میرے محبوب استاد ۔ پروفیسر حافظ احمد یارؒ ۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سابق ڈین فیکلٹی آف عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز۔ اوپن یونیورسٹی

پروفیسر حافظ احمد یارؒ جھنگ کے رہنے والے تھے ۔ وہیں کسی اللہ والے سے بیعت ہوئے بابے نے نہ ذکر بتایا نہ تسبیح۔۔۔ کہا۔۔۔۔ احمد یار قرآن دا ہوجا ۔ کہتے ہیں اس کے بعد حفظ کیا عربی پڑھی ۔ ایم اے عربی اور اسلامیات کیا اور ساری عمر قرآن پڑھایا ۔ مجھے یہ ہمیشہ یہ حیرت ہوتی رہی کہ اتنا بڑا سکالر اور زعم و عظمت و علم تک سے پاک۔ یہ کیسے ممکن ہے ۔ ل لیکن واقعتاً ایسا ہی تھا۔ یوں تو میری خوش نصیبی کہ مجھے زندگی میں بہترین اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ میں نے مولانا نظیر احمد شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ اور مولانا عبدالمجید لدھیانوی شیخ الحدیث باب العلوم سے ترجمہ قرآن۔ مولانا رسول خان تلمیذ رشیدرشید شیخ الھند مولانا محمود حسن اور ادریس کاندھلوی سے حدیث ۔ لیکن جس اُستاد سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ پنجاب یونیورسٹی کے ہمارے استاد حافظ احمد یارؒ تھے۔ سادہ منش ۔ دوریش صفت۔ علم و تقوی کا پیکر مجسم ۔ قرآن اور تفسیر پڑھاتے تھے لیکن جس طرف چل پڑتے گویا علم کا سمند ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔

قرآن سے استد لال: جب میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اسلامیات میں داخل ہوا تو کبھی کبھی اساتذہ قرآن کی کسی آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے تو مجھے وہ دلیل سرے سے متاثر نہ کرتی ۔ بس آیت ہی ہے نا۔ پہلے سے پڑھی، سنی ، بلکہ یاد کی ہوئی ۔ کوئی عقلی ،منطقی ، فلسفیانہ دلیل؟ پھر ہمیں پروفیسر حافظ احمدیارؒ مل گئے انہوں نے علوم القرآن، اصولِ تفسیر اور تفسیر کا کچھ حصہ اس طرح پڑھایا کہ اندازہ ہوا کہ یہ قرآن ہے۔ جس کے علوم کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ بس پھر قرآن اور حدیث طیبہ سے میرا عشق ہو گیا۔ اللہ تعالٰی حافظ احمد یارؒ کی قبر پر ہر لمحہ بہ لمحہ رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے مجھ ایسے آوارہ ذہن فرد کو قرآن سے وابستہ کردیا