المدخل الوجیز الی دراسۃ الاعجاز

فی الکتاب العزیز کا اسلوب

شائستہ جبیں*

اللہ جل شانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کا دائمی معجزہ عطا فرمایا جس کی ابتداء انتہاء علم ہے۔ جس کا ہر ہر لفظ مصدر فکر و دانش ہے۔ جس کی ہر ہر آیت منبع حکمت و ہدایت ہے۔ قرآن مجید کے کتاب علم و دانش کا ہونے کا عملی ثبوت علماء امت نے اس طرح فراہم کیا کہ اس بحر بے کنار میں غوطہ زنی کر کے ایسے جواہر علم انسانیت کو پیش کیے کہ جن کی چمک بصارت کے لیے تسکین اور قلوب کے لیے راحت ہے۔ صدیوں سے امت کے علماء اپنی علمی کاوشوں کا مرکز اللہ کی کتاب کو بنا ئے ہوئے ہیں۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس سے متعلق قرآنی ہدایات سے استنباط و استدلال کے ذریعے علماء امت نے راہنمائی نہ کی ہو۔ قرآنی اعجاز ہمہ پہلو بھی اور آفاقی وابدی بھی۔ قرآن کی اس شان کو بھی علماء نے اپنی تصنیفی جولانیوں کا محور بنایا۔ اسی سلسلہ، تصانیف کی ایک کڑی ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتاب المدخل الوجیز الی دارسۃ الاعجاز فی الکتاب العزیز ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی کا تعلق تھانہ بھون کے مشہور علمی خانوادے سے ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب چون(۵۴)ویں پشت پر حضرت عمر فاروق ؓ سے جا کر ملتا ہے اور ان چون (۵۴) پشتوں میں کوئی مرد ایسا نہیں گزرا جو حافظِ قرآن نہ ہو۔ (۱)

آپ ۱۸ ستمبر ۱۹۵۰ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ خاندانی روایت کے مطابق آپ کو حفظ کے لئے مدرسہ میں داخل کرایا گیا ۔ اتنی چھوٹی عمر میں آپ کو مسجد بھیجا گیا امام صاحب (جو کہ آپ کے والد کے دوست تھے ) گود میں اُٹھا کر مسجد لے جاتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سلسلہ تعلیم کی تجدید ہوئی اور نو سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ آپ نے کراچی میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ اور بعد ازاں راولپنڈی میں دارالعلوم تعلیم القرآن سے دینی تعلیم کی تکمیل کی۔

آپ کبھی کسی سکو ل میں داخل نہیں ہوئے لیکن مدارس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر میٹرک، ایف ۔ اے ، بی۔ اے ، ایم ۔ اے (اسلامیات و عربی ) اور پی ایچ۔ڈی کی ڈگری جامعہ پنجاب سے حاصل کی۔ (۲)

آپ کو اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی زبانوں میں لکھنے اور پڑھنے میں خصوصی مہارت و ملکہ حاصل تھا اور آپ کی زندگی کے آخری تین عشروں میں فرنچ اور جرمن زبان بھی اس صف میں شامل ہو گئیں۔ (۳)

آپ نے عملی زندگی کا آغاز، مدرسہ فرقانیہ راولپنڈی میں تدریس سے کیا اور آخری وقت تک متعدد اہم ذمہ داریوں اور عہدوں پر فائز رہے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر خطیب فیصل مسجد، جج شریعہ اپیلٹ بینچ، سپریم کورٹ آف پاکستان، ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی، نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، ممبر قومی سلامتی کونسل، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، صدر بین الاقوامی اسلامی

یونیورسٹی اسلام آباد، ڈین کلیہ معارف اسلامیہ قطر فاؤنڈیشن، چیئرمین شریعہ بورڈ سٹیٹ بنک آف پاکستان سمیت متعدد کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ آپ ملک اور بیرون ملک متعدد علمی اداروں کے رکن کے طور پر مختلف دینی و علمی خدمات بھی سر انجام دیتے رہے۔ آپ نے انگریزی، اردو اور عربی میں متعدد کتب تصانیف کیں۔ اپنی زندگی کے آخری کچھ سالوں میں مختلف علوم پر لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جو محاضرات کے نام سے مشہور و مطبوع ہوا۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کو وہ دل کی تکلیف کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے۔

اعجاز کیا ہے؟

اعجاز کے معنی ہیں عاجز کرنا اور اعجاز القرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مثال پیش کرنے سے سب انس و جن عاجز ہیں۔ آج تک کوئی اس کی مثال پیش نہیں کر سکا اور نہ آئندہ کر سکے گا کیونکہ یہ اللہ رب العزت کا کلام ہے اور کسی انسان کا کلام کسی بھی طرح اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

حدیث میں ہے کہ

فضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ (۴)

اللہ کے کلام کی فضیلت سب کلاموں پر ایسی ہے جیسے خود اللہ کی برتری اس کی مخلوق پر ہے ۔

یعنی جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے اسی طرح اس کا کلام بھی ہر عیب و نقص سے پاک ہے اور انسانی زندگی کے لیے کامل احکام و ہدایت پر مشتمل ہے، جس طرح اللہ رب العالمین پوری کائنات کا مالک اور حاکم ہے اسی طرح اس کا کلام بھی پوری انسانیت کیلئے عالمی قانون اور کتاب ہدایت ہے۔

اللہ کے بندے بھی کام کرتے ہیں اور خود اللہ بھی کام کرتا ہے لیکن اللہ کے کاموں کی مثال بندوں کے کاموں میں نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور افعال میں جس طرح بے مثال ہے اُسی طرح اپنے کلام میں بھی بے مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کردہ کلام ’’قرآن مجید ‘‘ کو دائمی معجزہ بنایا ہے اور انسانیت طویل عرصہ گزرنے اور علمی ترقی کے باوجود اس کے مقابلے کی ہمت نہیں کر پائی۔

اعجاز القرآن پر تصانیف کی اجمالی تاریخ

اعجاز القرآن کے موضوع پر اہل علم نے غورو فکر اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہی شروع کر دیا تھا۔ چوتھی صدی ہجری سے اہل علم نے اس موضوع پر باقاعدہ کتابیں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ اس طرح بہت تھوڑے عرصے میں اس موضوع کو ایک مستقل بالذات مضمون بلکہ علم کی شکل دے دی گئی۔ اور آج یہ علم علوم القرآن کے مضامین میں سے ایک اہم مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

اعجاز القرآن کے موضوع پر سب سے پہلے کتاب لکھنے کا اعزاز مشہور شافعی فقیہہ اور متکلم قاضی ابوبکر باقلانی کو حاصل ہے۔ ان کی کتاب آج بھی دستیاب ہے اور اس موضوع پر قدیم ترین کتاب ہے۔

ان کے بعد علامہ زمخشری، شیخ عبدالقاہر جرجانی نے بھی اس موضوع پر کتب تالیف کیں۔ اور یہ تالیف کتب کا یہ سلسلہ جس کا آغاز شیخ با قلانی ؒ نے کیا وہ آج تک اسی طرح جاری و ساری ہے اور مسلمان اہل علم اس عظیم الشان موضوع کا حق ادا کرنے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔

المدخل الوجیز کا اجمالی تعارف

المدخل الوجیز الی دراسۃ الاعجاز في الکتاب العزیز اس موضوع یعنی اعجاز القرآن پر ڈاکٹر محمود غازیؒ کی تصنیفی کاوش ہے۔ عربی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب غازی صاحب ؒ نے اپنی حیات کے آخری سالوں میں قیام قطر کے دوران مرتب کی اور علوم القرآن کے موضوع پر یہ ان کی آخری مطبوعہ کتاب ہے۔

۳۸۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالبشائر الاسلامیہ ، بیروت سے طبع ہوئی ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں اعجاز القرآن کے مختلف موضوعات اور پہلوؤں پر نہایت علمی اور محققانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کے ابواب درج ذیل ہیں :

٭ تعریف عام بمو ضوع الاعجاز القرآنی
٭ حقیقۃ الاعجاز و معنی المعجزۃ
٭ التحدی و ابعادہ
٭ نظرۃ عابرۃ علی تطور علم الا عجاز القرآنی
٭ وجوہ الاعجاز عند المتقدمین
٭ نظرۃ سریعۃ علی نظریۃ الصرفۃ
٭ نظرۃ عابرۃ علی الا عجاز البلاغي
٭ الاعجاز التالیفی
٭ الاعجاز القصصي الخبري
٭ وجوہ الاعجاز الاخری التيذکر ھا المتاخرون
٭ الاعجاز العلميفی القرآن
٭ الاعجاز التاثیری
٭ بقاء متن و دوام رسالتہ
٭ الاعجاز التضافري

المدخل الوجیز کے مضامین اور منہج و اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ

ذیل میں اس تصنیف لطیف کے محتویات و مشمولات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کے اسلوب و منہج کو بالتفصیل بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر غازی صاحب نے اعجاز القرآن کی علمی اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔

اعجاز القرآن کی علمی اہمیت

ڈاکٹر غازیؒ کے نزدیک قرآن کی اعجازی شان کا ظہور اس کے نزول سے لے کر آج تک بلا تعطل جاری ہے اور علماء امت اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اپنے آپ کو گویا اس کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ علم اعجاز القرآن ایک ایسا علم ہے جو کہ قرآن مجید کی آفاقیت اور جامعیت کی مختلف پرتیں کھولتا ہے اور اس کے محفوظ اور لاریب کلام ہونے پر لوگوں کے یقن پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد ؒ غازی اپنے مخصوص محققانہ اسلوب میں اس علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ان علم الاعجاز بد أ یتبلو رکعلم متمیز عن علوم القرآن الاخری، و عن علوم البلاغۃ منذا لقرن الثالث، واکثر من اھتم بہ من طبقات العلماء و جماعۃ الادباء ھم المفسرون والمتکلمون خاصۃ المعتزلۃ منھم، و علماء االغۃ و الادب، و علی ایدیھم بدات دراسۃ الاعجاز دراسۃ علمیۃ مستقلۃ، وذلک منذ العقود الاخیرۃ من القرن التاني و بدایۃ القرن الثالث، و بد ا لمضمون البلاغي یظھر بجلاء في المولفات القرآنیۃ التي دونت فی ھذہ الحقبۃ من الزمن ۔ (۵)

اعجاز القرآن کا علم قرآن کے دوسرے علوم قرآن سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور تیسری صدی ہجری سے اس کی حیثیت علم بلاغت سے بھی بڑھ چکی ہے اور اس علم کی کھوج میں رہنے والے علماء کی جماعت اور ادیبوں کا گروہ زیادہ تر مفسرین اور متکلمین علماء ہیں۔ خاص طور پر معتزلہ ان میں شامل ہیں اور لغت و ادب کے علماء بھی اور ان علماء کی بدولت اعجاز القرآن کی درس و تدریس ایک مستقل علم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور یہ دوسری صدی ہجری کے آخری عشروں اور تیسری صدی ہجری ابتدائی دور سے ہے اور علم بلاغت کا مضمون ایک لمبے عرصے سے اس حقیقت میں مدون ہونے والی قرآنی کتب سے اس علم کی حیثیت واضح کرتا چلا آرہا ہے۔
یعنی اس علم کی ابتداء قرآن کی مضاحت و بلاغت کی ابحاث سے ہوئی اور پھر ہر دور میں آنے والے ہر طبقہ فکر کے علماء نے اس فن میں قابل قدر محنت کی اور اس علم کو ایک علیحدہ اور مستقل حیثیت دی۔

علماء اور علم اعجاز القرآن

اہل علم کے نزدیک اعجاز القرآن ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے علماء کے علم و فن کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو عالم جتنا بلند رتبہ ہو گا وہ اس علم کی اُتنی ہی نئی جہتیں اور گہرائیاں نکال کے سامنے لائے گا۔

علوم القرآن میں اس علم کی بے پایاں اہمیت و افادیت کی وجہ سے ہی علماء متقدمین و متاخرین ہر ایک نے اعجاز قرآن کے موضوع پر گرانقدر کام کیا اور اسے علوم قرآن کا ایک اہم علم قرار دیتے ہوئے اس سے واقفیت نہ رکھنے والے کو علام کو صحیح عالم نہیں مانا۔

محترم غازی صاحب ؒ یہ عالمانہ بحث ان الفاظ میں کرتے ہیں ـ

ولذلک کان متقدمون یعنون بدراسۃ الاعجاز عنایۃ کبیرۃ، و شغلت اھمیۃ ھذہ الموضوع قارۃ العقل الاسلامي لقرون طویلۃ فمنھم من تناول موضوع الاعجاز البلاغي و الا عجاز البیانی و الا عجاز اللغوی ، وھم کثیر و منھم من تناول االاعجاز التشریعي و الا عجازالتفافري و جوہ الا عجاز ولم یعرفھا و لو معرفۃ ا جمالیۃ۔ فیقول العلامۃ اللغوي ابو ھلال العسکری : ’’قبیح لعمری بالفقیہ و القاری والمتکلم، وبالعربي الاصیل ان لا یعرف اعجاز کتاب اللہ تعالیٰ الا من الجھۃ التي یعرفہ منھا الاعجمي، و ان یستدل علیہ بما استدل بہ الجاھل الغبی۔ (۶)

اسی لیے متقدمین اعجاز القرآن کی درس و تدریس پر نہایت متوجہ تھے اور اہل ایمان کے دانشور لمبے عرصہ تک اس موضوع کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو اعجاز تشبیھی، جمالی اعجاز اور اعجاز غیبی کی گہرائی کو پہنچے اور بہت سے ایسے جو اعجاز تشریعی، اعجاز تضافری اور اعجاز علمی کی گہرائی کو پہنچے اور ایسے لوگ اس زمانے میں بھی بہت ہیں اور علماء اس شخص کو عزت کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے جو وجوہ اعجاز سے بالکل ناواقف ہونا چاہے وہ پہچان اجمالی نوعیت ہی کی ہے۔

اس متعلق علامہ ابو ھلال عسکری فرماتے ہیں :

کتنی بُری اس فقیہہ، قاری اور متکلم کی عمر ہے اور ان عربی اصولوں کی جو قرآن کریم کے اعجاز کو نہیں پہچان سکتے۔ صرف غیر عربوں جیسی پہچان رکھتے ہیں اور اس سے ایسے ہی استدلال کرتے ہیں جیسے کہ ایک جاہل مطلق استدلال کرتا ہے۔

اسی موضوع پر مزید بحث کرتے ہوئے غازیؒ صاحب رقمطراز ہیں :

وفي ھذا المجال وقع التحدي عند حذاق اھل النظر کما قال الامام المفسر ابن عطیہ الاندلسي: من مثل نظمہ و رصفہ و فصاحۃ معانیہ التي یعرفونھا۔ ولا یعجز ھم ء الا التالیف الذي خص بہ القرآن ، و بہ و قع الاعجاز علی قول حذاق اھل النظر۔ ثم یقول ابن عطیۃ: والصحیح ان الاتیان بمثل ھذا القرآن لم یکن قط في قدرۃ و احد من المخلوقین (۷)

اسی میدان میں اہل نظر کے نزدیک چیلنج کیا گیاہے جیسا کہ امام مفسر ابن عطیہ اندلسی نے فرمایا: ’’ اس جیسے الفاظ، ترکیب اور معانی کی فصاحت جس کی پہچان علماء کو ہوتی ہے اور وہ صرف قرآن ہی کے اسلوب بیان سے عاجز ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اہل نظر کے نزدیک اعجاز القرآن ثابت ہو جاتا ہے۔ پھر ابن عطیہ نے کہا : ’’اور صحیح بات تو یہ ہے کہ اس قرآن کی مثل لا نامخلوق میں سے کسی کے بس میں بھی نہیں ہے ۔

غرض علم اعجاز القرآن کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر مختلف علماء اس علم کی نئی نئی انواع تلاش کرتے رہے اور عالم اسلام کو ایک مکمل اور متوازن علم عطا کرنے میں اپنا قیمتی وقت اور توانائیاں صرف کرتے رہے۔

معجزہ و اعجاز ۔ معنی و مفہوم

اس موضوع کی اہمیت بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر غازی نے معجزہ کیا ہے اور اعجاز کی حقیقت کیا ہے اس کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ غازیؒ صاحب نہایت سادہ اور دل نشیں انداز میں لکھتے ہیں:

والجدیر بالذکر؛ ان کلمۃ المعجزۃ اصطلح علیھا المتکلمون والمفسرون، و لم تردھذہ الکلمۃ فی الآیات القرآن الکریم اوفی الحدیث البوي۔ فان القرآن الکریم لیستخدم مصطلح ’’الآیۃ‘‘ و ’’البرھان‘‘ والمعجزات التی ظھرت علی ایدي لانبیاء و الرسل لتایید نبوتھم ورسالتھم ۔ ووردت کلمۃ ’’الدلائل ‘‘ او ’’العلامات ‘‘ في الادب الکلامي والتفسیري لتدل علی دلائل نبوۃ سیدنا محمد ﷺ ولم تردکلمۃ المعجزہ بھذا المعنی الفني وروداً ماشراً في القرآن الکریم۔ ولکن یبدوکان المتکلمین اعجبوابھذا المصطلح و بدا والتیخدونہ في معنی الآیۃ، اوالبرھان علی حد المصطلح القرآني ، وفي معنی الدلیل او الامارۃ والعلامۃ علی حد مصطلح المحدثین۔ (۸)

اور یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ معجزہ کا لفظ اصطلاحی طور پر مفسرین اور متکلمین نے وضع کیا اور یہ لفظ قرآن کریم اور حدیث نبوی ﷺمیں کہیں بھی نہیں آیا بلکہ انبیاء ورسل کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے معجزات کے لیے جو ان کی نبوت اور رسالت کی تائید کرتے ہیں قرآن کریم میں آیت اور برھان کا لفظ استعمال ہوا۔ علم الکلام اور علم تفسیر میں ہمارے سرکار دو عالمﷺ کی ثبوت کی صداقت پر استدلال کرنے کے لیے ’’دلائل ‘‘ اور ’’علامات ‘‘ کے لفظ استعمال ہوئے اور معجزہ کا لفظ ظاہری طور پر قرآن کریم میں اس معنی میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔ لیکن متکلمین نے اس (لفظ معجزہ کی ) اصطلاح کو بہت پسند کیا اور اسے قرآن میں بیان ہونے والے لفظ آیت اور برھان کی جگہ اور محدثین کی اصطلاح میں بیان ہونے والے لفظ دلیل، امارت اور علامت کی جگہ استعمال کرنے لگے ۔

انہی صفحات پر اعجاز کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والا عجاز لغۃ : ھو الایقاع في العجز ، وھو عبارۃ عن الحجۃ التي یقدمھا القرآن الی خصومۃ من المشرکین لیعحزھم بھا ۔ والا عجاز ایضاً بمعنی کون الا مر معجزاً لیدل علی صدق نبوۃ صاحبہ۔ (۹)

اور اعجاز کا لغوی معنی ہے کسی کو عاجز کر دینا اور اسے تعبیر کیا جاتا ہے ایسے دلیل سے جو قرآن نے خصومتِ مشرکین میں ان کو عاجز کرنے کیلئے پیش کی اور اسی طرح اعجاز کا معنی یہ بھی ہے کہ ایسا معاملہ کرنا جو دوسروں کو عاجز کر دے تاکہ یہ معاملہ اس معاملہ کرنے والے کی نبوت کی صداقت پر دلیل ہو جائے ۔
اعجاز القرآن کے درجات

قرآن کریم کے تمام ابواب ہدایت کے لیے ایک جامع اور وسیع تر خزانہ ہیں۔ اس کے علوم ایک دریائے ناپیدا کنار ہیں جس کے عجائب قیامت تک ختم نہیں ہو سکیں گے۔ جس طرح کتاب الہیٰ کے معارف و حقائق کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کی معجزانہ شان کی کیفیات اور صورتیں بھی بے شمار ہیں۔ علمائے فن نے اس علم کو باقاعدہ درجات میں تقسیم کیا ہے۔ ان درجات کو بیان کرتے ہوئے غازی ؒ صاحب بہت واضح اور پر مدلل اسلوب اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فا لا عجاز القرآني لہ درجات کثیرۃ، بعضھا فوق بعض ۔ ولاشک ان اول ھذہ درجات و اقواھا و اوضحھا و اعمھا ھو الاعجاز البیاني او الاعجاز البلاغي ۔ وھذہ الدرجۃ تحدي بھا العرب الاقحاح، وھم المخاطبون الاولون للقرآن الکریم۔ اماالدرجات الاخری فھيلمن بعدھم، خاصۃ لغیر العرب، الذین لم یصلو الی الدرجۃ المطلوبۃ من معرفۃ اللغۃ العربیۃ والتمکن من اسالیب البیان، والتفنن في وجوہ البلاغۃ ۔ ولکل واحدۃ من ھاتین الدرجتین مراتب و مستویات۔ ولنصم ما قال العلامۃابن القیم:’’ان وجوہ الاعجاز لا تحصر بحصر حاصر، ولا بعد عاد۔ (۱۰)

اعجاز قرآن کے کئی درجات ہیں جو ایک دوسرے پر فوقیت بھی رکھتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان درجات میں سب سے پہلا، قوی اور واضح درجہ اعجاز البیانی یا اعجاز البلاغی کا ہے اور یہ درجہ عرب کے ابتدائی دور کے لوگوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ قرآن کریم کے پہلے مخاطب ہیں۔ بہر حال دوسرے درجات ان کے بعد کے لوگوں کے لیے ہیں خاص طور پر غیر عرب کے لیے جو عربی زبان کی معرفت اور اسلوب میں کمال اور وجوہ بلاغت کے فن میں مطلوبہ درجے تک نہیں پہنچتے اور ان دونوں درجات کے اپنے اپنے مراتب ہیں اور علامہ ابن قیم نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ ’’اعجاز القرآن کی وجوہات کی نہ کوئی حد بندی کر سکتا ہے اور نہ کوئی گننے والا گن سکتا ہے ۔

علامہ ابن ؒ قیم کے فرمان کی تصدیق نہ صرف اس زمانے میں بلکہ آنے والے ہر زمانے کے مسلمان کرتے رہیں گے جب جب اُن کے سامنے یہ علم نئی جہتوں کے ساتھ سامنے آتا رہے گا۔ کیونکہ اس کا ہر پہلو دوسرے سے جدا اور ہر انداز انسان کو عاجز کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حکمت ِ معجزات

اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ وہ اس کائنات کی تمام اشیاء کا خالق و مالک ہے اور خالق سے بڑھ کر مخلوق کی فطرت کو کوئی اور نہیں جان سکتا۔ اس کی فطرت کو مطمئن کرنے اور اپنے احکام کی طرف راغب کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے انسانوں کا انتخاب کیا جو اس کی مخلوق کو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی دیں۔ پھر مخلوق کا ان چیدہ لوگوں کو منجانب باللہ ماننے سے انکار کرنے پر باری تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے معجزات نازل فرمائے تاکہ لوگ اپنے قلوب و اذہان کو وسوسوں سے پاک کر سکیں۔

معجزات الہیہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے غازیؒ صاحب نہایت سادہ اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وحکمۃ العجزات الالھیۃ انھا تاتي الزاماً للمعاندین المکابرین، و تثبیتاًلقوب المومنین، و ایضاً لکشف الطریق امام المذبذبین ۔ و ذکر القاضی عبدالجبار ان المعجزۃ تاتي لا حد المقاصد التالیۃ ۔ امالا ثبات نبوتہ صاحبھا، مثل القرآن الذي ثبثت بہ نبوۃ علیہ السلام، او تاکیداً لثبوت النبو ۃ ، وذلک لمن عرفھا من جھۃ الخبر و الا ستدلال، اوزیادۃ في شرح صدور المومنین بھا، وھذابالنسبۃ شاھد ھا فحالہ فیھا کحالۃ مع القرآن۔ (۱۱)

اور معجزات الہیہ کی حکمت یہ ہے کہ تکبر کر نیوالے سرکشوں کی پکڑ کرتے ہیں اور مومن دلوں کو ثابت قدم رکھتے ہیں اور اسی طرح پریشان لوگوں کو راستہ دکھاتے ہیں اور قاضی عبدالجبار نے فرمایا کہ معجزہ درج ذیل مقاصد میں سے کسی ایک کے لیے ہوتا ہے ۔ یا تو نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے جیسے کہ قرآن کریم ہمارے نبیﷺ کی نبوت کو ثابت کرتا ہے یا ثبوت نبوت کی تاکید کے لیے آتا ہے اور یہ اس کے لئے ہے جو کبر اور استدلال کے ذریعے پہچان کرتا ہے یا مومنوں کا شرح صدر زیادہ کرنے کیلئے اور یہ طریقہ اس کے لیے ہے جس نے معجز ے کا مشاہدہ کیا ہو اور اس کا حال معجزے کے ساتھ ایسا ہو جیسا کہ قرآن کے ساتھ ۔
یعنی معجزات کی حکمت یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں حق کے خلاف جو وسوسے ڈالتا ہے یہ اُن کو دور کرتے ہیں اور یہ اللہ کا اپنی مخلوق کا خاص انعام ہوتے ہیں جو وہ اسے راہ ِ ہدایت پر چلانے کیلئے بھیجتا ہے۔

معجزہ۔ انکار کرنے والوں کیلئے چیلنج

قرآن مجید چونکہ نبی اکرمﷺ کا معجزہ ہے اس لیے وہ مشرکین کیلئے ایک چیلنج رہا کہ وہ لوگ جو اسے شاعر اور جادو کا نام دیتے ہیں اس کے مقابلے میں ویسا ہی کلام لے کر آئیں۔ عربوں کی فصاحت و بلاغت اور نظم و نثر دونوں میں مہارت کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن نبی اکرمﷺ پر نازل کردہ کلام کی مثال پیش کرنے سے وہ قاصر رہے۔ حالانکہ ان کو بار بار چیلنج کیا گیا تھا کہ اگر جیسی کتاب یا اس جیسی دس سورتیں یا اس جیسی ایک سورت ہی لا سکتے ہو تو لے آؤ۔ ارشاد ہوا :

}قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا } (۱۲)

کہہ دو اگر سب انسان اور جن اس کام کیلئے جمع ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثال لے آئیں تو پھر بھی اس جیسا قرآن نہیں لا سکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں ۔

غازی صاحب ؒ قرآن کے اس چیلنج کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ :

معجزہ کے لیے مقابلہ ضروری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اپنے نہ ماننے والوں کو اس مقابلہ کی دعوت اس جیسا کلام پیش کرنے کے چیلنج سے دی۔ سورۃ البقرۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو چیلنج کرتے ہوئے مومنین کی صفات بیان کیں اور پھر ان کی مخالفت کرنے والوں کی ذہنیت کو بھی واضح انداز میں پیش کیا۔ ( ۱۳)

قرآن کریم نے مشرکین کے اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز ہونے پر ان کو خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہے یہ بات مان لو ورنہ تم دوزخ کا ایندھن بن جاؤ گے جس کی حرارت دنیا کی آگے سے ستر گنا زیادہ ہے۔

صدیاں بیت جانے کے باوجود تمام امتوں کے لیے قرآن کریم کا اعجاز باقی ہے اور وہ اپنے چیلنج کے موقف پر اپنی برتری کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ کائنات کے وہ اسرار جن کو آج کا جدید علم منکشف کر رہا ہے ، یہ وہی بلند و بالا حقائق کے مظاہر ہیں جن میں اس کائنات کے خالق اور مدبر کے اسرار پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس امرکو اجمالی طور پر بیان کیا ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم تمام انسانیت کے لیے معجزہ بن گیا ہے۔

قرآن کا آفاقی چیلنج

قرآن مجید اپنے جیسا کلام لانے کا چیلنج صرف عربوں کو نہیں دیتا بلکہ ساتھ ساتھ ہر زمانے اور ہر دور میں آنے والے لوگوں کو ، جن کے ذہنوں میں اس معجزے کے متعلق شکوک و شبہات ہوں کو بھی چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا کلام لا کر بتائو کہ یہ واقعی انسان کلامی ہے۔

فاضل مصنف نہایت پر مغز اسلوب میں اس معاملے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فالخلاصۃ ان للتحدی درجتان : التحدی بسورۃ منہ الاعجاز البلاغي والبیانی، والتحدی بکل القرآن بوجوہ اخری۔ و یمکن ان نقول بعبارۃ اخری۔ ان التحدي لہ مرتبتان او مرحلتان : المرتبۃ اوالمرحلۃ الاولی العرب الامیین۔ وھي بسورۃ او بعشر سور واما المرتبۃ اوالمرحلۃ الثانیۃ فھي للناس قاطبۃ: للآخرین منھم لما یلحقوا بھم۔ ولیس في ھذہ المرحلۃ ذکر سورۃ اوعشر سور بل التحدی في ھذہ المرتبۃ بالقرآن کلہ فان ھذا التحدی لجمیع الانس والجن ۔( ۱۴)

خلاصہ یہ ہے کہ اس چیلنج کے دد ‘در جات ہیں i) کسی سورت سے چیلنج دینا علم بلاغت اور علم البیان کو پیش نظر رکھ کر ii) پورے قرآن سے چیلنج دینا دوسری وجوہات کی بناء پر ۔ اور یہ بات دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ چیلنج کے دو مرتبے یا دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرتبہ یا مرحلہ عرب کے اُمی لوگوں کیلئے ہے اور یہ ایک سورۃ یا دس سورتوں کو لانے کا ہے ۔ دوسرا مرتبہ یا مرحلہ تمام انسانوں کیلئے ہے اور ان کے لیے بھی جو ابھی دنیا میں آئے ہی نہیں اور اس مرحلہ میں ایک سورۃ یا دس سورتوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس مرحلے کا چیلنج پورے قرآن کے ساتھ ہے اور بے شک یہ چیلنج تمام جنوں اور انسانوں کیلئے ہے۔

قرآن کریم کے اس قدر واضح چیلنج کے باوجود کوئی شخص اس کلام کے مقابلے میں چند جملے بھی بنا کر نہ لا سکا۔ عرب کو جو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرتے تھے اُن سے اتنا نہیں ہو سکتا کہ قرآن کے مقابلے میں چند جملے ہی پیش کر پاتے۔
غازی ؒ صاحب قرآن کی اس عاجز کر دینے والے خصوصیت کی وضاحت نہایت پر اثر انداز میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
معجزہ وہی ہوتا ہے جو کہ بذات خود عاجز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو کسی غیر کی محتاجی کے بغیر ۔ عربوں کا قرآن کے اسلوب کو پسند کرکے گہرا اثر لینا اور اس کے مقابلے میں اپنے عجز کا اعتراف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کی مثل لانے سے عاجز تھے اور یہی معجزہ کی حقیقت ہے۔ (۱۵)

انفرادیت کلام مجید

قرآن مجید کا اعجاز یا معجزہ محض چند دلائل سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی ہر آیت اپنے اندر ایک معجزاتی اسلوب کی حامل ہے۔ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کی تہیں کھولتے ہوئے علما ء پر یہ علم ظاہر ہوا اور گزرتے وقت اور زمانوں کیساتھ اس کے مختلف پہلو سامنے آتے گئے اور آتے رہیں گے۔

قرآن مجید وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی آیات خود اس کے معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور یہ اس مقدس کلام کی انفرادیت ہے۔ فاضل مصنف اس انفرادیت کو نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وعلی کان فان ھذہ الآیات المبارکۃ : ’’اثبت اعجاز القرآن اثباتاً امتواتراً متازبہ القرآن عن بقیۃ المعجزات ۔ فان سائر المعجزات للانبیاء ولنبینا علیھم الصلاۃ والسلام انما ثبتت با خبار آحاد۔ وثبت من جمیعھا قدر مشترک بین جمیعھاو ھو و قوع اصل الاعجاز بتواتر معنوي،مثل کرم حاتم و شجاعۃ عمرو۔ فاما القرآن فاعجازہ ثبت بالتواتر النقلي ، ادرک معجزۃالعرب بالحسن، وادرکھا عامۃ غیر ھم بالنقل ۔ وقدتدرکھا الخاصۃ من غیر ھم بالحس کذلک (۱۶)

مختصر یہ کہ آیات مبارکہ تواتر کے ساتھ اعجاز القرآن کا اثبات کرتی ہیں اور اس کے ذریعے قرآن باقی معجزات سے جدا ہو جاتا ہے کیونکہ باقی معجزات ہمارے نبی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے خبر واحد کے ذریعے ثابت ہوتے ہیں اور تمام سے ایک قدر مشترک ثابت ہوتی ہے جو کہ ان تمام کو واضح کرتی ہے اور وہ ہے تواتر معنوی کے ذریعے اصل معجزہ کا واقع ہونا جیسے حاتم طائی کی سخاوت اور مرو کی بہادری۔ اور قرآنی اعجاز نقل تواتر سے ثابت ہے۔ عربوں نے حسی طور پر اس معجزہ کو محسوس کیا اور عام لوگوں نے نقل سے اسے پا لیا اور ان کے علاوہ جو خاص لوگ ہیں انہوں نے بھی حسی طور پر سمجھ لیا۔

قرآن مجید۔حُسن بیان کے لحاظ سے معجزہ

قرآن مجید اپنے حُسن بیان کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے۔ اس کتاب کا انداز بیان ایسا شاندار اور مکمل ہے کہ اس کی نظیر ملنا ممکن نہیں ۔ اس کے الفاظ جملوں کی ترکیب اور ساخت ہر معاملے میں قرآن مجید کا اعجاز اوج کمال پر ہے۔ قرآن کریم کے جملوں کے دروبست میں وہ شوکت، سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں لا ئی جا سکتی۔
غازی صاحب ؒ کلام مجید کے حُسن بیان کو نہایت شاندار پیرائے میں کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں :

حسن بیان کے کئی درجات ہیں اور ان میں سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے کہ جس میں ایک عبارت میں حسن بیان کے تمام اسباب جمع ہو جائیں یعنی اس میں تعدیل نظم، تلاوتِ کلمات اور کمال ِ معنیٰ وغیرہ ہوں اور وہ سننے میں اچھا لگے۔ زبان کو آسان لگے اور اسے لوگ خوشی سے قبول کریں اور یہ کہ اس میں بلاغت کے تمام مقتضیات موجود ہوں ۔ (۱۷)

بلاشبہ قرآن کریم کی تالیف و ترتیب اور کلمات و آیات کا تناسب کچھ ایسے اسلوب پر واقع ہوا ہے کہ عرب کے تمام معناد اور متعارف طریقوں سے جُدا اور نرالا تھا۔ عرب میں نظم و نثر کے جو بھی انداز بیان تھے ان میں سے کوئی بھی قرآن کے حُسن بیان کے مشابہ نہ ہو سکا۔

نظم و ربط کے لحاظ سے معجزہ

قرآن کریم کا ایک دقیق اعجاز اس کی آیات کے باہمی ربط و تعلق اور نظم و ترتیب سے ظاہر ہوتاہے۔ قرآن کریم کی آیات کے درمیان نہایت لطیف ربط پایا جاتا ہے۔ اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو قرآن کی ہر آیت مستقل معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ذرا ساغور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ پورا کلام مسلسل اورمربوط ہے۔
قرآن مجید میں جو نظم اور ربط ہے وہ اس کی سورتوں میں بیان کردہ مضامین کی مناسبت کی وجہ سے ہے۔ یہ بھی قرآن کے اعجاز کا ایک پہلو ہے کہ اس کی ہر سورت اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے۔

مصنف محترم اس باریک نکتے کو نہایت لطیف انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فالتناسب بین ھذہ السور حسب المعاني التي اشار الیھا المفسرون امرلہ غایۃ الاھمیۃ في الاعجاز القرآني ۔ فشرح کل سورۃ الاجمال ماوردفي السورۃ التي قبلھا، علی الرغم من نزولھا في اوقات مختلفۃ و اما کن مختلفۃ لا یخلو من وجہ قوي من وجوہ الاعجاز ۔(۱۸)

لہذا ان سورتوں میں مناسبت معنی کے لحاظ سے ہے جن کی طرف مفسرین نے اشارہ کرکے انہیں اعجاز القرآنی کا اہم ترین موضوع قرار دیا ۔ لہذا ہر سورت کی تشریح واضح کرتی ہے کہ اس سے پہلے سورت میں کیا تھا۔ غالب گمان کے مطابق اس کا مختلف اوقات اور مختلف مکانوں پر نازل ہونا اس کے وجوہ اعجاز کے قوی ثبوت ہونے سے خالی نہیں۔

قرآن کریم کی بہت کم سورتیں ایسی ہیں جو کہ ایک ہی دفعہ میں پوری کی پوری نازل ہوئی ہوں۔ زیادہ تر سورتوں آیات کی شکل میں مختلف جگہوں اور مختلف حالات و واقعات میں نازل ہوئیں۔جن کو رسول اکرمﷺ کے احکام کے مطابق ایک سورت کے عنوان کے تحت جمع کر لیا گیا ۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے کہ نزول کے اوقات، جگہ اور زمانہ مختلف ہونے کے باوجود ایک سورت کی آیات ربط و نظم کے اعتبار سے آپس میں اس طرح باہم مربوط ہیں کہ جیسے ایک ہی بار میں ایک ہی مضمون کے تحت پوری سورت نازل کی گئی ہو۔

v

عجاز القرآن کے اس پہلو پر بھی ہر زمانے کے علماء نے قابل قدر کام کیا۔ علمائے اسلام کی ان کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے مصنف محترم یہ انداز اختیار کرتے ہیں :

کلام مجید کے اسلوب کے اس جمال سے پردہ ہٹانے کیلئے علماء علوم القرآن اور علماء تفسیر کی بہت بڑی تعداد نے کام کیا۔ متقدمین میں سے قاضی ابوبکر ابن العربی، علامہ جار اللہ زمخشری ؒ ، علامہ بقاعی، شیخ ابو حیان اندلسی، علامہ جلال الدین سیوطیؒ ، امام رازی نے اس علم پر کام کیا۔ برصغیر پاک و ہند کے علماء بھی پیچھے نہیں رہے اور شیخ علی مھائمی، شاہ ولی اللہ ؒ دہلوی، مولانا اشرف علی تھانوی، عبدالحمید فراہی اور ان کے شاگرد امین احسن اصلاحی، شیخ حسین علی اور ان کے شاگرد شیخ محمد طاہر اور مفسر ادیب اُستاد عبداللہ یوسف علی۔ ان سب نے آیات اور سورتوں کے درمیان مناسبت پیدا کرنے میں کوششیں صرف کیں ۔(۱۹)

مختصر کہ کہ قرآن کریم نے اپنے نظم میں جو اسلوب و اختیار فرمایاہے وہ اس کا دقیق ترین اعجاز ہے جس کی تقلید بشری طاقت سے بالکل باہر ہے۔

قصص القرآن

قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل اس میں بیان کردہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبین کی بعثت تک اقوام ماضیہ اور انبیاء سابقہ کے واقعات ہیں۔ ایسے واقعات جن کو اُمی شخص تو درکنار بہت سے خواص اور احبار اہل کتاب بھی نہ جانتے تھے۔ ایسے گزرے ہوئے واقعات نادرہ اس اعلان کے ساتھ بیان کرنا کہ یہ واقعات ثابت اور برحق ہیں اور اللہ کی طرف سے آپﷺ پروحی کیے گئے ہیں قرآن کا کھلا ہوا اعجاز ہے۔

غازی صاحب ؒ اعجاز القرآن کے اس پہلو کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :

وجوہ اعجاز میں سے ایک اہم ترین وجہ سے متقدمین نے ذکر کیا اور بعض علماء معاصرین نے اس کا نام اعجاز خبری رکھا اور بعض نے اعجاز قصصی اور بعض نے اعجاز غیبی ۔ یہ تمام عنوان اعجاز غیبی کی ایک خاص طرف پر دلالت کرتے ہیں۔ پس اعجاز خبری سے مراد ماضی کے قصوں کی خبریں اور گزری ہوئی امتوں کے احوال ہیں
اور ان کی حکایت پر باریکی اور تفصیل سے قرآن کریم میں ایسے مذکور ہے جیسے کہ یہ تمام حکایات اس نے بیان کی ہیں جس نے ان کو دیکھا اور مشاھدہ کیا۔ (۲۰)

قرآن کریم ان قصص کو بیان کرتے ہوئے محض اس قدر بات بیان کرتا ہے جس قدر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ غیر ضروری تفصیل اور مبالغہ آمیزی سے اجتناب کرتا ہے۔ غازی صاحب ؒ لکھتے ہیں :

ان ھناک قصصاً کثیرۃ في القرآن الکریم نحتوی علی تفاصیل دقیقۃ عن الامم السابقۃ ۔ و توجد بعض ھذہ القصص في المصادر الیھودیۃ والمسیحیۃ القدیمۃ ایضاً مع تفاصیل کثیرۃ تصل احیانا الی حد الافراط والمبالغۃ ۔ ولکن القرآن الکریم یذکر ھذہ المبالغات بل اھملھا اھمالاً کاملاً ۔ (۲۱)

قرآن کریم میں بہت سارے قصے ایسے ہیں جو کہ پرانی امتوں کے بارے میں بہت ہی تفصیل پر مشتمل ہیں اور ایسے بعض پرانے یہودی مصادر اور عیسائی مصادر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی تفصیل کے ساتھ جو بعض دفعہ بہت مبالغہ اور افراط کے ساتھ بیان ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم نے ان مبالغات کو بیان نہیں کیا بلکہ ان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ۔

اگر کوئی مضمون یا قصہ بار بار بیان کیا جائے تو سننے والے کو بے لطفی بلکہ طبیعت پر گرانی محسوس ہونے لگتی ہے لیکن یہ قرآن کا خاصہ اعجاز ہے کہ ایک قصہ بار بار دہرایا جاتا ہے لیکن ہر اعادہ میں سامع کو اس کا ایک نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔

جو قصہ بھی مکرر بیان کیا جاتا ہے وہ ایسے نرالے اندا ز کے ساتھ کہ بالکل نیا قصہ معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں یہ اندازِ بیان کسی بھی فصیح و بلیغ قادر الکلام کے کلام میں آج تک نہ آسکا اور نہ قیامت تک پایا جا سکے گا۔

اخبار غیب کے اعتبار سے معجزہ

اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ جب وہ کسی کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے تو لوگوں پر اس کلام کی صداقت اور منجانب اللہ ہونا ثابت کرنے کیلئے اس میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کی کچھ پیشگی خبریں دی جاتی ہیں۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹے دعویٰ نبوت کے ساتھ کوئی پیش گوئی کرتا ہے تو اسے پورا نہیں ہونے دیا جاتا۔

قرآن کریم نے کلام اللہ ہونے کے ساتھ بیسیوں پیشگی خبریں دی ہیں اور وہ سب کی سب بلا استشناء صحیح ثابت ہوئیں، جن کا انکار اسلام کا کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی نہیں کر سکا۔

غازی ؒ صاحب اخبارِ غیب کے سلسلے میں قرآن کا اسلوب نہایت مدلل انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قرآن پاک کی آیات میں بہت سی غیب کی خبریں منتشر ملتی ہیں۔ مکی ہوں یا مدنی تمام آیات میں اور ان کی تعداد اس قدر ہے کہ اس مختصر کتاب میں ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن میں پائی جانے والی مستقبل کی خبروں کا اسلوب کاہنوں اور جھوٹے مدعیان نبوت کے اسلوب سے بالکل مختلف اور جداگانہ ہے ۔ (۲۲)

قرآن کریم نے جن جن واقعات کی خبر دی وہ صبح صادق کی روشنی کی طرح دنیا کی نگاہوں کے سامنے آکر رہے۔ مثلاً حق تعالیٰ نے عجم پر روم کے غلبہ کی خبر دی اسوقت جب کہ عالمِ اسباب میں بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کے مکہ سے بے سرو سامانی کے عالم میں ہجرت کرتے وقت فتح مکہ کی خوشخبری دی گئی۔ ایسی باتیں جن کے اُس وقت پورے ہونے کے بظاہر کوئی اسباب نظر نہیں آتے تھے لیکن اللہ رب العزت نے اپنی خاص قدرت سے ان نا ممکنات کو ممکن کر دکھایا اور قرآن کے دعوئوں کو سچ ثابت کیا۔

تاثیرِ کلام کے اعتبار سے معجزہ

قرآن مجید اپنے کلام میں پائی جانے والی تاثیر کے لحاظ سے بھی ایک مختلف معجزاتی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب، جن کی زبان میں یہ مقدس کتاب ناز ل ہوئی وہ اس کی تاثیر سے اس قدر نالاں تھے کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے کیونکہ اس کو سُن لینے کے بعد وہ خود کو اس کی تاثیر سے بچانا مشکل پاتے تھے۔
اس اثر آفرینی کا ذکر کرتے ہوئے فاضل مصنف اپنے مخصوص فصیح و بلیغ انداز میں یوں فرماتے ہیں :

قرآن کے وجوہ اعجاز میں سے ایک وجہ اس کی تاثیر ہے جو کہ انسان کے دل پر عجیب انداز میں اثر انداز ہوتی ہے اور روح، عقل اور دل پر بے مثال اثر چھوڑتی ہے۔ کوئی نظم یا نثری کلام اپنے سننے یا پڑھنے والے پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا جیسے کلام مجید ہوتا ہے۔ احادیث نبویہ ہوں یا عربی زبان میں دئیے گئے کبار صحابہ کے خطبات، کوئی کلام اس قدر اثر آفرینی کا حامل نہیں جیسا کہ یہ کلام اور تاریخ لوگوں پر پڑنے والے اس کلام کے اثر کی شاہد ہے ۔ (۲۳)

دُنیا کی کسی اور کتاب میں یہ تاثیر نہیں ہے جو قرآن مجید میں نظر آتی ہے ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے ایک ایک جملے بلکہ ایک ایک لفظ نے انسانوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔ انسانوں کے نظریات، عقائد حتیٰ کہ لباس اور طور طریقے تک بدل دئیے ہیں۔ ایسی کوئی اور کتاب تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ چاہے وہ ادبی ہو یا غیر ادبی، مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔

اعجاز القرآن کی نئی جہتیں

جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا علم اعجاز القرآن کی نئی نئی جہتیں سامنے آتی جائیں گی۔ یہاں تک کہ لوگ گواہی دیں گے کہ یہی کتاب بر حق ہے۔ قرآن کریم نے بہت سے ایسے علمی اور تاریخی حقائق کی نشاندہی فرمائی ہے جو اُس زمانے میں نہ صرف کہ نامعلوم تھے، بلکہ اُس وقت اُن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ جس وقت فرعون دریا میں غرق ہونے لگا تو اس نے جان بچانے کیلئے زبانی طور پر ایمان لانے کا اقرار کیا،

جس کے جواب میں باری تعالیٰ نے فرمایا :

}فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً} (۲۴)

پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے عبرت بن جائے ۔

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت اور اس کے بعد بھی صدیوں تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ فرعون کی لاش اب تک صحیح سلامت موجود ہے، لیکن اب سے کچھ عرصہ پہلے یہ لاش دریافت ہوئی اور آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

}وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ} (۲۵)

اور ہم نے ایک چیز کے دو جوڑے پیدا کیے ہیں تاکہ نصیحت حاصل کرو۔

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت عام تصور یہ تھا کہ نر اور مادہ کے جوڑے صرف انسانوں یا جانوروں میں ہوتے ہیں یا پھر چند نباتات میں ، لیکن سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ قرآنی حقیقت واضح ہو تی جا رہی ہے کہ نر و مادہ ہر چیز میں موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں ان جوڑوں کا نام نر اور مادہ رکھ لیا جائے، کہیں مثبت اور منفی اور کہیں الیکٹرون اور پروٹون اور کہیں نیوٹرون اور پوزیٹرون۔

علمائے کرام نے علم اعجاز القرآن میں جو نئی جہتیں تلاش کیں ان کا ذکر کرتے ہوئے مصنف محترم رقمطراز ہیں :

ان من اھم وجوہ الاعجاز التي ذکر ھا العماء في القرن العشرین الاعجاز التشریعی۔ الذی اعتنی بہ عدد من اھل العلم بحتاً و شرحاً و تالیفا، احیاناً بعنوان الاعجاز التشریعي و اخری بدون ان یستخد مواھذا العنوان ۔ (۲۶)

وجوہ اعجاز میں سے اہم وجہ جس کو علماء نے بیسویں صدی میں ذکر کیا وہ اعجاز تشریعی ہے جس کو اہل علم کی بہت بڑی تعداد بحث، شرح اور تالیف کے طور پر قبول کرتی ہے۔ کبھی اعجاز تشریعی کے عنوان کے ساتھ او+ر کبھی اس کے بغیر ۔

اہل علم نے ہر دور میں خاص طور پر دور جدید میں قرآن کی شریعت کی خصوصیت کو ظاہر کرنے کا اہتمام کیا اور اس کے فضائل کو بیان کیا۔قرآن کریم فرد کی تربیت سے ابتداء کرتا ہے کیونکہ وہ معاشرے کا ایک جزو ہے اور وہ اس کی تربیت میں اس کی وجدانی آزادی اور احساس ذمہ داری کا بھر پور احساس کرتا ہے۔ ہر دور کے مسلمانوں نے شرعی احکام کی تطبیق کا سلسلہ جار ی رکھا اور اس کے مختلف پہلوئوں کو سامنے لاتے رہے۔

قرآن مجید ۔۔ اعجاز عظیم

قرآن کریم سے پہلے جو آسمانی کتابیں مختلف انبیاء پر نازل ہوئیں اُن کی حفاظت کا کوئی وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں کیا تھا تھا، چنانچہ وہ اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں رہ سکیں۔ اس کے بر خلاف قرآن کریم نے اپنے بارے میں یہ پیشگی خبر دے دی تھے کہ :

{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ} (۲۷)

ہم نے ہی اس قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنیوالے ہیں ۔

چنانچہ یہ وعدہ حرف بہ حرف پورا ہوا اور چودہ سو سال کے اس طویل عرصے میں قرآن کریم کا کوئی نقطہ اور کوئی شوشہ تک ضائع نہ ہو سکا اور نہ اس میں تحریف و ترمیم کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکی۔ اسلام ہمیشہ مخالفتوں اور عداوتوں کے نرغہ میں رہا ہے اور اس کے دشمنوں نے اسے مغلوب کرنے کی کوشش کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی، لیکن کوئی دشمن قرآن کریم کو اُس دور میں بھی مٹانے، ضائع کرنے یا بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جبکہ قرآن کریم کے نسخے نہایت محدود تھے اور نشر و اشاعت کے وسائل نایاب۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن کو بلکہ صاحب ِ قرآن کی زندگی کے بھی ایک ایک پہلو اور گوشے کی حفاظت کا اہتمام فرمایا تاکہ مخالفین کو کسی بھی قسم کی انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے۔
اس حقیقت کو غازی ؒ صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں :

صاحب قرآن کی سیرت، تعلیم اور سنت اسطرح محفوظ ہے کہ کسی انسان کی سیرت اس انداز میں محفوظ نہیں ہوگی۔ مسلمانوں نے نہایت علمی اور عالمانہ انداز میں آپﷺ کی زندگی کے گوشے گوشے کو محفوظ کیا ۔ (۲۸_)

خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نے جو وعدہ فرمایا تھا کہ اللہ کی یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرلے گا، اس کی صداقت روزبروز روشن ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ پیشگی خبر سوفیصد درست ثابت ہوئی ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد ؒ غازی کی یہ کتاب اگرچہ عربی زبان میں منظر عام پر آئی ہے۔ لیکن اس کی آسان زبان، سادہ انداز اسے اردو دان طبقے کیلئے بھی قابل ِ فہم بناتا ہے۔ مصنف نے نہایت عمدہ پیرائے میں اعجاز القرآن کی دقیق ابحاث کو بڑی جانفشانی سے پیش کیا ہے جو کہ اس کتاب کا نمایاں وصف اور اسلوب ہے۔

حوالے و حواشی

۱۔ ملاقات محترمہ نائلہ غازی، دُختر ڈاکٹر محمود احمد غازی، ۱۰ فرری ۲۰۱۲ء ، اسلام آباد
۲۔ محمد الغزالی، ڈاکٹر، مائی برادر ، معارف اسلامی، اسلام آباد، کلیہ عربی و علوم اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ج ۱۰، ش۱، جنوری تا جون ۲۰۱۱ء ، ص ۴۳۔۴۴
۳۔ منصوری، محمد عیسیٰ، مولانا، ایک عظیم سکالر اور رہنما، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، ج ۲۲، ش۱، جنوری فروری ۲۰۱۱ء، ص ۵۹
۴۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ،السنن ، دارالسلام، ریاض، ۲۰۰۲ء، رقم الحدیث، ۲۹۲۶
۵۔ غازی، محمود احمد، ڈاکٹر، المدخل الوجیز الی دراسۃ الاعجاز في الکتاب العزیز، دارالشبائر، بیروت، ۲۰۱۰ء، ص ۵
۶۔ ایضاً، ص ۶۲ ۷۔ ایضاً، ص ۲۰
۸۔ حوالہ بالا، ص ص ۲۰۔۲۱ ۹۔ ایضاً، ص ۴۶
۱۰۔ ایضاً، ص ۲۷ ۱۱۔ ایضاً، ص ۲۸
۱۲۔ سورۃ بنی اسرائیل، ۱۷:۸۸ ۱۳۔ ڈاکٹر غازی ، المدخل الوجیز، ص ۴۵
۱۴۔ ایضاً، ص ۵۳ ۱۵۔ حوالہ بالا، ص ۱۳۴
۱۶۔ ایضاً، ص ص ۵۴۔۵۵ ۱۷۔ ایضاً، ص ۱۶۹
۱۸۔ ایضاً، ص ۱۹۶ ۱۹۔ ایضاً، ص ۱۹۲
۲۰۔ ایضاً، ص ۲۱۹ ۲۱۔ ایضاً، ص ۲۳۷
۲۲۔ ایضاً، ص ۲۴۰ ۲۳۔ ایضاً، ص ۳۱۵
۲۴۔ یونس ، ۱۰:۹۲ ۲۵۔ الذاریات، ۵۱:۴۹
۲۶۔ ڈاکٹر غازی، المدخل الوجیز، ص ۲۵۶ ۲۷۔ الحجر ، ۱۵: ۹
۲۸۔ ڈاکٹر غازی، المدخل الوجیز، ص ۳۴۲