میرے و ا لدِ محترم رحمہ اللہ

ڈاکٹر نضرۃ النعیم

خالق کون ومکاں کیا تیری مرضی کے بغیر
زندگانی سے کسی کا رابطہ ٹوٹا بھی ہے !

زندگی کا دوسرا روپ موت ہے مگر ہم موت سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اپنی یا اپنے کسی پیارے کی موت کا زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن موت اپنے وقت مقررہ پر ہم سب کے چپکے سے آلیتی ہے اور ہم اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔پھر کچھ دن کچھ مہینے ہم اس جانے والے شخص کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات میں محوہوکر اس شخص کو فراموش کرنے لگتے ہیں۔لیکن کچھ افراد کی زندگی اتنی بھر پور اور ہمہ جہت ہوتی ہے اور ہماری ذات پر اتنے پائیدار نقوش چھوڑ جاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ان کی یاد کا شجر مزید تناور ہوتا چلا جاتاہے۔

کسی فلسفی نے کیا خوب کہا ہے:’’اگر تم کسی کی عظمت کا اندازہ لگاناچاہتے ہو تو اس کی موت کا انتظار کرو۔‘‘ واقعی کسی بھی انسان کی زندگی میں ہم اس کے بارے میں حتمی رائے نہیں دے سکتے کیونکہ وہ کسی بھی وقت آپ کی توقع کے برعکس عمل کر سکتا ہے لیکن موت کے بعد عمل کا دربند ہو جاتا ہے اب لوگ آپ کے أعمال اور افعال کا غیر جانبدرانہ تجزیہ کر کے کسی دنیاوی منفعت کے بغیر سچا اور کھرا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور لوگوں کی آپ کے بارے میں یہ سچی اورکھری رائے ہی درأصل آپ کی ساری زندگی کی حقیقی کمائی ہوتی ہے۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی موت کے بعد خلق خدا اچھے الفاظ میں انکاتذکرہ کرتی ہے اور ان چیدہ أفراد میں سے ایک میرے والد محترم پروفیسرحافظ احمد یار مرحوم بھی ہیں۔ أللھم اغفرہ وارحمہ ۔ آمین ۔

پروفیسرحافظ احمد یار مرحوم نے اپنی زندگی کے تمام نقوش اپنی محنت اور ہمت سے تراشے آپ سیلف میڈ انسان تھے۔آپ ۵فروری ۱۹۲۰ء کو پنجاب کی ایک تحصیل وضلع جھنگ کے مضافاتی گاؤں حبیب میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔یہ گاؤں دریائے چناب کی ایک ذیلی شاخ کے کنارے پر آباد ہے اور کافی زرخیز ہے لیکن ہر سال موسم گرما میں اس دریا کا پانی اپنے کناروں سے چھلک کر سیلاب کی شکل میں پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا جس سے فصلوں کو کافی نقصان پہنچتا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آباد لوگ مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں تھے مگر محنت اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔

پروفیسر حافظ احمد یار کی ولادت سے قبل آپ کے والدین کے تین بچے وفات پا چکے تھے لہذا آپ کی پرورش بڑے لاڈپیار اور دعاؤں کے سائے میں ہوئی آپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین کو ایک بیٹی اور چار بیٹوں سے نوازا مگر سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے آپ سب کے پیارے اور لاڈلے ہونے کے ساتھ ساتھ سب کے لئے ایک رول ماڈل کا درجہ رکھتے تھے۔آپ کی محنت و کاوش سے علم و ترقی کے جو راستے کھلے انہیں راستوں پر چل کر آپ کے چھوٹے بھائیوں نے بھی کامیابی حاصل کی۔آپ کے والدین مذہب سے دلی لگاؤ رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے والد محترم نے آپ کو خود تجوید اور قرأت کے ساتھ قرآن پاک پڑھایا۔جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو سکول میں داخل کروایا ۔اس وقت دیہاتی ماحول میں تعلیم زیادہ عام نہیں تھی اور اکثر لوگ اس کی اہمیت سے بھی لاعلم تھے مگر آپ کی والدہ محترمہ کی شدید خواہش تھی کہ آپ علم حاصل کریں۔آپ کی والدہ محترمہ کے لئے آپ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا کچھ زیادہ سہل نہیں تھا مگر یہ ان کی علم دوستی کی انتہا تھی کہ انھوں نے آپ کی تعلیم کو دیگر أمور پر ترجیح دی اور آپ کا علم کے حصول کا سفر جاری رہا۔ اس سفر کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آپ کی والدہ کے پاس آپ کے سکول کی فیس ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے مگر انہوں نے اپنی چاندی کو چوڑیاں آپ کے استاد کو بھجوادیں کہ جب پیسوں کا انتظام ہو جائے گا ہم فیس ادا کر کے چوڑیاں واپس لے لیں گے ۔ آپ کے استاد بھی ایک عظیم انسان تھے انہوں نے آپ کی فیس اپنی جیب سے ادا کر دی اور وہ چوڑیاں آپ کی والدہ کو واپس بھجوا دیں اور کہا کہ جب پیسوں کا انتظام ہو جائے مجھے فیس کے پیسے لا دینا ۔علم سے محبت کا یہ عظیم جذبہ ماں سے بیٹے میں منتقل ہوا اور ماں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کے نزدیک ان کے بیٹے کی تعلیم ان کی زیورات سے زیادہ اہم ہے نتیجتاً علم کی لگن بیٹے کی نس نس مین سما گئی اور ساری زندگی علم حاصل کرنا اور دوسروں تک پہنچا نا ان کی اولین ترجیح رہا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے جہاں سے بچے کو ایک سمت ملتی ہے جو ساری زندگی اس کی رہنمائی کرتی ہے۔

پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم کو علم کی محبت کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی اپنی والدہ محترمہ سے ورثہ میں ملی تھی وہ انتہائی ذہین خاتون تھیں ۔قرآن پاک کی اکثر سورتیں انھیں زبانی یاد تھیں اور وہ فجر کی نماز کے بعد گھر کے کام کاج کے دوران سورۃ یٰس کی تلاوت کرتی رہتی تھیں ۔یہی ذہانت پروفیسر حافظ احمد یار کی شخصیت کا نمایاں وصف تھی۔ آپ جب بہت چھوٹے تھے تو مشکل تقاریر کا رٹا لگا کر سٹیج پر مقابلہ میں اول انعام حاصل کر لیتے تھے ۔ آپ خود بتایا کرتے تھے کہ اس تقریر میں اکثر الفاظ کے معانی بھی مجھے معلوم نہیں ہوتے تھے مگر جیسے استاد صاحب یادکرواتے تھے میں سٹیج پر بغیر کسی غلطی کے دہرا دیتا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ آپ سکول کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوںمیں کافی نمایاں تھے۔ آپ نے ۱۹۳۵ء میں ایم ،بی مڈل سکول جھنگ سے ورنیکلرا متحان پاس کیا اور ۱۹۳۷ء میں ایم ، بی ہائی سکول جھنگ سے میٹرک کا امتحان درجہ أول میں پاس کیا ۔ اس وقت بیروزگاری عام تھی اس لئے آپ کو فوری طور پر کوئی نوکری نہ مل سکی اور آپ مختلف اوقات میں مختلف کام کرتے رہے جن میں زراعت ،حکمت اور دوکانداری شامل ہیں۔ زراعت اور کھیتی باڑی تو آپ کا خاندانی کام تھا اور آپ بچپن سے اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں کام میں شریک رہتے تھے ۔پھر آپ نے حکمت کو بطور ذریعہ معاش اپنانا چاہا لیکن معاملہ یوں ہوا کہ جس مریض کو آپ مفت دوائی دیتے وہ ٹھیک ہو جا تا اور جس مریض کو قیمتاًدوائی دیتے وہ اس سے شفا یاب نہیں ہو پاتا۔آپ بتایا کرتے تھے کہ میں نے اس سے یہ اشارہ پالیا کہ اللہ نے حکمت کو میرا ذریعہ معاش نہیں بنایا لہذا آپ نے گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جونیئر سکول ٹیچرز ٹریننگ کورس میں داخلہ لے لیا وہاں آپ کے سب ہم جماعت مڈل پاس تھے۔ کورس بھی آپ کے لئے زیادہ مشکل نہ تھا چنانچہ آپ نے قرآن پاک حفظ کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کے ساتھ آپ نے نو (۹) ماہ کی قلیل مدت میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت عظیم حاصل کی ۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً تیئس(۲۳) سال تھی۔ قرآن پاک کی برکت سے آپ نے ٹیچرز ٹریننگ کورس میں بھی أول پوزیشن حاصل کی اور دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہوئے۔

ٹیچرز ٹریننگ کورس مکمل ہونے کے بعد آپ نے اپنے آبائی شہر جھنگ سے ہی سکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔آپ مطالعہ کے شوقین تھے اور سکول لائبریری کی تمام کتب آپ کی نظر سے گزر چکی تھیں۔اسی دوران ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل فارسی کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ہی B.Aکا امتحان پاس کیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جھنگ کے قریب محمدی شریف سے جناب مولانا محمد ذاکرؒ صاحب سے عربی گرائمر کی تعلیم بھی چار ماہ کے قلیل عرصے میں مکمل کی۔ ۹ماہ میں قرآن پاک حفظ کرنا اور چارماہ میں عربی گرائمر پر دسترس حاصل کر لینا آپ کی غیر معمولی ذہانت کا مظہر ہے۔

پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم نے ۱۹۳۷ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اگلے سال ۱۹۳۸ء میں آپ کے والدین نے آپ کو رشتہ أزدواج میں باندھ دیا کیونکہ ان کی رائے کے مطابق اب آپ اعلی تعلیم حاصل کر چکے تھے اور یہ سچ بھی تھا کیونکہ اس وقت پورے گاؤں میں کوئی دوسرا لڑکا میٹرک پاس نہ تھا ۔ اب آپ کے والدین چاہتے تھے کہ آپ نوکری کرکے اپنی خانگی ذمہ داریاں ادا کریں مگر علم کے حصول کی جو لگن آپ کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جما چکی تھی وہ تمام دنیاوی أمور کے ساتھ ساتھ آپ کو آگے اور مزید آگے لے جانے کا ذریعہ بنتی رہی اور آپ تمام عمر ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ طالب علم کا کردار بھی نبھاتے رہے۔

یہ بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ پروفیسر حافظ احمد یار نے اپنا سارا تعلیمی سفر بڑے طویل وقفوں سے مکمل کیا۔یعنی آپ کو ہماری طرح سازگار مواقع نہیں ملے کہ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر تسلسل سے طے کر لیا اور پھر لیکچرار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغازہو گیا بلکہ آپ کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا تھا اور آپ نے بڑی ثابت قدمی اور حوصلے سے اپنی منزل کے سنگ میل خود تراشے اور دوسرو ںکو منزل تک پہنچنے کا حوصلہ اور رہنمائی فراہم کی۔

آپ کی ساری زندگی ایک جہد مسلسل تھی اور اس ساری جدوجہد میں آپ کی زوجہ محترمہ عالم خاتون آپ کی شریک سفر رہیں ۔ انہوں نے بہت ساری ذمہ داریاں خود سنبھالیں اور آپ کو تعلیم کے حصول کے لئے نہ صرف وقت دیا بلکہ مالی طور پر بھی خچود مشکلات برداشت کیں لیکن آپ کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے رہے۔

اسی دوران ۱۹۴۶ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹا عطاکیاآپ نے اپنے بیٹے کا نام نعم العبد رکھا۔ آپکا بیٹا بھی آپ ہی کی طرح ذہین تھا۔ آپ فخریہ انداز میں بتایا کرتے تھے کہ جب نعم العبد بہت چھوٹا تھا یعنی دو یا تین سال کا بچہ تھا تو میں رات کے کھانے کے بعد اسے اپنے سینے پر لٹا لیتا تھا اور اسے نماز سناتا تھا کچھ عرصے کے بعد وہ میرے ساتھ نماز دہرانے لگا اور نتیجہ یہ نکلا کہ چار سال کی عمر میں بچے کو پوری نماز زبانی یاد ہو چکی تھی۔ نعم العبد کے بعد ۱۹۶۸ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹی سے نوازا آپ نے اسکا نام صفیہ رکھا۔پھر ۱۹۵۱ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسرا بیٹا عطا کیا آپ نے اسکا نام ذوالقرنین رکھا۔ آپ کی بیٹی صفیہ ۱۹۵۳ء میں پانچ سال کی عمر میں فوت ہو گئی آپ اس کی وفات پر بہت افسردہ ہوئے۔

آپ کی زندگی میں ایک انتہائی اہم موڑ اس وقت آیا جب آپ نے اخبار میں پڑھا کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم ۔اے اسلامیات کی کلاسز شروع ہو رہی ہیں۔اخبار میں یہ خبر پڑھ کر آپ لاہور چلے آئے اور ۱۹۵۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ۔اے اسلامیات کے امتحان میں أول پوزیشن اور گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ اس شاندار کامیابی کے بعد آپ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں اسلامیات کے لیکچرار کی حیثیت سے فرائض سر انجام دینے لگے ۔اب آپ مزید آگے پڑھے اور ۱۹۵۷ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ۔اے عربی کا امتحان بھی أول پوزیشن سے پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا۔

لاہور میں قیام کے دوران پروفیسر حافظ احمد یار کو بڑی شد ت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میرے بیٹوں کو بھی لاہور میں تعلیم حاصل کرنے چاہیے چنانچہ جو نہی انہیں اسلامیہ کالج میں ملازمت ملی وہ اپنی زوجہ محترمہ اور دونوں بیٹو ں کو لاہور لے آئے اور اچھرہ میں کرائے کے مکان میں سکونت اختیار کی اپنے دونوں بیٹوں کو اس وقت کے ایک معروف تعلیمی ادارے ’’نیا مدرسہ‘‘ میں داخل کروایا اور یوں زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو گئی مگر آپ کی زندگی میں ایک خلش باقی تھی کہ آپ کی بیٹی جو فوت ہو گئی تھی وہ آپ کو بہت یاد آتی تھی۔آپ سوچتے کہ اللہ نے وہ رحمت عطا کر کے مجھ سے واپس لے لی کہیں وہ مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا ۔آپ اور آپ کی زوجہ محترمہ اللہ تعالیٰ سے بیٹی کے طلبگار تھے اور دعائیں مانگتے رہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں کی دعاؤں کو یوں شرف قبولیت بخشاکہ آپ کو چار بیٹیاں عطا کیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی اس عطا پر اسکا شکر ادا کیا اور بیٹوں کی طرح بیٹیوں کی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔آپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے دوران ایک سخت گیر باپ ثابت ہوئے۔ آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ آپ ہر کام میں پر فیکشن چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نہ صرف اپنے معاملات میں پرفیکشن کے قائل تھے بلکہ اپنی اولاد میں بھی کوئی کجی یا کمی برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن جب آپ کے بچے تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزر کر عملی زندگی میں داخل ہو گئے تو پھر آپ سے زیادہ شفیق اور محبت کرنے والا باپ شاید کوئی دوسراہو گا۔

۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء تک پروفسیر حافظ احمد یار اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے وابستہ رہے ۱۹۶۴ء میں آپ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ سے منسلک ہو گئے اور طالبان علم کو اپنے علم کے چشمے سے سیراب کرنے لگے ۔اس زمانے میں آپ تدریسی فرائض سرانجام دینے کے بعد اپنا بیشتر وقت کتابوں کی دکانوں میں گزارتے اور نادر و نایاب کتب خرید کر شعبہ علوم اسلامیہ کی لائبریری کو وسعت دیتے رہے ۔اسی زمانے میں آپ نے اپنی ذاتی لائبریری میں بھی کافی کتب ذخیرہ کرلی تھیں اور کتابیں خریدنے اور مطالعہ کرنے کا شوق اپنی انتہا پر تھا ۔ آپ کہا کرتے تھے کہ جب تک میں کتاب خرید کر نہ پڑھوں میری تسلی نہیں ہوتی یہ بھی آپ کی خودداری اور خود انحصاری کا خوبصورت اظہار تھا کہ آپ کسی سے کتاب مستعار لے کر پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ جو کتاب دل کو بھا جاتی وہ خرید کر پڑھتے اور اپنی ذاتی لائبریری کی رونق میں اضافہ کرتے ۔آپ نے مالی طور پر بہت زیادہ مستحکم نہ ہونے کے باوجود مہنگی سے مہنگی کتاب خریدنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔

آپ کی ذاتی لائبریری میں سیرت ،تاریخ ، عربی،ادب ،تفسیر،حدیث اور فقہ کے موضوع پر کثیر کتب موجود تھی اس کے علاوہ سپیس سائنس اور میڈیکل سائنس میں بھی کتب آپ کے پاس موجود تھیں ۔ ایک طرف آپ تفسیر اور تقابل أدیان کے ماہر استاد تھے تو دوسری طرف عربی رسائل کے ساتھ ساتھ آپ نیشنل جیوگرافک میگزین کے بھی مستقل قاری تھے۔آپ کی ذاتی لائبریری میں ان تمام رسائل کی کئی سال کی پوری پوری فائل موجود تھی ۔آپ کہا کرتے تھے کہ میری لائبریری میں ہر موضوع پر کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے۔ایک مرتبہ کسی نے ان سے ازراہ مذاق پوچھا کہ حافظ صاحب کیا آپ کی لائبریری میں خوابوں کی تعبیر سے متعلق بھی کوئی کتاب موجود ہے؟ سوال کرنے والے کو علم تھا کہ وہ خواب اور خواب کی تعبیر سے متعلق لوگوں کی باتوں کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ نہ تو ہر آدمی کو سچا اور بامعنی خواب دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ہر شخص خواب کی درست تعبیر بتانے پر قادر ہو سکتا ہے اسی لئے وہ خواب اور خواب کی تعبیرسے متعلق سوال جواب کو ناپسند کرتے تھے اور اسی لئے سوال کرنے والے نے ان سے ایسا سوال پوچھا تھا ۔پروفیسر حافظ احمد یار سوال میں چھپے طنز اور مزاح کو محسوس کر کے مسکرائے اور کہا خوابوں کی تعبیر سے متعلق میرے پاس کوئی مستقل کتاب تو نہیں ہے لیکن مشہور زمانہ بہشتی زیور نامی کتاب میں کچھ صفحے خواب اور اسکی تعبیر کے بارے میں لکھے گئے ہیں ۔ اس لئے میں کہ سکتا ہو ں کہ اس موضوع پر بھی میرے پاس مختصر سہی مگر تحریری مواد موجود ہے ۔

پروفیسر حافظ احمد یار کی لائبریری میں سب سے زیادہ نادر و نایاب اور قیمتی ذخیرہ قرآن پاک کے نسخوں کا تھا ۔آپ کے دل میں قرآن پاک کی شدیدمحبت بچپن سے موجود تھی یہی وجہ تھی کہ آپ کو عین عہد شباب میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی پھر آپ ہر سال ماہ رمضان میں تراویح میں قرآن پاک سنانے کی سعادت بھی حاصل کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو قرآن پاک کے خوبصورت نادر اور نایاب نسخے جمع کرنے کا بھی شوق تھا ۔آپ کو جہاںقرآن پاک کا کوئی ایسا نسخہ نظرآتا جو کتابت ،طباعت اور رسم الخط کے اعتبار سے کسی امتیازی خصو صیت کا حامل ہوتا آپ اسے ہر قیمت پر حاصل کرتے اور اپنی لائبریری کی زینت بناتے۔آپ کی لائبریری میں مختلف ممالک میں چھپنے والے مختلف قرأت اور رسم الخط میں چھپے ہوئے قرآن پاک موجود تھے۔افریقی ممالک میں چھپنے والے قرآن پاک کی تلاوت ہم پاکستانیوں کے لئے ناممکن ہے لیکن حافظ قرآن ہونے اور قرآن کا گہرا فہم رکھنے کی وجہ سے آپ ان کی تلاوت کرنے پر قادر تھے لہذا افریقی ممالک میں چھپنے والے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ مصحف عثمانی کا ایک نسخہ بھی آپ کے پاس موجود تھا ۔ قرآن پاک کے مختلف نسخے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کو قرآن پاک کی مختلف قراء ا ت سے بھی خاص لگاؤ تھا اور مختلف قاری حضرات کی آواز میں مختلف قراء ات میں ریکارڈ شد ہ کیسٹسس کا ایک بڑاذخیرہ بھی آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود تھا۔

اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں پڑھانے کے دوران آپ نے قرآن پاک کے مختلف نسخوں کی نمائش کا اہتمام کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔غالباًیہ قرآن پاک کے مختلف نسخوں کی پہلی اور کامیاب نمائش تھی ۔اس کے بعد تمام عمر آپ قرآن پاک کے مختلف نسخے جمع کرتے رہے۔ آپ کے قریبی دوست بھی آپ کو قرآن مجید کے نادر نسخے تحفے میں دینا پسند کرتے تھے ۔آپ کو قرآن پاک کے نسخے جمع کرنے کے شوق کے ساتھ ساتھ مقامات سیرت سے بھی خاص لگاؤ تھا ۔آپ فریضہ حج کے لئے سعودی عرب گئے تو وہاں بڑی کوشش سے متعلقہ مقامات سیرت کو تلاش کرتے رہے اور ان کی زیارت سے روحانی سکون حاصل کرتے رہے ۔یہ آپ کی تاریخ اور جغرافیہ سے د لچسپی اور محبت کا عملی ثبوت تھا۔

قرآن پاک سے آپ کے دلی لگاؤ اور ذہنی میلان ہی کی وجہ سے آپ نے اپنے سب بچوں کے نام قرآن پاک سے منتخب کئے۔آپ نے اپنے بچوں کو قرآن پاک خود پڑھایا کیونکہ قرآن پاک کی درست تلاوت میں کسی کوتاہی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔قرآن پاک پڑھتے وقت جہاں بچے نے دوسری یا تیسری غلطی کی وہیں سبق روک دیا جاتا اور سبق اچھی طرح یاد کرنے کی تلقین ہوتی۔آپ کبھی قرآن پاک جلد ختم کرنے کی بات نہیں کرتے تھے ہمیشہ صحیح پڑھنے کی ہدایت کرتے خواہ ایک صفحے پر دو دن کیوں نہ لگ جائیں ۔آپ قرآن پاک کی تحفیظ کے بعد اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کے معاملے میں بہت محتاط تھے۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر قرآن پاک کی ایک آیت کو بھی یاد کر کے بھلا دیا جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے لہذاقرآن پاک کے جتنے حصے کو بھی یاد کرو اسے ہمیشہ یاد رکھو۔

پروفیسر حافظ احمدیارؒ اعلیٰ پائے کے محقق اور مقالہ نگار بھی تھے ۔آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی میں ایم۔اے اسلامیات کے ایک پیپر کے طور پر جو مقالہ تحریر کیا اسکا عنوان ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ تھا۔قرآن پاک میں وراثت کے موضوع پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور وراثت کی غلط تقسیم گناہ کبیرہ میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے مقالے کا موضوع انتہائی اہم ، نازک ،پیچیدہ ،تحقیق طلب اور مشکل تھا مگر بفضلہ تعالیٰ آپ نے ایسا مستند تحقیق مقالہ پیش کیا جو تیس (۳۰)سال بعد کسی تبدیلی کے بغیر ادارہ علوم اسلامیہ ے شائع کیا گو یا زمانہ طالب علمی میں بھی آپ ایک بالغ النظر محقق تھے۔ آپ نے دستور حیاء، دین وادباور تفہیم آیات کے نام سے کتب بھی تحریر کیں جو قرآن پاک کی مختلف سورتوں کی تفسیر پر مشتمل ہیں ۔آپ کے تحریر کردہ مضامین فکرو نظر اورحکمت قرآن میں بھی شائع ہوتے رہے۔

۱۹۸۸ء میں بارہویں قومی سیرت کانفرنس میں آپکا تحریر کردہ مقالہ أول انعام کا حقدار ٹھہرا اورا ٓپ کو قومی سطح کے بہترین مقالہ نگار کے اعزاز کے طور پر گولڈ میڈل اور /=۲۵۰۰روپے کی مالیت کے پرائز بانڈ دیئے گئے ۔اس کے ساتھ ساتھ سرکاری خرچ پرآپ کو عمرہ کے لئے بھی بھجوا یا گیا۔

۱۹۸۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے انجمن خدام القرآن ،لاہور کے نام اور مقاصد سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ منسلک ہونے کا فیصلہ کیا اور تاحیات اس سے وابستہ رہے۔یہاں آپ عربی گرائمر ،قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے رہے اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی تحریر کر تے رہے ۔اسی دوران آپ نے اعراب القرآن کے نام سے ایک دقیق علمی تفسیر لکھنے کا آغاز کیا ۔یہ اردو زبان میں اپنی نہج کا منفرد اور اچھوتا کام ہے جس میں آیات کے ہر لفظ کو چار پہلوؤں سے زیر بحث لایا گیا ہے(i)لغت (ii)اعراب (iii)رسم الخط اور (iv)علامات ضبط ۔یہ تفسیر ماہنامہ ’’حکمت قرآن ‘‘ میں اقساط میں چھپتی رہی لیکن یہ آپ کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکی اور ہنوز تشنۂ تکمیل ہے۔

پروفیسر حافظ احمد یار اپنی عام زندگی میں انتہائی سادہ مزاج انسان تھے۔آپ نمود و نمائش سے کوسوں دور تھے۔گھر میں گائے اور بھینس کے علاوہ مرغیاں بھی پال رکھی تھیں ۔گائے اور بھینس سے بہت پیار کرتے اور اکثر ان کے لئے چارہ خود لے آتے تھے ۔آپ کی طبیعت میں محبت اور ملنساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔سب سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے۔بہترین دوست پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان اور چوہدری صفدر علی تھے ۔ان کو سگے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اپنے گھریلومعاملات میں ان سے مشورہ کرتے اور انتہائی بے تکلفی کے ساتھ ان سے گفتگو کرتے ۔آپ کی شخصیت میں کوئی تضاد نہیں تھا ۔ آپ جیسے تھے ویسے ہی سب کو نظر آتے تھے ۔حقوق اللہ ادا کرنے میں کوتاہی نہیں برتتے تھے اور حقوق العباد کے معاملے میں بھی بہت محتاط تھے ۔ ایک مرتبہ کہنے لگے میں اکثر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یااللہ میری وجہ سے کسی سزانہ دینا اور کسی کی وجہ سے میری گرفت نہ کرنا یعنی اگر کسی نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے تو میں اسے معاف کرتا ہوں میری وجہ سے اس کو سزانہ ملے اور اسی طرح اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو تو مجھے معاف کر دے اس کی وجہ سے مجھے سزانہ ملے ۔ اپنی دعاؤں میں اپنی ذات اور اھل خاندان کے علاوہ دیگر افراد کو بھی خصوصی طور پر یاد رکھتے ۔عشاء کی نماز کے بعد طویل دعا مانگتے ۔ان دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی :

اللھم ارحم امۃ محمد عامۃِِ۔
یعنی اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری أمت پر رحم فرما ۔ آمین ۔

قناعت پسندی آپ کی شخصیت کا لازمی جزو تھی ۔کبھی مال و دولت کو وجہ افتخار نہ جانا ۔انسان کی عزت کا معیار اس کی صلاحیتوں کو مانا۔صاحبان جاہ و حشمت سے کبھی مرعوب اور متأثر نہیں ہوئے ۔غریب رشتہ داروں اور ملا قاتیوں کو کبھی حقیر نہیں جانا۔حلال اور حرام کا فرق ہمیشہ پیش نظر رہا۔سود سے ہمیشہ دور رہے۔اپنے گھر کی تعمیر کے دوران قرض لینے کی ضرورت پیش آئی تو بینک سے قرض لینا پسند نہ کیا کہ پھر اس پر سود بھی ادا کرنا پڑے گا بلکہ اپنے متمول رشتہ داروں سے قرض لیا ۔ قرض لینے کے بعد شرعی طور پر اسے ضابطہ تحریر میں لاتے اور ادا کرتے وقت ادائیگی کی رسید لیتے ۔کچھ عزیزوںنے اس پر اعتراض بھی کیا کہ ہمیں آپ پر اعتماد ہے لکھ کر دینے کی کوئی ضرورت نہیں مگر آپ نے انہیں یہ کہہ کر لا جواب کر دیا کہ بھائی تمھاری اور میری مرضی یا خواہش پر اللہ کا حکم مقدم ہے لہذا اللہ کے حکم پر عمل کرنا لازم ہے۔

آپ کی دو بیٹیوں نے جب ماسٹرز مکمل کیا اس وقت حکومت پاکستان نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لئے قرض دینے کی سکیم شروع کر رکھی تھی۔ کسی جاننے والے نے دو فارم حافظ احمد یار صاحب کو لا کر دیئے کہ دونوں بیٹیوں کے نام پر قرض حاصل کرکے ایک پرائیویٹ سکول کا آغاز کر دیا جائے آپ نے فارم کو غو ر سے پڑھا اورکہنے لگے باقی تو سب معقول ہے لیکن قرض کی ادائیگی کے ساتھ سود بھی ادا کرنا پڑے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ جس کام کا آغاز سودی قرض کے ساتھ ہو گا اس میں ہمارے لئے کوئی برکت ہو گی لہذا میں اس سکیم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اور فارم واپس کر دیئے۔

پروفیسر حافظ احمد یارانتہائی راست گو انسان تھے ۔آپ کبھی اپنے یا اھل خانہ کے فائدے کے لئے بھی جھوٹ نہیں بول سکتے تھے ۔ آپ کی اس خوبی کا اعتراف آپ کے تمام رشتہ دار اور جاننے والے برملا کرتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ حافظ صاحب کبھی دروغ گوئی سے کام نہیں لیں گے خواہ تمام معاملات ان کے خلاف ہی کیوں نہ چلے جائیں۔یہی وجہ ہے کہ خاندانی معاملات میں آپ کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔دوران ملازمت آپ اپنے معاملات اور پرچوں کی چیکنگ میں انتہائی ایمانداری کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگ آپ کو پرچوں میں نمبر بڑھانے کی سفارش کرنے سے کتراتے تھے کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حافظ صاحب کبھی اس پر راضی نہ ہوں گے۔
خودداری اور وضعداری آپ کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔اگرچہ آپ کے مزاج میں غصے کا عنصر غالب تھا اکثر اوقات جلد غصے میں آجاتے تھے لیکن کسی غلط بات پر ہٹ دھری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جونہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا فوراً اسکا اعتراف کرتے اور دوسرے فریق کی بات سے اتفاق کر لیتے ۔دوسروں کی مدد کرکے انتہائی خوشی محسوس کرتے کسی کو مالی تعاون درکار ہوتا تو اسے قرض حسن دینا پسند کرتے ۔انکا کہنا تھا کہ قرض حسن سے مدد مانگنے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اور جب وہ قرض واپس کرے تو اسی رقم سے کسی دوسرے ضرورت مند کی مدد کی جا سکتی ہے ۔ البتہ قرض دار کے ساتھ نرمی اور قرض کی ادائیگی کے لئے مہلت دینے کے قائل تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ کسی بھی محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا زیادہ معاوضہ ادا کیا جائے اس طرح اس کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ مزید محنت کو اپنی عادت بنائے گا۔کسی طالب علم کی تحصیل علم میں مالی معاونت کو بہت بڑی نیکی شمار کرتے تھے ۔انکا کہنا تھا کہ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں کوئی ذہین طالب علم اپنی مالی مشکلات کا شکار ہو کر علم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے ۔اپنے اردگرد موجود لوگوں اور رشتہ داروں کی مالی ضروریات اور مشکلات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے اور حتی المقدور ان کی مدد بھی کرتے ۔

ہمارے معاشرے میں گھریلوخواتین اور مرد حضرات اکثر کمیٹی ڈالتے ہیں ۔جس میں شامل تمام افراد ہر ماہ ایک مخصوص رقم کسی ایک رکن کے پاس جمع کرواتے ہیں اور پھر ہر ماہ باری باری ایک رکن وہ جمع شدہ رقم وصول کرلیتا ہے ۔ اس طرح یہ کمیٹی سال ،دوسال یا تین سال تک چلتی رہتی ہے۔ حافظ صاحب کمیٹی ڈالنے کے سخت خلاف تھے ۔انکا کہنا تھا کہ کس کو معلوم ہے کہ وہ دو تین سال تک زندہ رہے گا اور کمیٹی اداکرتا رہے گا۔ ایک مرتبہ ان کے ساتھی رفقاء نے ان سے کہا کہ یہاں کام کرنے والے سب متوسط طبقے کے لوگ ہیں اور کمیٹی کی رقم یکمشت مل جانے سے وہ اپنی کوئی جائز بڑی ضرورت پوری کر لیتے ہیں اور رقم کی ادائیگی ہر ماہ قسطوں میں ہوتی رہتی ہے اس طرح سب لوگوں کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے ۔بات میں وزن تھا اور دوسروں کی مدد بھی نظر آرہی تھی سو آپ فوراًقائل ہو گئے اور کمیٹی میں حصہ ڈال لیا لیکن شرط یہ رکھی کہ میں سب سے آخری کمیٹی لوں گا تاکہ جب رقم مجھے ملے تو میں اس سے پہلے پوری رقم ادا کر چکا ہوں گا اور اس طرح میں ہر مہینے کسی ایک رکن کی مدد میں بھی شامل رہوں گا۔ ظاہر ہے اس شرط پر کسی رکن کو کوئی اعتراض نہیں تھا لہذا فوراً مان لی گئی ۔ اس طرح پروفیسر حافظ احمد یار نے اپنے فائدے پر دوسرے کے فائدے کو مقدم رکھا۔ سچ ہے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔

پروفیسر حافظ احمد یار کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا ۔یہی وجہ ہے کہ کھیت اور کھلیان سے آپ کی محبت فطر ی تھی ۔ لیکن جب آپ لاہور میں مستقل قیام پذیر ہوئے تو گاؤں اور کھیتوں سے دور ہو گئے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے آپ اپنے گھر کے مخصوص حصے میں سبزیوں کے ساتھ ساتھ گنے ، کپاس، مونگ پھلی وغیرہ بھی لگا لیتے ۔اس کے علاوہ پھل دار درخت لگانے کا بھی شوق تھا ۔اپنی وفات سے چھ ماہ قبل آپ نے اپنے گھر میں انجیر کا پودا لگایا تھا۔ گلاب او ر موتیا آپ کو بہت پسند تھے ۔اگر کبھی کسی دوست کے ساتھ پھلوں کے باغات میں جانے کا موقع ملتا تو ہر قسم کے پھل دار درخت دیکھ کر بہت مسرور ہوتے۔

پروفیسر حافظ احمد یار اپنے تدریس فرائض انتہائی محنت ،لگن اور خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے اور حتی الوسع وہ اپنا پیریڈ خالی نہیں چھوڑتے تھے۔اپنے پرچے کا پورا کورس پڑھاتے اور پورے کورس میں سے ہی پرچہ سوالات مرتب کیا کرتے تھے ۔وہ منتخب حصوں کی تدریس یا کورس کے منتخب حصوں کے مطالعہ کے قائل نہیں تھے اس لئے طلبہ کو ان کے پرچے میں زیادہ محنت کرناپڑتی تھی ۔بطور استاد ان میں بہت سی خوبیاں تھیں ۔وہ وقت پر کلاس میں آتے ۔پورا وقت تدریسی کام میں مشغول رہتے ۔غیر ضروری گفتگو سے اجتناب پرتتے اور طلبہ کے علمی اور دینی نوعیت کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیا کرتے تھے ۔حافظ صاحب مرحوم کی ساری زندگی علمی مشاغل سے عبارت رہی اگرچہ وہ تمام علوم و فنون کا مطالعہ رغبت اور توجہ سے کرتے تھے لیکن ان کی دلچسپی کے میدان محدود تھے ان میں علوم قرآن ، سیرت طیبہ ، مسلمانوں کی خطاطی اور جغرافیائی معلومات چار ایسے علمی موضوعات ہیں جن سے ان کی دلچسپی اور وابستگی مستقل بنیادوں پر قائم رہی۔

سیرت طیبہ کے موضوع سے انہیں دلی لگاؤ تھا۔چنانچہ مطالعہ سیرت طیبہ کے فروغ اور اس مضمون کو یونیورسٹی کی سطح پر مقبول بنانے کے لئے وہ ہر طرح کو شاں رہے ۔۶۰ء کی دہائی میں انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں کتب سیرت کی نمائش کا اہتمام کیا۔ غالباً پاکستان میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی نمائش تھی جس میں بڑی تعداد میں کتب سیرت پیش کی گئیں۔اس نمائش کا علمی پہلو یہ بھی ہے کہ حافظ صاحب کی کوششوں سے اس نمائش کی فہرست کتب بھی شائع ہو ئی جو پاکستان میں سیرت طیبہ پر پہلی مرتب ببلیو گرافی کا درجہ رکھتی ہے۔

مطالعہ سیرت اور سیرت نگاری سے حافظ صاحب کی دلچسپی عمر بھی قائم رہی ۔وہ خاموشی سے علمی کام کرنے کے قائل تھے۔ انہیں کا نفرنسوں اور سیمینار ز میں شرکت کا شوق نہیں تھا اس کے باوجود وہ وزارت مذہبی أمور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی سیرت کا نفرنسوں میں شریک ہوتے اور اپنے مقالات پیش کرتے رہے جو وزارت مذہبی أمور کی طرف سے چھپنے والے مجموعہ ہائے مقالات میں موجود ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ انجمن خدام القرآن اور قرآن اکیڈیمی سے منسلک ہو گئے تھے اور قرآن اکیڈیمی کے دو سالہ کورس میں وہ طلباء کو پہلے سال عربی زبان سے روشناس کرانے کے لئے عربی گرائمر کی مشہور کتاب عربی کا معلمکے چاروں حصے پڑھاتے اور پھر دوسرے سال قواعد عربی کے ساتھ پورے قرآن حکیم کا ترجمہ پڑھاتے تھے۔ ۱۹۸۷ء۔۱۹۸۸ء کے سیشن میں حافظ صاحب مرحوم کے لیکچرز کی آدیوریکارڈنگ کا اہتمام کیا گیا تاکہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں قائم قرآن اکیڈیمیز میں بھی ان سے استفادہ کیا جا سکے اور دیگر مدرسین حضرات ان کیسٹسس سے رہنمائی حاصل کرکے ترجمہ قرآن کی تدریس کا کام بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔ حافظ صاحب کے ترجمہ قرآن پر مشتمل لیکچرز ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے ۱۸۹ آڈیو کیسٹوں میں ہیں ۔ بلاشبہ یہ کیسٹ طالبان علم قرآن کے لئے نعمت عظمٰی کا درجہ رکھتے ہیں ۔حافظ صاحب کی وفات کے بعد آپ کے بڑے بیٹے ڈاکٹر نعم العبد نے محسوس کیا کہ قرآن پاک سے حد درجہ شغف رکھنے کے باوجود ۱۸۹ کیسٹس کو خریدنا ،سنبھالنا اور ان سے استفادہ حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لہذا علم کے اس خزانے کو عام کرنے کے لئے ڈاکٹر نعم العبد نے قرآن اکیڈیمی اور قرآن کالج کے منتظمین کے تعاون سے ان تمام ۱۸۹ کیسٹس میں موجود علمی مواد کو ایک * ڈی وی ڈی پر منتقل کر کے متعارف کروایا۔اس ڈی وی ڈی کی تعارفی تقریب ۱۸ مارچ ۲۰۰۸ء کو ڈاکٹر اسرار احمد کی زیر صدارت قرآن آڈیٹوریم ،نیوگارڈن ٹاؤن میں منعقد ہوئی۔اس تقریب میں پروفیسر حافظ احمد یار کے قریبی دوست ،رفقاء ،اہل خانہ اور شاگرد شریک ہوئے۔ ۱۵ مئی ۱۹۹۷ء کو حافظ صاحب کی وفات کے تقریباً گیارہ سال بعد ۱۸ مارچ ۲۰۰۸ء کو منعقد ہونے والی اس تقریب نے ثابت کر دیا کہ اللہ پر توکل کرنے والے افراد کے کام ان کی زندگی کے بعد بھی اللہ کے خاص فضل و کرم سے انجام پا جاتے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم کی مغفرت فرمائے،انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اوران کی علمی کاوشوں سے طالبان علم کو مستفید فرمائے ، آمین۔ طالبان علم کی سہولت کے لئے کاوش کرنے والے تمام اہل علم حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق دے کر ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا دے ۔آمین ۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔