پروفیسر حافظ احمد یارؒ ۔۔۔ ایک منفر د شخصیت

پروفیسر عبد الحیی صدیقی ؒ

حافظ احمد یار اس دنیا سے اُٹھ گئے اور اپنے ساتھ وہ باتیں بھی لے گئے جو میرے لیے اب کسی اور میں نہیں۔ وہ میرے لیے عزیزوں سے زیادہ عزیز اور دوستوں سے زیادہ دوست تھے۔ مرحوم کی شخصیت جامع کمالات تھی۔ ان کی صحبت میں جی لگتا تھا۔ گھنٹوں بیٹھنے پر بھی یہ احساس نہ ہوتا کہ وقت کا زیاں ہوا ان کی محفل سے اُٹھتا تو علم و حکمت کے ایسے نادر و لطیف نکتوں کو دامن میں سمیٹتے ہوئے اُٹھتا کہ ان کا حصول کسی اور ماخذ سے ممکن نہ ہوا اور یہ ان کی برسوں پر پھیلی ہوئی تحقیق و تجربہ کا ماحصل ہوتے۔

اسلام علم کو صاحب علم سے الگ کر کے نہیں دیکھتا۔ ایسی شخصیت جس کی بنا عمل کے تارو پود سے نہ ہو اسے وہ کمثل الحمار یحمل اسفاراً قرار دیتا ہے۔ میں نے پچیس سالہ رفاقت کے دوران آپ کی ذات میں علم و عمل کا ایک حسین امتزاج پایا جو عہد حاضرمیں شاید ہی کسی میں دیکھنے کو ملے۔ ان کو دین سے ایک گونہ لگن تھی اور اس کا اثر ان کی شخصیت میں نمایاں تھا۔ جہاں تک شعائر اسلامیہ کا تعلق ہے وہ بدعات کے سخت مخالف تھے لیکن مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا متوازن دل و دماغ دیا تھا کہ کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملتا۔

باتیں بڑی محبت و لطف کی کرتے۔ برمحل اور اچھوتا فقرہ چست کرنے میں مرحوم کو خاص درک تھا۔ گول مول بات کرنے کے عادی نہ تھے۔ جورائے رکھتے اس کا علیٰ الاعلان اظہا ر کرتے ہر موقع سے اس خوبی سے عہدہ برآ ہوتے کہ یہ محسوس نہ ہوتا کہ فلان جگہ کمی ہے جسے پورا کرنے کے لیے کسی اور کو ڈھونڈنا چاہیے ثقیل الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے مرحوم کے انداز کو سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔

عہد حاضر میں ہر شخص کی انفرادی و اجتماعی زندگی تضاد کا شکار ہو چکی ہے۔ مذہبی دائرے کے اندر خدا ترسی اور پرہیز گاری کا دعویٰ کرنے والے اجتماعی معاملات میں اکثر خود غرض اور بے اصول ثابت ہوئے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ دینی مفادات کا دائرہ روز بروز تنگ ہوتا جا رہا ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب وہ مساجد کی پناہ لینے پر مجبور ہو جائے گا۔ آپ کی ساری زندگی اسی تضاد کے خلاف جہاد کرتے گزری۔ اسلامیہ کالج، سول لائنز کی فضا اور شعبہ علوم اسلامیہ کے درو دیوار اس بات کے شاہد عدل ہیں۔

اسلامیہ کالج میں لازمی دینیات  کا بھی ایک گھنٹہ ہوتا تھا اس پیریڈ میں اکثر طلبہ لیکچر کم سنتے انہیں حاضری کی زیادہ فکر ہوتی اور تھوڑی بہت تفریح سے بھی باز نہ آتے لیکن مرحوم کی کلاس میں نظم و سکوت قائم رہتا اور طلبہ مرحوم سے مسرور بھی رہتے اور مرعوب بھی مرحوم اپنی کلاس کے تقریباً تما م لڑکوں سے باخبر رہتے۔

وہ نفوس صالحہ اور مومنہ جو اعتقاد حق اور عمل صالحہ کے ساتھ متصف ہیں اور جنہوں نے اللہ کے رشتہ و تعلق کے آگے تمام باطل قوتوں کے رشتوں کو توڑ ڈالا ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ مرحوم اس گروہ کے سرخیل تھے۔ آپ نے طرہ دستار پر کلہ فقر کو ترجیح دی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے اسلامیہ کالج سے رشتہ تدریس منقطع کر لیا اللہ تعالیٰ نے دین دنیا کی کامرانیاں ان کے نام لکھ دیں اور انہیں قال اللہ وقال الرسول کی مسند کا وارث بنا دیا۔

استاذی المحترم علامہ علاء الدین صدیقی مرحوم و مغفور نے بکمال شفقت و اصرار مرحوم کو شعبہ علوم اسلامیہ کے دبستان تدریس میں شامل کر لیا اور تفسیر کا پرچہ ان کے سپر د کر دیا جو اس سے پہلے بھی ان کے ذمہ تھا۔ مرحوم نے اس کا حق ادا کیا اور اپنے طلبہ کو اس انداز سے تیار کیا کہ وہ علوم جدید ہ کی زد میں آخر اسلامی شعائر و معتقدات کے محافظ ثابت ہوں۔ قرآنی آیات سے استشہاد ان کے لیکچر کا امتیاز ہوتا فرمایا کرتے تھے قرآن مجید کی تدریس کے لیے وہی استاد اہل ہے جو حافظ قرآن ہو۔

شعبہ کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ تمام اساتذہ دوپہر کا کھانا ایک میز پر مل کر کھاتے۔ حقیقت میں یہ مل بیٹھنے کی ایک تقریب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی فاجتمعوا علی طعامکم کی تعمیل ہوتی۔ طلبہ کے مسائل زیر بحث آتے نصاب پر گفتگو ہوتی۔ عصرِ حاضر میں رونما ہونے والے جدید مسائل پر بھی تبادلہ خیالات ہوتا۔ استاد گرامی حضرت علامہ مرحوم چونکہ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی تعلق رکھتے تھے اس لیے اپنے مسائل کے بارے میں اکثر ان کی رائے طلب کی جاتی تھی۔ بعض اوقات ان مسائل پر کئی کئی دن غورو خوص ہوتا۔ حضرت علامہ مرحوم اکثر مرحوم کی رائے سے اتفاق کرتے۔ شعبہ کے قیام پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا اسے مستحکم بنانے اور اغیار کی نظر بد سے بچانے کی شدید ضرورت تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس اجتماع سے یہ مقصد باحسن وجوہ پورا ہوا شعبہ میں اتحادو اتفاق کی ایک فضا پید ا ہو گئی۔ راقم الحروف کالج سے فارغ ہونے کے بعد اکثر اس محفل کی فیوض و برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل کرتا۔

تعدد ازواج کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح کرنے کے لئے مرحوم نے سورہ النساء کی ابتدائی چند آیات کی روشنی میں طلبہ کے استفادہ کے لیے محققانہ انداز میں ایک تشریحی نوٹ سپرد قلم کیا متجددین کے حوالے سے اس میں چند کچھ ’’سخن گسترانہ‘‘ باتیں بھی شامل ہو گئیں بعض لوگ چیں بجیں ہوئے بات مرحوم تک پہنچی تو فرمایا۔ ہم جس اسلام کے علمبردار ہیں اس میں کوئی پہلو ایسا نہیں جو حیات انسانی کے تمدنی ومعاشرتی تقاضو ں پر پورا نہ اترتا ہو یہ اس علیم و خبیر ہستی کا نازل کردہ ہے۔ جو خلاق فطرت ہے اور انسانوں کے اچھے برے تقاضوں کو خوب جانتا ہے اگر اس بات کا کہیں کوئی امکان ہوتا کہ کسی دور میں انسان کو کچھ ایسے حالات کا بھی سامنا ہو گا کہ قرآن مجید کی واضح تعلیمات کو بدلنے کی ضرورت محسوس ہو گی تو وہ یہ بشارت کبھی نہ سناتا الیوم اکملت لکم دینکم ہمیں اسلام کے کسی حکم پر نقاب ڈال کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں اور مذہب کی حاکمانہ حیثیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

علوم اسلامیہ میں جو تبحر مرحوم کو تھا اس سے قطع نظر دیگر کئی علوم و فنون میں بھی انہیں ماہرانہ دسترس حاصل تھی۔ خطاطی اور طب ان کے دل پسند موضوع تھے۔ حافظ یوسف سدیدی مرحوم جو پاکستان کے بہترین خطاط تھے نسخ اور نستعلیق دونوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ یاد گار پاکستان کے زیریں حصہ پر کندہ آیات ان کے کمال فن پر گواہ ہیں بعد میں یہ سعودی حکومت کی دعوت پر ریاض چلے گئے اور بدقسمتی سے وہاں ایک حادثہ کا شکار ہو گئے۔ مرحوم کی ان سے اکثر ملاقات رہتی۔ انہی ملاقاتوں کی کرامت تھی کہ مرحوم نے علم الرسم پر کئی تحقیقی مقالات تحریر کیے اور سول لائنز کالج کے ہال میں قرآن مجید کے مطبوعہ نسخوں کی نمائش کا اہتمام کیا جس کے لیے ملک بھر سے کئی نایاب نسخے بڑی کوشش سے حاصل کیے گئے۔ ان نسخوں میں سب سے قدیم نسخہ یعقوب مستعصمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ اخبارات میں اس نمائش کو پذیرائی ملی اور مرحوم کے ذوق کو مزید تحریک ہوئی یہ فیصلہ کر لیا اور وہ علم الرسم کے موضوع پر تحقیقی مقالہ مرتب کریں ا ور اسے یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پیش کریں گے، اس کے لئے برٹش میوزیم لائبریری سے کئی فوٹو حاصل کیے لیکن افسوس کہ یہ سلسلہ پایہ تکمیل نہ پہنچ سکا ۔ اپنے ایک مقالہ میں علم الرسم کے بارے میں لکھتے ہیں:

علم الرسم پر اس قدر زیادہ کام ہوا ہے کہ اس فن کی تمام کتابوں کا شمار بھی کار دشوار ہے۔ اس کثرت تالیفات کا ایک سبب غالب یہ بھی بنا کہ مصاحف کی تیاری مسلمانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا ایک جز تھا اور ہے، ہر مسلمان کونہیں تو کم از کم ہر مسلمان کنبہ کو ایک مصحف کی ضرورت ہوتی ہے اس بنا پر ہر ایک کاتب مصحف کے پاس ایک مختصر رہنمائے رسم قرآنی قسم کی کتاب یا رسالہ کا ہونا ضروری تھا۔

مرحوم اگرچہ خود تو خوش نویس نہ تھے لیکن اس فن کے قواعد خوب جانتے تھے اور اس بارے میں بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ بیت القرآن جو پنجاب پبلک لائبریری کا ایک حصہ ہے اس کی دیواروں پر قرآن مجید کی بعض آیات لکھی گئیں مرحوم نے دیکھا تو فرمایا میں اس کو خطاطی نہیں کہہ سکتا اس میں خطاطی کے قواعد کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔ یوسف سدیدی مرحوم نے آپ کے نام کا طغری بنایا تو مرحوم نے بڑے شوق سے اسے اپنے بیگ کی زینت بنایا۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ اور تحقیق بھی مرحوم کی زندگی کا اہم مشن تھا۔ ہر سال پاکستان میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں شریک ہوتے اور مطلوبہ عنوان پر تحقیقی مقالہ پیش کرتے۔ ایک سال مرحوم کے مقالہ کو بہترین قرار دیا گیا اور اس کے اعتراف کے طور پر حکومت نے آپ کو عمرہ کا ٹکٹ مرحمت کیا۔ اس سلسلے میں آپ کا شاہکار کارنامہ فہرست کتب سیرت کی طباعت ہے جو مرحوم نے اسلامیہ کالج سول لائنز میں کتب سیرت کی نمائش کے موقعہ پر مرتب کی یہ فہرست سیرت پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے ایک بہترین ماخذ ثابت ہوئی اور اسے کتاب حوالہ کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ بعد میں آپ کے بہترین دوست اور محقق پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان صاحب نے اس میں مزید اضافہ کیا اور اس کی طباعت کو جاذب نظر بنا دیا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ محمدیہ جھنگ میں حاصل کی تھی اور شب و روز مقتدر علما کی محفلوں میں شرکت کا موقعہ ملتا تھا آپ نے محسوس کیا کہ فقہ میں متعدد مسائل ایسے ہیں جن پر کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہے۔ جب مرحوم نے شعبہ علومِ اسلامیہ میں داخلہ لیا تو اپنے تحقیقی مقالہ کے لیے یتیم پوتے کی وراثت جیسے نازک مسئلہ کو موضوع بنایا۔ علماء نے آپ کی اس تحقیق کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا اور وکلا نے اس سے بھر پور استفادہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ، جن کا مرحوم سے رشتہ تلمذ بھی ہے شعبہ کی سربراہی کے زمانے میں شعبہ کے زیر اہتمام اس کی طباعت کا انتظام کر دیا۔ طباعت سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ نے مرحوم سے اس بارے میں رائے لی کہ اگر وہ محسوس کریں تو اس پر نظرِ ثانی کر لیں مرحوم نے اس کو پڑھا اور یہ کہہ کے واپس کر دیا کہ اس میں حک و اصلاح کی کوئی گنجائش موجود نہیں گویا زمانہ طالبِ علمی میں بھی وہ ایک بالغ النظر محقق تھے۔

متقاعد ہوئے تو تمام مصروفیات کو ختم کر دیا اور خود کو قرآن مجید کے لئے وقف کر دیا ڈاکٹر اسرار صاحب کے ہاں جانے لگے۔ شروع میں طلبہ میں فہم قرآن کو آسان بنانے کے لئے عربی گرامر کا درس شروع کیا۔ بعد میں اسے چھوڑ دیا اور اعراب القرآن کے سلسلے میں مجلہ حکمت قرآن میں سلسلہ وار مضمون لکھنے شروع کر دئیے۔ افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔

مرحوم نے اپنی تمام زندگی شرافت وصداقت میں گزار دی۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں اور علم کی فضائوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

ثبت است برجریدہ عالم دوام ما