علم   مشکل القرآن ۔ حکمت و اسباب

حافظہ ضوفشاں نصیر

    اللہ رب العزت کے بنی آدم پر بے شمار احسانات ہیں خاص طور پر امت مصطفی پر کہ اللہ جل جلالہ نے اس امت کو حضرت محمد ﷺ جیسے عظیم المرتبت رسول نصیب فرمائے جن کی رسالت عالمگیر ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے    {وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ} (۲)

  (  اور جو کتاب رسالت مآب ﷺ کے وسیلے سے اس امت کو ملی وہ قیامت تک ہر قوم کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے فرمایا     {اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ} (۲

    قرآن مجید اللہ رب العزت کی طرف سے نبی اکرم  ﷺ کا زندہ جاوید معجزہ ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب بیان ، قوت استدلال ، نظم و ضبط، تذکیر اور رشد و ہدایت کے اعتبار سے ایک معجزہ ہے۔

    قرآن مجید میں مسائل اور احکام کا ذکر بڑی صاف ، سادہ اور آسان زبان میں کیا گیا ہے لہذا اہل عرب عربی زبان سے واقف ہو نے کی بناء پر قرآن کے مضامین کو آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ  بھی یہ ہی چاہتے تھے کہ قرآن کے اس مفہوم اور مطالب و معانی پر توجہ مرکوز رکھی جائے جو پہلی نظر میں سمجھ آ جاتے ہیں متشابہ آیات کی تاویل کی گہرائیوں سے واقفیت، صفات باری تعالیٰ کے باریک اور پیچیدہ حقائق سے بحث اور قصوں کی تفصیلات جاننے میں اپنا وقت صرف نہ کیا جائے لہذا دور نبوی ﷺ میں ان مسائل کے بارے میں بہت کم سوالات کیے گئے اور بہت کم جوابات دئیے گئے جب اسلام میں عجمی عناصر کا اضافہ ہوا تو انہیں قرآن فہمی میں دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ عجمیوں کی مادری زبان عربی نہ تھی۔ انہیں اکثر مقامات پر قرآن کا صحیح مفہوم سمجھنے میں دشواریاں پیش آنے لگیں اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ پہلے عربی زبان کی لغت اور قواعد کا علم حاصل ہو پھر اس کے ذریعے قرآن فہمی کی منزل سر کی جائے۔

    اس طرح تحقیق و تلاش، سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا حتی کہ تفسیر کا باقاعدہ علم وجود میں آگیا۔  اُس دور میں جتنے بھی علوم مدون ہوئے ان کا بنیادی محرک قرآن فہمی اور قرآن کے مشکل مقامات کو حل کرنا تھا مثلاً علم لغت، علم الصرف، علم النحو، علم اصول تفسیر ، علم تفسیر، علم حدیث، علم اصول حدیث، علم فقہ ، علم اصول فقہ وغیرہ کیونکہ ان تمام علوم کا براہ راست تعلق قرآن کو سمجھنے ، اس کی مراد تک پہنچنے اور ان کی تعبیر و تشریح ہے ۔

    مشکل القرآن اور  متشابہ القرآن ان دونوں اصطلاحات کا تذکرہ علوم القرآن میں ملتا ہے۔ متقدمین سلف صالحین کے ہاں ان دونوں اصطلاحات کا کوئی فرق نہیں ہے جبکہ متاخرین خاص طور پر میں علمائے اصولیین میں سے اصحاب احناف نے ان دونوں میں فر ق کیا ہے۔ بہرحال اگرچہ یہ دونوں الگ الگ فنون ہیں البتہ ان میں موافقت بھی پائی جاتی ہے۔

    مشکل کا لغوی معنی

    اس کا مادہ ش۔ک۔ل ہے فتحہ کے ساتھ الشکل پڑھا جاتا ہے اس کی جمع اشکال اورشکول آتی ہے۔ لغت میں مشتبہ اور غیر واضح معاملہ کو مشکل کہتے ہیں۔ جیسا کہ امام ازھری فرماتے ہیں:

   ( یقال:  اشکل علیّ الامر اذا اختلط، التبس، مشکل: مشبہ ملتبس (۳

    مشکل کے اصطلاحی معنی

    مشکل کا لفظ بہت سے علوم مثلاً اصول فقہ ، اصول حدیث، تفسیر وغیرہ میں مشترک ہے اور تمام علماء نے اپنے اپنے فن کے مطابق اس کی وضاحت کی ہے۔

    امام سرخسی نے مشکل کی تعریف اس طرح ذکر کی ہے:

(    ھو اسم لما یشتبہ المراد منہ بد خولہ فی أشکالہ علی وجہ لا یعرف المراد الاّ بدلیل یتمیّزُ بہ من بین سائر الاشکال (۴

    یعنی مشکل کا اطلاق ایسے مفہوم پر ہوتا ہے جس کی مراد اپنے ہم شکل معانی میں خلط ملط ہو جانے کی بناء پر مشتبہ ہو جائے اور جب تک کوئی ایسی دلیل نہ آ جائے کہ جو اس کو دیگر ہم مشکل معانی سے ممتاز نہ کر دے اس کی مراد معلوم نہ کی جا سکے ۔

 (  سید شریف جرجانی لکھتے ہیں:    ھو مالا ینال المراد منہ الاّ بتامّل بعد الطلب المشکل: ھو الداخل فی أشکالہ، ای فی أمثالہ وأشباھہ (۵

    یعنی مشکل وہ ہے کہ جس کی مراد تلاش و بسیار اور غورو فکر کے بعد ہی معلوم ہو مشکل کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے ہم شکل اور ہم مثل میں داخل ہو جاتا ہے۔

    ابن قتیبہ نے مشکل کی تعریف اس طرح کی ہے:     ثمّ قد یقال لکل ما غمض ودقّ: المتشابہ: وان لم تقع الحیرۃ فیہ من جھۃ الشبہ بغیرہ الاتری أنہ قد قیل لحروف المقطعۃ فی أوائل السور: متشابہ و لیس الشک فیھا، والو قوف عند ھا لمشا کلتھا غیر ھا، والتبا سھا بھا۔ ومثل المتشابہ المشکل، وسمیّ مشکلا: لا نہ أشکل، ای دخل فی شکل غیرہ فأ شبھہ وشاکلہ۔ ثم قد یقال لما غمض وان لم یکن غمو ضہ من ھذہ الجھۃ مشکل (۶

    بسا اوقات ہر اس چیز کو متشابہہ کہہ دیا جا تا ہے جس کا مفہوم پوشیدہ اور پیچیدہ ہو۔ اگرچہ اس میں پیچیدگی اور حیرانی کا سبب کسی چیز کے ساتھ مشابہت نہ بھی ہو آپ دیکھتے نہیں کہ سورتوں کی ابتداء میں آنے والے حروف مقطعات کو متشابہہ کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ ان میں نہ ہی کوئی شک ہے اور نہ ہی ان کے ملتبس اور غیر کے ساتھ مشاکلت کی بناء پر ان کا سمجھنا مشکل ہے۔

    اور متشابہہ کے مثل مشکل ہے اسے مشکل اس بناء پر کہا جاتا ہے کہ یہ غیر کے مشابہ اور ہم شکل ہو کر اس کے مفہوم میں داخل ہو جاتا ہے چنانچہ بسا اوقات ایسے لفظ کو بھی مشکل کہہ دیا جاتا ہے کہ جس میں غموض ہو اگرچہ یہ غموض اس قسم کا نہ بھی ہو۔

    ان تعریفات کی روشنی میں ہم مشکل کی درج ذیل جامع تعریف بیان کر سکتے ہیں:

    مشکل القرآن سے مراد وہ آیات قرآنیہ ہیں جن کی مراد، مفہوم اور مطلب سمجھنے میں التباس، اخفاء ، ابہام، اشتباہ اور پیچیدگی پائی جاتی ہو۔ اس کا سبب آیات کا باہم تعارض ہو نا بھی سکتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا سبب بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔

    پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒنے بھی مشکلات القرآن کی وضاحت اسی طرح کی ہے وہ فرماتے ہیں:

    مشکل القرآن  یا  مشکلات القرآ ن سے مراد وہ مباحث ہیں جن کو سمجھنے کے لیے بڑی غیر معمولی احتیاط اور غورو فکر کی ضرورت ہے یہ وہ مباحث ہیں کہ جن کے بارے میں غورو فکر اور احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو بہت سی غلطیاں اور الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں(۷

    متشابہ القرآن

    ابتداء میں اس اصطلاح کا ذکر ہوا تھا یہاں متشابہ کے لغوی اصطلاحی معنی ذکر کر کے مشکل القرآن کے ساتھ اس کی مناسبت بیان کی جا رہی ہے تاکہ یہ اصطلاح بھی واضح ہو سکے۔

    متشابہ کا لغوی معنی

    اس کا مادہ ش ب ہ ہے یہ شین کے فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے اس کی جمع اشباہ آتی ہے۔  لسان العرب میں اس کے معنی اس طرح سے ذکر ہوئے ہیں۔

    المشکلات: المتشابھات: المتماثلات والتشبیہ: التمثیل (۸

    لہذا متشابہ، مثل ہونا مانند ہونا، اختلاط، التباس وغیرہ کے معنی میں آتا ہے نیز یہ مشکل کے معانی میں بھی آتا ہے۔ (۹

    متشابہ کے اصطلاحی معنی

    امام راغب نے اس کی تعریف یہ کی ہے۔

    والمتشابہ من القرآن: ما اشکل تفسیرہ لمتشابھتہ بغیرہ، اما من جھۃ اللفظ او من جھت المعنی (۱۰

    یعنی متشابہہ سے مراد وہ آیات ہیں جن کی لفظی اور معنوی مماثلت کی وجہ سے تفسیر بیان کرنا مشکل ہو۔

    علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے متشابہ کی اصطلاحی تعریف میں کئی اقوال نقل کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ بنتا ہے:

    آیت میں تشابہ درج ذیل باتوں سے ہو سکتا ہے۔

    ۱۔  غیر کے ساتھ معانی یا لفظ کے لحاظ سے التباس اور مماثلت کی وجہ سے

    ۲۔  تاویل کی متعدد وجوہ کی وجہ سے

    ۳۔  معنی کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے

    ۴۔  آیت کے منسوخ ہونے کی وجہ سے

    ۵۔  اپنی وضاحت میں متشابہ آیت کا غیر کا محتاج ہونا اور فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت نہ کر نے کی وجہ سے وغیرہ (۱۱

    مشکل اور  متشابہ  میں نسبت

    ان کے درمیان عام خاص من وجہ کی نسبت ہے۔ درحقیقت متشابہ کی دو قسمیں ہیں:

    ۱۔  متشابہ بہ بلحاظ لفظ:  ایسے الفاظ یا کلمات جن کا مفہوم لفظ کے اعتبار سے پوشیدہ ہوتا ہے اور غورو فکر سے سمجھ میں آجاتا ہے۔

    ۲۔  متشابہ بلحاظ معنی: جیسے صفات باری تعالیٰ، احوال قیامت کہ یہ اوصاف نہ محسوس کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی محسوسات کی جنس سے ہیں ۔ (۱۲

    سلف صالحین اور علمائے اصولیین (احناف کے علاوہ) نے ہمیشہ متشابہ لفظی ہی کو مشکل میں شامل رکھا ہے اور جہاں وہ ان دونوں کو ایک کہتے ہیں اس سے مراد متشابہ لفظی ہوتا ہے۔ متاخرین نے ان دونوں اصطلاحات کو الگ الگ انواع میں بیان کیا اور پھر متاخرین کے ہاں متشابہ کا لفظ فقط متشابہ معنوی میں استعمال ہونے لگا۔

    مشکل آیات کی جستجو کا حکم

    قرآن کریم میں جا بجا قرآن کے اندر غورو فکر کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۱۳

    جب قرآن پڑھنے والے کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ پڑھنے والا اس مشکل کا حل جاننا چاہتا ہے اور احادیث صحیحہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جب بھی صحابہ کو قرآن میں اشکال پیدا ہوتا تو نبی کریم  ﷺ اپنے بیان سے اُس اشکال کو دور فرماتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی مسلمان کو کوئی اشکال واقع ہو تو وہ فوراً اس اشکال کو دور کرنے کے لیے اہل علم سے رجوع کرے اور اللہ رب العزت کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو قرآن کی تبیین و توضیح کا منصب سونپا گیا تھا جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

 وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ     (۱۴)

    اس آیت کی وضاحت میں ابن کثیر لکھتے ہیں:     وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ  یعنی القرآن  { لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ } من ربھم، ای لعلمک بمعنی ما انزل علیک، وحرصک علیہ ، واتباعک لہ، لعلمنا بانک افضل الخلائق وسید ولد آدم، فتفصَّل لھم ما اجمل، وتبین لھم ما اشکل {وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون} ای: ینظرون لا نفسھم فیھتدون فیفوزون بالنجاۃ فی الدارین (۱۵ )     { وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ }  سے مراد قرآن ہے۔
{ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ ْ }  
یعنی رب کی طرف سے جو نازل کیا گیا ہے اس کی وضاحت کریں کیونکہ آپﷺ اس کے معنی کو جانتے ہیں اسے بیان کرنے کے آپ ﷺ مشتاق ہیں اور اس کی اتباع بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ افضل المخلوقات ہیں اولاد آدم کے سردار ہیں۔ سو آپ ہی مجمل کی وضاحت کریں گے اور مشکل کو بیان کریں گے تاکہ وہ اس چیز میں غورو فکر کریں جو ان کے لیے سود مند ہے اور وہ ہدایت اور کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

    پس مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشکل کی تحقیق اور جستجو ایک مستحسن امر ہے البتہ ایسا شخص اور اس کا فعل قابل مذمت ہے جو کہ مشکل کی تحقیق غلط نیت اور ارادے سے کرتا ہے ایسے شخص کا مقصد عوام میں مغالطہ ڈالنا اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں قرآن کریم سے متعلق شکوک و شبہات ڈالنا ہوتا ہے۔ امام نوویؒ نے نبی کریم ﷺ کے اس فرمان:     اذا رایتم الذین یتبعون ماتشابہ منہ، فاولیک الذین سمی اللہ فاحذروھم    کی شرح اسطرح فرماتے ہیں:

    وفی ھذا الحدیث التحذیر من مخالطۃ اھل الزیغ، واھل البدع، ومن یتبع المشکلات للفتنۃ، فاما من سال عما اشکل علیہ منھا للا سترشاد، وتلطف فی ذلک، فلا باس علیہ، وجوابہ واجب، واما الاول فلا یجاب، بل یزجرو یعزر، کما عزّر عمر بن الخطاب صبیغ بن عسل حین کان یتبع المتشابہ (۱۶)

    اس حدیث مبارکہ میں کج روؤں عبد عیتوں اور فتنہ برپا کرنے کی غرض سے مشکلات کے پیچھے پڑ جانے والوں کے ساتھ میل جول سے بچنے کا حکم ہے جو شخص اشکال سے متعلق سوال راہ پانے کے لیے اور اس کی طرف مائل ہو نے کی وجہ سے کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کا جواب واجب ہے پس پہلی قسم کے لوگوں کو جواب نہیں دیا جائے گا بلکہ ان کو ڈانٹا اور بھگایا جائے گا جیسا کہ حضرت عمر بن الخطاب نے صبیغ بن عسل کو ڈانٹا تھا جب وہ متشابہ کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔

    مشکل القرآن کے وجود کی حکمت

    قرآن کریم میں ان آیات کے وجود کی کئی حکمتیں ہیں۔ مثلاً :

    ۱۔  قرآن کریم عربوں کی زبان اور اسلوب پر نازل ہو ا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس کا مثل لانے سے عاجز رہے یہاں تک کہ ایک آیت بھی اس کے مثل نہ لا سکے اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظوں میں، حروف میں ترکیب اور اسلوب میں آیات کی تنبیہ اور بیان میں ہر قسم کی صورت حال کی رعایت ، اسمیہ اور فعلیہ جملے، نفی اور اثبات ، معرفہ و نکرہ کا استعمال ، تقدیم و تاخیر، حقیقت و مجاز ، طول و اختصار، عام و خاص کی رعایت، نص اور مفہوم سے مقصد کو واضح کرنا اسی طرح اور بہت سے امور ہیں۔ جن میں قرآن کریم کو وہ عظمت و رفعت حاصل ہے کہ انسانی لغوی طاقتیں اس کے سامنے بالکل عاجز ہیں۔ پس اگر سارا قرآن واضح اور محکم ہوتا یہاں تک کہ کسی ایک بھی سننے والے پر اس کی مراد مخفی نہ رہتی تو پھر چیلنج کا کیا فائدہ ہوتا؟ پس قرآن میں یہ لغوی، معنوی اور اسلوب کی مشکلات ہی تھیں جنہوں نے عربوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور قرآن کے معارضہ سے عاجز کر دیا۔

    ۲۔  مشکلات کی قرآن میں پائے جانے کی دوسری حکمت یہ ہے کہ یہ علماء کو ایسے غورو فکر پر آمادہ کرنے کا موجب ہے جس سے قرآن مجید کی مخفی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے اور اس کی باریکیوں کو کریدنے کا شوق پیدا ہوتا ہے پس یہ امر مشقت و محنت کا موجب ہے اور جتنی مشقت زیادہ ہو اتنا ہی ثواب زیادہ ہو گا۔

    ۳۔  ان اشکالات کا حل اللہ کی طرف سے بندوں کی آزمائش ہے تاکہ ناپاک لوگ پاک لوگوں سے اور مومن منافق سے الگ ہو جائیں۔ کیونکہ جو لگ قرآن میں شکوک و شبہات اور تعارض کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے نفاق اور الحاد میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

    ۴۔  قرآن شریف میں مشکل آیات کے وجود ہی نے بہت سے علوم کو وجود بخشا جیسے تاویل کے طریقوں کا علم، ترجیح دینے کے اصول، زباندانی، علم نحو، علم معانی، علم بیان، علم فقہ و اصول فقہ وغیرہ۔ پس ان آیات کی برکت سے لوگ ان علوم کو سیکھتے اور ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

    ۵۔  ان اشکالات کو دور کرنے کے ضمن میں لوگوں کے علمی مراتب کا تفاوت بھی عیاں ہوتا ہے نیز ان مشکل آیات کے ورود میں مسلمانوں کے لیے تواضع کا سامان موجود ہے اور ان کی تربیت بھی مقصود ہے۔

    مفسرین کے ہاں   مشکل القرآن کے اسباب

    یہاں پر دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی یہ کہ متقدمین مفسرین کے ہاں مشکل اور متشابہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قرآن کریم کے مشکل ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ بالکل سمجھ سے بالاتر ہے۔ قرآن فہمی میں سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔ ضروری نہیں کہ اگر ایک آیت ایک قاری کو مشکل محسوس ہوتی ہے تو وہ سب کے لیے ہی مشکل ہو گی۔

    لہذا مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مشکل القرآن میں وہ ہی آیات شامل ہیں جن کا معنی گہرے تدبر اور غورو فکر سے معلوم کیا جا سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں کہ ان کے معانی تک رسائی ناممکن ہے پس مشکل القرآن ایک اجتہادی میدان ہے۔ یہاں مختصراً مفسرین کے اقوال کی روشنی میں مشکل القرآن کے اسباب ذکر کیے جا رہے ہیں۔

    امام راغب اصفہانی اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

    المتشابہ بالجملۃ ثلاثۃ اضرب: متشابہ من جھۃ اللفظ فقط، ومن جھۃ المعنی فقط، ومن جھتھما (فالاول) ضربان، احدھما ایرجع الی الا لفاظ المفردہ، اما من جھۃ الغرابۃ، نحو الأبّ، ویزفّون أوالا شتراک کا لید والعین، (وثانیھما) یرجع الی جملۃ الکلام المرکب ، وذلک ثلاثۃ اضرب، ضرب لا ختصار الکلام، نحو { وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ } (النساء ۴:۳) وضرب بسطہ نحو { لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ } (الشوری ۴۲: ۱۱) لانہ لو قیل: لیس مثلہ شی کان اظھر للسامع، وضرب لنظم الکلام نحو { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا } (الکھف ۱۸: ۱)     تقدیرہ: انزل علی عبدہ الکتاب قیما ولم یجعل لہ عوجا     والمتشابہ من جھۃ المعنی اوصاف اللہ تعالیٰ و اوصاف القیامۃ، فان تلک الاوصاف لا نتصور لنا، اذکان لا یحصل فی نفوسنا صورۃ مالم نحسہ أویس من جنسہ ۔۔۔۔(۱۷ )    علامہ زرقانی نے اپنی کتاب مناھل العرفان فی علوم القرآن میں آیات قرآنی میں اشتباہ یا اشکال کے جو اسباب ذکر کیے ہیں وہ دراصل امام راغب کی اسی عبارت کی وضاحت ہے اور علامہ زرقانی نے وہاں اس عبارت کو بطور اقتباس نقل بھی کیا ہے۔ پس ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے:

    قرآن کی کسی بھی آیت کے معنی یا تاویل میں جو ابہام یا پوشیدگی پائی جاتی ہے وہ یا تو آیت کے کسی بھی لفظ کے سبب سے ہو گی اور پھر اس مفرد لفظ میں ابہام دووجہوں سے ہو گا۔

    ۱۔  یا تو وہ مفرد کلمہ غریب ہو گا مثلاً { وَفَاکِہَۃً وَاَبّاً }
(۱۸)میں لفظ الابّ باء کی تشدید کے ساتھ اپنے قلیل الاستعمال اور نامانوس ہونے کی وجہ سے غریب القرآن میں شامل ہے۔

    ۲۔  یا پھر وہ مفرد کلمہ دو یا دو سے زیادہ معنوں میں مشترک ہو گا اور لفظ کی کسی ایک معنی پر دلالت کی کوئی دلیل ترجیح بھی موجود نہ ہو گی مثلاً لفظ ید  اور  عین یہ دو مختلف معانی کے لیے موضوع ہیں۔
یا پھر آیت قرآنیہ کے کلام مرکب میں اشکال پایا جائے گا اور کلام مرکب میں ابہام تین اقسام پر موجود ہے۔

    ۱۔  بوجہ اختصار کلام کے مثلاً
{ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ }
(۱۹) یہاں آیت میں پوشیدگی کلام کے مختصر ہونے کی وجہ سے پائی جاتی ہے یہاں اصل عبارت ایسے تھی۔

    وان خفتم الا تقسطو افی الیتامی لو تزوّجتموھن، فانکحو من غیر ھن ما طاب لکم من النساء ۔
مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کو اس وجہ سے گناہ سمجھو کہ تم ان پر ظلم کرنے لگو گے تو تم ان کے علاوہ جن کو پسند کرو ان سے نکاح کر لو۔

    ۲۔  کبھی کلام میں الفاظ کی زیادتی اور بسط کی وجہ سے پوشیدگی اور اشکال پیدا ہوتا ہے جیسے { لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ } (۲۰)

    اس مثال میں اگر کاف نہ بڑھایا جاتا تو فقط لیس مثلہ شی کہہ دیا جاتا تو سننے والے کے لیے زیادہ صاف اور واضح ہوتا۔

    ۳۔  کبھی کبھی کلام میں ترتیب کے تغیر کی وجہ سے اشتباہ پیدا ہوتا ہے مثلاً { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا }  
(۲۱)تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر درست سیدھی کتاب اتاری اور اس میں کسی بھی طرح کی پیچیدگی نہیں رکھی۔ اس کی اصل ترتیب اس طرح تھی۔ الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب قیما ولم یجعل لہ عوجا  
اور کبھی کبھی کلام میں اشتباہ معنی کے اعتبار سے ہوتا ہے مثلاً صفات باری تعالیٰ، قیامت کے احوال، جنت اور جہنم کا تذکرہ وغیرہ کیونکہ کوئی بھی انسانی عقل ان چیزوں کے حقائق کا احاطہ نہیں کر سکتی ہے یہ قسم ہماری بحث سے خارج ہے۔

    ۴۔  اور کبھی کلام میں اشتباہ لفظا اور معناً دونوں اعتبار سے ہے،  لفظا تو کلام کے مختصر ہونے کی وجہ سے اور معناً اس اعتبار سے کہ اگر قرآن میں یہ آیت وضاحت اور بسط کے ساتھ بھی موجود ہوتی تو پھر بھی اس کا سمجھنا اس شخص کے لیے مشکل ہوتا جو اہل عرب کی زمانہ جاہلیت کی عادت سے واقف نہ ہوتا۔مثلا:     { وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا    ۠   وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ }(۲۲

    دراصل یہ آیت عربوں کی زمانہ جاہلیت کی ایک رسم سے متعلق ہے کہ جب و حج اور عمرے کا احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں اور خیموں میں ان کے دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے سے داخل ہوتے اس سے منع فرمایا جا رہا ہے (۲۳)۔

    حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب الفوز الکبیر میں قرآن کریم کی آیات میں معنی کی پوشیدگی کے چند اسباب ذکرکیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں وہ فرماتے ہیں:

    اسباب صعوبۃ فھم المراد من الکلام: بسبب استعمال لفظ غریب واحیانا للغفلۃ عن اسباب النزول، بسبب حذف المضاف اوالموصوف أوغیر ھما، واحیانا لا بدال شی بشی، اوابدال حرف بحرف، اواسم باسم اوفعل بفعل، اولذکر الجمع مکان المفرد، أوبالعکس، او للا لتفات عن الخطاب الی الغیبۃ، لتقدیم ماحقہ التاخیرا وبالعکس، بسبب انتشار الضمائر، اوتعددالمراد من اللفظۃ الواحدۃ، بسبب التکرار والا طناب، بسبب الاختصار والایجاز، بسبب استعمال الکنایۃ والتعریض، والمتشابہ والمجاز العقلی (۲۴)

    پس کلام کا مفہوم سمجھ نہ آنے کے درج ذیل اسباب ہیں: (۱) کسی لفظ کے معنی معلوم نہ ہونے کے سبب اس کا غیر مانوس یا اجنبی ہونا ہوتا ہے۔ (۲) کبھی اس کا سبب ناسخ و منسوخ کی تمیز نہ کرنے سے ہوتا ہے (۳) کبھی سبب نزول کے بھول جانے سے۔ (۴) کبھی مضاف اور موصوف وغیرہ کے محذوف ہونے سے (۵) کبھی کسی چیز کو کسی چیز سے یا کسی حرف کو کسی اور حرف سے یا اسم کو کسی اور اسم سے یا فعل کو کسی فعل سے یا جمع کو واحد سے اور واحد کو جمع سے یا غائب کے اسلوب کو مخاطب سے بدل دینے کی وجہ سے اصل مفہوم ذھن میں نہیں آتا۔ (۶) اسی طرح کبھی مقدم کے موخر ہونے سے یا موخر مقامات کے مقدم ہونے سے (۷) کبھی ضمائر کے انتشار سے (۸) کبھی ایک لفظ کے متعدد معنی ہونے سے ، کبھی تکرار و اطناب سے (۹) کبھی اختصار اور بعض وقت کنایہ، استعارہ، متشابہ اور مجاز عقلی کے سبب سے اصل مطلب مخفی رہتا ہے۔

    علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی الاتقان کی تریسٹھویں (۶۳) نوع میں جو کہ آیات المتشابہات کے نام سے موسوم ہے تشابہ کے اسباب ذکر کیے ہیں اس نوع میں متشابہ بمعنی مشکل ہے اور یہاں پر علامہ سیوطیؒ نے متشابہ معنوی جو کہ محکم کے مقابلے میں ہے اس کو اپنی بحث سے خارج کیا ہے پس وہ فرماتے ہیں:

    والقصدبہ: ایراد القصۃ الواحدۃ فی صورشتی، وفواصل مختلفۃ، بل تاتی فی موضع واحد مقدما، وفی آخر موخرا اوفی موضع بزیادۃ وفی آخربدونھا، اوفی موضع معّرفا و فی آخر منکرا، اومفردا وفی آخر جمیعا اوبحرف وفی آخر بحرف آخر، اومدغما وفی آخر مفکوکا، وھذا النوع سیتداخل مع نوع المناسبات (۲۵)

    آیات کے باہم مشابہ لانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی قصہ کو متفرق صورتوں میں وارد اور مختلف فواصل کے ساتھ بیان کیا جائے بلکہ کوئی قصہ ایک موضع میں مقدم اور دوسری جگہ میں موخر بھی آیا کرتا ہے مثلا سورۃ البقرہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:     { وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ } (۲۶ )    اور سورۃ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:     { وَقُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا } (۲۷)     اور اسی طرح سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:     { وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ  } (۲۸(     اور باقی ہر جگہ قرآن میں وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ  (۲۹)
وارد ہوا ہے یا یہ کہ ایک موضع میں کسی حرف کی زیاد تی کے ساتھ اور دوسری جگہ بغیر اس زیادتی کے آیا ہے۔ مثلا { وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ }  (۳۰)     اور سورۃ البقرہ میں بغیر واؤ اس طرح آیا ہے:     { سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ } (۳۱)     اسی طرح سورۃ البقرۃ میں:     } وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ }  (۳۲)اور سورۃ انفال میں كُلُّهٗ لِلّٰهِ   (۳۳)   یا پھر اس طرح کہ ایک جگہ اسم معرفہ اور دوسری جگہ اسم نکرہ آیا ہو یا دوسری جگہ دوسرے حر ف کے ساتھ وارد ہوا ہو یا یہ کہ ایک جگہ مدغم اور دوسری جگہ مفکوک ہوا اور یہ نوع مناسبات کی نوع کے ساتھ متداخل ہوتی ہے۔

    علامہ جلال الدین نے الاتقان میں مشکل القرآن کے حوالے سے ایک اور سبب کو ایک نوع کے طور پر ذکر کیا ہے اور اس کا نام فی مشکلہ وموھم الاختلاف والتناقض رکھا ہے (۳۴)۔

    پس اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ آیات قرآنی میں جو اشکا ل پایا جاتا ہے اس کے درج ذیل اسباب ہیں:

    ۱۔  تعارض آیات                 ۲۔  قرآن کے غریب الفاظ

    ۳۔  قرآن کے دو یا دو سے زیادہ معنوں میں مشترک الفاظ        ۴۔  تقدیم و تاخیر

    ۵۔  ایجاز و اطناب                   ۶۔  استعارہ اور مجاز عقلی

    ۷۔  اہل عرب کی عادات سے عدم واقفیت          ۸۔  التفات

    ۹۔  کنایہ اور تعریض                 ۱۰۔ انتشار ضمائر

    ۱۱۔ ابدال (ایک حرف کی دوسرے حرف سے تبدیلی، مفرد کی جگہ جمع اور جمع کی جگہ مفرد آنا،  ایک جگہ معرفہ ذکرنا اور دوسری جگہ نکرہ(

    مشکل القرآن کی مختلف صورتیں مع امثلہ

    مفسرین نے مشکل کی اصطلاح کو عام رکھا ہے اور ہر ایسی چیز کو جس سے قرآن کریم کی آیت کا سمجھانا دشوار ہو جائے اور اس کا معنی مرادی واضح نہ ہو ’’مشکل‘‘ میں شامل کیا ہے چنانچہ قرآن کریم کی آیت میں اشکال کی درج ذیل صورتیں ہیں:

    مشکل بلحاظ لفظ

    کسی بھی کلمہ میں درج ذیل اسباب کی وجہ سے اشکال پیدا ہوتا ہے:

    فظ کا غریب ہونا:  اگر کسی لفظ کا معنی واضح نہ ہو تو یہ چیز بھی مفسرین کے ہاں آیت کے مفہوم کو مشکل کر دیتی ہے جیسے :{ وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا }(۳۵) یہاں أبًّ   کا لفظ غریب ہے۔

    مشترک:   ایک لفظ کئی معنوں میں مشترک ہو تو یہ بھی مفسرین کے ہاں اشکال کا باعث ہے۔ جیسے: امام طبری اپنی تفسیر جامع البیان میں اللہ رب العزت کے اس ارشادِ گرامی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:     {وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ٍ } (۳۶)(

(    اس آیت مبارکہ میں لفظ قروء کا معنی واضح نہ ہونے کی وجہ سے مفسرین کے ہاں اللہ رب العزت کے اس قول کی وضاحت مشکل ہو گئی ہے اور اس کے بعد امام طبریؒ علماء کے لفظ قروء سے متعلق اقوال ذکر کرتے ہیں (۳۷(

    حقیقت و مجاز:   اگر ایک لفظ کا اطلاق حقیقی و مجازی دونوں معنوں میں یکساں ہو تو یہ چیز بھی مفسرین کے ہاں آیت کے مفہوم کو مشکل کر دیتی ہے۔     { اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَ بِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ  ۭ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ }(۳۸)

    اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کلمہ یذیح اور کلمہ یستحیی یہ دونوں اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں لیکن  تذبیح اور الاستحیاء کی نسبت فرعون کی طرف نسبت حقیقی نہیں ہے اس لیے کہ فرعون ان افعال کا فاعل حقیقی نہیں ہے لہذا یہاں ان الفاظ کی مجاز اً نسبت فرعون کی طرف ہے۔     {الر   كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ   بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ   { (۳۹

    اس آیت مبارکہ میں کلمہ الظلمات  اپنے حقیقی معنی اندھیرے کی بجائے مجازی معنی کفر میں استعمال ہوا ہے یہاں یہ مجاز لغوی استعارہ ہے کیونکہ اندھیرا اور کفر دونوں میں اس اعتبار سے مشابہت پائی جاتی ہے کہ دونوں صورتوں میں ہدایت نہیں پائی جاتی یا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔

    مشکل بلحاظ معنی

    اگر الفاظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے توواضح ہوں لیکن یہ نہ معلوم ہوتا ہو کہ لغوی معنی کا آیت قرآنیہ میں اطلاق کس طرح کیا گیا ہے یا پھر کلام کے بلاغی اسلوب کے دقیق ہونے کے بناء پر بھی مفسرین آیت کے مفہوم کو مشکل قرار دیتے ہیں، مثلاً :

    لغوی معنی کے اطلاق کے اعتبار سے

    { فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ  {(۴۰

    امام طبری اپنی تفسیر جامع البیان میں اللہ رب العزت کے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:    فان اشکل، ما قلنا من ذلک علی بعض الناس فقال: فما وجہ الاصلاح حینئذ والا صلاح انما یکون بین المختلفین فی الشئی؟ قیل ۔۔۔۔ الخ ۔۔(۴۱)

    بعض لوگوں کو اس آیت کے متعلق اشکال ہوا وہ یہ کہ یہاں صلح کی کیا صورت ہو گی جبکہ صلح تو کسی چیز کے بارے میں دو اختلاف کرنے والوں کے درمیان کرائی جاتی ہے۔ اسکے بعد امام طبری ؒ آیت کی مفصل تشریح کرتے ہیں پس یہاں اس مثال میں  صلح  کا لغوی معنی معلوم ہونے کے باوجود آیت کے مفہوم میں ابہام ہے اسی لیے امام طبری نے اس آیت کے لیے اشکل کا لفظ استعمال کیا ہے۔

    تقدیم و تاخیر کی وجہ سے

    ابن کثیر اپنی تفسیر تفسیر القرآن العظیم میں سورۃ یوسف کی اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں

    } اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ } (۴۲)     وقد أشکل لقولہ تعالی علی کثیر من المفسرین ، فقال بعضھم: ھذا من المقدم والمو خر  (۴۳(

    بہت سے مفسرین کو اس آیت میں اشکال ہوا ہے پس ان میں سے بعض فرماتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر پائی جاتی ہے پھر وہ آیت کی وضاحت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کلام کا مفہوم اسطرح ہے۔     وقال ادخلوا مصر ان شاء اللہ آمنین و آوی الیہ ابویہ ورفعھما علی العرش۔۔۔ (۴۴)

    یوسف نے فرمایا کہ آپ سب مصر میں داخل ہو جائیں اگر اللہ نے چاہا امن کے ساتھ اور انہوں نے اپنے والدین کو پناہ دی اور ان دونوں کو عرش پر بلند کیا پس اس مثال سے معلوم ہوا کہ آیت کریمہ کے تمام الفاظ کے لغوی معنی ظاہر ہونے کے باوجود عبارت کے اندر تقدیم و تاخیر کی وجہ سے مفہوم غیر واضح اور مشکل ہو گیا۔

    حذف کی وجہ سے

    ابوحیان اپنی تفسیر  البحر المحیط  میں جب سورۃ یونس کی اس آیت تک پہنچتے ہیں۔     { وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ       } (۴۵

    تو اس کے ضمن میں وہ علامہ زمخشری کا کلام نقل کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اشکال پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:     وانما اشکل عندہ لأن التقدیر یصیر: الا فی کتاب فیعزب، وھذا کلام لا یصح وخرّجہ ابو البقاء علی انہ استثناء منقطع تقدیرہ: لکن ھو فی کتاب مبین ویزول بھذا التقدیر الاشکال (۴۶

    زمخشری کے نزدیک یہ کلام مشکل المعنی ہے کیونکہ تقدیری عبارت یوں بن رہی ہے (الا فی کتاب فیعزب) اور یہ کلام درست نہیں ہے۔ ابو البقاء نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے۔ یہاں استثناء منقطع ہے، تقدیری عبارت یوں ہے۔ لکن ھو فی کتاب مبین یوں اس تقدیری عبارت سے اشکال ختم ہو جائے گا۔

    پس سورۃ یونس کی اس آیت میں حذف کی وجہ سے کلام غیر واضح ہے۔

    مشکل بلحاظ قرا ء ت

    بعض دفعہ کسی آیت مبارکہ میں ایک لفظ کی مختلف قرا ء تیں بھی اشکال پیدا کر دیتی ہیں اور مفہوم کو دشوار بنا دیتی ہیں۔ اسی لیے مفسرین نے قرأت کے اختلاف کے سلسلے میں بھی مشکل  کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

    عزبن عبد السلام اپنی کتاب  فوائد فی مشکل القرآن میں سورۃ البقرہ کی اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں:    { وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ  }(البقرہ: ۲:۲۱۰) بضم التاء ’’مشکل‘‘ لانہ: لا أحد یرجع الامور الی اللہ (۴۷

    یہاںعزبن عبد السلام نے دو قرا ء توں کو ذکر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ تاء کے ضمہ کے ساتھ قرا ء ت یہ (مفہوم کے اعتبار سے) آیت کو مشکل بنا دیتی ہے اس لیے کہ کوئی بھی اللہ کی طرف معاملات کو لوٹا نہیں سکتا۔

    مشکل بلحاظ اعراب

    مفسرین کے ہاں اعراب کی وجہ سے بعض آیات کے مفہوم میں جو پیچیدگی اور ابہام پیدا ہوتا ہے وہ بھی مشکل القرآن کی صورتوں میں سے ایک ہے اسی لیے اکثر کتب کا نام ہی مشکل اعراب القرآن ہے۔

    عزبن عبد السلام فرماتے ہیں:     قولہ عزوجل { ۭ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهٗ فَعَلَيَّ اِجْرَامِيْ } (ھود ۱۱:۳۵) مشکل لان المشرکین قالوا: افتری القرآن، فھذا یقتضی ان یکون افتریتہ ماضیا علی بابہ لکن أئمۃ العربیۃ اجمعو اعلی ان الشرط لا یکون الا مستقبلا، فان کان المراد المضیّ أخل بالشرط، وان کان الاستقبال اخل بالجواب اذا لا یکون مطابقا والجواب ۔۔۔ الخ (۴۸

    یس اللہ رب العزت کا یہ قول (قل ان افتریتہ فعلی اجرامی) نحوی اعتبار سے مشکل ہے اس لیے کہ مشرکین کہا کرتے تھے کہ قرآن گھڑا گیا ہے۔ پس ان کی یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ یہاں افتریتہ  اپنے باب افعال سے ماضی واقع ہو جبکہ تمام آئمہ عرب اس بات پر متفق ہیں کہ شرط ہمیشہ فعل مضارع ہوا کرتی ہے پس اگر مراد کے مطابق یہاں پر ماضی کا ہی صیغہ ہو تو پھر یہاں شرط  کا معنی نہیں پایا جائے گا اور اگر فعل مضارع کو یہاں مانا جائے تو اس شر ط کا جواب مفقود ہوگا۔ پس یہاں مطابقت کی کوئی صورت نہیں ہے۔

    اس کے بعد عبد السلام اس اشکال کا جواب دیتے ہیں۔

    مشکل بلحاظ تعارض آیات

    ایسے اشکالات جن کا تعلق ان آیات سے ہے جن میں تعارض کا وہم ہوتا ہے مفسرین کے ہاں وہ بھی مشکل القرآن  کی ایک صورت ہے۔

    ابن قتیبہ نے اپنی کتاب تاویل مشکل القرآن میں ایک باب باندھا ہے جس کا نام انہوں نے باب التناقض والا ختلاف رکھا ہے پھر اس باب میں ان آیات کا ذکر کیا ہے جن کے بارے میں تعارض اور اختلاف کا گمان کیا جاتا ہے پھر ان کے جوابات ذکر کیے ہیں۔

    امام رازی اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں جب اس آیت پر پہنچتے ہیں تو ذکر کرتے ہیں:

    ظاھر قولہ تعالی { قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا  ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ    } (المائدہ ۵:۱۰۹)  یدل علی ان الانبیاء لا یشھدون لا ممھم، والجمع بین ھذا و بین قولہ تعالیٰ { فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاءِ شَهِيْدًا} (النساء ۴:۴۱)  مشکل (۴۹

    سورۃ مائدہ کی اس آیت لا علم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اپنی امتوں پر گواہی نہیں دیں گے جبکہ سورۃ النساء کی آیت بتاتی ہے کہ انبیاء گواہی دیں گے پس اس وجہ سے ان دونوں آیات کے مفہوم کو جمع کرنا مشکل ہے ۔

    امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس کے کئی جواب دئیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:     انھم قالو الا علم لنا لانک تعلم ما اظھروا وما اضمر وا و نحن لا نعلم الاما اظھرو افعلمک فیھم انفد من علمنا فلھذا المعنی نفو ا العلم عن انفسھم لان علمھم عند اللہ کلا علم (۵۰

    بے شک انہوں نے کہا کہ ہمیں علم نہیں کیونکہ آپ تو جانتے ہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں اور جو وہ چھپاتے ہیں اور ہم تو پس وہی جانتے ہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں پس آپ کا علم ہمارے علم سے بڑھ گیا ہے اسی وجہ سے انہوں نے خود سے علم کی نفی کی کیونکہ ان کا علم اللہ کے ہاں کا مل علم نہیں ہے۔

    الحاصل یہ کہ مشکل القرآن سے مراد وہ آیات ہیں جن کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا البتہ غورو فکر اور گہرے تدبر سے ایسی آیات کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔  مشکل القرآن سے قطعاً ایسی آیات مراد نہیں جن کا سمجھنا ناممکن ہو نیز فہم قرآن میں لوگوں کے درجات میں تفاوت پایا جاتا ہے ضروری نہیں کہ ایک ہی آیت تمام لوگوں کے لیے مشکل ہو عین ممکن ہے کہ کسی ایک مفسر کے لیے وہ آیت مشکل ہو اور دوسرے کے لیے آسان ہو۔

    پس قرآن کے حکم کے مطابق ایسی آیات میں غورو فکر کرنا اور ان کو حل کرنا ایک احسن اور موجب ثواب عمل ہے البتہ فاسد نیت سے ایسی آیات کے پیچھے لگنا اور غلط تاویل بیان کرنا انتہائی سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کا صحیح فہم نصیب کرے۔ آمین

    حوالے و حواشی

    ۱۔  الانبیاء ، ۲۱: ۱۰۷              ۲۔   التکویر،  ۸۱: ۲۷

    ۳۔  الازھری، ابو منصور محمد بن احمد، معجم تہذیب اللغۃ، ۲ /۱۹۱۶۔ ۱۹۱۷، دارالمعروفۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۲۲ھ؛ ابن منظور،  لسان العرب، ۷/۱۷۶، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۱۴۰۸ھ؛ ابن فارس، ابو الحسن احمد بن فارس، معجم مقاییسس اللغۃ، ۳/۲۰۴، مکتبہ دارالفکر، بیروت، لبنان، ۱۳۹۹ھ۔

    ۴۔  سرخسی، محمد بن احمد بن ابی بکر، اصول السرخسی : ۱/۱۶۸، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، س۔ن۔

    ۵۔  جرجانی، محمد بن علی،  التعریفات، ۱۹۵۔۱۹۶، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، ۱۴۲۸ھ

    ۶۔  ابن قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم ابو محمد،  تاویل مشکل القرآن، ۱۰۲، مکتبہ العلمیہ، بیروت، لبنان، س۔ن۔

    ۷۔  محمود احمد غازی، ڈاکٹر، محاضرات قرآنی، ۳۰۶، الفیصل ناشران و تاجران کتب، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔

    ۸۔  لسان العرب، ۷/۲۳            ۹۔   معجم تہذیب اللغۃ،  ۲/۱۸۲۴

    ۱۰۔ الاصفہانی الراغب،المفردات فی غریب القرآن، ۲۵۷، قدیمی کتب خانہ، کراچی، س۔ن۔

    ۱۱۔ سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ۲/۳ ، قدیمی کتب خانہ آرام باغ، کراچی، س۔ن۔

    ۱۲۔ الاتقان فی علوم القرآن، ۲/۷        ۱۳۔   محمد،  ۴۷: ۲۴

    ۱۴۔ النحل ، ۱۶: ۴۴

    ۱۵۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر ابن کثیر، ۴/۵۷۴، دار طیبہ، ۱۶، ۱۴۱۸ھ ۔

    ۱۶۔  نووی، ابو زکریا یحیی بن شرف ، محی الدین، المنھاج فی شرح صحیح مسلم، ۱۶/۴۳۴، کتاب العلم، باب النھی من اتباع متشابہ القرآن، ح ۱، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، س۔ن۔

    ۱۷۔ مفردات القرآن، ۲۵۷، ۲۵۸۔       ۱۸۔ عبس ،  ۸۰: ۳۱

    ۱۹۔   النساء،  ۴:۳              ۲۰۔ الشوریٰ،  ۴۲:۱۱

    ۲۱۔   الکھف ، ۱۸: ۱، ۲              ۲۲۔ البقرہ ،  ۲: ۱۸۹

    ۲۳۔ زرقانی، محمد عبد العظیم، شیخ، مناھل العرفان فی علوم القرآن، ۲۲۸۔۲۲۹، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان، ۲۰۱۰م

    ۲۴۔ ولی اللہ، احمد بن عبد الرحیم، محدث، الفوز الکبیر، ۴۱، ۴۲، مترجم عربی ، سعید احمد پالن پوری، مکتبہ البشری، کراچی، پاکستان، ۱۴۳۱ھ۔

    ۲۵۔ الاتقان،  ۲/۲۲۴         ۲۶۔   البقرہ ، ۶:۵۸

    ۲۷۔ الاعراف،  ۷:۱۶۱         ۲۸۔   البقرہ ،  ۲: ۱۷۳

    ۲۹۔ المائدہ ، ۵:۳               ۳۰۔   یسین ، ۳۶:۱۰

    ۳۱۔ البقرہ ، ۲:۶                ۳۲۔   البقرہ ، ۲:۱۹۳

    ۳۳۔  الانفال،  ۸:۳۹         ۳۴۔   ایضاً، ۱/۲۳۰۔ ۲۴۲

    ۳۵۔      عبس ، ۸۰:۳۱                ۳۶۔   البقرۃ ، ۲: ۲۲۸

    ۳۷۔     طبری،  جامع البیان،  ۴/۵۱۲      ۳۸۔   القصص ، ۲۸:۴

    ۳۹۔     ابراھیم ، ۱۴:۱              ۴۰۔    البقرہ ، ۲۰: ۱۸۲

    ۴۱۔      جامع البیان، ۳/۴۰۴         ۴۲۔   یوسف ، ۱۲:۹۹

    ۴۳۔     تفسیر ابن کثیر، ۳/۴۶۹           ۴۴۔   ایضاً، ۳/۴۶۹

    ۴۵۔ یونس ، ۱۰:۶۱

    ۴۶۔ ابو حیان، محمد بن یوسف بن علی بن یوسف، البحر المحیط، ۵/۱۷۳، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۲۱، ۱۴۰۱ھ۔

    ۴۷۔ عزبن عبد السلام، فوائد فی مشکل القرآن، ۹۷، دارالشروق، جدہ، ۲۱، ۱۴۰۲ھ۔

    ۴۸۔ فوائد فی مشکل القرآن،  ۱۳۸۔ ۱۳۹

    ۴۹۔ الرازی، محمد بن ضیاء الدین عمر بن الحسن، فخر الدین، مفاتیح الغیب، ۱۲/۱۰۱، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، ۱۱، ۱۴۱۱ھ۔             ۵۰۔      تفسیر رازی، ۱۲/۱۰۲