حافظ احمد یار مرحوم بحیثیت لائبریری انچارج

محترمہ خالدہ اختر

کوئی نصف صدی پہلے کی بات ہے جب حافظ صاحب مرحوم سے میری پہلی ملاقات صدرِ شعبہ علومِ اسلامیہ ، جامعہ پنجاب علامہ علاؤ الدین صدیقی مرحوم کے دفتر میں ہوئی جہاں حافظ صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ علامہ صاحب محترم نے حافظ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کے یہ شعبہ ھذا میں استاد اور لائبریری کے نگران بھی ہیں۔ یعنی مجھے تمام انتظامی امور حافظ صاحب کی نگرانی اور سرپرستی میں انجام دینا ہوں گے۔

شعبہ اسلامیات میں راقمہ پہلی تربیت یافتہ لائبریرین تھی۔ اس سے پہلے لائبریری غیر تربیت یافتہ ہاتھوں رہنے کی وجہ سے خاصی بے قاعدگیوں کا شکار تھی۔ چارج لیتے ہی میں نے اسکی بہتری کے لئے کمر باندھ لی اللہ کی مدد اور حافظ صاحب کے تعاون سے جلد ہی اسکی حالت بدل ڈالی۔

بحیثیت لائبریری انچارج حافظ صاحب مرحوم کا رویہ اپنے سٹاف کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ اور دوستانہ رہا۔ میں نے اس لائبریری میں چودہ سال حافظ صاحب کے ساتھ کام کیا۔ اور ان چودہ سالوں میں یہی مشاہدہ کیا کہ حافظ صاحب اپنے سٹاف کے حقوق کیلئے کا ہمیشہ دفاع کرتے۔ اپنے مؤقف سے کبھی بھی پیچھے نہ ہٹتے، بلکہ اصول کی بات پر ڈٹ جاتے ۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ چیئرمین صاحب نے شعبہ میں جگہ کی کمی کی وجہ سے تجویز دی کہ لائبریرین کو لائبریری میں بٹھا دیا جائے۔ وہ کونسا پردہ کرتی ہے۔ تو حافظ صاحب مرحوم نے فوراً کہا کہ شرعی پردہ تو وہ کرتی ہے۔ اسطرح مجھے میرے کمرے میں ہی رہنے دیا گیا۔ حافظ صاحب کے اس رویے کی وجہ سے ہی لائبریری کا عملہ بھی اپنا کام انتہائی دیانتداری، محنت اور لگن اور خلوص نیت سے سر انجام دیتا تھا۔

موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ذخیرے کی پڑتال ہوتی تو حافظ صاحب ہمارے ساتھ بنفسِ نفیس شرکت فرماتے۔ ان کی موجودگی میں ہمیں کبھی بوریت کا احساس نہ ہوتا۔ چائے کا دور بھی چلتا۔ سنجیدہ گفتگو بھی ہوتی لطیفے بھی سنائے جاتے۔ کام بھی بھر پور طریقے سے ہوتا۔ اکثر چار پانچ گھنٹے مسلسل کام کیا جاتا۔ چائے ہمیشہ اپنی جیب سے پلاتے۔ چائے میں چینی کی مقدار بھی غیر معمولی ہوتی۔

سٹاک ٹیکنگ کا کام ایک سے ڈیڑھ ماہ کے اندر ختم ہو جاتا۔ فہرست بنانے کے بعد رپورٹ تیار ہوتی۔ اور چیئرمین کی وساطت سے گم شدہ کتب write off کروائی جاتیں۔ کتابیں خریدنے کا بھی بہت شوق تھا۔ لائبریری کیلئے اچھی سے اچھی کتابیں خرید کر لاتے اگر کسی کتاب یا کتابوں کی منظوری چیئرمین سے نہ ہوتی۔ تو وہ کتابیں خرید لیتے اور ان کی قیمت اپنی جیب سے ادا کر دیتے۔ انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری میں بھی اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ جس میں قرآن کی تفسیر وغیرہ کے علاوہ بھی ہر قسم کی کتب تھیں۔ ماشاء اللہ ان کا حافظہ ان کا علم اور ان کی تحقیق بھی بے مثال تھی۔ بعض دفعہ کسی ایک لفظ کی تحقیق پر گھنٹوں صرف کر دیتے۔

جمعہ کی نماز مسجد دارلسلام میں پڑھانے جاتے۔ جانے سے کچھ دیر پہلے لائبریری میں ا ٓتے مختلف تفسیریں نکلواتے اور جمعہ کے خطبہ کے لئے موضوع تیار کرتے۔ غرضیکہ ہر موضوع پر ان کو عبور حاصل تھا۔ کوئی کسی بھی موضوع پر ان سے گفتگو کرتا۔ تو اسے ایسے لگتا جیسے حافظ صاحبؒ اسی مضمون کے ماہر ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ کو ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے (آمین ثم آمین)