مصاحف عثمانیہ : تعداداور اسبابِ اختلاف روایات کاتحقیقی جائزہ

روایات کاتحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد سمیع اللہ فراز

عہدِ نبوی کے بعد عہدِ صدیقی اور عہدِ عثمانی میں قرآن کریم کے جمع وکتابت کی ابحاث میں مصاحفِ عثمانیہ کی تعداد اور امصار کی تعیین ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کی بحث و تحقیق میں علماء و مورخین کے ہاں مختلف اقوال و آراء پائی جاتی ہیں۔ تعدادِ مصاحف اور مُرسل اِلیہا مقامات کی تعیین میں کسی حتمی قول کے عدمِ وجود کا سب سے بنیادی سبب ، تعداد اور مقامات کے بارے میں روایات کا اختلاف ہے کیونکہ جمعِ عثمانی کے ضمن میں مروی روایات میں کسی مقام کی تعیین کی بجائے ’بعث عثمان إلی کل افق‘(۱)، یا’إلی کل جند من أجناد المسلمین‘(۲)،یا ’بعث بھا إلی الآفاق‘(۳)، یا’فرّقھا فی الناس‘(۴)یا’قسمھا فی الأمصار‘(۵) وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں۔

مصاحف ِ عثمانیہ کی تعداد اور مقامات کی تعیین پراوّلین مصدر، جمعِ عثمانی کی روایات ہیں لیکن ان میں مصاحف کی مخصوص تعداد اور مُرسل الیہا مقامات کی واضح نشاندہی ملنا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن ندیمؒ(م ۳۸۴ھ) نے بھی اس بحث کوکسی محاکمہ کے بغیر ذکر کیاہے(۶)۔ اسی طرح ابن الاثیرؒ نے بھی ابو الفداء ابن کثیرؒ اور علامہ ابن خلدونؒ کی طرح اس بحث کو کسی فیصلہ کے بغیر نقل کیا ہے(۷)۔

ذیل میں تعدادِ مصاحف کے متعلق مروی روایات کو ذکر نے کے بعد ان میں راجح قول کی وجوہ ِ ترجیح ذکر کی جاتی ہیں۔

مصاحفِ عثمانیہ ،چار ہونے کا مؤقف

قر ّائِ سبعہ میں سے قارئِ کوفہ ،حمزہ الزیاتؒ (م۱۵۶ھ) کا موقف یہ ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ کی تعداد چار تھی، کیونکہ حمزہ ؒنے مصاحفِ عثمانیہ میں سے کوفہ کی طرف روانہ کیے گئے مصحف سے دیکھ کر اپنا مصحف لکھا تھا:

حدثنی قبیصۃ بن عقبۃ قال: سمعت حمزۃ الزیات یقول:أنہ کتب مصحفہ الخاص بہ نقلا عن النسخۃ الرسمیۃ التی أرسلھا عثمان إلی الکوفۃ والتی کانت إحدی أربع نسخ أمر بکتابتھا (۸(

لیکن حمزہؒ نے اِن چار مصاحفِ عثمانیہ میں سے باقی تین کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کہاںبھیجے گئے؟ لیکن اس کمی کو علامہ دانی ؒنے اِن الفاظ میں دور کیا ہے:

اکثر العلماء علی أن عثمن بن عفان رضی اﷲ عنہ لما کتب المصحف جعلہ علی أربع نسخ وبعث إلی کل ناحیۃ من النواحی بواحدۃ منہن، فوجّہ إلی الکوفۃإحداھن، وإلی البصرۃ أخری، وإلی الشام ثالثۃ وأمسک عند نفسہ واحدۃ(۹(

یعنی اکثر علماء کا خیال ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مصحف کے چار نسخے تیار کروائے اور اطراف میں سے ایک کوفہ ،دوسرا بصرہ، تیسرا شام اور چوتھانسخہ اپنے پاس رکھا۔

عبد اللہ خورشید، مؤرخ ابن بشکول الاندلسی ؒ(م ۵۷۸ھ) کے حوالے سے جامع مسجد قرطبہ کے نسخہ کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أن ھذہ المصحف ھو أحد المصاحف الأربعۃ التی بعث بہا عثمان إلی الأمصار: مکۃ، والبصرۃ، والکوفۃ، والشام (۱۰(

علامہ قرطبیؒ(م ۶۷۱ھ) نے بھی چار مصاحف والے قول کو نقل کیا ہے(۱۱)عصرِ حاضر میں مستشرقین میں سے بوہل(Buhl) (۱۲)اور بروکلمان(۱۳) کی رائے بھی یہی ہے۔علامہ دانی ؒنے بھی مصاحف عثمانیہ کی تحدید چار تک کرتے ہوئے کہا کہ یہی قول صحیح ہے(۱۴)۔لیکن علامہ دانی ؒاپنی تصنیف کی بنیاد چار کی بجائے پانچ مصاحف پر رکھنے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔(۱۵)\

مصاحفِ عثمانیہ ،پانچ ہونے کامؤقف

علامہ ابن جبیر المکی ؒکے مذہب پر بنیاد رکھتے ہوئے علامہ ابن حجر العسقلانی ؒنے مصاحف کی تعداد پانچ ہونے کی رائے کو منتخب کیا ہے۔ یہ مصاحف .1مدینہ،.2مکہ، .3شام ،.4بصرہ اور.5کوفہ کی طرف روانہ کیے گئے؛

ابن مجاھد صنف کتابا فی القراء ات فاقتصر علی خمسۃ اختار من کل مصر إماما۔ وإنما اقتصر علی ذلک لأن المصاحف التی ارسلھا عثمان کانت خمسۃ إلی ھذہ الأمصار…الخ (۱۶(

ابن حجرؒ کے مذکورہ قول کی بنیاد پر علامہ سیوطیؒ اور علامہ قسطلانی ؒنے بھی یہی رائے قائم کی ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ کی تعدا د پانچ تھی(۱۷)۔عبد الوہاب حمّودہ نے علامہ ابن الجزریؒ کے حوالے سے مصاحف ِخمسۃ کی رائے کو مشہور قرار دیا ہے:

واختلفوا فی عدۃ ھذہ المصاحف، والمشہور أنہا خمسۃ؛ فأرسل إلی مکۃ، وإلی الشام، وإلی البصرۃ، وإلی الکوفۃ، وحبس بالمدینۃ واحداً(۱۸(

عبد الہادی الفضليؒ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے وہ القراء ات القرآنیہ میں رقمطراز ہیں:

وقد اختلف فی عدد المصاحف التی کتبھا عثمان ، والمشہور أنہا خمسۃ … کما عزاہ السیوطی إلی السخاوی(۱۹(

مصاحفِ عثمانیہ، چھ ہونے کامؤقف

ابن القاصح ؒ، تلخیص الفوائد میں رقمطراز ہیں:

وقال صاحب زاد القراء: لما جمع عثمان رضی اﷲ عنہ القرآن فی مصحف سماہ (الإمام) نسخ منہ المصاحف فأنفذ منھا مصحفاً إلی مکۃ ومصحفاً إلی الکوفۃ، ومصحفاً إلی البصرۃ، ومصحفاً إلی الشام، وأمسک مصحفاً بالمدینۃ(۲۰(

جرجی زیدان نے بھی علامہ ابن حجر ؒکی رائے سے اتفاق کیا ہے لیکن اس میںصرف اس قدر اضافہ کیا ہے کہ حضرت عثمان صنے ایک مصحف اپنے لیے مخصوص فرمایا تھا جس کی بنیاد پر مصاحف کی تعداد چھ تک پہنج جاتی ہے ۔

مصحفا سادسا احتفظ بہ عثمان لنفسہ وھو الذی یسمونہ (الإمام)(۲۱(

علامہ زاہد الکوثری ؒ(م۱۳۷۱ھ)، اپنے مقالات میں اسی رائے کی طرف مائل نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی مصاحف ِعثمانیہ کو چھ شمار کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

وقد استمر عمل الجماعۃ فی نسخ المصاحف مدۃ خمس سنین، من سنۃ خمس وعشرین إلی سنۃ ثلاثین فی التحقیق، ثم أرسلوا المصاحف المکتوبۃ إلی الأمصار، وقد احتفظ عثمان بمصحف منہا لأھل المدینۃ، وبمصحف لنفسہ، غیر ما أرسل إلی مکۃ والشام والکوفۃ والبصرۃ (۲۲(

یعنی مصاحف ِعثمانیہ کی کتابت میں جماعت ِصحابہ رضی اللہ عنھمانے تقریباً پانچ برس اپنی کاوشیں صَرف کیں،محقق قول کے مطابق مصاحف کی تیاری ۲۵ ہجری سے ۳۰ہجری میں مکمل ہو گئی تھی(۲۳)۔پھر مصاحف ِمذکورہ مختلف امصار کی طرف روانہ کیے گئے،جن میں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک اہلِ مدینہ ، دوسرا ذاتی استعمال کیلئے، تیسرامکہ، چوتھا شام، پانچواں کوفہ اور چھٹا اہلِ بصرہ کی طرف ارسال فرمایا۔

علامہ زرقانی ؒنے بھی مصاحف کی تعداد چھ ہونے کا قول نقل کیا ہے:

قال صاحب زاد القراء: لما جمع عثمان القرآن فی مصحف سماہ الإمام ونسخ منہ مصاحف فأنفذ منہا مصحفا إلی مکۃ، ومصحفا إلی الکوفۃ، ومصحفا إلی البصرۃ، ومصحفا إلی الشام، وحبس بالمدینۃ(۲۴(

مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف المدینۃ المنورۃ نے 1417ہجری میں عثمان طٰہٰ خطاط کے ہاتھ کا لکھا ہوا مصحف ، وزارۃ الشئون الاسلامیۃ کی وساطت سے مصحف المدینۃ النبویۃ شائع کیا ۔ اس مصحف اور علاماتِ ضبط کے تعارف،جو کہ مصحف کے آخر میں بطور تتمہ شامل ہے، میں لکھا ہے:

واُخذ ھجاؤہ مما رواہ علماء الرسم عن المصاحف التی بعث بہا الخلیفۃ الراشد عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ إلی البصرۃ والکوفۃ والشام ومکۃ ، والمصحف الذی جعلہ لأھل المدینۃ، والمصحف الذی اختص بہ نفسہ(۲۵(

متأخرین میں سے مولانا محمد حنیف ندوی ؒنے بھی مصاحف کی تعداد چھ ذکر کی ہے۔(۲۶)

مصاحفِ عثمانیہ، سات ہونے کامؤقف

حمزۃ الزیات ؒسے ایک صدی بعد جبکہ علامہ دانی ؒ(م۴۴۴ھ)سے دو صدیاں قبل ہمیں ایک اور شخصیت کی رائے معلوم ہوتی ہے جس کے مطابق مصاحف ِعثمانیہ سات تھے۔ ابو حاتم السجستانی ؒ(م۲۵۰ھ) ، امام اصمعی ؒ کے مشہور شاگرد تھے۔ مصاحفِ عثمانیہ کی تعداد کے بارے میں ان کا قول حسب ِذیل ہے:

حدثنا عبد اﷲ قال: سمعت أبا حاتم السجستانی قال: لما کتب عثمان المصاحف حین جمع القرآن کتب سبعۃ مصاحف، فبعث واحدا إلی مکۃ، وآخر إلی الشام، وآخر إلی الیمن، وآخر إلی البحرین، وآخر إلی البصرۃ، وآخر إلی الکوفۃ، وحبس بالمدینۃ واحداً (۲۷(

یعنی ابو حاتم السجستانی ؒکا قول ہے کہ حضرت عثمان صنے سات مصاحف لکھوائے جن میں سے .1مکہ،.2شام، .3یمن، .4بحرین، .5بصرہ، .6کوفہ بھیجے اور .7 ایک نسخہ مدینہ میں رکھ لیا۔

ابن کثیر الدمشقیؒ(م ۷۷۴ھ) بھی ابو حاتم ؒکے قول سے مطمئن نظر آتے ہیںکیونکہ انہوں نے بھی بعینہٖ انہی مقامات کا ذکر کیا ہے(۲۸) ۔ یہی وجہ ہے کہ امام رافعیؒ نے اسی کو قولِ مشہور قرار دیا ہے(۲۹)۔علامہ شمس الحق افغانی ؒنے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۳۰)۔الدکتور محمدرمضان البوطیؒ لکھتے ہیں:

إلا أن الباحثین اختلفوا فی عدد المصاحف التی استنسخہا، والراجح الذی علیہ اکثرھم أنہا سبعۃ مصاحف، استبقی واحدا منہا عندہ وھو الذی سمي بالمصحف الإمام ووزع سائرھا علی الکوفۃوالبصرۃ والشام والیمن ومکۃ والبحرین(۳۱(

لیکن علامہ جعبری اور سیوطیؒ کے قول کے مطابق ’لم یسمع لمصحفي الیمن والبحرین خبر‘ ۔(۳۲)یعنی یمن اور بحرین کے مصاحف کے بارے میں کوئی خبر نہیں سنی گئی۔

مصاحفِ عثمانیہ، آٹھ ہونے کامؤقف

علامہ ابن الجزریؒ(م۸۳۳ھ) نے مصاحفِ عثمانیہ کو آٹھ شمار کیا ہے۔ علامہ ابن الجزریؒ کی رائے دراصل ابوحاتم السجستانی ؒکے قول پر مبنی ہے لیکن اس میں اُس ایک مصحف کا اضافہ کیا گیا ہے جس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ،مصحفِ مدنی کے علاوہ ،ذاتی استعمال کیلئے مخصوص فرمایاتھا۔

المصحف الإمام الذی احتجزہ الخلیفۃ لإستعمالہ الشخصی، وھو غیر المصحف الذی استبقی فی (المدینۃ) عاصمۃ الخلافۃ للإستعمال العام(۳۳(

لیکن علامہ ابن الجزری ؒنے،جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، پانچ مصاحف کی رائے کو بھی مشہور قرار دیا ہے۔

مصاحفِ عثمانیہ، نو ہونے کامؤقف

مذکورہ بالا سب اقوال سے مختلف ایک اور قول ہمارے سامنے آتا ہے جس کے مطابق حضرت عثمان صکے تیار کروائے گئے مصاحف کی تعداد نو(۹) تھی۔ یہ رائے مؤرخ الیعقوبیؒ (م۲۸۴ھ)کی ہے ۔ علامہ یعقوبی ؒنے ابو حاتم کے ذکر کردہ سات مصاحف کے علاوہ مزیددو(۲) مصاحف کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک’ مصر‘جبکہ دوسرا ’الجزیرۃ‘ کی طرف روانہ کیا گیا(۳۴)۔

لیکن دکتور عبد اللہ خورشید البری ،علامہ یعقوبی کی رائے پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیںکیونکہ ان کے نزدیک ’مصر‘میں کسی مصحف کا وجود متحقق نہیں ،اور بعض علماء نے وہم کی بنیاد پرلفظ ِمصر سے ملک ِمصرمراد لیا ہے۔ شاید یہ مغالطہ عبارت کی وجہ سے یا پھر نقل کی وجہ سے ہوا ہے۔ لکھتے ہیں:

لا نستطیع قبول أخبارہ فی ھذا الموضوع ومن بینہا إرسال مصحف إلی مصر وآخر إلی الجزیرۃ بالإضافۃ إلی الجہات السبع التی یقول بہا ابو حاتم…طرأ علی العبارات التی تذکر أن عثمان لما کتب مصحفہ أرسل منہ نسخۃ إلی کل (مصر)من الأمصار (۳۵(

راجح قول

راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق مصاحف ِعثمانیہ کو تعدادکے لحاظ سے چھ (۶) قرار دینا اقرب الی الصواب ہے کیونکہ روایات کی ایک بڑی تعداد اسی کی شاہد ہے۔ مصاحف ِعثمانیہ کی تعداد چھ قرار دینے کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں:

وجہِ اوّل…مصاحف کے ساتھ بھیجے جانیوالے قر ّاء کی تعداد

مصاحف ِعثمانیہ کی تعداد چھ قرار دینے کی پہلی اور سب سے بنیادی وجہ اُن قر ّاء صحابہث کی تعداد ہے جن کو حضرت عثمان صنے مصاحف کے ساتھ مراکزِ خمسہ کی طرف روانہ فرمایا ۔ روایات کے مطابق اِن قر ّاء کی تعداد پانچ تھی ۔ذیل میں ان قر ّاء کے اسماء پیش خدمت ہیں:

۱۔

حضرت عبد اللہ بن سائب المخزومی (م ۷۰ھ) ص

مکہ معظمہ کے مصحف کے ساتھ بھیجے گئے۔

۲۔

حضرت ابو عبد الرحمن السُلّمی (م ۴۷ھ)ص

کوفہ کی طرف روانہ کیے گئے۔ ان سے قبل خلیفہ دوم امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب صنے حضرت عبداللہ بن مسعود ص کو کوفہ کی طرف بھیجا تھا ۔

۳۔

حضرت عامر بن عبد قیس (م۵۵ھ تقریباً)ص

بصرہ کی طرف روانہ کیے گئے۔

۴۔

حضرت مغیرۃ بن ابی شہاب المخزومی ص

شام کی طرف بھیجے گئے۔

۵۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م ۴۵ھ)ص

مدینہ میں متعین ہوئے۔(۳۶)

چنانچہ مذکورہ بالا تصریح سے مصاحف ِامصار کے ساتھ بھیجے جانیوالے قر ّا ء کی تعداد پانچ(۵) متعین ہوتی ہے جس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ مصاحف پانچ مقامات:مکہ،کوفہ،بصرہ،شام اور مدینہ کی طرف روانہ کیے گئے ۔ جبکہ ایک مصحف حضرت عثمان صنے اپنے ذاتی استعمال کیلئے بھی لکھوایا(۳۷) ،جس کو الإمام کے نام سے پکارا گیا۔ جس سے مصاحف کی مجموعی تعداد چھ (۶)ہو جاتی ہے۔

وجہِ دوم…جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے مصاحف کی روانگی

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی روانگی کیلئے اسلامی سلطنت کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم فرمایا :

اوّل:- جزیرئہ ِعرب (جس کے مراکز مکہ اور مدینہ تھے)

دوم :- مشرقی علاقے (بصرہ اور کوفہ ان کے مراکز تھے)

سوم:- مغربی علاقے(جن کا مرکز ملک ِشام تھا)

اِن مراکزِ خمسہ میں سے ہر ایک شہر میں ایک مصحف بھیجا گیا جبکہ ایک مصحف حضرت عثمان صنے اپنے لیے باقی رکھا(۳۸)۔ اسی وجہ سے مصاحف کیلئے مخصوص اصطلاحات کا استعمال شروع ہوا:

۱۔مدنیین: مدنی مصحف اور حضرت عثمان صکے ذاتی مصحف کے دونوں نسخوں کو اکٹھا ذکر کرنے کیلئے۔

۲۔الحجازیۃ؍الحرمیۃ: مذکورہ دونوں اور مکی مصحف کو مجموعی طور پر ذکر کرنے کیلئے۔

۳۔العراقیین: کوفی اور بصری مصاحف کو اکٹھا ذکر کرنے کیلئے۔(۳۹)

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی سلطنت کے بڑے پانچ مراکز کی طرف ایک ایک مصحف روانہ کیا گیا جب کہ چھٹا مصحف حضرت عثمان صکا ذاتی تھا جس سے مصاحف کی مجموعی تعداد چھ ہو جاتی ہے۔

وجہِ سوم…دیگر اقوال میں امکانِ تاویل

۱۔ مصاحف کی تعداد چھ ہونے کی رائے کے علاوہ دیگر اقوال میں تاویل کا احتمال بہر حال موجود ہے مثلاًچار مصاحف سے مراد وہ مصاحف ہیں جو مدینہ سے باہر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ ابن بشکولؒ نے مسجد ِقرطبہ کے نسخہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

أن ھذہ المصحف ھو أحد المصاحف الأربعۃ التی بعث بہا عثمان إلی الأمصار: مکۃ، والبصرۃ، والکوفۃ، والشام (۴۰(

جبکہ دو مصاحف مدینہ میں موجود تھے۔

۲۔ پانچ مصاحف والے قول میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ذاتی نسخہ کا ذکر نہیں اور روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ حضرت عثمان صنے اپنے لیے ایک ذاتی نسخہ تیار کروایاتھا۔ جس کے اضافہ سے مصاحف ِعثمانیہ کی تعداد چھ ہو جاتی ہے۔

۳۔ سات مصاحف کے قول میں ’یمن‘ اور’ بحرین‘ کے مصاحف کا ذکر ہے لیکن اختلافِ مصاحف کی بحث میں ہمیں کہیں بھی اِن مصاحف کا ذکر نہیں ملتا(۴۱)۔

۴۔ آٹھ مصاحف والا قول علامہ ابن الجزریؒ کی طرف منسوب ہے لیکن خود علامہ ابن الجزری ؒ نے پانچ مصاحف والے قول کو مشہور قرار دیا ہے ۔لہٰذا اگر ان مصاحف ِخمسہ میں مصحف ِامام کو شامل کیا جائے تو مصاحف کی تعداد چھ ہوتی ہے۔

۵۔ جبکہ مؤرخ الیعقوبی کے نو مصاحف والے قول پر الدکتور عبد اللہ خورشید البری کا تبصرہ ذکر کیا جا چکا ہے۔

اس کے علاوہ علامہ زرقانی ؒنے بھی چھ مصاحف والے قول کو اَولیٰ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

ولعل القول بأن عددھا ستۃ، ھو أولیٰ الأقوال بالقبول(۴۲(

علامہ ابو طاہر السندی ؒ بھی چھ مصاحف والے قول کو اولیٰ اور اصح قرار دیتے ہیں:

وتکونت مصاحف ستۃ __علی اصح الاقوال__ووزعت علی الأمصار المشہورۃ المرکزیۃ، وھی: مکۃ، والشام، والکوفۃ،والبصرۃ، وخصص مصحف المدینۃ وأمسک عثمان رضی اﷲ عنہ لنفسہ مصحفًا (۴۳(

عبد الواحد بن عاشر الاندلسیؒ رسم وقراء ات کے جلیل القدر امام ہیں ، اپنی تصنیف تنبیہ الخلّان علی الأعلان بتکمیل مورد الظمآن میں لکھتے ہیں:

المصاحف العثمانیۃ المتعارفۃ عند أھل الرسم وھي ستۃ، وإن کان فی عددھا خلاف ذکرناہ فی شرح مورد الظمآن۔ الاوّل: الإمام وھو مصحف الذی احتسبہ سیدنا عثمان لنفسہ وعنہ ینقل ابو عبید القاسم بن سلام، الثانی: المدني وھو المصحف کان بأیدي أھل المدینۃ وعنہ ینقل نافع۔ الثالث: المکي وھو واللذان قبلہ ھي المرادۃ بالمصاحف الحجازیۃ والحرمیۃ عند الإطلاق۔ الرابع: الشامي۔ الخامس:الکوفي۔ السادس: البصري۔ وھذان عراقیان وھما المرادان بمصاحف أھل العراق عند الإطلاق(۴۴(

یعنی اہل رسم کے نزدیک مشہور مصاحف عثمانیہ کی تعداد چھ ہے اگرچہ ان کی تعداد میں اختلاف موجود ہے جس کو ہم نے مورد الظمآن کی شرح میں تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک تو وہ مصحف ہے جو سیدنا عثمان ص نے اپنے پاس رکھا اور اسی سے ابوعبیدقاسم بن سلّام نے نقل کر کے اپنا مصحف لکھا۔ دوسرا مدنی مصحف جو کہ اہل مدینہ کے پاس تھا جس سے امام نافع نے اپنا مصحف لکھا۔ تیسرا مکی مصحف ، کہ اس مصحف اور پہلے ذکر کردہ دو مصاحف کومطلقاً ’مصاحفِ حجازیہ‘ اور’حرمیہ‘ کہاجاتا ہے۔ چوتھا شامی مصحف۔ پانچواں کوفی مصحف اور چھٹا بصری مصحف۔ کوفی اور بصری مصاحف کو ’عراقی مصاحف‘ بھی کہاجاتا ہے جو اہل عراق کے مصاحف کے طور پر مشہور ہیں۔

درج بالا وجوہ کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لکھوائے گئے مصاحف کی تعداد چھ(۶) تھی جو مرکزی بلادِ اسلامیہ کی طرف روانہ کیے گئے اور علمائے رسم نے رسمِ عثمانی کے قواعد اور مصاحف کے باہمی اختلاف کو بیان کرنے کیلئے انہی مصاحف کو بنیاد بنایا ہے ۔

مصاحف ِعثمانیہ کی تاریخ

دورِ جدید میں ،قرطاس یا کھال پر مکتوب ہر ایسا مصحف جس کے خط کی قدامت مسلّمہ ہو،جو نقط و اعراب سے معر ّیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ صحابہ ،تابعین اور قر ّاء کی روایتی تقطیع اور رسمِ عثمانی کے عین موافق ہو۔غرض اس میں وہ تمام خصوصیات جمع ہوں جو کسی مصحف ِعثمانی میں پائی جاتی ہیں ،اِن سب کے باوجود کسی قدیم مصحف کو اصل نسخہ ء ِعثمانی مشہور کر دینا جس قدر آسا ن ہے اس کی اصلیت ثابت کرنا اسی قدر کٹھن اور مشکل ہے، کیونکہ کسی بھی مصحف کو مصحف ِعثمانی ثابت کرنے کیلئے کوئی دلیل ِقطعی موجود نہیں ۔ جیسا کہ علامہ زرقانی ؒلکھتے ہیں:

لیس بین أیدینا قاطع علی وجود المصاحف العثمانیۃ الآن فضلا عن تعیین أمکنتھا(۴۵(

احمد کمال عادل بھی دورِ حاضر میں مصاحف ِعثمانیہ کے وجود کے قائل نہیں۔ رقمطراز ہیں:

لا یقوم بین أیدینا دلیل علی وجود المصاحف العثمانیۃ الآن۔ وما یقال عن المصاحف الأثریۃ الموجودۃ بخزائن الکتب والآثار بمصر من أنہا مصاحف مما کتب عثمان فھو عارٍ عن الصحۃ، لأن بہا زخرفۃ ونقوشاً وضعت کعلامات للفصل بین السور ولبیان أعشار القرآن، وقد کانت المصاحف العثمانیۃ خالیۃ من ہذا (۴۶(

اسی بنیاد پر بعض اہل علم دورِ حاضر میں کسی بھی مصحفِ عثمانی کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔جیسا کہ پروفیسرسید محمد سلیم ؒ، ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عام طور پر علماء ان کو قدیم ترین مصاحف کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں مگر جدید محققین کی رائے ان کے خلاف ہے۔ ان کی نظر میں ان میں سے کسی ایک کا خط بھی مدنی خط نہیں ہے۔ مدنی خط کی خصوصیات سے یہ قرآن مجید عاری ہے۔ ان کا خط بعد کے دور کا ترقی یافتہ خط ہے اس لئے ماہرین ان کو دورِ عثمانی کے مصاحف تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔(۴۷)

اس کے باوجود ہمارے پاس انکار کی گنجائش بھی اتنی ہی کم ہے جتنا کہ کسی مصحف عثمانی کے اثبات کیلئے یقین کرنا مشکل ہے۔دورِ حاضر میں مصاحف ِعثمانیہ کے نام سے مشہور مصاحف کی تعداد کے بارے میں پروفیسرسید محمد سلیم لکھتے ہیں:

اس وقت دنیا میں چار قرآن مجید ایسے ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جا تا ہے کہ وہ مصاحف ِعثمانی کے اولین نسخے ہیں:

٭ تاشقند میوزیم ترکستان میں موجودہے۔

٭ مشہد ِحسینی قاہرہ میں موجودہے۔

٭ دارالآثار قسطنطنیہ میں موجودہے۔

٭ توپ کاپی سرائے استنبول ترکی میں محفوظ ہے‘‘۔(۴۸)

تاشقند میں موجود مصحف ِعثمانی (۴۹)

اسلامی تعلیمات کی ایک قدیم اور بیش قیمت یادگار ’پیٹرزبرگ‘میں محفوظ ہے جو کہ قرآنِ عثمانی یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ معلومات ۱۸۶۹ء میں روسی پریس نے شائع کیں۔خواجہ اخرار (Khoaja Akhrar ) کی مسجد میں محفوظ اس مصحف کو تاشقند کے جیّد علماء نے روسی میجر جنرل ابراموف (Abramove) کے حوالے کیا۔ اس سپردگی کا ذکر کرتے ہوئے ابراموف اپنے حکامِ بالا کے نام ایک خط میں لکھتا ہے:

ان تمام حالات کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت ہے کہ اس قرآنی نسخہ کی دستیابی، سائنسی اور علمی دنیا کے لیے ہماری بہت اہم دریافت شمار ہوگی۔میں نے میجر سیروف(Serove)سے ہر ممکن طریقے سے اس قرآن کو اپنی تحویل میں لینے کیلئے دلچسپی ظاہر کی اور بالآخر اس میں کامیابی ہوگئی۔ جو امام یہ قرآن میرے پا س لیکر آئے انہوں نے یہ بات خود دہرائی کہ ہم دو(۲)وجوہات سے یہ قرآن خوشی کے ساتھ آپ کے حوالے کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ خزانے کی ملکیت ہے اور دوسرا یہ کہ کسی بہترین مصرف کے بغیر ہمارے پاس رکھا ہوا ہے۔ میں نے مسجد کے لئے 500 Kokans (مقامی کرنسی، تقریباًسو (۱۰۰) روبل)کا عطیہ دے کر سمرقند کے چوٹی کے علماء کی رضامندی کیساتھ یہ معاملہ طے کر لیا ہے۔

معروف روسی ماہرِ شرقیات B. V. Luninنے بھی اپنی کتاب(۵۰) میں اس خط پر اظہارِ خیال کیا ہے۔

تاشقند میں محفوظ مصحف ِعثمانی ایک دفعہ روسی حدود سے منتقل ہو کر روم بھی پہنچا تھا لیکن پھر اس کو روم سے واپس لایا گیا ۔ اس واپسی کی کہانی روسی ماہرِ شرقیات اے۔ایل۔کوہن ( A.L.Kuhn)کی زبانی معلوم ہوتی ہے ۔وہ ، ترکستان کے گورنر جنرل کاؤف مان
(K.P.Kauffmann)کے نام ۲۱ اکتوبر۱۸۶۹ء کی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:

اس قرآن کو، مَیں عزت مآب کی خدمت میں مزید پیش رفت اور غوروفکر کے لئے پیش کرتا ہوں۔قریباً چار سو برس پہلے کی بات ہے کہ تاشقند میں ایک پیر خواجہ عبید اللہ المعروف ’اخرار‘رہتے تھے۔ اِن کے والد خواجہ محمود تاجر تھے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے کے عارفانہ استغراق اور محتلف ریاضتی میلان دیکھتے ہوئے اُنہیں اللہ کی راہ میں وقف کردیا۔ عبیداللہ کی عمر کے ساتھ ساتھ ان کی عارفانہ شہرت میں بھی اضافہ ہوتارہا۔ بیس (۲۰) سال کی عمر میں وہ سلسلہ نقشبندیہ کے توحید پرست پیروکار شیخ محمدی نامی پیر کے مرید بن گئے ۔ اپنے پیر کی وفات پر خلیفہ کی حیثیت سے عبید اللہ خرار نے تمام امور اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ایک دفعہ جب انہیں زندگی میں ہی جانشین پیر تسلیم کیا گیاتو اُن کے مریدوں کے چند گروہ حج پرگئے ۔ رواج کے مطابق ہر حاجی مختلف تبرکات اور جڑی بوٹیاں وغیرہ اپنے ہم وطنوں کو دینے کے لیے لاتا ہے حج سے واپسی پر خواجہ اخرار کے ایک مرید نے روم کا دورہ کیا۔ اُس وقت ریاست روم (ترکی) کا خلیفہ بیمار تھا۔ اور کوئی مقامی طبیب اس کا علاج نہ کر سکا ۔ ناامید ہو کر طبیبوں کی درخواست پر قریبی ریاستوں سے ڈاکٹر بلائے گئے ۔اس اثناء میں روم میں چرچا ہو چکا تھا کہ ترکستان کے ایک مرید کے روحانی علاج میں بہت شفاء ہے۔ خلیفہ نے یہ سنتے ہی اس مرید کو پیش کرنے کا حکم دیا ۔ اخرار کے مرید کو بہت شان وشوکت سے لایا گیا۔ جس نے کلام اللہ کی عبارت کے ذریعے خلیفہ کا علاج شروع کیا ۔ ابھی تین روز نہیں گزرے تھے کہ خلیفہ کی طبعیت سنبھل گئی اور جب وہ مکمل صحت یاب ہوگیا تو اس نے حکم دیا کہ مرید کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ لہٰذا جو چاہے مانگو۔ قرآنِ عثمانی کی موجودگی کا تذکرہ کافی عرصہ سے ترکستان کے طول وعرض میں چلا آرہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ اس وقت خلیفہ روم کے خزانے میں محفوظ تھا۔مرید نے ممنون خلیفہ سے بدلے میں اس نسخے کی فرمائش کر دی۔اس فرمائش نے خلیفہ کو پریشان کر دیا۔ وہ اس نسخے کو خود سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھااور شاید وہ یہ فرمائش پوری نہ کرتا لیکن وزراء ورفقاء کے اصرار اور تین دن میں اسی نسخہ کی خریداری کے ذریعہ اس کی محفوظ واپسی کی یقین دہانی پر خلیفہ نے قائل ہو کر نسخۂ قرآن دینے کا حکم جاری کیا۔قرآن حکیم ملتے ہی مرید نے فوراً اپنے ایک ہم وطن کے ذریعہ اس نسخہ کو خواجہ اخرار کیلئے روانہ کر دیا۔ شاہِ روم اور اس کے وزراء اس نسخہ کی واپسی میں ناکام رہے۔

اس نسخہ کی دستیابی کے باعث خواجہ اخرار کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔کئی سال تک تاشقند میں یہ نسخہ ان کی تحویل میں رہاپھر وہ نیکی اور بھلائی کے لیے عازمِ سمرقند ہوئے جہاں انہوں نے مدرسہ ،مسجد اور قرآنِ عثمانی جیسا عظیم ترکہ چھوڑا۔خواجہ اخرار نے اسی (۸۰) سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنی بنائی گئی مسجد میں دفن ہوئے۔

۲۴؍اکتوبر ۱۸۶۹ء کو جنرل کاؤف مان (K.P.Kauffmann) نے روس کے وزیرِ تعلیم کے نام ایک تحریر پیش کی جس میں نسخہ کی دستیابی کی کہانی بیان کرنے کے بعد اسے شاہی پبلک لائبریری پیٹرزبرگ کو تحفہ دینے کی اجازت چاہی۔بعدازاں اجازت کے بعد یہ نسخہ تحفہ سمیت پیٹرزبرگ لائبریری میں بھیج دیا گیا۔

روس میں موجود مصحف ِعثمانی کے سلسلہ میں پہلا تفصیلی مطالعہ روسی ماہرِ شرقیات اور مصر کیلئے سفارتی خدمات انجام دینے والے الیکسی شبونن(Alexi Shabunin) کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے،جو اپنی تصنیف
“Kufic Korans” کے باعث خاصی شہرت رکھتے ہیں ۔

مصحف ِعثمانی کا یہ نسخہ 68 x 53 سینٹی میٹر سائز کے ۳۵۳صفحات پر مشتمل ہے جبکہ تحریری متن 50 x 40مربع انچ پر پھیلا ہوا ہے۔خشک موٹے چمڑے کو کاغذ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔کئی جگہ پیوند لگے ہوئے ہیں ۔یہ نسخہ خطِ کوفی کے واضح اور دلکش انداز میں لکھا گیا ہے جو ہر زاویے سے برابر نظر آتا ہے۔پورے مسودے میں سطروں کی یکسانیت کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔

اس مصحف کی مزید داستان بھی خوش قسمتی اور دلچسپی سے خالی نہیں ۔اکتوبر ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے بعد مسلم عوام نے روسی حکومت کو درخواست دی کہ اُنہیں ان کے تبرکات واپس کر دئیے جائیں ۔ اس کا مثبت جواب ملا اور یہ قرآن مجید اوفا لایاگیاجو بعد ازاں تاشقند منتقل کر کے تاریخی عجائب گھر میں محفوظ کر دیاگیا۔ ابھی ۱۹۹۰ء کی بات ہے کہ یہ نسخہ وزارتِ مذہبی امور کے حوالے کر دیاگیا جو کہ تاشقند شہر میں مسلم بورڈ آف سنٹرل ایشیا کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ بورڈ کے چیئرمین ’محمد صادق مامایوسوپوف ‘نے اکتوبر ۱۹۹۱ء میں بتایا تھا کہ یہاں اسے ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں ہوابند شفاف صندوق میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔

نسخہ تاشقند کی ایک عکسی کاپی نیشنل میوزیم کراچی (پاکستان)میں بھی محفوظ ہے(۵۱)۔غالباً تاشقند میں موجود مصحف کے عکس کو ہی خطاط کامل الباباؒ نے قطر کے پایہ تخت ’دوحہ ‘میں دیکھا تھا(۵۲)۔

مشہد ِحسینی کے مصحف ِعثمانی کے بارے میں احمد کمال عادل لکھتے ہیں:

أما المصحف المحفوظ بخزانۃ المسجد الحسینی والمنسوب إلی عثمان فہو مکتوب بالخط الکوفي القدیم مع تجویف حروفہ وسعۃ حجمہ۔ ورسمہ یوافق رسم المصحف المدني أو الشامي حیث رسمت فیہ کلمۃ (مَنْ یَرْتَدّ) من سورۃ المائدۃ بدالین اثنین مع فک الأدغام وھو رسمہا، فمحتمل أن یکون منقولا من المصاحف العثمانیۃ(۵۳)

مذکورہ اقوال کے علاوہ ،ذیل میں ہم مختلف تاریخی روایات کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ حضرت عثمان صکی طرف منسوب دیگرمصاحف کہاں ہیں؟اور کیا اب بھی کوئی مصحف کسی جگہ موجود ہے؟

مصحف ِخاص

مصحف ِخاص سے مراد وہ مصحف ہے جوحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ذاتی استعمال کیلئے تیار کروایاتھا اور آپ رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کے زیر نظر تھا اور اسی پر خونِ ناحق گرا تھا ۔علامہ ابن کثیرؒ نے اس روایت کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

عن ابی سعید مولی بنی اسید قال لما دخل المصریون علی عثمان ضربوہ بالسیف علی یدہ فوقعت علی { فَسَیَکْفِیْکَھُمُ ﷲ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} فمد یدہ وقال: واﷲ انہا لاول ید خطت المفصل ۔(۵۴(

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ذاتی مصحف کو مورخین اور علمائِ رسم نے امام سے موسوم کیا ہے۔ ڈاکٹرعبد الوہاب حمّودہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یریدون بذلک المصحف الذی کتب بأمر الإمام عثمان فإنہم کانو یسمونہ الإمام من حیث اتباعہ رسماً وغیرہ(۵۵(

ابراہیم الابیاری ؒنے الامام کی وجہ تسمیہ میں ایک اوروجہ بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

…مما أفزعہ وجعلہ یقوم بین الناس خطیباً ویقول: أنتم عندی مختلفون فیہ فتلحنون فمن نأی عنی من الأمصار أشد فیہ اختلافًا وأشد لحناً، اجتمعوا یا أصحاب محمد واکتبوا للناس إماماً، من أجل ذلک سُمی مصحف عثمان: الإمام(۵۶(

یعنی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے اختلافات کا خوف کھاتے ہوئے لوگوں میں کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کہ تم میرے پاس اختلاف اور غلطی کرتے ہو جبکہ تم سے دور شہروں والے تو اس اختلاف میں زیادہ فحش غلطی کرنے والے ہیں۔ اے اصحابِ رسول ث! لوگوں کیلئے ایک امام لکھو ۔ اس وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصحف کا نام امام رکھا گیا۔

بہر حال علامہ سمہودی ؒ کی رائے میں یہ نسخہ ٔ امام یومِ شہادت تلف ہو گیا تھا کیونکہ جب حجاج بن یوسفؒ نے منقوط مصاحف کی اشاعت کے سلسلہ میں ایک نسخہ مدینہ کی طرف ارسال کیا اور ساتھ یہ حکم بھیجا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذاتی نسخہ واپس کیا جائے تو آلِ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ نسخہ تو یومِ شہادت تلف ہو گیا تھا(۵۷)۔شاید اسی وجہ سے امام مالکؒ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مصحف کے بارے میں فرمایا کہ وہ ضائع ہو گیا ہے:

حدثنا عبد ﷲ ، حدثنا أبو الطاھر، حدثنا ابن وھب قال: سألت مالکا عن مصحف عثمان رضی ﷲ عنہ، فقال لی: ذھب(۵۸(

امام مالکؒ کے اسی قول کی بنیاد پر ابو جعفر النحاس(م۳۳۸ھ) نے مصحف ِخاص کے وجود سے انکار کر دیالیکن امام شاطبی ؒ نے ابو جعفر النحاس کے انکار کو غلط قرار دیا ہے(۵۹)۔

لیکن دوسری طرف امام ابو عبید القاسم بن سلّام ۲۲۴ھ(۶۰)اور ان کے بعدعلامہ ابن الجزریؒ نے خود اس مصحف کا مشاہدہ کیا تھا ۔ابو عبید القاسم بن سلّامؒ اور ابن قتیبہؒ جیسے بلند پایہ محققین کی آراء کے بعد چوتھی صدی ہجری میں دو مشہور جغرافیہ نویس اصطخری اور ابن ِحوقل نے جہاںطرطوس کے علاقہ کے احوال بیان کیے ہیں وہاں خصوصیت سے اس اثری نسخہ کی نشاندہی کی ہے(۶۱)۔مزید براں محرز بن ثابت کے قول کے مطابق مصحفِ عثماخالد بن عمرو بن عثمان کے پاس محفوظ تھا(۶۲)۔

ابو محفوظ معصومی کے مطابق ،مسلسل ومربوط اطلاعات کے ذریعہ، مصحف ِمذکور کا سراغ تقریباً چوتھی صدی ہجری کے وسط تک ملتا ہے(۶۳)۔ اس نسخہ کی قدیم ترین اطلاع عمرۃ بنت ِ قیس العدویہ کی ہے جو امام احمد بن محمد بن حنبلؒ کے صاحبزادے عبد اللہ بن احمد کی سند سے کتاب الزہد میں درج ہے۔روایت کے الفاظ حسب ِذیل ہیں:

فرأینا مصحف الذی قتل وھو فی حجرہ ، فکانت اول قطرۃ قطرت من دمہ علی ھذہ الآیۃ ، فَسَیَکْفِیْکَھُمُﷲ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، قالت عمرۃ: فما مات منھم رجل سویا(۶۴(

یعنی ہم نے وہ مصحف دیکھا جو بوقت ِشہادت، آپ رضی اللہ عنہ کے کی گودمیں ،آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خون کا پہلا قطرہ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ ﷲ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۶۵) کی آیت ِکریمہ پر گر ا تھا۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب موجوداکثر مصاحف پر خون کے داغ موجود ہونے کی روایات ملتی ہیں،اب ان مصاحف میں سے وہ کو ن سا نسخہ ہے جس پر واقعی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وقت ِشہادت خون گرا تھا؟ اس کا فیصلہ بہر حال ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ علامہ سمہودیؒ کی رائے میں بھی مصحف ِخاص سے مشابہت پیدا کرنے کیلئے بعد میں نسخوں کے اندر آیت ِمذکورخلوق کے ذریعہ رنگ دی گئی(۶۶)۔

یقینا یہی وجہ ہے کہ علامہ زاہد الکوثری ؒ کسی بھی خون آلود نسخہ کو مصحف ِعثمانی ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ ان کے الفاظ ہیں:

وکثیر من الماکرین یجترؤن علی تلطیخ بعض المصاحف القدیمۃ بالدم لیظن أنہ الذی کان بید عثمان رضی اﷲ عنہ حینما قتل، وکم من مصاحف ملطخۃ بالدم فی خزانات الکتب(۶۷)

مصحف ِخاص کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ابو محفوظ الکریم لکھتے ہیں:

تیسری صدی کے اواخر میں ابن قتیبہ دینوری (م ۲۷۶ھ) کی ذریعے اطلاع ملتی ہے کہ قرآن کریم کا وہ نسخہ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا ، خالد بن عثمان کے پاس ، پھر اس کی اولاد کے قبضے میں رہا مگر ان لوگوں کی نسل منقطع ہو گئی اور مصحف کے بارے میں ابن قتیبہ کو مشائخِ شام کی زبانی یہ اطلاع پہنچی کہ اب طرطوس میں موجود ہے (۶۸)

مصحف ِ مدنی

اندلسی سیاح ابن جبیرؒ ہی کویہ اولیت حاصل ہے کہ ۵۸۸ھ میں زیارتِ مدینہ سے مشرف ہونے کے بعد جو روداد قلمبند کی اس میں حجرئہ ِمبارکہ اور مقام النبی کے درمیان مصحف ِعثمانی کی جگہ متعین کر کے بتائی ہے، لیکن اس بات کی صراحت کر دی کہ یہ نسخہ ان مصاحف میں سے ایک ہے جو حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مدینہ سے باہر بھیجے گئے(۶۹)۔

ابن جبیر کے بعد مؤرخ خطیب ابن مرزوق ؒنے اس نسخہ کو مصحف ِعثمانی قرار دیا ۔ انہوں نے ۷۳۵ھ میں اسے دیکھا سرورق پر بقول خطیب مذکور عہد ِعثمانی کے مرتّبین و کاتبین کے مندرجہ ذیل نام درج تھے:

ھذا ما أجمع علیہ جماعۃ من اصحاب رسول ﷲ ﷺ منھم زید بن ثابت وعبد ﷲ بن الزبیر وسعید بن العاص(۷۰(

جہاں یہ بات یقینی ہے کہ یہ تحریر بعد میں کسی نے درج کی ہے وہاں اس تحریر کی وجہ سے نسخہ ء ِمذکور کی اہمیت مشکوک ہو جاتی ہے۔بہر حال اس مصحف کی تاریخ بیان کرتے ہوئے علامہ طاہر رحیمی رقمطراز ہیں:

یہ مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ۔ پھر خلافت کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا ۔ وہاں سے اندلس پہنچا ، وہاں سے مراکش کے دارالسلطنت فاس پہنچا، پھر کسی طرح مدینہ منورہ واپس پہنچا۔ جنگِ عظیم اول میں فخری پاشا گورنر مدینہ اس کو دیگر تبرکات کے ساتھ قسطنطنیہ لے گیا اور تاحال وہاں موجود ہے(۷۱)

مصحفِ مکی

ابن جبیر کے سفر نامئہِ مکہ معظمہ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان کے دور تک محفوظ رہا ۔ ابن جبیر کے بقول القبۃ العباسیۃ(۷۲)کے متولی سے یہ معلوم ہوا کہ قحط وگرانی کے زمانہ میں اہلِ مکہ اس نسخہ شریفہ کو باہر نکالتے ہیں اور بیت اللہ کی چوکھٹ اور مقامِ ابراہیم کے درمیان رکھ کر دعا کرتے ہیں جس کا اثر بہت جلد ظاہر ہو جاتا ہے۔ ابن جبیر نے ۱۱۸۳ء میں عربوں کے ایک ایسے اجتماع کا خود مشاہدہ کیا ۔(۷۳)

ابن جبیر کے بعد ابو القاسم التجیبی نے۶۵۷ھ میں نسخہء ِمذکور کی زیارت کی۔ اس کے بعدسیاح ابن بطوطہ(م ۷۷۹ھ) نے غالباً ۷۲۷ھ میں اس نسخہ کو دیکھا اور پھر۷۳۵ھ میں ابن مرزوق بھی اس نسخہ کے مشاہدہ کی شہادت دیتا ہے۔(۷۴)

مکہ کی طرف روانہ کیے جانے والے مصحف ِعثمانی کے متعلق علامہ طاہر رحیمی کا خیال ہے کہ:

مکی نسخہ ۶۵۷ھ تک مکہ معظمہ میں رہا۔ محمد جبیر اندلسی نے ۵۷۹ھ میں اس کی زیارت کی تھی۔ کشاف المہدی(ص۱۵۷)میں ہے کہ سلطان عبد الحمید خان جو ۱۸۷۶ء میں تخت نشین ہوئے اور تقریباً تیس برس تک انہوں نے حکومت کی ۔ ان کے زمانہ میں دمشق کی جامع مسجد کو آگ لگی جس میں یہ مصحف بھی جل گیا۔ (۷۵(

مصحفِ شامی

اس مصحف کے بارے میں علامہ زاہد الکوثریؒ کی رائے ہے کہ یہ مصحف طبریہ سے دمشق کی طر ف منتقل ہوا ۔ علامہ ابن الجزری ؒکے دور میں مصحف ِمذکورمسجد ِتوبہ میں محفوظ تھا،حرب ِعامہ تک یہ نسخہ الجامع الأموی کے حجرۃ الخطیب میں محفوظ رہا(۷۶)۔ الشیخ عبد الحکیم افغانی ؒنے مصحف ِمذکور کے رسم کے مطابق اپنا ذاتی نسخہ تیار کیا تھا، الشیخ افغانی ؒکا یہ نقل کردہ نسخہ آج بھی دمشق میں محفوظ ہے۔ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی کے خیال میں مصاحف ِعثمانیہ میں سے ایک نسخہ دمشق کی مسجد بنو امیہ الکبیر میں آٹھویں صدی ہجری تک محفوظ رہا ہے(۷۷)۔

علامہ طاہر رحیمی کے مطابق:

احمد مقری مؤرخ نے ۳۷۵ھ میں اس کی زیارت کی تھی ۔یہ نسخہ کوفہ سے سلاطین اندلس، پھر سلاطین موحدین ،پھر سلاطین بنی مرین کے قبضہ میں آیااور جامع قرطبہ میں رہا۔ اہل قرطبہ نے سلطان عبد المومن کو دیا۔ عبد المومن کے حکم سے ابن بشکوال نے دارالسلطنت مراکش کو منتقل کیا ۔ یہ منتقلی ۱۱ شوال۵۵۲ھ کو ہوئی۔ ۶۴۵ھ میں خلیفہ علی بن مامون کے پاس رہا۔ اسی سال خلیفہ نے تلمسان پر فوج کشی کی اور مارا گیا۔ اسی جنگ میں وہ نسخہ گم ہو گیا لیکن تلمسان کے شاہی خزانہ میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔وہاں سے ایک تاجر خرید کر لایا ،وہاں اب موجود ہے۔(۷۸)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دیگر مصاحف

مذکورہ مصاحف کے علاوہ چنددیگر مصاحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیںجن کا مختصر تذکرہ حسب ِذیل ہے:

(۱) خلیفہ معتصم باللہ(م ۶۵۶ھ) کی ایک زوجہ کے حکم پر تعمیر کیے جانیوالے مدرسہ بشیریہ کی تعمیر جب اختتام پذیر ہوئی تو اس کا افتتاح خود خلیفہ نے کیا۔ خلیفہ کی طرف سے نادرونایاب نسخوں کے چھتیس(۳۶)صندوق اس مدرسہ کے کتب خانہ کوعطیہ میں دیے گئے۔ ان نسخوں میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے نوشتہ دفاتر کے علاوہ قرآن مجید کے دو نایاب نسخے بھی شامل تھے جن میں سے ایک نسخہ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دست ِمبارک کا نوشتہ تھا۔(۷۹)

(۲) رمضان ۶۶۱ھ میں الملک الظاہر بیبرس نے برکہ خان تاتاری ،فرمانروائے قبچاق ،کو جو تحائف ارسال کیے ان کی فہرست میں ابن واصل نے ایک مصحف کا تذکرہ کیا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نوشتہ تھا(۸۰)۔

لیکن کسی روایت میں یہ نشاندہی نہیں ملتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خود اپنے دست ِمبارک سے بھی کوئی نسخہ رقم فرمایا ہو۔

(۳) ابن بطوطہ (م ۷۷۹ھ)نے اپنے بصرہ کے سفر میں مسجد ِامیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ اس خزانے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مصحف ِخاص موجود تھا، جس کے اوراق خون آلود تھے(۸۱)۔

(۴) تاشقند کے نسخہ کے بارے میں ابو محفوظ الکریم رقمطراز ہیں:

۱۹۱۷ء میں روسی انقلاب کے بعد انقلابی دستے کے مسلمان سپاہیوں نے اس کو اپنے قبضے میں کر لینا چاہا مگر عارضی حکومت کی فوج نے ان کو اس سے باز رکھا۔ بالآخر پیتروگراڈ صوبائی مسلم کانگریس نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا اور مجلس وزراء کے حکمنامہ مورخہ ۹دسمبر۱۹۱۷ء کے مطابق یہ تاریخی مصحف روسی پارلیمان کے مسلم نمائندوں کے جلسہ میں اوفا پہنچا۔ پھر اسے تاشقند لایا گیا جو اس ازبکستانی جمہوریہ کا پایہء ِتخت ہے۔ روسی نشریہ میں خون کے نشانات کا ذکر کیا گیا ہے اور اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ روسی مستشرقین نے اس کی قدامت کو تسلیم کیا ہے۔(۸۲)

(۵) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک مصحف جامع سیدنا حسین ثقاہرہ میں محفوظ ہے (۸۳)۔

(۶) ایک مصحف ِعثمانی جامعہ ملّیہ دہلی میں موجود تھا ۔ اگر ہنگامہ تقسیم ِہندوستان میں تلف نہ ہوا ہو تو موجود ہوگا(۸۴)۔

(۷) ایک نسخہ ’انڈیا آفس لائبریری لندن ‘ میں محفوظ ہے ،جس پرکتبہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے الفاظ مرقوم ہیں۔ یہ نسخہ شاہانِ مغلیہ کے پاس بھی رہا ۔ اکبر بادشاہ کی مہر اس پر ثبت ہے۔ ۱۸۴۵ء میں یہ نسخہ میجر راونس کو ملا۔اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے کتب خانہ کو دیا۔ اب انڈیا آفس لائبریری لندن میں ہے۔ اس کے ۱۸۱صفحات ہیں اور ہر صفحہ پرسولہ (۱۶) سطور ہیں(۸۵)۔

مصاحف ِ عثمانیہ کی موجودگی کب تک اس قطعہ ء ِارضی پر رہی ؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب کسی مورخ یا محقق کے پاس نہیں اور یہ بھی کہ دورِ حاضر میں موجود مصاحف ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنے میں محض ظن و تخمین ہی بنیاد ہے ورنہ قرآن کی حفاظت کا اصل ذریعہ اس کا سینہ بہ سینہ انتقال ہے اور ہر حافظ ِقرآن کی سند کا منتہاء رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ چنانچہ مصاحف کی تاریخی بحث میں علامہ زرقانی کے الفاظ ہیں کہ:

ثم ان عدم بقاء المصاحف العثمانیۃ قاطبۃ لا یضرنا شیئا ما دام المعمول علیہ ھو النقل والتلقی ثقۃ من ثقۃ إماما عن إمام، إلی النبی ﷺ۔ وذلک متواتر مستفیض علی أکمل وجہ فی القرآن حتی الآن(۸۶)

مصاحف ِعثمانیہ کی تاریخی بحث میں یہ حقیقت ناقابلِ فراموش ہے کہ مسلمانوں کے مصاحف ِعثمانیہ کو اثری اہمیت نہ دینے کی وجہ یہی تھی کہ روزِ اوّل سے ہی قرآنِ مقدس نے حفظ و صیانت کا نہایت بلند درجہ مقام حاصل کر لیا تھا جس کے پیشِ نظر اس بات کی قدرے ضرورت محسوس نہ کی گئی کہ عہد ِعثمانی کے اِن نسخوں کو بعینہٖ محفوظ رکھا جائے ۔لیکن اس یقین کے باوجودیہ نسخے اسلامی معاشرہ میں مروّج رہے جن سے مسلمانوں نے مکتوب ومحفوظ کے مابین تصدیق وتصحیح کے عمل کو جاری رکھا۔

مصاحف ِعثمانیہ میں مستعمل خط ِکتابت

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کروائے گئے مصاحف خط ِکوفی قدیم یعنی خط ِحیری میں تحریر کیے گئے۔بعض محققین نے اس کو خط ِجزم قرار دیا ہے۔لیکن دونو ں خط (کوفی اور جزم) مختلف ادوار میں دراصل ایک ہی خط کے دو نام رہے ہیں(۸۷)۔تاریخی اعتبار سے اس کی شہادت ملتی ہے کہ اسلام کو ورثہ میں ملنے والے خط میں عہد ِعثمانی کے اختتام تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی(۸۸)۔

علامہ کردی ؒکے مطابق ،اس وقت ملک ِعرب میں رائج خط ِکوفی میں مصاحف عثمانیہ کی کتابت کی گئی جبکہ ان مصاحف کو نقاط،حرکات اور اجزاء کی تقسیمی علامات سے خالی رکھا گیا، لکھتے ہیں:

والذی نراہ أن المصاحف العثمانیۃ التی أرسلت إلی الأمصار کتبت علی الجلود وکتبت بالخط الکوفی الذی ما کانوا یعرفون من الخط سواہ، وکتبت بغیر نقط ولا شکل، ولم یکن فیھا علامات الأجزاء (۸۹(

مشہور خطاط ،کامل الباباؒ اپنی تصنیف روح الخط العربی میں مصاحف ِعثمانیہ میں سے دو عکس پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ونلاحظ بسہولۃ بدائیۃ ھذا النوع من الکوفی الذی کتبت بہ صحیفتان، وعدم استواء الأسطر وشدۃ بُعد الحروف فی الکلمۃ الواحدۃ۔ کما أننا نلاحظ خلو الکتابۃ من النقط والشکل(۹۰(

جیسا کہ پہلے باب میں اس کی تفصیلات لکھی جا چکی ہیں کہ خطِ کوفی دراصل خطِ نبطی کی ترقی یافتہ شکل تھی جو پہلے پہل خطِ حیری یا خطِ جزم سے مشہور ہوا اور پھر اسی خط کو خطِ اسلام یا خطِ کوفی سے موسوم کیا گیا۔

پروفیسر سید محمد سلیم ؒ ،اسی بناء پر، مصاحف ِعثمانیہ کے خطِ کتابت کے متعلق رقمطراز ہیں:

یہ قرآن مجید کے نسخے اونٹ کی کھال کی جھلی پر سیاہ روشنائی سے اور خوش خط قلم سے لکھے گئے تھے۔ اس خط میں خطِ نبطی کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔(۹۱)

غرضیکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف ’رِقّ ‘پر خط ِکوفی میں لکھے گئے اور کلمہ میں حروف کے مابین فاصلہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نقط و شکل سے بھی خالی تھے۔

رسم مصاحف میں اختلاف اور اس کے اسباب

امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ارسال کردہ مصاحف کے رسم میں چند الفاظ کا اختلاف موجود تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمام مصاحف میں اختیار کیا جانے والا رسم قواعدِ عربیہ کے موافق تھا ، مگر کچھ کلمات کو عام قواعدِ عربیہ کے خلاف لکھا گیا جن میں سے بعض کے حِکم ومصالح معروف ہیں ۔ لیکن جماعت ِصحابہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے تمام اختلافی کلمات کی پیروی ضروری ہے کیونکہ وہ ہماری نسبت قرآنی رسم کو بہتر سمجھنے والے تھے۔ علامہ دمیاطیؒ نے اِسی بات کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:

واکثر رسم المصاحف موافق لقواعد العربیۃ إلا أنہ قد خرجت أشیاء عنہا یجب علینا اتباع مرسومہا ۔ فمنہا ما عرف حکمہ ومنہا ما غاب عنا علمہ، ولم یکن ذلک من الصحابۃ کیف اتفق بل عن أمر عندھم قد تحقق (۹۲(

اس اختلاف کی ایک وجہ یہ تھی کہ جملہ متواتر قراء ات رسمِ مصحف میں شامل ہو جائیں اور مختلف الفاظِ قرآنی کی وہ وجوہ بھی رسمِ مصحف میں سما جائیں جو رسول اللہ کی زبانِ مبارک سے صحابہ نے سنیں اور وہ عرضئہِ اخیرہ میں باقی رکھی گئیں۔

مصاحف عثمانیہ کے رسم میں پائے جانیوالے اختلاف کا ایک قابلِ ذکر حصہ دراصل اختلاف ِقراء ات پر مشتمل ہے۔مصاحف ِعثمانیہ کے رسم میں اختلاف کا سبب بیان کرتے ہوئے عبد الوہاب حمودہ لکھتے ہیں:

أما سبب اختلاف المصاحف العثمانیۃ فیما بینھا ، فیرجع فی الأغلب إلی القراء ات، لنبین بذلک أن القراء ات دائرۃ علی ألسنۃ الصحابۃ، ثابتۃ فی رسوم مصاحفھم، بعد أن تلقوھا من النبی ﷺ ، وسمعوھا منہ، أو أذن لھم فیھا (۹۳)

مصاحف عثمانیہ میں اختلاف کے اسباب میں راحج قراء ات ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ قراء ات صحابہ کرام کی زبانوں پر تھیں اور ان کے مصاحف میں لکھی ہوئی تھیں جو انہوں نے (براہ راست) رسول اللہ ا سے سنیں تھیں اور آپ انے ان کے پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔

مذکورہ بالا فہرست تمام مصاحف ِعثمانیہ میں پائے جانیوالے جملہ اختلافی مقامات پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے اگر مصاحف ِعثمانیہ کا جائزہ لیا جائے تو ان کے مابین اختلافی مقامات کی تعداد مندرجہ ذیل بنتی ہے:(۹۴)

۱۔اہلِ حجاز(مکہ ومدینہ) اور اہلِ عراق(بصرہ وشام)کے مصاحف کے مابین اختلافی مقامات کی تعداد ۱۲

۲۔اہلِ شام کے مصاحف میں دوسرے مصاحف سے مختلف فیہ مقامات کی تعداد ۲۸

۳۔کوفی وبصری مصاحف کے مابین مختلف فیہ مقامات کی تعداد ۵

مختلف فیہ مقامات کی مجموعی تعداد ۴۵

مصاحف ِعثمانیہ کی کتابت کے دوران ، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا اہتمام بھی کیا کہ ایک ہی کلمہ کو، ایک ہی مصحف میں مختلف صورتوں سے رقم فرمایا ۔ جس کے باعث ایک ہی کلمہ قرآن میں مختلف طریقوں سے لکھا گیا۔ علامہ طاہر الکردیؒ نے اس ضمن میں چھیاسی(۸۶) امثلہ بیان کی ہیں۔(۹۵)

مصاحف ِعثمانیہ میں اختلافِ کلمات کے باوجود ہر کلمہ اور لفظ صحت ،اتقان اوراعتمادپر پورا اترتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ اور طعن کی گنجائش نہیں ۔قرآنی کلمات میں نقص وزیادت کے وقوع کو بھی ناقل کا سہو قرار دینا جائز نہیں کیونکہ ہر ہر حرف رسول اللہ ا سے مسموع ومنقول ہے:

فہذہ الأحرف التی اختلفت فیہا المصاحف ،وکلہا صحیحۃ لمعنی، متقنۃ الفحوی لا مطعن للطاعن فیہا، والدلیل علی أن ہذہ الحروف المختلف فیہا کتبت علی الصحۃ والإتقان، والعمد والقصد والإیثار لحفظ القراء تین علی المسلمین …وأن الذی وقع من النقص والزیادۃ لم یکن عن سہو ناقل، ولا لإسقاط ناسخ غافل ہو أن جملتہا یجمعہا الصحۃ والبیان ولکل حرف منہا شاہد من البرہان ، وحجۃ من الحق والرجحان (۹۶)

یعنی ایسے حروف جو مصاحف میں مختلف فیہ ہیں یہ تمام معنی کے اعتبار سے درست اورتلفظ کے اعتبارسے پختہ ہونے کے باعث کسی کے لیے شبہ وطعن کی گنجائش نہیں چھوڑتے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ جملہ حروف صحت ویقین کے ساتھ لکھے گئے مزیدبراں اس کے مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ مسلمانوں کے لئے ایک سے زائد قراء تیں محفوظ ہونے کا اہتمام ہوسکے۔…ایسے الفاظ جو حذف وزیادت کے مقامات پر ہیں وہ کسی لکھنے والے کی غلطی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی کسی بے پرواہ کاتب نے انہیں چھوڑدیا بلکہ وہ تمام حروف صحت وبیان کے اعتبار سے مُجمع علیہ ہیں اور ہر ہر حرف قرآنی معجزہ ، اس کی سچائی اور اس کی فوقیت کی کھلی دلیل ہے۔

مصاحف ِعثمانیہ کے رسم میں باہمی اختلاف کے اسباب (۹۷)

علامہ دانی ؒ،مصاحف ِامصار میں اختلاف کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فإن سأل سائل عن السبب الموجب لاختلاف مرسوم ھذہ الحروف الزوائد فی المصاحف، قلت: السبب فی ذلک عندنا أن أمیر المومنین عثمن بن عفان رضی ﷲ عنہ لما جمع القرآن فی المصاحف ونسخھا علی صورۃ واحدۃ وآثر فی رسمھا لغۃ قریش دون غیرھا مما لا یصح ولا یثبت نظراً للأمۃ واحتیاطا علی أھل الملۃ وثبت عندہ أن ھذہ الحروف من عند ﷲ عزوجلّ کذلک منْزلۃ ومن رسول ﷲ ﷺ مسموعۃ وعلم أن جمعھا فی مصحف واحد علی تلک الحال غیر متمکن ألا بإعادۃ الکلمۃ مرتین، وفی رسم ذلک کذلک من التخلیط والتغییر للمرسوم ما لا خفاء بہ ففرّقھا فی المصاحف لذلک فجاء ت مثبتۃ فی بعضھا ومحذوفۃ فی بعضھا لکی تحفظھا الأمۃ کما نزلت من عند اﷲ عزّوجلّ وعلی ما سُمعت من رسول ﷲ ﷺ، فھذا سبب اختلاف مرسومھا فی مصاحف أھل الأمصار(۹۸(

اگر کوئی پوچھنے والا مصاحف میں موجود حروفِ زائدہ کے رسم مختلف ہونے کا سبب پوچھے۔ تو میں کہتا ہوںکہ ہمارے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ص نے جب قرآن کو مصاحف میں جمع کیا تو ان کے رسم میں لغت ِقریش کے اثر کو باقی رکھااور ہر اس لغت کو ترک کر دیا جس میں امّت محمدیہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کیلئے سہولت کا پہلو نہ تھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ یہ حروف
منز ّل من اللّٰہ اور رسول اللّٰہﷺسے مسموع ومنقول ہیں اوربلا تکرار ایک مصحف میں ان کا جمع کرنا ممکن نہیں لہٰذارسم میں چند تبدیلیوں کے ساتھ ان حروف کو مختلف مصاحف میں بایں طور جمع کیا کہ بعض میں کچھ حروف کا اضافہ ہوا اور بعض میں حذف۔تاکہ امت اِن حروف کو بعینہٖ اسی طرح محفوظ کر لے جس طرح یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترے اور رسول اللہ اسے سُنے گئے۔ چنانچہ مختلف شہروں کے رسم میں اختلاف کا یہ سبب ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ارسال کردہ مصاحف جب مختلف شہروں میں پہنچے تو کسی نے اس کو اجنبی خیال نہیں کیا کیونکہ مصاحف موصول ہونے سے قبل بھی وہ وہی قراء ات پڑھتے تھے جو کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ اسے مروی اور خطِ مصحف کے موافق تھیں۔اس مفہوم کوعبد الفتاح اسماعیل شلبیؒ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

فلمّا وجھت الیھم المصاحف التی کتبھا عثمان وکانت خالیۃ من النقط والشکل قرأ اھل کل مصر مصحفہم علی ما کانوا یقرء ون قبل وصول المصاحف الیہم، وکانت قرأتہم متصلۃ السند بالصحابۃ الذین تلقوا عن الرسول…إلی جانب أنہا لا تختلف مع خط المصحف(۹۹)

مصاحف کے رسم میں اختلاف کے اسباب بیان کرتے ہوئے عبد الوہاب حمّودہ لکھتے ہیں۔

فیرجع لعدۃ أمور:

۱…إلی القراء ات

۲…لعلل معقولۃ، وحکم واضحۃ لھاصلۃ بجرس اللفظ ولھجتہ وموسیقاہ ونغمتہ۔

۳…إلی إجراہ الوقف مجری الوصل أو العکس۔

۴…قد یکون أثراً تاریخیا، وبقایا من میراث الخط الذی نقل عنہ الخط العربی، وھو الخط الآرامی۔

۵…وقد یکون لا لعلۃ واضحۃ، ولا لوجہ مفہوم ۔(۱۰۰(

یعنی رسم مصاحف میں اختلاف کے اسباب کی چند وجوہات ہیں جن میں پہلی: تو قراء ات کی حفاظت ، دوسری: معقول (لفظی)توجہیات جیسے کسی لفظ کی ادائیگی،آواز اور اندازِ قراء ت تیسری: جملوں کو ملانے یا علیحدہ کرنے کے لحاظ سے وقف کا لحاظ۔ چوتھی: تاکہ یہ ایک تاریخی رسم ہو جو خط عربی جو درحقیقت خط آرامی ہے کی باقیات کا محافظ ثابت ہو۔ اورپانچویں تاکہ اس کے بعدرسم میں تبدیلی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے۔

اس بارے میں الجامع الازہر اور معاہد ِدینیہ کے سربراہ الشیخ محمد حسنین مخلوف العدویؒ(م ۱۳۵۱ھ) کی کتاب عنوان البیان فی علوم التبیان میں سے ایک اقتباس پیش ِخدمت ہے:

إن ھذا الاختلاف بین تلک المصاحف انما ھو اختلاف قراء ات فی لغۃ واحدۃ لا اختلاف لغاتِ قصد بإثباتہ انفاذ ماوقع الاجماع علیہ… وانما کتبت ھذہ فی البعض بصورۃ وفی آخر باخری لانھا لو کررت فی کل مصحف لتوھم نزولھا کذلک ، ولو کتبت بصورۃ فی الاصل وبأخری فی الحاشیۃ لکان تحکما مع ایھام التصحیح …لا یؤدی الی تنازع او فتنۃ (۱۰۱)

مصاحف ِعثمانیہ کے مابین ،مختلف لغات کے اختلاف کی بجائے دراصل ایک ہی لغت کی مختلف جہات میں اختلاف ہے ،اور یہ جہات بھی بلاد المسلمین میں مجمع علیہ اور مشہور قراء ات کے طور پر مشہور تھیں۔ (اِن سب کی حفاظت کے پیشِ نظر)کچھ کو بعض مصاحف میں لکھا گیا اور کچھ کو دوسرے مصاحف میں کیونکہ اگر ہر ایک مصحف میں ان کو تکرار کے ساتھ لکھا جاتا تو ان کے نزول کے لحاظ سے کسی ایک کے تعین میں شک کا امکان باقی رہتا۔ اسی طرح اگر ایک قراء ت کو متن اور بقیہ قراء ات کو حاشیہ میں لکھا جاتا تو بھی یہ شائبہ ہو سکتا تھا کہ شاید یہ تصحیح کی گئی ہے۔لیکن حضرت عثمان ص نے حفاظت کی غرض سے متواتر قراء ات کو چھ مصاحف میں پھیلا دیااور ہر ایک مصحف کے ساتھ ایک عالم صحابی کو بھی روانہ فرمادیا تاکہ ہر قسم کے تنازع اور فتنہ کا سدّ ِباب ہو سکے۔

مذکورہ بالا اقتباس کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہوگا کہ جملہ مصاحف ِعثمانیہ کے مابین پایا جانیوالا اختلاف حقیقی نہیں بلکہ صوری تھاجبکہ قراء ات کا اختلاف صوری نہیں بلکہ حقیقی ہے:

أن الخلاف الواقع فی رسم بعض کلمات المصحف لیس خلافا حقیقیا بل ھو خلاف صوریٌ، أما الخلاف الواقع فی وجوہ القراء ات السبع فھو خلاف حقیقی(۱۰۲(

بعض علماء وصوفیاء کے علاوہ ماہرین نحوو صرف نے رسمِ عثمانی اور رسمِ قیاسی کے مابین پائے جانیوالے اختلافی کلمات کی تعلیلات بھی کی ہیں ۔یہ تمام تعلیلات غیر توقیفی ہیں اور رسمِ عثمانی کی تائید میں ہر ماہر وعالم نے اپنے مزاج اور فکر کے مطابق اِن کے رموز اور علل بیان فرمائے ہیں۔ علامہ کردیؒ اِن تعلیلات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ذکر العلماء تعلیلات متنوعۃ لبعض کلمات الرسم العثماني، غیر أن ہذہ التعلیلات ماہی إلا قبیل الاستئناس والتملیح لأنہا لم توضع إلا بعد انقراض الصحابۃ رضی اﷲ عنہم، وھم قد کتبوا المصحف بہذا الرسم لحکمۃ لم نفہمہا وإشارۃ لم ندرکہا من غیر أن ینظروا إلی العلل النحویۃ أو الصرفیۃ التی استنبطت بعدہم (۱۰۳(

علماء نے رسمِ عثمانی کے بعض کلمات کے بارے میں مختلف قسم کی تعلیلات بیان کی ہیں جو مانوسیت وتقدس کے سبب ہیں۔ یہ تمام تعلیلات صحابہ کرام ثکے زمانہ کے بعد بیان کی گئیں۔صحابہ کرام ثنے مصحف کو رسمِ مذکور میں ایسی حکمتوں اور اشاروں کے ساتھ لکھا جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ ان کا مقصود نحوی وصرفی علل ہر گز نہ تھیںجو کہ بعد میں تلاش کی گئیں۔

رسمِ عثمانی اور رسمِ قیاسی سے اس کے اختلافات کی اکثر حکمتیں اور رموز انسانی عقل سے بالا ہیں لیکن اِن اختلافات اور رسمِ عثمانی کی خصوصیات نے بظاہر امت کے لئے فوائد کا ایک وسیع باب کھولا ہے۔احمد کمال عادل مصاحف عثمانیہ کے امتیازات کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

وقد امتازت المصاحف العثمانیۃ بأنھا:…(۱) اقتصرت علی ما ثبت بالتواتر دون ما کانت روایتہ آحاداً۔ …(۲)۔أھملت ما نسخت تلاوتہ ولم یستقر فی العرضۃ الأخیرۃ۔…(۳) رتبت السور والآیات علی الوجہ المعروف الآن بخلاف صحف ابی بکر التی کانت مرتبۃ دون السور۔ …(۴)۔کتبت بطریقۃ جمعت وجوہ القراء ات المختلفۃ ، والأحرف التی نزل علیہا القرآن ۔… (۵) جردت من کل ما لیس قرآناً کالذی کان یکتبہ بعض الصحابۃ فی مصاحفہ الخاصۃ شرحاً لمعنی بیاناً لناسخ أو منسوخ (۱۰۴(

مصاحف ِعثمانیہ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں اخبارِ آحاد کی بجائے وہی چیز شامل تھی جو تواتر سے ثابت تھی اور وہ مسموع من الرسول اتھی۔ دوسری خصوصیت یہ کہ مصاحف میں عرضۂ ِاخیرہ کی منسوخ التلاوۃ آیات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔تیسری خصوصیت یہ کہ اس میں سورتوں اور آیات کی ترتیب رسول اللہ سے ثابت شدہ ترتیب کے ساتھ لکھا گیا۔چوتھی خصوصیت یہ کہ اِن مصاحف میں ایسا طرزِ کتابت اختیار کیا گیا جس میں مختلف قراء ات سما سکیں۔ پانچویں خصوصیت یہ کہ اِن مصاحف کو ہر اُس چیز سے مجرد اور خالی رکھا گیا جو قرآن نہیں تھی۔ جیسے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مخصوص مصاحف میں بعض الفاظ کی تشریح یا ناسخ و منسوخ کی نشاندہی کیلئے حواشی لکھ رکھے تھے۔

یہ حقیقت بہر حال مسلمہ ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ میں روا رکھے گئے اختلافات اُمت کے اجتماع کے لئے مفید ثابت ہوئے اور حضرت عثمان ص کی بیش بینی نے اُمت کو مزید منتشر و منقسم ہونے سے محفوظ رکھا۔

رسمِ عثمانی اور اس کے اختلافات کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کی بنیاد روایت پر ہے اور روایت میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک طرح سے ناگزیرہے ۔ یہاں بھی اختلافِ روایات موجود ہے۔ کتب ِعلم الرسم میں مصاحفِ عثمانیہ یا مصاحف ِامصار میں طریقِ ہجاء واملاء کے اختلافات کو بیان کرتے وقت عموماً یہ وضاحت کر دی جاتی ہے کہ اب ہمارے ہاں فلاں صورت پر عمل کیا جاتا ہے۔ مثلاً علامہ المارغنیؒ نے اہلِ تیونس کے معمول بہ قواعد پر اپنی بحث کا مدار رکھا ہے۔کلمات میں اختلافِ رسم میں سے کسی وجہ کو راجح قرار دینے میں بھی علماء ِرسم کے اصولِ ترجیح مختلف ہیں، مثلاً: مصری، سعودی اور شامی علماء علامہ الدانی ؒکے مقابلے پر اس کے شاگرد ابو داؤد کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔مگر لیبیاوالے ابو داؤدؒ کے مقابلے میں الدانی ؒکے قول کو راجح مانتے ہیں۔(۱۰۵)

جنوب ایشائی ممالک میں عموماً اور مملکت ِپاکستان میں خصوصاً علم الرسم کا اجراء و احیاء وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں حکومت اور ناشرینِ قرآن ہر دو رسمِ عثمانی کی حقیقت اور رموزوفوائد سے بے خبر ہیں۔ جس کی بنیاد پر عرب ممالک اپنے قواعد ِضبط کے مخالف مطبوعہ مصحف اپنی مملکت میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں علم الرسم العثمانی کوبحیثیت موضوع اور فن متعارف کروایا جائے اور اس کے ماہرین پیدا کرنے کا مناسب اور فوری انتظام کیا جائے ۔ ماہرین ِفن اور قر ّاء کی ایک مجلس قائم کی جائے جو علم الرسم کے قواعد کی روشنی میں متفق علیہ اور مختلف فیہ کلمات کی علیحدہ علیحدہ فہارس تیار کرے۔مذکورہ کمیٹی اپنی نگرانی میں ایک نمونہ مصحف تیار کروائے جس میں کم از کم متفق علیہ امور کی خلاف ورزی ہر گز نہ ہواور مختلف فیہ کلمات کی مروی دو یا تین صورتوں میں سے ہی کسی ایک کو لازمی قرار دیا جائے اور دیگر مصاحف کی تیاری کیلئے اسی کو مثال ونمونہ بنایا جائے (۱۰۶)۔

حوالے و حواشی

۱۔ ابن ابی داؤد،ابوبکر ،عبد اللہ بن سلیمان السجستانی(م۴۱۶ھ)، کتاب المصاحف، ط۱،ص ۲۶، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۰۵ھ؍ ۱۹۸۵ء

۲۔ المصدر السابق ، ص ۲۷ ۳۔ المصدر السابق ، ص ۲۸

۴۔ المصدر السابق ، ص ۳۱ ۵۔ المصدر السابق

۶۔ ملاحظہ ہو:ابن الندیم، محمد بن اسحق(م۳۸۵ھ)، الفہرست، مکتبہ خیاط،بیروت، ص ۲۵

۷۔ عبد اللہ خورشید البری ،الدکتور، القرآن وعلومہ فی مصر، ص ۴۶، دارالمعارف، مصر،س۔ن…عصرِ حاضر میں مستشرق راڈویل (Rodwell) (م۱۸۶۱ء) نے قرآن مجید کے انگلش ترجمہ The Koran Rodwell’s Translation, London, 1950، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے مادّئہ ِقرآن کے ذیل میں Ency. Britinica: Vol. 13, p.484 (14th edition) اور امین خولی(م ۱۹۶۶ء) نے دائرۃ معارف الشعب : القرآن الکریم میںبھی بحث کی ہے…(القرآن وعلومہ فی مصر: ص ۴۶)

۸۔ کتاب المصاحف ، ص ۴۳

۹۔ الدانی،ابوعمرو عثمان بن سعیدؒ (م ۴۴۴ھ)، المقنع فی رسم مصاحف الامصار، تحقیق: محمدالصادق قمحاوی، مکتبۃ الکلیات الازہریۃ، قاہرہ: ص ۱۹

۱۰۔ البری ،عبد اللہ خورشید،الدکتور، القرآن وعلومہ فی مصر، دارالمعارف قاہرہ، مصر، س۔ن،ص۳۶

۱۱۔ القرطبیؒ، ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری (م۶۷۱ھ) ، الجامع لأحکام القرآن: دارالکتب المصریہ،قاہرہ،۱۹۵۰ء،۱؍۴۷

۱۲۔ ملاحظہ ہو: Buhl F.; Koran, Ency. Islam, Vol.2, p.1979

۱۳۔ بروکلمان(کارل)، تاریخ الادب العربی، ۱؍۱۴۰، دارالمعارف ،مصر، ۱۹۵۹ء، مترجم: د۔عبدالحلیم النجار

۱۴۔ المقنع، ص ۱۹ ۱۵۔ نفس المصدر، ص ۱۲

۱۶۔ ابن حجرؒالعسقلانی، فتح الباری شرح البخاری، مصطفی البابی الحلبی مصر، ۱۹۵۹ء،۹؍۱۷و ۲۶

۱۷۔ السیوطیؒ، الاتقان فی علوم القرآن، ط۱،مکتبہ ومطبعۃ المشہد الحسینی،قاہرہ،۱۹۶۷ء،تحقیق:محمد ابوالفضل ابراہیم،۱؍۶۰؛الزرقانی،الشیخ محمد عبد العظیم، مناہل العرفان فی علوم القرآن، دار احیاء الکتب العربیۃ عیسیٰ البابی الحلبی،قاہرہ،۱۹۴۳ء،۱؍۳۹۶

۱۸۔ عبدالوہاب حمودہ، القراء ات واللہجات، ص۹۶،ط۱،مکتبۃ النہضۃ المصریہ، قاہرہ، ۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۸ء

۱۹۔ دکتور عبد الہادی الفضلي، القراء ات القرآنیۃ تاریخ وتعریف، ص ۲۳،دارالقلم بیروت، لبنان

۲۰۔ ابو البقاء علی بن عثمان بن محمد بن القاصح، تلخیص الفوائد وتقریب المتباعدعلیٰ عقیلۃ اتراب القصائد للشاطبیؒ، ص۱۶،ط۱، مکتبہ مصطفی البابی الحلبی،مصر،۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۹ء

۲۱۔ جرجی زیدان، تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ، ۱؍۱۸۷،دارالہلال،۱۹۵۷ء، تحقیق: د۔ شوقی ضیف

۲۲۔ محمد زاہد الکوثری(م ۱۳۷۱ھ)، مقالات الکوثری، ص ۱۰،ط۱، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی، ۱۳۷۲ھ

۲۳۔ مصاحف ِعثمانیہ کی تیاری کی مدت کے متعلق تفصیلی بحث کیلئے ملاحظہ ہو:البری، القرآن وعلومہ فی مصر، ص۲۷تا۴۴

۲۴۔ الزرقانی، مناہل العرفان، ۱؍۳۹۶

۲۵۔ مصحف المدینۃ النبویۃ، لمجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف المدینۃ المنورۃ؛ خطاط: عثمان طٰہ، وزارۃ الشئون الاسلامیۃ ،مکہ مکرمہ،۱۴۱۷ھ،: ص:أ

۲۶۔ مولانا محمد حنیف ندوی، مطالعۂِ قرآن، علم وعرفان پبلی شرز لاہور، ص۲۶۱

۲۷۔ ابن ابی داؤد، کتاب المصاحف، ص ۴۳

۲۸۔ ابو قاسم بن سلام، فضائل القرآن، مکتبہ مصریہ قاہرہ، ص۲۹

۲۹۔ تاریخ آداب العرب، ۲؍۲۰،۲۱…بحوالہ غانم قدوری الحمد، رسم المصحف دراسۃ لغویۃ ونحویۃ: ط۱،اللجنۃ الوطنیۃ للأحتقال،بغداد، عراق، ۱۴۰۲ھ؍ ۱۹۸۲ء

۳۰۔ مولانا شمس الحق افغانی، علوم القرآن، ص۱۱۸ و ۱۱۹

۳۱۔ من روائع القرآن، ص۴۵

۳۲۔ غانم قدوری الحمد، رسم المصحف دراسۃ لغویۃ ونحویۃ،ص۱۲۴

۳۳۔ ابن الجزریؒ، ابو الخیر محمد بن محمد الدمشقی (م ۸۳۳ھ) ، النشر فی القراء ات العشر، ۱؍۱۴،ط۱،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۸ھ،۱؍۷

۳۴۔ الیعقوبی، احمد بن یعقوب بن ابی واضح الکاتب، کتاب البلدان، ۲؍۱۴۷، لیدن، ۱۸۹۱ء (علامہ یعقوبی کی یہ کتاب ابن رستہ کی کتاب الاعلاق النفسیۃ کے آخر میں شامل ہے جو کہ لیدن سے شائع ہوئی)۔

۳۵۔ القرآن وعلومہ فی مصر، ص۵۶

۳۶۔ محمد بن القاصح، تلخیص الفوائد ، ص۱۶ ؛ القراء ات القرآنیۃ:ص۲۲؛الکردی، تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ، ص ۸۰؛مولانا محمدحنیف ندوی، مطالعہ قرآن، ص۸۹؛ تاریخ خط و خطاطین، ص۵۹

۳۷۔ الکوثریؒ، محمد زاہد(م ۱۳۷۱ھ)، مقالات الکوثری، ص۱۰

۳۸۔ پروفیسرحافظ احمد یار، قرآن وسنت۔ چند مباحث، ملخص ص۵۰، شیخ زاید اسلامک سنٹر،جامعہ پنجاب لاہور،جون ۲۰۰۰ء

۳۹۔ مرجعِ سابق

۴۰۔ المقری، نفح الطیب، ۲؍۹۹،۱۳۵…بحوالہ: غانم قدوری الحمد

۴۱۔ ملاحظہ ہو:۱لدانی، المقنع، ص۱۰۶تا۱۲۵؛کتاب المصاحف لابن ابی داؤد؛امام جعبری نے الاہوازی کے حوالے سے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں: فلم نسمع لھما خبرا ولا علمنا من نفذ معہما بحوالہ:ابو محفوظ الکریم معصومی،مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، مجلہ علومِ اسلامیہ،علی گڑھ یونیورسٹی ، دسمبر۱۹۶۱ء؛شامل بطورتتمہ در، پرویز، غلام احمد: مذاہب ِعالم کی آسمانی کتابیں، ط۴،طلوعِ اسلام ٹرسٹ،لاہور،۱۹۹۴ء

۴۲۔ مناہل العرفان، ۱؍۳۹۶ ۴۳۔ صفحات فی علو م القراء ات، ص۱۷۷

۴۴۔ الشیخ عبد الواحد بن عاشر الاندلسیؒ، تنبیہ الخلان علی الاعلان بتکمیل مورد الظمآن، ص۱، ط۱، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۵ھ؍۱۹۹۵ء

۴۵۔ مناہل العرفان، ۱؍۳۹۷ ۴۶۔ احمد کمال عادل، علوم القرآن، ص۵۷

۴۷۔ تاریخ خط و خطاطین، ص۶۰ ۴۸۔ مرجعِ سابق

۴۹۔ راقم الحروف ،اپنے قلمی دوست اوراسلامی اسپرانتو ایسوسی ایشن (UIEA) پاکستان کے جنرل سیکرٹری محترم جناب امجد بٹ صاحب کا ممنون ہے کہ انہوں نے تاشقند سے، اسپرانتو زبان میں چھپنے والے جریدہUzbek Kontakto میں چھپنے والے مقالے قرآنِ عثمانیکا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد احقر کوروانہ فرمایا۔مقالہ ٔ ِمذکورہ میں ازبک خاتونDinara -Hazievaاور روسی ماہرِ شرقیاتB.V. -Lunin کی تحقیق سے مدد لی گئی ہے۔اسی مضمون پر اعتماد کرتے ہوئے چند معلومات پیش ِخدمت ہیں۔

۵۰۔ ملاحظہ ہو: B.V.Lunin: Central Asia In Pre-Revolutionary And Soviet Orientology, Nauka Pub. House, Uzbek

۵۱۔ راقم نے کراچی سے اپنے محسن مولانا ثناء اللہ واحدی کی خصوصی شفقت کی وجہ سے اس کا فوٹو حاصل کیا، جزاہ اﷲ احسن الجزاء فی الدارین

۵۲۔ کامل البابا الخطاط، روح الخط العربي، ط۱،دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۳ء، ص۲۸

۵۳۔ احمد کمال عادل، علوم القرآن، ص۵۷

۵۴۔ ابوالفدء اسمعیل بن کثیر، فضائل القرآن، ص۴۹، ط۱، مطبعۃ المنار مصر، ۱۳۴۸ھ

۵۵۔ حمودہ،عبدالوہاب، القراء ات واللہجات،ط۱، مکتبۃ النہضۃ المصریہ، قاہرہ، ۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۸ء، ص۱۰۰

۵۶۔ ابراہیم الابیاری، تاریخ القرآن، ص۹۷، دارالقلم ، قاہرہ، ۱۹۶۵ء

۵۷۔ السمہودی، وفاء الوفاء، ص۴۸۱، بحوالہ :مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۴۹

۵۸۔ ابن ابی داؤد، کتاب المصاحف، ص ۴۴…ابوالفدء اسمعیل بن کثیر، فضائل القرآن، ص ۴۹

۵۹۔ ابو محفوظ: مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۵۲

۶۰۔ امام ابو عبید القاسم بن سلّامؒ کے قول کے مطابق انہوں نے بعض امراء کے خزانے میں اس مصحف کو دیکھا لیکن یہ خزانہ کس امیر کا تھا؟اس کی تصریح منقول نہیںالبتہ ان کے خصوصی تعلقات جن مشہور شخصیات سے قائم تھے ان میں طاہر بن الحسین (م ۲۰۸ھ) اور ثابت بن نصر بن مالک الخزاعی(م۲۰۸ھ) قابلِ ذکر ہیں۔ ثابت بن نصر سترہ(۱۷) سال تک ثغورالشام کے والی رہے اور امام ابو عبیدبھی کم وبیش اٹھارہ سال تک طرسوس (شام)کے عہدئہ ِقضاء پر مامور رہے۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام ابو عبید نے یہ مصحف شام کے کسی علاقہ میں ملاحظہ کیا ہوگا۔ ملخص از مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۵۱

۶۱۔ ابو محفوظ :مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۵۲

۶۲۔ ابن قتیبہؒالدینوریؒ،ابو محمد عبد اللہ بن مسلم (م۲۷۶ھ) ، المعارف، ط۲، دارِ احیاء التراث العربی ، بیروت، ۱۹۷۰ء، تحقیق:محمد اسماعیل عبد اللہ الصاوي، ص۹۹

۶۳۔ مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۴۹

۶۴۔ کتاب الزہد ، ص ۱۲۷، جامعہ ام القریٰ ، مکہ، ۱۳۵۷ھ

۶۵۔ البقرۃ، ۱۳۷

۶۶۔ وفاء الوفاء، ۱؍۴۸۲ بحوالہ: مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۶۲

۶۷۔ مقالات الکوثریؒ، ص۱۳

۶۸۔ مصحفِ عثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۵۱ ۔۱۵۲

۶۹۔ محمدبن جبیرالاندلسی، کتاب الرحلۃ، ۱۹۳،ط لندن،۱۹۰۷ء

۷۰۔ مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۶۱

۷۱۔ مقدمہ کشف النظر فی شرح کتاب النشر ، ص۱؍۷۹…مولانا سید شمس الحق افغانی، علوم القرآن، ص۱۱۸

۷۲۔ حضرت ابن عباس ثکی طرف منسوب ایک مقام ہے جو کہ بیت اللہ کے مخزن کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ (مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۵۹)

۷۳۔ کتاب الرحلۃ، ص۱۶۰

۷۴۔ مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۶۰، ملخص

۷۵۔ مقدمہ کشف النظر فی شرح کتاب النشر ، ص۱؍۷۹…مولانا سید شمس الحق افغانی، علوم القرآن، ص۱۱۸

۷۶۔ مقالات الکوثریؒ، ص۱۲ ۷۷۔ من روائع القرآن، ص۴۷

۷۸۔ مقدمہ کشف النظر، ۱؍۷۹

۷۹۔ مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۶۲

۸۰۔ السخاوی، الملوک فی معرفۃ دول الملوک، ۱؍۴۹۷،ط۱، قاہرہ، ۱۹۳۶ء

۸۱۔ مصحف ِعثمانی کے تاریخی نسخے، ص۱۶۲

۸۲۔ نفس المصدر، ص۱۶۴

۸۳۔ علامہ شمس الحق افغانی، علوم القرآن، ص۱۱۹

۸۴۔ مرجعِ سابق ۸۵۔ مرجعِ سابق

۸۶۔ مناہل العرفان فی علوم القرآن، ۱؍۳۹۸

۸۷۔ عرفان راہی، تاریخِ خطاطی، ص۷۳

۸۸۔ نفس المصدر، ص۷۲

۸۹۔ تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ، ص۸۱

۹۰۔ روح الخط العربی ،ص۳۱ ۹۱۔ تاریخ خط وخطاطین، ص ۵۹

۹۲۔ اتحاف فضلاء البشر، ص ۱۰ ۹۳۔ القراء ات واللہجات، ص۱۱۲

۹۴۔ یہ اعداد وشمار علامہ دانی ؒکی تصنیف المقنع کی روشنی میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل معجم القراء ات القرآنیۃ ص ۴۵تا۴۹میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

۹۵۔ ملاحظہ ہو: الکردی، تاریخ القرآن، ص۱۲۸ ۔۱۳۱

۹۶۔ معجم القراء ات القرآنیۃ، ص۴۹۔۵۰

۹۷۔ علامہ غانم نے بھی اس پر سیر حاصل بحث لکھی ہے، ملاحظہ ہو:رسم المصحف، ص۷۰۰ تا۷۱۰۔چونکہ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس کا استحصاء مقالۂ ِواحد میں مشکل ہے۔ بہرحال مصاحف ِعثمانیہ میں پائے جانیوالے اختلاف کااجمالی تعارف اور اس کے اسباب میں سے چند کا بیان پیشِ خدمت ہے۔

۹۸۔ المقنع، ۱۸۸ و ر ۱۱۹

۹۹۔ رسم المصحف والاحتجاج بہ فی القراء ات، ص۹۱

۱۰۰۔ عبد الوہاب حمودہ، اختلاف القراء ات واللہجات، ص۱۰۳

۱۰۱۔ الکردی، تاریخ القرآن، ص۹۷ ۱۰۲۔ نفس المصدر، ص۹۵

۱۰۳۔ نفس المصدر، ص۱۵۴ ۱۰۴۔ احمد کمال عادل، علوم القرآن، ص۴۷

۱۰۵۔ پروفیسر حافظ احمد یار، قرآن وسنت چند مباحث، ۱/۸۷۔۸۸

۱۰۶۔ مرجعِ سابق، ملخص