دستورِ حیاء (مطالعہ سورۃ النساء) از حافظ احمد یار ؒ

(ایک جائزہ)

ڈاکٹر محمد عبد اللہ

حافظ احمد یار (۱) (۱۹۲۰ء ۔ ۱۹۹۷ء) کی تحقیقی، تدریسی اور تصنیفی دلچسپیوں کا دائرہ قرآن حکیم و علوم القرآن (۲) ، سیرتُ النبیؐ (۳) اور مطالعہ ادیان (۴) پر محیط تھا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، (۱۹۵۵۔ ۱۹۶۴) میں علومِ اسلامیہ کی عمومی تدریس بعد ازاں شعبہ علومِ اسلامیہ (۱۹۶۴ ۔ ۱۹۸۰) پنجاب یونیورسٹی لاہور سے وابستگی کے دوران آپ کے مطالعہ اور تدریس کا محور قرآنِ حکیم ہی رہا ۔ شعبہ سے فراغت کے بعد آپ کا یہی ذوق ڈاکٹر اسرار احمد (۱۴ اپریل ۲۰۱۰ء) کے قائم کردہ ادارے انجمن خدام القرآن ۱۹۸۰ء میں لے گیا۔ اس ادارے سے آپ تادمِ حیات وابستہ رہے۔ جہاں آپ کی تحقیق و تصنیف کا مرکز صرف اور صرف قرآنِ حکیم ہی رہا ، نہ صرف قرآنِ حکیم کے دروس مکمل کیے بلکہ علومِ قرآنی کے متنوع اور دقیق پہلوؤں پر قلم اٹھا یا جن میں علم الرسم اور علم الضبط خاص طور پر شامل ہیں(۵)۔

تعلیمی اداروں بالخصوص شعبہ علومِ اسلامیہ میں حافظ احمد یارؒ نے محض تدریس ہی نہیں کی بلکہ اپنے مطالعات، مشاہدات اور نتائجِ فکر سے اپنے طلباء کی بھر پور رہنمائی کی ، چنانچہ بی۔ اے علومِ اسلامیہ کے طلباء کے لیے آپشنل مضمون کے طور پر سورۃ محمد اور سورۃ الفتح کی تفسیر پروفیسر ابو بکر غزنویؒ (م: ۱۹۷۶ء) کے ساتھ بطور شریک مؤلف کے اور بی ۔اے ہی کے لئے آپ نے کتاب دین و ادب کے عنوان سے مرتب کی جس میں تعارفِ قرآن و مطالعہ قرآن سورۃ آلِ عمران (ترجمہ و تفسیر) شامل تھا۔ ایم اے علومِ اسلامیہ میں تفسیر القرآن کے پرچہ میں آپ نے دستورِ حیاء سورۃ النساء کا ترجمہ و تفسیر، تالیف فرمائی، جس کا تعارف و جائزہ ان سطور میں ہمارے پیش نظر ہے۔

دستورِ حیاء بظاہر نصابی اور تدریسی ضروریات کے پیشِ نظر رکھ کر مرتب کی گئی ہے تاہم اپنی جگہ پر یہ ایک مستقل تصنیف ہے۔ معروف محقق و دانشور ڈاکٹر ایس ۔ایم۔ زمان، مذکورہ کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
جامعہ پنجاب کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے استاذ کی حیثیت سے تفسیر قرآن کے پرچے کی تدریس ، مؤسس شعبہ علامہ علاؤ الدین صدیقی (۱۹۷۷ء) کی رحلت ابدی کے بعد مسلسل ان [حافظ احمد یارؒ] کے ذمہ رہی۔ سورۃ النساء کی نہایت عمدہ سلیس تفسیر دستورِ حیاء (لاہور: رفیق مطبوعات، اکتوبر ۱۹۶۷ء، ص ۵۷۶) بنیادی طور پر کالجوں [یونیورسٹی] کے طلباء کے لیے لکھی گئی مگر عام قارئین کے استفادہ کے لیے بھی اسے ایک بہترین تفسیر کہا جاسکتا ہے ۔(۶)

مؤلف حافظ احمد یارؒ نے کتاب اور اس کے موضوع (سورۃ النساء) کا ابتداء میں یوں تعارف کرایا ہے:
سورۃ النساء اہم احکام و مباحث پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسی تعلیمات ہیں جو اسلامی نظامِ معاشرت و معیشت کی جان اور مسلمانوں کی اخلاقی و اجتماعی زندگی کے لیے سنگِ بنیاد ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سورت کے بیشتر مضامین ایسے ہیں جو ہمارے زمانے کے اہم مسائل اور ہماری ــ’’فکری مجالس ‘‘ کے دل پسند موضوع بحث ہیں مثلاً عائلی نظام، احکام وراثت، رسول ﷺ کی دستوری حیثیت، عدالت و سیاست، حیات و وفاتِ مسیح وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد یونیورسٹیوں نے اس سورت کو کالج اور یونیورسٹی کے درجے میں علومِ اسلامیہ کے لیے داخل نصاب کیا ہے۔ اس سورۃ کے مطالعہ سے ، نہ صرف یہ کہ اسلامی عقائد و احکام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے، بلکہ فکر و عمل سے متعلق بہت سی ایسی غلط فہمیاں بھی رفع ہو سکتی ہیں، جو بعض اسباب کی بناء پر ، ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے ذھن میں پیدا ہو گئی ہیں۔ اور یہ کتاب اسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔(۷)

مصنف نے کتاب کی غرض و غایت کے ساتھ اس کے اسلوب پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کو چار نکات کے صورت میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

۱۔ آغاز میں سورۃ کا تعارف اور اہم مضامین کا اجمالی خاکہ دیا گیا ہے۔

۲۔ ترجمہ میں رائج الوقت تراجم و تفاسیر کی خوبیوں کو یکجا کیا گیا ہے۔

۳۔ ترجمہ کے بعد مختلف کلمات کے متعلق ایسے لغوی و نحوی اشارات دئیے گئے ہیں جن سے ایک متوسط قسم کے عربی دان کے ذوق کی تسکین ہو سکتی ہے۔ اور مبتدی بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

۴۔ تفہیم وتفسیر، میں آیات کے ایک ایک جزء کو دوبارہ لکھ کر اس کے مطالب کو آسان اور سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ (۸)

صرف یہی نہیں بلکہ سورۃ النساء کے مضامین کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد، اس کا مرکزی مضمون بھی بتایا ہے۔ لکھتے ہیں:

ہر سورت کا اپنا ایک مستقل محور یا مرکزی مضمون ہوتا ہے اور باقی مضامین اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اس لحاظ سے سورۃ النساء کا محور یا مرکزی مضمون ’’صالح عائلی نظام کی بنیاد پر صالح معاشرہ اور مضبوط ملت کی تشکیل‘‘، یا بالفاظِ دیگر اسلامی عمرانیات کے بنیاد ی اصول (Fundamentals of Islamic Sociology) قرار دیا جا سکتا ہے۔ (۹)

مصنف نے مضامین کے تعارف، پس منظر کے ساتھ پوری سورت کا ایک جامع اشاریہ (ص ۱۵۔ ۲۳) بھی عنوانات اور آیات کے نمبروں کے لحاظ سے دے دیا ہے۔ ایک قاری سورۃ کے جس مضمون یا آیت کا مطالعہ بطور خاص کرنا چاہے تو اسے کوئی دقت نہ ہو۔ اس سے مصنف کی دقت نظر اور محنت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ذیل کی سطور میں قدرے تفصیل کے ساتھ دستورِ حیاء کے منہج کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

۱۔ ترجمہ سورت پر ایک نظر

مصنف نے ترجمہ میں رائج الوقت تراجم و تفاسیر کو یکجا کرنے کے لیے ایک نیا انداز اختیار کیا ہے۔ بین السطور ترجمہ زیادہ لفظی رکھنے کی کوشش کی گئی ہے نیز لفظی ترجمہ میں اگر دو الفاظ یا کلمات مساوی اور مترادف آ سکتے ہیں تو مصنف نے لائن کھینچ کر اوپر اور نیچے دونوں تحریر کر دئیے ہیں تاکہ قاری جس لفظ کو زیادہ مناسب سمجھے اسے اختیار کر لے۔
علاوہ ازیں مصنف نے متنِ سورہ کے ساتھ عمودی کالم میں بامحاورہ شستہ اور مربوط و مسلسل ترجمہ بھی دیا ہے۔ اس میں بھی ترجمہ کو حتی الامکان آیات کے بالمقابل رکھا ہے۔ دو آیات سے اس بات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

وَلاَ تَنکِحُواْ مَا نَکَحَ آبَاؤُکُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَمَقْتاً وَسَاء سَبِیْلاً} (سورۃ النساء، ۴: ۲۲)

اور مت نکاح کرو (ایسی عورتوں سے) جن سے نکاح کر چکے تمہارے باپ عورتوں میں سے مگر ہاں جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک یہ ہے ایک بڑی بے حیائی اور نفرت کی بات اور برا طریقہ ہے۔

عمودی ترجمہ: اور جو عورتیں تمہارے باپ کے نکاح میں رہی ہوں ان سے ہر گز نکاح نہ کرو مگر جو

کچھ پہلے ہو چکا (سو ہو چکا) درحقیقت یہ ایک بڑی بے حیائی اور قابلِ نفرت فعل ہے اور نہایت برا طریقہ ہے۔ (۱۰)

اسی طرح یہ آیت ہے:

الَّذِیْنَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُونَ مَا آتَہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْناً}(سورۃ النساء، ۴: ۳۷

وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اور حکم /تعلیم دیتے ہیں لوگوں کو بخل کی اور چھپاتے ہیں اس کو جو دے رکھا ہے ان کو اللہ نے اپنے فضل سے۔ اور ہم نے تیار کر رکھا ہے کافروں کے لیے عذاب ذلیل کرنے والا۔

عمودی ترجمہ: ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور جو کچھ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے دے رکھا ہے، اسے چھپاتے ہیں اور (ایسے) کافروں کے لیے ہم نے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (۱۱)

۲۔ لغوی و نحوی اشارت

مصنف چند آیات کے لفظی اور عمودی ترجمہ کے بعد منتخب الفاظ اور جملوں کی لغوی اور نحوی تشریح کرتے ہیں۔ تاکہ تفہیم آیات میں آسانی پیدا ہو ، چند الفاظ بطور نمونہ کے ملاحظہ ہوں:

i۔ من الغائط: جارمجرور مل کر فعل جآ ء کا مفعول ہے۔ غائط دراصل غاط یغوط (گڑھا کھودنا یا گڑھے میں داخل ہونا) سے اسم فاعل ہے اور محاورے میں نشیبی زمین کو کہتے ہیں چونکہ عرب میں (ہر دیہاتی تہذیب کی مانند) لوگ قضائے حاجت کے وقت نظروں سے اوجھل ہونے کے لیے آبادی کے قریب کی نشیبی زمینوں میں جاتے تھے اس لیے غائط سے آنا بمعنی رفع حاجت کرنا، استعمال ہونے لگا۔ (۱۲)

ii۔ فتیلاً: لا یظلمون کی تمیز منصوب ہے۔ فتیل عربی میں اس دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گھٹلی کے شگاف میں ہوتا ہے۔ محاورہ میں اس سے مراد حقیر سے حقیر معمولی چیز ہوتی ہے۔ جیسے اردو میں رائی بھر، اور بال برابر بولتے ہیں۔ (۱۳)

iii۔ اِثْماً: نصب مفعولیت کی وجہ سے ہے۔ اِثم کی جمع آثام ہے اور اثم کے معنی سخت ممنوع کام کرنا، ہیں۔ عموماً اس سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا نقصان براہِ راست دوسرے انسانوں کو پہنچتا ہے یعنی جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ (۱۴)

۳۔ تفہیم و تفسیر

مصنف نے لغوی و نحوی اشارات کے بعد تفہیم و تفسیر کے عنوان سے آیات کے ایک ایک جز ء کو دوبارہ لکھ کر اس کے مطالب سے متعلق واقعات و روایات اور ضروری تفسیر سادہ و آسان الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ مصنف کے بقول یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ تفہیم و تفسیر کی طرف آنے سے پہلے متعلقہ آیت یا حصہ آیت کا ترجمہ پڑھنے والے کو ذھن نشین ہے۔ مصنف نے رائج الوقت تفاسیر سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ کئی مقامات پر اجزاء کی تفسیر بیان کرنے کے بعد آیات کا جامع ملخص بھی تحریر کرتے ہیں۔ اس اسلوب کی مثالیں طوالت کا باعث ہوں گی محض آیت نمبر ۲ واتوا الیتمی اموالھم۔۔۔ الخ پر جامع تبصرہ ملاحظہ ہو۔

یتیموں کا مسئلہ ایک نہایت ہی اہم اور نازک معاشرتی و قومی مسئلہ ہے۔ اس سورت میں تحفظ حقوق یتٰمٰی پر خاص ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ اس سلسلے کی پہلی آیت ہے۔ اس میں خطاب یتیموں کے سرپرستوں سے ہے۔ چاہے وہ قریبی رشتہ دارہوں یا یتیم خانوں کے مالک، یا حکومت کے مقرر کردہ افسر ، اگر صیغہ جمع کی وجہ سے خطاب تمام مسلمانوں سے سمجھا جائے تو اشارۃً یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ یتیموں کے معاملات کی دیکھ بھال باقاعدہ حکومت کی نگرانی میں ہونی چاہیے ورنہ سماج دشمن عناصر اس راستے سے بھی قوم پر وبال لا سکتے ہیں۔ (۱۵)

دستورِ حیاء کے امتیاز ی پہلو

مذکورہ بالا تو کتاب کا وہ منہج ہے جس پر مصنف نے کتاب کو ترتیب دیا ہے۔ بہ نظر غائر جائزہ لینے سے کتاب کے چند پہلو نمایاں معلوم ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

۱۔ جدید تحقیقات سے استفادہ

سورۃ النساء میں جہاں بھی ایسی آیات آئی ہیں جن میں عصری و سائنسی تحقیقات سے استفادہ ناگزیر ہو وہاں مصنف نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے اس سے مصنف کی وسعت نظر کا انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء کی پہلی آیت من نفسٍ واحدۃٍ کے تحت رقم طراز ہیں:

دورِ حاضر کے بعض علماء جو قرآن مجید کی آیات پر علوم طبیعہ (Natural-Sciences) اور عصری تحقیقات کی روشنی میں غور کرتے ہیں، کا ذھن اس طرف گیا ہے کہ نفسٍ واحد ۃ ، سے مراد سب سے پہلا protoze یا Animulcula بھی ہو سکتا ہے جو حیوانی زندگی کا پہلا مرحلہ ہے یا وہ سب سے پہلا خلیہ (cell) مراد ہے جس کا مواد خدا جانے کس طرح پہلی دفعہ مٹی (طین) کے اجزاء سے ایک جگہ جمع ہوا۔ یا وہ بارآور خلیہ (Oosperm) جس سے رحمِ مادر میں زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ (۱۶)

اسی طرح سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۱ {للذکر مثل حظ الانثیین} ، کے تحت لکھتے ہیں:

میراث کے معاملے میں قرآن حکیم نے پہلا بنیادی اصول بیان کیا ہے کہ ’’مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہو گا، دنیا میں بہت سے مذہبی اور غیر مذہبی قانون ایسے ہیں جن میں لڑکی کا سرے سے وراثت میں حصہ ہی نہیں۔ ایسے قانون کا ظالمانہ اور خلافِ فطرت ہوناتو ظاہر ہے لیکن آج کل اس کے ردِ عمل کے طور پر بعض دفعہ جو یہ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت (لڑکے لڑکی) کا حصہ برابر ہونا چاہیے (مثلاً ترکی میں قانون بنا دیا گیا ہے) یہ دوسری انتہاء یا تفریط (Opposite-Extreme) ہے۔ علم الحیات کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عورت اپنی جسمانی ساخت اور اپنے عضویاتی فرائض کی بنا پر ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ تربیت نسل کے ساتھ ساتھ اس پر فکرِ معاش کی ذمہ داری بھی ڈال دی جائیں۔ قدرت نے اور سچی شریعت نے خاندانی زندگی میں معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنے کے لیے مرد ہی کو چنا ہے اور عورت کو اس سے سبکدوش رکھا ہے۔ اس لیے یہ ظلم نہیں بلکہ عین انصاف ہے کہ ترکہ میں مرد کو زیادہ حصہ ملے ۔ (۱۷)

۲۔ عملی مسائل کا حل

ایک اچھا مفسر محض داخلی طور پر قرآن حکیم میں غورو فکر ہی نہیں کرتا بلکہ معاشرہ اور روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل پر غورو خوض کرتا ہے اور قرآن ہی سے اس کا حل پیش کرتا ہے۔ چنانچہ مصنف نے جا بجا ایسے مواد کی نشاندہی کی ہے جس سے روزمرہ زندگی میں ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ ایک دو مقامات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۴ {الرجال قوامون علی النساء} کے تحت لکھتے ہیں:

قوام کا ترجمہ عموماً حاکم کیا جاتا ہے اور گو اصل عربی لفظ کی سی وسعت و بلاغت اس میں نہیں تاہم یہ بالکل درست ترجمہ ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں حاکم کے معنی ہی یہ سمجھے جاتے ہیں، جسے کسی کو خواہ مخواہ تنگ کرنے کا اختیار ہو، حالانکہ لفظ حاکم کے درست مفہوم میں اختیارات کے ساتھ ذمہ داریوں کا تصور بھی شامل ہے اور یہی معنی قوام کے ہیں۔ قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے، اس کو تکلیف سے بچانے اور اس کی جملہ ضروریات بہم پہنچانے کا ذمہ دار ہو، اور وہ اس ذمہ داری کا اہل بھی ہو۔ ان معنوں میں مرد عائلی زندگی میں عورت کا قوام یعنی حاکم ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے اسی لیے قوام کا ترجمہ تدبیر کا ر کنند کیا ہے۔ (۱۸)

اسی طرح سورۃ النساء کی آیت ۱۲۷ { ویستفتونک فی النساء} کے تحت رقم طراز ہیں:

عورتوں کے حقوق و فرائض ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی کا ایک مسئلہ رہے ہیں اور بہت سے دوسرے مسائل کی طرح، اس مسئلہ کے حل میں بھی انسانوں نے ہمیشہ افراط و تفریط سے ہی کام لیا ہے اسلام سے پہلے دنیا بھر کے ملکوں میں عموماً اور عرب میں خصوصاً عورت کے حقوق نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دئیے جو اہل عرب کی نظر میں ضرورت سے زیادہ تھے۔ لہذا وہ تعجب سے اس کے متعلق چہ مگوئیاں کرتے تھے۔ آج بھی عورت کے حقوق و فرائض علمی و ادبی مجالس اور قانونی و سیاسی حلقوں کا ایک دل پسند موضوع ہے فرق صرف یہ ہے کہ قدیم جاہلیت کے نزدیک اسلام نے عورت کو بہت زیادہ دے دیا تھا مگر جدید جاہلیت کو شکایت ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت کم دیا ہے اور بے چارے روشن خیال، ملحد ، عورت کے معاملے میں قرآن کی فرد و گزاشتوں کی تلافی کرنے کے غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں حالانکہ اسلام کا راستہ ہی اصل صراطِ مستقیم ہے اور جاہلیت کا تو کام ہی افراط و تفریط ہے۔ (۱۹)

۳۔ مطالعہ مذاہب کی جھلکیاں

مصنف ؒ کی دلچسپیاں جہاں قرآنیات میں نہایت گہری تھیں وہیں مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ بھی آپ کا مرغوب موضوع رہا ہے چنانچہ سورۃ النساء میں بھی جا بجا ایسے مقامات نظر آتے ہیں جہاں آپ کی دلچسپیوں کا اظہار ہوتا

ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۵۷ {وما قتلوہ وما صلبوہ} کے تحت لکھتے ہیں:

صلیب یا سولی سے مراد پھانسی نہیں ہے۔ پھانسی (Gallows)میں تو آدمی کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے لٹکا دیا جاتا ہے۔ صلیب (Cross) اس شکل (T) کی دو لکڑیاں ہوتی تھیں۔ ان میں سے سیدھا ستون کا حصہ تو سولی گھر کے اندر زمین میں گڑا ہوتا تھا۔ جو لکڑی اوپر آڑی پڑتی تھی وہ ہر مجرم کے لیے الگ استعمال ہوتی تھی۔ مجرم کو صلیب پر اس طرح چڑھایا جاتا کہ اس کا بدن سیدھے ستون کے ساتھ اور اس کے بازو آڑی لکڑی کے ساتھ باندھ دئیے جاتے۔ بعض دفعہ مجرم کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گاڑ دی جاتی تھیں۔ اس کے بعد اسے اس وقت تک سولی پر رہنے دیا جاتا جب تک وہ مر نہ جائے مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں رومیوں نے، جو اس وقت فلسطین کے حاکم تھے، مجرموں کو سزائے موت دینے کا یہی طریق رائج کر رکھا تھا۔ (۲۰(

سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۶۳ {انا أوحینا الیک} میں مختلف انبیائے کرام کا تذکرہ آیا ہے وہاں سب کی تفصیلات قرآن اور بائبل سے بیان کی ہیں ۔ حضرت یونس ؑ کے بارے میں لکھتے ہیں:

اہل نینویٰ (Ninive) کے پیغمبر تھے جو عراق کا ایک قدیم شہر تھا اور جس کے کھنڈرات آج کل مُوصل کے قریب ہیں۔ حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے نگل جانے اور پھر اگل دینے کا قصہ تورات اور قرآن کریم میں مذکور ہے۔ یونس ؑ کی اصل عبرانی نام (Yohanan) ہے جس کے معنی ہیں یہو داہ (خدا) مہربان ہوا، قرآن مجید میں ان کا ذکر سورۃ یونس ۹۸ الانبیاء ۸۷، ۸۹، الصافات ۳۹۔۴۹ اور القلم ۴۸ ۔ ۵۱ میں آیا ہے۔ (۲۱)

۴۔ حواشی کی مفید معلومات

مصنف نے حواشی میں جا بجا مفید معلومات دی ہیں مثلاً کلالۃ کے تحت لکھتے ہیں:
۱۹۲۳ء میں حافظ اسلم جیراج پوری نے عربی میں ایک چھوٹا سا رسالہ الموارثہ فی الاسلام کے نام سے شائع کیا تھا ۔ اس میں انہوںنے آیت ۱۲ میں اخیافی بھائی بہن مراد لینے پر کچھ اعتراض کیے تھے مگر اس کے بعد کا جو مفہوم خود انہوں نے پیش کیاو ہ نہایت غیر مستند اور ناقابلِ قبول ہے (۲۲)

اسی طرح سورۃ النساء کی آیت {فاؤلئک الذین انعم اللہ علیھم} کے تحت حاشیہ میں لکھتے ہیں:

اس آیت کے شانِ نزول میں یہ روایت بھی ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ کے غلام ثوبان اور چند صحابہ نے عرض کی

کہ اس دنیا میں تو ہم آپ کی زیارت صحبت سے اپنے دل کو تسکین دے سکتے ہیں مگر آخرت میں تو آپ بلند مقام پر ہوں گے اور ہم لوگ جانے کس نیچے درجے میں ہوں گے وہاں ہماری اس آتشِ شوق کا کیا حال ہو گا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(۲۳)

۵۔ انگریزی مترادفات و اصطلاحات کا استعمال

مصنف نے انگریزی دان طبقہ کے لیے جا بجا انگریزی زبان کے مترادفات کا استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر وہ حضرات جو انگریزی زبان کے پسِ منظر کے حامل ہوں وہ ان اصطلاحات کو سمجھ سکیں۔ چند اصطلاحات و الفاظ کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
بستری مشاہدہ (Clinical-Observations)
دریافت طلب امور (Terms-of-Reference)
اجتماعی علم الحیات (Social-Biology)
خویش نوازی (Nepotism)
عہد نامہ قدیم (Old-Testament)
شراب کے نشہ کی عادت (Addiction)
سُکریعنی نشہ (Intoxication)
عضویاتی (Physiological)
تربیت کا ذوق (Sense-of-Discipline)

حرفِ آخرِِ

دستورِ حیاء (سورۃ النساء کا تفسیری مطالعہ) کی مذکورہ بالا خصوصیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض تعلیمی اور نصابی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک متبحر عالم اور مفسر کی شان پوری طرح نظر آتی ہے۔ مطالعہ کی وسعت، مفید حواشی، علم کی گہرائی اور دورِ جدید کے مسائل کا ادراک اس کی اہم خصوصیات ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر اپنے طلبائے عزیز کی علمی راہنمائی اور قرآنی ذوق کی آبیاری کی گئی ہے۔ نیز مصنف نے تفسیر القرآن میں قدیم و جدید مصادر کو پیش نظر رکھا ہے بلکہ بعض ایسے مآخذ سے بھی استفادہ کیا ہے جسے عام طور پر آج کے مصنفین اپنی تنگ نظری کے باعث نظر انداز کر جاتے ہیں۔ دور حاضر میں کلیات و جامعات کے اساتذہ محض کمرہ جماعت کی تدریس (Classroom-Teaching) تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ طلباء کی رسائی اصل مآخذ تک ہے یا نہیں؟ آج کے استاذ کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ میں سطحیت پائی جاتی ہے۔

حافظ احمد یار مرحوم بطور معلم و مربی کتاب میں پوری طرح جلوہ گر نظرآتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ کتاب کو طباعت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے شائع کیا جائے تاکہ اہل ِ علم اس عصری تفسیر سے استفادہ کر سکیں۔

حوالے و حواشی

۱۔ حافظ احمد یارؒ کے حالاتِ زندگی کے لیے دیکھئے: عابدہ نذیر، پروفیسر حافظ احمد یار کی علمی و دینی خدمات، غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم اے علومِ اسلامیہ، شعبہ علومِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ۲۰۰۰ء
۲۔ حافظ احمد یار کی قرآنی خدمت کے لیے دیکھیے: قرآن و سنت ۔ چند مباحث ، شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب، لاہور ۲۰۰۰ء؛ قرآ ن و سنت ۔ چند مباحث ۲، شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب، لاہور، ۲۰۰۱ء، مجموعۃ الدروس، ترجمۃ القرآن (اردو ترجمہ اور مختصر تشریح عربی گرامر کے لحاظ سے، یہ Audio – MP3 – DVD پر مشتمل ہے جس کے دس اجزاء میں پورے قرآن حکیم کی تفسیر کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم کا منتخب نصاب اور پارعم الگ DVD میں ہے۔ اس سب کو کتابی صورت میں بھی شائع کرنے کی تیاری ہے۔ یہ سب کاوش آپ کے بیٹے نعم العبد بن حافظ احمد یار کی طرف سے کی جا رہی ہیں۔
۳۔ سیرت النبی ﷺ پر مشتمل چند مقالات مذکورہ بالا دونوں کتب قرآن و سنت ۔ چند مباحث میں موجود ہیں نیز سیرتِ طیبہ (بی اے کورس کوڈ 436) مطبوعہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ۱۹۸۹ء میں پہلا یونٹ بعنوان سیرت طیبہ کے مآخذ اور پاکستانی زبانوں میں تالیفات سیرت ، ص ۷۔۴۶ آپ ہی کا مرتب کردہ ہے۔ علاوہ ازیں اسلامیہ کالج لاہور میں تدریس کے دوران ۱۹۶۳ء میں آپ کی کوششوں سے کتب سیرت کی ایک نمائش کی گئی جس میں گیارہ زبانوں کی آٹھ سو سے زائد کتب مذکور ہیں (سیرت طیبہ، ص ۱۱)
۴۔ مطالعہ ادیان پر اگرچہ الگ سے کوئی تحریر نہ مل سکی تاہم شعبہ علومِ اسلامیہ میں قرآن حکیم کی تدریس کے ساتھ ساتھ تقابلِ ادیان کی تدریس بھی آپ کے ذمہ تھی۔ ۱۹۸۰ء میں اگرچہ شعبہ سے فارغ ہو گئے تھے تاہم جزوقتی طور پر آپ تشریف لاتے تھے۔ سیشن ۸۸۔۱۹۸۷ میں چند لیکچرز تقابلِ ادیان پر راقم الحروف نے بھی لیے تھے۔
۵۔ لغاتِ اعراب قرآنی کے عنوان سے ماہ نامہ حکمت قرآن، میں تسلسل کے ساتھ آپ کی تحقیقات شائع ہوتی رہیں۔ مگر یہ سورۃ البقرہ کی ۱۱۰ آیات تک ہی شائع ہو سکیں ہیں۔
۶۔ قرآن و سنت چند مباحث، حوالہ مذکور، (تقدیم از ڈاکٹر ایس ۔ایم ۔زمان) ص ۹، ۱۰
۷۔ حافظ احمد یار، دستورِ حیاء (مطالعہ سورۃ النساء) ، رفیق مطبوعات اردو بازار ، لاہور، ۱۹۶۷ (پڑھنے والوں سے گذارش ، ص ۵)
۸۔ ایضاً، ص ۵، ۶ ۹۔ ایضاً، ص ۱۱
۱۰۔ ایضاً، ص ۱۰۴۔ ۱۰۵ ۱۱۔ ایضاً، ص ۱۵۱
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۶۴ ۱۳۔ ایضاً، ص ۳۸۴
۱۴۔ ایضاً، ص ۳۸۴ ۱۵۔ ایضاً، ص ۳۳
۱۶۔ ایضاً، ص ۲۷ ۱۷۔ ایضاً، ص ۷۶
۱۸۔ ایضاً، ص ۱۳۷ ۱۹۔ ایضاً، ص ۴۱۹
۲۰۔ ایضاً، ص ۵۰۸۔ ۵۰۹ ۲۱۔ ایضاً، ص ۵۴۳
۲۲۔ ایضاً، ص ۸۵ ۲۳۔ ایضاً، ص ۲۴۱