قرآن فہمی میں علم وقف و ابتداء کی ضرورت و اہمیت

ڈاکٹر محمد اویس

قرآن کریم کی تفہیم وتحفیظ کے لیے مختلف علوم وضع کئے گئے جن کو علوم القرآن کہتے ہیں انہیں علوم میں سے ایک علم وقف و ابتداء ہے جو کہ ایک معزز فن ہے اور اجماع صحابہ ؓ سے ثابت ہے۔اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو وقف و ابتداء کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ حدیث ابن ِعمرؓ سے معلوم ہوتا ہے۔ابن ِعمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے زمانے میں ایک طویل مدت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن حاصل کرنے سے پہلے ہی ایمان لے آتااور نبی ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم سب آپ ﷺسے اس کے حلال وحرام کی تعلیم حاصل کرتے اور ان مقامات کو معلوم کرتے کہ جہاں وقف کرنا چاہیے ۔ جس طرح آج کل تم قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو ۔بے شک آج ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ایمان لانے سے قبل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں وہ سورۃالفاتحہ سے سورۃالناس تک قرآن پڑھ لیتے ہیں مگرانہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہوتا کہ قرآن کا امر کیا ہے اور زجر کیاہے اور نہ ہی معلوم کرتے ہیں کہ قرآن پڑھتے ہوئے کون کون سے مقامات پروقف کرنا چاہیے ۔

اس مقالے میں قرآن فہمی کے لیے علم وقف وابتداء کی اہمیت کوموضوع بنایا گیا ہے تاکہ اس علم کی قدرومنزلت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہوسکے۔

وقف کا لغوی معنی

وقف کا لغوی معنی الحبس والکف والمنع یعنی روکنے ،رکنے اور ٹھہرنے کے ہیں۔وقف یقف باب وعد یعد سے مصدر ہے۔اس کی جمع وقوف اور اوقاف دونوں طرح آتی ہے ۔یہ لازم اور متعدی دونوں معنی میں مستعمل ہے ۔ائمہ لغت نے ہر دو لحاظ سے وقف کے لغوی معنی بیان کیے ہیں۔

خلیل بن احمد الفراہیدی کتاب العین میں لکھتے ہیں: الوقف مصدر قولک،وقفت الدابۃ وقفت الکلمۃ وقفًا۔وھذا مجاوز، فاذا کان لازمًا قلت، وقفت وقوفًا۔فاذا وقفت الرجل علی کلمۃ قلت۔ وقفتہ توقیفًا،ولا یقال، أوقفت الافی قولھم أوقفت عن الامر اذا أقلعت عنہ (۱)

ابو منظور الازھری نے معجم تہذیب اللغہ میں وقف کے لغوی معنی بھی اسی طرح بیان کیے ہیں۔ (۲)

مجدد الدین فیروز آبادی وقف کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:الوقف،سوارمن عاج۔۔۔وقف یقف وقوفًادام قائمًاوقفتہ أنا وقفًافعلت بہ وقف (۳)

ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: وقف(جمعھا)الوقوف۔خلاف الجلوس، وقف بالمکان۔۔۔ویقال وقفت الدابۃ۔تقف وقوفًا،ووقفتھا أنا وقفًا،ووقف الدابۃ جعلھا تقف(۴)

ائمہ لغت کی وقف سے متعلق توضیح وتنقیح سے یہ مفہوم متبادر ہوتا ہے کہ وقف کے لغوی معنی ٹھہرنے اور رکنے کے ہیں۔ یہ لازم اور متعدی دونوں معنی میں مستعمل ہے لازم معنی میں جیسے وقفت الدابۃیعنی سواری رک گئی۔ اور متعدی معنی میں جیسے وقف الدابۃیعنی اس نے سوار ی کو روکا۔وقف کالفظ جب سواری کے لیے آئے تو اس کا مصدر وقوفا ہوگا اور جب کسی شخص کے کلمہ پر ٹھہرنے کے لیے آئے تو اس کا مصدر توقیفًا ہوگااسی طرح جب قاری کے لیے لفظِ وقف استعمال ہوتا ہے تو قاری کا وقف کے مواقع بتانا مراد لیا جاتا ہے ۔

وقف کے اصطلاحی معنی

ماہرین فن ِقراء ت نے وقف کی اصطلاحی تعریف مختلف انداز سے کی ہے ۔

علامہ ابن جزری لکھتے ہیں: ھو عبارۃ عن قطع الصوت علی الکلمۃ زمنًا یتنفس فیہ عادۃ بنیّۃ استئناف القراء ۃاما بما یلی الحرف الموقوف علیہ أو بما قبلہ ( ۵)

وقف کہتے ہیں عادۃً سانس لینے کی غرض سے کچھ دیر کے لیے کلمے پر آوازکے بند کرنے کو اس نیت کے ساتھ کہ قراء ت کو جاری رکھنے کا ارادہ ہو خواہ موقوف علیہ سے متصل بعد والے سے شروع کرے یا پھر اعادہ کرے ۔

علامہ اشمونی منار الھدی میں لکھتے ہیں: قطع الصوت آخر الکلمۃ زمنًامّا ۔أو قطع الکلمۃ عمّا بعدھا(۶)

وقف کلمے کے آخر پر کچھ دیر کے لیے آواز منقطع کرنے یا کلمہ کو بعد والے کلمہ سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔

شیخ عبد اللہ مکی رسالہ تعلیم الوقوفمیں وقف کی تعریف یوں تحریر فرماتے ہیں : قطع الصوت مع النفس واسکان المتحرک ان کان متحرکًا(۷)

آواز کا سانس کے ساتھ بند کرنا اور اگر موقوف علیہ کلمہ متحرک ہے تو اس کو ساکن کر دینا وقف کہلاتا ہے ۔

قاری عبد الرحمٰن مکی یوں رقمطراز ہیں:

وقف کے معنی ہیں اخیر کلمہ غیر موصولہ پر سانس کا توڑنا(۸)

مذکورہ بالا تمام تعریفات کا حاصل یہ ہے کہ قرّاء کی اصطلاح میں وقف دوکلموں کے درمیان کچھ دیر کے لیے سانس لینے کی غرض سے رکنے کو کہتے ہیں بشرطیکہ قراء ت کو جاری رکھنے کا ارادہ ہو اور یہ عام ہے کہ موقوف علیہ کلمہ کے بعد سے پڑھیں یا پھر اعادہ کرکے پڑھیں۔

ابتداء کے لغوی معنی

ابتداء کا مادہ ب۔د۔أ ہے بدأ۔بدأً وابتدائً کے معنی شروع کرنے اور پہل کرنے کے ہیں۔

ابن درید الازدی جمھرۃ اللغۃ میں لکھتے ہیں :

ابتدأت الشیٔ اذا انشأتہ ابدئہ ابدائً۔وبدأتہ ایضًا واللہ المبدیء المعید ۔وقد قالوا بادیء عائد وانشد(۹)

کتاب محیط المحیط میں ابتداء کے لغوی معنی یوں بیان کیے گئے ہیں: بدأ أی ،اوّل کلّ شیٔ واصلھا الھمز وذکرت بلفاتھا فی ب۔د۔أ البدا السّلح وعن الانسان مفصلہ ج أبدائٌ۔۔۔بدی بالشیٔ یبتدی ویبدی یبد بدیًا ابتدأ بہ واھل المدینۃ یقولون بدینا بمعنی بدأناقال عبد اللہ ابن رواحہ الانصاری (۱۰)

باسم الالٰہ وبہ بدینا ولو عبدنا غیرہ شقینا

حاصل یہ ہے کہ ابتداء کا لغوی معنی شروع کرنا اور پہلے کرنا کے ہیں۔اہل مدینہ بدأنا کو بدینا بھی پڑھتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا شعر سے ظاہر ہے ۔

ابتداء کے اصطلاحی معنی

وقف یا قطع کے بعد قراء ت شروع کرنے کو ابتداء کہتے ہیں۔اگر موقوف علیہ سے متصل بعد والے کلمہ سے ابتداء کی جائے تو یہ ابتداء ہوگی اوراگرموقوف علیہ کلمہ کو پیچھے سے لوٹایا جائے تو وہ اعادہ ہوگا۔کتب سلف میں ابتداء کی کوئی باقاعدہ تعریف نہیں ملتی البتہ خلف نے ابتداء کی تعریف وتوضیح کی ہے۔

مہدی محمد الحرازی لکھتے ہیں: ھوالشروع فی القراء ۃ بعد قطع أو وقف(۱۱)

عبد السمیع الحفیان ابتداء کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں : الشروع فی القراء ۃ بعد قطع أو وقف فاذا کان بعد القطع فیتقدمہ الاستعاذۃ ثم البسملۃ اذا کان الابتداء من أوائل السور(۱۲)

قاری محمد اسماعیل امرتسری تحریر فرماتے ہیں: جب قرآن شروع کیا جائے یا جب اثناء قراء ت وتلاوت میں کسی وقف ِ منصوص پر وقف کیا جائے اور موقوف علیہ کے مابعد سے پڑھا جائے تو اسے ابتداء کہتے ہیں۔(۱۳)

اہمیتِ وقف وابتداء اور قرآن

علم تجوید اور علم وقف وابتداء دونوں کا باہم بہت گہرا ربط اور تعلق ہے ۔اگر علم تجوید سے الفاظِ قرآنی کی تصحیح ہوتی ہے تو علم وقف و ابتداء کے ذریعے معانی کی تفہیم و توضیح ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے علم وقف وابتداء کو بھی علم تجوید کی طرح ترتیل کا جزو کہا جاتا ہے کیونکہ جس طرح علم تجوید سے حروف قرآنی کو ان کے مخارج اور صفات کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح علم وقف وابتداء سے معانی قرآن کی تفہیم و تحسین ہوتی ہے ۔اگر قاری اس علم سے نابلد ہوگا تو وہ غلط جگہ وقف کرے گا جس کی وجہ سے قرآن کے معانی سمجھنے میں ایہام پیدا ہوگا یا قرآن کے معانی ہی بدل جائیں گے یا پھر حسن معانیٔ قرآن میں نقص اور کمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے دو چیزیں لازم آئیں گی ۔ایک یہ کہ غلط جگہ وقف کرنا سامع کی طبیعت پر مکدر اور ناگوار ہو گا ۔دوسرا اس سے تلاوتِ قرآن کا حسن مجروح ہو گا۔

عبد السمیع الحفیان نے اس بات کو بڑے خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں: فمعرفۃالوقف اذا شطر علم التجوید،والوقف فی موضعہ یساعد علی فھم القراٰن ، وأمّا الوقف فی غیر موضعہ ربما یغیر معنی الآیۃ أویشوہ جمال التلاوۃ أو یأتی بمعنی مضاد للمعنی المقصود فی الٓایۃ (۱۴)

آگے اس علم کے دو فائدے بیان کرتے ہیں: احدھما : ایضاح المعانی القراٰنیۃ المستمع کلما کان القاریٔ أقدر علی تحری ما حسن من الوقف والابتداء فی القراء ۃ۔والثانی: دلالۃ وقف القاریٔ یوضح المعنی المرادہ ودلالۃ وقف القریٔ فی تقدیر درجات الوقف جودۃ ورداء ۃ تبعًا لتفاوت القراء فی فھم القراٰن ومقدار احاطتھم بعلومہ(۱۵)

حاصل یہ ہے کہ علم تجوید کے ساتھ ساتھ علم وقف وابتداء کی معرفت وپہچان بھی واجب اور ضروری ہے قرآن کریم کی جو آیت علم تجوید کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اُسی آیت سے علم وقف وابتداء کی مشروعیت بھی ثابت ہوتی ہے ۔

علاوہ ازیں اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ علم حاصل کرنا واجب ہے جو کہ قرآن وسنت اور اقوال صحابہ ؓ اور تابعین سے بھی ثابت ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: }وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً } (۱۶) اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔

یہاں ترتیل سے مراد تجوید الحروف اور معرفت وقوف لیا جاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت علیؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا الترتیل تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف اس قول کو ابن جزری نے النشر میںنقل کیا ہے (۱۷) اور علامہ جلال الدین سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس اثر کو امام بیہقی نے اپنی السنن میں ذکر کیا ہے ۔(۱۸)

بہر حال اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ ترتیل میں دو چیزیں ناگزیر ہیں۔ایک تجوید الحروف یعنی حروف کو ان کے مخارج اور صفات کے ساتھ ادا کرنا اور دوسرا معرفت الوقوف یعنی علم وقف وابتداء کی معرفت وپہچان ہونا۔

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ  {ترتیلًا}  مصدر فعل امر کی تاکید میں مبالغہ کے لیے آیا ہے ۔

وتاکید الفعل بالمصدر یدلّ علی المبالغۃ(۱۹) اس آیت میں لفظِ {رتِّل} جو کہ امر کا صیغہ ہے ترتیل کے وجوب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معروف قاعدہ ہے کہ الامر للوجوبیعنی فعل امر کا وارد ہونا کسی چیز کے واجب ہونے کی دلیل ہے الا یہ کہ کوئی خارجی سبب حائل ہو جائے ۔

ابو جعفر النحاس نے ترتیل کے معنی تبیین بیان کئے ہیں وہ اپنی کتاب القطع والائتناف میں حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت پوری سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جو کہ {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلا} کی تفسیر میں ہے حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کے ترتیل یہ ہے کہ قرآن کو خوب واضح کرکے پڑھا جائے ۔

عن ابن عباس فی قولہ عزوجل {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلا}قال: بینہ تبیینًا(۲۰) پھر لکھتے ہیں کہ تبیین سے مراد تفصیل الحروف اور ایسی جگہ وقف کرنا ہے کہ جہاں معنی مکمل ہو جائے۔ (۲۱) سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے : وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا} (۲۲)

قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے ہم نے اس لئے اترا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا۔

امام ابن جریر طبری فَرَقْنَاہُ  کی تفسیر میں لکھتے ہیں: فرقناہ بتخفیف الراء من فرقناہ بمعنی أحکمناہ وفصلناہ وبیّناہ (۲۳)

علامہ قرطبی لکھتے ہیں : فرقناہ : معناہ بیّناہ وأوضحناہ (۲۴)

محمد الامین الشنقیطی اضواء البیان میں تحریر فرماتے ہیں : فرقناہ : بالتخفیف ،أی ،بیّناہ ،وأوضحناہ وفصلناہ (۲۵)

مذکورہ بالا مفسرین کی توضیحات و تشریحات سے یہ مفہوم متبادر ہوتا ہے کہ حق تعالی نے قرآن کریم کو صاف صاف اور واضح انداز میں ترتیل کے ساتھ نازل کیا۔

امام طبری فرماتے ہیں کہ ابن مجاہداورابن جریج نے اس آیت میں لفظ مُکْث کے معنی ترتیل کے کئے ہیں۔اسی طرح ابن زید نے اس لفظ کی تفسیر میں سورہ مزمل کی آیت وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلا پڑھی۔

عن مجاہد{علی مکث}قال،علی ترتیل وعن ابن جریج،قولہ {لتقراہ علی الناس علی مکث}قال : فی ترتیل ،وقال ابن زید فی قولہ{لتقراہ علی الناس علی مکث}قال: التفسیرالذی قال اللہ {ورتل القراٰن ترتیلا}: تفسیرہ (۲۶)

امام شوکانی نے { علی مکث} کے معنی ترسّل و تمھّل فی التلاوۃ  کے کئے ہیں یعنی قرآن کی تلاوت خوش بیانی اور خوش الحانی یعنی تجوید الحروف اور وقف وابتداء کی رعایت کے ساتھ کرنا، تاکہ اس سے قرآن کی تفہیم و تحفیظ میں سہولت اور آسانی پیدا ہو ۔

علی مکث }أی علی ترسّل وتمھّل فی التلاوۃ فان ذالک أقرب الی الفھم وأسھل للحفظ( ۲۷)

امام قرطبی نے ابن عباس ،مجاہد اور ابن جریج کا قول نقل کیا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک (مکث) کے معنی ترسّل فی التلاوہ اور ترتیل کے ہیں ۔

}عَلَی مُکْث}أی علی ترسل فی التلاوۃ وترتیل ،قالہ مجاہد وابن عباس وابن جریج (۲۸)

محمد الامین الشنقیطی اضواء البیان میں {عَلَی مُکْث} کے یہی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قاری کو چاہیے کہ وہ تلاوت قرآن میں اس چیز کا اہتمام کرے اور اس کی تائید میں سورہ مزمل کی آیت {ورتل القراٰن ترتیلا } اور سورہ فرقان کی آیت {ورتلنٰہ ترتیلا} 
بھی نقل کی ہے۔

}لتقراہ علی الناس علی مکث} أی مھل وتؤدۃ وتثبت،وذالک یدل علی أن القران لا ینبغی أن یقرأ الا کذالک، وقد أمر تعالی بما یدل علی ذالک فی قولہ {ورتل القراٰن ترتیلا }و {ورتلنٰہ ترتیلا} (۲۹)

اہمیت وقف وابتداء اور احادیث رسولﷺ

احادیث رسولﷺ سے بھی اس علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔جیسا کہ آپﷺ سے روایت ہے۔

وفی حدیث ابی بکرۃ : أن جبریل علیہ السلام أتی النبی ﷺفقال: اقرأ القراٰن علی حرف فقال میکائیل ’’استزدہ‘‘ حتی بلغ سبعۃ احرف ثم قال کلّ شاف کاف مالم تختم اٰیۃ عذاب باٰیۃ رحمۃ أو اٰیۃ رحمۃ باٰیۃ عذاب (۳۰)

اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔

مالم تختم اٰیۃ رحمۃ باٰیۃ عذاب أو اٰیۃ عذاب بمغفرۃ (۳۱)

أبی بن کعب سے مروی ہے ۔: قال اتینا رسول اللہ ﷺفقال: انّ الملک کان معی فقا ل لی: اقرأالقراٰن فعدّ حتّٰی بلغ سبعۃ احرف فقال: لیس منھا الا شافٍ کافٍ مالم تختم اٰیۃ عذاب ٍبرحمۃ او تختم رحمۃ بعذابٍ (۳۲)

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: ٔنّ رسول اللہ ﷺ قال انّ ھذاالقراٰن أنزل علی سبعۃ أحرف اقرء وا ولا حرج ولکن لا تختموا ذکر رحمۃ بعذاب ولا تختموا ذکر عذاب برحمۃ (۳۳)

نبی کریمﷺ ان روایات میں وقف قبیح سے منع کیا ہے اور علم وقف وابتداء کی غرض و غایت ہی صحت وقف و ابتداء اور معانی قرآن کی توضیح و تشریح ہے امام دانی ان روایات کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: فھذا تعلیم التام من رسول اللہ ﷺ عن جبریل علیہ السلام ؛اذ ظاھرہ دال علی انہ ینبغی أن یقطع علی الآیۃ الی فیھا ذکر النار والعقاب،وتفصل مما بعدھا، اذا کان بعدھا ذکر الجنۃ والثواب (۳۴)

ان روایات میںرسول اللہ ﷺ کی طرف سے وقف تام کی تعلیم دی گئی ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے حاصل کی جو اس چیز پر دلالت کرتی ہے قاری کوچاہیے کہ وہ نار اورعقاب والی آیت پر وقف کرے اور پھر اس کے مابعد سے ابتداء کرے اگراس کے بعد جنت اور ثواب والی آیت کا ذکر ہو ۔اسی طرح ضروری ہے کہ اس آیت پر وقف کرے کہ جس میں جنت اور ثواب کا تذکرہ ہے اور پھراس کے بعد سے ابتداء کرے اگر مابعد والی آیت میں نار و عذاب کا ذکر ہے۔

ابو جعفر النحاس یوں رقمطراز ہیں: فھذا تعلیم التمام توقیفاً من رسول اللہ ﷺ بانہ ینبغی أن یقطع علی الایۃ التی فیھا ذکر الجنۃ والثواب ویفصل مما بعدھا أن کان بعدھا ذکر النار او العقاب نحو {یدخل من یشاء فی رحمتہ}لا ینبغی أن یقول: {والظالمین} لانہ منقطع مما قبلہ منصوب باضمار فعل ،أی: ویعذب الظالمین،أو وأوعد الظالمین(۳۵)

ان روایات میں وقف تام کی تعلیم دی گئی ہے جو کہ توقیفی علم ہے اور نبی ﷺ سے ثابت ہے قاری کو چاہیے کہ وہ جنت اور ثواب والی آیت پر وقف کرے اور مابعد سے ابتدا کرے ۔ اگر اس کے بعد نار وعقاب والی آیت کا ذکرہو جیسے یدخل من یشاء فی رحمتہ کا وصل والظالمین 
سے کرنا جو کہ معنی کالحاظ سے جدا ہے ۔

ائمہ تجوید و قراء ت علم وقف وابتداء کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک اور اہم روایت نقل کرتے ہیں۔

عن عدی بن حاتم الطّائی قال: جاء رجلان الی رسول اللہ ﷺ وتشھّد احدھما فقال من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھماووقف قال رسول اللہ ﷺ (قم)أو اذھب بئس الخطیب انت (۳۶)

حضرت عدی ؓبن حاتم طائی فرماتے ہیں کہ دو شخص حضور اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے گواہی دی جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے ہدایت پائی اور جس نے ان کی نافرمانی کی (من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھما )

یہاں وقف کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اٹھ یا چلا جا تو براخطیب ہے ۔

یعنی آپ ﷺنے ناراضگی کا اظھار فرمایا کیونکہ  (ومن یعصھما ) پر وقف کرنے سے یہ معنی بنتے ہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بھی ہدایت پائی اور جس نے نا فرمانی کی وہ بھی بامراد ہوا۔

منارالھدی میں خطیب اورانت کے درمیان لفظ القوم کا اضافہ ہے یعنی بئس الخطیب القوم انت( تو برا خطیب ہے ) (۳۷)

اسی طرح علامہ اشمونی نے یہ کلمات بھی نقل کیے ہیں : قل : ومن یعص اللہ ورسولہ فقد غوٰی (۳۸)

یعنی آپ نے تعلیماً اس کو فرمایا کہ یہ کہو کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی تو وہ گمراہ ہوا ۔

علامہ اشمونی اس حدیث کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ففی الخبر دلیل واضح علی کراھۃ القطع فلا یجمع بین من اطاع ومن عصٰی فکان ینبغی للخطیب أن یقف علی قولہ (فقد رشد) ثم یستأنف ومن یعصھمافقد غوٰی ۔واذاکان مثل ھذا مکراھًا مستقیمًا فی الکلام الجاری بین الناس فھو کلام اللہ اشدّ کراھۃ وقبحاً و تجنّبہ اولی واحق (۳۹)

اس حدیث میں وقف قبیح کی قباحت وکراہت پر واضح دلیل ہے کہ خطیب مطیع اور عاصی کو باہم جمع نہ کرتا۔اسے چاہیے تھا کہ وہ ( فقد رشد ) پر وقف کرتا پھر ( ومن یعصھما) سے ابتدا کرتا اور فقد غوٰی پر وقف کرتاتوجب اس قسم کے وقف لوگوں کی عام گفتگو میں مکرو ہ اور ناپسندیدہ ہیں تو کلام اللہ میں ایسے وقف بہت ہی زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہوں گے لہذا اللہ کا کلام زیادہ اولٰی اور سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کو پڑھتے وقت ایسے وقوف سے بچا جائے ۔

علامہ ابو جعفر النحاس لکھتے ہیں: کان ینبغی أن تصل کلامک، ومن یعصھما فقد غوٰی، أو تقف علی رسولہ فقد رشد ۔فاذا کان ھذا مکروھاً فی الخطب وفی الکلام الذی یکلم بہ بعض الناس بعضاً،کان فی کتاب اللہ عزوجل أشد کراھۃ، وکان المنع من رسول اللہ ﷺ فی الکلام بذلک أوکد (۴۰

اس عبارت کا مفہوم بھی مذکورہ بالا عبارت جیسا ہے کہ اس قسم کا وقف خطبوں اور عام گفتگو میں اس درجہ نا پسندیدہ ہے کہ نبیﷺ نے اسے برداشت نہیں کیا اور مجلس سے اٹھا دیا توکتاب اللہ میں ایسا وقف کرنا اس سے بھی زیادہ مکروہ ہے آپ ﷺ کا حد درجہ ناراضگی کا اظہار فرمانا اس وجہ سے تھا کہ لوگوں کو آئندہ سے تنبیہہ ہو جائے ۔

ابو عمرو دانیؒ لکھتے ہیں:ففی ھذا الخبر ایذان بکراھۃالقطع علی المستبشع من اللفظ المتعلّق بما یبیّن حقیقتہ ویدل علی المراد منہ لأنہ علیہ السلام انّما قام الخطیب لمّا قطع علی ما یقبح اذ جمع بقطعہ بین حال من اطاع ومن وعصٰی ولم یفصل بین ذالک ۔وانّما کان ینبغی لہ أن یقطع علی قولہ، فقد رشد ثمّ یستأنف ما بعد ذالک ویصل کلامہ الی اٰخر فیقول :ومن یعصھما فقد غوٰی (۴۱)

اس حدیث کا مقصد وقف قبیح کی کراہت وقباحت سے متنبہ کرنا ہے جو اس قدر بدنما ہے کہ کلام کی حقیقت اور مقصودی معنی ہی فوت ہو جاتے ہیں۔اسی وجہ سے نبی ﷺ نے خطیب کو اٹھا دیا۔جب اس نے وقف قبیح کیا یعنی فرمانبردار اور نافرمان کو جمع کر دیا اور ان دونوں میں فصل اور جدائی نہیں کی۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ فقد رشد پر وقف کرتا پھر مابعد سے ابتداء کرکے اپنے کلام کو آخر تک ملاتا۔

علامہ دانی ؒمزید لکھتے ہیں: واذا کان مثل ھذا مکروھاً مستبشعاًفی الکلام الجاری بین المخلوقین فھو فی کتاب اللہ عزّوجل الذی ھو کلام ربّ العالمین اشدّ کراھۃ واستبشاعاً واحقّ و أولی أن یتجنّب (۴۲)

اس قسم کا وقف قبیح عام بول چال میں مکروہ اور نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور کتاب اللہ میں اس قسم کی کوتاہی کرنا جو کہ رب العالمین کا کلام ہے بہت زیادہ بدمزگی اور کراہت کا باعث ہو گا لہذا اس سے بچنا اولی اور لازم ہے ۔

امام جزری ؒیوں رقمطراز ہیں: قالوا: وھذا دلیل علی انّہ لایجوز القطع علی القبیح لانّ النبی ﷺ اقامہ لما وقف علی المستبشع ۔ لانّ جمع بین حالتی من اطاع اللہ ورسولہ ومن عصٰی والاولی أن یقف علی (رشد)ثم یقول :(ومن یعصھما فقد غوٰی)قلت : وقدبیّنت معنٰی ھذا الحدیث ۔ (۴۳)

ائمہ تجوید وقراء ت کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وقف قبیح جائز نہیں ۔ کیونکہ نبیﷺ نے وقف قبیح کرنے والوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا۔ اس شخص نے دوحالتوں کوجمع کر دیا تھایعنی جس نے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کی وہ بھی کامیاب ہوا اور جس نے نافرمانی کی (معاذاللہ)وہ بھی بامراد ہوا ۔میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے معنی واضح ہیں۔

علامہ زرکشی لکھتے ہیں: فاذا کان مثل ھذا مکروھاً فی الخطب ففی کلام اللہ اشدّ (۴۴)

جب ایسا وقف عام خطاب میں ناپسندیدہ اور مکروہ ہے توکلام اللہ میں ان کی کراہیت اور بھی شدید ہے ۔

قاری اظہار احمد تھانوی لکھتے ہیں: اس روایت میں واضح دلیل ہے کہ خطیب کے غلط جگہ وقف کرنے پر آپ ﷺ نے اس کو تنبیہ فرمائی ۔ خطیب کے لیے مناسب یہ تھاکہ اگر وہ دونوں فقرے ایک سانس میں نہیں بول سکتاتھا۔تو (فقد رشد) پر ٹھہر جاتا اورپھرنئے سانس میں اگلا جملہ کہتا (۴۵)

ائمہ کبار کے نزدیک علم وقف و ابتداء کا ماخذیہ روایت ہے : عن القاسم بن عوف قال سمعت عبد اللہ بن عمر یقول ثم لقد عشنا برھۃ من دھرنا وأحدنا یؤتی الایمان قبل القراٰن ،وتنزل السورۃ علی محمّد ﷺ حلالھا وحرامھا وآمرھاوزاجرھا،وما ینبغی أن یقف عندہ منھا ،کما تعلمون انتم الیوم القراٰن ثم لقد رأیت الیوم رجالاً یؤتی احدھم القراٰن قبل الایمان فیقرأ ما بین فاتحتہ الی خاتمتہ ما یدری ما آمرہ ولا زاجرہ ولا ینبغی أن یقف عندہ منہ۔ (۴۶)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں ہم اپنے زمانے میں ایک طویل مدت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن حاصل کرنے سے پہلے ہی ایمان لے آتااور نبی ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم سب آپ ﷺسے اس کے حلال وحرام کی تعلیم حاصل کرتے اور ان مقامات کو معلوم کرتے کہ جہاں وقف کرنا چاہیے ۔ جس طرح آج کل تم قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو ۔بے شک آج ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ایمان لانے سے قبل قرآن کی تلاوت کرتے ہیں وہ سورۃالفاتحہ سے سورۃالناس تک قرآن پڑھ لیتے ہیں مگرانہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہوتا کہ قرآن کا امر کیا ہے اور زجر کیاہے اور نہ ہی معلوم کرتے ہیں کہ قرآن پڑھتے ہوئے کون کون سے مقامات پروقف کرنا چاہیے ۔

ابو جعفر النحاسؒ لکھتے ہیں:فھذا یدلّ علی انّھم کانوا یتعلمون الوقف کما یتعلمون القراٰن (۴۷)

یہ روایت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام ؓ وقوف کی تعلیم اسی طرح حاصل کرتے تھے جیسے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

ابو عمرو دانیؒ لکھتے ہیں: ففی قول ابن عمر دلیل علی انّ تعلیم ذالک توقیف من رسول اللہ ﷺ وانّہ اجماع من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم(۴۸)

حدیث ابن عمر اس بات کی دلیل ہے کہ وقف کی تعلیم توقیفی ہے اور اس پر صحابہ کا اجماع ہے

ابن جزری ؒیوں رقمطراز ہیں: ففی کلام علی رضی اللہ عنہ دلیل علی وجوب تعلمہ ومعرفۃ ، وفی کلام ابن عمر برھان علی أن تعلمہ اجماع من الصحابہ رضوان اللہ علیھم (۴۹)

حضرت علی ؓ کے قول سے یہ دلیل ملتی ہے کہ اس علم کو سیکھنا اوراس کی معرفت حاصل کر نا واجب وضروری ہے اور حدیث ابن عمر سے یہ برھا ن ملتی ہے کہ علم وقف کا سیکھنا اجماع صحابہ ؓ سے ثابت ہے ۔

اہمیت ِوقف و ابتداء اور اقوال صحابہ ؓ و تابعینؒ

اقوال صحابہ ؓ اور تابعینؒ سے بھی علم وقف و ابتداء کی اہمیت کا ثبوت ملتا ہے ۔جیساکہ ہم ابن عمر کی روایت نقل کر آئے ہیں۔اسی طرح اور بھی بہت سے اقوال ؓ ؒ اس سلسلے میں وارد ہوئے ہیں۔

وقد روی ابن أبی طلحۃ عن ابن عباس:{ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتّبعتم الشیطان} قال: فانقطع الکلام (۵۰)

حضرت ابن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں۔ کہ کسی شخص نے {ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتّبعتم الشیطان } پڑھا اور وقف کر دیا آپ سے فرما یا کہ کلام کٹ گیا ،یعنی بہتر یہ تھا کہ وہ {الا قلیلاً} پر وقف کرتا۔

عن قتادہ فی قولہ عزوجل{الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ أَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہُ عِوَجَا۔قیّما}قال أنزل قیّماً،ولم یجعل لہ عوجاً، فیعلی ھذا ألا یقطع عند {عوجاً} لأن {قیّماً}راجع الی ما قبلہ (۵۱)

حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ کسی نے {عوجاً } کا وصل {قیّماً} کے ساتھ کر دیا جس سے {قیّماً}{ عوجاً} کی صفت بن جاتی ہے اور معنی یہ بنتے ہیں کہ جو کتاب اللہ تعالی نے نازل فرمائی اس میں ایسی پیچیدگی نہیں جو سیدھی ہو ۔اس پر قتادہ نے فرمایا : {انزل قیّماً ولم یجعل لہ عوجاً}

یعنی اللہ تعالی نے ایسی سیدھی کتاب نازل کی کہ جس میں ذرہ برابربھی کجی اور پیچیدگی نہیں ۔ چونکہ {قیّما} اپنے ماقبل کی طرف راجح ہے اس لیے ضروری ہے کہ {عوجاً} پر سکتہ یا وقف کیا جائے ۔

(عن عمرو بن میمون قال:کل مؤمن صدیق شھید)ثم قرأ {اُولٰىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ وَالشُّهَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ ۭ} (۵۲)کذایروی عن مجاھد فعلی ھذا التأویل التمام عند ربھم وفیہ قول آخر أن یکون التمام { اُولٰىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ } ویکون الائتناف { وَالشُّهَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ }کما قال مسروق؛ ھی للشھداء خاصۃ (۵۳

عمرو بن میمون سے روایت ہے فرمایا کہ ہر مؤمن صدیق اور شہید ہے پھر اس کی تائید میں یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی { اُولٰىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ وَالشُّهَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ }

اسی طرح کی ایک روایت مجاہد سے بھی مروی ہے کہ اس تاویل کی صورت میں وقف تام {عند ربھم} پر ہوگا اور دوسرا قول یہ ہے کہ {ھم الصدیقون} پر ہو گا پھر  {والشھداء} سے جملہ مستأنفہ شروع ہو گا جیسا کہ مسروق نے کہا کہ یہ آیت شھداء کے لیے خاص ہے ۔

وروی عن أبی عبد الرحمٰن السلمی،انّہ کان یستحب أن یقف { قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا }(۵۴) ثم یبتدیٔ فیقول { ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ }أراد أن یفرق بین کلام الکفر وجواب الملائکۃ (۵۵)

ابو عبد الرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ { قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا }  پر وقف کرنا پسندیدہ ہے پھر { ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ } سے ابتداء کی جائے اس سے ان کا مقصود کفار کے کلام اور ملائکہ کے جواب میں تفریق و انفصال کرنا ہے ۔

وسئل علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب عن قول اللہ جل وعز:{ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا }اقدرأیناالکافر یقتل المؤمن ،فقال علی رضی اللہ عنہ :اقرأ ماقبلھا { فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا }یعنی یوم القیامۃ لما اتصل الکلام بما قبلہ تبین المعنی وعرف المشکل۔ (۶ ۵)

حضرت علی ؓ سے اللہ تعالی کے اس قو ل ’’اللہ تعالی نے کافروں کے لیے مومنوں پر کوئی راہ نہیں رکھی‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا آپؓ نے فرمایا کہ اس سے ماقبل کو بھی پڑھو یعنی ’’اللہ تمھارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائیں گے اور اللہ نے کافروں کے لیے مومنوں پر کوئی راہ نہیں رکھی ‘‘جب پچھلے کلام کو ملا کر پڑھا گیا تو اعتراض رفع ہوگیا۔

اہمیت وقف و ابتداء اور ائمہ فن کے اقوال

صحابہ کرام ؓ و تابعین ؒاور تبع تابعین ؒسے اس علم کو سلف صالحین نے حاصل کیا اور موجودہ دور تک اس علم کی تعلیم وتعلم کا سلسلہ چلتا آرہا ہے اقوال صحابہؓ وتابعین وتبع تابعین ؒ کے بیان کر دینے کے بعد علم وقف وابتداء سے متعلق ائمہ فن کی آراء بھی نقل کی جاتی ہیں۔

علامہ اشمؤنی نے ابو بکر محمد بن القاسم بن بشّار الانباری کا یہ قول نقل کیا ہے : من تمام معرفۃ القراٰن معرفۃ الوقف والابتداء اذ لا یتأتّی لاحد معرفہ المعانی القراٰن الا بمعرفۃ الفواصل (۵۷)

عنی پورے قرآن کی معرفت کا دارو مدار علم وقف وابتداء پر موقوف ہے کوئی شخص اس وقت تک معانی قرآن کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا جب تک اسے وقف کے مواقع کا علم نہ ہو۔

امام ابو حاتم سجستانی فرماتے ہیں: من لم یعرف الوقف لم یعرف القرآن (۵۸)

جو شخص وقوف کا علم نہیں رکھتا وہ قرآن کو نہیں پہچانتا۔

علامہ مکی نصر نے امام ابو زکریا الانصاری کا علم وقف وابتداء کی اہمیت کے حوالے سے ایک قول نقل کیا ہے: الوقف فی صدر الاوّل الصحابۃ والتابعین وسائر العلماء مرغوب فیہ من مشائخ القرّاء والائمۃ الفضلاء مطلوب فیھا سلف من الاعصار واردہ بہ الاخبارالثابۃ والاثار الصحیحۃ (۵۹)

علم وقف صدر اول سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ،تابعین عظام ؒ اور علماء کے درمیان نہایت مقبول رہا اور قراء اور ائمہ فضلاء کے نزدیک یہ مطلوب و مقصود تھا۔زمانہ سلف ہی سے اس پر بہت سی اخبار ثابتہ اور آثار صحیحہ وارد ہوچکے ہیں۔

یہ بات مسلم ہے کہ قاری کوئی سورت یا قصہ ایک سانس میں نہیں پڑھ سکتا۔اسے سانس لینے کے لیے کہیں نہ کہیں رکنا اور ٹھہرنا پڑتا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ وہ سانس لینے کے لیے موقع ومحل دیکھے ۔اگر محل وقف غلط ہو گا تو عبارت کا مفہوم بدل جائے گا یا معنی کے سمجھنے میں خلل واقع ہو گا جیسا کہ علامہ ابن جزری لکھتے ہیں: لما لم یمکن القاریٔ أن یقرأ السورۃ أو القصۃ فی نفس واحد ولم یجر التنفس بین کلمتین حالۃ الوصل بل ذالک کالتنفس فی أثناء الکلمۃ وجب حینئذاختیار وقف للتنفس والاستراحۃ وتعین ارتضاء ابتداء بعد التنفس والاستراحۃ، وتحتم أن لا یکون ذالک مما یخل بالمعنی ولا یخل بالفھم اذ بذالک یظھر الاعجاز ویحصل القصد (۶۰)

ملا علی قاری نے المنح الفکریہ شرح مقدمۃ الجزریہ میں لکھا ہے کہ ناظم نے فرمایاکہ قول علیؓ وقف کی معرفت اور پہچان حاصل کرنے پر دلیل ہے اور حدیث حضرت ابن عمرؓ سے صحابہ کرامؓ کا اس علم کے حاصل کرنے پر اجماع ہے ۔(۶۱)

ملا علی قاری نے مزید لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ تواتر سے ثابت ہے کہ سلف صالح اس علم کو سیکھنے سیکھانے کی طرف متوجہ رہے اور اکثر ائمہ خلف نے یہ شرط لگائی تھی کہ قرأت کی سند علم وقف وابتداء کی معرفت حاصل کئے بغیر نہ دی جائے۔ (۶۲)

وقوف کی شرعی حیثیت

قرآن کریم میں کوئی وقف واجب اور حرام نہیں البتہ اگر کوئی وجوب یا حرمت کا سبب پیدا ہو جائے تو یقینا وہ وقف یا وصل واجب یا حرام ہوگا۔جیسا کہ علامہ جزری ؒ مقدمۃ الجزریہ میں لکھتے ہیں۔ ولیس فی القرآن من وقف وجب  ولا حرام غیر ما لہ سبب (۶۳)

اگر کوئی وجوب یاحرمت کا سبب پایا جائے تو وہ وقف یا وصل شرعاً واجب یا حرام ہو جائے گا مثلاً {وما من الہ}(۶۴) پر وقف کرنا یا {انّی کفرت}(۶۵) پر وقف کرنا وغیرہ کوئی مسلمان ایسے مقامات پر وقف نہیں کر سکتا لہذا اگر ایسا بے ارادہ کے ہو جائے تو کوئی حرمت واقع نہیں ہوگی ۔لہذا بہتر یہ ہے کہ اس قسم کے موقعوں پر وقف کرنے سے اجتناب کیا جائے تاکہ غیر مرادی معنی متوہم نہ ہوں۔ (۶۶)

اسی طرح {فَلَا یَحْزُنکَ قَوْلُہُم}(۶۷) پر وقف کرنا ضروری ہے اور اگر قصد وارادے کے بغیر وقف نہ کرے تو گو اس صورت میں آدمی گنہگار نہیں ہوتا مگر اہل اداء کے نزدیک ایسی جگہ وقف نہ کرنا ناپسندیدہ ہے۔چنانچہ وقف وابتداء کی معرفت حاصل کرنا ہر قاری کے لیے ضروری ہے۔تاکہ بے محل وقف و ابتداء کرنے سے غیر مرادی معنی مفہوم نہ ہوں۔

حاصل یہ ہے کہ علم وقف وابتداء کی معرفت وپہچان ہونا ضروری ہے تاکہ قرآن کریم کے معنی میں خلل واقع نہ ہواور نہ ہی غیر مقصودی معنی متوہم ہوں۔نبی علیہ السلام نے خطیب کو اسی وجہ سے اپنی مجلس سے اُٹھا دیا کہ اس نے غلط جگہ پر وقف کیا تھا۔گویا کہ آپ نے عام گفتگو میں ایسا کرنے کو پسند نہیں فرمایا،قرآن کریم تو کلام اللہ ہے اس کی تلاوت میں اس قسم کی کوتاہی کرناکیسے درست ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کے اوقاف قبیحہ سے اجتناب و گریز کرنا ضروری ہے جو کہ علم وقف و ابتداء کی معرفت اور پہچان حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔

حوالے و حواشی

۱۔ کتاب العین، ۵؍۲۲۳، الفراہیدی ، خلیل بن احمد،تحقیق،دکتور مھدی مخزومی،دکتور ابراہیم سامرانی، منشورات دار الھجرۃ ، ایران، ۱۴۰۵ھ

۲۔ معجم تہذیب اللغہ، ۴؍۳۹۳۸، ازھری،محمد بن احمد، ابو منصور، تحقیق، دکتور ریاض زکی قاسم، دار المعرفۃ بیروت، ۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۱ء

۳۔ الصحاح، ۳؍۶۱۹، الجوہری ، اسماعیل بن حماد ،تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ المسمّی الصحاح، دار احیاء التراث العربی، بیروت،۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۹ھ

۴۔ لسان العرب، ۱۵؍۳۷۳، ابن منظور، دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان، ۱۴۱۶ھ؍۱۹۹۵ء

۵۔ النشر فی القراء ات العشر، ۱؍۱۸۹، ابن جزری، محمد بن محمد، ابو الخیر، مکتبہ التجاریہ الکبریٰ باول الشارع محمد علی مصر، س۔ن

۶۔ منار الھدی، ۲۴،الشمؤنی، احمد بن محمد، منار الہدی فی بیان الوقف والابتداء، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۲۰۰۲ء

۷۔ رسالہ تعلیم الوقوف، ۶۲،عبد اللہ مکی،رسالہ تعلیم الوقف(مجموعہ نادرہ)،مرتب کردہ،اظہار احمد تھانوی،قراء ت اکیڈمی،لاہور

۸۔ فوائد مکیۃ، ۳۱،عبدالرحمن مکی، قاری، فوائد مکیہ مع حاشیہ توضیحات مرضئیۃ، مکتبہ قرأۃ لاہور، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۹۸۳ء

۹۔ جمھرۃ اللغۃ، ۳؍۲۰۲،ابن درید ،محمد بن الحسن،الازدی،دائرۃ المعارف العثمانیۃ الکائنۃ حیدر آباد دکن،س۔ن

۱۰۔ کتاب محیط المحیط، ۱؍۷۴،بترس بستان،بیروت،۱۲۸۶ھ؍۱۸۷۰ء

۱۱۔ بغیۃ المرید من احکام التجوید، ۳۵۵،مہدی، محمد الحرازی،دار البثائرالاسلامیہ، بیروت، ۲۰۰۱ء

۔ اشھر المصطلحات فی فن الاداء وعلم القراء ات، ۱؍۳۹۲،الحفیان، عبدالسمیع، احمد محمود،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۱ء

۱۳۔ تفہیم الوقوف، ۲۹۶،اسماعیل، محمد ،قاری، امرتسری،المکتبہ الامدادیہ التجویدیہ، لاہور، ۱۹۷۵ء

۱۴۔ اشھر المصطلحات فی فن الاداء وعلم القراء ات، ۲۱۷،الحفیان، عبدالسمیع، احمد محمود، دار الکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۲ھ؍۲۰۰۱ء

۱۵۔ محولہ بالا ۱۶۔ المزمل، ۷۳:۴ ۱۷۔ النشر ، ۱؍۱۷۷

۱۸۔ الاتقان فی علوم القرآن، ۱؍۲۳۲، السیوطی، جلال الدین، علامہ، مکتبۃ المعارف، الریاض، ۱۴۶۱ھ؍۱۹۹۱ء

۱۹۔ فتح القدیر، ۵؍۳۸۷،الشوکانی، محمد بن علی ،فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر، دار الفکر ،بیروت، س۔ن

۲۰۔ القطع والائتناف، ۱۹،ابن النّحاس، احمد بن محمد، ابو جعفر ،القطع والائتناف الوقف والابتداء ، تحقیق ، احمدفریدالمزیدی،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۳ء

۲۱۔ محولہ بالا ۲۲۔ اسراء، ۱۵:۱۰۶،

۲۳۔ جامع البیان، ۹؍۱۷۸، الطبری، ا بو جعفر محمد بن جریر، تفسیر طبری، جامع البیان عن تاویل ای القرآن، دار الفکر ،بیروت، ۱۴۰۵ھ

۲۴۔ الجامع لاحکام القرآن، ۱۰؍۲۱۹، القرطبی، ابو عبداللہ محمد بن احمد ابی بکر، دار الشاب قاہرہ، ۱۳۷۲ھ، طبعہ ثانیہ

۲۵۔ اضواء البیان،۳؍۲۸۸، الشنقیطی،محمد الامین بن محمد،أضواء البیان فی ایضاح القرآن ، مکتبۃ التجاریۃ، ۱۴۱۵ء؍۱۹۹۵ء ۲۶۔ جامع البیان ، ۹؍۱۷۹

۲۷۔ فتح القدیر، ۳؍۲۸۴، الشوکانی، محمد بن علی ،فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر، دار الفکر ،بیروت، س۔ن

۲۸۔ الجامع لاحکام القرآن ، ۱۰؍۳۱۰ ۲۹۔ اضواء البیان ، ۲؍۱۸۸

۳۰۔ المسند ، ۵؍۵۱،احمد بن حنبل،الشیبانی،ابو عبداللہ،موسسۃ قرطبہ،مصر،س۔ن

۳۱۔ المکتفی،۱۳۱،الدانی، عثمان بن سعید، ابو عمرو،المکتفی فی الوقف والابتداء،تحقیق،جاوید زیدان مخلف،مطبعۃ وزارۃ الاوقاف الشؤون الدینیّۃ، عراق،۱۴۰۳ھ؍۱۹۸۳ء

۳۲۔ السنن ،ابو داؤد ،باب انزل القراٰن علی سبعۃ أحرف ،حدیث نمبر۳۸۰۲،ابو داؤد، السجستانی، سلیمان بن اشعت، تحقیق،محمد محی الدین عبد الحمید،دار الفکر ،بیروت،س۔ن

۳۳۔ القطع والائتناف، ۲۸،ابن النّحاس، احمد بن محمد، ابو جعفر ،القطع والائتناف الوقف والابتداء، تحقیق ،احمدفریدالمزیدی،دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۳ء

۳۴۔ المکتفی ، ۱۳۲ ۳۵۔ القطع والائتناف، ۲۸

۳۶۔ صحیح مسلم،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، حدیث نمبر۸۷۰،مسلم بن الحجاج، القشیری، الجامع الصحیح ،تحقیق، محمدفؤاد عبد الباقی،دار احیاء التراث العربی، بیروت،س۔ن؛سنن ابی داؤد، باب الرجل یخطب علی قوس ۱۰۹۹؛مسند احمد ۴؍۲۵۶

۳۷۔ منار الھدی، ۱۸،الشمؤنی، احمد بن محمد، منار الہدی فی بیان الوقف والابتداء، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۲۰۰۲ء

۳۸۔ محولہ بالا ۳۹۔ محولہ بالا

۴۰۔ القطع والائتناف، ۲۸ ۴۱۔ المکتفٰی ،۱۳۴

۴۲۔ محولہ بالا

۴۳۔ التمھید فی علم التجوید، ۱۸۹،ابن جزری، محمد بن محمد، ابو الخیر، التمہید فی علم التجوید، مؤسسۃ الرسالۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت، ۱۹۸۶ء

۴۴۔ البرھان فی علوم القرآن، ۱؍۴۲۰، الزرکشی، بدر الدین، علامہ، دار الفکر، بیروت لبنان، ۱۴۰۸ھ؍۱۹۸۸ء

۴۵۔ المرشدفی مسائل التجوید والوقف ، ۳۸۵،اظہار احمد ، تھا نو ی، المرشدفی مسائل التجوید والوقف، قراء ت اکیڈمی،لاہور،س۔ن

۴۶۔ السنن الکبری ،بیھقی ،حدیث نمبر ۵۰۷۳،۳؍۱۲۰؛حاکم ، المستدرک علی الصحیحینحدیث نمبر (۱۰۱) ۱؍۹۱

۴۷۔ القطع والائتناف،۲۷ ۴۸۔ المکتفی ،۱۳۴۔۱۳۵

۴۹۔ النشرفی القراء ات العشر، ۱؍۱۷۷ ۵۰۔ النساء، ۴:۸۳

۵۱۔ القطع والائتناف، ۲۹ ۵۲۔ الحدید، ۵۷:۱۹

۵۳۔ القطع والائتناف، ۲۹ ۵۴۔ یس، ۳۶:۵۲

۵۵۔ القطع والائتناف،۲۹ ۵۶۔ القطع والائتناف، ۲۹۔۳۰

۵۷۔ منارا لھدی،۱۳ ۵۸۔ نھایۃ القول المفید ، ۱۹۵

۵۹۔ نھایۃ القول المفید ، ۱۹۴ ۶۰۔ النشرفی قراء ات العشر، ۱؍۱۷۷

۶۱۔ المنح الفکریہ، ۶۲ ۶۲۔ محولہ بالا

۶۳۔ مقدمۃ الجزریہ، ۱۱ ۶۴۔ ص۳۸:۶۵

۶۵۔ ابراہیم ، ۱۴:۲۲

۶۶۔ الحواشی المفھمہ فی شرح المقدمۃ، ۱۵۴؛ الدقائق المحکمۃ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ فی علم التجوید، ۳۰

۶۷۔ یس ، ۳۶:۷۶