حفاظت متن قرآن

پروفیسرحافظ احمد یارؒ

حَامِدًا وَمُصَلِّیًا وَمُسْتَعِیْذًا
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(الحجر)

ِ قرآن عظیم کی عظمت کے کئی پہلو ہیں۔ یوں تو ہر پہلو بذاتِ خود مظہر اعجاز ہے ‘مگر اس معجزانہ عظمت کا ایک پہلوایسا بھی ہے جو نزولِ قرآن کے آغاز سے ظاہر ہونا شروع ہوا اور مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ بجائے دھندلاہونے کے روشن تر ہوتا چلا گیا ہے ‘حتیٰ کہ دشمن کی آنکھوں کے لیے’’چشمہ ٔآفتاب‘‘ بن گیا‘ اور یہ ہے قرآن کریم کے متن کی حفاظت وصیانت کا پہلو۔ قرآن عظیم نے اپنے متعلق’’لَا رَیْبَ فِیْہِ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ قرآن کریم کے نازل کرنے والے نے کئی وعدے بھی کیے اور اپنے وعدوں کے برحق ہونے کا دعویٰ بھی کیا:’’اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ‘‘۔دُنیا نے قرآن عزیز کے کتنے ہی وعدوں کو پورا ہوتے دیکھا ہے اور قرآن کا ہر وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ! قرآن مجید کے دعووں اور وعدوں میں سے جس شان کے ساتھ اور جس حیرت انگیز طریقے پر وعدئہ جمع و حفاظت: لَا رَیْبَ فِیْہِ! {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} (الحجر){اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ { (القیٰمۃ) پورا ہوا ہے‘ اس برہانِ قاطع نے اس کتاب عزیز کے دعویٰ {لاَ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ } تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } کی صداقت پر شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ ہر وہ آدمی جو کسی بات کی سچائی جان کر دیانت کے ساتھ اس سچائی کا اعتراف کر سکتا ہو‘وہ اس کتاب عزیز کے صرف اسی پہلو کو دیکھ کر اسے اللہ کی کتاب اور اس کے لانے والے کو اللہ کا رسول (حق) تسلیم کر لے گا۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ! اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک بہت سے انبیاءؑنے پہنچایا‘ مگر یہ پیام ‘ یہ کتب ادیانِ سابقہ یا اپنوں کے ہاتھوں محرف ہوئیں یا دشمنوں کے ہاتھوں تلف ہوئیں۔ تعلیم و احکام کی بر تری کا تقابل تو بعد کی بات ہے‘ تعلیم و احکام کی بنیاد یعنی اصل کتاب کے متن کی حفاظت کے بارے میں مسلمان اور صرف مسلمان کو ہی یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ادیانِ عالم اور کتب سماویہ کے پیروکاروں کے مقابلے پر فخر سے سر بلند کر کے بات کر سکتا ہے۔ قرآن عظیم کی حفاظت کا وعدہ جس طرح پورا ہوا اور اس کے لیے جو اسباب و وسائل مہیا کیے گئے اس کا مختصر جائزہ پیش کرنے کی سعادت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ مگر ایک لمحہ رکیے۔ سوچئے کہ وعدئہ حفاظت قرآن تو چلئے پورا ہوا۔ اس وعدہ کی صداقت سے قرآن لانے والے کی صداقت ثابت ہو گئی۔ ہم ان کے رسول اللہﷺ ہونے پر ایمان لے آئے۔ مگر خود اس وعدئہ حفاظت کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ صرف ایک دلیل صداقت نبوت ہے؟ کیا جن انبیاء کی کتابیں محفوظ نہ رہیں ان کی صداقت پر کوئی حرف آ گیا؟ کَلَّا!

یہ وعدئہ حفاظت قرآن کریم در اصل اعلانِ ختم نبوت ہی تو تھا۔ اس اعلان کو قائم رکھا گیا ہے۔ اس کا قائم رکھنا ضروری تھا۔ جب تک قرآنِ عزیز کی حفاظت کوچیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ ختم نبوت کو چیلنج کرنا ضلالت ہی نہیں حماقت بھی ہے۔ قرآن حکیم کے اسنادی تعارف یا اس کے بارے میں بنیادی معلومات (کہاں سے آیا؟ کس کو ملا؟ کہاں‘ کیسے اور کب ملا؟ وغیرہ) اس کے اجزائے ترکیبی (سورتوں) اور اس کی ہیئت مجموعی کی ترتیب و تدوین کا تعلق‘ جزئی تفصیلات تک صحت و دیانت کے ساتھ محفوظ کر لی گئی ہیں۔ اور اس کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام پہلے دن سے آج تک معجزانہ تو اتر کے ساتھ جاری ہے۔
قرآن کریم آنحضرت ﷺ پر ایک دم لَا رَیْبَ فِیْہِ(جُملۃً واحِدَۃ) نازل نہیں ہوا بلکہ نجماً نجماً تئیس (۲۳)سال تک نازل ہوتا رہا۔ بعض علماء نے اس زمانہ ٔنزول کو بعض شواہد کی بنا پر۱۷رمضان المبارک ۴۱ ولادت نبوی سے ۹ذی الحجہ ۶۳ ولادت نبوی(یعنی ۱۰ھ) کے درمیان متعین کیا ہے۔ اس صورت میں نزولِ قرآن کی کل مدت ۲۲ سال ۲ ماہ ۲۲ دن بنتی ہے ‘جس میں سے ۱۲ سال ۵ ماہ اور ۱۳ دن مکی دور و قبل ہجرت اور ۹ سال ۹ ماہ اور ۹ دن (یکم ربیع الاوّل ۵۴ولادت نبوی تا ۹ذی الحجہ ۶۳ ولادت نبوی) مدنی دور کے ہیں۔ قرآن کریم وحی الٰہی ہے۔ وحی کے لغوی و اصطلاحی معنی‘ اس کی مختلف صورتوں یا نزولِ وحی کے وقت آنحضور ﷺ کی کیفیت وغیرہ کے بیان سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم صرف ان امور کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں جن کا تعلق براہِ راست حفاظت متن قرآن سے ہے۔

نزولِ وحی کے لیے کوئی وقت ‘مقدار یا جگہ مقرر نہیں تھی۔ سفر و حضر‘ دن یا رات میں جہاں اور جب حکم الٰہی ہوتا جبریل امین حاضر ہو کر کلامِ الٰہی پہنچا دیتے۔ جو کبھی چند آیات ‘کبھی پوری سورت ‘کبھی متعدد سورتوں کی متعدد آیات ہوتی تھیں۔ مختلف آیات اور سورتیں کسی واقعہ یا ضرورت کے مطابق نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اس واقعہ یا ضرورت کو ہی سبب نزول کہتے ہیں۔ متن قرآن کی آیتوں اور سورتوں میں تقسیم توقیفی ہے ‘یعنی آنحضورﷺ کی بتلائی ہوئی ہے۔ اور قرآن حکیم کی اصل بنیادی تقسیم یہی سور و آیات کی تقسیم ہے۔ اجزاء ‘ارباع‘ رکوعات‘ احزاب و منازل وغیرہ کی تقسیمات قراء ت میں سہولت کے لیے بعد میں مقرر کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی آیت کے حوالے کے لیے پارے اوررکوع وغیرہ کے حوالے کی بجائے سورہ اور آیات کا حوالہ دینا اہل علم میں مستعمل ہے۔ قرآن حکیم میں کل ۱۱۴ سورتیں ہیں۔ ہر ایک سورۃ کا نام بھی توقیفی ہے۔

قرآن مجید کی ترتیب نزول موجودہ ترتیب تلاوت سے مختلف تھی۔ موجودہ ترتیب تلاوت بھی توقیفی ہے‘ یعنی خود حضورﷺ کی مقرر کردہ ہے۔ ہر نئی وحی کے بعد آپ ؐصحابہؓ کو بتا دیا کرتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورت کی فلاں آیت کے بعد پڑھنا ہے۔ نمازوں میں آیات اور سورتیں آپ ؐ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق پڑھی جاتی تھیں۔ہر سال رمضان کے مہینے میں آنحضور ﷺ جبرائیل ؑکے ساتھ اس وقت تک کے نازل شدہ حصۂ قرآن کا دور کرتے تھے۔ حیاتِ طیبہ کے آخری رمضان میں یہ دو دفعہ کیا گیا۔ اسے عرضہ اخیرہ کہتے ہیں (اس عرضہ میں زیدؓ بن ثابت بھی حضورﷺ کے ساتھ رہے) اس طرح نبی کریم علیہ الصٰلوۃ والسلام کی زندگی ہی میں موجودہ ترتیب تلاوت مکمل ہو گئی تھی۔ روایات میں قرآن کریم کی ترتیب نزول کا ریکارڈ بھی موجود ہے اور تفسیر میں ہمیشہ اس ریکارڈ سے مدد لی جاتی رہی ہے۔ تاہم قرآن کریم کی ترتیب تلاوت عہد رسالت سے آج تک وہی چلی آتی ہے‘ سورتوں کی اندرونی ترتیب آیات بھی اور بقول راجح ترتیب سور بھی۔

کسی بھی متن یا عبارت کی حفاظت کی ضمانت کی چار تدابیر ہو سکتی ہیں: (۱) حفظ و یاد کر لینا‘(۲) کتابت یعنی لکھ لینا‘(۳) محفوظ و مکتوب کی مسلسل قراء ت و تلاوت ‘(۴) کسی ایسی آفت کا انسداد جو کسی وقت میں سارے حافظوں اور ساری تحریروں کو فنا کر دے — قرآن کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کے لیے مقدم الذکر ہرسہ تدابیر ابتدا سے ہی اختیار کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں چوتھی گارنٹی خود بخود حاصل ہو گئی ہے۔ نزولِ قرآن کی ابتدا سے آج تک غالبًا کوئی وقت‘ دن یا رات کم از کم عالم اسلام میں ایسا نہیں گزرا جس میں قرآن کریم کی کتابت‘ حفظ اور تلاوت کا کام جاری نہ رہا ہو۔ تلاوت کی بنیاد حفظ یا کتابت پر ہے۔ حفظ و کتابت قرآن پر عمل آغازِ نزول یا عہد نبوی سے شروع ہوا اور پھر یہ دونوں عمل آج تک جاری ہیں۔ لہٰذا ان دو امور کے بارے ذرا تفصیل سے بتانے کی ضرورت ہے۔

چونکہ نزولِ وحی کے ساتھ ہی سب سے پہلے آنحضورﷺ کو نازل شدہ حصہ ٔقرآن کی تمام عبارت حفظ ہوجاتی تھی اور بعد میں حضورﷺ اس کی کتابت کا بندوبست فرماتے تھے ‘اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حفظ ِقرآن کی بات سے آغاز کیا جائے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دشمنانِ اسلام نے قرآن کریم کے بارے میں جو کچھ بھی گرد و غبار اُڑانے کی کوشش کی ہے اس میں تعصب اور ہٹ دھرمی اور نیت کی خرابی کے علاوہ اس حقیقت کا بھی دخل ہے کہ وہ لوگ حفاظت متن کے لیے حفظ و تلاوتِ متن کے متواتر و مسلسل عمل کی افادیت تو درکنار اس کے تصور سے بھی نا آشنا ہیں۔

حفظ و استظہارِ قرآن بعہد ِنبویؐ

ابھی بیان ہو چکا ہے کہ سورتوں اور آیتوں کا نزول ترتیب وار اور بطریق تسلسل نہیں تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ ایک سورہ ا بھی مکمل نہ ہونے پائی کہ درمیان میں دوسری سورت نازل ہونی شروع ہو جاتی۔ (حضورﷺ کو بسم اللہ سے نئی سورت کے آغاز کا پتا چل جاتا تھا) —-بعض دفعہ ایک سے زیادہ سورتوں کی آیات بلا ترتیب ایک ہی وقت میں نازل ہوتی تھیں۔ سلسلہ وحی چونکہ آنحضور ﷺ کے آخر عمر تک جاری رہا اس لیے آپؐ کی بتائی ہوئی ترتیب تلاوت کو ایک جلد کے اندر مسلسل کتاب کی صورت میں تحریر میں لانا ممکن نہ تھا‘ البتہ حافظے میں ترتیب کی یہ تقدیم و تاخیر بآسانی ضبط کی جا سکتی تھی۔ اس طرح حفظ قرآن سے صرف قرآن کے الفاظ و آیات ہی نہیں‘ بلکہ ان الفاظ و آیات کی اندرونی ترتیب کی بھی حفاظت مقصود تھی۔

دواعی حفظ

مندرجہ ذیل امور نے شروع سے ہی مسلمانوں میں حفظ قرآن کریم کا بے پناہ شوق پیدا کر دیا تھا:

(۱) یہ اعتقاد کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ کلام اللہ ہے۔ صحابہ کی نگاہیں ان متبرک کلمات کو حاصل کرنے کے لیے نزولِ وحی پر لگی رہتی تھیں۔ ہر ایک کے دل میں یہ آرزورہتی تھی کہ تازہ وحی کو سب سے پہلے میں ہی حاصل کروں۔

(۲) قرآن مجید کی معجزانہ فصاحت و بلاغت اور عربوں کا اعلیٰ ادبی ذوق۔محض اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے کفار تک قرآن کریم سن کرمحظوظ ہوتے تھے۔

(۳) نمازوں میں قرآن مجید پڑھنے کی فرضیت کے باعث بھی ہر مسلمان کے لیے قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد کرنا ضروری تھا ۔اکثر صحابہ نمازوں میں دیر تک قیام کرتے اور لمبی لمبی سورتیں پڑھتے تھے۔

(۴) صحابہ کرامؓ میں رسولِ اکرمﷺ کے ہر قول و فعل کے اتباع کا شوق ۔ فرض نمازوں میں بھی آنحضورﷺ کا الاعراف جیسی طویل سورتیں پڑھنا ثابت ہے اور قیام اللیل (تہجد) میں تو ایک ہی رکعت میں کئی سورتیں بھی پڑھی ہیں۔

(۵) امامت نماز‘ تعلیم قرآن کریم اور بعض سرکاری عہدوں کے لیے قراء کی قدردانی اور ترجیح بھی حفظ قرآن کا محرک تھی۔

(۶) قرآن کریم کا آہستہ آہستہ ۲۳ برس کے عرصہ دراز میں نازل ہونا بھی حفظ میں سہولت کا باعث تھا۔

(۷) آنحضرتﷺ کا مسلمانوں کو تعلیم و حفظ قرآن اور تلاوت پر مداومت کی ہمیشہ تلقین کرتے رہنا۔ کتب احادیث میں صرف قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور یاد کرنے کے متعلق اس قدر مواد موجود ہے کہ اس موضوع پر مستقل مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔

(۸) ہر نئے مہاجر ‘مدینے میں باہر سے آنے والے مسلمان کو آنحضرت ﷺ قرآن سیکھنے کے لیے کسی کے ذمے کر دیتے تھے۔ِ

و کان یُسمع لمسجد رسول اللّٰہ ﷺ ضجّۃ بتلاوۃ القرآن حتی امرھم رسول اللّٰہﷺ ان یخفضوا اصواتھم لئلا یتغالطوا (عبادۃ بن الصامت)

(۹) اکثر صحابہؓ اپنے گھروں میں بچوں اور عورتوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ رات کو مسلمانوں کے گھروں میں تلاوتِ قرآن کی دلفریب گونج سنائی دیتی تھی: یسمع فیھا دویا کدوی النحل بالقرآن — ایک دفعہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے اشعری ساتھیوں کے مکان ‘رات کو ان کی قرآن خوانی کی آواز سے پہچان جاتا ہوں اگرچہ دن کو دیکھے نہیں ہوتے۔

ان سب امور کا نتیجہ تھا کہ آنحضورﷺ کی زندگی میں بے شمار لوگ پورا قرآن حفظ کر چکے تھے۔ ان میں سے بعض ہر رات میں قرآن ختم کرتے تھے۔ اس حد سے بڑھے ہوئے شوقِ تلاوت کے پیش نظر آنحضورﷺ کو پانچ دن یا تین دن سے کم عرصے میں قرآن ختم کرنے سے منع کرنا پڑا۔

کتب حدیث و قراء ت میں صرف ان قراء صحابہ کے نام دیے جاتے ہیں جن سے سند حضورﷺ تک پہنچی اور جنہوں نے حضورﷺ کے سامنے پورا قرآن ختم کیا اور آپؐ کو سنایا۔ ورنہ خود صحابہ سے حفظ کرنے والے صحابہ تو شمار بھی نہیں ہو سکتے۔ بعض بڑے اہم قراء صحابہ بذاتِ خود ایک طرح کے مدرسہ حفظ القرآن تھے۔(تفصیلاتِ اسماء عمداً ترک کی گئی ہیں۔ دیکھئے صبحی ‘ص۲۸)
(صرف بئر معونہ یمامہ کے شہداء قراء کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بیان کی گئی ہے) عہد نبوی سے آج تک مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کی بنیاد حفظ قرآن پر رکھی جاتی رہی ہے۔

کتابت ِقرآن بعہد ِنبویؐ

رسول اللہ ﷺ نے ابتدا ہی سے اس بات کا اہتمام کیا کہ کلامِ الٰہی کو خود اپنے کلام اور عام بات چیت سے (کہ وہ بھی عربی ہی میں تو تھی) الگ ‘محفوظ اور ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے لیے آپؐ نزولِ وحی کے معاً بعد کسی پڑھے لکھے مسلمان سے نازل شدہ کلام لکھوالیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں عرب میں کاغذ کا رواج بہت کم تھا (فتح مصر کے بعد اس کا رواج و استعمال زیادہ ہوا)لکھنے کے لیے کھجور کے چوڑے پتے(عُلسب) ‘شانے کی ہڈی (اکتاف) ‘پتھر کی چھوٹی سلیں(اللخاف)‘ لکڑی کے تختے (اقتاب)‘ اور چمڑے کے ٹکڑے (ادیم)یا ہرن کی جھلی(رق) وغیرہ اشیاء استعمال ہوتی تھیں۔ جو چیز بھی دستیاب ہوتی اس پر ہی نازل شدہ آیات لکھ لی جاتی تھیں۔ پھر آپ اس تحریر کو مسلمانوں میں پھیلاتے اور وہ اس سے نقل کر کے اپنے پاس رکھتے ۔ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں مسلمان گھروں میں قرآن کریم کے مکتوب حصے موجود تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ اسلام اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔ کاتبانِ وحی کی تعداد ۴۰ بلکہ ۴۳ تک بیان کی گئی ہے۔ بعض کتابوں کے مستقل ابواب اور بعض رسائل دربارہ کتاب النبیؐ موجود ہیں۔ خیال رہے کہ کاتب وحی سے مراد وہ شخص ہے جس سے نئی وحی کی پہلی کتابت کا کام لیا گیا ہو ‘ورنہ اپنے طور پر تو بے شمار صحابہ اپنے اور دوسرے کے قرآن نقل کرتے رہتے تھے۔
قرآن کریم کی کتابت کے ذریعے تعلیم در اصل آ نحضور ﷺ کی تعلیمی سیاست کا ایک نہایت اہم پہلو تھا۔ مدینہ میں آنحضورﷺ نے صرف قرآن کریم کی قراء ت و کتابت کی تعلیم کے لیے مسجد نبوی کو ایک طرح کی اقامتی درسگاہ بنا دیا تھا۔ عبد اللہ بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ جو ایک خوش خط کا تب تھے ‘اور عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کو اصحابِ صفہ کو قرآن لکھنا پڑھنا سکھانے پر مامور کیا گیا تھا۔ صفہ کے صرف مقیم طلبہ کی تعداد تراسی (۸۳)تک بیان کی جاتی ہے۔ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ بعض دفعہ ایک رات میں اسی (۸۰) تک اہل صفہ کی ضیافت کرتے تھے۔ ۴۰۰ تک کی تعداد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مدینہ منورہ میں کسی صحابی کے گھر میں ایک مدرسہ کے وجود کا پتا بھی چلتا ہے(حمید اللہ بحوالہ الکفائی)۔ بدرکے قیدیوں سے فدیہ میں بچوں کو تعلیم دلوانے کا واقعہ تو مشہور ہے جسے تعلیم قرآن کے لیے استعمال کرنا ہی مقصود تھا۔ آنحضورﷺ نے اپنے متعلق ’’بُعِثْتُ مُعَلِّمًا‘‘ فرمایا۔ بچوں کو حکم دیتے تھے کہ اپنے پڑوسیوں سے علم سیکھیں اور اپنے پڑوس کی مسجد میں سبق پڑھا کریں۔ عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں۹ مسجدیں تھیں۔ پانچوں وقت کی نماز وہاں ہوتی تھی۔ جمعہ مسجد نبوی میں ہوتاتھا۔ حکومت کے وسیع پیمانے پر قائم ہو جانے کے بعد آنحضورﷺ نے جہاں بھی عامل بھیجے ان کے ذمے مدارس کی نگرانی اور تعلیم کی دیکھ بھال کا کام بھی ہوتا تھا۔ حضورﷺ نے ’’علم سیکھو اور سکھاؤ‘‘ کی ایک لگن پیدا کر دی تھی۔ لکھنا پڑھنا سیکھنے کی ابتدا یا کم ازکم معیار قرآن کریم کا لکھنا پڑھنا سیکھنا تھا۔ بعض خواتین کا قرآن کریم کی کتابت و قراء ت سیکھنا بھی مذکور ہے۔ مسجد نبوی یا بیت ِرسول اللہﷺ میں مکتوب موادِ قرآن کا تعلیم و کتابت کے لیے رکھے جانا بھی ثابت ہے۔ ان سب اقدامات کا نتیجہ تھا کہ عہد نبوی تک پورا قرآن کریم محفوظ و مکتوب صورت میں موجود تھا‘ محفوظ ترتیب تلاوت کے ساتھ حفاظ کے سینوں میں اور مکتوب بیشتر یا متعدد صحائف میں (صحیفہ ‘صحائف‘ مصحف) متعدد صحابہؓ کے پاس پورے قرآن یا اس کا کچھ حصہ تحریری مواد کی صورت میں موجود تھا۔ اس تحریری مواد کے ایک جزء (بلحاظ مواد کتابت یا بلحاظ ترتیب سورہ) کو صحیفہ (جمع صُحف) کہا جاتا تھا۔

عہد نبویؐ میں حفاظت ِمتن قرآن کے اِس نظام کی اہمیت اور آنے والے دور’’تدوین قرآن‘‘ میں اِس کی افادیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے گزشتہ حصہ مضمون میں بیان کردہ اُمور کا خلاصہ کلام ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ بالخصوص حسب ِذیل بنیادی حقائق پیش نظر رہیں: (۱)

(۱) قرآن کریم ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ ۲۲،۲۳ سال کے عرصے میں نازل ہوا۔

(۲) قرآن کریم کے حفظ و کتابت کا سلسلہ آغازِ نزول سے ہی شروع ہو گیا تھا اور آخر تک جاری رہا۔

(۳) قرآن کریم کی ترتیب نزول موجودہ ترتیب تلاوت سے مختلف تھی۔

(۴) موجودہ ترتیب تلاوت توقیفی ہے ‘یعنی آنحضرتﷺ کی بتائی ہوئی اور مقرر کردہ ہے‘ اورآپؐ نے یہ کام مشورہ و اجتہاد سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کے زیر ہدایت کیا۔

(۵) قرآن کریم کی آیتوں کی تعیین‘ سورتوں کی تقسیم اور تسمیہ کا کام آنحضورﷺ کے ارشاد کے مطابق ہوا۔ اور یہ تمام ترتیب و تقسیم‘ تلاوت و حفظ قرآن کے ذریعے مسلسل متعین و شائع کی جاتی رہی۔ قوتِ حافظہ سے کام لینا عربوں کی عادات اور قومی خصوصیات کا بہترین استعمال تھا۔

(۶) ہر رمضان میں آنحضورﷺ جبریل امین ؑکے ساتھ اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ یہ دور ترتیب تلاوت کے مطابق ہوتا تھا۔ صحابہ کرام jبھی رمضان میں خصوصاً بکثرت تلاوت کیا کرتے تھے اور حفاظ آپس میں دور کرتے تھے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک عالم اسلام میں حفاظ کا حفظ قرآن کے لیے باہم دور کرنا رائج چلا آتا ہے (۲) ۔دور کے لیے عربی لفظ ’’عرضہ‘‘ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری برس میں آنحضرتﷺ نے جبریل کے ساتھ یہ دَور دو دفعہ کیا تھا۔ (اسے اصطلاحاً عرضہ اخیرہ کہتے ہیں اور یہ اصطلاح آئندہ مضمون میں استعمال ہو گی) بلکہ اسی دو دفعہ کے دور سے آنحضورﷺ نے اسے اپنی حیاتِ طیبہ کا آخری رمضان سمجھ لیا تھا۔

(۷) حفاظ کے سینوں میں تو قرآن ایک مسلسل و مرتب کتاب کی شکل میں جمع ہو رہا تھا‘ لیکن آنحضورﷺ کی زندگی میں پورا قرآن کریم ایک مسلسل و مرتب کتاب کی شکل میں لکھے جانے میں بعض دیگر امور (امکانِ نسخ‘ جدید وحی) کے علاوہ سب سے بڑا مانع ترتیب نزول اور ترتیب تلاوت کا اختلاف تھا۔حضورﷺ کی وفات کے ساتھ یہ سب موانع ختم ہوئے‘ تب ہی قرآن کو کتابی صورت میں یکجا کرنے کا وقت آیا۔

(۸) ترتیب نزول اور ترتیب تلاوت کے اختلاف کی اس بڑی مشکل پر حفظ و نشر کتابت کے ذریعے ایسے طریقے پر قابو پالیا گیا کہ نہ صرف ہر مسلمان کو ترتیب تلاوت سے اچھی طرح آگاہ کر دیا گیا بلکہ اہل علم کے لیے ترتیب نزول کا ایک ریکارڈ بھی محفوظ ہو گیا‘ جس کی افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔

(۹) آنحضرتﷺ کی وفات سے مناسب عرصہ (کم ازکم چند ہفتے) پہلے نزولِ قرآن کاسلسلہ ختم ہو گیا۔ یوں بلحاظِ نزول آخری آیات کے بھی بذریعہ حفظ و کتابت مسلمانوں میں شائع ہو جانے میں کوئی شبہ باقی نہ رہا۔

(۱۰) کتابت قرآن کریم کے لیے عرب کے حالات (سامانِ کتابت کی بہم رسانی اور تعلیم کی کمی وغیرہ)کے مطابق بہترین طریقہ اختیار کیا گیا کہ جو جزئِ قرآن (آیات یا سورۃ) نیا آئے‘ جس طرح کے سامانِ کتابت پر ممکن ہو لکھ کر یا لکھوا کر پاس رکھ لو۔ دیکھ کر تلاوت کرتے رہو اور بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق یاد کرتے جاؤ۔ اس طرح ہر شخص اپنے پاس موجود تحریری مواد کو حافظے والی ترتیب تلاوت کے عین مطابق نہ سہی لیکن اُس کے قریب تر صورت میں مرتب کر کے رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ان مختلف حصوں کو ہی پر وکر یا باندھ کر جو ایک چھوٹا مجموعہ بنا لیا جاتا تھا اُسے صحیفہ کہا جاتا تھا۔

(۱۱) آنحضرت ﷺ کے ذاتی عمل اور مثال کے علاوہ بعض دیگر اسباب نے تلاوت و کتابت قرآن کی جو بے پناہ تڑپ اور لگن پیدا کر دی تھی اس کے نتیجے میں آنحضورﷺ کی وفات تک قرآن کریم کی موجودہ مکمل اور آخری صورت میں بھی ’’پورے ختم‘‘ —- حفظ و ناظرہ —-ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ضرور ہو چکے تھے‘ اور مسلمانوں کا کوئی گھر قرآن کریم کے جزوی صحیفوں (کم از کم بعض اجزاء و سور) سے خالی نہیں تھا۔

(۱۲)عہد نبویؐ میں جن صحابہؓ نے پورا قرآن کریم حفظ کیا اور ساتھ ہی قرآن کریم کا غیر مرتب مگر مکمل تحریری مواد بھی جمع کر لیا تھا(جسے اب حافظے کی مدد سے تحریری طور پر ترتیب دے لینا اُن کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ اس میں کسی انفرادی سہو و نسیان کا امکان ہو سکتا تھا) ایسے بزرگوں کی فہرست بھی اتنی طویل ہے (تحریری مواد رکھے بغیر محض حافظے میں محفوظ کرنے والے حفاظ کی تعداد تو بہت زیادہ تھی) کہ اگر عہد نبویؐ میں حفاظت متن قرآن کے لیے اور کوئی اقدامات نہ بھی کیے جاتے تو صرف اتنے مقدس نفوس بھی اُس صحت و حفاظت کی کافی ضمانت سمجھے جا سکتے تھے۔

[۱۳ ]نزولِ قرآن کے زمانہ تک عربی کتابت اگرچہ بالکل ابتدائی مرحلے میں نہیں تھی ‘تاہم ابھی تک اس میں شکل (حرکات) تو کجا اعجام (ملتے جلتے حروف کو نقطے لگا کر باہم متمیز کرنا) کا رواج بھی نہ تھا۔ اس مشکل پر قابوپانے کے لیے شروع سے ہی تعلیم قرآن کو تلقی و سماع کا پابند کر دیا گیا تھا‘ یعنی اُستاد سے لفظ سننا اور پھر اُس کے سامنے دُہرانا۔ تحریر میں بھی محض حافظے کی بنا پر یا سن کر لکھ لینے کی بجائے دوسری مستند تحریر سے نقل کرنے کا رواج ڈالا گیا۔ تلفظ مستند آدمی کے منہ سے سیکھنا اور تحریر مستند تحریر سے بعینہ نقل کرنا یہ وہ دو سنہری اصول ہیں جن کی بنیاد عہد نبوی میں رکھی گئی اور آج تک قرآن کریم کے متن (تلفظ ہو یا تحریر) کی قطعی حفاظت کے لیے ان ہی پر عمل کیا جاتا ہے۔[۳]

[۱۴ ]قرآن کریم کے بعض کلمات کی مختلف قراء توں کا آغاز بھی آنحضرت ﷺ کے زمانے سے اور خود حضورؐ کے اذن و اجازت سے ہوا۔ ان مختلف قراء توں کو ’’سبعۃ احرف‘‘ کے تحت وحی الٰہی ہونے کی سند حاصل تھی۔ اس میں بنیادی شرط آنحضورﷺ سے تلقی و سماع کی تھی۔ یہ روایت بالمعنی کی اجازت ہر گز نہیں تھی‘ بلکہ اصل نص (عبارت یا کلمات) کا مستند تنوع تھا۔ قراء ت کے اس تنوع میں اہل زبان و اہل علم کے لیے لغوی و ادبی افادیت بلکہ حسن و جمال کا ایک پہلو بھی تھا۔ لیکن آگے چل کر بعض وجوہ کی بنا پر یہی چیز ایک فتنہ کا باعث بننے لگی تو اس تنوعِ قراءات(ثابت بسنت) کو ایک مخصوص علم کا درجہ دے دیا گیا اور عوام کے لیے اس کا دروازہ بند کرنا ضروری ہو گیا۔ اس کی تفصیل ’’جمع قرآن بعہد ِعثمان‘‘ میں آئے گی۔ یہاں بطورِ تعارف ’’سبعۃ احرف‘‘ کے اس پہلو کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ بہر حال اس کا آغاز عہد ِنبویؐ سے اور اذنِ نبویؐ سے ہوا —- اور حفاظت قرآن کو بجا طور پر ’’حیرت انگیز‘‘ بنانے میں اس تنوعِ قراء ات کا بھی ایک خاص حصہ ہے۔[۴]

[۱۵ ]آنحضورﷺ ہر نئی وحی کو اپنے سامنے کسی کاتب سے لکھوا لیا کرتے تھے۔ لکھوانے کے بعد اُس سے سن بھی لیتے اور کوئی غلطی ہوتی تو فوراً درست کرا دیتے۔ نئی وحی کی کتابت کا کام متعدد لوگوں نے کیا‘ کسی نے کم اور بعض کو زیادہ موقع ملا۔ ایسے بزرگوں میں سے ایک صحابی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضورﷺ کے سامنے لکھی ہوئی اور آپؐ کی خود املا کرائی ہوئی یہ تحریریں قرآن کے آئندہ تحریری مجموعوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی تھیں۔ قرآن کریم کے تلفظ (قراء ت) میں تلقی و سماع کی سند اور قرآن کریم کی تحریرمیں نقل کی سند کا آنحضورﷺ تک پہنچنا ضروری تھا۔ اور تحریر و تلفظ میں مطابقت صحت و حفاظت کا معیار بھی تھا اور ثبوت بھی۔

یوں آنحضرت ﷺ کی وفات تک حفظ و کتابت قرآن کا کام مندرجہ بالا اُصولوں کی روشنی میں ہوتا رہا۔ آج تک قرآن کریم کی تعلیم(حفظ یا ناظرہ) اور کتابت میں انہی اُصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

[۱۶ ]دُنیا کی کسی بھی مذہبی(آسمانی) کتاب کے ماننے والے (بعد کے اتلاف یا تحریف کی بحث سے قطع نظر) اس بات کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ اُن کی کتاب لانے والے کی زندگی میں اُس کتاب کی حفاظت کا کوئی بندوبست ہوا بھی تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا کہ شروع میں کچھ لوگوں نے اپنے ہادی کی کچھ باتیں زبانی یاد رکھیں جو بہت بعد میں جا کر کتابی شکل میں لکھی گئیں۔ بعض کتابوں کا زمانہ تدوین ایک ہزار برس کے لگ بھگ بھی گنا گیا ہے۔ پھر اِن کتابوں کو کئی دفعہ صفحہ ہستی سے یکسر نابود کر دینے والی آفات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آغاز کار ہی سے حفاظت متن کا یہ ہمہ گیر انتظام صرف قرآن کریم کو میسر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’زنِ کو ز پشت‘‘ کی ذہنیت رکھنے والے چند -ایک معاندین کو چھوڑ کر بہت سے نسبتًا حق پسند غیر مسلموں نے بھی قرآن کریم کی اس غیر معمولی حفاظت کا اعتراف کیا ہے۔[۵]

[۱۷ ] آنحضرت ﷺ کی وفات کے ساتھ سلسلہ وحی بند ہو جانے کے باعث قرآن کریم کے متن میں کسی تبدیلی یا اضافہ کا امکان ختم ہو گیا۔ اب قرآن مکمل ہو چکا تھا۔ اس کی اپنی آخری مکمل اور متعین و مرتب صورت میں ’’جمع فِی الصُّدور‘‘ (بذریعہ لفظ) کا کام بھی مکمل ہو گیا۔ اس کی آخری آیت تک کے تحریر میں آ جانے سے ’’جمع فِی السُّطور‘‘(بذریعہ کتابت) کا کام بھی منتشر اوراق (موادِ کتابت) کی صورت میں تکمیل پذیر ہو چکا تھا۔ اب اسی ’’فِی السُّطور‘‘ (تحریری) مجموعے کو ’’فِی الصُّدور‘‘ (حفظ کردہ) مجموعے کے مطابق مرتب و مدون کر لینے کا صحیح وقت آ گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کام ممکن نہ تھا —- اور اب اس میں تاخیر درست نہ تھی۔

]۱۸ [ہم دیکھ چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں حفاظت متن قرآن کے دو بنیادی اصول طے پاگئے اور عملاً نافذ کر دیے گئے : (ا) حفظ جس کے ذریعے تلفظ(pronunciation ) اور ترتیب کی حفاظت مقصود تھی ‘اور (ب)کتابت‘ جس کے ذریعے ہجاء (spelling) اور رسم(orthography) سے استناد کو نص پر اعتماد کی بنیاد قرار دیا گیا۔ عہد نبویؐ کے بعد سے آج تک حفاظت متن قرآن کے لیے ان ہی دو اصولوں سے کام لیا گیا ہے۔ البتہ مختلف زمانوں میں عصری ضروریات اور حالات کی بنا پر ان اصولوں کے عملی اطلاق میں وسعت اور افادیت کو ملحوظ رکھا جاتا رہا —-ان بنیادی اُصولوں کی روشنی میں عہد نبویؐ کے بعد سے عصر حاضر تک حفاظت متن قرآن کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان کو ہم چار مراحل کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

( ۔۱۔ عہد ِصدیقی۔

(۔۲۔( عہد ِعثمانی

(۔۳۔ (اموی اور عباسی دور

۔۴۔ طباعت اور صدا بندی کا دور۔ یعنی عصر حاضر

عہد ِصدیقی —- ایک خطرے کے امکانِ بعید کا احساس اور اس کا قبل ازوقت تدارُک۔

)۱۹( آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کا جو احساس‘ اُس کے فہم و تدبر کا جو شوق و ذوق اور اس کی تلاوت اور تعلیم کا جو بے پناہ شغف پیدا کر دیا تھا‘ اُس کا منطقی نتیجہ تھا کہ آنحضورﷺ کی وفات کے ساتھ ہی بیک وقت متعدد صحابہ ؓ کو ’’جمع و تدوین قرآن‘‘ کا خیال از خود پیدا ہوا۔ بعض ممتاز صحابہؓ نے (جو پورا قرآن حفظ بھی کر چکے تھے اور جن کے پاس مختلف منتشر مواد پر مکمل قرآن تحریری طور پر بھی جمع ہو گیا تھا) اپنے طور پر اس اصل تحریری مواد کو یا حسب ضرورت اُس کی نقل کو (مثلاً پتھر کی تختی سے جھلی یا کاغذ پر منتقل کر لینا تاکہ یکجا ترتیب دے کر رکھنا آسان ہو) اپنے حافظے کی مدد سے ترتیب تلاوت کے مطابق پورے قرآن کو یکجا مرتب کتاب (مصحف) یا کم از کم فائل (صحف یا صحائف) کی صورت میں مدوّن کرنا شروع کر دیا۔ ایسے بزرگوں میں سے عبد اللہ بن مسعود اور اُبی بن کعب رضی اللہ تعالٰی خصوصاً قابل ذکر ہیں‘ کیونکہ آگے چل کر خاص وجوہ کی بنا پر(جس کی تفصیل اسی مضمون میں بیان ہو گی) ان کے ’’نسخوں‘‘ کا ذکر حفاظت متن قرآن کی تاریخ کا ایک اہم موضوع بن گیا۔ ان کے علاوہ اس ضمن میں حضرت ابو موسیٰ اشعری‘ حضرت عمر ‘ حضرت علی‘ حضرت عائشہ‘ حضرت حفصہ‘ حضرت اُمّ سلمہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن زبیر(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام بھی مشہور ہیں۔

(۲۰) ان بزرگوں کی مساعی’’تدوین قرآن‘‘ کی حیثیت انفرادی تھی اور اُن کے کام میں انفرادی رجحانات و ضروریات اور انفرادی معلومات کا عکس نمایاں تھا۔ بعض نے ذاتی انتفاع اور یادداشت کے لیے آنحضرتﷺ سے حاصل کردہ بعض تفسیری اشارات بھی اپنے مصاحف میں لکھ لیے تھے۔ مثلاً حضرت علیؓ کے جمع کردہ نسخے کا ذکر جس طرح شیعہ سنی روایات میں آتا ہے‘ اُس میں قدرِ مشترک یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ نسخہ غالبًا ’’تدوین متن قرآن‘‘ سے زیادہ’’تدوین تفسیر قرآن‘‘ کی سب سے پہلی کوشش تھی۔ اسی طرح بعض صحابہؓ کے مصاحف میں ’’سبعۃ احرف‘‘ پر مبنی کچھ اختلافات قراءات بھی تھے‘ جن کا اظہار بعض دفعہ تلفظ کے تنوع اور بعض دفعہ رسم کے اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔ انفرادی عمل میں غلط فہمی یا سہو و نسیان کے امکانات بھی اسی نوعیت کے اجتماعی کام کی نسبت یقینا زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ آگے چل کر یہ بھی منکشف ہوا کہ بعض نامی گرامی صحابہؓ کے ذاتی تیار کردہ نسخے اجتماعی اصلاح کے محتاج تھے۔ اللہ تعالیٰ کواپنی کتاب کی حفاظت مقصود تھی ۔اس نے وفاتِ نبویؐ کے بعد ایک سال کے اندر پورے قرآن کریم کومکتوب صورت میں یکجا مدوّن اور مرتب کرنے کی ایک اجتماعی کوشش کے اسباب و محرکات بھی پیدا کردیے۔

(۲۱) یمامہ (نجدو بحرین کا درمیانی علاقہ) کے مسیلمہ کذاب نے آنحضورﷺ کی زندگی ہی میں (۱۰ھ) نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ آنحضورﷺ کی وفات (ربیع الاول ۱۱ ہجری) کے بعد خود حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مسیلمہ اور دیگر مرتدین عرب کی بغاوتوں کو کم و بیش دو سال کے اندر فرو کر لیا۔ مسیلمہ کے ساتھ مسلمانوں کی شدید جنگ جسے جنگ یمامہ کہا جاتا ہے‘ ربیع الاول ۱۲ھ میں ہوئی۔ اس جنگ میں مسیلمہ مارا گیا‘ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی‘ تاہم اُن کے جانی نقصانات اتنے زیادہ(ایک ہزار سے زائد) تھے کہ عہد نبویؐ سے آج تک جتنی جنگیں لڑی گئیں ان میں اس کی نظیر کم ملتی تھی۔ شہدائے یمامہ میں بہت سے لوگ پورے قرآن کے حافظ (قراء) تھے‘ جن میں سب سے مشہور سالم بن معقل (مولیٰ ابی حذیفہ) تھے اور جزوی حفاظ کی تعداد اُن سے کہیں زیادہ تھی۔ ہر چند کہ جنگ یمامہ کے بعد بھی زندہ موجود صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایسے بزرگ قراء کی تعداد‘جو حفظ و کتابت قرآن کریم کے لحاظ سے درجہ اول میں شمار ہوتے تھے‘ یمامہ کے شہید قراء کے مقابلے پر کہیں زیادہ تھی اور یمامہ کی جنگ سے حفاظت متن قرآن کو کوئی فوری اور شدید خطرہ لا حق نہیں ہو گیا تھا‘ تاہم مسلمان اس وقت سخت ہنگامی حالات اور شدید خطرات سے دو چار تھے اور یمامہ سے کہیں بڑی جنگوں کے امکانات موجود تھے۔ پھر مسلمانوں کے اندر دین کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جو جذبہ اس وقت موجود تھا(بقول حضرت عمرؓ وہ میدانِ جنگ میں پروانہ وار گرتے تھے) اس کے نتیجے میں قراء کی اکثریت کے معدوم ہو جانے کے امکانات کو مطلقًا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اُس وقت تک قراء(مکمل حافظوں) کی تعداد بہر حال محدود تھی۔ قرآن کریم کے آخری حصوں کے نزول کو چند ہفتے یا چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ عرب کے کونے کونے میں مکمل حفاظ موجود نہ تھے۔ اتنی جلدی ایسا ہونا ممکن بھی نہ تھا۔ ایسے(مکمل) حفاظ کی زیادہ تعداد مدینہ منورہ ہی میں تھی اور مدینہ کو مرتدین کے ہاتھوں خطرہ میں پا کر یہ لوگ جاں بکف ہو کر میدان میں نکل آئے تھے۔ اس کے ساتھ اگر یہ بات بھی پیش نظر رکھی جائے کہ قرآن کریم کی ترتیب تلاوت بڑی حد تک ابھی صرف حافظے کے ذریعے متعین اور محفوظ تھی‘ کتابت یا تحریر ابھی تک نص قرآنی (متن) کی ترتیب سے زیادہ اس کی حفاظت اور اشاعت کے لیے استعمال کی جاتی رہی تھی۔ شروع سے بنیادی اہمیت حفظ و استظہار کو دی گئی تھی نہ کہ مصاحف و کتابت کو ‘اگرچہ مؤخر الذکر کو نظر انداز نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے حفاظ کی اکثریت کے معدوم ہو جانے کے امکان کے ساتھ متن قرآن کے ضیاع کا امکان نہ سہی متن کی ترتیب کے ضیاع کا امکان ضرور وابستہ قرار دیا جا سکتا تھا —-یہی تھا وہ دور اندیشانہ اندازِ فکر جس کی بنا پر واقعہ یمامہ کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’جمع متن قرآن‘‘ کا کام کر ڈالنے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمرؓ کی سکیم کا مقصد ایک تو مدوّن متن کی ایسی حفاظت کا بندوبست کرنا تھا جس کی طرف بوقت ضرورت رجوع کیا جا سکے۔ دوسرے قرآن کریم کی آخری اور مکمل شکل کی توثیق ’’بذریعہ حافظہ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’بذریعہ کتابت‘‘ بھی مطلوب تھی۔

(۲۲)حضرت ابوبکرؓ پہلے تو متردد ہوئے ‘جس کی بڑی وجہ تو ’’خوفِ بدعت‘‘ تھا‘ لیکن غالبًا اس تردّد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کہیں ’’کتابت قرآن‘‘ پر انحصار ’’حفظ قرآن‘‘ کے بارے میں تساہل اور تغافل کا باعث نہ بن جائے —- عربوں کے نزدیک تحریری یاد داشت حافظے کی کمزوری کی علامت بھی تھی اور سبب بھی —- بہر حال جب ابوبکر صدیقؓ پر حضرت عمرؓ کے مشورے کی افادیت واضح ہو گئی تو انہوں نے اس کام کے لیے حضرت زید بن ثابت انصاریؓ کو منتخب کیا۔ ابوبکر صدیقؓ خود حافظ قرآن تھے اور وہ خود بھی یہ کام کر سکتے تھے ‘مگر ایک شدید بحرانی دور کے رئیس مملکت ہونے کی حیثیت سے آپ در آں حالات اس کام پر پوری توجہ نہیں دے سکتے تھے اور یہ کام جزوقتی نہیں بلکہ ایک ہمہ وقتی انچارج کے کرنے کا تھا۔

(۲۳) زید بن ثابتؓ کا انتخاب اُن کی اس کام کے لیے کئی لحاظ سے مسلمہ اہلیت کی بنا پر کیا گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر اُمور کا ذکر خود حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زیدؓ کے تقرر کے وقت کر دیا تھا۔ اس کے لیے حضرت زیدؓ کے حسب ذیل خصائص کو ذہن میں رکھنا چاہیے:

(ا) وہ نوجوان تھے۔ اس وقت اُن کی عمر۲۲ سال تھی۔ پورے قرآن کریم کی کتابت یوں بھی کچھ کم محنت طلب نہیں ہے‘ لیکن متفرق تحریری مواد کو متعدد حفاظ کی مدد سے ایک مقررہ طریق کار اور شرائط (جن کا ذکر ابھی آگے آتا ہے) کے ساتھ مدوّن کر کے لکھنا احتیاط کے علاوہ بڑی محنت اور کاوش کا کام تھا۔ اور ایسے کام کے لیے’’نوجوان‘‘ ہونا بڑی موزوں اور بنیادی ضروری صفت تھی۔ خود حضرت زیدؓ نے اس کام کو پہاڑ اُٹھانے سے زیادہ سخت قرار دیا تھا۔ اور اس کی وجہ متقیانہ ورع و احتیاط کے علاوہ وہ ذہنی و جسمانی مشقت اور وقت و آرام کی قربانی بھی تھی‘جو اس کام میں درکار تھی (۶) ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حضرت زیدؓ نے یہ عظیم کام ایک سال کے عرصے میں —- جنگ یمامہ اور وفاتِ ابی بکر صدیقؓ کے درمیان —- سر انجام دیا تھا۔

(ب) وہ ذہین اور عقل مند تھے۔ اُن کی عربی کتابت میں مہارت کے سب معاصرین معترف تھے۔(۷) آنحضرتﷺ کے حکم پر انہوں نے دو تین ہفتوں میں عبرانی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ عبد اللہ بن عباسi اپنی ساری علمی و خاندانی عظمت کے باوجود اُن کے مکان پر بعض مسائل پوچھنے جایا کرتے تھے۔

(ج) وہ امانت اور استقامت میں شک و شبہ سے بالاتر تھے۔ علمی فضیلت اس پر مستزاد تھی۔ حضرت عمرؓ نے انہیں تین دفعہ مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا۔ حضرت عثمانؓ جب بھی حج پر جاتے اُنہیں مدینہ میں قائم مقام بنا کر جاتے تھے۔ حضرت زیدؓ کی اس صفت دیانت و تقویٰ کے ذکر(بالفاظ ابی بکر صدیقؓ ’’لا نتھمک‘‘ سے دیگر کبار صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی دیانت مشکوک نہیں ہو جاتی (بعض کو یہ بھی سوجھی ہے) — بات صرف اتنی ہے کہ اس کام کے لیے جسمانی قوتِ برداشت اور ذہانت کے ساتھ دیانت اور استقامت بھی درکار تھی۔ دیگر بہت سے بزرگ بھی ان صفات میں حضرت زیدؓ کے برابر یا ممکن ہے کسی درجے میں اُن سے بڑھ کر ہوں۔ تاہم حضرت زیدؓ میں یہ ہر سہ بنیادی صفات ضرور موجود تھیں۔

(د) حضرت زیدؓ کاتب وحی بھی رہ چکے تھے۔ قرآن کریم کے بعض حصے انہیں سب سے پہلے آنحضورﷺ کے سامنے خود تحریر کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ وہ حضورﷺ کے زمانے میں مختلف موادِ کتابت(رقاع‘چھوٹے ٹکڑوں) سے قرآنی آیات کے نسبتاً بڑے مجموعے بھی تیار کیا کرتے تھے۔ یہ اُن صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے ایک تھے جنہوں نے آنحضورﷺ کی زندگی میں متفرق مواد پر مکمل قرآن تحریری صورت میں بھی اور بذریعہ حفظ بھی جمع کر لیا تھا۔

(ھ) حضرت زیدؓ کی سب سے بڑی اور بے مثل خصوصیت یہ تھی کہ وہ ’’عرضہ ٔاخیرہ‘‘ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شامل رہے تھے۔ اس خصوصیت میں وہ واقعتا تمام صحابہؓ میں ممتاز تھے اور اس کام کے لیے یہ امتیاز کچھ کم اہم نہیں تھا(۸) (دیکھئے اسی مضمون کا پیرا نمبر۶)۔ (۲۴) اِن تمام صفات‘اہلیت اور خصوصیات کے باوجود حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جمع قرآن کے لیے حضرت زیدؓ کو ایک مقررہ طریق کار کا پابند کر دیا تھا۔ ازاں جملہ ضروری اُمور یہ تھے کہ:

(ا) ترتیب متن کے تعین کے لیے حفاظ سے مدد لی جائے ۔اس سلسلے میں حضرت ابی بن کعبؓ (جو خود بھی عہد نبویؐ کے حفاظ میں سے تھے) خاص طور پر حضرت زیدؓ کی مدد کے لیے مقرر ہوئے تھے۔

(ب) ضروری تھا کہ متن قرآن صرف حافظے کے ذریعے نہیں بلکہ تحریر سے متعین کیا جائے اور ہر تحریر پر اس بات کی گواہی لی جائے کہ یہ آیات آنحضرت ﷺ کے سامنے لکھی گئی تھیں۔ اس شرط کو پورا کرنے کے لیے حضرت زیدؓ کو مسجد نبوی میں آنے والے تمام لوگوں سے مدد لینا ضروری تھا اور فی الواقع انہوں نے ایسا کیا۔ بلکہ لوگوں کے گھروں میں بھی جانا پڑا اور بعض دفعہ مدینہ منورہ سے کئی دن کے فاصلے پر موجود صحابہؓ سے بھی رابطہ قائم کرنا پڑا۔

رسول اللہ ﷺ کے گھر میں رکھے ہوئے صحائف سے کام لینے ‘نیز اپنی ذاتی تحریروں اور حافظے سے مدد لینے کے باوجود حضرت زیدؓ بن ثابت کا متعدد صحابہؓ سے مدد لینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ متن قرآن کو تواتر کی بنا پر متعین و مرتب کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر بعض علماء نے حضرت زیدؓ کی ان کوششوں اور اس طریق کار سے یہ نتیجہ اخذ کیا( اور اس کی تائید حضرت زیدؓ کے اختیار کردہ مخصوص رسم الخط سے بھی ہوتی ہے) کہ زیدؓ کے جمع کردہ نسخہ قرآن(بعہد صدیقی) میں سبعہ احرف کا لحاظ بھی رکھا گیا تھا‘ کیونکہ انہیں متنوع قراء ات کے بارے میں نقل صحیح(گو غیر متواتر ہی ہو) کے حاصل ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔ اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ یہ نسخہ نقط اور شکل(حرکات) سے عاری تھا۔

(۲۵)قریب ایک سال کے عرصے میں یہ نسخہ مکمل ہوا۔ اس نسخہ قرآن کو سب سے پہلے ’’مصحف‘‘ کا نام دیا گیا اور آئندہ یہ نئی اصطلاح ’’مکمل قرآن‘‘ کے لیے استعمال ہونے لگی۔ اسی بنا پر آگے چل کر دوسرے صحابہؓ کے انفرادی جمع کردہ نسخہ ہائے قرآن بھی اُن کے مصاحف کہلانے لگے۔ یہ ’’مصحف صدیقی‘‘ پورے کا پورا کاغذ پر یا کسی ایک مواد پر نہیں لکھا گیا تھا۔ کاغذ کے علاوہ جھلی اور کچھ دیگر مواد کتابت بھی استعمال کیا گیا تھا‘ کیونکہ اس وقت تک حجاز میں کاغذ یا باریک جھلی بھی عام دستیاب نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ’’مصحف صدیقی‘‘ یکجا ’’مجلد‘‘ کتاب کی صورت میں نہ تھا بلکہ مختلف مواد کے چھوٹے چھوٹے مرتب مجموعے بنا دیے گئے تھے اور اس طرح یہ مجموعے یا صحائف مل کر مکمل مصحف بنتا تھا۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی کتاب کا مکمل مسودہ کسی فائل میں مرتب و مکمل شکل میں موجود ہو مگر اس کی شیرازہ بندی یا جلد بندی نہ کی گئی ہو۔ اس ’’مصحف‘‘ میں قرآن اور صرف متن قرآن ہی درج کرنے کا اس قدر اہتمام کیا گیا تھا کہ اُس میں اسمائے سُور بھی درج نہیں کیے گئے تھے۔ اوراِسی چیزنے پہلے دن سے اس نسخے کو —-دیگر صحابہؓ کے انفرادی مصاحف کے مقابلے پر —-زیادہ صحیح اور خاص اہتمام والے نسخے کی حیثیت دے دی تھی۔ اور یہ خاص اہتمام بھی کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ تھا۔

(۲۶) اس طرح آنحضرت ﷺ کی وفات سے دو سال کے اندر پورا قرآن مکمل و مرتب کتاب کی صورت میں بذریعہ تحریر بھی مدوّن ہو گیا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو سال بھی اس خاص اہتمام والے نسخے کو مکمل کرنے میں لگے ‘کیونکہ یہ نسخہ کسی خاص ہنگامی حالت میں مراجعت و استعمال کے لیے تیار کیا گیا تھا‘ ورنہ یہ پہلا مکمل نسخہ قرآن نہیں تھا۔ اسی دوران بلکہ اس سے پہلے کئی صحابہؓ نے اپنے انفرادی مصاحف مکمل کر لیے تھے۔ اورانہی مصاحف کے ذریعے آگے قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے کا کام جاری تھا اور جاری رہا۔ اپنے ذاتی مصاحف کو مکمل کرنے میں بعض صحابہؓ و صحابیاتؓ نے اِس ’’مصحف ِصدیقی‘‘ سے مدد ضرور لی تھی ‘لیکن تمام مصاحف کی اصل یہی اور صرف یہی نسخہ نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں صحابہؓ کے مشورے اور اجماع سے رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کے با جماعت قیام اور اس میں پورا قرآن پڑھے جانے کا رواج ڈالا۔ اس کے باوجود پورے عہد فاروقی میں متن قرآن کے بارے میں کسی اختلاف کا ذکر تک نہیں ملتا۔ سبعہ احرف کا اختلاف موجود تھا‘لیکن اُس کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے باعث کبار صحابہؓ نے اس اختلاف پر کوئی جھگڑا تو درکنار کسی تعجب کا اظہار بھی کم ہی کیا۔ اس زمانے تک ’’مصحف ِصدیقی‘‘ کو ایک مہتم بالشان نسخے کی حیثیت تو حاصل تھی مگر اس اہتمام کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ عہد عثمانی میں ہوا جب عجمیوں کے اختلاط اور بعض دیگر اسباب کی بناء پر سبعہ احرف کا استعمال ایک فتنہ بننے لگا۔ اس وقت اس نسخے (مصحف ِصدیقی) کو ہی اصل بنا کر نیا ایڈیشن تیار کیا گیا۔ اس کا ذکر ابھی آگے آ رہا ہے۔

مصحف ِصدیقی کی تیاری حضرت ابوبکر صدیقؓ کے کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ اور تاریخ حفاظت متن قرآن کے مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ ہے‘ جس کے متعلق بعض مسیحی مستشرقین نے اس حسرت کا اظہار کیا ہے کہ کاش! مسیح (علیہ السلام) کے فوراً بعد ان کے تلامذہ اور پیرو کاروں میں سے بھی کسی کو ان کی تعلیمات کو بصورت کتاب مرتب و مدوّن کرنے کی سوجھتی۔ تاریخی طور پر یہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیقؓؓ کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس اور اُن کے بعد حضرت حفصہؓ کے پاس رہا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اس نسخے کی اہمیت اور اس کی تیاری میں پوشیدہ مقصد اور حکمت کا ایک اور پہلو ظاہر ہوا جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

(۲۷) عہد ِصدیقی اور عہد ِفاروقی میں اسلام ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک تک پھیل گیا۔ اس عرصے میں لاکھوں غیر عرب بھی اسلام میں داخل ہوئے۔ کسی مسلمان کے قرآن کی تعلیم سے یکسر نابلد ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے اسلامی سلطنت میں ہر جگہ قرآن کریم کی تعلیم (حفظ‘ ناظرہ اور فہم) کا کام جاری رہا۔ صحابہ کرام اکرام رضوان اللہ اجمعین مختلف ممالک و اَمصار میں پھیل گئے تھے۔ ان میں سے کئی ایک نے مفتوحہ علاقوں کے اہم مقامات پر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ بعض بزرگ صحابہ ؓ (خصوصاً وہ جنھوں نے عہد ِنبوی ہی میں پورا قرآن نہ صرف حفظ کر لیا تھا بلکہ تحریری طور پر اپنے مصاحف بھی ’’مصحف ِصدیقی‘‘ کی تدوین سے قبل یا بعد از خود مکمل کر لیے تھے(دیکھئے اسی مضمون کا پیرا نمبر۱۹) نے اپنے علاقوں میں تعلیم قرآن کے بانی اور مرکز کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ ازاں جملہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عراق میں اور اُبی بن کعبؓ شام میں مشہور تھے۔ ویسے تمام صحابہؓ اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے علم کی حد تک معلم قرآن کا فرض بھی سر انجام دے رہے تھے۔

قرآن کی تعلیم کی وسعت کے ساتھ مکتوب مصاحف کی تعداد میں اضافہ ایک منطقی نتیجہ تھا۔ ۱۹‘۲۰ ہجری میں مصر کی فتح کے بعد سے پیپرس (کاغذ) خاصی مقدار میں دستیاب ہونے لگا تھا۔ اس سے بھی مصاحف کی اشاعت بذریعہ کتابت میں آسانی اور سرعت پیدا ہو گئی۔ اس طرح خلافت ِعثمانی کے آغاز (محرم ۲۴ ہجری) تک قرآن کریم کی کتابت اور قراء ت کا کام وسیع و عریض اسلامی مملکت کے کونے کونے میں ہونے لگا تھا۔ یہ تمام مصاحف قرآن کریم کے مکمل رائج نسخے مختلف صحابہؓ کے حافظے اور ان کے ذاتی و انفرادی مصاحف کے ذریعے نقل در نقل ہو کر اشاعت پذیر ہو رہے تھے۔ اس پورے عرصے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں باہتمام خاص مدوّن ہونے والے نسخے کو استعمال کرنے کی وہ متوقع یا موہوم ہنگامی صورت بفضل اللہ در پیش ہی نہیں آئی (یعنی حفاظ کی اکثریت کا معدوم ہو جانا) جو اس کی تیاری کا محرک بنی تھی۔ زیادہ سے زیادہ مدینہ منورہ میں قیام پذیر صحابہؓ یا تابعین ؒمیں سے بعض اپنے ذاتی مصاحف کی پڑتال یاتکمیل کے لیے وقتاً فوقتاً اس سے مدد لے لیا کرتے تھے۔

(۲۸) کتابت و قراء تِ قرآن کریم کی اس وسیع پیمانے پر اشاعت کے ساتھ ان دس بارہ برس میں آہستہ آہستہ ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوا بلکہ خاصی شدت اختیار کر گیا۔ اور یہ تھا اختلاف ِقراء ات کا مسئلہ ۔یعنی کچھ لوگ قرآن کریم کے بعض الفاظ ایک طریقے پر لکھتے اور پڑھتے تھے تو کچھ دوسرے طریقے پر۔ اس اختلاف کے پیدا ہونے کے کئی اسباب تھے:

(۱) ایک بڑی وجہ تو اختلافِ لہجات تھا۔ عرب کے مختلف قبائل کی زبان تو عربی ہی تھی مگر ان کی بولیوں (dialects ) لب و لہجہ اور محاورئہ زبان میں اختلافات ضرور تھے ‘مثلاً بنو ہذیل حتٰی کو عتٰی بولتے تھے۔ بنو تمیم ہمزہ نہیں بولتے تھے۔ بنو اسد کے لوگ مضارع کو زیر سے پڑھتے تھے۔ مثلاً تَعْلَمُوْن کو تِعْلَمُوْن اور تَسْوَدُّ کو تِسْوَدُّ —- اسی طرح بعض قبائل لفظ ’’اٰسِن‘‘ (مَائٍ غَیْرِ اٰسِن میں) یَاسِنْ بولتے تھے ‘وغیرہ (اور دنیا کی ہر زبان کے اندر مختلف خطوں اور لوگوں میں ایسے اختلافات عام ہوتے ہیں)۔فتح مکہ کے بعد جب عرب کے قریباً تمام قبائل مسلمان ہو گئے اور ان مختلف لہجات رکھنے والے لوگوں کو قرآن پڑھنا ضروری ہوا (کم از کم نمازوں میں تو کچھ نہ کچھ حصہ قرآن پڑھنا لازمی تھا) تو اس قسم کے الفاظ ہر قبیلے کے آدمیوں کو اپنے بچپن سے پختہ لب و لہجہ کے مطابق ہی پڑھنا آسان تھے۔ بڑی عمر کے آدمیوں کو اپنا مخصوص لہجہ چھوڑ کر قرآن کریم کو اہل حجاز خصوصاً قریش کے لہجے میں پڑھنا(جو قرآن کا سب سے پہلا لہجہ تھا) دشوار تھا (۹) ۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے بحکم الٰہی ہر ایک قبیلے کو اپنی ہی بولی اور لہجے کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت دے دی۔ مختلف قبائل کے متعدد لوگ قرآن پڑھ کر آگے قرآن پڑھانے بھی لگے۔ فتوحاتِ اسلام کے ساتھ غیر عرب مسلمانوں کی تعداد بڑھی۔ ہر نئے مسلمان کے لیے قرآن کریم کی کم از کم ناظرہ تلاوت اور بقدر نماز حفظ ضروری تھا۔ اب ایسا ہوا کہ مثلاً کسی کو بنو ہذیل کے کسی آدمی سے قرآن پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ دوسرے کو کسی اسدی یا تمیمی یا قرشی سے اور ہر ایک املاء اور تلفظ دونوں میں اپنے ہی استاد کی پیروی کرتا تھا۔ لیکن عجمیوں کے لیے قرآن کے الفاظ میں تلفظ‘ لہجے بلکہ املاء کا بھی اختلاف نا قابل فہم تھا۔ ہر شخص اپنے تلفظ اور املاء کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہنے پر مجبور تھا۔ پھر اللہ کے کلام کو ’’غلط‘‘ پڑھنا بلکہ اس پر اصرار کرنا واقعی کسی بھی مسلمان کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ اس لیے وقتاً فوقتاً اس قسم کے جھگڑوں کی اطلاعات ملنے لگیں۔

(۲) اختلافِ قراءات کا دوسرا سبب خود آنحضرت ﷺ کی طرف سے ’’سبعہ احرف‘‘ کی اجازت بھی تھی۔ اگرچہ مذکورہ بالا لہجاتی اختلاف کے ایک امر واقعی ہونے کی بنا پر بعض حضرات نے ’’سبعہ احرف‘‘ سے مراد بھی یہی لہجات لیے ہیں ‘مگر خود آنحضرتﷺ سے قرآن کریم کے بعض الفاظ کی ایک سے زائد قراء ات بسند صحیح ثابت ہیں۔ مثلاً مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور مَلِکِ یَوْمِ الدِّین —- یا مثلاً فَتَـبَیَّنُوا اور فَتَثَبَّتُوْا۔ اس قسم کا ’’اجازت یافتہ‘‘ اختلاف بھی دوسری قراء ت یا اس کی سند سے لا علمی کے باعث دو پڑھنے والوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے اسی مضمون کے پیرا نمبر ۱۴ میں بیان ہو چکا ہے۔ ’’سبعہ احرف‘‘ ایک تفصیل طلب مضمون ہے۔ یہاں صرف اتنا واضح کر دینا مقصود ہے کہ غیر اہل علم کے لیے لہجاتی اختلاف کی طرح یہ ثابت اور ’’اجازت یافتہ‘‘ اختلافِ الفاظ بھی ذہنی الجھن اور دوسروں سے اُلجھ پڑنے کا باعث ہو جاتا تھا۔

(۳) اختلافِ قراء ات کا تیسرا سبب ایسی انفرادی خطا اور غلطی بھی ہو جاتی تھی جو کسی خاص سبب کے باعث یا اتفاقاً کسی ایک پڑھانے والے سے سرزد ہوئی اور پھر اس کے تلامذہ نے اسے ہی درست سمجھ لیا۔ اُس وقت تک کتابت میں اعجام و نقط نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی خطا کے امکانات بھی زیادہ تھے۔ اس کی کچھ مثال آج کل کی طباعت یا کتابت کی ایسی اغلاط کی سی تھی جسے پڑھاتے ہوئے استاد بھی درست نہ کر سکا ہواور شاگرد اسے درستی کی سند قرار دے لے —- اس اختلافِ قراء ت میں مزید جذباتی شدت اس وقت پیدا ہو جاتی تھی جب فریقین ایک دوسرے کے قرآن کو غلط اور اُستاد کو کم تر (علمی ) درجے کا آدمی قرار دینے لگتے۔ اور اس بحث میں ان جلیل القدر صحابہؓ کے نام بھی شامل کر لیے جاتے تھے جو اپنے اپنے علاقے میں تعلیم قرآن کی سند اور بنیاد تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس قسم کے اختلاف کو (سابق دو قسم کے اختلافات کے برعکس) کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ‘لیکن اس کا وجود بھی تو کم علمی کے باعث خصوصاً عجمیوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتا تھا۔ لہٰذا اس قسم کی انفرادی خطا کے امکان کو روکنے کے لیے بھی کسی مثبت اقدام کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا لازمی تھا۔

(۲۹) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں اس قسم کے اختلافات کی بنا پر تصادم اور جھگڑوں کی خبریں ملنے لگیں۔ تعلیم قرآن کے بعض مدرسوں میں اُستادوں کے درمیان اور بعض دفعہ تو شاگردوں اور اُستادوں کے درمیان بھی تصادم ہوتے ہوتے بچا۔ لیکن اس قسم کے تصادم کی سب سے زیادہ پریشان کن صورت حال فوج میں ملا حظہ کی گئی اور یہی چیز دراصل اس وقت زیر بحث اہتمام کا فوری محرک بنی۔ اور شاید اسی لیے کتب تاریخ میں عموماً دوسرے اکا دکا واقعات کی بجائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اقدام کا محرک آرمینیہ اور آذر بائیجان کے محاذ پر پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ‘جس کی تفصیل یوں ہے:

(۳۰)آرمینیا اور آذربائیجان (موجودہ ایران اور ترکیہ کی سرحدوں کے ساتھ متصل علاقے جو ۱۸۱۳ء سے روس کے قبضے میں ہیں) میں مسلمان ویسے تو عہد فاروقیؓ میں پہنچ گئے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اس محاذ پر کچھ بغاوتیں فرو کرنی پڑیں اور کچھ مزید علاقے بھی مفتوح ہوئے۔ اس محاذ پر ابتدا میں شام کے محاذ سے فوج بھیجی گئی مگر کمک کی ضرورت محسوس ہوئی اور کوفہ (عراق) سے وہاں کے گورنر‘ایرانی محاذ پر اس وقت مسلمانوں کے مشہور جرنیل حذیفہ بن یمانؓ کو عراقی فوج کے ساتھ مذکورہ محاذ پر بھیجاگیا۔ حذیفہ ؓ کو جنگ کی اگلی لائنوں تک جاکر بھی لڑنا پڑا۔یہاں انہوں نے عراقی اور شامی فوجیوں کو اپنے اپنے مصاحف کے اختلاف ِقراء ات پر آپس میں لڑتے دیکھا ۔عراقیوں اور شامیوں کی مخاصمت یوں بھی بہت پرانی —-رومیوں اور ایرانیوں کے زمانے سے —-چلی آتی تھی۔ ہر ایک میں دوسرے کے مقابلے پر ایک احساسِ بر تری پایا جاتا تھا۔ آذر بائیجان‘ آرمینیاکے محاذ پر ان ’’تاریخی رقیبوں‘‘ کو اسلام کے جھنڈے تلے قریباً پہلی دفعہ اکٹھا ہونے کا موقع ملا تو بعض اُمور میں اس قدیم علاقائی تعصب کے اثرات کا کچھ مظاہرہ ہونے لگا۔ مثلاً ایک موقع پر مالِ غنیمت کے سلسلے میں بھی عراقی و شامی فوجی آپس میں اُلجھ پڑے۔ دوسرے موقع پر اپنے اپنے افسروں کی حمایت میں بعض عراقی اور شامی شعراء میں تلخ نوک جھونک ہوئی۔ یہ اُمور کسی حد تک نظر انداز کیے جا سکتے تھے‘ لیکن جب قرآن کریم کو بھی اس جھگڑے اور رقابت میں داخل کر دیا گیا اور غلط یا صحیح (۱۰) اختلافات ِقراء ت کو بھی اپنی اپنی فضیلت کے کھاتے میں ڈال کر مذہبی جذبات مشتعل کیے جانے لگے اور وہ بھی عین محاذ جنگ پر‘ تو یہ صورت حال واقعی خاصی پریشان کن تھی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اہل عراق میں رائج مصاحف کی اصل زیادہ تر مصحف عبد اللہ بن مسعودؓ اور اہل شام کے مصاحف کی بنیاد بیشتر مصحف اُبی بن کعبؓ تھے۔ اسی طرح بعض دیگر قراء صحابہؓ کے مصاحف بھی ان علاقوں میں اشاعت قرآن کی بنیاد بنے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اختلاف ِقراء ت پر جھگڑنے والے فریقین ’’فلاں صحابی کا قرآن‘‘ اور ’’فلاں کا مصحف‘‘ کہہ کر اپنی اپنی بات میں ذرا وزن پیدا کرنا چاہتے۔ یہ بات اہل کتاب کی دینی کتب کے مختلف بزرگوں کے ناموں سے منسوب ہو جانے کے مانند تھی۔ مزید برآں جاہلانہ عصبیت کی بنا پر تصحیف کی حمایت کسی وقت عملاً تحریف کی صورت اختیار کر سکتی تھی۔ ان سب امور نے حضرت حذیفہؓ کو بے چین کر دیا۔ اس محاذ پر جانے سے پہلے کوفہ میں بھی اس قسم کے اختلافات قراء ات دیکھ کر انہوں نے قرآن کریم کے ایک مستند نسخے کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی تھی ۔محاذ (آرمینیہ) سے واپسی پر وہ پہلے کوفہ آئے۔ وہاں انہوں نے بعض دوسرے صحابہؓ سے اس صورت حال اور اپنی تجویز کا ذکر کیا۔ بہت سے صحابہؓ نے ان کی تائید کی ۔حضرت حذیفہؓ اسی سال حج کے لیے روانہ ہو گئے اور مدینہ منورہ میں حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ساری رپورٹ دی اور ان سے قرآن میں اختلاف کے سد باب کی تجویز پیش کی۔ حضرت عثمانؓ پہلے ہی اس قسم کے واقعات سے متاثر تھے۔ اب انہوں نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا اور اجماعی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ قرآن کریم کا ایک مستند نسخہ شائع کیا جائے۔ اس کی نقول (جلدیں) مختلف اہم مقامات پر پبلک کے لیے رکھ دی جائیں تاکہ سب لوگوں کو اپنے اپنے مصاحف کی تکمیل اور پڑتال کے لیے ایک مستند اصل میسر ہو اور اختلاف کے امکانات کم سے کم رہ جائیں۔

(۳۱) حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کے اس نئے ایڈیشن کے لیے ’’مصحف ِصدیقی‘‘ کو ہی اصل بنایا۔ یہ مصحف کسی ہنگامی صورت حال میں مراجعت کے لیے ہی تیار کیا گیا تھا۔ اس کی تدوین و کتابت ایک اجتماعی احتیاط کے ساتھ عمل میں آئی تھی۔ اسے بھی حکمت الٰہی کہیے کہ اس مہتم بالشان نسخہ ٔقرآن کے کاتب زید بن ثابتؓ بقید ِحیات موجود تھے۔ حضرت عثمانؓ نے سنت ِشیخینؓ پر عمل کرتے ہوئے مصحف صدیقی سے نیا ایڈیشن(مزید نقول) تیار کرنے کے لیے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو مقرر کیا۔ البتہ مدد اور مشورے کے لیے تین آدمیوں عبد اللہ بن الزبیر ‘سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن الحارث رضوان اللہ علیھم اجمعین پر مشتمل ایک کمیٹی بھی ان کے ساتھ بنا دی گئی۔ مصحف صدیقی اس وقت اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کی تحویل میں تھا۔ نسخہ اُن سے حاصل کر کے نئے نسخے تیار کرنے کا کام شروع کر دیا گیا۔

(۳۲) اس وقت حضرت عثمانؓ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے اصل مسئلہ قرآن کریم کے نسخوں کی محض ’’قلت‘‘ دور کرنے کے لیے کثیر تعداد میں نقول یا قرآنی نسخے مہیا کرنے کا نہیں تھا۔ اصل مسئلہ اختلافِ قراء ات کو ختم کرنا تھا۔ جہاں تک نسخوں کی اغلاط یا ان میں تصحیف کا تعلق تھا اُسے دُور کرنا نسبتاً آسان تھا۔ دقت یہ تھی (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے‘ دیکھئے پیرا نمبر ۲۹) کہ اختلاف ِقراء ات کی دو ایسی صورتیں بھی موجود تھیں جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے ’’اجازت یافتہ‘‘ تھیں اور در اصل عجمیوں کے لیے یہی وجہ نزاع بن رہی تھیں ‘یعنی لہجات کا قبائلی اختلاف اور سبعہ احرف کے تحت ثابت تنوعِ قراء ات ۔

لہجات کے اختلاف کے بارے میں حضرت عثمانؓ نے بمشورہ صحابہؓ یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ اجازت خاص حالات کی بنا پر قبائل عرب کے معمر لوگوں کی سہولت کے لیے تھی۔ اب جب کہ عجمیوں نے بھی قرآن کریم پڑھنا ہے تو اس کے لیے کیوں نہ کوئی یکساں طریق اختیار کیا جائے؟ اور اگر یکسانیت ضروری ہے تو اس کی بنیاد لہجہ قریش ہونی چاہیے کہ شروع میں قرآن کریم صرف اسی لہجے کے مطابق پڑھا جاتا رہا تھا۔ اس لیے ایک تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ مختلف قبائلی لہجات اختیار کرنے کی اس اجازت کو ختم کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مذکورہ بالا کمیٹی کو کتابت و املاء الفاظ میں بصورت امکانِ اختلاف لہجہ قریش کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ کمیٹی کے ارکان میں تین قرشیوں کے مقرر کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ سبعہ احرف کے تحت آنحضرتﷺ سے بطریق صحیح ثابت تنوعِ قراء ات کی مقدار اگرچہ اتنی زیادہ نہیں تھی جتنا لفظ ’’سبعہ‘‘ سے متبادر ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا ہر ایک لفظ سات مختلف طریقوں پر نہیں پڑھا گیا اور نہ ہی ہر لفظ میں اختلاف لازمی تھا۔ تاہم اس تنوع یا اختلاف کو لہجات کے اختلاف کی طرح یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے کہ یہ تنوع بظاہر کسی وقتی مصلحت پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ ایک طرح سے قرآن کا لغوی کمال اور ادبی جمال تھا۔ بنا بریں اس قسم کے اختلاف یا تنوع کے بارے میں یہ طے پایا کہ اول تو ایسے اختلاف کو سند کی قوت و صحت سے پرکھ لیا جائے۔ مختلف قراء ات میں سے اگر کوئی ایک قرآن ہونے کی قوت ِسند (تواتر) سے محروم ہو تو اسے ترک کر دیا جائے(مثلاً بعض صحابہؓ کے مصاحف میں تفسیری اشارات بھی تھے جو اصل متن قرآن کا حصہ نہ تھے) ۔اگر کسی لفظ کی دو مختلف قراء تیں یکساں مستند ہوں تو پھر کوشش کی جائے کہ اس کی املاء ایسے طریقے پر کی جائے کہ دونوں قراء توں کا احتمال موجود رہے(۱۱) اور بالفرض دو متنوع قراءات کے لیے ایک طریق املاء اختیار کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ایک (نسبتاً کم مستند) کو نظر انداز کر دیا جائے اس طرح اس کمیٹی کے لیے طریق کار کے جو بنیادی اُصول متعین کر دیے گئے اُن کا خلاصہ یہ تھا کہ(۱) غیر معتبر قراء ات سے نص قرآن کو پاک کرنا‘(۲) معتبر مختلف قراء ات کو ایک نص میں مدون کرنا ‘اور(۳) اس مقصد کے لیے لہجہ قریش اور تنوع قراء ات کو ملحوظ رکھتے ہوئے املاء یا رسم الخط کا تعین کرنا۔ اور دراصل سب سے اہم کام جو اس کمیٹی نے کیا وہ یہی رسم الخط کی تعیین تھی۔ یہ رسم الخط’’رسم عثمانی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے سے لے کر آج تک پوری دُنیائے اسلام میں قرآن کریم کی کتابت میں اسی طریق املاء یعنی ’’رسم عثمانی‘‘ کا اتباع کیا جاتا ہے۔ اس متعین و منضبط اور یکساں رسم الخط کے ذریعے اختلاف قراء ات ِیکسر دُور نہ ہو سکا۔ (اس کی وجہ آگے بیان ہوتی ہے) تاہم اختلاف کی صورت میں معتبر اور غیر معتبر قراء ت کی تمیز کا بنیادی اُصول طے کر دیا گیا۔

(۳۳)عثمانی ایڈیشن کی تیاری در اصل صدیقی ایڈیشن ہی کی نشر و اشاعت کی ایک صورت تھی۔ مصحف صدیقی خود آنحضرت ﷺ کے عرضہ اخیرہ کے مطابق ہونے کی بنا پر ایک طرح سے خود جمع رسولؐ یا ’’نبوی ایڈیشن‘‘ ہی تھا۔ حضرت زیدؓ نے اُس وقت بھی کتابت میں حضورﷺ کی املاء کرائی ہوئی تحریروں کے حصول پر زور دیا تھا۔ اور (جیسا کہ پہلے پیرا ۲۴ میں بیان ہو چکا ہے)غالباً مصحف صدیقی میں سبعہ احرف کا لحاظ رکھ کر املاء متعین کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الفاظ کی املاء کی تعیین یا تبدیلی کے بارے میں اس کمیٹی کے ارکان کے مابین اختلاف کے واقعات نہ ہونے کے برابر بیان ہوئے ہیں(۱۲) ۔اور یہی وجہ تھی کہ کمیٹی نے تھوڑے سے عرصہ میں نئے ایڈیشن کے کم از کم پانچ اور بعض روایات کے مطابق سات آٹھ نسخے تیار کر لیے اور اصل نسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کو واپس کر دیا گیا۔ مصحف ابی بکرؓ ایک ہی قسم کے موادِ کتابت پر نہیں لکھا گیا تھا‘ مگر مصاحف ِعثمانی جھلی پر لکھے گئے۔ اس لیے یہ صحائف کی صورت میں نہیں تھے‘ بلکہ ہر ایک ایک مجلد نسخہ قرآن کی صورت میں تھا۔ پیپرس (کاغذ) کے مقابلے پر (جو اس وقت بہر حال اسلامی سلطنت میں دستیاب تھا) جھلی کو ترجیح دینے کی وجہ اوّل تو اس کی پائیداری تھی اور اس لیے بھی کہ اس وقت تک(بلکہ بعد میں پہلی دوسری صدی ہجری تک بھی) کتابت قرآن کے لیے عموماً وسیع و عریض مواد اور جلی قلم کا استعمال اس کی تعظیم کا تقاضا سمجھا جاتا تھا۔ مصحف ابی بکرؓ کی طرح مصاحف عثمانی میں بھی اسمائِ سور اور فواصل نہیں تھے ‘البتہ ہر سورت کے آغاز میں بسم اللہ لکھی گئی تھی ماسوائے سورت ’’التوبہ‘‘ کے۔ اسمائِ سور قراء میں متعارف تھے مگر متن قرآن کو ہر طرح کے غیر قرآن الفاظ سے پاک رکھنے کے لیے بطورِ عنوان سورت کانام بھی لکھنا گوارا نہیں کیا گیا۔ مصحف ابی بکرؓ کی طرح یہ نسخے بھی اعجام وشکل (الفاظ و حرکات) سے عاری تھے۔ ابھی تک عربی کتابت میں ان چیزوں کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ان نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مصحف صدیقی ہی کے مطابق تھی۔(۱۳) بروایات صحیحہ یہ کام ۲۵ھ کے بعد شروع ہوا اور ۳۰ ھ سے پہلے ختم ہو چکا تھا۔

(۳۴)حضرت عثمانؓ نے ان تیار کردہ نسخوں میں سے ایک ایک نسخہ مختلف صوبوں کے صدر مقامات پر بھجوایا اور حکم دیا کہ یہ مصحف شہر کی جامع مسجد میں پبلک کے لیے ہر وقت موجود رہیں۔(اس قسم کے عوامی استعمال کا مقابلہ بھی پیپرس (کاغذ) کی بجائے جھلی بہتر کر سکتی تھی) اس مقصد کے لیے مکۃ الکرمہ‘ مدینہ منورہ‘ بصرہ‘ کوفہ اور دمشق میں ایک ایک نسخے کا بھیجا جانا تو معروف ہے ۔ایک نسخہ حضرت عثمانؓ نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھ لیا تھا۔ ان چھ نسخوں کے علاوہ یمن اور بحرین میں بھی ایک ایک نسخہ بھیجنا بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے ان مصاحف میں رسم الخط اور املاء کی تعیین کے ذریعے اختلاف ِقراء ت کو ختم کرنے کے لیے سعی بلیغ کی گئی تھی‘ تاہم اس وقت تک عربی خط میں ہم شکل حروف کی تمیز بذریعہ نقاط (اعجام) اور کلمات کا تلفظ بذریعہ حرکات(شکل) کا آغاز ابھی نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس ساری محنت اور کوشش کے باوجود الفاظ و کلمات کے مختلف طریقوں پر پڑھے جانے کا امکان ضرور تھا‘ مگر قرآن کریم کے بارے میں عہد نبویؐ سے ہی تعین قراء ت محض احتمالِ کتابت(رسم الخط) سے نہیں بلکہ سند روایت سے ہوتا تھا۔ اس کمیٹی نے نئے ایڈیشن میں جن مقامات پر ’’اجازت یافتہ قبائلی لہجات‘‘ یا نسبتاً غیر معتبر ’’قراء ات‘‘ کو ختم کرنے کے لیے متعین رسم الخط اختیار کیا تھاان سے بطریق سماع و تلقی آگاہ کرنے کے لیے حضرت عثمانؓ نے ہر مصحف کے ساتھ اس کے متعلقہ شہر میں ایک قاری بھی مقرر کر کے بھیجا۔ خیال رہے کہ قرآن کریم تو پہلے بھی ہر جگہ پڑھا اور پڑھایا جا رہا تھا‘ صرف اختلافات ِقراء ات تھے۔ رسم الخط کے تعین سے بہت سے اختلافات خود بخود ختم ہو جاتے تھے۔ مقرر رسم الخط کے باوجود اعجام و شکل کے نہ ہونے کی وجہ سے تلفظ کی مختلف صورتوں کے امکان کو روکنے کے لیے مستند قاری کے ذریعہ تعلیم ضروری تھی۔ کتابوں میں حضرت عثمانؓ کے فرستادہ اور مقرر کردہ قراء کے نام اس طرح دیے گئے ہیں۔ مدینہ منورہ کے لیے(خود) زیدؓ بن ثابت‘ مکہ مکرمہ کے لیے عبد اللہؓ بن السائب ‘شام(دمشق) کے لیے مغیرہؓ بن شہاب‘ کوفہ کے لیے ابو عبد الرحمن السلمی ؓاور بصرہ کے لیے عامرؓ بن قیس۔)۱۴(

(۳۵)ان مصاحف کی تیاری اور اشاعت کے بعد حضرت عثمانؓ نے صحابہؓ کے مشورہ اور اجماع سے ہی یہ فیصلہ بھی کیا کہ مختلف علاقوں میں جو غلط اختلافات اور باہم مخالف قراء ات رکھنے والے مصاحف رائج ہو چکے ہیں وہ یا تو اس مستند ایڈیشن کے مطابق درست کر لیے جائیں یا بحق سرکار ضبط کر کے تلف اور ضائع کر دیے جائیں۔ ان نسخوں کو تلف کرنے کے لیے مکتوب علیہ مواد جلاڈالنے‘ پھاڑ دینے یا بعض دفعہ تیزاب وغیرہ سے دھو ڈالنے کا عمل اختیار کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خراسان سے مصر اور دربند سے صنعاء تک پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں موجود ہر نسخہ قرآن (ان چھ سات نسخوں کے علاوہ) تلف کر دیا گیا۔ ایسا ہونا ہی نا ممکن تھا اور ایسا کرنا حضرت عثمانؓ یا کسی بھی اور کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ بفرض محال ایسا ہو بھی جاتا تو سینوں سے قرآن کس طرح نکالا جا سکتا تھا؟ بات دراصل ’’نیا قرآن‘‘ ٹھونسنے کی نہیں تھی‘ اپنے اپنے نسخہ قرآن کو صحابہ کے اجماعی اہتمام سے شائع ہونے والے صحیح ترین نسخہ کے مطابق ٹھیک کر لینے کی تھی۔ بعض یا بہت سے ’’غلطیوں والے‘‘ نسخوں کے اتلاف سے لوگوں کے ذہنوں میں ’’صحت متن قرآن‘‘ کے اہتمام اور اہمیت کو واضح کرنا مقصود تھا(۱۵) ۔اگر مصحف عثمانی سے کچھ بھی اختلاف رکھنے والے ہر نسخہ قرآن کا اتلاف مقصود ہوتا تو پھر مصحف ابی بکر بھی(جس کے بعض الفاظ یقیناً بدلے گئے تھے‘ گورسم الخط کی حد تک ہی سہی) فوراً جلا دیا جانا چاہیے تھا۔ در اصل ’’غلطیوں والے مصاحف‘‘ کے ضائع کرنے کی ضرورت بھی اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک تو شاید بعض لوگ محض ضد یا محض ناواقفیت کی بنا پر غلط کو ہی درست سمجھنے پر اصرار کرنے لگیں‘ دوسرے مصاحف عثمانی کی اشاعت سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ بعض جلیل القدر صحابہؓ کے ذاتی مصاحف میں (اور خود ان مصاحف سے متعدد مصاحف تیار ہو کر رائج ہو چکے تھے) کسی نہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک آدھ ایسی شدید غلطی موجود تھی جسے ’’سبعہ احرف‘‘کے تحت بھی کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اب تک معوذ تین کو قرآن کریم کی سورتیں ہی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ان سورتوں کو جانتے اور پڑھتے تھے ‘مگر انہوں نے آنحضرت ﷺ کو یہ سورتیں پڑھ کر حسنین رضی اللہ عنہ پر دم کرتے دیکھا تھا۔ اس بنا پر وہ انہیں صرف دعا سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصاحف میں دعائے قنوت (برائے وتر) کو قرآن کریم ہی کا جزء (سورت) سمجھ کر لکھ دیا گیا تھا(۱۶)۔ یہ بزرگوار ان چند صحابہ میں سے تھے جنھوں نے مصحف صدیقی سے الگ اس سے قبل یا بعد اپنے طور پر اپنے مصاحف مکمل کیے تھے (دیکھئے اسی مضمون کا پیرا نمبر۱۹) ۔ان کے نسخے اس اجتماعی اہتمام سے تیار نہیں ہوئے تھے جو مصحف صدیقی کی تیاری میں مد نظر رکھا گیا تھا۔ اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عظیم اکثریت کی زندگی ہی میں‘ مصحف ابی بکرؓ کی بنیاد پر مصاحف عثمانیؓ کے ذریعے صحیح متن قرآن کی اشاعت نے ان کی انفرادی غلطی واضح کر دی۔ ایک ہی آدمی کی تقریر سننے والے سو آدمیوں یا ایک ہی استاد کے سو شاگردوں میں سے ایک آدھ تو (نسبتاً زیادہ ذہین اور لائق ہوتے ہوئے بھی) وہی بات دوبارہ بیان کرنے میں غلطی کر سکتا ہے ‘مگر یہ نا ممکن ہے کہ صرف ایک دو ہی درست بیان کریں اور اکثریت سے وہ بات پوشیدہ رہ جائے۔ بلکہ اس قسم کی غلطی کے انکشاف سے مصاحف عثمانی کی بر وقت اشاعت کی قدر وقیمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ابتداء ًاگرچہ عبد اللہ بن مسعودؓ نے بشری تقاضوں کے عین مطابق محض اپنی جلالت علمی اور سبقت فی الاسلام کی بنا پر (جس میں وہ یقینا حضرت عثمانؓ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے بیشتر اراکین سے بدر جہا فائق تھے) اپنی بات پر اصرار کرنا چاہا۔ مگر صحابہؓ کے اجتماعی علم کے سامنے بہت جلد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ااور انہوں نے اپنے اصرار سے رجوع کر لیا۔

یہ بات ہمارے سلف صالحین کے حسن نیت‘ حقیقت شناسی اور حق پسندی کا ثبوت اور نمونہ ہے کہ محض ایک آدھ غلطی کے ارتکاب یا اس کی نشاندہی پر کسی کی دینی فضیلت یا علمی عظمت سے یکسر انکار بھی نہیں کر دیا جاتا تھا اور نہ ہی غلطی پر اصرار کو وقار کا سوال بنا لیا جاتا تھا۔ ورنہ آج کل کیا ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ کسی آدمی (خصوصاً علمی و سیاسی طور پر نمایاں شخصیت) کو یا تو سو فیصد درست‘ بر حق اور غلطی سے پاک مانا جاتا ہے یا پھر اسے سو فیصد مردود اور مجموعہ اغلاط تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس قسم کا انتہا پسندانہ رویہ فطرتِ انسانی سے نا آگہی کی بنا پر اختیار کیا جا سکتا ہے۔
خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا ‘ہم پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔
(۳۶ )مصحف ابی بکرؓ کی اساس پر مصحف عثمانی کی تیاری اور اشاعت صحابہ کرامؓ کے اجماعی مشورہ اور فیصلہ کی بنا پر عمل میں آئی تھی (اور اُس وقت تک جلیل القدر صحابہؓ کی غالب اکثریت موجود تھی)۔ یہی وجہ تھی کہ پورے عالم اسلامی میں صحت متن قرآن کے لیے مصاحف عثمانی کو بالاتفاق معیارِ صحت بلکہ اس مقصد کے لیے وقت کی اہم ضرورت تسلیم کر لیا گیا۔ کسی صحابی سے مصاحف عثمانی کے کسی ایک لفظ کی بھی صحت اور سند تو اتر کے بارے میں شک یا اختلاف منقول نہیں ہے۔ اگر کوئی اختلاف ہوا بھی تو وہ ’’آنحضرت ﷺ کے اجازت یافتہ اختلاف قراءات(سبعہ احرف) کو ختم یا محدود کرنے کے فیصلہ‘‘ سے اختلاف تھا۔ اس سلسلے میں عموماً سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے اختلاف اور تلخ رویہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔اس پر تفصیلی بحث تو آگے آئے گی‘ یہاں اتنا بتا دینا کافی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ (یا کسی بھی اور صحابی) نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عثمانؓ کے ایڈیشن میں فلاں لفظ یا عبارت بالکل غلط اور بے سند ہے۔ نہ ہی انہوں نے مصاحف عثمانی میں اختیار کردہ قراء ت کی بجائے اپنی کسی قراء ت کے رکھے جانے پر اصرار کیا۔ وہ صرف صحابہؓ کی اجماعی سند اور تواتر سے ثابت صحیح و مختار نص کے ساتھ اپنی ذاتی سند کی بنا پر بعض جگہ اپنی قراء ت بھی پڑھنے پر مصر تھے۔ حضرت عثمان ؓ اور ان کے ساتھ صحابہ کی غالب اکثریت نے سمجھ لیا تھا کہ ’’سبعہ احرف‘‘ کے تحت‘ ایک محدود دائرے کے اندر اختلاف بھی صرف جائز اور مصلحتاً ’’اجازت یافتہ‘‘ تھا‘ فرض اور واجب نہیں تھا کہ اسے لازماً بر قرار رکھا جاتا اور اس حالت میں بھی جب کہ ایک دوسرے کی سند یا لہجہ سے نا واقفیت غیر عرب مسلمانوں کے لیے اختلاف سے بڑھ کر تنازعہ کی شکل اختیار کرنے لگی تھی۔ اس لیے ’’سبعہ‘‘ کے اذن کے نام پر رواج یافتہ بعض غیر معتبر اور غیر صحیح قراء ات کا ترک ضروری سمجھا گیا۔ مثلاً لہجوں کے تفاوت پر مبنی وہ قراء ات جو ’’اجازت یافتہ‘‘ تو تھیں مگر خود آنحضرتﷺ کا اس قراء ات سے پڑھنا ثابت نہ تھا۔ یا وہ قراء ات جو بعض صحابہؓ کے نزدیک خود آنحضرت ﷺ سے ثابت تھیں مگر ان کی قرآنیت پر تواتر کی شہادت موجود نہ تھی۔ یاایسے تفسیری الفاظ جو بعض صحابہ نے اپنے مصاحف میں ذاتی استفادہ کے لیے نوٹ کیے تھے مگر انہیں بھی قرآنی قراء ات سمجھا جانے لگا تھا۔ مصاحف عثمانی کی تیاری کا مقصد مطلق ہر طرح کے اختلاف ِقراء ت ‘صحیح یا غلط‘ معتبر یا غیر معتبر کو یکسر ختم کر کے ایک — اور صرف ایک ہی —قراء ت پر مجبور کرنا نہیں تھا۔ ایسا کرنا عقلاً بھی درست نہ ہوتا۔اس لیے کہ آنحضرت ﷺ سے بطریق شہرت و تواتر ثابت‘ مختلف قراء ات میں سے بعض کو بالکل ختم کرنے کی کوشش الٹا اختلاف بڑھانے والی بات ہوتی۔ اس قسم کے متنوع مگر مصدقہ اور مستند اختلافِ قراء ات کو تسلیم کر کے انہیں بر قرار رکھنے کے لیے ہی تو سوچ سمجھ کر ’’محتمل قراء ات‘‘ رسم الخط(ہجا) کو اختیار کیا گیا۔ بلکہ بعض صورتوں میں‘ جہاں اس قسم کا مشترک یا واحد رسم الخط(ہجا) ممکن نہ تھا وہاں کسی نسخے میں ایک قراء ت اور کسی میں دوسری قراء ت اختیار کی گئی(۱۷) ۔اس طرح آسانی کے لیے کم سے کم اختلاف کی طرف رجوع کرتے ہوئے تمام متواتر اور معتبر قراء ات کو مصاحف عثمانی کے طریق املاء اور رسم الخط کے اندر محصور کر دیا گیا۔ اب اس رسم الخط سے خارج قراء ات کو محض ذاتی سند کی بنا پر پڑھنے کی اجازت تو تھی‘ مگر امت کو اس کا پابند کرنے ‘یعنی نماز میں ایسی قراء ات پڑھنے یا کتابت مصحف میں ایسی قراء ات سے بحث و اشتغال کو مطلقاً ممنوع قرار نہیں دیا گیا تھا(۱۸) ۔یہی وجہ تھی کہ مصحف عثمانی سے خارج مگر عند البعض مستند انفرادی یا شاذ قراء ات کے بارے میں مطالعہ اور بحث کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا (۱۹) بلکہ قراء ات ‘تفسیر‘ لغت‘ بلاغت اور حدیث وفقہ کی کتابوں میں ان کے استعمال اور حوالے کا رواج اپنے اچھے اور برے نتائج کے ساتھ جاری رہا۔

(۳۷)مصاحف عثمانی کی اشاعت در اصل تعلیم قرآن اور حفاظت متن قرآن کے لیے ان ہی دو بنیادی اصولوں کے مطابق عمل میں آئی جو عہد نبوی سے رائج اور نافذ چلے آتے تھے ‘یعنی حفظ اور کتابت۔ حفظ میں تلفظ (اور ترتیب الفاظ بھی) بذریعہ تلقی و سماع یعنی مستند آدمی کی زبان سے سن کر سیکھنا اور کتابت میں صرف مستند تحریر سے بعینہ نقل کرنا لازمی تھا (دیکھئے اسی مضمون کا پیرا ۱۳ اور۱۹)۔ قرآن حفظ کرنے والا تو (کم از کم بعض صورتوں میں… مثلاً نا بینا یا بالکل نا خواندہ حافظ) صرف صحت تلفظ کے لیے استناد و بذریعہ تلقی و سماع کا محتاج ہوتا تھا اور یہ کام تحریر کے بغیر بھی سر انجام پا سکتا تھا۔ لیکن عام ناظرہ خواں طالب قرآن (خصوصاًکم علم یا غیر عرب عوام) کو مستند تحریر سے مستند تلفظ سیکھنے کے لیے تعلیم کی ضرورت تھی۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھئے کہ مطلق تعلیم تو بغیر تحریر یا کتابت کے محض زبانی یا شفا ہی بھی ہو سکتی ہے‘ لیکن اس قسم کی تعلیم کادائرہ کبھی وسیع نہیں ہو سکتا۔ تعلیم اور علم کے عام کرنے کے لیے قلم(تحریر) کا استعمال لازمی ہے۔ علم بالقلم میں اسی سر عیاں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر ایسی تعلیم یا خواندگی جس میں قلم‘ کتابت اور تحریر کا استعمال شامل ہو‘ اس کا پہلا مرحلہ (کسی تحریر کا) پڑھنا (reading ) ہے‘ دوسرا مرحلہ لکھ سکنا (writing) اور تیسرا مرحلہ سمجھ سکنا (understanding ) ہے۔ قرآن کریم یا کم از کم اس کے کسی حصے کی تعلیم ہر ایک مسلمان کے لیے واجب ہے۔ اس واجب کے ادا کرنے کی کم سے کم صورت تو ’’درست تلفظ کے ساتھ حفظ کر لینا یا زبانی پڑھ سکنا‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تعلیم قرآن کو ہر ایک مسلمان تک پہنچانے اور اس میں عموم و وسعت پیدا کرنے کے لیے کتابت سے امداد لینا ضروری ہے۔ لہٰذا تعلیم قرآن بذریعہ تحریر کا پہلا قدم مکتوب قرآن کو ٹھیک ٹھیک لکھا ہوا ہونا چاہیے اور درست پڑھنے کے لیے یا درست پڑھنا سکھانے کے لیے پڑھا جانے والا مواد ٹھیک ٹھیک لکھا ہوا ہونا چاہیے۔ اور تعلیم قرآن کے لیے یہی وہ بنیادی ضرورت تھی جو مصاحف عثمانی نے پوری کی ‘یعنی ان کے ذریعے (جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں )تمام مستند قراء ات ‘تلفظ کی تمام صحیح اور مستند صورتوں کو تحریر یا کتابت یعنی املاء و رسم کی حد تک لفظ کی ایک اور صرف ایک صورت کے اندر محصور کر دیا گیا۔ اگر معاملہ قراء ات یا تلفظ کے ہر قسم کے اختلافات کو مٹا کرایک اور صرف ایک تلفظ یا قراء ت اختیار کرنے کا ہوتا تو یہ کام (چاہے یہ اپنے نتائج کے لحاظ سے اختلاف مٹانے کی بجائے اُلٹا اختلاف کا سبب بنتا ‘کیونکہ دینی امور میں طبائع عموماً نا جائز جبر سے بغاوت کرتی ہیں) حضرت عثمانؓ کی قائم کردہ کمیٹی کے لیے املاء یا رسم الخط کے اختیار میں بڑی آسانی کا باعث بنتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کمیٹی کو الفاظ کے مخصوص رسم الخط اور طریق املاء کے تعین کے لیے بہت محنت اور احتیاط سے کام لینا پڑا تھا۔ کہیں تو قراء ات کے متعدد مگر مستند احتمالات کے مطابق مشترک رسم اختیار کیا( مثلاً مالک اور ملک ہر دو کے لیے ) اور کہیں نسبتاً کم مستند احتمالات کو ختم کر دینے والا رسم الخط اختیار کیا ‘مثلاً تابوۃکی بجائے تابوت ۔مصاحف عثمانی کے رسم الخط میں ملحوظ رکھے گئے اس اہتمام سے چند اُمور نکھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اولاً یہ کہ اس کمیٹی کے ارکان(اور دیگر تمام پڑھے لکھے صحابہ ؓ خصوصاً کاتبانِ وحی) عربی زبان کے قواعد املاء اور اصولِ کتابت سے کما حقہ ٗآگاہ تھے۔ محتمل قراء ات لفظ واحد کی تعیین رسم کے لیے یا کسی اور معقول وجہ کی بنا پر بعض دفعہ انہیں اُس زمانے کے رائج اور متعارف قواعد املاء سے ہٹ کر مخصوص املاء یا رسم الخط اختیار کرنا پڑا ۔ اس خلاف ِقاعدہ رسم الخط کے اختیار کرنے میں مہارت ِفن اور حکمت دین دونوں شامل ہوتی تھیں(۲۰) ۔ثانیاً یہ کہ کمیٹی کے یہ ارکان ہر گز اپنی من مانی نہیں کر رہے تھے نہ وہ اس کے مجاز تھے اور نہ ایسا کرنا ان کے لیے ممکن ہی تھا۔ خود حافظ قرآن ہوتے ہوئے بھی وہ مصحف ابی بکرؓ کو سامنے رکھ کر کام کرنے کے پابند کر دیے گئے تھے۔ ان کا کام زیادہ تر اسی مصحف کی نقلیں تیار کرنا ہی تھا۔ ثالثاً یہ کہ اس سے مصحف ابی بکرؐکو نئے عثمانی ایڈیشن کی اصل قرار دینے کی اہمیت اور مناسبت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ صحت کے اجتماعی اہتمام کے علاوہ باقی انفرادی مصاحف کی نسبت اس مصحف میں تعیین رسم الخط کے کام کو بھی آسان بنانے کی زیادہ صلاحیت موجود تھی۔ اس مصحف کی وجہ سے کمیٹی کا کام بڑی حد تک خود بخود آسان ہو گیا تھا ‘کیونکہ ’’رسم عثمانی‘‘ قریباً تما م تر ’’رسم صدیقی‘‘ کی مختار صورتوں پر ہی مبنی تھا۔ اور اس بارے میں منقول اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے تک لوگوں کو اس مصحف (ابی بکرؓ) کے مختار رسم الخط کا پابند نہیں کیا گیا تھا ‘نہ اس کی ضرورت ہی تھی‘ بلکہ مستند یا ’’اجازت یافتہ‘‘ یعنی سبعہ احرف کے اختلاف ِقراء ات کے مطابق کتابت یا املاء اختیار کر لینے کی بھی اجازت موجود تھی۔ اور دراصل یہی ’’اجازت‘‘ ختم کرنے کی ضرورت ہی تو حضرت عثمانؓ کے زمانے میں محسوس ہوئی تھی‘ جس کی وجوہات پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ اس طرح مصاحف عثمانی کے ذریعے قرآن کریم کی درست قراء ات کے لیے درست تحریر کی ایک معیاری صورت بھی متعین کر دی گئی اور سب کو اس کا پابند بھی کر دیا گیا۔ یعنی ٹھیک ٹھیک پڑھنے کے لیے لکھا ہوا متن مہیا کرنے کی بنیادی تعلیمی ضرورت بھی پوری کر دی گئی۔ کم علم لوگوں —عوام —کوان کے فہم و علم سے ماوراء علمی اختلافات میں اُلجھنے سے بچانے کا بندوبست بھی کر دیا گیا(۲۱) اور اس کے باوجود اہل علم اور ارباب ِاستعداد کے لیے مستند تنوع اور معتبر و مفید جہاتِ علم و تدبر کا راستہ بھی بند نہیں کیا گیا۔

(۳۸ )کتابت‘ املاء‘ ہجا اور رسم الخط کی اس مضبوط اساس اور یکسانیت پیدا کرنے کی اس ساری احتیاط کے باوجود اختلافِ قراء ات اور متنوع تلفظ کا دروازہ یکسر بند نہیں ہوا۔ اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ بات مصاحف عثمانی کا مقصود بھی نہ تھی۔ البتہ اس سے اختلافِ قراء ا ت کا دائرہ محدود ہو گیا اور اختلاف کے جواز یا عدم جواز کی بنیادی حدود متعین ہو گئیں۔ مصاحف عثمانی کی اشاعت کے بعد اختلاتِ قراء ات کے امکان و اسباب اور اس کے درجہ خطا و صواب کی پوزیشن یوں ہو گئی۔

(۱) ایسی قراء ت جو رسم عثمانی سے بالکل مختلف ہوتی‘ یعنی لفظ اور اس کے حروف ہی بالکل بدل جاتے یا کوئی حذف یا اضافہ واقع ہوتا‘ یا لفظ کی املاء میں جزوی تغیر لازم آتا‘ ایسی ’’قراء ت‘‘ کا قرآن میں لکھنا تو یکسر ممنوع قرار دیا گیا۔ البتہ اگر کوئی آدمی اپنی ذاتی سند کی بنا پر اسے درست سمجھتا اور پڑھتا تو اسے بالکل گردن زدنی بھی قرار نہیں دیا گیا۔ کیونکہ اس قسم کے اختلاف کی توجیہہ بھی ہو سکتی تھی۔ مثلاً یہ کہ کسی سننے والے نے کسی توضیحی لفظ کو قرآن سمجھ لیا یا کسی صحابی نے اپنے مصحف میں کوئی تفسیری لفظ لکھا جسے اس کے تلامذہ نے قرآنی لفظ قرار دے لیا۔ اس صورت میں ’’قراء ت‘‘ تفسیر الفاظ میں ممد ہو سکتی تھی اور اس کا قرآن نہ ہونا بھی حفظ کے تواتر سے ثابت ہو جاتا تھا۔ اس لیے ایسی ازروئے تواتر مردود تمام ’’قراء ات‘‘ کو قطعی قرآنی لفظ کا درجہ دے کر اُمت کو اس کا پابند کرنے سے روک دیا گیا۔ )۲( ایسی قراء ت جو مصاحف عثمانی کی املاء اور رسم الخط پر ہی مبنی ہوتی مگر اختلاف کی وجہ ان مصاحف کا اس وقت تک اور کئی برس بعد تک‘ نقط و اعجام سے خالی ہونا ہوتا۔ اس قسم کے اختلاف کی چند صورتیں ممکن تھیں:

(ا) لفظ کو اس طرح پڑھنا کہ عربی زبان میں اس کے کچھ معنی ہی نہ بن سکیں یا معنوں میں نہایت قبیح تغیر واقع ہوتا ہو‘ ظاہر ہے اسے قراء ت بمعنی ’’پڑھنا‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر قراء ت بمعنی ’’قرآنی لفظ‘‘ سمجھ کر ’’قراء ت‘‘ کہنا ہی نا درست تھا اور اس کے مرتکب زیادہ تر غیر عرب ہوتے تھے‘ جنہیں استاد کی بتائی ہوئی درست ’’صورت تلفظ‘‘ تو شاید یاد نہ رہتی اور صرف مکتوب لفظ کے تمام حروف کے صحیح یا غلط تلفظ کو قراء ت کا تقاضا سمجھ لیتے۔ یہ اس قسم کی غلطی تھی جس کے مرتکب ہمارے اکثر ناظرہ خواں(باوجود ضبط حروف کے) ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ اسی قسم کی شنیع غلطیوں کے تدارک کے لیے ہی مصاحف عثمانی کی اشاعت سے پچاس برس کے اندر الفاظ کی صحیح قراء ت کو ضبط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس ضرورت کے تحت ہی نقط و اعجام اور شکل و حرکات یعنی ضبط کے اصول وضع کیے گئے۔اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

(ب) لفظ کو اس طرح پڑھنا کہ عبارت کے معنوں میں بھی کوئی قبیح خلل نہ پڑتا۔ یعنی عربیت کے لحاظ سے وہ صحیح فقرہ یا صحیح وبا معنی عبارت ہی بنتی مگر لفظ یا ’’قراء ات‘‘ کی یہ صورت یا تو مطلقاً کسی بھی سند سے ’’عن الرسولؐ‘‘ ثابت نہ ہوتی یا تواتر اور شہر سے ثابت نہ ہوتی۔ اس قسم کی قراء ات کو ان کی سند کے ضعف یا قوت کے پیش نظر مقبول اورمردود کے مختلف مدارج میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔ ایسی قراء ات کی لغوی یا نحوی یا تفسیری افادیت کی بنا پر ان سے بحث اور استدلال میں کام تو لیا جا سکتا تھا‘ مگر تواتر سے محروم ہونے کی بنا پر انہیں بھی ’’قرآن‘‘ ہر گز نہیں کہا جا سکتا تھا۔

(ج) لفظ کو ایک یا ایک سے زائد ایسی قراء ت یا تلفظ میں ادا کرنا جو بسند متواتر مروی ہو اور جس کی قرآنیت پر کبھی کسی کو شبہ نہ ہو سکتا ہو۔ اور در اصل صحیح قراء ت کی یہی صورت تھی۔ اور اس دائرے کے اندر اختلافِ قراء ت جائز اور درست تھا اور اختلافِ قراء ت کو اسی حد کے اندر محدود رکھنے کی تعلیم کے لیے ہی حضرت عثمانؓ نے مصاحف عثمانی کے ساتھ قراء بھیجے تھے۔ (۲۲) اور اسی لیے یہ اختلاف آج تک درست قرار دیا جاتا ہے بلکہ فن قراء ت اور علم تجوید کا موضوع یہی ہے۔

حواشی

(۱) دشمنانِ اسلام تو خیر حفاظت قرآن کو ’’مشکوک‘‘ ثابت کرنے کے لیے ان ہی حقائق کے صریح انکار(رکیک تاویلات یا بعض غلط روایات) کا آسرا لینے پر مجبور تھے ہی‘ بعض اپنوں کو بھی حمایت قرآن کے جوش میں نقل صحیح کے مضبوط موقف پر قائم رہنے کا ہوش نہ رہا۔ پھر انھیں ایسے نئے’’حقائق‘‘ تراشنے پڑے جس کا ساتھ نہ عقل دے نہ نقل ۔ایسے نادان دوستوں کے موقف کے بارے میں آگے چل کر کچھ لکھا جائے گا۔

(۲) حفاظ تو خیر جانتے ہیں شاید غیر حافظ حضرات کے لیے یہ وضاحت مفید ہو۔ دور کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دو یا زیادہ آدمی مل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلے ایک قرآن کریم کا کوئی مقرر حصہ(عموماً ایک رکوع) پڑھتا ہے۔ دوسرے سنتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا آدمی وہ سنا ہوا حصہ بھی پڑھتا ہے اور کچھ حصہ(مثلاً رکوع) مزید پڑھتا ہے۔ اگر تین آدمی ہوں تو تیسرا اپنی باری پر پہلے دو رکوع بھی پڑھے گا اور ایک زائد بھی۔ (اس طرح جتنے آدمی ہوں پڑھنے اور سننے والے حصے کی مقدار بڑھتی جائے گی) ۔اس کے بعد پھر پہلا آدمی اپنے پہلے پڑھے ہوئے حصے کو چھوڑ کر باقی سب کے سنے ہوئے رکوع بھی پڑھے گا اور ایک زائد بھی۔ گویا جتنے دور کرنے والے ہوں ہر ایک کو اتنی دفعہ قرآن کریم کا مقرر حصہ پڑھنے اور سننے کا موقع ملے گا۔

(۳) ’’چالیس روز میں قرآن ختم‘‘ قسم کے کورس اسی لیے مفید کی بجائے مضر ثابت ہوتے ہیں اور کوئی واقف قرآن ایسے کورسوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔

(۴) ’’سبعہ احرف‘‘ کی بحث نہایت اہم موضوع ہے۔ بات چل ہی پڑی ہے‘ ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر بھی ایک واضح موقف پر مبنی مضمون پیش کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ موضوع عوامی موضوع نہیں ہے اور اسی لیے اپنوں اور غیروں کی افراط و تفریط کا ہدف بنا ہے۔

(۵) اس کی تفصیل ایک مستقل مضمون ’’قرآن اور مستشرقین‘‘ کی محتاج ہے‘ وباللہ التوفیق۔
(۶) عجیب بات ہے کہ بعض حضرات کو حضرت زیدؓ کے ’’رجلٌ شاب‘‘ (بالفاظ ابی بکر صدیق) ہونے میں اور اُن کو سونپے گئے کام میں کوئی مناسبت ہی نظر نہیں آئی۔ کیا یہ کام محنت طلب نہ تھا؟ کیا واقعی محنت اور طاقت میں کوئی تعلق اور مناسبت نہیں ہے؟
(۷) تیرہ سو سال سے ان کے قواعد املاء اور طرز ہجا کی بعینہ نقل متن قرآن کی صحت کا معیار چلا آ رہا ہے۔ ان کی اس کتابت کا ذکر آگے عہد عثمانی میں آئے گا۔

(۸) حضرت زیدؓ بن ثابت کے حالات میں یہ اُمور بھی قابل ذکر ہیں۔ اُن کی ولادت مدینہ میں ہوئی لیکن اُن کی پرورش (چھ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد) مکہ میں ہوئی۔ یہ مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے۔ ہجرت کے وقت گیارہ سال کے تھے اور آنحضرتﷺ سے کچھ عرصہ پہلے یا بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے۔ جنگ یمامہ میں انہیں بھی تیر لگا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے کچھ اور کام لینا تھا‘ بچ گئے۔ کتب احادیث میں اُن سے ۱۹۲ احادیث مروی ہیں۔ وفات ۴۵ھ میں ہوئی۔

(۹) عام الوفود میں جب عرب کے کونے کونے سے قبائل کے نمائندے اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ منورہ آتے تھے تو آنحضرت ﷺ ہر ایک قبیلہ کے لوگوں کے ساتھ خود انہیں کے لہجہ اور محاورہ میں ہو بہو انہیں کی طرح بات فرماتے۔ اس پر حضرت علیؓ اور بعض صحابہؓ نے آپ کی اس قادر الکلامی پر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم تو ایسا نہیں کر سکتے تو حضور نے فرمایا: اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبِیْ وَرُبِّیْتُ فِیْ بَنِی سَعْدٍ (کہ اول تو یہ میرے رب نے مجھے سکھایا ‘مزید برآں میری پرورش بھی بنو سعد میں ہوئی تھی) ۔
(۱۰) فوج میں یوں بھی اہل علم کم ہوتے ہیں۔ لہجوں اور بولیوں کے لحاظ سے بھی فوج ایک متنوع اجتماع ہوتا ہے۔ لا علمی میں تنوع سے اختلاف اور اختلاف سے نزاع پیدا ہونا بہت زیادہ قرین قیاس ہے۔

(۱۱) اس وقت تک الفاظ حروف کے نقاط اور حرکات سے عاری ہوتے تھے۔ اس میں یہ صورت اختیار کی جا سکتی تھی‘ مثلاً لفظ ’’قل‘‘ جسے بعض جگہ قَالَ اورقُلْ دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے یا لفظ ’’ملک‘‘ جسے سورۃ الفاتحہ میں مَالِک اور مَلِک دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔

(۱۲) مثلا لفظ ’’تابوت‘‘ مصحف صدیقی میں ’’تابوۃ‘‘ لکھا گیا تھا۔ وقف کی صورت میں قریش اسے ’’تابوت‘‘ مگر دوسرے لوگ ’’تابوہ‘‘ بولتے تھے۔ اس کے لیے ’’تابوت‘‘ کارسم الخط اختیار کیا گیا کہ یہ وقف و وصل دونوں صورتوں میں لہجہ قریش کے مطابق تھا۔

(۱۳) ایک آدھ روایت سے بظاہر تاثر ملتا ہے کہ شاید موجودہ ترتیب سور حضرت عثمانؓ کے وقت میں اجہتادی طور پر اختیار کی گئی۔ بفرض تسلیم بھی اس سے حفاظت متن قرآن پر کوئی حرف نہیں آتا‘ تاہم یہ بات عقلاً نقلاً نا قابل تسلیم ہے۔ اس کے لیے علوم القرآن پر تمام اچھی کتابوں میں مدلل بحثیں موجود ہیں۔

(۱۴) بعض روایات کے مطابق مصحف عثمانی کی تدوین والی کمیٹی کے ارکان کی تعداد دس بارہ تک بیان ہوئی ہے۔ ممکن ہے قراء حضرات بھی ان میں شامل ہوں جو املاء اور تلفظ کے درست تعلق سے اچھی طرح آگاہ تھے اور اس طرح نئے ایڈیشن کو پڑھانے میں ایک ماہر معلم کا درجہ رکھتے تھے۔

(۱۵) عہد عثمانی کے بعد سے آج تک ہر جگہ اور ہمیشہ خصوصاً دورِ طباعت میں ’’اغلاط سے مبرا‘‘ نسخہ قرآن کی کتابت اور اشاعت کا اہتمام ایک بنیادی دینی فریضہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ مصحف عثمانیہ اس سمت میں پہلا پیشوایا نہ اقدام تھا‘ مابعد دور میں اس اہتمام کا کچھ ذکر آگے دور طباعت میں آئے گا۔

(۱۶) حضرت ابی ابن کعبؓ کی وفات ۲۰ھ میں (مصاحف عثمانی کی اشاعت سے پہلے) ہو چکی تھی‘ مگر ان کے مصحف سے کئی مصاحف خصوصاً شام میں شائع ہو گئے تھے۔

(۱۷) مصاحف عثمانی میں گنتی کے چند ایک باہمی اختلافات پر بھی مزید بحث آگے آئے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس قسم کے اختلاف رسم پر مبنی اختلاف ِقراء ات کے لیے مصاحف عثمانی میں ایک ہی نسخے میں ایک قراء ت متن کے اندر اور دوسری حاشیہ پر لکھنے سے پرہیز کیا گیا۔ اس سے تصحیح کا شبہ ہو سکتا تھا۔ مصاحف عثمانی کی پشت پر اسی قوت تواتر اور اہتمامِ صحت کا نتیجہ تھا کہ ان کے باہمی اختلافات بھی یکساں مستند قرار دیے گئے۔ ان میں سے کسی ایک کی ترجیح سہولت قراء ت کے لیے اختیار کی جاتی ہے ‘دوسرے کے ردّو انکار کے لیے نہیں۔ قراء کے علاوہ عام حضرات کے لیے یہ بات شاید خلجان کا موجب ہو۔ اس لیے مزید بحث آگے آ رہی ہے۔
(۱۸) یہی بات حضرت عثمانؓ نے خود اپنے آخری ایام میں بلوائیوں کے سامنے کہی تھی۔ جو حضرات ہماری بحث اور مضمون کے ختم ہونے سے پہلے اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتے ہوں ان سے مرحوم الدکتور عبد اللہ دراز کی کتاب’’المدخل الی القرآن الکریم‘‘ کے ص ۴۳‘۴۴ کا مطالعہ کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔

(۱۹) جیسا کہ نادانی یا بد دیانتی کی بنا پر جیفری نے اپنے مقدمہ کے شروع میں لکھ دیا ہے۔ جیفری کے مغالطوں پر مزید بحث آخر پر آئے گی۔

(۲۰) بعد میں عربی زبان کے املاء وہجا کے قواعد میں مزید علمی ارتقا ہوا تو قرآن کریم میں اس طرح خلاف ِقاعدہ اور غیرمتعارف املاء کے ساتھ لکھے جانے والے الفاظ کی حکمت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض اہل علم نے‘ جن میں ابن خلدون جیسا نمایاں نام بھی شامل ہے‘ یہ نظریہ پیش کیا کہ صحابہؓ کے زمانے تک عربی زبان کی کتابت و املاء کے قواعد بالکل مبتدیانہ تھے اس لیے وہ بعض الفاظ کو ’’غلط املاء‘‘ کے ساتھ لکھتے رہے۔ قرآن کریم میں بلحاظ رسم ایسے خلاف قاعدہ الفاظ کی حکمتوں سے قطع نظریہ حقیقت بھی اس نظریہ کی تردید کے لیے کافی ہے کہ اپنے سارے ارتقاء کے باوجود آج بھی عربی زبان میں متعدد الفاظ کے خلافِ قاعدہ املاء موجود ہے مگر اسے چودہ سو سال سے رائج چلے آنے کی سند حاصل ہے‘ اس لیے ایسے الفاظ کو قواعد کے مطابق لکھنے کی کوشش غلطی شمار ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے اس مخصوص رسم الخط میں پوشیدہ حکمتوں پر مختلف کتابوں میں اس قدر مواد موجود ہے کہ یہ ایک مستقل تالیف کا موضوع بن سکتا ہے۔ علامہ تمنا عمادی کی (انتہا پسندانہ اور مغالطہ آمیز آراء سے شدید اختلاف کے باوجود اس موضوع پر ان کی )کتاب اعجاز القرآن کے ص ۵۶‘۶۰ کے پڑھنے کی دعوت دی جا سکتی ہے۔

(۲۱) برسبیل تذکرہ یہاں یہ بیان کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر وخیال میں اختلافی مسائل میں شدت‘ اور اختلاف سے بڑھ کر مخالفت ‘ کا رنگ پیدا کرنے میں ان طالع آزما انشاپردازوں اور عوامی تقریر بازوں کا بڑا دخل ہے جو علمی مجالس سے مختص کلامی اور علمی مسائل کو پبلک جلسوں میں اور صحافت کے چوراہے پر موضوع بحث بنا کر کم علم عوام کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

(۲۲)پوری امت کو از سر نو ’’نیا قرآن‘‘ پڑھانے کے لیے نہیں بھیجے تھے —-اور نہ ایسا ممکن ہی تھا۔

(شائع کرد سہ ماہی حکمتِ قرآن ۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ بانی مرکزی انجمن خدام القرآن)