پاکستان میں قرآن کی طباعت ۔ تاریخی مطالعہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر*

قرآن مجید کے ذریعے بہت سے علوم معرض وجود میں آئے۔منجملہ ان تمام علوم کے علم ا لرسم بھی ہے۔یہ علم بھی انتہائی اہم علوم میں سے ایک ہے۔ یہ اسی علم کا فیض ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں مسلمان جو کہ عربی زبان سے ناواقف ہیں اور عربی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن علم الرسم اور علم الضبط کے طفیل قرآن مجید کو اس خوبصورتی اور روانی سے پڑھ لیتے ہیں گویا کہ وہ اس کو پوری طرح سمجھ کر پڑھ رہے ہیں ۔

رسم کاتعلق حروف قرآن کی طرز تحریر کے ساتھ ہے کہ قرآنی حروف کو مصحف عثمانی میں کس طرح لکھا گیا ۔کیونکہ مصحف عثمانی ہی مآخذ اصلی یعنی standardنسخہ ہے ،روایت کا تعلق نقل کے ساتھ ہے کہ الفاظ قرآنی اسلاف سے اخلاف تک کیسے منتقل ہوئے۔رسم صحیح تلاوت کے لیے ضروری ہے جبکہ روایت سے جمع و تدوین اور حفاظت قرآن کاعلم ہوتا ہے۔ذیلی سطور میں رسم قرآن کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔

حضرت عثمان غنی ؓ نے جو مصاحف(قرآن کے نسخے)تیار کرائے اور پھر ان کو مختلف بلاد و امصار میں بھجوایا وہ سب کے سب عہد نبوی میں رائج خط میں تحریر کئے گئے تھے اور اسی طریق املاء و ہجا کے مطابق لکھے گئے تھے جو طریقہ املاء و ہجادور رسالت مآب ﷺ میں رائج تھا۔اس ضمن میں لغت قریش کو ترجیح دی گئی ۔ حضرت عثمان ؓ نے قرآن لکھنے والی کمیٹی کو حکم دیا کہ اگر کوئی اختلاف پیدا ہو تو لغت قریش پر ہی لکھو۔کیونکہ قرآن مجید لغت قریش پر ہی نازل ہوا ہے اس بارے میں لفظ تابوت لکھتے ہوئے اختلاف سامنے آیا بعض کہتے کہ تابوۃ لکھا جائے جبکہ بعض کی رائے تھی کہ تائے طویلہ سے لکھا جائے یعنی تابوت۔ حضرت عثمان ؓ نے فیصلہ دیا کہ اس کو لغت قریش کے مطابق تابوت لکھا جائے۔

ان مصاحف کی تیاری اور کتابت میں مرکزی کردار حضرت زید بن ثابت ؓ کا تھا جو حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں کاتب وحی کی سعادت کے حامل تھے اور بہت با صلا حیت نوجوان تھے۔جس طرز پر یہ مصاحف لکھے گئے اس طرز کو اصطلاح میں رسم عثمانی یا رسم المصحف کا نام دیا جاتا ہے۔

رسم پر بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ رسم عثمانی اور رسم عادی کے فرق کو واضح کیا جائے کہ اس کے بغیر یہ بحث ناقابل فہم رہے گی ۔ذیل میں رسم عثمانی اور رسم عادی کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن رسم عثمانی پر نقطے اور اعراب دونوں لگائے گئے ہیں تاکہ فہم میں آسانی پیدا ہو سکے وگرنہ رسم عثمانی نقطوں اور اعراب سے معراتھا۔

رسم عادی رسم عثمانی
الصابرین الصٰبرین
الرحمان الرحمٰن
الشیطان الشیطٰن
العالمین العٰلمین
الکتاب الکتٰب

یہ ایسے کلمات کی مثالیں ہیںجو پورے قرآن مجید میںرسم عثمانی ہی کے مطابق لکھے جاتے ہیں جبکہ کچھ کلمات ایسے بھی ہیں جو کہیں تو رسم عادی میں تحریر کئے گئے ہیں اور کہیں رسم عادی سے ہٹ کر بھی لکھے گئے ہیں۔ایسے کلمات کی مثالیں پیش کرنے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حکومت مصر نے ۱۳۴۲ ھ میں ایک قرآن مجید شائع کیا تھا جس کے بارے میں یہ لکھا کہ اس قرآن مجید کا رسم ان چھ نسخوں پر مبنی ہے جو نسخے حضرت عثمان ؓ نے بصرہ،کوفہ،شام، اور مکہ بھجوائے تھے۔ان کے علاوہ ایک نسخہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے اور ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا تھا(۱)پھر ۱۴۰۵ ھ میں حکومت سعودی عرب نے یہی نسخہ حجاج کرام کو تحفہ میں دینے کے لیے طبع کرایا کیونکہ دونوں قسم کے مطبوعہ نسخوں کے آخر میں مذکورہ بالا مضمون کی تحریر موجود ہے ۔تفصیل آئیندہ صفحات میں مناسب مقام پر دی جا رہی ہے۔ذیل میں پیش کی جانی والی مثالیں اسی سعودی حکومت کی طرف سے مطبوعہ قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔

۱۔ کلمہ بسم ، اس کو رسم عادی میں باسم لکھا جاتا ہے۔لیکن رسم عثمانی میں ب کے بعد الف کو محذوف کر دیا گیا ہے چنانچہ قرآن کریم کی تمام سورتوں کے شروع میں بسم لکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ درج ذیل دو آیات میں بھی یہی کیفیت ہے:

{ بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖىهَا وَمُرْسٰىهَا}ا(۲)

{وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ }(۳)

لیکن بعض مقامات پر یہی کلمہ رسم عادی ہی میں یعنی ب کے بعد الف کے ساتھ بھی لکھا گیا ہے۔مثالیں ملاحظہ ہوں:

{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ } (۴)

{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ} (۵)

{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ}(۶)

۲۔ کلمہ تبارک رسم عادی ہے لیکن رسم عثمانی میں ب کے بعد الف کو محذوف کر کے لکھا گیا ہے اور ب پر کھڑی زبر ڈالی گئی ہے مثالیں ملاحظہ ہوں:

{ تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ} (۷)

{ تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ} (۸)

لیکن بعض مقامات پر ب کے بعد الف لکھا گیا ہے مثالیں ملاحظہ ہوں:

{ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ} (۹)

{ تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ} (۱۰)

۳۔ کلمہ بنات رسم عادی ہے لیکن رسم عثمانی میں محذوف الالف ہے اور نون پر کھڑی زبر ڈال کر واضح کیا گیا ہے مثالیں ملاحظہ ہوں۔

{و بنٰت بغیر علم} (۱۱)

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ پاکستان میں طبع ہونے والے بعض قرآنی نسخوں میں کہیں کہیں رسم عثمانی کا اتباع نہیں کیا گیا مثلاً

{ تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ}(۱۲)

ممکن ہے مزید تتبع سے ایسی مثالیں دیگر مطبوعہ مصاحف میں بھی مل سکیں

{ اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ} (۱۳)

لیکن درج ذیل مقامات پر یہی کلمہ رسم عادی میں ہے۔

{ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ } (۱۴)

{ مَا لَنَا فِيْ بَنٰتِكَ مِنْ حَقٍّ }(۱۵)

{اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ } (۱۶)

۴۔ کلمہ اعناب رسم عادی ہے مثالیں ملاحظہ ہوں۔

{وجنٰت من اعناب}(۱۷)

{والنخیل والاعناب}(۱۸)

{حدائق و اعنابا}(۱۹)

لیکن حسب ذیل دو مقامات پر رسم عادی ہے

{وجنٰت من اعناب}(۲۰)

{لہ جنۃ من نخیل و اعناب}(۲۱)

۵۔ کلمہ سبحان رسم عادی ہے لیکن رسم عثمانی میں محذوف الالف ہے۔

{سبحٰنک لا علم لنا}(۲۲)

{سبحٰنک فقنا عذاب النار}(۲۳)

{سبحٰن الذی اسرٰی}(۲۴)

{سبحٰنہ وتعٰلی عما یقولون}(۲۵)

{سبحٰن ربنا ان کان وعد ربنا لمفعول}

ا(۲۶)اسی کلمہ کو الف کے ساتھ بھی لکھا گیا ہے مثلاً :

{قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا}(۲۷)

۶۔ کلمہ طائفرسم عادی ہے ۔ اس کو بھی دونوں طریقوں سے تحریر کیا گیا ہے۔

{اذا مسھم طٰئف من الشیطٰن تذکرو فاذاھم مبصرون}(۲۸)

{فطاف علیھا طائف من ربک وھم نا ئمون}(۲۹)

۷ ۔ کلمہ کتاب اس کو رسم عثمانی میں کتٰب لکھا گیا ہے، اور کتاب بھی

{ذالک الکتٰب لا ریب فیہ}(۳۰)

{واذ اٰتینا موسی الکتٰب}(۳۱)

{لکل اجل کتاب}(۳۲)

{ولھا کتاب معلوم}(۳۳)

{اوحی الیک من کتاب ربک} (۳۴)

{تلک اٰیت القرآن وکتاب مبین}(۳۵)

نوٹ :پورے قرآن مجید میں مذکورہ چار مقامات کے علاوہ ہر جگہ کلمہ کتاب محذوف الالف ہے۔

۸۔ کلمہ سیماھم یہ کلمہ بھی تمام جگہوں پر محذوف الالف ہے مثلاً

{تعرفھم بسیمٰھم}(۳۶)

{یعرف المجرمون بسیمٰھم}(۳۷)

لیکن یہی کلمہ پورے قرآن میںالف کے ساتھ یعنی رسم عادی میں لکھا گیا ہے۔

{سیماھم فی وجو ھھم من اثر السجود}(۳۸)

۹۔ کلمہ رحمۃ بیشتر مقامات پر مذکورہ گول ۃ سے لکھا گیا ہے لیکن بعض مقامات پر ت طویلہ کے ساتھ تحریرکیا ہے۔

{صلٰوت من ربھم ورحمۃ} (۳۹)

{من لدنک رحمۃ}(۴۰)

{او لٰئک یرجون رحمت ﷲ}(۴۱)

{ان رحمت ﷲ قریب}(۴۲)

یہ چند مثالیں بطور نمونہ اس جگہ پیش کی گئی ہیں۔وگرنہ یہ ایک مستقل موضوع ہے جو تفصیل سے تحقیق طلب ہے۔اکابرین نے دیگر علوم کی طرح بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس عنوان پر کتابیں لکھی ہیں۔اس موضوع پر عربی زبان میں متعدد کتب موجود ہیں لیکن ابو عمر عثمان بن سعید الدانی الاندلسی کی کتاب المقنع زیادہ معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔یہ پانچویں صدی ہجری کے نامور عالم ہیں ان کا انتقال ۴۴۴ھ میں ہوا۔دوسری اہم کتاب التنزیل فی ہجاء المصحف ہے۔یہ کتاب ابو عمر الدانی کے شاگرد ابو دائود سلیمان بن نجاح الاندلسی کی تصنیف ہے۔یہ جو اپنے موضوع اور مضامین کے حوالے سے بہت اہم ہے لیکن ابھی تک کسی نے اس کو طبع نہیں کیااس کے مخطوطات موجود ہیں۔(۴۳) ان کے علاوہ دیگر قابل ذکر کتب کے نام یہ ہیں۔

دلیل الحیران۔یہ کتاب دراصل مورد الظمان فی رسم احرف القرآن کی شرح ہے جو کہ محمد بن الاموی جو کہ الخراز کے نام سے مشہو ر ہیںکی لکھی ہوئی ہے۔ساری کتاب منظوم ہے۔ ۱۳۶۵ھ میں اس کتاب کو قاہرہ کے مطبع الاستقامہ نے طبع کیا(۴۴)

سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین۔مذکورہ کتاب بھی بڑی اہم ہے۔ علی محمد الصباع کی لکھی ہوئی ہے۔۱۳۵۷ھ میں قاہرہ سے طبع ہوئی۔

المقنع ۔التنزیل کے مسائل کا خلاصہ ہے۔اسی موضوع پربرصغیر پاک و ہند کے عالم محمدغوث ناصر الدین محمد نظام الدین ارکاٹی نے بھی بڑی گراں قدر کتاب تحریر کی ہے۔کتاب کا نام ہے نثر المرجان فی رسم نظم القرآن عربی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب سات جلدوں پر مشتمل ہے۔

عثمان پریس حیدر آباد دکن سے ۱۳۱۳ھ میں شائع ہوئی ہے ۔(۴۵)یہ بڑی تعجب خیز بات ہے کہ اردو زبان میں رسم المصحف پر کوئی قابل ذکر کتاب موجود نہیں یا ہماری نظر سے نہیں گزری ۔البتہ لاہور کے ایک ناشر نے عکسی تجویدی قرآن مجید کے عنوان سے ایک قرآن مجید ضرور شائع کیا ہے اس کے مرتب مولوی ظفر اقبال مرحوم ہیں۔اس کے دیباچے میں کچھ مختصر بحث رسم عثمانی پر بھی ہے۔اس قرآن مجید پر مکمل تبصرہ مناسب باب میں کیا جائے گا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ رسم القرآن پر اردو زبان میں پہلی بھر پور کوشش حافظ احمد یارؒ صاحب نے کی ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کا نام اعراب و لغات قرآن رکھا ہے۔ابھی کتاب ابتدائی مراحل میں ہے اس کی اقساط ۱۹۸۹ ء سے ماہنامہ حکمت قرآن سے طباعت کے مراحل میں ہے۔

قرآن مجید کے اور بہت سے اعجاز کے ساتھ ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ اس کے رسم میں صدیاں گزر جانے کے باوجود کوئی فرق نہیں آیااور ہر مصحف یا ہر نسخہ مصحف عثمانی ہی کے مطابق تحریر کیا جاتا ہے۔ اور پورے عالم اسلام میں اسی رسم عثمانی کومعیارstandardتسلیم کیا گیا ہے۔اس رسم کی پابندی کا اہتمام ہر دور میں ہوتا رہا ۔اگر سہواً اس رسم سے انحراف کی کوئی مثال سامنے آئی تو اس پر فوراً گرفت کی گئی۔راقم نے ۸۱۔۱۹۸۰ ء دو برس ریاض میں گزارے۔اس دوران کئی مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت کا موقع میسر آیا۔حرم کعبہ میں ایک مرتبہ میری ملاقات ایک عرب عالم دین سے ہوئی جو حکومت سعودی عرب میں وزارت شئون الاوقاف کے ملازم تھے۔حرم شریف کے قریب ہی ان کا سرکاری دفتر تھا۔ان کے دفتر میں ، میں نے دیکھا کہ دیواروں کے ساتھ تہہ درتہہ قرآن مجید کے مطبوعہ نسخے ترتیب سے رکھے گئے ہیں۔ان تمام نسخوں میں مختلف صفحات کی نشاندہی کرنے کی غرض سے کاغذ کے پرزے رکھے ہوئے تھے۔میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ حکومت سعودی عرب کی طرف سے علماء کی باقاعدہ وضاحت ایک جماعت ہے جس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ مختلف ممالک سے حرم شریف میں لائے جانے والے قرآنی نسخوں کی جانچ پڑتال کریں ۔جس نسخے میں کوئی خامی ہو یا وہ رسم عثمانی کے مطابق نہ ہو اس کو حرم شریف سے خارج کر دیا جائے۔یہ تمام ایسے ہی نسخے ہیں ان میں زیادہ تر نسخے ایران کے مطبوعہ تھے کچھ نسخے ترکی اور چین کے بھی تھے ان میں رسم عثمانی سے انحراف کی مثالیں موجود تھیں مثلاً شیطٰن کو شیطان لکھا گیا تھا ۔ہمارے اس مشاہدے کی تصدیق ماہنامہ حکمت قرآن کی عبارت سے بھی ہوتی ہے۔(۴۶)

غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۸۵ء میں حکومت سعودی عرب نے حجاج کو پابند کر دیا کہ کوئی حاجی اپنے ملک سے قرآن پاک کا نسخہ لے کر نہ آئے۔حکومت سعودی عرب نے اپنی وزارت حج و اوقاف کی نگرانی میں قرآن مجید کے نسخے طبع کرا کے حجاج میں تقسیم کرنے کا اہتمام کر دیا ہے۔تاکہ اغلاط سے حفاظت اور رسم عثمانی کی مکمل پابندی کا اہتمام ہو سکے۔حکومت سعودی عرب کے اہتمام سے شائع ہونے والے قرآن مجید کے آخر میں تعریف ھذاالمصحف الشریف کے عنوان سے تین باتیں وضاحت سے تحریر کی گئی ہیں۔

روایت کے سلسلے میں لکھا گیا ہے کہ اس قرآن مجید کو حفص بن سلیمان ابن المغیرہ الاسدی کوفی کی روایت میں عاصم بن ابی النجود کوفی تابعی کی قر ات کے مطابق تحریر کیا گیا ہے۔جبکہ عاصم بن ابی النجود نے مذکورہ قرات کو ابی عبدالرحمٰن عبدﷲبن حبیب السلمی سے اور انہوں نے حضرت عثمان بن عفانؓ اور

رسم کے سلسلے میں تحریر ہے کہ اس کے ھجاء مصاحف عثمانی کے مطابق ہیں۔وہ مصاحف کہ جو حضرت عثمانؓ نے بصرہ ،کوفہ،شام اور مکہ کی طرف ارسال فرمائے اور ایک وہ مصحف جو انہوں نے اہل مدینہ کے لیے رکھا اور ایک وہ مصحف جو انہوں نے اپنے لیے مخصوص کر لیا اور اس میں شیخ ابو عمر و الدانی اور ابو دائود سلیمان بن نجاح کی منقولات کی رعایت رکھی گئی ہے جبکہ اختلاف کی صورت میں ابو دائو سلیمان کی نقل کو ترجیح دی گئی ہے۔تعداد آیات کے سلسلے میںلکھا ہے کہ امام شاطبی کی کتاب ناظمۃ الزھر کے مطابق ابو عبدالرحمٰن عبدﷲ بن حبیب السلمیٰ جنہوں نے علی بن ابی طالبؓ سے روایت کیا کوفی طریقہ کو اختیار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ علم الفواصل پر لکھی گئی دیگر کتب کو بھی سامنے رکھا گیا ہے اس طریقہ کے مطابق قرآن مجید کی کل آیات کی تعداد ۶۲۳۶ چھ ہزار دو سو چھتیس بنتی ہے۔
طریق ضبط کے با رے میں تحریر ہے کہ اس سلسلے میں امام تنسی کی کتاب الطراز علی ضبط الخرازکو پیش نظر رکھا گیا ہے۔جبکہ خلیل بن احمد کی علامات کو بھی اخذ کیاگیا ہے نیز اندلس اور مغرب والوں کی علامات کی جگہ اہل مشارقہ کی علامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔علامات الوقوف کا فیصلہ اس کمیٹی نے کیا ہے جو اس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس کمیٹی نے اس سلسلے میں مفسرین علماء الوقف کے فیصلوں سے مددلی۔اور سجدات القرآن کے معاملے میں کتب فقہ کتب احادیث سے مدد لی گئی۔ماسوائے پانچ سجدوں کے جن میں ایک سورہ حج میں، ایک سورہ ص میں،ایک سورہ النجم میں،ایک سورہ انشقاق میں،اور ایک سورہ العلق میں ہے۔

جہاں تک تیس اجزاء چھ منازل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کتاب غیث النفع للعلامہ السفاقسی اور امام شاطبی کی ناظمۃ الزھر اور اس کی شرح اور شیخ محمد متولی کی تحقیق البیان اور ابی عبد رضوان کی ارشاد القراء و الکاتبین سے مدد لی گئی ہے۔اور مکی مدنی سورتوںکا جدول مصحف کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔ اور سکتات کے بیان کو حفص کی روایت کے مطابق شاطبیہ اور اسکی شرح سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ ان سکتات کی کیفیت ادا کا علم مشائخ سے سماعت کی بنیاد ہے۔(۴۷)
اب حکومت سعودی عرب کی طرف سے شائع ہونے والے ہر قرآن مجید کے آخر میں صحت متن اور صحت رسم،صحت اعراب و فوا صل وغیرہ کے محقق اور صائب ہونے کے لیے قرار اللجنۃ کے عنوان سے اس بات کا سر ٹیفکیٹ شائع کیا جاتا ہے کہ یہ قرآن مجید اغلاط سے کلیۃً مبرا ہے

قرار اللجنۃ کا متن حسب ذیل ہے

قرار اللجنۃ
الحمد للٰہ والصلوۃ والسلام علی رسول اﷲ وعلی الہ وصحبہ اجمعین وبعد فیوم الثلاثاء الموافق ر ۱۹/۸/۱۴۰۳ھ صدر الامر الملکی الکریم رقم (۱۵۴۰/۸) من خادم الحرمین الشریفین الملک فھد بن عبدالعزیز اٰل سعود حفظہ اﷲ لاختیار مصحف تجری طباعۃ فی مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف الذی انشأہ لھذالغرض النبیل، وبعد ان تم اختیار المصحف وتمت مراجعتہ صدر الامر الملکی الکریم بتسمیتہ (مصحف المدینۃ النبویہ) تیمناً باسم ھذہ البقعۃ المبارکہ التی ھی ومھبط الوصی ومھاجرالنبی محمد ﷺ
وبنائً علی طلب معالی وزیر الحج و الاوقاف والمشرف العام علی المجمع والاتفاق المبرم بین معالی رئیس الجامعہ الاسلامیہ بالمدینہ النبویہ وبین الامین العام للمجمع صدر قرار معالی رئیس الجامعہ رقم ۷۹۹ ۲۰/۴/۱۴۰۴ بتشکیل لجنۃ مراجعۃ المصحف
وقد تولت ھذہ اللجنۃ مراجعۃ ھذا المصحف الشریف علی امھات کتب القراء ات والرسم والضبط والفواصل والوقف والتفسیر، وھی بریاسۃ فضیلۃ عمید کلیۃ القرآن الکریم والدراسات الاسلامیہ بالجامعہ الاسلامیہ بالمدینہ النبویہ والاستاذ المشارک الدکتور عبدالعزیز ابن عبد الفتاح قاری، وعضویۃ کل من اصحاب الفضیلۃ الدکتور علی بن عبد الرحمٰن الحذیفی الامام بالمسجد النبوی والاستاذ المساعد بقسم الفقہ بالجامعہ۔نائب لوئیس اللجنۃ والشیخ عامر بن السید عثمان شیخ عموم المقاری المصریہ والدکتور عبد العظیم بن علی الشناوی رئیس قسم اللغویات بالجامعہ، والشیخ محمود بن سیبویہ البدوی، والشیخ عبد الفتاح بن السید عجمی المرصغی، والشیخ محمود بن عبد الخالق جادو، والشیخ عبدالرافع بن رضوان بن علی، والشیخ عبد الرزاق بن علی بن ابراہیم موسیٰ، والشیخ عبد الحکیم بن عبد السلام خاطر، وھم من علماء القراء ات بکلیۃ القرء ان المذکورۃ والدکتور عبدالعزیز بن محمد ابن عثمان الاستاذ المساعد بقسم التفسیر بالجامعہ، والشیخ عبد اﷲ بن عبد الرحمٰن البعادی رئیس قسم شئون المصاحف بریاسۃ ادارات البحوث العلمیہ والافتاء والدعوہ والارشاد بالریاض، والشیخ رشاد بن موسیٰ طلبہ، والشیخ فرغل بن سید فرح مراقبی المصاحف بالادارہ المذکورہ
وقد شارک فی بعض مراحل عمل اللجنۃ وساعد علی ذالک فضیلۃ الشیخ عبداﷲ بن ردن البداح مدیر الادارہ العامہ لشئون المصاحف ومراقبۃ المطبوعات بریاسۃ ادارات البحوث العلمیہ والافتاء والدعوہ والارشاد۔
واللجنۃ وقد تمت مراجعتھا لھذا المصحف واذنت بطبعہ تسأل المولی القدیران ینفع بہ عموم المسلمین فی غرہ جمادی الاولی من عام ۱۴۰۵ھجری۔کما صد تأیبد الر ئاسۃ العامہ لادارت البحوث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والارشاد برقم ۸۹/۵/س و تاریخ ۳ رمضان ۱۴۰۵ھجریہ الذی تضمن دراسۃ الجھہ المختصہ بھا لھذا لمصحف وتأکد لدیھا انہ سلیم الرسم والضبط والاخراج واﷲ ولی التوفیق
توقیعات اعضاء اللجنۃ

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت سعودی عرب کی وزارت الحج و الاوقاف کی نگرانی میں شائع ہونے والا مذکورہ قرآن مجید رسم عثمانی اور متن قرآن کی حفاظت کے سلسلے میں سب سے قریب ترین Latestکوشش ہے۔ اس سے قبل حکومت مصر نے ۱۳۴۲ھ میں ایک نسخہ قرآن مجید شائع کیا تھا ۔اس کا رسم الخط بھی ان چھ نسخوں پر مبنی تھا جو نسخے حضرت عثمانؓ نے تیار کروا کر بصرہ، کوفہ، شام، مکہ، مدینہ رکھوائے تھے اور ایک نسخہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیا تھا۔وہ مصر کا مطبوعہ قرآن مجید تو ہمیں نہیں مل سکا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسی قرآن مجید کو بعد میں حکومت سعودی عرب نے شائع کرایا کیونکہ دونوں کے آخر میں ایک سی عبارت مندرج ہے۔(۴۸)یہ بات اگر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو قریب ترین کوشش حکومت مصر کی طرف سے شائع ہونے والے قرآن مجید کو ہی کہا جائے گا۔

قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ جب ایران، ترکی اور ہندو پاکستان میں طبع ہونے والے نسخہ ہائے قرآن میں رسم عثمانی سے انحراف کی مثالیں سامنے آنے لگیں تو حکومت سعودی عرب نے ان ممالک کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اس دوران حکومت پاکستان نے یہ قانون بنایا کہ ناشرین و طابعین قرآن مجید کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہر نسخہ کے آخرمیں صحت متن و اعراب وغیرہ کا تصدیق نامہ شائع کریں۔یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں ہرمطبوعہ قرآن مجید کے پیچھے درستی طباعت اور اغلاط سے مبرا نیز جزو بندی کی درستی کا ایک سر ٹیفکیٹ باقاعدہ چھاپا جاتا ہے جس کی عبارت حسب ذیل ہے۔

سرٹیفکیٹ

میں نے اس قرآن پاک کی طباعت کے وقت اس کا ہر صفحہ بغور پڑھا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اس کی کتابت کے الفاظ اور اعراب دونوں بالکل صحیح ہیں۔دوران طباعت اگر مشین پر کوئی زیر،زبر،پیش،جزم،تشدیدیا نقطہ چھپائی میںخراب ہو جائے تو اس کا متن کتابت کی صحت سے تعلق نہیںہے۔لہذا میراسرٹیفکیٹ متن کی صحت کی حد تک ہے۔(۴۹)

دستخط حافظ عبدالرئوف

اس سر ٹیفکیٹ کے اوپر ریسرچ اینڈ رجسٹریشن آفیسر محکمہ اوقاف کی مہر ثبت ہوتی ہے۔بعض نسخوں میں عبارت کے الفاظ کچھ مختلف بھی ہوتے ہیں تاہم مفہوم یکساں ہوتا ہے۔لیکن اس کے باوجود رسم عثمانی سے انحراف موجود ہے جسکی مثالیں سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں۔پاکستان میں صرف ایک ناشر نے رسم عثمانی کے مطابق قرآن شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔اس قرآن مجید کے آخر میں رسمی سرٹیفکیٹ کی بجائے استاذ الاساتذہ قاری اظہار احمد تھانوی ؒ کے ہاتھ کی لکھی تحریر کا عکس شائع کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

یہ تجویدی قرآن مجید میں نے بغور پڑھا ۔اس میں حرکات وسکنات درست ہیں۔رسم الخط میں رسم عثمانی کی مطابقت ہے ۔ (۵۰)

یہاں اس حوالے سے اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیائے اسلام کے نامور محقق عالم ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم تقریباً تیس (۳۰) برس قبل پاکستان تشریف لائے۔اُس وقت بہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عبد القیوم تھے۔انہوں نے موقعہ غنیمت جانا ڈاکٹر صاحب کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا ۔ڈاکٹر حمیداﷲ مرحوم ۸مارچ ۱۹۸۰ سے لے کر۲۰مارچ۱۹۸۰تک یونیورسٹی میں مقیم رہے۔مختلف اسلامی موضوعات پر لیکچر دیے۔ پاکستان بھر سے اہل علم بہاولپور جمع ہو گئے۔ ایک لیکچر تاریخ قرآن کے حوالے سے تھا۔اجلاس کی صدارت ڈاکٹر زیڈ اے ہاشمی مشیر تعلیم سائنس و ثقافت حکومت پنجاب نے سر انجام دیے۔آپ کا لیکچر کافی طویل تھا جس میں بڑے علمی نکات بیان فرمائے۔بعد میں سوال جواب کی نشست بھی ہوئی ایک صاحب نے قرآن مجید کی جمع و تدوین کے حوالے سے سوال کیااُس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایاکہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کی تحریراً تدوین ہوئی تو مورخین نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔جب ان کی وفات ہوئی تو وہ نسخہ ان کے جانشین حضرت عمرؓ کے پاس چلا گیا اور پھر مورخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ کی شہادت ہوئی تو وہ نسخہ ان کی بیٹی ام المومنین ، حضرت حفصہ ؓ کے پاس چلا گیا ۔امہات المومنین ، رسول اﷲ ﷺکی زوجات مطہرات میں سب پڑھی لکھی نہیں تھیں۔بعض کو صرف پڑھنا آتا تھا اور بعض کو پڑھنا اور لکھنا دونوں آتے تھے ۔جب کہ بعض اُمی تھیں۔اس میں کوئی اعتراض کا پہلو نہیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت حفصہ ؓ حضرت عمرؓ کی بیٹی ،ان معدودے چند عورتوں میں تھیں جن کو لکھنا پرھنا دونوں آتے تھے۔بہر حال حضرت ابوبکر ؓ کے لیے تیار شدہ نسخہ ،حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد ، حضرت حفصہ ؓ کے پاس چلا گیا۔حضرت عمر ؓ کے جانشین حضرت حضرت عثمانؓ نے غالباً ان کی شخصیت اور علمی وجاہت کی بنا پر ، یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ ان سے لے لیں۔خاص طور پر اس لیے بھی کہ حضرت عثمانؓ خود حافظ قرآن تھے۔ان کے پاس ان کا اپنا نسخہ موجود تھا۔ انہیں ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ اس نسخے کو حاصل کر لیں۔لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کی بنا پر ضرورت پیش آئی کہ وہ نسخہ دوبارہ خلیفہ وقت کے پاس لایا جائے اور اسی سے استفادہ کیا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں غیر معمولی تیز رفتاری سے چار دانگ عالم میں فتوحات ہوئیں تو بہت سے ایسے لوگ جو دنیا طلب تھے، انہیں موقعہ پرستی کے تحت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ منافق تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو اندر سے ٹھیس پہنچائی جائے۔اس سلسلے میں وہ قرآن مجید پر بھی حملے کرتے رہے۔ممکن ہے اس کی کوئی اہمیت نہ رہی ہو لیکن ایک واقعے سے سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ۔وہ یہ کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں آرمینیا سے جنگ کے لیے ایک فوج بھیجی گئی ۔آرمینیا کا تصور غالباً آپ کے ذہنوں میں نہیں ہو گا ۔یوں سمجھ لیجئے کہ شمالی ترکی،جہاں آج کل ارض روم شہر ہے اور ایرانی سرحد کا علاقہ ہے، اس علاقے میں آرمینی رہتے تھے۔یہ علاقہ آرمینیا کہلاتا تھا ۔عسقلانی جو بخاری کے شارح ہیں،وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی ایک فوج جب ارژند روم کے قریب موجود تھی(یہ ارژند روم اب ارض روم بن گیا ہے)تو اس وقت فوج میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ۔وہ یہ تھا کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیتوں کی قرآت کے بارے میں جھگڑا ہو گیا ۔امام نے ایک طرح سے عبارت پڑھی اور قاریوں نے کہا یوں نہیں ،یوں ہے۔ایک نے کہا ہمیں فلاں استاد ،فلاں صحابی نے عراق میں یوں پڑھایا ہے۔دوسرے نے کہا مجھے میرے استاد ،فلاں صحابی نے شام میں یوں پڑھایا ہے۔دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے رہے۔قریب تھا کہ تلواریں چلیں اور خون ریزی ہوکہ فوج کے کمانڈر انچیف نے حسن تدبیر سے اس فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کیا ۔جب وہ فوج مدینہ منورہ واپس آئی تو کمانڈر انچیف حذیفہ بن یمان اپنے گھر میں بچوں کی خیریت پوچھنے سے پہلے ،سیدھے خلیفہ کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا امیر المومنین اُمت محمدی کی خبرلیجیے۔ حضرت عثمان ؓ نے پوچھا کیا واقعہ پیش آیا؟تو انہوں نے یہ قصہ سنایا ،اس پر حضرت عثمان ؓ نے فوراً فیصلہ کیا۔ ان میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ کوئی کام ان کے ذہن میں آتا اور فیصلہ کر لیتے تو فوراً اس کی تعمیل کراتے۔جیسے ہی یہ صور تحال سامنے لائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔حفصہ ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے لیے تیار شدہ جو نسخہ آپ کے پاس ہے ،وہ مجھے مستعار دیجیے۔استفادہ کرنے کے بعد میں آپ کو واپس کر دوں گا۔وہ نسخہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے دوبارہ پرانے کاتب وحی زید بن ثابت ؓ ہی کے سپرد کیا کہ اس کی نقلیں تیار کرو ،اور ان نقلوں کا مقابلہ کر کے ،اگر ان میں کتابت کی غلطیا ں رہ گئی ہوں تو ان کی اصلاح کرو۔قرآن مجید چونکہ عربی زبان کی پہلی کتاب ہے ،اس لیے ابتدائی زمانے میں عربی خط میں کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں۔لہذا حضرت عثمانؓ نے یہ بھی ہدایت کی کہ اگر تلفظ کی ضرورت کے لحاظ سے اِملا میں کچھ ترمیم کی ضرورت محسوس ہو تو ضرور کرو۔یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ عربی زبان مختلف علاقوں میں کچھ فرق بھی رکھتی ہے۔قبیلہ نجد کے لوگ لفظ کو ایک طریقے سے ادا کرتے ہیں ،مدینے کے لوگ دوسرے طریقے سے،فلاں جگہ کے لوگ تیسرے طریقے سے۔اس لیے اگر کسی لفظ کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے تو قرآن مجید کو مکہ معظمہ کے تلفظ کے مطابق لکھو۔چنانچہ حضرت زید بن ثابت ؓ اپنے چند مددگاروں کے تعاون سے،دوبارہ اس پرانے نسخے کو سامنے رکھ کر نقل کرنا شروع کرتے ہیں حضرت عثمانؓ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہو،تو وہ مسئلہ میرے پاس بھیجو،میں خود اس کا فیصلہ کروں گا ۔بدقسمتی سے یہ واقعہ جو ارض روم میں پیش آیا تھا کہ فلاں آیت کے متعلق یا فلاں لفظ کے متعلق فوج میں جھگڑا ہوا، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔شاید اس جھگڑے کی بنیاد قبائلی بولیوں اورلہجوں کا اختلاف ہو ۔اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔قرآن مجید میں ــ’’تابوت‘‘کا ایک لفظ آیا ہے،جس کے معنی صندوق کے ہوتے ہیں۔اس کا تلفظ مدینہ منورہ کی بولی (dialect)میں تابوہ ہوتا تھا ۔آخر میں ’ہ‘کے ساتھ جبکہ مکے کے لوگ تابوت ت کے ساتھ پڑھتے تھے۔اس پر کمیشن کے ارکان متفق نہیں ہو سکے ۔یہ اختلافی مسئلہ حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ تابوت بڑی ت کے ساتھ لکھو،یہ کوئی بڑی اہمیت کی بات نہیں،لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں تدوین ہوئی،اس کی حقیقت کیا ہے؟ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانے کی نقلیں تیار کی گئیں۔اِملا میں کہیں کہیں ترمیم کی گئی،لفظ کی آواز کو نہیں بدلا گیا ،لیکن اس آواز کی اِملا میں کچھ فرق کیا گیا ۔اس کے بعداس کے چار نسخے ،یا ایک روایت کے مطابق سات نسخے تیار کیے گئے ۔حضرت عثمانؓ کے زمانے میں علمی دیانت داری کا جو معیار اس کے تحت انہوں نے حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے ،مسجد نبوی میں ایک شخص بآواز بلند شروع سے لے کر آخر تک پڑھے تاکہ کسی شخص کو بھی یہ شبہ نہ رہے کہ عثمان ؓ نے قرآن میں کہیں تبدیلی کی ہے۔جب یہ سارے نسخے اس طرح پڑھے گئے اور سب کو اطمینان ہو گیا کہ یہ نسخے صحیح ہیں تو حضرت عثمانؓ نے اپنی وسیع سلطنت کے مختلف صوبوں کے صدر مقاموں پر وہ نسخے بھیجے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے کی اسلامی سلطنت کی وسعت کااندازہ اس سے لگائیے کہ ۲۷ ہجری میں یعنی رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد ،اسلامی فوج ایک طرف اسپین میں اور دوسری طرف دریائے جیحوں کو عبور کر کے ماوراء النہر (چین) میں داخل ہو گئی تھی۔یورپ،ایشیااور افریقہ،اسلامی سلطنت ان تین براعظموں میں پھیل جاتی ہے۔

اس کے بڑے بڑے صوبوں میں قرآن مجید کے یہ نسخے بھیجے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ آئیندہ صرف انہی سرکاری مستند نسخوں سے مزید نقلیں لی جایا کریں۔اس بات کی تاکید بھی کی گئی کہ اگر کسی کے پاس کوئی نسخہ اس لے خلاف پایا جائے تو اسے تلف کر دیا جائے۔اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئی،اس کے بارے میں کچھ پتا نہیںچلتا۔عملاً یہ ناممکن بھی تھا کہ تین براعظموں کے ہرہر مسلمان کے گھر میں پولیس جائے اور قرآن مجید کو شروع سے لے کر آخر تک سرکاری نسخے سے مقابلہ کرے۔اور پھر اس میں کوئی اختلاف نظر آئے تو اُسے تلف کر دے۔تاریخی طور پر ایسے کسی واقعے کا ذکر نہیں ملتا ۔لیکن بہر حال حضرت عثمانؓ کے زمانے سے آج تک قرآن مجید سے جو نسخے ہمارے پاس نسلاً بعد نسلاً چلے آ رہے ہیں ،وہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک وہی ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے جو چار یا سات قلمی نسخے مختلف مقامات پر بھیجے ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں ثبوت کوئی نہیں،لیکن یہ روایت ہے کہ یہ انہی نسخوں میں سے ہیں ۔ایک نسخہ آج کل روس کے شہر تاشقند میں ہے۔وہاں کیسے پہنچا،اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو بنی اُمیہ کا صدر مقام تھا ۔جب دمشق کو تیمور لنگ نے فتح کیا تو وہاں کے مال غنیمت میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کے طور پر حضرت عثمانؓ کا وہی قرآن مجید کا نسخہ لیا اور اپنے ساتھ اپنے پایہ تخت سمر قند لایا اور وہاں اسے محفوظ رکھا۔یہ نسخہ سمر قندمیں رہاتا آنکہ گزشتہ صدی میں روسیوں نے سمرقند کو فتح کر لیا ۔فتح کرنے کے بعد اس نسخے کو ،جس کی بڑی شہرت تھی ،روسی کمانڈر انچیف نے وہاں سے لے کر سینٹ پیٹرس برگ منتقل کر دیا جو آج کل لینن گراڈ کہلاتا ہے۔روسی مورخ بیان کرتے ہیںکہ اس نسخے کو سمرقند کے حاکم نے روسی کمانڈر کے ہاتھ ۲۵ یا ۵۰ روپے میں فروخت کر دیا تھا۔ہم نے اسے چرایا نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں۔بہر حال پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک وہ نسخہ لینن گراڈ میں رہا۔اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے زار کی حکومت ختم ہو گئی اور کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ۔

اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کمیو نسٹ حکومت کے ماتحت رہنا نہیں چاہتے تھے،روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہوگئے۔ان میں سے ایک شخص پیرس بھی آئے جو جنرل علی اکبر تولچی باشی کے نام سے مشہور ہیں۔میں خود ان سے مل چکا ہوں۔انہوں نے اس کا قصہ مجھے سنایا۔کہنے لگے کہ جب زار کو قتل کیا گیا اس وقت میں فوج میں ایک بڑے افسر کی حیثیت سے سینٹ پیٹرس برگ میں ہی موجود تھا ۔میں نے ایک کمانڈر بھیجا کہ جا کر شاہی محل پر قبضہ کرو اور شاہی کتب خانے میں حضرت عثمانؓ کا جو قرآن مجید کا نسخہ ہے تلاش کر کے اسے لائو۔

کمانڈر گیا اور وہ قرآن مجید لے آیا۔انہوں نے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے ریلوے سٹیشن پر جا کر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک ریل کا انجن درکار ہے۔اس انجن میں اس قرآن کو رکھا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جا سکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جائو۔چنانچہ قرآن مجید کا یہ نسخہ اس طرح ترکستان پہنچ گیا۔اس کی اطلاع کیمونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹے بعد ملی۔چنانچہ اس کے تعاقب میں دوسرا انجن اور کچھ افسر روانہ کیے گئے لیکن وہ انجن ان کے ہاتھ سے باہر نکل چکا تھا ۔اور اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔چونکہ تاشقند بھی روسی حکومت میں شامل ہے لہذا اس نسخے کو وہاں سے لینن گراڈ منتقل کرنے کی کوئی کو شش نہیں کی گئی۔چنانچہ وہ نسخہ اب تک تاشقند میں محفوظ ہے۔زار کے زمانے میں اس قرآن مجید کا فوٹو لے کر ایک گز لمبی تقطیع پر کل پچاس نسخے چھاپے گئے تھے۔اُن میں سے چند نسخے میرے علم میں ہیں اور وہ دنیا میں محفوظ ہیں۔ایک آدھ امریکہ میں ہے، ایک آدھ انگلستان میں ہے۔ایک نسخہ میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ایک مصر کے کتب خانے میں پایا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کا مائیکروفلم بھی ہے۔یہ ایک نسخہ ہے۔دوسرا نسخہ استنبول میں توپ کاپی سرائے میوزیم میں موجود ہے جس کو حضرت عثمانؓ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ اس میں سورہ بقرہ کی آیت { فسیکفیکھم اﷲ} پر سرخ دھبے پائے جاتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ حضرت عثمانؓ کا خون ہے۔کیونکہ وہ جس وقت تلاوت کر رہے تھے اُس وقت انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبر یری لندن میں ہے اُ س کا فوٹو میرے پاس ہے۔اُس پر ہمارے مغل بادشاہوں کی مہریں ہیں مجھے یاد نہیں جہانگیر نے یا کسی اور بادشاہ نے لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمانؓ کا نسخہ قرآن ہے جو میرے پاس آیا ہے اور میرے لیے بڑے تبرک کا باعث

ہے۔ان نسخوں کے خط اور تقطیع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخے ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔یہ نسخے جھلی پر لکھے گئے ہیں ،کاغذ پر نہیں ہیں۔ ممکن ہے حضرت عثمانؓ کے نسخے ہوں یا اس زمانے میں یا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کے لکھوائے ہوئے نسخے ہوں۔بہر حال یہ بات ہمارے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان ہے کہ ان نسخوں میں اور موجودہ مستعملہ نسخوں میں ،باہم کہیں بھی ،کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ حضرت عثمانؓ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے۔اس کے معنی یہ نہیں کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا ۔اس کی تاویل ہمارے مورخوں نے یہ کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرآن پر جمع کیا ۔جو اختلاف لوگوں میں پایا جاتا تھا اس سے ان کو بچانے کے لیے مکہ معظمہ کے تلفظ والے قرآن کو انہوں نے نافذ کیا اور کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اگر یہ اجا زت دی تھی کہ مختلف قبائل کے لوگ،مختلف الفاظ کو ،مختلف انداز میں پڑھ سکتے ہیں تو اب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔کیونکہ مکہ معظمہ کی عربی اب ساری دنیا ئے اسلام میں نافذ اور رائج ہو چکی ہے۔اس طرح حضرت عثمان ؓ نے مسلمانوں کو ایک قرآن مجید پر جمع کیا ۔خدا اُن کی روح پر اپنی برکات نازل فرمائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد میں دوسرے سوالوں پر توجہ کر سکتا ہوں ۔ایک سوال حروف مقطعات کے متعلق ہے یعنی قرآن مجید میں بعض جگہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حروف ہیں مثلاًالم،حم عسق،وغیرہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خود ان الفاظ کی کبھی تشریح نہیں فرمائی۔اگر رسول ﷲ ﷺ نے خود تشریح فرما دی ہوتی تو بعد میں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ اس کے خلاف کوئی رائے دے۔ا ب صورتحال یہ ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر آراء پائی جاتی ہیں۔الف صاحب یہ بیان کرتے ہیں ۔ب صاحب وہ بیان کرتے ہیں۔اور یہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔اس کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ آج بھی لوگ نئی نئی رائیں دے رہے ہیں۔لطیفے کے طور پر میں عرض کرتا ہوں۔۱۹۳۳ء کی بات ہے میں پیرس یونیور سٹی میں تھا ،تو ایک عیسائی ہم جماعت نے ایک دن مجھ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک حروف مقطعات کو نہیں سمجھ سکے میں بتاتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے ؟ وہ موسیقی کا ماہر تھا،کہنے لگا کہ یہ گانے کی جو لے اور دھن ہوتی ہے اُن کی طرف اشارہ ہے۔کہنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ حروف مقطعات کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔اپنی حد تک میں کہ سکتا ہوں کہ مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ ایک حدیث میں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ ایک دن کچھ یہودی رسول ﷲ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا دین کب تک رہے گا؟تو رسول ﷲﷺ نے فرمایا الم تو انہوں نے کہا اچھا تمہارا دین الف (۱) ل(۳۰)اور م (۴۰) یعنی اکہتر سال رہے گا الحمد للہ اکہتر سال بعد تمہارا دین ختم ہو جائے گا ۔تو رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا مجھ پرالمر بھی نازل ہوا ہے۔انہوں نے کہا ۲۲۱ سال یا ۲۳۱ سال ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پرفلاں لفظ بھی نازل ہوا ہے مثلاً حم عسق وغیرہ۔یہاں تک کہ یہودیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور چلے گئے۔ہو سکتا ہے انہیں پریشان کرنے کے لیے رسول اﷲ ﷺ نے ایسا جواب دیا ہو۔لیکن اس میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حروف کی گویا عددی قیمت ہے۔جس طرح آپ لوگ واقف ہیں کہ الف کے ایک، ب کے دو ،ج کے تین اور د کے چار عدد مقرر ہیں۔اس طرح عربی زبان میں اٹھائیس حرف ہیں۔ان سے بہت ہی انوکھے طریقے سے ہم ایک ہزار تک لکھ سکتے ہیں ۔تاکہ ہندسہ لکھنے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو حروف کے ذریعے اسے دور کیا جا سکے۔میں نے سنا ہے کہ سنسکرت میں بھی یہی طریقہ موجود ہے لیکن سنسکرت میں حروف تہجی اٹھائیس (۲۸) سے کہیں زیادہ ہیں۔اور اس میں ایک سے مہاسنکھ تک لکھ سکتے ہیں۔بہرحال ایک ہزار ہماری ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔یہ تھا حروف مقطعات کے متعلق میری معلومات کا خلاصہ ۔میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ میں آپ کوکو ئی معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔ (۵۱)

حوالے و حواشیِِ

۱۔ عکسی تجویدی قرآن مجید ، ۲۵ ۲۔ سورہ ھود ۱۱/۴۱
۳۔ سورہ النمل ۲۷/۳۰ ۴۔ سورہ الواقعہ ۵۶/۹۶
۵۔ سورہ الحاقہ ۶۹/۵۲ ۶۔ سورہ العلق ۹۶/۱
۷۔ سورہ الرحمٰن ۵۵/۷۸ ۸۔ سورہ الملک ۶۷/۱
۹۔ سورہ الاعراف ۷/۵۴ ۱۰۔ سورہ الفرقان ۲۵/۱
۱۱۔ سورہ الانعام ۶/۱۰۰
۱۲۔ سورہ النحل ۱۶/۵۷ (تاج کمپنی ،سن اشاعت ۱۹۹۹ مئی ،تاج آرٹ پریس گلبرگ لاہور)
۱۳۔ سورہ الطور ۵۲/۳۹ ۱۴۔ سورہ ھود ۱۱/۷۸
۱۵۔ عکسی تجویدی قرآن مجید ، سورہ ھود ۱۱/۷۹
۱۶۔ سورہ الصٰفٰت ۳۷/۱۴۹ ۱۷۔ سورہ الرعد ۱۳/ ۴
۱۸۔ سورہ النحل ۱۶/۱۱ ۱۹۔ سورہ النباء ۷۸/۳۲
۲۰۔ سورہ الانعام ۶/۱۰۰ ۲۱۔ سورہ البقرۃ ۲/۲۶۶
۲۲۔ سورہ البقرۃ ۲/۳۲ ۲۳۔ سورہ آل عمران ۳/۱۹۱
۲۴۔ سورہ الاسراء ۱۷/۱ ۲۵۔ سورہ الاسراء ۱۷/۴۳
۲۶۔ سورہ الاسراء ۱۷/۱۰۸ ۲۷۔ سورہ الاسراء ۱۷/۹۳
۲۸۔ سورہ الاعراف ۷/۲۰۱ ۲۹۔ سورہ القلم ۶۸/۱۹
۳۰۔ سورہ البقرہ ۲/۲ ۳۱۔ سورہ البقرہ ۲/۵۳
۳۲۔ سورہ الرعد ۱۳/۳۸ ۳۳۔ سورہ الحجر ۱۵/۴
۳۴۔ سورہ الکہف ۱۸/۲۷ ۳۵۔ سورہ النمل ۲۷/۱
۳۶۔ سورہ البقرہ ۲/۲۷۳ ۳۷۔ سورہ الرحمٰن ۵۵/۴۱
۳۸۔ سورہ الفتح ۴۸/۲۹ ۳۹۔ سورہ البقرہ ۲/۱۵۷
۴۰۔ سورہ آل عمران ۳/۸ ۴۱۔ سورہ البقرہ ۲/۲۱۸
۴۲۔ سورہ الاعراف ۷/۵۶
۴۳۔ مرکزی انجمن خدام القرآن بانی و موسس ڈاکٹر اسرار احمدؒ- ماہنامہ حکمت قرآن ، فروری ۱۹۸۹ء
۴۴۔ لبیب السعید ، الجمع الصوتی الاول ، ۴۱۲
۴۵۔ لبیب السعید ڈاکٹر ،الجمع الصوتی الاول للقرآن،۴۲۸
۴۶۔ ماہنامہ حکمت قرآن ، جون ۱۹۸۹ء
۴۷۔ القرآن الکریم وزارۃ الحج و الاوقاف سعودی عرب عام ۱۴۰۸ رقم ۱۰۹۳۵ ا۔ب ۔ج۔د
۴۸۔ عکسی و تجویدی قرآن مجید ۲۵ ، پیکجز لاہور
۴۹۔ قرآن مجید ، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹیڈ کراچی ، ۱۹۸۵ء
۵۰۔ عکسی تجویدی قرآن مجید ، ۱۰۰۸
۵۱۔ خطبات بہاولپور ، ڈاکٹر حمید ﷲ ، ص ۱۷۔ ۲۱