جدید علوم میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین ، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں اور قوتوں سے مالا مال تھے۔ ان کی معلومات و سیع تھیں۔ انہیں جدید اسلامی مسائل کا شعور و ادراک تھا۔ اور ان مسائل کے حل کے لیے وہ اپنا مدلل اور قوی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ علمی امور میں ان کی گہری دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مالی وسائل کا خطیر حصہ کتابوں کی خریداری پر صرف کرتے تھے۔ اور ان کا ذاتی کتب خانہ اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔ مزید برآں وہ جب تک شعبہ علوم اسلامیہ سے وابستہ رہے ۔ اس عرصے میں ادارے کے کتب خانے کا انتظام و انصرام بھی ان کے ہاتھوں میں تھا۔ چنانچہ اس ادارے کے کتب خانے میں علمی کتب کا ذخیرہ جمع کرنے میں حافظ احمد یار نے کلیدی اور اہم کردار ادا کیا۔ کتب کا انتخاب اور خریداری ، ان کے فہرست سازی ، کتب کی درجہ بندی (Classification) انہی کی علمی و سعت اور انتظامی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہیں۔

حافظ صاحب نے تدریسی زندگی کا طویل ترین عرصہ جامعہ پنجاب کے شعبہ علوم اسلامیہ میں گزارا جہاں صحیح معنوں میں ان کے علمی جوھر کھلے اور اپنی علمیت ، تجربے اور اپنی شفقت سے خلق خدا کو فیض یاب اور متاثر کیا۔ اور ایک کامیاب اور ہر دل عزیز استاد کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔

حافظ قرآن ہونے اور قدیم و جدید تعلیم سے آراستہ ہونے کی بناء پر حافظ صاحب کا نہ صرف مطالعہ بہت وسیع تھا بلکہ جدید کتابوں کا مطالعہ ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اس وسیع اور ہمہ پہلو مطالعہ کی جھلک ان کی تدریس و تحقیق دونوں میں نمایاں رہی ۔ وہ جب بھی کسی موضوع پر روشنی ڈالتے تو اس کا حق ادا کرتے تھے۔

پروفیسر احمد یار مرحوم کا منہج تدریس بھی اپنا ہی تھا۔ وہ ہمیں علوم قرآن اور تفسیر کا پرچہ پڑھاتے تھے۔ ان دونوں غالباً سورۃ النساء ، سورۃ المائدہ ، سورۃ الانعام ، سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ داخل نصاب تھیں۔ یہ حقیقت علوم قرآن کے طلبہ سے مخفی نہیں کہ یہ سورتیں قرآن حکیم کی مشکل ترین سور میں سے ہیں۔ ان میں اسلام کی بنیادی تعلیمات ، معاشرتی احکام ، مسلم غیر مسلم تعلقات ، مسلمانوں کے باہمی تعلقات ، احکام جہاد ، منافقوں کی کجروی نیز اسلامی کیلنڈر وغیرہ کے احکام جیسے ادق موضوعات شامل ہیں۔ اور ان احکام کی تفاصیل و جزئیات کا ان سورتوں مین مفصل بیان ملتا ہے۔ بطور استاذ وہ نہ صرف ان تمام امور پر سیر حاصل علمی بحث کرتے تھے۔ بلکہ قرآنی آیات سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنے پر بھی وہ خصوصی توجہ دیتے اور طلبہ میں یہ صلاحیت اور ملکہ اجاگر کرتے تھے۔

تفسیر پڑھاتے وقت حافظ صاحب مرحوم علم کا بحر ذخار معلوم ہوتے تھے۔ وسعت مطالعہ تو ان کی طبعیت کا خاصہ تھا۔ لیکن ایم اے کی سطح پر تفسیر پڑھانے کے لیے وہ بہت زیادہ مطالعہ کرتے تھے۔ مسلک اہل سنت کے مفسرین کی قدیم و جدید تفاسیر کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہ معتزلہ ، جعفریہ، زیدیہ ، اباضیہ اور صوفیہ کی تفاسیر کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ قرآن حکیم کی ہر آیت اور ہر آیت کے ہر لفظ کا اعراب متعین کرنا، اختلاف قراء ات بیان کرنا، مشکل الفاظ کے متعدد معانی بتانا اور انہیں شواہد سے واضح کرنا، مسلمانوں کے مختلف مسالک کے افکار و نظریات کی حامل آیات کی متنوع تفسیری روایات بیان کرنا، جدید فکری رجحانات جیسے سوشلزم ، کمیونزم اور مارکسزم وغیرہ کی قرآنی آیات سے تردید کرنا ان کا روز مرہ کا معمول تھا اور یہی ان کے منہج تدریس کی کامیابی کا راز بھی تھا۔

اسی طرح سورۃ الانعام کی آیات نمبر ۱۵۱ اور ۱۵۲ کی تفسیر بیان کرتے وقت آپ نے تورات کے احکام عشرہ اور ان دونوں آیات میں مذکور احکام عشرہ تفصیل سے بیان کئے تورات کے احکام عشرہ اور ان دونوں آیات میں مذکور احکام کا باہمی موازنہ کیا اور اس امر کی وضاحت کی کہ موسوی شریعت کی نسبت محمدی شریعت میں احکام کی وسعت اور ہمہ گیریت زیادہ ہے۔ نیز شریعت محمدی کے احکام زیادہ قابل عمل اور پوری انسانیت کے لیے ابدی ہدایت کا سر چشمہ ہیں۔ وہ آیات کے صرفی اور نحوی پہلوئوں پر بھی آسان انداز میں وضاحت فرماتے۔

بطور استاذ ، ان میں بہت سی خوبیاں تھیں۔وہ وقت پر کلاس میں آتے۔پورا وقت تدریسی کام میں مشغول رہتے،نہ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرتے اور نہ ہی طلبہ کوغیر ضروری گفتگو کرنے کی اجازت دیتے تھے۔البتہ ان کے پیریڈ میں علمی سوال کرنے کی کھلی اجازت ہوتی تھی۔بلکہ بعض اوقات وہ پریڈ کے آخری حصہ میں اپنے طلبہ کو سوال کرنے کا موقع فراہم کیا کرتے تھے اور طلبہ کے علمی اور دینی نوعیت کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیا کرتے تھے۔

مقالہ نگاری کے سلسلے میں جو طلبہ اور طالبات ان کی زیر نگرانی کام کرتے رہے۔راقم الحروف کی رائے میںوہ انتہائی خوش نصیب رہے۔کیونکہ استاذ محترم ہر طالب علم کے علمی کام کو ہمیشہ اپنا ذاتی کام تصور کرتے تھے۔چنانچہ موضوع کا اختیار کرنا،اس کی حدود قیود متعین کرنا،مصادر ومآخذ کی تلاش۔خاکہ کی تیاری میں وہ ذاتی دلچسپی لیتے۔مواد کی فراہمی مقالہ کی ابواب بندی اور مسائل کے تجزیہ میں طلبہ کے وہ ہمیشہ معاون رہتے۔نیز مقالہ کے تحریری اور تکمیلی مراحل میں بھی طلبہ ان سے بھر پور استفادہ کرتے تھے۔اس طرح حافظ صاحب مرحوم کی نگرانی میں جو مقالات مکمل ہوئے۔نہ صرف ان کے موضوعات مفید اور روزمرہ کے انسانی مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔بلکہ ان کا تحقیقی معیار بھی بہت بلند ہے۔

پروفیسر احمد یار صاحب اپنے تدریسی فرائض انتہائی محنت،لگن اور خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے اور حتی الوسع وہ اپنا پیریڈ خالی نہیں چھوڑتے تھے۔اس لیے وہ عموما اپنے پرچے کا پورا کورس پڑھاتے اور پورے کورس سے ہی پرچہ سوالات مرتب کیا کرتے تھے۔وہ منتخب حصوں کی تدریس یا کورس کے منتخب حصوں کے مطالعہ کے قائل نہیں تھے۔اس لیے طلبہ کو ان کے پرچہ میں زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔

ان کے پرچہ میں امتیازی نمبر حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہواکرتا تھا۔حافظ صاحب مرحوم کی زندگی علمی مشاغل سے عبارت رہی۔وہ تعلیم و تعلم،تربیت اولاد،مطالعہ کتب اور تحقیقی و تصنیفی کاموں میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے تھے۔

کلاس سے فارغ ہو کر وہ کتب خانہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔چنانچہ جب تک شعبہ علوم اسلامیہ، علامہ اقبال کیمپس میں قائم رہا،ان کی مسند کتب خانہ کی اندر ہوتی تھی۔ان سے وہیں ملاقات کی جاسکتی تھی۔چنانچہ جب بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا انہیں کتب خانہ میں مصروف مطالعہ پایا۔

اگرچہ حافظ صاحب مرحوم تمام علوم و فنون کا مطالعہ رغبت اور توجہ سے کرتے تھے لیکن قرآنِ حکیم، سیرت رسول ؐ اور تقابل ادیان سے ان کی دلچسپی اور وابستگی مستقل بنیادوں پر قائم رہی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی علمی کاوشوں،تصنیف و تالیف اور ذاتی کتب جمع کرنے کا محور یہی چار موضوعات رہے۔

سیرت طیبہ کے موضوع سے انہیں دلی لگائو تھا۔چنانچہ مطالعہ سیرت طیبہ کے فروغ اور اس مضمون کو جامعہ کی سطح پر مقبول بنانے کے لیے وہ ہر طرح سے کوشاں رہے۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں کتب سیرت کی نمائش کا اہتمام کیا۔ غالباً پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی نمائش تھی۔

حافظ صاحب مرحوم نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سیرت طیبہ کے ایک اہم ، وقیع اور دقیق کام کی طرف خصوصی توجہ دی اور اس کام پر اپنا قیمتی وقت ، علمی وسعت ، تجربہ اور کچھ سرمایہ بھی صرف کیا۔ میری مراد معجم معالم الجغرافیہ ، والتار یخیۃ فی السیرۃ النبویۃ پر تحقیقی مقالہ ہے جو ان کی صاحبزادی نضرۃ النعیم نے شعبہ عربی میں پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے پیش کیا۔

یہ ایک تاثراتی تحریر ہے۔ جسے مرتب کرتے اور صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے وقت راقم الحروف نے اپنی یادداشت پر ہی بھروسہ کیا ہے۔ نیز یہ تحریر ایک ادنیٰ شاگرد کا اپنے عظیم مرحوم استاد کی خدمت اقدس میں حقیر سا نذرانہ عقیدت اور معمولی سا ہدیہ احترم ہے۔