علم قرء ات اور علم تفسیر کاباہمی تعلق

ڈاکٹر حافظ رشیداحمدتھانوی *

قراء ات کالغوی معنی

قراء ات جمع ہے قراء ۃ کی اور قراء ۃ مصدر ہے ( قرأ یقرأ قراء ۃ وقرآناً ) سے اوراس کا لغوی معنی ہے: جمع کرنا ۔ لسان العرب میں ہے : قرأ تُ الشیء قرآناً جمعتُـہٗ وضمّمتُ بعضَہٗ اِلیٰ بعض میں نے شے کو جمع کردیا اور اس کے حصوں کوملادیا۔

نیزاس لفظ کی اصل کے بارے میں ہے: والأصل فی ھذہ اللفظۃ الجمع ۔ (۱) اس لفظ کی اصل میں جمع کا معنی پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح قراء ۃ کو تلاوۃ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: قرأتُ الکتاب یعنی تلوتُ الکتاب ۔(المعجم الوسیط ، مادۃ قرأ)
میں نے کتاب پڑھی۔

لسان العرب میں ہے : ومعنی قرأ تُ القرآن :لفظتُ بہ مجموعا ۔ (۲) نے قرآن کامکمل تلفظ کیا میں

علم قراء ا ت کی اصطلاحی تعریف

علم قراء ات کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں ۔
محقق ابن الجزری ؒ (م۸۳۳ھ)نے علم قرا ء ات کی مندرجہ ذیل تعریف کی ہے :

علم بکیفیۃ أدا ء کلمات القرآن واختلافھا بعز وِالنّا قلۃ ۔ (۳)

ناقلین کی طرف نسبت کے ساتھ قرآن کے کلمات کی ادائیگی اور اس میں اختلاف کا علم ۔

اس تعریف میں قراء ا ت کی تمام اقسام متواتر ومشہور ‘آحاد ‘شاذ وغیرہ سب داخل ہو جاتی ہیں۔ نیزاسی مذکورہ تعریف کو زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح بھی بیان کی گیا ہے :

ھو علم یعرف بہ کیفیۃ النطق بالکلمات القرآنیۃوطریق ادائھا اتفاقا واختلافاً مع عزوِ کل وجہ لنا قلہٖ ۔(۴)

علم قراء ت ایسا علم ہے جس سے قرآنی کلمات کو بولنے کی کیفیت، ان کو ادا ء کرنے کا متفقہ اور مختلف فیہ طریقہ ہر ناقل کی وجہ (قراء ت ) کی نسبت کے ساتھ معلوم ہو جاتا ہے ۔

علم قراء ات کا موضوع

علم قراء ت کا موضوع قرآن کے کلمات ہیں اس علم میں ان کلمات کے نطق کے احوال اور اداء کی کیفیت سے بحث کی جاتی ہے ۔(۵)

قراء توں کا ماخذ ومصدر

قرآن حکیم کے کلمات میں جو مختلف قراء ا ت پائی جاتی ہیں ان کے سلسلہ میں یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ یہ قراء تیںآپ ﷺ کے زمانہ سے منقول ہیں اور متواتر اسناد سے ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن اس بارے میں اختلاف ملتا ہے کہ ان قراء ات کا مأخذ ومصدر کیا ہے۔

جمہورعلماء کامذہب

جمہور علماء امت کا مذہب یہ ہے کہ قرآن حکیم کی تمام قراء توں کاماخذومصدر صرف اور صرف وحی ربانی ہے ۔ اجتہاد، اختیار ،اختلاف لغات ، یا کتابت مصاحف کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں : کذ لک أ نزلت۔( ۶(

اسی طرح حضرت زید بن ثابتؓ(م۴۵ھ) سے مروی ہے:
القراء ۃ سنۃ یأخذھا الآخر عن الأول فاقرء و ا کما عُلِّمتُمُوہُ ۔(۷)
قراء ت ایک ایسی سنت ہے جس کو ہردوسرا پہلے سے حاصل کرتاہے،لہذا اسی طرح پڑھو جیسے تمھیں سکھایاگیاہے۔

دوسرامذہب

بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ قرا ء ات کا ماخذ ومصدر وحی ربانی نہیں ہے۔ پھر اس میں چند اقوال اور آراء ہیں : ۱۔ قراء کااجتہادوقیاس

ایک خیال یہ ہے کہ قراء ت کا ماخذ دراصل قراء کا اجتہاد اورقیاس ہے ۔یعنی قراء نے اپنے اجتہاد اورنحوی وصرفی قواعد کی بناپرقرآن کی قراء توںکواختیارکیاہے۔ ان قراء توںکاوحی سے کوئی تعلق نہیںہے۔اس قول کااولین قائل ابن مقسم نحوی (م ۳۵۴ھ)کوقراردیاجاتا ہے ۔کیونکہ ان کا کہنا تھا : کل قرا ء ۃ وافقت المصحف ووجھا فی العربیۃ فالقراء ۃ بھا جائز وإن لم یکن لھا سند۔(۸)

ہر وہ قراء ت جومصحف ،اورعربی وجہ کے مطابق ہواس کوپڑھنا جائز ہے،اگرچہ اس کی کوئی سندنہ ہو۔

لیکن یہ بھی درست ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا ۔(۹)

۲۔ مصاحف عثمانیہ کانقاط واعراب سے خالی ہونا

اس سلسلہ میں بعض مستشرقین کو یہ بھی مغالطہ ہوا ہے کہ قراء ا ت کا اختلاف قرآن میں اس وجہ سے جگہ پا گیا کہ مصاحف عثمانیہ حرکات ، اعراب، نقاط وغیرہ سے خالی تھے لہذا ہرشخص کے لئے ازخودنحوی وصرفی قواعدکی روشنی میں کلمات قرآنیہ کااعراب اورتلفظ متعین کرنے کا دروازہ کھل گیا،اوراس کے نتیجہ میں مختلف قراء تیں وجودمیں آگئیں۔(۱۰)

۳۔ قبائل عرب کی مختلف لغات ولہجات

یہ رائے عصر حاضر کے ایک عالم دکتورطہ حسین مصری کی ہے ۔ان کی رائے یہ ہے کہ قراء ا ت کا ماخذومصدر عربوں کے مختلف لہجات اور لغات ہیں ۔
اور وحی کا قراء ا ت میں کوئی دخل نہیں ہے ،اورنہ ہی ان کا منکر کافر ہے ۔(۱۱)

مذکورہ اقوال کاجائزہ

ان تینوں آراء میں سے پہلی یعنی قراء ا ت کا ماخذ ومصدر قراء کا اجتہاد ہے، اس قول سے یہ نظریہ توبن سکتاہے کہ وہ قراء تیں جو معروف قراء عشرہ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ ان کا اجتہا د ہیں ۔لیکن وہ قراء تیں جوصحابہ کی طرف منسوب ہیں ان کا کیا ہوگا۔کیا صحابہ نے قراء توں میں اجتہاد سے کام لیا تھا…؟ پھر وہ قراء تیں جو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہیں ان کا کیا ہوگا…؟ اور دوسری رائے یہ کہ مصاحف نقاط او ر اعراب سے خالی تھے،یہ بھی ناقابل اعتبار ہے۔ اس لئے کہ اس پرنہ تو کوئی نقلی یاعقلی دلیل ہے اور نہ ہی یہ واقع کے موافق ہیں ۔کیونکہ قراء تیں پہلے سے موجودہیں ۔مصاحف توبعد میں لکھے گئے تھے۔

لغات ولہجات کے ماخذہونے کانظریہ

دکتور طہ حسین کی رائے یعنی قراء ت کا ماخذومصدر لہجات ولغات عرب ہیں، اس رائے میں صرف اتنا وزن ہے کہ قرآنی قرا ء ات اور عربوں کے لہجات اورلغات کے اختلاف میں توافق پایا جاتا ہے ۔اور ظاہر ہے کہ یہ توافق ایک امر معقول ہے اس لئے کہ قرآن نازل عربی زبان ہی میں ہوا ہے ۔ [اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ}(یوسف:۲) ہم نے اس قرآن کوعربی میں نازل کیاہے تاکہ تم سمجھو۔

اس سے بظاہریہ ہی سمجھ میں آتاہے کہ آپ ﷺ کیونکہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں لہذا قرآن اصل میں قریش کی لغت پر نازل ہواہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ} ( ابراہیم :۴ ) اورہم نے ہررسول اس کی قوم کی زبان والا ہی بھیجاہے تاکہ وہ ان کے سامنے بیان کرے۔

اس نظریہ کی دوسری وجہ غالباًیہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک أحرف سبعہ سے سات مشہورقبائل کی لغات مرادہیں۔ لہذا قراء توں کے باقی اختلافات دوسرے قبائل کی لغات کی وجہ سے ہوئے۔

عربوں کی مختلف لغات کاجائزہ

عربوں کے یہ مختلف قبائل جزیرۃالعرب کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے،اور ان کی عمومی زبان ایک ہونے کے باوجود بولیوںکاکافی اختلاف پایاجاتاتھا،اس صورت حال کاپس منظر یہ ہے کہ عرب والے ایک امی قوم تھے،جنہیں دین ،تجارت یاحکومت میں سے کوئی چیزبھی باہمی ارتباط اورمیل جول پرمائل نہ کرتی تھی۔چنانچہ وہ ایک ہی چیز کے لئے اپنی اپنی جگہ پرالگ الگ نام بنالیتے تھے۔اسی طرح خانہ بدوش زندگی گذارنے،جداگانہ زندگی بسر کرنے یادوسروںمیں گھل مل جانے کی وجہ سے ان کی زبان میں اضطراب اورخلل واقع ہوگئے تھے ،اور یگانگت باقی نہ رہی تھی ۔(۱۲) اس کے نتیجہ میںمترادف الفاظ بکثرت پائے جانے لگے،یاپھر ایک ہی لفظ کے مختلف استعمالات وجود میں آگئے۔اسی طرح ایک لفظ کواداء کرنے یابولنے کے مختلف اندازپروان چڑھنے لگے۔

اختلاف لغات ولہجات کے لسانی اسباب

عربی زبان میںمتعدد ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کااختلاف لغات اورلہجات پر گہرا اثر ہے، ان میں سے چندملاحظہ ہوں:

۱۔ بعض حروف کے عامل یاغیرعامل ہونے کااختلاف

۲۔ منصرف وغیرمنصرف کے اسباب میں اختلاف

۳۔ تعلیل اورتخفیف ہمزہ کے قواعدمیں اختلاف

۴۔ مثلین کو ادغام یااظہار کرکے پڑھنے کااختلاف

۵۔ ضرورت شعری کی بناپرکلمہ میں تصرف وغیرہ کرنا

لہذامعرب و مبنی اور تعلیل وغیرہ کے قواعد کی وجہ سے لہجوںکااختلاف مزیدبڑھتاگیا۔اسی طرح کچھ اختلاف حروف کی ادائیگی کی خامیوںاورکمزوریوں نے بھی پیداکیاتھا۔چندمثالیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ قبیلہ قضاعہ حرف ی‘کو ج سے بدل کربولتے تھے مثلا  رَاعِیْ کی جگہ رَاعِج بولتے تھے۔ اوراس کانامعجعجہ رکھاجاتاتھا۔ (۱۳( دراصل ج اور ی کامخرج قریب ہے اس لئے یا کے سکون کی حالت میں یا کے ثقل کی وجہ سے اس کو ج سے بدلاجاتاہوگا۔

۲۔ قبیلہ حمیر والے اَل  کی جگہ اَم  بولتے تھے مثلا الصیام کو امصیام بولتے تھے۔ اس کانام طمطمانیہ ہے۔

۳۔ قبیلہ ہذیل ح کی جگہ ع بولتے تھے ۔مثلا حَتّٰی کو عَتّٰی بولتے تھے ۔ اس کانام فحفحہ ہے۔

۴۔ بنو تمیم ہمزہ کو عین سے بدلتے تھے،مثلا أنَّ کو عَنَّ کہتے تھے۔(۱۴( ۵۔ بنو تمیم کی لغت میں مضاعف صیغوں میں ادغام کی لغت رائج تھی۔ چنانچہ وہ شُدَّ، فِرَّ، اِسْتَعِدَّ ، اِطْمَئِنَّ بولتے تھے۔ جبکہ ان کلمات کو اہل حجاز بغیرادغام کے اُشْدُدْ ، اِفْرِرْ ، اِسْتَعْدِدْ، اِطْمَاْنِنْ
بولتے تھے۔ (۱۵)

اسی طرح باب افتعال میں تاء اور طاء کے جمع ہونے کی صورت میں بنوتمیم تاء کوحذف کرتے تھے، جبکہ اہل حجاز حذف نہیں کرتے تھے۔ {مَا لَم تَسْطِعْ عّلیہِ صَبرا} (الکھف : ۸۲ ( مَا لَم تَسْتطِعْ عّلیہِ صَبرًا} (الکھف:۷۸) اسی طرح: {فَمَااسْطَاعُوْا أنْ یَّظْھَرُوْ ہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَـقْبًا} (الکہف : ۹۷) پہلی قراء ت (بحذف تاء)بنو تمیم کی لغت پر ہے،ا ور دوسری اہل حجاز کی لغت کے مطابق ہے۔

۶ ۔ امالہ یعنی الف کو یا کی طرف جھکاکرپڑھناعام اہل نجدکی لغت ہے ۔

۷۔ ہمزہ ساکنہ کی تحقیق بنوتمیم کی لغت ہے۔ ۸۔ اِیْتَسَرَ ،اِیْتَحَدَ،اوراِتَّسَرَ،اِتَّحَدَ ۔ ان دونوں کلمات میں پہلی لغت اہل حجازکی ہے اور دوسری لغت بنو تمیم کی ہے۔ (۱۶( ۹۔ ماھٰذابَشَرًا میں بَشَرًا پر نصب اہل حجازکی لغت ہے ،جبکہ بنوتمیم اس کو مرفوع پڑھتے ہیں۔(۱۷

اس طرح کے اختلافات عربی زبان میں عام پائے جاتے تھے ،اور اب بھی موجودہیں۔

اسی طرح یائے متکلم میں تین وجوہ جائزہیں:

۱۔ سکون

رَبِّ اشْرَحْ لِـیْ صَدْرِیْ}(طہ:۲۵)}

دونوں یاء ساکن ہیں۔

۲۔فتحہ

 لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِـیَ دِیْنِ} (الکفرون:۶}

وَلِـیَ میںی پر زبرہے۔

۳۔حذف

 لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِـیَ دِیْنِ } (الکفرون:۶ )} دِیْنِیْ میں سے ی کو حذف کیاگیاہے۔

لہذا امورنے زبان کی مختلف بولیوں کواس حدتک ایک دوسرے سے جداکردیاتھاکہ ایک ہی زبان بہت سی زبانوں میں منقسم ہوکرایک دوسرے کیلئے ناقابل فہم ہورہی تھیں،اورایسامعلوم ہورہاتھا کہ ان کی اصل بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔لیکن ان تمام لہجات اور لغات کے باوجود عربی زبان ایک ہی ہے۔ کیونکہ اس میں مفردات اور اسالیب ترکیب کا ایک بڑا حصہ قدر مشترک ہے ۔

راجح مذہب: قراء ات کاماخذوحی ہے

ان مختلف لغات ولہجات کاموازنہ قرآن مجید کے متن سے کیاجائے تو یہ بات توواضح ہوجاتی ہے کہ قراء توںکے اختلاف میںتمام قسم کی لغات موجودنہیںہیں۔ بلکہ قرا ء ات تو صرف وہی معتبر ہیں جو رسول ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہوں یا دوسرے درجہ میں ان کی کوئی سند ( خواہ آحاد ہی ہو) موجود ہو ۔جس قراء ت کی سند کوئی نہ ہو تو وہ بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ عربی لغات ولہجات میں اس کی گنجائش موجود ہو۔الغرض قراء ت کا ماخذ ومصدر تو وحی ربانی ہی ہے ۔ لیکن ان اختلافات میں اسی قسم کے اختلافات ملتے ہیں جو کہ عربوں کی لغات ولہجات میں موجود تھے ۔لیکن اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں نکلتاکہ قراء ا ت کا مصدر وماخذ لہجات اورلغات ہیں ۔گویا ظاہری طورپرمحض توافق کی صورت ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔

نبی ﷺ کی طرف منسوب قراء تیں

علم حدیث کی مختلف کتب میں متعددقراء تیں ایسی ملتی ہیں جن میں راوی نے ان کی نسبت نبی کریم ﷺکی طرف کی ہے۔مثلا: جامع ترمذی میں ایک مسقل باب کاعنون یہ ہے: القراء ات عن رسول اللّٰہﷺ ۔(۱۸)}

مختلف روایات اور احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان قراء ات کو پڑھا ہے اور صحابہ کرام ؓ کو تعلیم فرمایا ہے۔ جیساکہ حضرت عمر بن خطابؓ اور حضرت ھشام بن حکیمؓ کے واقعہ میں یہ بات صراحۃًمذکور ہے کہ حضرت عمرؓ نے آپ ﷺ کے سامنے یہ شکایت پیش کی کہ ھشام بن حکیم ؓ اس قراء ت کے بر خلاف پڑھتے ہیں جو آپ ﷺ نے مجھے سکھائی ہے:

إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَی حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا
لیکن آپ ﷺ نے دونوں سے سننے کے بعد فرمایا : کذلک أنزلت
۔یعنی اسی طرح نازل ہوئی۔ اس حدیث کے الفاظ میں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت عمرؓ نے تعلیم قراء ات کا ذکر کیا ہے، عمومی طور پر تعلیم قرآن کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ پوری عبارت میں مونث کے صیغے اسی لئے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ بالکل واضح ہیں: فقرأ ت القراء ۃ التی أقرأنی۔(۱۹)
میں نے وہ قراء ت پڑھی جو مجھے آپ ﷺنے پڑھائی تھی۔

مذکورہ واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے قرآن مجیدکی مختلف قراء توں کو نہ صرف خود پڑھا ہے بلکہ صحابہ کرام کو بھی مختلف قراء توں کے ساتھ تعلیم دی ہے۔چنانچہ سنن ترمذی میں ابواب القراء ات عن رسول اﷲ ﷺ کے عنوان کے تحت مختلف کلماتِ قرآنیہ کی قراء تیں ذکر کی گئی ہیں۔ مثلاً : ۱۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّی اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَائَتَهُ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ يَقِفُ وَکَانَ يَقْرَؤُهَا مَلِکِ يَوْمِ الدِّينِ [الفاتحۃ:۱۔۳]۔(۲۰(

حضرت ام سلمہؓ (م۵۹ ھ )سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ قراء ت ٹھہر ٹھہر کر کیا کرتے تھے،
{الحمدﷲ رب العلمین}
پڑھتے پھر ٹھہر جاتے ،
،{ الرحمن ا لرحیم}
پڑھتے پھر ٹھہر جاتے اور
{ملک یوم الدین}
پڑھتے تھے (محشّی لکھتے ہیں یعنی ملک بر وزن کتف) ۔

۲۔ حضرت سعید بن المسیب ؓ(م ۹۴ھ)سے روایت ہے
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانُوا يَقْرَئُونَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ: [الفاتحۃ:۳ ] (۲۱)

رسول اﷲﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر مالک یوم الدین پڑھا کرتے تھے۔

۳۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ وَکَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنُ بِالْعَيْنِ۔[المائدۃ:۴۵] (۲۲

حضرت انس بن مالکؓ(م ۹۳ھ) سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے
أنّ النّفسَ بالنّفسِ والعینُ بالعَین
پڑھا۔ (محشی لکھتے ہیں والعین بالرفع)

۴۔ عن ام سلمۃ أن النبی ﷺ کان یُقرِئُھا اِنّہ عَمِلَ غیرَ صَالحٍ [ھود:۴۶]۔(۲۳)

حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ ان کو اِنّہ عَمِلَ غیرَ صَالح پڑھایاکرتے تھے ۔)محشی لکھتے ہیں انہ عمل غیرصالح ای بلفظ الماضی( ۵۔ عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَی عَائِشَةَ قَالَ أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا أَنْ أَکْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا فَقَالَتْ إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلّهِ قَانِتِينَ (البقرۃ : ۲۳۸)وَقَالَتْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حضرت ابویونس ؓ مولیٰ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان کے لیے ایک مصحف لکھیں اورفرمایا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو تومجھے بتاؤ (اس آیت میں زائدالفاظ کے ساتھ جو قراء ت ہے) ابو یونس کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے اس کو رسول اﷲ ﷺ سے سنا ہے۔ (۲۴) ۶۔ عن أبی بن کعبؓ عن النبی ﷺ انہ قرأ قد بلغتَ مِن لّدُنّی عُذرًا[مثقلۃ](الکھف:۷۶) ۔(۲۵(

حضرت ابی بن کعبؓ (م ۱۹ھ)سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے کلمہ لَدُنّیْ مثقل پڑھا۔

دراصل اس کلمہ میں تین متواتر قراء تیں ہیں:

۱۔ مِن لّدُنِیْ

۲۔ مِن لَّدْنِیْ

۳۔ مِن لَّدُنِّیْ ۔(۲۶)

۷۔ عن جابر بن عبداﷲ الأنصاری أن النّبیﷺ قرأ وَاتّخِذُوا۔(البقرۃ:۱۲۵) علی الأمر ۔ (۲۷)

حضرت جابربن عبداللہ ؓ (م ۷۸ھ)سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وَاتَّخِذُوْا امرکے صیغہ سے پڑھا۔

مشہور محدث امام ابودا وٗد (م ۲۷۵ھ)نے اپنی کتاب سنن میں کتاب الحروف والقراء ات کے عنوان سے ایک مستقل باب ذکر کیا ہے جس میں مختلف اسناد سے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب چند قراء تیں بھی ذکر کی ہیں ۔

۸۔ عن عائشۃ قالت: سمعتُ رسول اللّٰہ ﷺ یقرأھا {فَرُوحٌ وَّرَیْحَان} (الواقعہ:۸۹)۔ (۲۸)

حضرت عائشہؓ (م ۵۷ھ) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺکو سنا ، فَرُوْحٌ وَّرَیْحَانٌ پڑھا۔ یعنی فَرَوْحٌ کوراء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا۔یہ امام رویس کی روایت ہے ، دوسری متواتر قرائت فَرَوحٌ ہے۔ (۲۹)

۹۔ حضرت ابی ابن کعبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے { قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْتَفْرَحُوا [بالتاء] }(یونس:۵۸)۔(۳۰)

اس آیت میں کلمہ فلیفرحوا کو تاء کے ساتھ صیغہ مخاطب کے طورپرپڑھا۔

۱۰۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: أنزل الوحی علی رسول اللّٰہ ﷺ فقرأ علینا: سورۃٌاَنزَلنٰھاوفَرَضْنٰھا۔(النور:۱) قال ابوداوٗد یعنی مخفّفۃ۔ (۳۱)دراصل اس کلمہ میں دوسری متواتر قراء ت وَفَرَّضْنٰھا تشدیدکے ساتھ بھی ہے۔(۳۲)

صحابہؓ کی طرف منسوب قراء تیں

۱۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ(م۶۸ھ) {وعَلَی الَّذین یُطِیقُونہٗ فِدیۃٌطعامُ مِسکِین} (البقرۃ:۱۸۴) اس آیت کوبصیغہ مجہول ازباب تفعیل وعَلَی الَّذینَ یُطَوَّقُوْنَہٗ فِدیۃٌطعامُ مِسکِین پڑھاکرتے تھے ،اور یہ فرماتے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔(۳۳)

یہ قراء ت شاذ ہے کیونکہ یہ رسم عثمانی کے موافق نہیں ہے۔قراء عشرہ اس کو {یُطِیقُونہٗ} پڑھتے ہیں۔(۳۴) ۲۔ حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوْا ( یوسف :۱۱۰) اس آیت میں حضرت عائشہ ؓ صیغہ مجہول ازباب تفعیل قدکُذِّبُوْا پڑھاکرتی تھیں۔(۳۵)

یہ قراء ت متواتر ہے،امام نافع ،ابن کثیر،ابوعمرو،ابن عامر،یعقوب یہ سب قراء اس کو مشدد پڑھتے ہیں۔(۳۶)

۳ اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا ڰ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ }(النور:۱۵}

اس آیت میں حضرت عائشہ اِذْتَلِقُوْنَہٗ  پڑھاکرتی تھیں،اورفرماتی تھیں: الولق الکذب۔(۳۷) یہ قراء ت بھی شاذہے،اس کلمہ میں متواترقراء ت صرف ایک ہی ہے ،البتہ نو(۹) شاذ قراء ات بیان کی گئی ہیں ۔(۳۸)

۴۔ حضرت عمربن خطاب ؓ(م۲۳ھ)،اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ(م۳۲ھ)نے } اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ} (الجمعۃ:۹( فاسعوا کی جگہ فامضوا پڑھاہے۔(۳۹) یہ قراء ت بھی شاذہے کیونکہ یہ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی میں بھی لکھی ہوئی نہیں ہے۔

۵۔ وعن أبي بن كعب قال : كنت في المسجد فدخل رجل يصلي فقرأ قراءة أنكرتها عليه ثم دخل آخر فقرأ قراءة سوى قراءة صاحبه فلما قضينا الصلاة دخلنا جميعا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت إن هذا قرأ قراءة أنكرتها عليه ودخل آخر فقرأ سوى قراءة صاحبه فأمرهما النبي صلى الله عليه و سلم فقرآ فحسن شأنهما (۴۰)

حضرت ابی بن کعبؓ (م۱۹ھ)سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میںمسجد میں تھا تو ایک آدمی آکر نماز پڑھنے لگا پھر اس نے ایسی قراء ۃ پڑھی جو مجھے اجنبی لگی ،پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے اپنے ساتھی کے برخلاف دوسری قراء ت پڑھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اﷲﷺ کے پاس آئے۔ میں نے عرض کیا کہ اس آدمی نے ایسی قراء ت پڑھی ہے جس کو میں نہیں پہچانتا، اور دوسرے نے آکر اس کے علاوہ ایک اور قراء ت پڑھی ہے۔ تو آپﷺ نے دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا، ان دونوں نے اپنی اپنی قراء ت پڑھی آپﷺ نے ان دونوں کی تحسین فرمائی۔

اس حدیث پر غورکرنے سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :

۱۔ حضرت ابی بن کعب ؓ کو نبی کریمﷺ نے ایک قراء ت سکھائی تھی اور ان دو صحابیوں کو جن کا واقعہ میں نا م مذکور نہیں ہے۔ آپﷺ نے دوسری قراء تیں سکھائی تھیں اور یہ تینوں حضرات اپنی اپنی سیکھی ہوئی قراء توں کے مطابق پڑھتے تھے۔

۱۔ حضرت ابی بن کعب ؓ کو نبی کریمﷺ نے ایک قراء ت سکھائی تھی اور ان دو صحابیوں کو جن کا واقعہ میں نا م مذکور نہیں ہے۔ آپﷺ نے دوسری قراء تیں سکھائی تھیں اور یہ تینوں حضرات اپنی اپنی سیکھی ہوئی قراء توں کے مطابق پڑھتے تھے۔

۲۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دو صحابیوں نے قرآن مجید کے ایک ہی حصہ کو مختلف قراء توں سے پڑھا تھا ۔

جبکہ حضرت ابی بن کعب کی قراء ت ان دونوں سے بھی مختلف تھی، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً یہ کوئی ایک ہی قرآنی کلمہ ہوگا جس میں تین مختلف قراء توں کو پڑھنے والے حضرات یکجا ہوگئے۔ اور ان میں اختلاف کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ لیکن آپﷺ نے ان دونوں حضرات کی تو صراحۃً تحسین فرمائی اور حضرت ابی بن کعبؓ کو اپنی قراء ت سے رجوع کرنے کا حکم نہیں فرمایا۔ گویا کہ تینوں حضرات کی قراء تیں منزل من اﷲ تھیں۔ اور آپ ﷺ نے ان کو اسی طرح تعلیم فرمایا تھا۔

۳۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے ہر شخص اپنی سیکھی ہوئی قراء ت کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی محتاط تھا ۔ چنانچہ یہ قراء تیں اسی طرح ان حضرات کے شاگردوں تک منتقل ہوئیں۔ اور یہ حفاظت قراء ات ان حضرات کے لیے کچھ مشکل نہیں تھی۔ جیساکہ آج کے دور میں بھی کسی ناسمجھ بچے کو قرآن کا کوئی حصہ ایک قراء ت کے مطابق یاد کروا دیا جائے ،تو وہ اس کو اسی طرح اپنے سینے میں محفوظ کرلیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے اس کی سیکھی ہوئی قراء ت کے بر خلاف پڑھتا ہے تو وہ ناسمجھ بچہ بھی فوراً اس کو ٹوک دیتا ہے۔ یہ حضرات تو قرون اولی کے بہترین محافظِ دین میں سے تھے ، لہذا ان حضرات نے جو چیز جس طرح سیکھی تھی اسی طرح آگے نقل کردی ۔

۴۔ گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قراء ات کی تعلیم قرآن مجید کی تعلیم کا جزء لاینفک تھی۔ یعنی قرآن پاک کی تعلیم ہی در اصل قراء ات کی تعلیم کا اصل ذریعہ تھی ۔ کیونکہ قرآن اور قراء ات کو علمی ونظری اعتبارسے تودو الگ الگ حقیقتی تصورکیاجاسکتا ہے ۔

لیکن ان کوعملا جداکرناممکن نہیں؛کیونکہ قرآن کوقراء ات کے علم کے بغیر پڑھا جانا ہی ممکن نہیں ہے۔

چنانچہ آج کے زمانہ میں بھی عوام الناس جو مطبوعہ قرآن پاک دیکھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ در اصل بالواسطہ طور پر قرآن کی ایک قراء ت کا علم حاصل کرکے قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا کہ ان کو ان کے استاد نے قرآن مجید کے نسخے پر زبر زیر اور نقطے لگا کر ایک قراء ت کے مطابق قرآن پاک پڑہنے کے قابل بنادیا ہے۔

قراء ات کی اقسام باعتبار اختلاف واتفاق

قراء ت اور تلفظ کے اعتبار سے قراٰنی کلمات کی اولاً دوقسمیں ہیں:

۱۔ متفق علیہ

وہ کلمات جن کے تلفظ اور ادائیگی کے طریقہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یعنی تمام ناقلین قرآن ان کلمات کو ایک ہی طرح پڑھ کر نقل کررہے ہیں،گویاکہ ایسے کلمات کی صرف ایک ہی قراء ت متعین ہے۔قرآن حکیم کے اکثر کلمات اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔

۲۔ مختلف فیہ

ایسے کلمات جن کے تلفظ یاادائیگی کے طریقہ میں قراء /ناقلینِ قرآن کااختلاف ہے۔ گویاکہ ایسے کلمات کو پڑھنے کے مختلف طریقے یاقراء تیں ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے کلمات کی تعداد متفق علیہ کلمات کے مقابلہ میں کم ہے۔

قراء ات کی اقسام باعتبارقبولیت

قراء ات کی، قبولیت یاعدم قبولیت کے اعتبار سے، دو قسمیں ہیں :

۱۔ قراء ات مقبولہ

اس سے مراد ہروہ قراء ت ہے ،جس کی سند ٹھیک ہو،مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے موافق ہو،عربی قواعد نحو سے مطابقت رکھتی ہو۔اس قسم میں عمومی طورپر متواتر اورمشہور قراء ات داخل ہوتی ہیں،خواہ وہ قراء ات عشرہ میں سے ہوں یا دس قراء کی قراء توں کے علاوہ ہوں۔اسی طرح وہ قراء ات جن کی سندآحاد ی ہوان کوخبرواحد کی حیثیت میں تفسیری معانی کے طورپر قبول کیاجاتاہے۔مثلا حدیث کی کتب صحاح میں جوقراء تیں مختلف صحابہ کرام کی طرف منسوب ہیں،وہ اگر مصاحف عثمانیہ کے مطابق ہوں تووہ اکثروبیشتر قراء عشرہ میں سے کسی نہ کسی کی قراء ت ضرورہوتی ہے۔کیونکہ قراء عشرہ کی سندیں بھی انہی صحابہ کرام ؓ سے جاکرملتی ہیں۔ائمہ عشرہ کی قراء ات کے متواتر ہونے پر امت کااتفاق ہے ۔قراء عشرہ کے نام مندجہ ذیل ہیں:

۱۔ امام نافع المدنی (م ۱۶۹ھ)

۲۔ امام عبداللہ بن کثیرمکی(م۱۲۰ھ)

۳۔ امام ابوعمرو البصری(م ۱۵۴ھ)

۴۔ امام عبداللہ بن عامرالشامی(م۱۱۸ھ)

۵۔ امام عاصم بن النجود الکوفی(م۱۲۷ھ)

۶۔ امام حمزۃ الکوفی(م۱۵۶ھ)

۷۔ امام علی الکسائی الکوفی(م ۱۸۹ھ)

۸۔ امام ابوجعفرالمدنی(م۱۳۰ھ)

۹۔ امام یعقوب حضرمی(۲۰۵ھ)

۱۰۔ امام خلف العاشر(م ۲۲۹ھ)

۲۔ قراء ات مردودہ یاغیرمقبولہ

اس سے مراد ہروہ قراء ت ہے ،جس میں مذکورہ تین شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو۔

قراء ات کی اقسام باعتبارروایت

روایت کے اعتبارسے قراء ات کی چھ قسمیں ہیں:

۱۔ المتواترۃ: القراء ۃالتی نقلھاجمع لایمکن تواطؤھم علی الکذب عن مثلھم إلی منتھاہ۔(۴۱)

یہ وہ قراء ت ہے جس کوایک ایسی جماعت دوسری جماعت سے نقل اخذکرتی ہوجس کاجھوٹ پرمتفق ہوناممکن نہ ہو۔

ائمہ عشرہ کی جو قراء ات آج تک تواترکے ساتھ منقول ہیں ،وہ یقینا قرآن کاحصہ ہیں،ان کو اپنے قلوب میں محفوظ رکھنا ،اوران کواگلی نسلوں تک پہنچاناامت کی ذمہ داری ہے۔اور امت میں ہرزمانہ میں ایک جماعت ایسی ضرورہونی چاہئے جو ان قراء توں کوجانتی اورپڑھتی ہو،ورنہ آنی والی نسلوں کے حق میں یہ قراء ات محض تاریخ کاحصہ بن کررہ جائیں گی ، اورپھر ان کے لئے ان قراء ات کو تلقی عن أفواہ المشائخ یعنی اساتذہ سے براہ راست اخذوحصول کے طریقہ پر محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔

۲۔ المشہورۃ: القراء ۃالتی صح سندھا،ولم تبلغ درجۃ المتواتر،ووافقت الرسم والعربیۃ،واشتھرت عندالقراء ،فلم یعدّوھا من الغلط ولامن الشذوذ۔(۴۲)

یہ وہ قراء ت ہے جس کی سند صحیح ہو،لیکن درجہ تواتر تک نہ پہنچے ،اصول عربیت اورمصحف عثمانی سے ہم آہنگ ہو،البتہ قراء کے نزدیک اتنی مشہورہوکہ وہ اس کوغلط یاشاذ شمارنہ کریں۔

۳۔ الآحاد یۃ : القراء ۃالتی صح سندھا،وخالفت رسم المصحف أوالعربیۃ،أوکلیھماولم تشتھرالاشتھارالمذکورآنفا۔(۴۳)

یہ وہ قراء ت ہے جوصحیح السندہو،مگرمصاحف عثمانیہ یاقواعدعربیت کے موافق نہ ہو،یادونوں کے موافق نہ ہو،اور مذکورہ شہرت کی حامل بھی نہ ہو۔

ایسی قراء تیںہم تک خبرواحدکے طورپر منقول ہوئی ہیں۔جہاںتک اس اشکال کاتعلق ہے کہ آج کے زمانہ میںامت کے پاس جو قرآن ہے، اس میںوہ قراء تیں موجود کیوں نہیںجو صحابہ کرام کویادتھیں، گویاوہ قراء تیں جن میں کچھ زمانہ کے بعد تواترقائم نہ رہا،اگر وہ قرآن کاحصہ تھیں توپھر وہ بعدمیںتواتر کے ساتھ محفوظ کیوں نہ رہیں؟

اس کاجواب اس آیت میں موجودہے: سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى۔ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۔ (الاعلی:۶،۷) ہم پڑھائیں گے آپ کوپھرآپ نہیں بھولیں گے،مگرجواللہ چاہے۔

یعنی جن قراء ات کومصاحف عثمانیہ میں درج نہ کرنے پرتمام صحابہ کرام ؓ کااجماع منعقدہوگیا،یاوہ قراء تیںبعدمیںتواترسے منقول نہ ہوئیںاورحفاظ قرآن کے قلوب سے محوہوگئیں،تویہ سب اللہ کی مشیت کی بناپر ہواہے۔دوسرے لفظوںمیں ان قراء توںکاتواترقائم نہ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یاتوابتداء سے ہی وحی متلوکاحصہ نہیں تھیں،یاپھربعدمیںان کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔ جیساکہ مترادف الفاظ کے ساتھ تلاوت ابتدامیںجائزتھی ،لیکن بعدمیںیہ حکم منسوخ ہوگیا۔

۴۔ الشاذۃ: القرائۃ التی لم یصح سندھا،أوخالفت الرسم ،أولاوجہ لھافی العربیۃ۔(۴۴)

جس کی سند صحیح نہ ہو،یارسم کے مخالف ہو ،یا عربیت کی کسی وجہ پربھی درست نہ ہو۔

شاذقراء ات کے ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ حدیث اور تفسیر کی مختلف کتابوںمیں جوقراء تیں صحابہ کرام ؓ کی طر ف منسوب ہیں،ان میں دواحتمال ہیں: ایک یہ کہ ان صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ سے (قراء ت کے طورپر یاتفسیر کے طورپر)براہ راست سنی ہیں۔ دوسرااحتمال یہ کہ وہ قراء ت ان کاتفسیری قول ہے۔

لیکن اس میں پہلی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے ؛اس لئے کہ صحابہ کرام ؓ سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات قرآن میں شامل کریں۔حضرت عائشہ ؓ سے ایک قرا ء ت کے سلسلہ میں یہ جملہ بھی منقول ہے: سمعتھامن رسول اللّٰہ ﷺ۔(۴۵) میںنے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔

اس صورت میں تو صحابہ کرام کے حق میں یہ قراء ات شاذنہیں بلکہ ’’فرمان نبوی ‘‘ کادرجہ رکھتی ہیں ۔ اسی بناپر صحابہ کرام ؓ نے ان قراء ات کو آگے نقل کردیاہے۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ان قراء توںکی تلاوت سہولت کی خاطرابتداء زمانہ میں جائز رہی ہو،لیکن بعدمیںان کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہوجیساکہ عرضہ اخیرہ میں متعدد آیتوں اور قراء توں کی تلاوت منسوخ ہوئی ہے۔نیز تمام قراء ات کوایک تلاوت میں جمع کرنا ابتداء ہی سے لازم اور ضروری نہیںتھا۔بلکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ ہرشخص ویسے ہی تلاوت کرے جیساکہ اس کو سیکھایاگیا ہے۔نیز اگرکوئی شخص صرف ایک ہی قراء ت کے مطابق قرآن کویاد کرتااورپڑھتاہے توبھی اس کی تلاوت ناقص نہیں؛کیونکہ آپ ﷺ کافرمان ہے کہ ان سات حروف میں سے ہرایک شافی اورکافی ہے۔تاہم علمی اعتبارسے ایسی سب قراء تیں وحی غیرمتلوکے درجہ کی ہوسکتی ہیں جن کی سند صحیح ہو۔

۵۔ المدرجۃ: العبارۃ التی زیدت بین الکلمات القرآنیۃعلی وجہ التفسیر۔ (۴۶) یہ وہ قسم ہے جس میں قرآنی کلمات کے درمیان تفسیر وتشریح کے پیش نظرکسی لفظ کااضافہ کیاجاتاہے۔ ۶۔ الموضوعۃ: القرائۃ التی نسبت الی قائلھا من غیرأصل أی من غیر سند مطلقا (۴۷)

یہ وہ قراء ت ہے جوبلادلیل کسی کی طرف منسوب ہو۔

ان مذکورہ چھ اقسام میں سے متواتر،مشہور،اورآحاد(اگر آحاد کی سند درست ہو،اورعربیت کے موافق ہوں)یہ تین اقسام تو قراء ات مقبولہ کے تحت داخل ہیں، متواترہ ، اورمشہورہ کے قرآن ہونے پراتفاق ہے،اور ان کوپڑھاپڑھایاجاتاہے،ان کا انکار ،قراٰن کاانکار ہے، اورکفر ہے۔البتہ آحاد کوپڑھا،یاتلاوت نہیں کیاجاتا،بطور علم کے قبول کیاجاتاہے،ان کامنکر کافر نہیں ہے ۔باقی تین اقسام یعنی شاذ،مدرج،موضوع،اور وہ قراء ات آحاد جوعربیت کے مخالف ہو ں،دوسری قسم یعنی قراء ات مردودہ یاغیرمقبولہ کے تحت داخل ہیں ،اور یہ یقیناقرآن نہیں ہیں۔(۴۸)

قراء ات کی اقسام باعتبارتعدد معنی

معنی ومفہوم کے اتحاد یاتعددکے اعتبارسے ان مختلف قراء ات کی دوقسمیں ہیں:

۱۔ متحدالمعنی: یعنی کلمہ کا تلفظ مختلف ہو لیکن معنی ومفہوم ایک ہی ہو۔ مثلا: عَلَیْھِمْ اور عَلَیْھُمْ ، قَرْحٌ اور قُرْحٌ وغیرہ۔

۲۔ مختلف المعنی: یعنی تلفظ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ معنی بھی مختلف ہو۔مثلا: مَالکِ یوم الدّ ین ، مَلِکِ یوم الدّ ین (الفاتحۃ:۳) پھر معنی مختلف ہونے کی دوصورتیں ہیں:

(الف) تلفظ مختلف ہو نے سے معنی یا ترجمہ توبدل جائے ،لیکن مفہوم اورمطلب ایک ہی نکلتاہویعنی دونوں قراء توں کامصداق ایک ہی ہواوران کے معنی میں کوئی باہمی تعارض یاتضادنہ ہو۔

مٰـلِکِ یَوم الدّ ین ، مَلِکِ یَومِ الدّ ین ۔ اسی طرح فتبینوا /فتثبتوا (الحجرات : ۶)

(ب) تلفظ اورمعنی مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں قراء توں کے معنی میںبظاہرایک قسم کاتعارض بھی ہو۔

مثلا : یَطْہُرْ نَ، یَطَّہَّرْنَ (البقرۃ:۲۲۲) وَاَرْجُلَـکُمْ، وَاَرْجُلِکُمْ (المائدۃ:۶) قراء توں کے تواتر میں ایک اشکال بعض حضرات کاخیال یہ ہے کہ ائمہ سبعہ سے ہم تک توان کی قراء تیں متواترہیں،لیکن نبی کریمﷺ سے ان ائمہ تک جو سندیںہیں وہ آحادی ہیں۔یعنی ایک قاری، ایک ہی سے روایت کرتاہے۔چنانچہ امام بدرالدین الزرکشی(م۷۹۴ھ) البحرالمحیط فی اصول الفقہ میںلکھتے ہیں:

وقال بعض المتأخرین :التحقیق أنّھامتواترۃ عن الأ ئمۃ السبعۃ، وأماتواترھاعن النبی ﷺففیہ نظر؛فاِنّ إسناد الأ ئمۃالسبعۃ لھذہ القراء ات موجودۃ فی کتبھم، وھی نقل الواحدعن الواحد،فلم یستکمل شروط التواتر(۴۹)

بعض متاخرین کا خیال یہ ہے کہ تحقیقی بات یہ کہ ہے سات قراء کی قراء تیںان ائمہ سے تومتواترہیں،لیکن ان کانبی کریم ﷺ سے ان اماموں تک تواتر محل نظرہے؛کیونکہ ان کی سندیں ایک راوی سے ایک راوی کے طریقہ کی ہیں۔لہذاتواترکی شرط پوری نہ ہوئی۔

اس اشکال کاجواب اس کاایک جواب تویہ دیا جاتاہے کہ امت نے ان قرا ء ات کی قبولیت پر اتفاق کرلیاہے ،لہذایہ اس اعتبارسے متواترہیں۔(۵۰)

لیکن اس اشکال کا اصل جواب یہ ہے کہ اعتراض میں موجودیہ دعوی کہ قراء سبعہ کی اسناد واحدٌ عن واحدٍ(ایک راوی سے ایک راوی ) کے طریقہ پر ہیں ،یہ دعوی حقیقت کے بر خلاف ہے۔ کیونکہ ایک ایک قاری نے متعدداساتذہ سے پڑھاہے۔بلکہ بعض قراء نے ستر سے زائد تابعین سے تلمذحاصل کرکے پھر ان قراء ات کوآگے پڑھایاہے اورایک طبقہ کے اساتذہ کی تعداد بظاہر اس لئے کم نظرآتی ہے کہ سند میں صرف ایک استادکانام ذکرکردیاجاتاہے جبکہ باقی کو توافق کی بناپر چھوڑ دیا جاتاہے۔ دراصل عرف عام میں استادصرف اس شخص کوسمجھاجاتاہے ،جس کے پاس بیٹھ کر قرآن کوسبقاسبقاحاصل کیاگیاہو۔حالانکہ قرآن حکیم کی تعلیم میں ہروہ شخص استاد کی حیثیت رکھتاہے جس سے نماز میں یانمازسے باہر کسی بھی صورت میں قرآن سناگیاہو،یااس کوسنایاگیاہو۔کیونکہ قرآن کودن کی تین نمازوں میں بآوازبلند نبی کریم ﷺ کے زمانہ سے آج تک مسلسل پڑھاجارہاہے،لہذا ایک ایک حافظ سے قرآن کو سننے والوںکی تعدادسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہے۔اور ایساممکن ہی نہیں کہ کوئی حافظ یاامام نماز میں کوئی آیت غلط تلاوت کرتارہے ،اوراس کو ٹوکنے والاکوئی نہ ہو۔لہذا اس عظیم اجتماعی تعامل کی بناپرجوکہ نبی کریم ﷺ کے دورسے آج تک بلاکسی رکاوٹ کے جاری وساری ہے،قرآن حکیم پوری امت کی ہرہر نسل میں متواتر رہاہے۔

نیز جب کوئی حافظ نمازتراویح میں قرآن سناتاہے ،تولازمی بات ہے کہ کسی ایک قراء ت کے مطابق ہی تلاوت کرے گا؛لہذااس کو سننے والے تمام افراد اس نماز کے واسطے سے اس کی اس قراء ت کوحاصل کرنے والے ہوجائیں گے۔ لہذا قرآن اور قراء ات کوالگ الگ نہیں رکھاجاسکتا۔صحابہ کرام ؓ ان کے بعد تابعین ؒ اور پھر قراء عشرہ ؒ میں سے بھی جب کوئی شخص نماز کی امامت کراتاہوگاتویقینا اسی قراء ت کے مطابق پڑھتاہوگاجو قراء ت اس نے سیکھی اور سیکھائی ہوگی ۔الغرض کسی بھی قاری کی تلاوت لازما کسی نہ کسی قراء ت کے مطابق ہی ہوتی تھی ۔

امام ابن حاجب نحوی(م۶۴۶ھ) منتھی الوصول میں لکھتے ہیں :
القراء ات السبع متوا ترٌ۔لو لم تکن متواترۃً لکان بعض القرآن غیر متواترٍ کمَلِکِ ومٰلِکِ ونحوِھا، وتخصیص أحدھما تحکم باطل لاستوائِـھما (۵۱)۔

سات قراء تیں متواتر ہیں ۔اگر یہ متواتر نہ ہوں تو قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر بن جائے گا۔ جیسے ملک اور مالک ،اور اس طرح کی اور قرا ء تیں، اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی تخصیص کرناسینہ زوری ہے (باطل فیصلہ ہے) اس لئے کہ یہ دونوں برابر ہیں ۔

امام شوکانی(م۱۲۵۰ھ) ارشادالفحول میں لکھتے ہیں:

والحاصل :أن مااشتمل علیہ المصحف الشریف واتفق علیہ القراء المشہورون فھو قرآن، وما اختلفوا فیہ فإن احتَملَ رسمُ المصحف قراء ۃَ کلّ واحد من المختلفین مع مطابقتہا للوجہ الإعرابی والمعنی العربی ،فھی قرآنٌ کلّھا ،وإن احتمل بعضَہا دون بعض ، فإن صحّ إسناد مالم یحتملہ ،وکانت موافقۃ للوجہ الإعرابی ،والمعنی العربی ، فھی الشاذّۃُ ولھا حکمُ أخبار الآحاد فی الدلالۃ علی مد لولِھا ،وسوائٌ کانت من القراء ات السبع أو من غیرھا۔وأمّا مالم یصحّ إسنادہ ممّالم یحتملہ الرسم فلیس بقرآن ٍ ولا منزلٍ منزلۃ أخبار الآحاد (۵۲)

حاصل یہ کہ جس چیز پر مصحف ِ شریف مشتمل ہے اور مشہور قراء اس کے اوپر متفق ہیں تو وہ قرآن ہے۔ اورجس میں ان کا اختلاف ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں :

۱۔ مصحف کا رسم دونوں مختلف قراء توں کا احتمال رکھتا ہے ،اور یہ دونوں قراء تیںاعرابی وجہ اور معنی کے مطابق ہیں تو یہ سب بھی قرآن ہیں۔

۲۔ اگر مصحف کارسم ایک کااحتمال رکھے اور دوسری قراء ت کا احتمال نہ رکھے، تو پھر دو صورتیں ہیں:

(الف) اس غیر محتمل قراء ت کی اسناد صحیح ہے اور وہ اعرابی وجہ اور معنی عربی کے موافق ہے،تو پھر وہ شاذ قراء ت ہے ،اوراپنے مدلول پر دلالت کرنے میں اس کا حکم خبر واحد کی طرح ہے ۔ عام ہے کہ یہ قراء ات سبعہ میں سے ہو یا نہ ہو۔

(ب) اور وہ قراء ت جس کا رسم میں احتمال نہ ہو اور اس کی اسناد بھی صحیح نہ ہو تو پھر وہ قرآن نہیں ہے اور نہ ہی اس کوخبر واحد کے درجے میں رکھا جائے گا ۔

علم تفسیر اورعلم قراء ات کاباہمی تعلق

مشہورمفسرتابعی امام مجاہدبن جبرفرماتے ہیں:

لو کنت قرأ ت قراء ۃ ابن مسعود لم أحتج أن أسـأل ابن عباس عن کثیر من القرآن مما سألت (۵۳)

اگر میں نے عبداﷲ ابن مسعود ؓ کی قراء ت پڑھی ہوتی تو مجھے ان سارے سوالات کی ضرورت ہی نہ پڑتی جومیں نے عبداﷲ بن عباسؓ سے قرآن کے بارے میں کیے تھے۔

چنانچہ جب کسی کلمہ قرآنی میں دومتواترقراء تیں ہوںتوجمہورمفسرین وفقہاء کے نزدیک وہ دوآیات کی طرح ہیں۔ان کی تفسیر اسی طرح کی جائے گی جس طرح ایک مسئلہ میں واردہ دوآیات کی تفسیرکی جاتی ہے۔چنانچہ احکام القرآن للجصاص میں ہے:

وھا تان القراء تان قد نزل بھما القرآن جمیعا ونقلتھا الأمّۃ تلقّیا من رسو ل اللّٰہ ﷺ

اور یہ دونوں قرا ء تیں ایسی ہیں کہ قرا ٓ ن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہ ؐ ؐ سے حا صل کیا ہے ۔

امام جصاص آگے لکھتے ہیں :

وأیضا فإ ن القرا ء تین کا لا ٓ یتین، فی إحدا ھما الغَسل و فی الأ خریٰ المسحُ لاحتما لھما للمعنیین فلو وردت آ یتا ن ، إحدٰ ھما تو جب الغَسل و الأ خری المسحَ ، لمَا جازَ ترکُ الغَسل إلی ا لمَسحِ (۵۴)

اور دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں، ان میں سے ایک میںدھونے کا معنی ہے دوسر ی میںمسح کا معنی ہے کیو نکہ یہ دو نوں معانی کا احتمال رکھتی ہیں ۔ چنانچہ اگر بالفرض دو آیتیں نا زل ہو جا تیں، ایک کا مو جب دھوناہو تا اور دوسری کا مسح ہو تا ،تو بھی دھونے کو مسح کے مقا بلہ میں تر ک کرنا جا ئز نہ ہو تا ۔

تفسیر قر طبی میں ہے :

ولیس من المتشا بہ أن تقرأ الآ یۃ بقر ا ء تین، ویکو ن الا سم محتملا أومجملایحتا جُ إلیٰ تفسیر ؛ لأ ن الواجب منہ قدرُ ما یتنا وَلُہ الاسم أو جمیعہ ۔ والقراء تا ن کالآ یتین یجب العمَلُ بمُوجبِھما جمیعا (۵۵)

یہ با ت متشا بہ میں سے نہیں ہے کہ کو ئی آ یت دو قراء توں سے پڑھی گئی ہو، اور اسم احتمال یا اجمال کی وجہ سے تفسیر کا محتاج ہو ؛ کیونکہ ثابت تو اس میں سے اسی قدر ہو گا جس کو اسم شامل ہو گا یا تمام ثا بت ہو گا ۔ اور دو قرا ء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، دونوں کے موجب پر عمل کر نا ضروری ہے ۔

اسی طرح فتاوی ابن تیمیہ میں ہے: إذ القراء تان کالآیتین۔(۵۶)

اس لئے کہ دوقراء تیں دوآیتوںکی طرح ہوتی ہیں۔

تفسیر روح المعانی میں اس اصول کو بڑ ی وضا حت سے بیان کیا گیاہے : ومن القو ا عد الأصو لیۃ عند الطائفتین أن القرا ء تین المتواتر تین إذا تعارضتا فی آیۃ واحدۃفلھا حکم آیتین (۵۷)

اصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے ( دونوں طا ئفوں کے نزدیک )کہ متواتر قرا ء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جا ئیں تو ان کا حکم دو آیتوں کی طرح ہے ۔

اصول السرخسی میں ہے: یقع التعارض بین الآیتین ،وبین القراء تین۔(۵۸)

دوآیتوں اوردوقراء توں کے درمیان تعارض واقع ہوتاہے۔

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے : وتعارض القراء تین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔(۵۹)

دوقراء توںکاتعارض دوآیتوںکے تعارض کی طرح ہے۔

اسی طرح تفسیر نیل المر ام میں ہے : وقد تقرّر أنّ القرا ء تین بمنز لۃ الآ یتین فکما أنّہٗ یجب الجمع بین الآ یتین، المشتملۃ اِحداھما علی زیا دۃ العمل بتلک الزیا دۃ کذلک یجب الجمع بین القراء تین (۶۰)

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دوقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں،توجس طرح ایسی دوآیتوں کے درمیان تطبیق کرناضروری ہے ،جن میں سے ایک آیت کسی زائدمعنی پرمشتمل ہو،اسی طرح دوقراء توںمیں بھی جمع وتطبیق واجب ہے۔

اسی طرح تفسیرمظہری میں ہے: والقراء تان بمنزلۃ الآیتین ۔(۶۱)

البتہ اس ضمن میں صرف امام کر خی ؒ (م۳۴۰ ھ )کا ایک اختلافی نقطہ نظر ملتاہے ۔ ان کے نزدیک دو قرا ء تیں دو آیا ت کی طرح نہیں ہیں۔ چنانچہ امام جصاص امام کرخی ؒ کی طر ف منسوب کرکے لکھتے ہیں:

وکان أبو الحسن الکرخی یجیب عن ذٰلک بجواب آخر، وھو أن سبیل القراء تین غیرسبیل الآیتین وذلک لأن حکم القراء تین لا یلزم معًا فی حال واحدۃ، بل بقیام أحدھما مقام الأخری۔ ولو جعلنا ھما کالآیتین لو جب الجمع بینھما فی القراء ۃ وفی المصحف و التعلیم ؛لأ نّ القراء ۃ الأخری بعض القرآن ولا یجوزإسقاط شیء منہ، و لکان من اقتصر علی إحدی القراء تین مقتصرا علی بعض القرآن لاعلـٰی کـلّہ ،و لَلَزِمَ من ذٰلک أن المصاحف لم یثبت فیھا جمیع القرآن۔ وھذا خلاف ما علیہ جمیع المسلمین۔ فثبت بذلک أن القراء تین لیستا کا لآیتین فی الحکم ،بل تقر آن علی أن تقام إحداھمامقام الأخری لا علی أن یجمع بین أحکامھما کما لا یجمع بین قراء تیھما و إثباتھما فی المصحف معًا ۔(۶۲)

ابو الحسن الکرخی اس کا ایک اور جوا ب دیتے ہیں :او ر وہ یہ کہ دو قراء توں کا طریقہ د وآیتوں کی طرح نہیں ہے۔ اس لئے کہ دوقراء توں کا حکم ایک ہی حالت میں لازم نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتی ہیں ۔ اور اگر ہم ان کو دو آیتوں کی طرح مانیں تو ان کو تلاوت ، قرآنی مصحف ، اور تعلیم سب میں جمع کرنا لازمی ہو گا؛ اس لئے کہ دوسری قراء ت قرآن کا بعض حصہ ہے اور اس میں سے کچھ بھی ساقط کرنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح وہ آدمی جو ایک قراء ت پر اکتفاء کرے گا وہ بعض قرآن پر اکتفاء کرنیوالا ہو گا۔ سارے پر عمل کرنے والا نہ ہوگا ،او ر اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ مصاحف میں پور ا قرآن موجود نہیں ہے اور یہ تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ دو قراء تیں حکم کے اعتبار سے دو آیتوں کی طرح نہیں ہیں ۔ بلکہ و ہ اس بنا پر پڑھی جاتی ہیں کہ ایک قراء ت کو دوسری کے قائم مقام کیا جاسکے، نہ اس طور پر کہ ان کے احکام کو بھی جمع کیا جائے، جیسا کہ ان کی تلاوت اور ان کو مصاحف میں لکھنے میں جمع نہیں کیا جاتا ۔

نیز ایک مقام پر امام شافعی ؒ کا نقطہ نظربھی اس کے قریب ملتا ہے ،جیساکہ وہ فرماتے ہیں: نقرؤھا وأرجلَـکم۔ (۶۳)

قراء ات کی اقسام باعتبارتفسیری اثرات

تفسیر ی اعتبارسے قراء تیں اولاً دوقسم پرہیں:

۱۔ وہ قراء تیں جن سے تفسیر پرکوئی واضح اثر نہیں ہوتا،زیادہ قراء تیں اسی طرح کی ہیں ۔

۲۔ دوسری قسم وہ جن کاتفسیر پرکچھ نہ کچھ اثرواقع ہوتاہے۔

پھران میں بعض قراء تیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان سے تفسیری معنی میں مزیدوضاحت اورتوسیع پیداہوتی ہے،یاکوئی اشکال یاابہام دورہوجاتاہے،لیکن بہرحال ان کامحمل اورمصداق ایک ہی ہوتاہے۔جبکہ بعض قراء تیں ایسی ہیں کہ ایک قراء ت کامفہوم ومصداق دوسری قراء ت سے بالکل مختلف ہوتاہے لہذا دونوںقراء توں سے دومختلف احکام ثابت ہوتے ہیں،یاایک ہی حکم کی دوممکنہ صورتیں سامنے آجاتی ہیں ۔

قرآن حکیم کی تفسیرپراثرات کے اعتبارسے مختلف قراء توںکی مندرجہ ذیل قسمیں بنتی ہیں :

۱۔ معنی کی تبیین وتوضیح کرنے والی قراء تیں۔یعنی ایک قراء ت میں معنی واضح نہیں ہوتادوسری قراء ت سے معنی واضح ہوجاتاہے،یامراد متعین ہوجاتی ہے۔

۲۔ معنی میں وسعت پیداکرنے والی قراء تیں۔ایک قراء ت کامعنی محدودہوتاہے،دوسری قراء ت سے معنی میں مزیدوسعت پیداہوجاتی ہے۔

۳۔ اشکال کودورکرنے والی قراء تیں۔ایک قراء ت سے کوئی اشکال پیداہوتاہے،تودوسری قراء ت سے وہ دور ہوجاتاہے۔

۴۔ عام معنی پرمشتمل قراء تیں۔یعنی ایک قراء ت میں معنی خاص ہوتاہے دوسری قراء ت سے معنی میں عموم پیداہوجاتاہے۔

۵۔ تقییدی معنی پرمشتمل قراء تیں۔ایک قراء ت میں معنی مطلق ہوتاہے دوسری قراء ت سے معنی میں ایک قید کااضافہ ہو جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ قراء ات مختلف اقسام اوردرجات کی حامل ہیں ، مشہوردس ائمہ کی قراء تیں آج تک تواتر کے ساتھ منقول ہوتی آئی ہیں۔ان دس کے علاوہ جوقرا ء تیںہیںوہ خبرواحد ،تفسیری اقوال بشکل قراء ت، یاشاذ قراء توںکی حیثیت رکھتی ہیں۔متواتر قراء ات کی حجیت اورقبولیت پرجمہورعلماء امت کااتفاق ہے۔اور یہ قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلہ میں ایک اہم ماخذ کادرجہ رکھتی ہیں،قراء ت کے اختلاف کی وجہ سے کبھی معنی بھی بدل جاتے ہیں۔لہذا متواترقراء ات مفسرین وفقہاء کی توجہ کامرکزرہی ہیں۔شاذقراء ا ت کی حجیت میں اختلاف ہے ،احناف کے نزدیک یہ خبر واحد کے درجہ میں حجت ہیں،حنابلہ کے نزدیک بھی یہ ہی راجح ہے ۔بعض مالکیہ اورامام شافعی سے ایک روایت کے مطابق یہ حجت نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال علماء اورمفسرین نے ان کویکسر نظراندازنہیں کیاہے،بلکہ بعض مواقع پرتوشاذقراء ت بھی سب کے نزدیک حجت بن جاتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب

حوالے و حواشی

۱۔ ابن منظور ، لسان العرب ،مادۃ قرأ،۱/۱۲۸،۱۲۹

۲۔ ابن منظور ، لسان العرب ،مادۃ قرأ، ۱/۱۲۸

۳۔ ابن الجزری، منجد المقرئین، ص ۳

۴۔ عبدالفتاح القاضی، البدور الزاھرۃ ،ص ۵

۵۔ ابو طاہر السندی ، صفحات فی علوم القرا ء ا ت ،ص ۱۰،نیز عبدالفتاح القاضی ، البدورالزاہرۃ،ص ۵

۶۔ البخاری ، الجامع الصحیح، ۲/ ۷۴۷ ،باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف

۷۔ ابن مجاہد ، کتاب السبعۃ ،ص ۴۹، نیز ابن تیمیہ ، مقدمۃ التفسیر ،ص ۴۰۴،نیز ابن الجزری ، النشر ، ۱/۱۷

۸۔ الذہبی ، معرفۃ القراء الکبار ،۱/۳۰۷،نیز ابن الجزری ، غایۃ النھایۃ ،۲/۱۲۴

۹۔ ایضاً

۱۰۔ نبیل بن ابراھیم ، علم القراء ا ت ،ص ۵۱،۵۲

۱۱۔ طہ حسین ، فی الادب الجاھلی ،ص ۹۵،۹۶

۱۲۔ الزیات،احمدحسن:تاریخ الادب العربی،ص۵۔۷

۱۳۔ ایضاً،نیزہلال،عبدالغفارحامد، القراء ات وصلتھاباللہجات العربیۃ، ص۳۹۶

۱۴۔ ایضاً

۱۵۔ اردودائرہ معارف اسلامی،مقالہ قبائل ،۱۶/۱/۲۱۵

۱۶۔ ہلال،عبدالغفارحامد، حوالہ مذکور

۱۷۔ ہدایۃ النحو،بحث ماولامشابہ لیس

۱۸۔ الترمذی،الجامع/السنن،۲/۱۲۰

۱۹۔ البخاری ، حوالہ مذکور،۲/ ۷۴۷ ،باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف

۲۰۔ الترمذی،الجامع /السنن،۲/ ۱۲۰، ابواب القراء ات

۲۱ ۔ ایضاً ۲۲۔ ایضاً ۲۳۔ ایضاً

۲۴۔ الترمذی، حوالہ مذکور،۲/۱۲۷(ابواب تفسیرالقرآن)نیزالدوری،ابوعمرحفص، قراء ات النبی، ص ۱۵نیزیہ کتاب قراء ات النبی ﷺ امام ابوعمر حفص بن عمر الدوری (م۲۴۶ھ) کی ہے جس میں انہوں نے تقریباً ۵۵ قرآنی کلمات میں مختلف قراء ات بیان کی ہیں، اور یہ تمام قراء ات متواتر ہیں۔ اور تقریباً ۳۰ مقامات پر قراء ات شاذہ کو بھی مختلف اسناد سے بیان کیا ہے۔ نیز دو قراء ات منسوخہ بھی بیان کی ہیں ۔

۲۵۔ الترمذی، حوالہ مذکور،۲/۱۲۰

۲۶۔ دیکھئے:مصحف القراء ات العشر ، سورۃالکھف:۷۶

۲۷۔ الدوری،ابوعمرحفص بن عمر ، قراء ات النبی ﷺ ،ص۱۳،نیزابوداوٗد ، السنن ،۲/۱۹۷ کتاب الحروف والقراء ا ت

۲۸۔ ابوداؤد،السنن، ۲ /۱۹۷،کتاب الحروف والقراء ات

۲۹۔ مصحف القراء ات العشر ،اورمعجم القراء ات القرآنیۃ،۷/۷۴،۷۵

۳۰۔ الفاسی،امام محمدبن محمدبن سلیمان، جمع الفوائد ،۲/ ۲۱۳،(باب جوازاختلاف القراء ات)

۳۱۔ ابوداؤد،السنن، ۲ /۲۰۰،(کتاب الحروف والقراء ات)

۳۲۔ دیکھئے :مصحف القراء ات العشر،سورۃالنور، ۱

۳۳۔ البخاری، حوالہ مذکور،۲/۶۴۷(کتاب التفسیر:باب قولہ یایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام الخ)

۳۴۔ دیکھئے:مصحف القراء ات العشر، سورۃالبقرۃ،۱۸۴

۳۵۔ البخاری،حوالہ مذکور،۲/۶۴۹(کتاب التفسیر:باب قولہ باب قولہ ام حسبتم)

۳۶۔ ابن الجزری،النشر،۲/۲۹۶،نیز مصحف القراء ات العشر، سورۃیوسف، ۱۱۰

۳۷۔ البخاری،حوالہ مذکور،۲/۵۹۷(کتاب المغازی،باب حدیث الافک)

۳۸۔ مصحف القراء ات العشر؛ سورۃالنور، ۱۵، نیزمعجم القراء ات القرآنیۃ، ۴/۲۴۰،۲۴۱

۳۹۔ الفاسی،جمع الفوائد، ۲/ ۲۱۴،نیزمعجم القراء ات القرآنیۃ، ۷/۱۴۷،۱۴۸

۴۰۔ مسلم،الجامع،۱/۲۷۳ (باب بیان القرآن انزل علی سبعۃاحرف)

۴۱۔ السیوطی،الاتقان ،۱/۷۷۔۸۰،نیزنبیل بن ابراہیم، علم القراء ات، ص۴۲

۴۲۔ ایضاً ۴۳۔ ایضاً ۴۴۔ ایضاً

۴۵۔ القشیری ،مسلم بن الحجاج،الجامع الصحیح،۱/۲۲۷

۴۶۔ السیوطی ،حوالہ مذکور ۴۷۔ السیوطی ،حوالہ مذکور

۴۸۔ نبیل بن ابراھیم،علم القراء ات،ص۳۵۔۳۹

۴۹۔ الزکشی،بدرالدین محمدبن بہادر،البحرالمحیط فی اصول الفقہ،۱/۳۷۷

۵۰۔ ایضاً،نیز بہاری،ملامحب اللہ ، مسلم الثبوت،ص۱۵۱

۵۱۔ ابن حاجب ، متنہی الوصول والامل فی علمی الاصول والجدل، ص ۳۴

۵۲۔ الشوکانی، ارشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول، ۱/۸۲

۵۳۔ الترمذی،السنن/الجامع،حدیث نمبر۲۸۷۶ (أبواب تفسیر القرآن)

۵۴۔ الجصا ص ،احکام القرآن، ۲ / ۳۴۶،۳۴۵ (با ب غسل الر جلین)

۵۵۔ القرطبی،الجامع لاحکام القرآن،۴/۱۱

۵۶۔ ابن تیمیہ،کتب ورسائل ومجموعہ فتاوی فی الفقہ،۲۱/۱۳۱(کتاب الفقہ)

۵۷۔ آلو سی ، علامہ محمود، روح المعانی ، ۶/ ۶۶

۵۸۔ السرخسی،اصول ،۲/۱۲(فصل فی بیان المعارضۃ بین النصوص)

۵۸۔ السرخسی،اصول ،۲/۱۲(فصل فی بیان المعارضۃ بین النصوص)

۵۹۔ السیوطی،الاتقان فی علوم القرآن،۲/۳۰

۶۰۔ قنو جی ، صدیق حسن خا ن، نیل المرام فی فقہ آیات الأحکام، ص ۵۲

۶۱۔ العثمانی،قاضی ثناء اللہ، التفسیرالمظہری،بیروت، دارإحیاء التراث العربی، ۲۰۰۴ء، ۳/۵۰۔۴۹

۶۲۔ الجصاص، أحکام القرآن ، ۲ / ۳۷۳

۶۳۔ الشافعی ،کتاب الأم،۱/۲۷،نیزأحکام القرآن،۲/۴۴