عظمت ِقرآن ایک اور پہلو
ؒپروفیسرحافظ احمد یار

استاذ مکرم حافظ احمد یار مرحوم و مغفور نے یہ مقالہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہورکی تیسری سالانہ قرآن کانفرنس منعقدہ مارچ۱۹۷۶ء میں پیش کیا تھا۔

الحمد للّٰہ وحدہ والصلٰوۃ والسلام علٰی من لا نبی بعدہ

اما بعد : فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم

قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (49)فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَهْوَاۗءَهُمْ ۭوَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (50) القصص

!محترم صاحبِ صدر و معزز خواتین و حضرات

آج کرئہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی غالب اکثریت اُصولاً اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اس کارخانۂ حیات کا ایک بنانے والا ہے جو خود ہی اس کا چلانے والا ہے (کسی کو ٹھیکہ پرنہیں دے رکھا) اور یہ کہ اس خالق و مالک نے کائنات کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ شے بھی بے کار اور بے مقصد نہیں بنائی۔انسان نے کائنات کی بے شمار چیزوں کے مقصدِ تخلیق پر توجہ دے کر اپنے علوم کو تو کہیں سے کہیں پہنچا دیا‘ لیکن عجیب بات ہے کہ خود اپنے مقصدِ تخلیق کے بارے میں وہ تغافل اور تجاہل پر ہی گزارہ کرتا رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے زندہ رہنے کے لیے اس کائنات کی ضرورت ہے‘ لیکن خود کائنات کی زندگی کے لیے انسان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے عقل انسانی کو اس بات پر آمادہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ وہ یہ مان لے کہ انسان کی زندگی اور اس کی حیرت انگیز صلاحیتیں بالکل بے مقصد ہیں وہ زندگی اور وہ صلاحیتیں جن کی بقا اور نشوونما پوری کائنات کا مقصدِ تخلیق معلوم ہوتا ہے۔

عقل و دانش اور ارادہ و اختیار سے بہرہ ور ہونے کی بنا پر‘ اور شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف عوامل کے زیر اثر‘ ہر انسان اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کر لیتا ہے۔ مقصد کا یہی تعین اس کے جملہ اعمال کی صورت گری کا باعث بنتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر متضاد مقاصد کے باہمی تصادم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی ناکامیوں‘ مایوسیوں‘ تباہیوں اور خون ریزیوں کے مسلسل تاریخی عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بلکہ بقا کے لیے ضروری ہے کہ مشترک انسانی اقدار کی بنا پر پوری انسانی زندگی کا کوئی عالمگیر مقصد اور نصب العین متعین ہونا چاہیے۔ اختلاف ’’کیوں‘‘ میں نہیں‘ صرف ’’کیا؟‘‘ میں ہے۔

مجمع بازوں کے بے پناہ شور وغل اور خریداروں کی تمیزِ سود و زیاں کو شل کر دینے کی ساری فسوں سازیوں کے باوجود بازارِ حیات میں انسانوں کی اکثریت ابھی اس حقیقت سے آگاہ ہے‘ بلکہ شاید آگاہ تر ہو رہی ہے‘ کہ سعدی ؒ کے الفاظ میں ’’خوردن‘‘اور عوامی زبان میں ’’روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ انسان کی حیوانی زندگی کی بقا کے لیے ایک بنیادی ضرورت تو ہے‘ مگر اسے اور صرف اسے ہی انسانی زندگی کی منزلِ مقصود یا اس کا بدل اور انسان کی ساری صلاحیتوں کا ماحصل ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حیوانات اپنی زندگی کی بقا اور اس میں توازن کے لیے (جس میں افزائشِ نسل بھی شامل ہے) بیرونی دنیا میں بعض طبعی قوانین اور اندرونی طور پر بعض حواس اور جبلتوں کے تابع سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ یہ حواس اور جبلتیں حیوانات کی زندگی کا مقصد ’’خوردن‘‘ تک محدود بھی کر دیتی ہیں اور اس مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ بھی بنتی ہیں۔

انسان کا معاملہ ذرا مختلف ہے‘ اسے حواس اور جبلتوں کے علاوہ عقل بھی دی گئی ہے۔ عقل ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان بڑی حد تک اپنی حیوانی جبلتوں پر قابو پا لیتا ہے اور اپنی ادنیٰ فطرت کو اُبھرنے یا بے لگام ہونے سے روک بھی سکتا ہے۔ دوسری طرف یہی ’’عقل‘‘ انسان کی حسّی ضروریات اور اس کی جبلّی خواہشات کی تسکین کے لیے ذرائع و اسباب کی تلاش کو‘کبھی مکرو تدبیر کے ذریعے اور کبھی قوائے فطرت کی تسخیر کے ذریعے‘سہل اور آسان کر دیتی ہے۔ یوں ’’عقل‘‘انسان کے لیے حیوانات کے مقابلے میں مسئلۂ ’’خوردن‘‘ کا بہتر اور تیز تر حل مہیا کرتی ہے ‘تاکہ وہ مقصدِ زیستن کی طرف متوجہ ہو سکے مگر غالباً اس وجہ سے کہ عقل کا دائرئہ کار بہرحال حسّی اور جبلّی زندگی تک محدود ہے‘ عقلِ انسانی اکثر حواس اور جبلتوں پر حکمرانی کرنے کے بجائے ان کے غلام کی حیثیت سے کام کرنے لگتی ہے۔ عقل کی حیثیت ایک سواری کی سی ہے جس کو کسی بھی منزل تک بآسانی پہنچنے کے لیے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ رہا خود منزل و نصب العین کا تعین‘ تو یہ تنہا عقل کے بس کی چیز نہیں ہے‘ اس کے لیے خود اُسے کسی اور سرچشمۂ علم کی ضرورت ہے۔

جس ذاتِ برتر نے انسان کے اندر مختلف صلاحیتیں ودیعت کیں‘ جس نے انسان کے حواس اور جبلتوں کی اصلاح اور امداد کے لیے عقل عطا کی اس نے عقل کی امداد اور اصلاح کے لیے انبیاء کرامؑ کے پاک نفوس کے ذریعے خارجی ہدایت ِ وحی سے بھی نوازا۔ یہ خارجی ہدایت انسانی عقل و بصیرت کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو بصارت کے لیے خارجی روشنی۔

اس ہدایت یعنی انبیاءؑ کی تعلیمات سے مسلح ہونے کے بعد انسان جبلتوں‘ حواس اور عقل کے حلقہ در حلقہ جال سے باہر نکل آنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ان آسمانی صداقتوں کی روشنی میں انسان اپنی تقدیر کا تصور اور اپنی منزل کا تعین کر سکتا ہے وحی ٔ الٰہی یا پیغمبرانہ شعور انسان کو اُن حدود سے آگاہ کرتا ہے جن کے اندر رہنا انسان کی سلامتی و بقا اور اس کی ذات میں مضمر صلاحیتوں کی صحیح نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس ہدایت کے قبول کر لینے ہی کو اسلامی اصطلاح میں ایمان بالرُسل اور ایمان بالکتب کہا جاتا ہے۔ رسول اور کتاب دونوں اسی ایک خدا کی طرف سے ایک ہی حکمتِ ربانی کے دو اجزاء اور ایک ہی مقصدِ دعوت کی تکمیل کے دو ذرائع ہوتے ہیں۔

انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں انبیاءؑمبعوث فرمائے۔ ہر نبی کی تعلیمات اُس ربانی علم و حکمت کا ایک جزو ہوتی تھیں جو اس کے سینے میں ہوتا تھا۔ اس تعلیم کا لفظی بیان بعض دفعہ کتاب یا صحیفہ کی صورت میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے دیا جاتا تھا‘ جبکہ اس تعلیم کا عملی نمونہ اور مظہر خود رسول کی زندگی ہوتی تھی۔

قرآن کریم نسلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے ربّانی پیغامات اور وحی ٔالٰہی کے‘ بذریعہ کتاب و رسول‘ نزول کے ایک طویل عمل کا مُصَدِّق بھی ہے اور مُکَمِّل (تکمیل کرنے والا ) بھی۔ ابتداء ً مختلف خطوں اور مختلف حالات میں بٹی ہوئی مختلف قوموں کو تاریخ کے خاص خاص اَدوار میں خاص خاص ربانی پیغام پہنچانے ہی ضروری تھے ۔ انسان کی ہمہ گیر ترقی کی رفتار اس قسم کی قسط وار تعلیم اور اس پر عمل کے وقفوں کے ذریعے ہی آگے بڑھائی جا سکتی تھی۔ اسلام کے ساتھ اس سلسلہ ٔ احکامِ ربانی یعنی دین کی تکمیل ہو گئی۔ پیغمبر اسلامﷺ اللہ کے آخری پیغمبر اور قرآن کریم انسانوں کے لیے اللہ کا آخری اور مکمل پیغام ہے ‘اور دونوں تمام مخلوق کے لیے عموماً اور انسانوں کے لیے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر اتم ہیں۔ الفاظِ قرآنی:اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲) (الرحمٰن) اور :{وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ} (الانبیاء) کے ذریعے اسی حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ نوعِ انسانی کی; طرف آخری نبی (ﷺ) اور آخری کتاب آجانے کے بعد الہامی پیغاموں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب اس آخری اور جامع و مکمل الہامی پیغام پر عمل کر کے یا اس کو ردّ کر کے اِس کے نتائج دیکھنے کا زمانہ شروع ہو گیا۔

نزولِ قرآن کا دَور انسانی تاریخ میں انسانی فرد کے زمانۂ بُلُوغ سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن کریم بالغ ’’انسانوں‘‘ نہیں بلکہ بالغ ’’انسانیت‘‘ یعنی عصرِ حاضر کو درپیش مسائل کے حل میں عقل انسانی کی رہنمائی کرتا ہے‘ اور اس مقصد کے لیے اپنے آپ کو ہدایت‘ علم‘ بصائر‘ شفاء‘ نور اور بیّنات وغیرہ کے اوصاف سے روشناس کراتا ہے۔یعنی قرآن ہدایت دیتاہے علم اور حکمت کے ساتھ‘ بصیرت دیتا ہے دلیل و برہان کے ساتھ‘ امراضِ قلبی کے لیے شفا ہے بذریعہ موعظہ۔ وہ نور ہے جو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکالتا ہے‘ وہ ذکر لّلعالمین ہے جو ہر قسم کی فطرت کو اس کے کمالات یاد دلاتا ہے۔ وہ مؤمن و کافر ‘ غنی و فقیر‘ متکبر و متواضع ہر ایک قسم کے انسان کی دل کی بات کی خبر دیتا ہے۔ہر ایک فردِ بشر اس کے کسی ایک عنوان کے تحت اپنا ذکر موجود پاتا ہے۔ وہ ماضی‘ حال اور مستقبل کے تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرنے میں قولِ فیصل ہے۔

آج کے انسان کو ایسے پریشان کن مسائل نے گھیر رکھا ہے کہ اگر کہیں سے یہ آواز آتی ہے کہ فلاں نظام‘ فلسفہ‘ دین‘ پارٹی یاشخص ہی اس کے تمام مسائل یا کم از کم اہم مسائل حل کر سکتا ہے تو یہ گھبرایا ہوا انسان فوراً اُدھر متوجہ ہوتا ہے۔ ’’تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے‘‘ ہمارے زمانے کا سب سے بڑا جملہ ٔ مدحیہ بن گیا ہے۔

کیا عظمت ِ قرآن کے متعلق ہمارے اس قسم کے تعریفی بیانات اور مدحیہ کلمات محض جذباتی قصیدہ خوانی تو نہیں ہے؟قرآن کریم کے متعلق اس قسم کے بلند بانگ دعووں پر ہم کوئی دلیل بھی پیش کر سکتے ہیں یا نہیں؟ انسانی زندگی میں جذبات کی قدر و قیمت اور افادیت و ضرورت عقلی دلیل و برہان سے کسی طرح کم قرار نہیں دی جا سکتی۔ کتنی دفعہ ’’خرد مندی‘‘ کی انتہا ’’صاحبِ جنون‘‘ ہونے کی دعا پر منتج ہوتی ہے(۱)۔ عوام اور عوامیت کے اس دَور میں تو یوں بھی دلائل و براہین جذبات کے آستانۂ عالیہ پر صف ِ نعلین میں سرنگوں نظر آتے ہیں۔ تاہم غنیمت ہے کہ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جہاں کم از کم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بلند بانگ دعووں‘ مسحور کن وعدوں اور دلکش نعروں کی صداقت کے بارے میں حقیقت کے جویا اور اپنی اس جستجو میں دلائل کے طلب گار نظر آتے ہیں۔

حضرات! بڑے دعووں‘ وعدوں اور نعروں کے ذکر سے آپ کا ذہن ’’گمراہ‘‘ نہ ہونے پائے۔ بڑے دعوے اور بڑے وعدے ہمیشہ ہی فریبِ باطل یا سرابِ نظر نہیں ہوتے‘ کبھی کبھی وہ سراسر حق و صداقت پر مبنی بھی ہوتے ہیں ۔اور انسان میں اس نازک فرق کا یعنی وعدئہ رحمـٰن اور وعدئہ شیطان میں امتیازکرنے کی صلاحیت ودیعت کر دی گئی ہے۔ کسی بھی پیغمبر کا دعوائے نبوت و رسالت غالباً انسان کے سامنے پیش کیے گئے دعووں میں سے سب سے بڑا اور بظاہر سب سے عجیب دعویٰ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس دعویٰ کے صدق یا کذب کو پرکھنا ضروری بھی ہے اور مشکل بھی اسی لیے انبیاء کرامؑ کی صداقت کو اظہر من الشمس کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف قسم کے دلائل اور نشانات عطا فرمائے‘ جن سے ان کے مخاطب کے اندر ودیعت شدہ تمام ذرائع ہدایت یعنی جبلّت‘حواس اور عقل میں سے کسی ایک کو بھی تصدیق کے بغیر چارہ نہ رہا‘ بلکہ جوں جوں آخری نبوت قریب آتی گئی‘ انسان کے سب سے بڑے ذریعہ ٔ ہدایت یعنی وحی ٔ الٰہی کے ذریعے انبیاء اکرامؑ نے خود بھی اپنے ماننے والوں کو آنے والی نبوت کو قبول کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ حضرت خاتم النبیینﷺ کی آمد پر آنحضورﷺ کی صداقت کی پرکھ اور پہچان کے لیے ہر وہ ممکن اور معلوم انسانی ذریعۂ علم و ہدایت اندرونی یا بیرونی‘حسی یا وجدانی ‘عقلی یا نقلی جمع کر دیا گیا‘ جو آنحضورﷺکی صداقت کا قائل کرنے کے لیے دنیا کے کسی ایک بھی انسان کو درکار تھا۔ (۱) آقائے دو جہاں کے دعووں کی صداقت تمام دعووں کی صداقت کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہی اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے۔آنحضرتﷺ کی صداقت پر دنیا کی ہر قوم‘ مذہب ‘بلکہ ہر فرد کے سامنے (صرف مخصوص ‘معزز اور مدعو حاضرین کے سامنے نہیں)(۲) ان کے مناسب حال دلائل پیش کرنا مسلمانوں کے لیے فرضِ کفایہ ہے۔

علم و عقل کی فراوانی کے اس دَور میں آنحضرتﷺ کی صداقت پر علمی و عقلی دلائل پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آنحضورﷺ کی صداقت پر ایک بہت بڑی زندہ علمی اور عقلی دلیل ’’عظمت و اعجازِ قرآن‘‘ ہے۔ عظمت و اعجازِ قرآن کا بیان بھی ایک واجب شرعی اور فرضِ کفایہ ہے۔ اس لیے کہ ’’عظمت و اعجازِ قرآن‘‘کے مختلف پہلوئوں کا بیان اور اس کی دلائل سے وضاحت دراصل اثباتِ رسالت ِ محمدﷺ ہی ہے۔(۳)

قرآن کریم نے خود اپنی عظمت و اعجاز کو آنحضورﷺ کی صداقت کی دلیل کے طور پر اس تحدّی کی صورت میں پیش کیا ہے :

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ؀(البقرۃ)’’اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے‘ یہ ہماری ہے یا نہیں‘ تو اس کے مانند ایک ہی سورۃ بنا لاؤ‘ اپنے سارے ہمنواؤں کو بلا لو‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو‘ مدد لے لو‘ اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ‘ اور یقینا کبھی نہیں کر سکتے‘ تو ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر‘ جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لیے۔‘‘

(وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ( 37) اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (38) بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ (39) (یونس)’’اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؑ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ؟ کہو:اگرتم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔اصل یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا‘ اس کو انہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ‘ پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا!‘‘ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (13)ھود’’کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو: اچھا یہ بات ہے تو ا س جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لائو اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔‘‘ قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ؀الاسراء

’’کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لا سکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ)49 (فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَهْوَاۗءَهُمْ ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ )50(’’(اے نبیﷺ!) ان سے کہو:اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو‘ اگر تم سچے ہوئے تو میں اُسی کی پیروی اختیار کروں گا۔ اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں‘ اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا ۔‘‘اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَهٗ ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ (33)ۚ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ ( 34)’’کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ اگر یہ اپنے اس قول میں سچے ہیں تو اسی شان کا ایک کلام بنالائیں۔‘‘

ان چھ آیات میں سے پانچ میں لفظ ’’مثل‘‘ استعمال ہوا ہے۔ماحصل سب آیات کا یہ ہے کہ قرآن کریم بے مثل و بے نظیر کتاب ہے اور انسان اس کا جزوی مثل و نظیر پیش کرنے سے بھی ہمیشہ عاجز رہیں گے۔ قرآن کریم کا یہ چیلنج چودہ سو سال سے قائم ہے‘ دنیا اسے قبول نہیں کرسکی لیکن جس طرح مسیلمہ کذاب نے قرآن کے اُسلُوب کو نقل کرنے کی کوشش کر کے اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی‘اسی طرح آج مسلمان بے خبر مسلمان کی نظر سے عظمت قرآن کو اوجھل رکھنے کے لیے بعض ’’ازم‘‘ قرآنی نظام کے مماثل ‘بلکہ اس سے بہتر نظام کی حیثیت سے متعارف ہو کر اُبھر رہے ہیں۔ خود قرآن کریم کے ماننے والے کم از کم ماننے والوں کے گھر پیدا ہونے والے بعض سیاست گر اور دانشور بھی اس عروس العرائس (۱)کے سرخ گھونگھٹ پر ہی مرے جا رہے ہیں۔ اس نظام کو قرآنی نظام کا مثل یا اس سے بہتر قرار دینے میں اسی کوتاہ فہمی یا دانستہ مغالطہ سے کام لیا جا رہا ہے‘ جس کی بنا پر ابراہیمؑ کے حاکمِ وقت نے موت و حیات پر قادر ہونے میں اپنے آپ کو ربِّ ابراہیم کی ’’مانند‘‘ سمجھ لیا تھا۔ یا جس طرح بعض کفارِ مکہ نے اپنی ساکھ رکھنے کے لیے {لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ } (الانفال:۳۱) کی صورت میں ایک کھوکھلا سیاسی بیان ہی جاری کر ڈالا تھا!!

قرآن کریم پوری انسانی زندگی ‘ اس کی ساری استعدادِ فکر و عمل کو ایک نظام کے تحت کر دیتا ہے۔ اب اگر کوئی دوسرا مذہب یا نظام بھی اسی قسم کے انداز میں انسانی فکر و عمل کے ہر دائرے میں اپنے نفوذ کے کچھ آداب و قوانین رکھتا ہے یا بنا ڈالتا ہے‘ تو اسے قرآن کریم کے مماثل نہیں بلکہ اس کے متوازی ایک الگ عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کے متوازی مدعیانِ ہدایت ایک نہیں دس ہو سکتے ہیں‘ سوال تو { هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَالنُّوْرُ } (الرعد:۱۶)کا ہے۔ ہر مسلمان کو عصر حاضر کے اس شیطانی مغالطہ سے آگاہ ہونا ضروری ہے‘ جس کی رو سے اسلام کو دیگر ادیان یا فلسفہ ہائے حیات کی ’’مانند‘‘ ایک دین یا فلسفۂ حیات‘ قرآن کریم کو دوسری مذہبی کتابوں یا دساتیر عالم کی ’’مانند‘‘ ایک مذہبی کتاب یا دستور‘ اور محمد(ﷺ) کو دوسرے بانیانِ مذاہب یا مشاہیر کی ’’مانند‘ ‘ ایک بانی ٔمذہب یا عظیم انسان (hero)تسلیم کرنے پر اکتفا کر لینے کی تلقین کی جاتی ہے۔ قرآنی عظمت کو بظاہر اُجاگر کرنے اور بباطن مٹانے کی ایک صورت یہ بھی اختیار کی جا رہی ہے کہ قرآن کے دعویٰ ٔ ’’بے مثلیت‘‘ میں اسے مدعی کی بجائے مدعا علیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ قرآن نے کہا تھا کہ اس ’’جیسا‘‘ اور اس کی ’’مانند‘‘ کوئی نہیں ‘اب دانا دشمن اور نادان دوست استغاثہ کے منحرف گواہ بن کر یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ قرآن عصرِ حاضر کے طاغوتی نظاموں کے عین ’’مانند‘‘ ہے اور وہ ان کے شانہ بشانہ چل سکتا ہے۔

ان حالات میں لازمی ہے کہ قرآن کریم کے فائق و برتر اور بے مثل و بے نظیر ہونے کو واضح کیا جائے۔ علمائے اسلام نے ‘ جن میں سے بعض نے اعجاز القرآن کے موضوع پر مستقل تصانیف یادگار چھوڑی ہیں‘ جہاتِ مماثلت اور وُجوہِ اعجاز سے بحث کرتے ہوئے لفظی و معنوی ہر دو جہات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ان مباحث کو پڑھتے ہوئے بوصیریؒ کے مشہور نعتیہ قصیدہ (بُردہ) کا ایک مصرع ’’فجوھرُ الحسنِ فیہ غیر منقسمٖ‘‘ قرآن کریم پر صادق آتادکھائی دیتا ہے۔ چند محدود صفات مل کر مجموعی طور پر اس کتاب کو بے مثل اور بے نظیر نہیں بناتیں‘ بلکہ خدا کی یہ کتاب اپنی ہر صفت اور ہر خوبی میں بے مثل اور بے نظیر کتاب ہے۔جس طرح اس کا نازل کرنے والا لامحدود قدرتوں کا مالک ہے ‘اسی طرح قرآن کریم کی صفات اور اس کے عجائبات بھی محدود نہیں۔ اشخاص و ادوار کے اختلاف کے لحاظ سے کسی کو ایک خوبی نمایاں نظر آئی تو کبھی دوسری اس سے بہتر معلوم ہوئی۔ مثلاً ابتدا میں قرآن کی عظمت و اعجاز کو اس کی فصاحت و بلاغت میں منحصر سمجھا جاتا رہا۔ یہ بات اپنی جگہ درست تھی اور ہے مگر اعجازِ قرآن کا یہ پہلو کم از کم اب اکثریت کے ادراک اور شعور سے ماورا ہے۔

اگر اس نقطۂ نظر سے غور کریں کہ قرآن نے پوری بشریت کو اپنی مثل لانے پر تحدی کی ہے‘ تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ قرآن تمام انسانی علوم و افکار کو چیلنج کرتا ہے‘ تنہا فصاحت و بلاغت (شعری و نثری ادب) کو نہیں۔ ہر چند کہ فصاحت و بلاغت قرآن کا لباس ہے لیکن اصل تحدی (چیلنج) مضامین و علوم کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم نے خو د اپنے اوصاف میں فصیح و بلیغ کلام ہونے سے زیادہ اپنے ھُدًی (ہدایت)‘ حکمت‘ علم‘ بصائر‘ شفاء‘ روح‘ موعظہ‘ برہان‘ ذکر‘ نور اور بینات وغیرہ ہونے پر زیادہ زور دیا ہے۔

اگر اس تفصیل کو اجمال کی طرف لائیں تو ساری بات کا لبِ لباب اور محورِ بحث ایک لفظ ’’ہدایت‘‘ ہی نکلتا ہے۔ بلکہ آیاتِ تحدی میں سے ایک میں تو واضح طور پر صرف مطلق مثل لانے کی بجائے جہۃ تحدّی کا صاف ذکر کر دیا گیا ہے۔ {فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ھُوَ اَھْدٰی مِنْھُمَا}یعنی قرآن کریم کتابِ ہدایت ہونے کے لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہے۔ہدایت سے مراد زندگی کے مقصد اور نصب العین کا تعین اور اس نصب العین کو پالینے کے لیے قطعی اور حتمی لائحہ عمل ہے اور اس کو ہم آج کل کی زبان میں تمام انسانی مسائل کا حل کہتے ہیں۔اس ہدایت یعنی تمام مسائل کے حل کو پا لینے سے عقل انسانی کی عاجزی اور بے بسی کا اعتراف اب کوئی بے عقلی کی بات نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے کسی بھی ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘ کا انسانی مسائل کے حل کے لیے کسی درجے میں بھی مثلِ قرآن ہدایت لانے سے عاجز ہونا ناقابل فہم بات نہیں ہے۔ البتہ آیت کے الفاظ {فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ھُوَ اَھْدٰی مِنْھُمَا} سے مادّہ پرست دانشوروں کی بجائے ادیانِ عالم کے پیروکاروں کے سامنے قرآن کی دعوت پیش کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ‘اس لیے کہ آیتِ کریمہ کے الفاظ سے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ قرآن کی ہدایت سے کسی درجے میں مماثل ہدایت کے ملنے کا امکان اگر کہیں ہو سکتا ہے تو وہ کسی ’’ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ‘‘کتاب میں ہی ہو سکتا ہے ‘کیونکہ قرآن کریم اور کُتُبِ سماویہ کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ ان میں ایک دوسرے کے معانی کی طرف رہبری کے علاوہ اسلوب اور فصاحت و بلاغت میں بھی مماثلت کے امکانات موجود ہیں۔ اور شاید اسی لیے قرآن کریم نے اس مقام پر تحدی میں {فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ} میں مِثْلِہٖ کی بجائے {ھُوَ اَھْدٰی مِنْھُمَا} کی شرط لگائی ہے۔ اس طرح قرآن کریم کی ان ساری چھ آیاتِ تحدی کا مجموعی مضمون کچھ یوں بنتا ہے: ’’اے آسمانی ہدایت کے منکرو! اور عقل کا نام لے کر محض اپنی خواہشاتِ نفس کے پرستار دانشورو! تم ہدایت تو کیا ہدایت کی مشابہت سے بھی دور ہی رہو گے اور اے آسمانی ہدایت ماننے اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ انسانو!تمہیں یہ ہدایت قرآنِ کریم سے بہتر اور کہیں نہیں ملے گی۔‘‘

عقلی رہنمائی کی بجائے عقل کی رہنمائی کے لیے آسمانی ہدایت کی ضرورت اب صرف تسلیم ہی نہیں کی جا رہی ‘بلکہ آج کا انسان اس کی تلاش میں ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی دیگر صحفِ سماویہ یا الہامی کتابوں پر فضیلت اور برتری کے پہلوؤں پر زور دیا جائے یہ وقت کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم کی برتری صرف اس بات میں نہیں کہ وہ عقلی رہنمائی سے بہتر رہنمائی دیتا ہے ہدایت کے معاملے میں اب عقل کو بھی ایک ’’مفلوج اور مغلوب دیو‘‘سمجھا جانے لگا ہے(۱) قرآنِ کریم کی عظمت و اعجاز کا سب سے اہم نہیں تو بہت اہم پہلو یہی ہے کہ وہ عقلِ انسانی کی رہنمائی کرنے والی مذاہبِ عالم کی آسمانی کتابوں میں بھی سب سے بہتر ہدایت یا انسانی مسائل کے بہتر حل کا حامل ہے۔ اس کتابِ مہیمن کو صحفِ سماویہ یا الہامی کتابوں پر کئی اور لحاظ سے بھی فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ ان میں سے کئی پہلو ایسے بھی ہیں جن کی وضاحت بذاتِ خود مستقل تصنیف یا مقالہ کی محتاج ہے اور بعض پر تو کتابیں موجود ہیں۔ یہاں صرف ابتدائی خاکے کے طور پر صحف سماویہ پر قرآن کریم کی فضیلت و برتری کے چند اہم پہلؤوں کے عنوانات کا ذکر کیا جاتا ہے اور اہل علم سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان عنوانات کو اپنی تحقیق اور ریسرچ کا موضوع بنائیں:

 اپنی پوزیشن (کتاب اللہ ہونے کے لحاظ سے) کی اندرونی شہادت اور وضاحت۔(۱)

(۲) لانے والے کے ساتھ نسبت کی ظنّیت یا قطعیت۔

(۳) لانے والے کی شخصیت اور کردار کے مطالعہ کا مواد۔

(۴) آغازِ نزول سے آج تک پوری تاریخ کی حفاظت۔

 متن کی حفاظت کے انتظامات اور اُس کے نتائج۔(۵)

(۶) تحریف و اتلاف اور حکّ و اضافہ سے حفاظت۔

(۷) زبانِ نزول کا زندہ و تابندہ رہنا۔

(۸) شستہ اور مہذب اسلوب (فحش اور حیا سوز عبارتوں سے پاک ہونا)۔

(۹) جامعیت اور عالمگیریت کا دعویٰ۔

(۱۰) دعویٰ ٔ‘تکمیلِ ہدایت (کسی آئندہ ہدایت کا محتاج نہ بنانا)۔

(۱۱) علمِ صحیح اور فطرتِ صحیحہ سے متصادم نہ ہونا (ناقابلِ عمل احکام سے پاک ہونا)۔

(۱۲) برپا کردہ انقلاب کی کیفیت۔

(۱۳) بنیادی انسانی اقدار کے فروغ میں انسانی تہذیب و تمدن پر اثرات۔

٭٭٭

[ ماہنامہ حکمت قرآن‘ جنوری ۲۰۰۷ء۔ بانی و موسس ڈاکٹر اسرار احمدؒ مرکزی انجمن خدام القرآن]