اسلام کا نظامِ عدل و احسان اور برائیوں کا انسداد
سورۃ النحل کی آیت ۹۰ کی روشنی میں
پروفیسر حافظ احمد یارؒ

استاذ مکرم حافظ احمد یار صاحب مرحوم و مغفور نے یہ مقالہ وزارت ِ مذہبی امور حکومت ِ پاکستان کے زیر اہتمام بارہویں قومی سیرت کانفرنس منعقدہ ۱۲۔۱۳ ؍ربیع الاول ۱۴۰۹ھ (بمطابق ۲۵۔۲۶؍اکتوبر۱۹۸۸ء) میں پیش کیا تھا۔ اس پر وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے محترم حافظ صاحب کو قومی سطح کے اوّل مقالہ نگار کے اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا اور طلائی تمغہ‘ سند امتیاز اور نقد انعام سے نوازا گیا۔ (ادارہ)

اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

{اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَــآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَـعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَ){النحل14)

ِعنوان کے مقتضیات اور مضمرات کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بطور تعارف اس کا ترجمہ پیش کر دیا جائے:’’بے شک اللہ حکم فرماتا ہے عدل (و انصاف) کا ‘ احسان (اور بھلائی) کا اور قرابت داروں کو دینے کا ‘اور منع فرماتا ہے  بے حیائی سے‘ ناپسندیدہ (کاموں) سے‘ اور ظلم (و زیادتی) سے۔ وہ تم کو سمجھاتا ہے اُمید ہے کہ تم یاد رکھو گے۔‘‘(۱)زندگی (انفرادی ہو یا اجتماعی) کی سلامتی اور کامیابی کے لیے چند بنیادی واجبات  اور ممنوعات  کا تعین کیے بغیر چارہ نہیں۔ اور ’’مفرد اوامر‘‘  کے اس مجموعے کا حسن و کمال اس بات میں ہوتا ہے کہ وہ اختصار اور جامعیت پر مبنی ہو۔ اور اسی اختصار اور جامعیت کا حیرت انگیز امتزاج اس آیۂ کریمہ میں نظر آتا ہے۔ کہنے کو صرف تین اوامر اور تین ہی نواہی کے عنوان بیان ہوئے ہیں۔ مگر ایک ایک عنوان اتنا جامع ہے اور زندگی کے اتنے مسائل اور اتنے گوشوں پر حاوی ہے کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے‘ اور بجا طور پر یہ آیت ایک مستقل تالیف کی محتاج ہے۔ (۲)‘جو اس آیت کے موضوع کی اہمیت اور اس کے الفاظ کی جامعیت پر دلالت کرتے ہیں —- اور جن کو بقول امام فخر الدین رازی اس آیت کے فضائل کہہ سکتے ہیں۔ (۳) اس قسم کی آراء اور اقوال اگر آیت میں بیان کردہ اوامر اور نواہی کی تفصیل و تفسیر کے بعد لکھے جائیں [جیسے الطبری‘ الزمخشری اور الآلوسی نے کیا ہے] تو یہ ایک تبصرہ اور جائزہ کا کام دیتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو شروع میں بیان کر لیا جائے [جیسا کہ مثلاً الرازی اور المراغی نے کیا ہے] تو یہ چیز مضامین آیت کے فہم کے لیے تشویق اور ذہنی آمادگی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم ابتداء ً ہی اختصار کے ساتھ اس قسم کی روایات اور واقعات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:(۱) صاحب کشف الاسرارنے ایک حدیث نقل کی ہے کہ خود آنحضورﷺ نے ایک دفعہ فرمایا: }جماع التقوی فی القرآن — ثم تلا ھذہ الآیۃ —کہ قرآن میں تقویٰ کے بیان پر سب سے جامع آیت —- (یہ) —- ہے ۔اور پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔‘‘ (۴) (۲) جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا اس آیت کے بارے میں یہ قول‘ —الفاظ کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ‘ — قریب قریب ہر مفسر نے بیان کیا ہے کہ}’’اجمع آیۃ فی القرآن للخیر والشر ھذہ الآیۃ‘‘” یعنی قرآن کریم میں بھلائی اور برائی کے بیان میں سب سے جامع آیت یہی ہے۔(۵) (۳) آیت کی جامعیت کے بارے میں اس سے ملتا جلتا ایک قول امام الحسن ابن علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (۶) (۴) قریش کے مشہور سردار الولید بن المغیرۃ (جسے اسلام سے سخت عداوت تھی) کے بارے میں عکرمہ تابعیؒ کے حوالے سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ جب آنحضورﷺ نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی تو اس نے دہرانے کو کہا ۔دوبارہ سہ بارہ سنا اور سر دھنتے ہوئے بولا }:’’واللّٰہ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ… الخ‘‘(بخدا اس میں عجیب شیرینی ہے اور اس میں عجیب تروتازگی ہے… الخ) (۷) اگرچہ وہ مسلمان پھر بھی نہ ہوا۔ (۵) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو شیبان بن ثعلبہ کے سردار مقرون بن عمرو نے جب آپﷺ سے یہ آیت سنی تو بے اختیار کہہ اٹھا: }’’دعوتَ واللّٰہ الی مکارمِ الاخلاق و محاسنِ الاعمال ولقد افک قوم کذّبوک وظاھروا علیک‘‘(بخدا آپ تو مکارمِ اخلاق اور محاسنِ اعمال کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے آپؐ ‘کو جھٹلایا اور آپؐ ‘کی مخالفت پر تل گئے ہیں ان کی تو مت ماری گئی ہے) (۸) (۶) اکثم بن صیفی (جس کا شمار عرب کے بڑے داناؤں میں ہوتا تھا) نے اپنے دو آدمی خاص طور پر آنحضورﷺ کے پاس بعض معلومات کے لیے بھیجے۔ ان آدمیوں نے یہ آیت سنی اور دہرا دہرا کر یاد کر لی۔ واپس جا کر(دوسری باتوں کے علاوہ) جب اکثم کو یہ آیت سنائی تو اس نے کہا :{’’انی لاراہ یامر بمکارم الاخلاق وینھی عن مذامّھا فکونوا فی ھذا الامر راسًا ولا تکونوا اذنابًا‘‘}“(میں دیکھتا ہوں کہ وہ (پیغمبرؐ) تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتا ہے اور تمام کمینہ اور گھٹیا اخلاق و اعمال سے روکتا ہے۔ اور پھر اپنے لوگوں سے کہا تم اس سلسلہ میں سربنو اور دُم نہ بنو۔ یعنی تم اس کے ماننے میں جلدی کرو‘ پیچھے نہ رہ جاؤ)۔ (۹) چنانچہ وہ اپنے سو آدمیوں کے ساتھ قبولِ اسلام کے لیے مدینہ روانہ ہوا مگر راستے میں فوت ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کیا اور یہ واقعہ سنایا تو اسی کے بارے میں آیت : }{وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَـیْـتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ} (النساء:۱۰۰)“نازل ہوئی تھی۔(۱۰)
(۷) مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ اصحابِ سیر اور مفسرین نے بیان کیا ہے کہ کس طرح یہی آیت ان کے دل میں ایمان کے اترنے اور آنحضرتﷺ کی محبت پیدا کرنے کا سبب بنی۔ وہ محاسنِ اخلاق کے دلدادہ تھے اور اس آیت کی تعلیم نے ان کو بہت متأثر کیا۔ البتہ کتابوں میں واقعہ کی تفصیلات مختلف طرح سے بیان ہوئی ہیں۔ (۱۱)(۸) قتادہ تابعی ؒ‘کا ایک طویل قول بھی بہت سے مفسرین نے بیان کیا ہے ‘جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام اخلاقی محاسن کا حکم دیا ہے جسے عرب جاہلیت میں بھی محاسن شمار کرتے تھے اور ان تمام رذائل سے منع کیا ہے جن کو جاہلیت میں بھی مذموم سمجھا جاتا تھا۔ (۱۲) مندرجہ بالا روایات میں یہ جو ’’اخلاقی حس‘‘ کو اپیل کرنے والی بات ہوئی ہےاس سے ایک تو اس آیت کی تعلیمات کی آفاقیت اور عالمگیریت کا پتہ چلتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ عربِ جاہلیت میں ساری خرابیوں کے باوجود مکارمِ اخلاق کی عظمت اور محبت موجود تھی۔ اس موضوع پر کتب ِسیرت کے مؤلفین نے: ’’حضورﷺ کی بعثت عرب میں کیوں ہوئی؟‘‘ کے عنوان سے بات کی ہے ۔یہاں صرف اتنا بتا دینا مقصود ہے کہ ابتدائی مسلمانوں میں سے بیشتر زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی مکارمِ اخلاق سے مزین تھے۔ فی الواقع مکارمِ اخلاق (جو آیت زیب ِعنوان کا مموضوع ہے) نبوت سے اکتسابِ فیض کی شرط بھی ہیں اور علامت بھی۔(۹) خلیفہ ٔراشد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒنے خطبہ ٔجمعہ کے آخر میں بالالتزام اس آیت ِمبارکہ کے پڑھے جانے کا حکم دیا تھا۔ اس زمانے سے آج تک یہ آیت دنیائے اسلام کے ہر حصے میں خطبہ ٔجمعہ کے ایک جزء کی حیثیت سے پڑھنے کا رواج چلا آتا ہے‘اور دنیا میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان کم از کم ہفتہ میں ایک دفعہ (بروز ِجمعہ) مسجد کے منبر سے یہ آیت سنتے ہیں ۔مگر اس کے معانی سے آگاہی حاصل کرنے اور اپنے کردار کو اس آیت کے آئینے میں دیکھنے —–بلکہ ایک طرح سے اس ہفتہ وار ’’یاد دہانی‘‘ کے باوجود اپنی پڑتال آپ یعنی محاسبہ ٔ‘نفس کرنے —–پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ع رہ گئی رسمِ اذاں رُوحِ بلالی نہ رہی!

حکومت پاکستان نے سیرتِ طیبہ کی مناسبت سے اور((بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ))کی رعایت سے اس آیت مبارکہ کو بطور موضوع منتخب کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ خدا کرے یہ مقالاتِ سیرت قوم کے اندر اس آیت کی روح کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے محرک ثابت ہوں۔ اس تمہید اور تعارفِ آیت کے بعد اب ہم ذیل میں اس آیہ ٔ کریمہ میں بیان کردہ اوامر و نواہی کے معانی اور مفاہیم کے بارے میں اہل علم کے اقوال و آراء کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:{ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَــآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی}آیت کی ترتیب کے مطابق پہلے ہم ان تین اوامر یا واجبات کی بات کرتے ہیں۔ یعنی عدل‘ احسان اور ایتائِ ذی القربیٰ کی۔ (۱) العدل: عدل کے بنیادی لغوی معنی برابری اور مساوات کے ہیں اور ان معنوں کے لحاظ سے ہی قرآن میں آیا ہے: { وَھُمْ بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُـوْنَ} (الانعام۶)’’وہ اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں یعنی شرک کرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح :{ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا} (المائدۃ:۹۵)’’یا اس کے برابر یا اس کے عوض روزے رکھنا۔‘‘ وغیرہ۔ ان بنیادی معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے مفسرین نے عدل کی تعریف اس طرح کی ہے: (۱) ھو التوسط بین طرفی النقیض ۔ وھو ضد الجور(۱۳)<’’دو مخالف انتہائوں کے درمیان ٹھیک یعنی یکساں فاصلے پر ہونا۔ اور اس کی ضد ’’جور‘‘ ہے ‘جس کے معنی ہیں ایک طرف مڑ جانا‘‘۔(۲)ھو مراعاۃ التوسط بین طرفی الافراط والتفریط ۔ وھو رأس الفضائل(۱۴)’’افراط و تفریط (انتہائی کمی اور انتہائی بیشی) کے درمیان (رہنے کا) خیال رکھنا‘ اور یہ چیز (عدل) تمام فضائل کی ’’جڑ‘‘ ہے۔‘‘(۳) ھو التوسط والتسویۃ فی الحقوق فیما بینکم وترک الظلم وایصال کل ذی حق حقہ(۱۵) ’’یعنی باہمی حقوق میں ٹھیک ٹھیک انصاف اور برابری ملحوظ رکھنا اور ہر حق دار کو اس کا حق پہنچانا اور ظلم نہ کرنا‘‘۔(۴) ھو ایتاء حقوق الخلق کلھم (۱۶)’’یعنی تمام مخلوق کے حقوق بے لاگ طریقے سے دینا‘‘۔(۵) الانصاف بین الخلق والتعامل بالاعتدال الذی لیس فیہ میل ولا عوج(۱۷)’’مخلوق میں انصاف کرنا اور ایسے اعتدال و توازن کے ساتھ معاملہ کرنا جس میں کسی قسم کا جھکائو یا کجی اورٹیڑھ نہ ہو‘‘۔(۶) ھو ان یُنصف وینتصف(۱۸)’’(عدل) یہ ہے کہ انصاف دے بھی اور انصاف لے بھی ۔ یعنی نہ کسی پر ظلم کرے نہ اپنے اوپر ظلم ہونے دے‘‘۔(۶) ھو ایصال الحق الی مستحقہ وھو وضع الشیء فی محلہ وھو میزان اللّٰہ فی الارض (۱۹)’’حق کو حق دار تک پہنچانا اور ہر چیز کو ٹھیک اس کی جگہ پر رکھنا اور یہ (عدل) زمین میں گویا اللہ کی ترازو ہے‘‘۔یوں تو لفظ ’’عدل‘‘ اردو میں بھی متعارف ہے ‘تاہم عموماً اس کا ترجمہ ’’انصاف‘‘ یا ’’اعتدال‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور دونوں میں قدرِ مشترک افراط و تفریط سے بچنااور ٹھیک درمیانی راہ اختیار کرنا ہے ۔ خیال رہے کہ لفظ انصاف اردو میں ’’تنصیف‘‘ (نصف نصف کر لینا) کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ انگریزی لفظ (Justice) کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ عدل بمعنی انصاف کرنا کی ایک صورت تو یہ ہے کہ جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کے ساتھ اتنی نیکی ضرور کرو جو اس سے کم نہ ہو ‘اور جو تم سے برائی کرے اس کے ساتھ صرف اتنی ہی ’’برائی‘‘ کر لو‘ اس سے زیادہ مت بڑھو۔ یعنی نیکی کرنے والے کے ساتھ ویسی ہی نیکی کرنا اور برائی کرنے والے کے ساتھ ویسی ہی برائی کرنا۔ یہ بھی عدل ہے اور حلال ہے۔(۲۰) بفحوائے آیہ:{وَجَزٰٓؤُا سَیِّـئَۃٍ سَیِّـئَۃٌ مِّثْلُھَا} (الشوریٰ:۴۰)یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی (جائز) ہے۔اور یہی مضمون[البقرۃ:۱۹۴‘ النحل:۱۲۶ اور الشوریٰ: ۴۱ میں بھی ہے]تاہم فضیلت ’’احسان‘‘ کی ہے جس کا ذکر ابھی آگے آئے گا۔اور عدل و انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ کسی سے برائی نہ کی جائے ‘نہ قولی ‘نہ فعلی‘ نہ ظاہری ‘نہ باطنی۔ ہر شخص کو اس کے حقوق پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ انصاف ایک طرح سے پوری انسانیت کی امانت ہے جسے بلاتمیز و استثناء ہر ایک حق دار تک پہنچانا چاہیے۔ قرآن کریم میں عدل کی بلند ترین صورت کو ’’قسط‘‘ بھی کہا گیا ہے ‘جس کا اردو ترجمہ’’ٹھیک ٹھیک انصاف کرنا‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس ’’ٹھیک ٹھیک انصاف ‘‘ کرنے والوں(مُقْسطین)کا اللہ کے محبوب بندے ہونے کا ذکر قرآن کریم میں ایک سے زیادہ جگہ آیا ہے‘ یعنی { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ4} (المائدۃ:۴۵‘ الحجرات:۹ اور الممتحنۃ:۸)۔اس کے علاوہ قرآن کریم عدل اور قسط کی طرف کئی طریقوں سے توجہ دلاتا ہے۔ مثلاً: (۱) کہیں تو بصیغہ ٔ امر حکم دیا گیا ہے ‘جو وجوب کا مقتضی ہوتا ہے۔ جیسے{وَاَقْسِطُوْا} (الحجرات:۹)’’قسط سے کام لو‘‘ اور{اِعْدِلُوْاقف}(المائدۃ:۸)یعنی ’’عدل سے کام لو‘‘۔ اور{وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا} (الانعام:۱۵۲)کہ بولنے میں بھی عدل سے کام لو۔ (۲) بعض جگہ ’’کہیں بے انصافی نہ کر بیٹھو‘‘ کی صورت میں خطرے سے آگاہ کیا گیا ہے ‘جیسے :{ فَـلَا تَـتَّبِعُوا الْھَوٰی اَنْ تَعْدِلُوْا} (النساء:۱۳۵)’’خواہشات کے پیچھے مت لگو کہیں عدل سے نہ ہٹ جاؤ‘‘ اور{لاَ یَجْرِمَنَّـکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا} (المائدۃ:۸)’’کسی گروہ کی رنجش تم کو بے انصافی پر آمادہ نہ کرنے پائے۔‘‘ (۳) اور کہیں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت عدل اور قسط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کا دو ٹوک حکم دیا گیا ہے۔ جیسے:{وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ } (النساء:۵۸)’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘ اور{وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ } (المائدۃ:۴۲)’’کہ جب تو فیصلہ دے تو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ فیصلہ دے‘‘ وغیرہ۔
اسلامی حکومت میں عدلیہ کی بنیاد اور اس کے اختیارات اسی ’’انصاف کے سامنے سب برابر‘‘ کے اصول پرمبنی ہونے چاہئیں۔ کتب ِ حدیث میں عادل حاکم اور قاضی (جج) کی تعریف اور اس کے اجر کے متعلق‘ اوراس کے مقابلے پر ظالم اور جابر حاکم اور خائن و بے انصاف قاضی(جج) کی مذمت اور اس کی اُخروی سزا کے بارے میں مستقل ابواب ہیں ‘جن کی تفصیل کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ اور ’’عدالتی معاملات‘‘ کے علاوہ بھی کسی شخص یا اشخاص کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت ‘ کوئی رائے دیتے وقت بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ مسلمانوں کے دو متخاصم اور برسرپیکار گروہوں میں اوّل تو صلح کرانے کا‘ ورنہ اہل حق کا ساتھ دے کر دوسرے فریق کو صلح پر مجبور کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اب اس ’’مجبوری‘‘ کی صلح میں بھی پائیدار صلح اور دیرپا امن کی خاطر اس صلح کا عدل و قسط پر مبنی ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ یہ پورا مضمون سورۃ الحجرات کی آیت ۹ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے ۔ اور اس میں آخر پر کہا گیا ہے:{فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا} یعنی ’’ان کے درمیان صلح کرائو عدل و قسط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔‘‘قرآن کریم نے جہاں عدل قائم کرنے اور عدل سے کام لینے کے احکام دیے ہیں وہاں ان مقامات کی بھی نشان دہی کر دی ہے جہاں عدل اور قسط سے انحراف کے محرکات یا امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً: (۱) یہ کہ عدل و قسط کے معاملات میں اپنے ذاتی مفادات‘ یا اپنے عزیزوں (والدین اور اقارب) کے مفادات یا امیری غریبی کے طبقاتی جذبات کو آڑے نہ آنے دو۔ یہی مضمون اس آیت میں بیان ہو ا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ١٣٥؁ } (النساء۱۳۵)
ہم بخوفِ طوالت اس کا ترجمہ چھوڑ رہے ہیں ‘ویسے اس کا نفس مضمون اوپر بیان ہو چکا ہے۔ (۲) اور شاید اس قسم کے مفادات کو بھی آدمی انصاف کی خاطر نظر انداز کر لے۔ مگر اس سے بھی مشکل مرحلہ یہ ہے کہ آدمی کو جس سے کوئی رنجش یا دشمنی ہو اس کے بارے میں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں سے غافل نہ ہو۔ اس کے لیے قرآن کریم میں فرمایا گیاہے:
{… يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَققْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ {(المائدۃ)۸ ’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو بے انصافی پر آمادہ نہ کرے۔ انصاف کرو ‘یہ تقویٰ سے قریب تر ہے ‘اور اللہ سے ڈرو ‘اُسے تمہارے اعمال کی خبر ہے۔‘‘ اور اگر عدل بمعنی’’اعتدال پر قائم ہونا‘‘ کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کے تمام عقائد اور احکام اعتدال اور توازن کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عقائد میں عقیدئہ توحید ’’انکار ِ خدا‘‘ اور ’’شرک‘‘ (کئی خدا بنانا) کی افراط اور تفریط کے درمیان ایک نقطہ ٔ عدل ہے ‘اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس آیت(النحل:۹۰)میں عدل سے مراد ہی توحید لی ہے۔ (۲۱) اعمال اور تکالیف (احکامِ شریعت) میں بھی یہی اصولِ اعتدالِ کارفرما نظر آتا ہے۔ روح اور جسم میں سے کسی کی ضروریات کو نظرا نداز نہیں کیا گیا ‘بلکہ ہر معاملے میں’’رعایۃ العدل والوسط‘‘کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اسلام میں نہ مطلقاً اباحت ہے اور نہ منع طیبات ہے۔ دُنیاوی خواہشات اور جسمانی لذائذ میں غرق ہونے سے روکا گیا ہے ‘مگر دُنیا بالکل ترک کرنے (رہبانیت) کا حکم بھی نہیں دیا گیا۔اقتصادیات میں فضول خرچی اور بخل کے درمیان راہِ اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔[یہ مضمون سورۃالاسراء:۲۹ اورالفرقان:۶۷ میں تفصیل سے بیان کیا ہوا ہے ‘مگربخوفِ طوالت اس کی طرف صرف اسی اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں۔] اور یہی وہ توازن و اعتدال کی راہ ہے جس کی بنا پر اُمت ِمسلمہ کو ’’اُمت ِوسط‘‘ کہا گیا ہے:{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا} (البقرۃ:۱۴۳) اللہ کے قانون تشریعی کی مانند اللہ کا قانونِ تکوینی بھی عدل و اعتدال پر مبنی ہے۔ اسی لیے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ’’بالعدل قامت السمٰوات والارض‘‘(۲۲) کہ کائنات عدل کی بنا پر قائم ہے۔ کائنات کے طبیعی قوانین میں توازن و اعتدال پر سائنس دانوںکے انکشافات اور اعترافات کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں رہے۔ اور غالباً{وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ} (الرحمٰن۷) میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور جس طرح یہ کائنات (عالم تکوینی) ایک نظامِ عدل و اعتدال اور تناسب و توازن پر قائم ہے اسی طرح انسانی معاشرے میں اسلام کا تشریعی نظامِ عدل برپا کرنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر معاشرے کی بیماریاں اور خرابیاں ختم نہیں ہو سکتیں بلکہ اس کاوجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے‘ اور کاروبارِ حکومت تو عدل کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ ’’کفر و شرک کے ساتھ حکومت برقرار رکھنا ممکن ہے مگر عدل کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔ بلکہ علامہ طنطاوی (جوہری) نے تو افلاطون کی ’’جمہوریہ‘‘ کے حوالے سے یہ لطیفہ بھی بیان کیا ہے کہ ’’باہمی عدل و انصاف‘‘ کے بغیر تو چوروں کا ایک جتھا بھی نہیں چل سکتا‘ تو اقوام و اُمم اور اجتماع و معاشرہ کا کیا حال ہے؟ (۲۳)
پس اس آیۂ مبارکہ کی روشنی میں مسلم معاشروں کے اندر عدلِ اجتماعی کا ایک ایسا نظام نافذ کرنا ضروری ہے جس میں ہر فرد کے لیے حصولِ انصاف‘ حصولِ تعلیم اور حصولِ معاش کے یکساں مواقع میسر ہوں اور جس میں ہرقسم کے استحصال کے امکانات کا راستہ مسدود کر دیا جائے۔ اس لیے کہ عدل ہی حکومت کی بنیاد‘ معاشرے کی روح اور تہذیب و تمدن کی جان ہے۔ (۲۴) انسانی شخصیت کا حسن و کمال ہو یا انسانی معاشرے کا شرف و استحکام سب اسی قانونِ عدل اور توازن و اعتدال کے ساتھ وابستہ ہیں۔
(۲) الاحسان: یہ دوسرا ضروری حکم ہے جو آیت میں دیا گیا ہے۔ لفظ احسان باب افعال کا مصدر ہے جو متعدی بنفسہٖ بھی استعمال ہوتا ہے اور متعدی بصلہ [’’با‘‘ (بِ) یا ’’اِلٰی ‘‘کے ساتھ]بھی۔ عربی افعال اور خصوصاً مصادر میں یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ بغیر ’’صلہ‘‘ کے آ رہے ہوں تو ان میں دونوں معنی [صلہ کے ساتھ والے اور صلہ کے بغیر والے] کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مثلاً : (۱) ’’احسان‘‘ بغیر صلہ کے ’’اتقان‘‘ کے معنوں میں آتا ہے‘ یعنی ’’کوئی کام خوب اچھی طرح اور حسن و خوبی کے ساتھ کرنا‘‘۔ قرآن کریم میں یہ فعل ان معنوں میں کئی جگہ آیا ہے ‘مثلاً:{اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَـقَہٗ} (السجدۃ:۷)‘ { اِنَّـہٗ رَبِّیْ اَحْسَنَ مَثْوَایَ } (یوسف:۲۳)‘ {اِتَّــبَــعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ} (التوبۃ:۱۰۰)‘ { وَاَدَائٌ اِلَـیْہِ بِاِحْسَانٍ} اور{ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ} (البقرۃ:۱۷۸‘۲۲۹) وغیرہ۔ ان سب مقامات پر لفظ احسان’’ عمدہ طریقے پر‘‘۔ ’’اچھی طرح سے‘‘ کے معنوں میں ہی آیا ہے —- اور (۲) جب یہ فعل ’’احسان‘‘ ’’با‘‘ (بِ) یا ’’اِلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا اور کسی کے ساتھ بھلائی کرنا‘‘۔ اس طرح اس میں عدل سے بڑھ کر ’’ایثار‘‘ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ اور ان ہی معنوں میں ’’والدین‘‘ کے ساتھ ’’احسان‘‘ کا حکم قرآن کریم میں پانچ جگہ آیا ہے :[البقرۃ:۸۳‘ النساء:۳۶‘ الانعام:۱۵۱‘ الاسراء:۲۳ اور الاحقاف:۱۵ —اسلوب اور الفاظ کا فرق ہے مگر مفہوم ہر جگہ پر ایک ہی ہے۔] بلکہ سورۃ النساءکی آیت ۳۶ میں تو والدین کے ساتھ دوسرے قرابت داروں‘ یتیموں ‘مسکینوں‘ پڑوسیوں‘ مسافروں‘ ساتھیوں اور ماتحتوں کو بھی اس حکم احسان میں شامل کر لیاگیا ہے۔ پوری آیت یوں ہے: ِ {وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا36؀ۙ } اہل علم نے آیہ ‘ٔ زیر مطالعہ میں لفظ ’’احسان‘‘ کے ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ہم دونوں کا الگ الگ بیان کرتے ہیں۔ (یعنی احسان بمعنی اتقان۔ اور احسان بمعنی معروف)(۱) احسان بمعنی اتقان [کسی کام کو بحسن و خوبی سرانجام دینا] کے لحاظ سے احسان کی وضاحت یوں کی گئی ہے:(i)الاحسان ھو احسان الاعمال والعبادۃ والاتیان علی الوجہ اللائق(۲۵) یعنی ’’اعمال و عبادات بطریق احسن سرانجام دینا۔ محض خانہ پری پر اکتفاء نہ کرنا۔‘‘
(ii)
الاحسان ھو اداء الفرائض اعتبارا متعدیا بنفسہ (۲۶) ’’متعدی بنفسہ فعل سمجھتے ہوئے احسان کا مطلب اداء فرائض (بطریق احسن) ہے‘‘۔
اور اسی بنا پر امام رازی نے احسان سے مراد’’الاخلاص فی التوحید‘‘یعنی خالص اور ستھری توحید مراد لی ہے۔(۲۷) اور حدیث جبریل ؑ کے الفاظ((اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَـمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہٗ یَرَاکَ))(۲۸)[(یعنی احسان یہ ہے) کہ تو اللہ کی عبادت یوں کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ ورنہ یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے]کو بھی انہوں نے احسان کے ان ہی معنوں پر محمول کیا ہے۔ یعنی ’’بلحاظِ کیفیت و کمیت کمالِ حسن عبادت‘‘۔الاستغراق فی شھود مقامات العبودیۃ والربوبیۃ(۲۹)اور ابن العربی نے ان ہی معنوں کی وضاحت یوں کی ہے : ’’مشاھدۃ الحقّ فی کل حال۔ والیقین بانہ یراک فلیس من الادب ان تعصیَ مولاک بحیث یراک‘‘ (۳۰)یعنی ’’ہرحال میں حق کو نگاہ کے سامنے رکھے اور یقین ہو کہ مالک دیکھ رہا ہے تو پھر اس کے دیکھتے ہوئے کوئی نافرمانی کرنا تو شدید بے ادبی ہے‘‘۔ اور اسی معنی کے لحاظ سے کہ جس عمل میں اتقان و احسان نہیں وہ عمل ِحسن نہیں ہے [من لم یُحسن ولم یُتقن عملَہ فلیسَ عملُہ حسنا] —-کی بنا پر بعض اہل ِعلم نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ اس احسان (اپنے عمل میں خوبی پیدا کرنا) کا دائرہ پوری زندگی اور ہر شعبہ ٔحیات کو محیط ہے۔ لہٰذا ‘احسان فی العبادات والطاعات اور احسان فی المعاملات کی طرح مسلمان کے لیے احسان فی الصناعات بھی اس میں شامل ہے۔ (۳۱)یہ حکم احسان مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی صنعت و حرفت‘ انڈسٹری اور ٹیکنالوجی میں بھی معیار کی بلندی (quality)پر زور دیں۔ اپنی تعلیم گاہوں کو ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کریں اور تعلیم کو صحیح معنوں میں لیاقت پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ دفتری نظام کو مثالی بنایا جائے ‘ وغیرہ۔ الغرض ہر کام میں efficiencyاور حسن کارکردگی یقینا اس آیۂ کریمہ کے حکم میں داخل ہے۔ َ (۲) اور احسان جب متعدی بصلہ ہو تو اس کے معنی کی وضاحت یوں کی گئی ہے :(i) ’’نکوئی در حق دیگراں و رفاہِ مردم‘‘ یعنی ’’دوسروں کے حق میں بھلائی اور انسانوں کی بہبود‘‘۔(ii)

ھوالتفضل بان یقابل الخیر باکثر منہ والشر بان یعفو عنہ (iii)
ھو ان یُنصف ولا ینتصف(۳۴)یعنی انصاف دے مگر انصاف لے نہیں ۔یعنی دوسرے کو پورا پورا حق دے مگر خود اپنے حق سے کم تر پر راضی ہو جائے۔ (iv)احسان یہ ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ نیکی کی اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر نیکی کرو اور جس نے تمہارے ساتھ برائی کی اس کے ساتھ بھی نیکی کرو۔(۳۵) احسان میں فیاضانہ برتائو‘ رواداری اور عالی ظرفی کے عناصر بھی شامل ہیں اور یہ عدل سے اونچا درجہ ہے اور اس کی اہمیت بھی اجتماعی زندگی میں عدل سے زیادہ ہے۔ (بقول مودودی صاحب ؒ‘’’عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا حسن اور کمال ہے۔ اور عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوشگواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے‘‘۔(۳۶) جہاں اللہ تعالیٰ نے عدل (بمعنی ’’برابر کی برائی‘‘)کی اجازت دی ہے وہاں احسان کی تعریف کی ہے‘ مثلاً:{فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ } (الشوریٰ:۴۰)اور{ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۴۱} (الشوریٰ)
اور{ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّـئَۃَ} (المؤمنون:۹۷)
اور ایک حدیث میں یہ قول حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ ’’الاحسان ان تحسن الی من اساء ک ولیس الاحسان ان تحسن الی من احسن الیک(۳۷) یعنی ’’احسان تو یہ ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ نیکی کرو ۔ اچھے سلوک کا اچھا بدلہ تو کوئی احسان نہ ہوا‘‘۔ یہ چیز مراتب احسان میں سے سب سے اونچا درجہ ہے۔اور شاید اسی لیے امام فخر الدین رازی نے کہا ہے کہ احسان میں ’’ التعظیم لامر اللہ‘‘ اور’’ الشفقۃ علی خلق اللہ‘‘ دونوں ہی شامل ہیں۔ (۳۸) اور ان ہر دو معنی [کام حسن و خوبی سے کرنا اور کسی سے حسن سلوک کرنا]کے لحاظ سے قرآن کریم میں نہ صرف احسان کا حکم دیا گیا ہے بلکہ مختلف طریقوں سے اس کی فضیلت بیان کر کے اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ مثلاً:(۱) {سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ4} (البقرۃ:۵۸ اور الاعراف:۱۶۱) ’’ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔‘‘ (۲){اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ56} (الاعراف)’’ اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ (۳){اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ 4} (التوبۃ:۱۲۰‘ ھود:۱۱۵ اور ‘یوسف:۹) ’’یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں ہونے دے گا۔‘‘ (۴){ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ69} العنکبوت) ’’کہ محسنین کو اللہ کی معیت حاصل ہو گی۔‘‘ (۵)اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ :{اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ4} (آل عمران:۱۳۴‘۱۴۵‘ البقرۃ:۱۹۵‘ المائدۃ:۱۳‘۹۵) یعنی ’’بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔‘‘ الغرض حسن عمل‘ حسن کارکردگی‘ خدمت خلق‘ نفع رسانی‘ رفاہِ عامہ اور معاشرتی بہبود کا کوئی مثبت تصور اور عمل ایسا نہیں ہے جو اس لفظ ’’احسان‘‘ کے معنی میں شامل نہ ہو اور بجا طو رپر احسان کو ’’جامعٌ لکل خیر (۳۹) ’’سب بھلائیوں کا جامع‘‘ کہا گیا ہے‘ بلکہ قرآن کریم نے اس آیت(النحل:۹۰)کے ذریعے احسان کی تمام قسموں کو مامور بہٖ کر کے ان کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ کیونکہ مسلمان ’’الشفقۃ علی خلق اللّٰہ‘‘ کا ہر کام ’’التعظیم لامر اللّٰہ‘‘ کے جذبے اور نیت سے کرتا ہے ‘یا ایسا ہی کرنا چاہیے۔ (۳) ایتاء ذی القربیٰ یہ تیسرا حکم ہے جس کی پابندی اس آیت(النحل:۹۰)کی رو سے لازمی ہے۔ ایتاء ذی القربیٰ کے لفظی معنی ہیں :’’قرابت والوں کو دینا‘‘۔ مفسرین عموماً اس کے دو مفہوم بیان کرتے ہیں اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست ہیں ‘ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ پہلا مفہوم ہے قرابت داروں کو ان کا حق دینا:(۱) اعطاء ذی القربی الحق الذی اوجبہ اللّٰہ علیک(۴۰)یعنی’’ قرابت داروں کو وہ حق دینا جو اللہ تعالیٰ نے تجھ پر واجب ٹھہرایا ہے‘‘۔(۲) ھو اعطاء الاقارب حقھم (۴۱)یعنی ’’رشتہ داروں کو ان کا حق دینا۔‘‘ اور ان معنوں کی تائید قرآن کریم کی دو آیتوں سے ہوتی ہے‘ جن کے الفاظ قریباً یکساں ہیں:(۱) {وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ} (الاسراء:۲۶)اور(۲) {فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ} (الروم:۳۸)یعنی قرابت دار کو اس کا حق دو۔ اور اس لیے بھی کہ فعل ’’ایتاء‘‘ قرآن کریم میں صرف ’’دینا ‘‘ سے زیادہ ’’ادا کرنا‘‘ کے معنی میںاستعمال ہوا ہے‘ مثلاً:{اٰتُوا الزَّکٰوۃَ}
یعنی زکوٰۃ ادا کرو۔گویا یہ ادائے واجب ہے‘ عدل ہے‘ کوئی احسان نہیں ہے۔ دوسرا مفہوم :ایتاء ذی القربیکے دوسرے معنی ہیں رشتہ داروں کی مالی (یا دیگر) امداد کرنا۔ھو اعطاء الاقارب ما یحتاجون الیہ (۴۲)’’ قرابت والوں کی ضرورت کے مطابق مدد کرنا۔‘ ‘ یعنی قرابت والوں کے صرف قانونی حق ہی نہیں بلکہ جملہ اخلاقی‘ معاشرتی اور تمدنی حقوق ادا کرنا احسان ہے — اور ان معنوں کی تائید احسان کے بارے میں قرآنی آیات کے عموم کے علاوہ ان متعدد احادیث نبویہ سے ہوتی ہے جن میں صلہ رحمی پر زور دیا گیا [اور جن کے لیے کتب حدیث میں عموماً ایک مستقل ’’باب البرّ والصّلۃ‘‘ مختص ہوتا ہے اور جن کی تفصیل یہاں بخوفِ طوالت ممکن نہیں ہے۔] اور غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں مفہوم و معنی کے لحاظ سے’’اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی‘‘
کا حکم تو ’’عدل‘‘ اور ’’احسان‘‘ میں بھی شامل ہے۔ آیت میں اس کا الگ حکم اس پر خصوصی توجہ دلانے کے لیے دیا گیا ہے۔’’وَخَصَّ ذی القربی لانّ حقوقھم اوکد وصلتھم اوجب‘‘ (۴۳) یعنی قرابت داروں کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ ان کے حقوق کی زیادہ تاکید ہے اور ان سے صلہ رحمی زیادہ لازمی ہے۔ اپنے پہلے مفہوم (یعنی ادائِ واجب اور ادائِ حق) کے لحاظ سے یہ حکم’’ایتاء‘‘اس لیے خصوصاً قابل توجہ ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اجتماعی زندگی میں جھگڑوں‘ حق تلفیوں اور زیادیتوں کا آغاز اکثر قریبی رشتہ داروںکے درمیان ہوتا ہے۔ سگے بھائی بہنوں کے جائیداد کے جھگڑے کوئی غیر معروف بات نہیں ہیں۔ قرابت داروں کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لینا زیادہ توجہ طلب ہے۔ اس لیے کہ یہاں احسان تو کجا عدل و انصاف سے بھی انحراف کے امکانات اور مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اپنے دوسرے مفہوم (یعنی رشتہ داروں کی امداد) کے لحاظ سے یہ حکم’’ایتاء‘‘اس لیے اہم ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آدمی اپنے قرابت داروں میں سے مستحق اور ضرورت مند لوگوں کا تعین بہتر اور یقینی طریقے سے کر سکتا ہے‘ کیونکہ وہ سب کے حالات سے اچھی طرح آگاہ ہوتا ہے ۔اور یہ حکم اس لیے بھی اہم ہے کہ خاندان اور برادری کے پہلو سے مساوات کی بنا پر بعض دفعہ ایک غریب آدمی اپنے امیر رشتہ دار کے معاشرتی اور معاشی امتیاز کو ہیچ سمجھتا ہے اور اس سے مالی امداد طلب کرنا بلکہ قبول کرنا بھی اپنی عزتِ نفس کے خلاف سمجھتا اور اس میں اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ ایسے مستحق اور مُـتَـعَـفِّف افراد کی امداد کرنا جو امدا د کے لیے سوال نہیں کرتے بہت نازک اور دشوار کام بھی ہے مگر بہت بڑی نیکی بھی ہے۔[سورۃ البقرۃ:۲۷۳ میں یہی مضمون وضاحت سے بیان ہوا ہے۔] اور اسی لیے اسلام میں سب سے پہلے قریبی رشتہ داروں اور پھر پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا گیا ہے [تفصیل کے لیےسورۃ النساء: ۳۶ دیکھئے جواسی مقالے میں اوپر بیان ہو چکی ہے]۔ معاشرے میں احسان اور نفع رسانی کے فروغ کا فطری طریقہ ہی یہی ہے۔ اور خیال رہے کہ کسی بھی مفہوم کے لحاظ سے
اور ’’اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی‘‘ کے حکم کا تعلق محسوبیت یعنی خویش پروری اور اقربا نوازی (Nepotism)کے ساتھ نہیں ہے ‘ کیونکہ اس میں آدمی اپنے رشتہ دار کو اس کا کوئی حق نہیں دے رہا ہوتا ‘ بلکہ کسی دوسرے کا حق چھین کر اسے دے دیتا ہے‘ اور یہ تو سیدھا ’’منکر‘‘ اور ’’بغی‘‘ ہے [جس کے قطعی حرام ہونے کا ذکر اسی آیت زیر مطالعہ کے اگلے حصے میں آ رہا ہے۔] یہاں مقالہ نگار بطور خاص حکومت پاکستان کی توجہ اس طرف دلانا اپنا فرض سمجھتا ہے کہ ہمارا ایک ملکی قانون ’’اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی‘‘ کے اس قرآنی حکم کی خلاف ورزی کا باعث بن رہا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ زرعی ملکیت میں ایک خاص رقبہ (غالباً چھ ایکڑ) سے آگے مزید تقسیم کی ممانعت ہے۔ معاشی نقطۂ نظر سے یہ قانون یقینا مفید ہے‘ مگر چونکہ اس کے ساتھ فقہ اسلامی کا مسلمہ اصول تخارج شامل نہیں کیا گیا‘ اس کی وجہ سے بے شمار زور آور کھاتہ دار اپنے کمزور رشتہ داروں کی حق تلفی کرتے ہیں اور کمزور کے پاس اس کاکوئی مداوا نہیں‘ کیونکہ نہ تو وہ اپنا حصہ علیحدہ تقسیم کراسکتا ہے اور نہ اسے الگ فروخت کر سکتا ہے۔ اگر فقہ اسلامی کا اصولِ تخارج اس قانون کا جزء بنا دیا جائے تو اس حق تلفی اور استحصال کا (جو صریح منکر اور بغی ہے) سدباب ہوسکتا ہے۔ غالباً اب تک کسی نے حکومت کی توجہ ادھر مبذول ہی نہیں کرائی‘ ورنہ یہ کوئی مشکل علاج نہیں ہے۔ اور { وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ …} اب ہم اس آیۂ مبارکہ کے دوسرے حصے کو لیتے ہیں ‘جس میں تین مأمورات (اور واجبات) کے مقابلے پر تین ہی منہیات اور ممنوعات کا ذکر ہے۔ اور جس میں اللہ تعالیٰ نے فرد اور معاشرے کو برباد کرنے والی تین خرابیوں سے منع فرمایا ہے ‘یعنی الفحشاء‘ المنکر اور البغی — جن کی تفصیل یوں ہے۔

(۱) الفحشاء

عربی زبان میں فحش‘فاحشۃ (جس کی جمع فواحش آتی ہے) اور فحشاء تینوں قریب قریب ہم معنی کلمات ہیں۔ اور ان میں سے مؤخر الذکر دو لفظ قرآن کریم میں بکثرت مستعمل ہوئے ہیں۔ فحشاء (جو سرّاء اور ضَرّاء کی طرح مصدر بمعنی اسم ہے) کے لفظی معنی ہیں ہر وہ قول و فعل جس کا قبح (برائی) حد سے زیادہ ہو(۴۴)اور مفسرین نے ان ہی معنوں کو مختلف طریقوں سے سمجھایا ہے۔ ما عظم قبحہ ومفسدتہ (۴۵) یعنی ’’جس کاقبح اور فساد بہت زیادہ ہو‘‘۔ (۲) اور کل قبیح من قول او فعل وغایتہ الزنا (۴۶) یعنی ’’ہر انتہائی برا قول اور فعل ‘اور اس کی انتہائی صورت زنا ہے‘‘۔ اور (۳) الفواحش ما جاوز حدود اللہ (۴۷) یعنی ’’وہ تمام کام فواحش ہیں جن میں اللہ کی مقرر کردہ حدود سے صریح تجاوز ہو۔‘‘ اور (۴) الفحشاء ما یقصدہ الانسان فی نفسہ من القبیح مما لا یظھرہ(۴۸) یعنی ’’ہر وہ فعل قبیح جس کا انسان ارادہ کرتا ہے مگر اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (۵) فحشاء سے مراد وہ تمام برائیاں ہیں جو مروّت کو برباد کرتی اور بدنامی کاباعث بنتی ہیں۔(۴۹) ان مختلف اقوال کی روشنی میں تمام بے ہودہ اور شرمناک افعال فحشاء میں شمار ہوتے ہیں اور اسی لیے اس کا اردو ترجمہ ’’بے حیائی‘‘ اور ’’بے شرمی‘‘ کیا جاتا ہے۔ [انگریزی مترجمین نے بھی اس کا ترجمہ عموماً shameful deeds کیا ہے ‘مثلاً یوسف علی اور اسد] ۔ اور اس سے مراد زنا‘ بخل‘ زبان درازی‘ دشنام طرازی‘ تبرج اور برہنگی و عریانی وغیرہ لیے گئے ہیں۔ اور ان سب کے لیے جامع لفظ ’’بے حیائی‘‘ ہی زیادہ موزوں ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں فاحشہ ‘ فحشاء اور فواحش کے الفاظ زیادہ تر جنسی بے راہ روی کے ضمن میں استعمال ہوئے ہیں [ہم بغرض اختصار صرف متعلقہ آیات کے حوالہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً اور النساء:۱۵‘ ۲۵‘ الاعراف:۸۰‘ یوسف:۲۴‘ النور:۱۹‘ النمل:۵۴ اور العنکبوت:۲۸] بلکہ بہت سے مفسرین نے تو اس آیت اور(النحل:۹۰) میں فحشاء سے مراد زنا ہی لیا ہے۔ (۵۰) بہرحال تمام فواحش کا انسداد اور امتناع قرآن کریم کا ایک اہم موضوع ہے اور اس مقصد کی طرف کئی طریقوں سے توجہ دلائی گئی ہے ‘مثلاً: (۱) شخصی اور انفرادی سطح پر قرآن کریم نے ’’فحشاء‘‘ سے بچنے کا ایک مؤثر ذریعہ نماز کو قرار دیا ہے:اور{اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِط} (العنکبوت:۴۵) (۲) قرآن کریم نے فواحش کے قریب بھی نہ پھٹکنے کا حکم دیا ہے ‘نہ علانیہ اور نہ چوری چھپے۔ فرمایا:اور {وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ } (الانعام:۱۵۱) (۳) اسی طرح قرآن کریم میں فواحش کے علانیہ یا خفیہ ارتکاب کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے: اور { قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ} (الاعراف:۳۳) ان قرآنی احکام کی روشنی میں (جو آیت زیر مطالعہ کی تائید اور وضاحت کرتے ہیں) بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے والے ہر راستے کو بند کرنے کے لیے قانونی‘ تعلیمی اور انتظامی اقدامات کرنا‘ اور کم از کم —-ان چیزوں کی حوصلہ شکنی کرنا —-اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ فحشاء ایک متعدی بیماری ہے ۔ایک دفعہ شروع ہو جائے تو وبا کی سی تیزی سے پھیلتی ہے ۔اور انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مٹنے والی قوموں کے آخری دن ’’فواحش کی بہار‘‘ کے دن ہوتے ہیں —- ’’طائو س ورباب آخر!‘‘ (۲)

المُنکر

یہ لفظ بابِ افعال سے اسم مفعول ہے ‘جس کے لفظی معنی ہیں:(۱) جس کا انکار کیا جائے ‘یا جسے قبول نہ کیا جائے۔ اور(۲) جس سے جان پہچان نہ ہو۔ اسی بنا پر مفسرین نے ’’منکر‘‘ کی تعریف اور وضاحت یوں کی ہے: اور(۱) ما تنکرہ العقول (۵۱) ’’ جسے عقل بھی برا کہے‘‘۔ یعنی جسے عموماً سب لوگ برا جانتے ہوںیا ہمیشہ برا کہتے رہے ہیں۔
اور(۲) کل ما انکرہ الشرع بالنھی (۵۲) یعنی جس کے بارے میں شریعت سے انکار اور منع ثابت ہو۔ اور(۳) ما لا یعرف فی شریعۃ ولا سنۃ (۵۳) ’’جس کی شریعت اور سنت میں کوئی پہچان نہ ہو‘‘۔ یعنی اس کے جواز کا کوئی شرعی ثبوت نہ ملتاہو۔ (۴) جو کسی نبی کی شریعت میں جانا پہچانا نہ ہو ‘یعنی جس سے تمام شرائع الٰہیہ نے منع کیا ہو۔(۵۴) اور(۵) ما لا یوجب الحد فی الدنیا ولکن یوجب العذاب فی الآخرۃ(۵۵) جس کی دنیا میں کوئی شرعی سزا مقرر نہ ہو مگر آخرت میں باعث عذاب ہو۔ منکر کے تعین میں شریعت نے بڑی حد تک اجتماعی عقل انسانی پر بھروسہ کیا ہے ‘یعنی تمام وہ کام جو ہرمذہب و ملت میں برے اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں وہ منکرات ہیں۔ البتہ شریعت کے عمومی احکام سے منکر کی پہچان اور تمیز میں رہنمائی ضرور ملتی ہے‘ اور اس معاملے میں شریعت کی بالادستی تسلیم شدہ ہے (یعنی بصورتِ اختلافِ عقل و شرع) ۔ اور اسی بنا پر اردو مترجمین نے منکر کا ترجمہ ’’نامعقول کام‘‘ ‘ ’’برائی‘‘ ‘ ’’ناشائستہ حرکت‘‘‘ ’’ناپسندیدہ کام‘‘ اور ’’برے کام‘‘ کیا ہے ‘جس میں عقل و شریعت کا امتزاج پایا ‘جاتاہے۔ قرآن کریم نے منکرات کی روک تھام کو: (۱) نبی کریمﷺ کی خصوصی صفت کے طور پر بیان کیا ہے: اور{وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ } (الاعراف:۱۵۷)۔ (۲) اہل ایمان (مسلمان) حکمرانوں کی ایک خصوصیت یا ان کے فریضہ کے طور پر ذکر کیا ہے‘ یعنی ان کی دیگر صفات اور خصوصیات کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا ہے (تفصیل سورۃ اورالحج: ۴۱ میں ہے)۔ (۳) امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر‘ اہل ایمان کی خاص صفت اور ان کے فریضہ کے طور پر قرآن میں متعدد جگہ مذکور ہے۔ [مثلاً اورآلِ عمران:۱۰۴ ‘۱۱۰‘ ۱۱۴‘ التوبۃ:۷۲‘۶۸ اور لقمان: ۱۷] اس کے برعکس منکرات اور برائیوں کو فروغ دینا منافقوں اور نام نہاد مسلمانوں کی خصوصیت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے:اور{ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ} (التوبۃ:۶۷) یعنی وہ حکماً برے کام کراتے ہیں یا اپنے اختیار و اقتدار سے منکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ معاشرے میں منکرات کی روک تھام سے غافل ہونا یہودیوں کی ایک خاص برائی بیان ہوئی ہے اور: {کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَـعَلُوْہُ ط} (المائدۃ:۷۹)۔ او رحدیث شریف میں تو اس فریضہ سے غفلت کی بنا پر پورے معاشرے کے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے کی وعید آئی ہے۔ منکرات کو فروغ دینے والوں کی کوششوں پر پانی پھیرنا اور ان کے عزائم کو خاک میں ملانا‘ یہ مسلمان عوام اور اسلامی حکومت کا فریضہ بھی ہے اور امتحان بھی۔ اور اس بارے میں یہ حدیث ِ نبوی پوری رہنمائی بہم پہنچاتی ہے کہ :اور((مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَـیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَـمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِـہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ)) (اس حدیث کو مسلم نے ابوسعید خدریؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے)یعنی ’’منکرات کا حسب استطاعت روکنا فریضہ ہے اور اس معاملے میں بے حسی تو عدم ایمان کی علامت ہے۔‘‘

(۳) البغی

یہ تیسری بنیادی خرابی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ ’’بغی‘‘ کے لفظی معنی تو ’’طلب‘‘ کے ہیں (۵۶) ۔پھر اس میں ’’حد سے بڑھنے کی خواہش‘‘ اور کوشش یعنی عملاً حد سے تجاوز کرجانے کا مفہوم پیدا ہوتاہے۔ مختار الصحاح میں ہے : ’’کل مجاوزۃ و افراط علی المقدار الذی ھو حد الشیء فھو البغی‘‘ (۵۷)یعنی کسی چیز کی مقررہ حد سے بڑھنا ہی ’’بغی‘‘ ہے۔اس لیے مفسرین نے اس کی تعریف یوں کی ہے :(۱) طلب التطاول بالظلم (۵۸) یعنی ظلم کے ساتھ توسیع پسندی۔(۲) ھو الکبر والظلم والحسد والتعدی وحقیقتہ تجاوزُ الحد (۵۹)یعنی اس کی اصل تو ’’حد سے بڑھنا‘‘ ہے اور اس سے مراد تکبر‘ ظلم‘ حسد اور زیادتی ہے ۔ (۳) طبری‘ طبرسی اور رازی نے یہاں (النحل:۹۰ میں) مراد ’’الکبر والظلم‘‘ہی لیا ہے۔(۶۰) (۴) یہ لفظ (یعنی)قرآن میں سد‘ نافرمانی اور ظلم کے معنوں میںآیا ہے اور ان میں سے ہر ایک معنی کی تائید مختلف آیات سے ہوتی ہے۔ (۶۱)(۵) ھو الاستعلاء والاستیلاء علی الناس والتجبر علیھم (۶۲) یعنی لوگوں پر مسلط ہونے اور زبردستی ان پر سرداری کرنے اور ان پر جبر و تشددکرنا بغی ہے ۔(۶) ھو العدوان والاعتداء علی الناس بالقول او الفعل(۶۳) قول و فعل سے لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا۔ (۷) الجوہری نے اسے فحشاء اور منکر کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ (۶۴) ان ہی اقوال کی روشنی میں اردو مترجمین نے بغی کا ترجمہ ’’تعد ی‘‘ ‘’’سرکشی‘‘ اور ’’ظلم وزیادتی‘‘ کیا ہے۔اور یہ چیز آیت کے مامورات یعنی عدل‘ احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کی ضد ہے اور ان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ویسے تو عدل و احسان کے حکم میں ہی ’’بغی‘‘ کی حرمت سمجھی جا سکتی تھی‘ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کا الگ ذکر بطور خاص توجہ اور تاکید کے لیے کیا ہے اور اس کو آخر پر ذکر کیا ہے‘ کیونکہ یہ باقی خرابیوں کا مجموعہ بھی ہے اور جڑ بھی۔ ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر اس قول و فعل سے اجتناب کرے جس میں دوسروں پر ’’ظلم و زیادتی‘‘ کا کوئی پہلو بھی پایا جاتا ہو۔ اور اسلامی حکومت کا یہ فریضہ اوّلین ہے کہ لوگوں کی جان‘ مال اور آبرو کو ہر قسم کی تعدی اور ظلم سے بچایا جائے۔

{ یَعِظُکُمْ لَـعَلَّـکُمْ تَذَکَّرُوْنَl}

آیہ کے یہ اختتامی کلمات بھی توجہ طلب ہیں۔ مامورات اور منہیات کا یہ بیان ایک حکم ہے اور اسی لیے ان میں ’’یامر‘‘ اور ’’ینھی‘‘ کے واضح لفظ آئے ہیں۔ تاہم اس حکم کے ذریعے تم کو (اے مسلمانو) سمجھانا بھی مقصود ہے ‘ یعنی یہ ’’حکم برائے حکم‘‘ نہیں ہے بلکہ اس میں تمہاری ہی خیر خواہی مطلوب ہے۔ لہٰذایہ اُمید کی جاتی ہے کہ تم اسے پلے باندھو گے اور ہر وقت یاد رکھو گے‘ اور اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی اور ملی زندگی میں بھی قدم قدم پر اس سے راہنمائی حاصل کرتے رہو گے اور اس پر عمل پیرا رہو گے۔ غور سے دیکھا جائے تو آیت کا اصل مرکز اور محور ’’نظامِ عدل و احسان‘‘ ہی ہے ‘اس لیے کہ ’’ایتاء ذی القربیٰ‘‘ تو اسی عدل و احسان کے اتباع کی ہی ایک صورت ہے۔ اور فحشاء‘ منکر اور بغی [بے حیائی‘ برائی اور ظلم] عدل و احسان سے انحراف کی مختلف صورتیں ہیں۔ فرد یا معاشرے کی سلامتی‘ ترقی اور کمال آیت میں بیان کردہ مثبت عوامل کے فروغ اور منفی عوامل کے انسداد پر منحصر ہے۔ ہمارا ‘—-حکومت کا اور عوام کا‘ —-فرض ہے کہ عدل و احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا مطلب سمجھیں اور ان پر مبنی قدروں کو فروغ دیں۔ اور اسی طرح یہ بھی ہمارا ‘ —‘سب کا‘ —ہر ایک کا‘ — فرض ہے کہ ہم فحشاء ‘ منکر اور بغی کو پہچانیں اور اس کی روک تھام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہی چیز ہمارے قرآن پر ایمان کی پختگی اور صاحب سیرتﷺ سے قلبی وابستگی کی صداقت کا ایک امتحان بھی ہے اور اس کی ایک علامت بھی ‘ —-اور پھر یہی چیز ‘ —-ماموراتِ سہ گانہ کا نفاذ اور منہیاتِ سہ گانہ کا انسداد ‘ —-ملک و ملت کی عاقبت اور افرادِ ملت کی آخرت کو خطرات سے محفوظ کرنے کی شرط بھی ہے اور تدبیر بھی۔

حواشی
(۱) یہ ترجمہ بھی کسی ایک مترجم کا نہیں ہے بلکہ چھ مختلف تراجم سے منتخب ہے۔ اس میں شیخ الہند‘ؒ ‘ عاشق الٰہی میرٹھیؒ ‘
احمد رضا خان‘ فتح محمد جالندھری‘ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور عبدالکریم پاریکھ میں سے ہر ایک کے ترجمہ کا ایک آدھ لفظ موجود ہے۔
(۲) اس رائے کا اظہار مولانا شبیر احمد عثمانی ؒنے اپنے حاشیہ قرآن میں کیا ہے جو شیخ الہندؒ کے ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے (ص ۳۵۸۔ بجنور ایڈیشن)
اور مصری مؤلف علی فکری نے اپنی کتاب ’’البیان الفاصل‘‘ میں صرف ’’عدل‘‘ پر ۱۱۳ صفحات (۱۲۳ تا ۲۳۵) اور ظلم و بغی پر ۱۶۰ صفحات (۲۳۶تا۳۹۶) میں بحث کی ہے۔
(۳) الرازی‘ ص ۱۰۰۔ (۴) المیبدی ‘ ص ۴۳۸۔
(۵) مثلاً دیکھئے الطبری‘ ص ۱۶۳‘ المیبدی‘ ص ۴۴۲‘ الطبرسی‘ ص ۱۱۴‘ الآلوسی‘ ص ۱۸۷‘ القاسمی‘ ص ۳۸۵۰ اور ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔
(۶) تفصیل کے لیے دیکھئے المراغی‘ ص ۱۳۰۔
(۷) المیبدی‘ ص ۴۴۲۔ الطبرسی‘ ص۱۱۴ ۔ الرازی‘ ص ۱۰۱ اور القاسمی‘ ص ۳۸۵۱۔
(۸) الرازی‘ ص ۱۰۱۔
(۹) تفسیر ابن کثیر‘ ج۲‘ ص ۵۸۲۔ المراغی‘ ص ۱۳۱۔ الآلوسی‘ ص۲۱۹۔ القاسمی‘ ص ۳۸۵۰۔
(۱۰) الزرکلی‘ ج۱‘ ص ۳۴۴۔
(۱۱) الزمخشری‘ ص ۴۲۵۔ الرازی‘ ص ۱۰۰۔ مغنیہ‘ص ۵۴۵۔الادب المفرد‘ ص ۳۸۹۔
(۱۲) تفصیل کے لیے دیکھئے الطبری‘ ص ۱۶۳۔ الرازی:ص۱۰۱۔ ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔
(۱۳) مختار الصحاح تحت مادہ ’’عدل‘‘ نیز ابن العربی‘ ص ۱۱۶۰۔
(۱۴) الجوہری‘ ص ۱۶۶۔ (۱۵) القاسمی‘ ص ۳۸۵۰۔
(۱۶) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۰۔ (۱۷) الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔
(۱۸) الآلوسی‘ ص ۲۱۷۔ (۱۹) فکری‘ ص ۱۳۴۔
(۲۰) المیبدی‘ ص ۴۳۸۔
(۲۱) مثلاً الطبری‘ ص ۱۶۳۔ الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔الرازی‘ ص ۱۰۱۔
(۲۲) المفردات تحت مادہ ’’عدل‘‘ نیز الرازی‘ ص ۱۰۱۔
(۲۳) الجوہری‘ ص ۱۷۱۔۱۷۲۔ (۲۴) فکری‘ ص ۱۳۴ ملخصًا۔
(۲۵) الآلوسی‘ ص ۲۱۷۔ (۲۶) الطبری‘ ص ۲۱۷۔ المیبدی‘ ص ۴۳۸۔
(۲۷) الرازی‘ ص ۱۰۱۔
(۲۸) صحیحین کی مشہور حدیث جس میں جبریل ؑ کے انسانی شکل میں آنحضورﷺ کے پاس آ کر کچھ سوال کرنے اور آپؐ کے جواب دینے کا ذکر ہے۔ اس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’’احسان کیا ہے؟‘‘
جس کا جواب آنحضورﷺ نے ان الفاظ میں دیا تھا (جو ابھی بیان کیے گئے ہیں) یہ خاصی لمبی حدیث ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الایمان کا افتتاح اسی حدیث سے ہوا ہے۔
(۲۹) الرازی‘ ص ۱۰۴۔ (۳۰) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔
(۳۱) تفصیل کے لیے دیکھئے الجوہری‘ ص ۱۸۶‘۱۸۷۔
(۳۲) قاموس قرآن تحت مادہ ’’حسن‘‘۔ (۳۳) القاسمی‘ ص ۸۵۱۔
(۳۴) الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔الآلوسی‘ ص ۲۱۷۔
(۳۵) المیبدی‘ ص ۴۳۹ ملخصًا۔ (۳۶) تفہیم القرآن‘ ج۲‘ ص ۵۶۵۔
(۳۷) المراغی‘ ص ۱۳۲۔ الآلوسی‘ ص ۱۷۔ (۳۸) الرازی‘ ص ۱۰۴۔
(۳۹) الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔ (۴۰) الطبری‘ ص ۱۶۳۔
(۴۱) الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔ (۴۲) القاسمی‘ ص ۳۸۵۰۔ الجوہری‘ ص ۱۶۶۔
(۴۳) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔ الآلوسی‘ ص ۲۱۸۔
(۴۴) المفردات‘ ص ۳۷۴۔ (۴۵) الآلوسی‘ ص ۲۱۸۔
(۴۶) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔ (۴۷) الزمخشری‘ ص ۴۲۵۔
(۴۸) الطبرسی‘ ص ۱۱۴۔ (۴۹) المیبدی‘ ص ۴۴۱ ملخصاً۔
(۵۰) مثلاً دیکھئے الطبری‘ ص۱۶۳۔ المیبدی‘ ص۴۴۰۔ الرازی‘ ص۱۰۱اور الآلوسی‘ ص ۲۱۸۔
(۵۱) الزمخشری‘ص ۴۲۵۔ بعض شارحین کشاف کو اس میں ’’اعتزال‘‘ کی بو آئی ہے۔ تاہم بات اتنی غلط بھی نہیں ہے۔ بہرحال عقل کے ساتھ شرح بھی شامل کرنے سے بات مکمل ہو جاتی ہے۔
(۵۲) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔ القاسمی‘ ص ۳۸۵۰۔
(۵۳) الرازی‘ ص ۱۰۲۔ (۵۴) المیبدی‘ ص ۴۴۱ ملخصاً۔
(۵۵) الآلوسی‘ ص ۲۱۸۔ (۵۶) الزمخشری‘ ص ۴۲۵۔
(۵۷) مختار الصحاح تحت مادہ ’’بغی‘‘۔ (۵۸) الزمخشری‘ ص ۴۲۵۔
(۵۹) ابن العربی‘ ص ۱۱۶۱۔
(۶۰) الطبری‘ ص ۱۶۴۔ الطبرسی‘ ص ۱۱۴ اور الرازی ‘ ص ۱۰۲۔
(۶۱) تفصیل کے لیے دیکھئے المیبدی‘ ص ۴۴۷۔ (۶۲) الآلوسی‘ ص ۲۱۸۔
(۶۳) مغنیہ‘ ص ۵۴۵ نیز القاسمی ‘ ص ۳۸۵۰۔ (۶۴) الجوہری‘ ص ۱۶۶۔
نوٹ: مندرجہ بالا حواشی میں تکرار کی وجہ سے طوالت سے بچنے کے لیے مصادر و مراجع کا ذکر اختصارکے ساتھ کیا گیا ہے۔
ذیل میں ابجدی ترتیب کے ساتھ مقالہ میں مذکور تمام حوالوں کے لیے ایک ’’مفتاح المراجع‘‘ دی جاتی ہے
جس میں روایتی طریقے پر ہر مصدر اور مرجع کے بارے میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ جس کتاب کا کوئی خاص جزء یہاں مذکور ہے حوالہ میں اسی کے صفحات کا ذکر ہے۔مفتاح المراجع
(۱) الآلوسی : شہاب الدین محمود آلوسی‘ روح المعانی [جلد۱۴ فقط]‘ دار احیاء التراث العربی‘ بیروت (سنہ ندارد)
(۲) ابن العربی: قاضی محمد بن عبداللّٰہ المعروف بابن العربی‘ احکام القرآن [قسم ثالث فقط] عیسی البابی القاھرۃ ۱۳۷۷؍۱۹۵۸ء۔
(۳) الجوہری: الشیخ الجوہری الطنطاوی‘ الجوہری فی تفسیر القرآن [جزء ۸فقط] مصطفی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۸۳؍۱۹۶۳ء۔
(۴) الادب المفرد:امام محمد بن اسماعیل البخاری :الادب المفرد‘ طبع وزارۃ العدل‘ حکومت متحدہ عرب امارات ۱۴۰۷؍۱۹۸۱ء۔
(۵) الرازی: فخر الدین محمد بن عمر الرازی‘ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) [جلد۲ فقط] المطبوعۃ البھیۃ القاھرۃ ۱۳۵۷؍۱۹۳۸ء
(۶) الزرکلی:خیر الدین الزرکلی: الاعلام‘ الطبعۃ الثالثۃ‘ بیروت۱۳۸۹؍۱۹۶۹ء۔
(۷) الزمخشری‘ محمود بن عمر الزمخشری: الکشاف (تفسیر) [جلد دوم فقط] مصطفی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۸۵؍۱۹۶۶ء
(۸) الطبری‘ محمد بن جریر الطبری: جامع البیان عن تاویل القرآن (تفسیر) [جلد ۱۴‘فقط] مصطفٰی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۷۳؍۱۹۵۴ء ۔
(۹) الطبرسی‘ الفضل بن الحسن الطبرسی : مجمع البیان (تفسیر) [جزء ۱۴ فقط] دار مکتبہ الحیاۃ‘ بیروت ۱۳۸۰؍۱۹۶۱ء ۔
(۱۰) فکری ‘ علی فکری : البیان الفاصل بین الحق والباطل‘ مصطفٰی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۶۸؍۱۹۴۹ء ۔
(۱۱) القاسمی‘ محمد جمال الدین القاسمی: محاسن التاویل [جلد۱۰‘فقط] عیسی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۷۸؍۱۹۵۹ء ۔
(۱۲) قاموس قرآن‘ سید علی اکبر قرشی‘ قاموس قرآن‘ دار الکتب الاسلامیہ‘ طہران (ایران) ۱۳۶۱۔
(۱۳) مختار الصحاح‘ الشیخ محمد بن ابی بکر الرازی : مختار الصحاح‘ طبعۃ دار المعارف‘ القاھرۃ ب۔ت۔
(۱۴) المراغی‘ احمد مصطفٰی المراغی‘ تفسیر المراغی [جلد۱۴‘فقط] مصطفٰی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۸۳؍۱۹۶۳۔
(۱۵) مغنیہ ‘ محمد جواد مغنیہ : التفسیر الکاشف [جلد۴‘ فقط]دار العلم للملایین‘ بیروت‘ ۱۹۷۰ء۔
(۱۶) المفردات‘ الحسین بن محمد المعروف الراغب الاصفہان‘ المفردات فی غریب القرآن‘ مصطفٰی البابی‘ القاھرۃ ۱۳۸۱؍۱۹۶۱۔
(۱۷) المیبدی‘ رشید الدین المیبدی : کشف الاسرار وعدۃ الابرار [ج۵‘ فقط] لسبعی علی اصغر حکمت۔ طہران ۱۳۸۰ھـ ۔
(سہ ماہی حکمت قرآن‘ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ بانی مرکزی انجمن خدام القرآن)