خدمت ِقرآن کے میدان

پروفیسرحافظ احمد یارؒ

قرآن کریم پر کلام اللہ اور کتاب اللہ کی حیثیت سے ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے اجزائے ایمان کا ایک جزء بھی ہے اور کامل و مکمل ایمان کے مضمرات اور مقتضیات کی تمام تفصیلات کی اساس اور بنیاد بھی ہے۔ قرآن بیک وقت منبع ایمان اور سر چشمہ یقین بھی ہے اور سالک راہِ خدا یا مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے راہ و رسم منزل سے آگاہی اور سخت مقامات کی نشان دہی پر مشتمل ایک مکمل مجموعہ ہدایت بھی ہے۔ قرآن معاش و معاد یعنی دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کے لیے راہنما ہے اور اس نصب العین کے حصول میں پیش آنے والی ہر مشکل کا حل اور ہر مرض کی دواء اور شفاء ہے ۔گویا وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا۔

مگر اس وقت ہمارا موضوع قرآن کی اہمیت یا عظمت کا بیان نہیں ہے۔ یہ چند فقرے بھی تمہید کے طور پر زبان (قلم) پر آ گئے۔

دین اسلام میں قرآن کا یہ مقام ہی اس کے ماننے والوں پر کچھ فرائض اور واجبات عائد کرتا ہے۔ اسی کو آپ ’’مسلمانوں پر قرآن کے حقوق‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان حقوق اور فرائض کو مختصر ًاہم پانچ یا چھ بنیادی عنوانات میں تقسیم کر کے ’’حقوق پنجگانہ‘‘ یاشش جہات واجبات کی صورت میں بھی بیان کر سکتے ہیں۔ مگر ان حقوق کی ادائیگی اور ان فرائض کی بجا آوری سے خدمت قرآن کے اتنے میدان سامنے آتے ہیں کہ ان تمام میدانوں میں قرآن کے لیے کام کرنا اور اس میں خدمت کا حق ادا کرنا کسی ایک فرد کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اسی لیے یہ مجموعی طور پر پوری اُمت کی ذمہ داری ہے اور تقسیم کار کے طور پر اپنی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق قرآن کریم کی کوئی نہ کوئی خدمت سر انجام دینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

نبی کریم ﷺ ‘آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ان کے تابعین اور بعد میں آنے والے سلف صالحین نے مختلف میدانوں میں قرآن کی جو خدمات سر انجام دیں اس نے آنے والوں کے لیے نہ صرف عمل کی راہیں متعین کر دیں بلکہ خدمت قرآن کے بہترین عملی نمونے بھی چھوڑے ہیں

ڈاکٹر لبیب السعید نے اپنی کتاب ’’الجمع الصوتی الاول للقرآن الکریم‘‘ میں اُمت مسلمہ کی قرآنی خدمات پر تبصرہ کا آغاز علامہ عبداللہ یوسف علی کے انگریزی ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں سے چند سطروں کے ترجمہ سے کیا ہے : ’’لیس فی الدنیا کتاب وضعت فی خدمتہ مثل ھذہ الکثرۃ من المواھب التی وضعت فی خدمۃ القرآن و لا مثل ھذہ الوفرۃ من العمل و الوقت و المال‘‘

:علامہ عبد اللہ یوسف علی مرحوم کی اصل عبارت یوں ہے

There is no book in the world in whose service so much talent, so much labour, so much time and money have been expended as has been the case with the Quran.

قرآن سے متعلق فرائض ادا کرنے یا قرآن کے لیے خدمات سر انجام دینے کے کام کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:(۱) حفاظت ِقرآن (۲) نفاذِ قرآن حفاظت ِقرآن میں اس کے متن کی حفاظت ‘اس کے معنی کی حفاظت اور اس کی حقانیت کی حفاظت شامل ہیں اور حفاظت قرآن کی غایت احکامِ قرآنی کا عملی نفاذ ہے۔ حفاظت قرآن سے متعلق تمام خدمات و انتظامات آیۂ کریمہ {لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ} (حٰمٓ السجدۃ) کی عملی تفسیر اور ظہور حق کا ایک نمونہ ہیں تو نفاذ تشریع قرآنی کی ہر مخلصانہ کوشش بفحوائے آیت کریمہ {جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ } (بنی اسراء یل:۸۱) غلبہ حق کی منزل مراد کی طرف ایک قدم ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ اگر کسی زمانے میں یا کسی جگہ کے مسلمانوں نے خدمت قرآن کے کسی ایک میدان میں کوتاہی اور تساہل سے کام لیا تو اس کی تلافی کے لیے کسی دوسرے زمانے یا کسی دوسرے علاقے میں اللہ تعالیٰ افراد و جماعات کی صورت میں خدام قرآن پیدا کرتا رہا ہے۔

حضرات! یہاں تک پہنچنے کے بعد اور’’منزل مراد‘‘ اور ’’ادائے واجب میں کوتاہی‘‘ کے ذکر سے مجھے پاکستان اور قرآن میں ایک عجیب مماثلت نظر آئی ۔مثلاً:۔

(۱) دونوں کی خدمت خلوص سے زیادہ چرب زبانی کے ساتھ کی جا رہی ہے۔

(۲) دونوں کے واسطے کام کرنے والوں کے مقابلے پر دونوں سے اپنا کام لینے والے زیادہ ہیں۔

(۳) پاکستان کے مقاصد اور قرآن کے مطالب کا خلاصہ لا الہ الا اللہ ہی تھا اور ہے ‘لیکن دونوں کے نام لیواؤں میں اللہ اور غیر اللہ کے فرق کو بھی نہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

(۴)پاکستان اور قرآن کے مقاصد کے مطابق چلنے کی بجائے دونوں کو اپنے مقاصد کے مطابق’’چلانے‘‘ والے بھی سرگرم عمل ہیں۔

(۵)اس وقت دونوں ہی اندرونی خرکاروں اور بیرونی تخریب کاروں کے نرغے میں ہیں۔ اور یوں دونوں کی خدمتیں ایک ِؕپطرح کا عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے۔یہ سوچ کر اور پھر یہ دیکھ کر کہ ان محاضرات کے عنوانات میں استحکام کا لفظ غالب ہے تو اب مجھے اپنے نوان’’خدمت قرآن کے میدان‘‘ کو ’’استحکام خدماتِ قرآن‘‘ میں بدل لینا مناسب معلوم ہوا۔نیز اس وجہ سے بھی کہ خدمت قرآن کے میدان اب میں کیا متعین کروں گا‘ وہ تو عہد رسالت اور دورِ تبع تابعین کے درمیان ہی متعین ہو چکے تھے‘ بعد والے تو اس میں اپنی ’’خدمت‘‘ کے لیے ’’ختم شریف‘‘ کا اضافہ ہی کر سکے۔

لہٰذا اب ہم خدمت قرآن کے صرف ان پہلوئوں پر نظر ڈالیں گے جہاں ہمارے بزرگوں نے تن دہی سے کام کیا مگر ہم نے اپنی غفلت سے عدم استحکام کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس طرح خدمت قرآن کے بنیادی میدان بنتے ہیں: اسے لکھنا لکھانا ‘اسے پڑھنا پڑھانا‘ اسے سمجھنا سمجھانا‘ اس کو دشمنوں کے حملوں سے بچانا اور معاشرے میں اسی کے قانون کا سکہ جمانا۔

قرآن کے لیے کوئی خدمت سر انجام دینے کا سب سے پہلا موقع یا اعزاز جو بعض صحابہؓ کو حاصل ہوا وہ کتابت وحی کا تھا۔ عہد رسالت میں کتابت آیات کی یہ خدمت ہی عہد صدیقی میں جمع قرآن بصورت مصحف ظاہر ہوئی اور اسی مصحف کی نقول سے عثمانی ایڈیشن کے مصاحف تیار کیے گئے۔ اس طرح مصاحف عثمانیہ کے ذریعے عہد نبویؐ کا طریق کتابت بھی محفوظ ہو گیا —- اور اسی لیے آئندہ کے لیے کتابت مصحف کا معیار صحت یہی قرار پایا کہ وہ ان مصاحف میں سے کسی ایک کی ہو بہو نقل ہو یا اس سے تیار کردہ نقل کی نقل ہو —- اور اس میں مصاحف عثمانی میں استعمال شدہ طریق املاء وھجاء سے سرمو بھی تفاوت نہ ہو۔ اس طریق املاء کا نام ہی رسم عثمانی پڑ گیا۔ اور جن کو بوجوہ یہ نام اچھا نہ لگا انہوں نے بھی رسم قرآنی یا رسم مصحف کے نام سے اسی طریق املاء و ھجاء کی پیروی کو لازمی مانا۔

یہی وجہ ہے کہ کاتبانِ مصاحف کی راہنمائی کے لیے اور علمائے تجوید و قراء ت کے استفادہ کے لیے اس مخصوص فن یعنی علم الرسم پر الگ کتابیں تالیف کی گئیں۔

مختلف عوامل کے باعث بعض اسلامی خصوصاً ایشیائی ممالک میں رسم عثمانی کے اس التزام سے تساہل برتا جانے لگا۔ تاہم اندلس اور افریقی ممالک اس خرابی سے محفوظ رہے۔

رسم عثمانی کی غلطیوں پر مبنی نسخوں سے کتابت کے باعث آہستہ آہستہ یہ غلط املاء آنکھوں کو مانوس نظر آنے لگا۔ مصاحف خطیہ کے دور تک تو قدرتاً ان اغلاط کی اشاعت کا دائرہ محدود رہا مگر دورِ طباعت میں یہ اغلاط آناً فاناً اضعافاً مضاعفہ ہونے لگیں تو اہل علم اس صورت حال سے بے چین ہو گئے اور گزشتہ صدی میں اس کوتاہی اور تساہل کے خلاف آواز اٹھنے لگی۔ ۱۸۹۱ء /۱۳۰۸ھ میں رضوان بن محمد المخلاتی کے زیر اہتمام مصر سے ایک مصحف شائع ہوا جس میں بڑی حد تک رسم عثمانی کا التزام کیا گیا تھا۔ اس کے بعد قاہرہ ہی سے حکومت مصر کے زیر اہتمام فواد الاول کے زمانے میں ۱۳۴۲ھ /۱۹۲۳ء میں اہل علم ماہرین فن کے ایک بورڈ کی نگرانی میں بڑے اہتمام سے وہ مشہور نسخہ شائع ہوا جو عموماً مصحف الملک یا نسخہ امیر یہ کے نام سے معروف ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۳۷۱ھ/۱۹۵۴ء میں شائع ہوا اور اس میں رسم عثمانی کی ان چار غلطیوں کو بھی درست کر دیا گیا جو طبع اول میں رہ گئی تھیں۔ اس کے بعد سے شرقِ اوسط کے تمام عرب ممالک میں شائع ہونے والے مصاحف بالعموم اسی مصری مصحف طبع دوم سے نقل کیے جاتے رہے ہیں۔ اس مصری نسخے پر مبنی مگر بہت خوبصورت نسخہ دمشق سے الدار الشامیہ نے۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء میں شائع کیا اور۱۹۸۵ء میں حکومت سعودی عرب نے یہی نسخہ مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف کے زیر اہتمام شائع کیا ہے۔ پاکستان میں مولوی ظفر اقبال صاحب مرحوم نے اسی مصری نسخہ پر مبنی تجویدی قرآن کا نسخہ تیار کروایا جسے پیکیجز لمیٹڈ نے۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء میں شائع کیا ہے۔ پاکستان میں شائع ہونے والا یہ واحد مصحف ہے جس میں رسم عثمانی کاالتزام کیا گیا ہے۔

جن نسخوں کا ابھی ذکر ہوا ہے یہ سب قراء ت کے لحاظ سے حفص عن عاصم والی روایت پر مبنی ہیں۔ مصری نسخہ کا اہتمام دیکھ کر بعض دوسرے افریقی ملکوں میں جہاں حفص کے علاوہ دوسری روایاتِ قراء ت متداول ہیں‘ انہوں نے بھی رسم عثمانی کے التزام پر مبنی مگر اپنے ہاں رائج قراء ت کی علاماتِ ضبط کے ساتھ مصاحف شائع کیے ہیں۔ ورش عن نافع والی روایت تمام افریقی ملکوں خصوصاً نائیجیریا‘ مراکش وغیرہ میں عام ہے۔ حکومت سوڈان نے ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء میں دوری عن ابی عمرو البصری کی روایت پر مبنی نسخہ قرآن شائع کیا اور تونس سے ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء میں قالون عن نافع کی روایت پر مبنی نسخہ عبد العزیز خماسی کی کتابت سے شائع ہوا اور ابھی حال میں حکومت لیبیا نے بھی قالون عن نافع کی روایت پر مبنی ابوبکر ساسی کی کتابت کے ساتھ ایک نسخہ قرآن شائع کیا ہے۔ یہ نسخہ بھی رسم عثمانی پر ہی مبنی ہے۔ ان مصاحف کی اشاعت سے ایک دفعہ پھر کتابت مصاحف میں رسم عثمانی کے التزام کا احساس یا تجدید احساس ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

رسم عثمانی کے عام رسم املائی سے اختلاف اور کتابت مصحف میں خود رسم عثمانی میں بھی کئی جگہ کسی اصول کی پابندی کے فقدان کے اسباب کی تلاش میں — رسم قرآنی کے توقیفی ہونے سے لے کر صحابہؓ کے قواعد املاء سے نا واقفیت جیسے انتہائی متضاد نظریات وجود میں آئے — تاہم گزشتہ صدی میں شمالی عرب اور شام کے بعض علاقوں سے قبل از اسلام دور کے بعض قبطی کتبات کی دریافت نے رسم عثمانی کے مآخذ و مصادر کی طرف رہنمائی کر دی ہے۔

رسم قرآن کے اس فنی پہلو کے ساتھ ساتھ خط قرآن نے حسن وجمال کے کئی قالب گزشتہ چودہ صدیوں میں اختیار کیے اور جمالِ خط کے ساتھ بعض دفعہ کتابت مصاحف میں صنائع و بدائع کا استعمال تو بعض دفعہ اعجازِ قرآنی کا ایک مظہر نظر آتا ہے۔ کتابت مصاحف یا خط قرآن جہاں خدمت قرآن کا ایک میدان ہے وہاں اس خدمت میں محبت و عقیدت کا ایک مظہر بھی ہے۔

افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں طباعت و اشاعت قرآن کے نام سے لاکھوں بلکہ کروڑوں کا کاروبار کرنے والے ادارے ابھی تک رسم عثمانی کے مفہوم و معنی سے نا واقف ہیں اور ہماری حکومت جو آئینی اور قانونی طور پر قرآن کریم کی درست کتابت و طباعت کی ذمہ دار ہے وہ ابھی اس طرف کوئی عملی توجہ نہیں دے رہی —-حکومت ناشروں کے نام ایک سرکلر جاری کر دیتی ہے کہ نسخہ ہائے قرآن رسم عثمانی کے مطابق شائع کیے جائیں‘ لیکن خود حکومت اس معاملے میں کوئی راہنمائی کرنے سے قاصر ہے۔
قرآن کریم کی کتابت ہی کے سلسلے میں ہجاء و رسم کے علاوہ بعض اور امور مثلاً ضبط‘وقف‘شمار آیات‘ مواقع سجدات وغیرہ کی نشاندہی اور مختلف تقسیماتِ مصحف بھی شامل ہیں۔ تاہم ان امور کا تعلق چونکہ قرآن کریم کی قراء ت سے ہے اس لیے ان کا ذکر ہم ابھی آگے تعلیم و تعلّم قرآن کے ضمن میں کریں گے۔

کتابت کے بعد قرآن کی دوسری اہم بنیادی خدمت اس کا پڑھنا پڑھانا ہے۔ کتابت وحی کے برعکس قراء ت اور تلاوتِ قرآن کی ابتدا خود آنحضرت ﷺ سے ہوئی۔ کتابت تو آپؐ کسی سے کروا لیتے تھے مگر قرآن کی قراء ت آپ خود جبریل ؑسے سن کر حفظ کر لینے کے بعد خود صحابہ کو پڑھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ آپؐ سے پڑھے ہوئے خود آگے پڑھانے پر مامور کیے گئے۔ ابتدائی مکی دور سے ہی حضورﷺ کی لکھوائی ہوئی سورتوں اور آیات کی نقول بھی صحابہؓ میں پھیلنے لگیں اور قرآن حفظ بھی کیا جانے لگا۔ قرآن کریم کی قراء ت کی تعلیم محض تحریر کی بجائے تلقی اور سماع کے ذریعے جاری رہی۔

مدنی دور کے آخری حصے میں قرآن کریم کی تعلیم اور تدریس قراء ت علاقائی حکام بالا کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ ہمارے لیے یہاں عہد نبویؐ میں قرآن پڑھنے پڑھانے کے اس نظام کی پوری تفصیلات میں جانا ممکن نہیں‘ البتہ یہاں قراء ت قرآن کے سلسلے میں دو باتوں کا بیان کرنا ضروری ہے۔

(۱) ایک تو یہ کہ آپؐ نے اپنے عملی اقدامات کے علاوہ تعلیم و تعلّم قرآن‘اس کی قراء ت اور اس کے حفظ کے فضائل پر اتنا زور دیا کہ اس سے مسلمانوں کے اندر تعلیم و تعلّم قرآن کے لیے ایک جوش و خروش پیدا ہو گیا۔

(۲) قراء تِ قرآن کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ آنحضورﷺ نے خود بھی قرآن کریم میں بعض کلمات کو ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھا اور پڑھایا اور عرب کے مختلف قبائل کو ان کے اپنے اپنے لہجے میں قرآن پڑھنے کی اجازت دی۔
عربوں کے اس لہجاتی فرق کو سمجھنے کے لیے کتابوں میں متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ آنحضورﷺ خود بھی ان قبائل کے ساتھ بعض دفعہ ان ہی کے لہجے میں گفتگو فرما لیتے تھے۔ صرف دو مثالوں سے اندازہ کر لیجئے:

(۱) ایک آدمی نے آنحضورﷺ سے پوچھا:

امم برم صیامم بم سفر(یعنی امن البر الصیام فی السفر)

آپؐ نے جواباً فرمایا:

لیس مم برم صیامم بم سفر (یعنی لیس من البر الصیام فی السفر)

(۲) بنی سلیم کے ایک آدمی نے پوچھا:

یا رسول اللہ ایدالک الرجل اھلہ؟ (یہاں یدالک بمعنی یماطل آیا ہے)

آپؐ نے فرمایا :

اذا کان مفلجا (یعنی مفلسا)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر آپﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی تھی۔

قبائل عرب کے بعض لہجاتی خصوصیات کا ذکر کتابوں میں مختلف ناموں سے ملتا ہے۔ اس قسم کی چیزیں لغت قریش میں عیب شمار ہوتی تھیں اور قرآن لغت قریش میں ہی نازل ہوا تھا۔ بہرحال قبائل عرب کو اپنے لہجے کے ساتھ قراء ت ِقرآن کی اسی اجازت سے ہی قراء ت کا وہ اختلاف نمودار ہوا جس کے اندر افتراقِ اُمت کے ایک اِمکانی خطرہ کے سدباب کے لیے عہد عثمانی میں یہ اجازت واپس لے لی گئی اور مصحف صدیقی پر مبنی وہ عثمانی ایڈیشن تیار ہوا جو آج تک پوری اُمت کے لیے کتابت و قراء تِ قرآن کی صحت کا معیار چلا آتا ہے اور جس میں کسی لفظ بلکہ دندانہ (بذہ) کے بدلے بغیر آنحضرت ﷺ سے بطریق تواتر ثابت تمام اختلاف ہائے قراء ت کی گنجائش موجود ہے۔

ابتدائی اُموی دور میں غیر عربوں کو قراء ت ِقرآن میں صحت و سرعت پر قادر کرنے کے لیے حرکات اور اعجام کی ابتدا ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ ایک مستقل علم بن گیا جسے علم الضبط کہا جاتا ہے۔ مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں اور تمام مستند اختلاف ہائے قراء ت کو ملحوظ رکھنے کی بنا پر علم الضبط یا علامات ِضبط کے اصول و قواعد مرتب ہوئے۔ قراء تِ قرآن سے مربوط علم الاصوات یا صوتیاتِ قرآن (phonetics) کے تقاضوں کو علاماتِ ضبط کے ذریعے واضح کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور اب تک جاری ہیں۔ پرانے زمانے میں قلمی مصاحف میں بعض علاماتِ ضبط سرخ سیاہی سے ڈالی جاتی تھیں۔ دورِ طباعت میں جب یہ ممکن نہ رہا (اب ممکن ہے اگرچہ مہنگا ہے) تو علاماتِ ضبط میں تجدید و ایجاد کا عمل ایک دفعہ پھر شروع ہوا۔ اس کے مظاہر مصر کے مصحف الملک کے علاوہ مصحف حلبی ۱۹۳۵ء/۱۳۵۴ھ نیز تونسی‘لیبی‘سوڈانی‘سعودی مصحف اور پاکستان کے تجویدی قرآن مجید میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مختلف اسباب کی بنا پر دنیائے اسلام کے مختلف حصوں میں قراء سبعہ کی بعض خاص خاص روایات متداول ہو گئی ہیں۔ مثلاً مصر اور ایشیائی ممالک میں روایت حفص عن عاصم۔ مراکش‘غانا اور نائیجریا میں ورش عن نافع‘ تونس و لیبیا میں قالون عن نافع‘سوڈان میں الدوری عن ابی عمرو البصری رائج ہیں۔

اختلافِ قراء ت کے علاوہ بعض دفعہ ایک ہی روایت اور قراء ت کے لیے مختلف ملکوں میں مختلف علاماتِ ضبط استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً ترکی‘ایران‘برصغیر اور چین میں روایت حفص رائج ہونے کے باوجود ہر ملک کی علامات ضبط جدا ہیں۔ نائیجیریا اور مراکش میں روایت ورش کے باوجود اندازِ کتابت اور طریق ضبط دونوں جدا ہیں۔

در اصل ہر جگہ خاد مانِ قرآن نے قرآن میں نبی ﷺ سے ثابت نطق صحیح کو مختلف علاماتِ ضبط کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے ملک میں اس کی جدید ترین اور مفید مثال تجویدی قرآن ہے۔

تمام علاماتِ ضبط کے اس سارے نظام اور ان تمام مساعی کے باوجود قرآن کی درست قراء ت اور صحیح نطق کا دار و مدار بالمشافہ تعلیم پر ہے۔ آپ کسی طریقہ علاماتِ ضبط کو دیکھئے ‘عموماً ہر مشکل تلفظ مثلاً ادغام ناقص‘ اخفاء ‘اظہار‘ قلقلہ‘ امالہ‘ اشمام‘ اختلاس‘ تسہیل ہمزہ یا بین بین اور اختلاس کی علامات لکھ کر بھی ساتھ ہی لکھا جاتا ہے کہ: یدرک بالمشافھۃ یا یؤخذ بالتلقی والمشافھۃ اور کبھی صاف لکھا ہوتا ہے:

ولا یحکم ذلک کلہ اور بالمشافھۃ والسماع من لفظ الشیوخ۔

دور حاضر کی ایجادات کو خدمت قرآن کے لیے استعمال کرتے ہوئے قرآن کے خادموں نے ریکارڈنگ کے ذریعے قراء ات میں اس نطق صحیح کو بھی محفوظ کر لیا ہے جو بسند تواتر عہد نبوی سے علم القراء ات کے اساتذئہ فن کے ذریعے بذریعہ تلقی و سماع محفوظ چلا آتا تھا

اس وقت تک حفص‘ورش اور دوری کی روایاتِ قراء ت میں مکمل قرآن ریکارڈ ہو چکا ہے۔ اب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تدریسی اور تعلیمی مقاصد کے لیے سبعہ قراء ت پر مشتمل ریکارڈنگ جاری ہے۔ قرآن کی درست قراء ت کی تعلیم کے سلسلے میں خدام قرآن کے نوٹس میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ بچوں کو شروع سے ہی درست قراء ت کے ساتھ قرآن پڑھانا فرض ہے۔ کم ازکم بقدر نماز درست قرآن یاد کرنا اور اسے درست پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ کہتے ہیں کہ مشہور تابعی ابو عبد الرحمن السلمی باوجود اپنی تمام تر علمی بزرگی اور بلندی مرتبہ کے‘پورے چالیس سال تک جامع کوفہ میں صرف قرآن پڑھانے میں مصروف رہے اور یہ صرف حدیث((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ))سے متاثر ہو کر۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں یہ فرض بھی ٹھیک طور پر سر انجام  نہیں دیا جا رہا۔ بچوں کے لیے بازار میں دستیاب قرآنی قاعدے تک اغلاط سے مبرانہیں ہیں سوائے ایک آدھ کے۔

ضروری ہے کہ بچوں کے لیے مدارس میں نطق صحیح اور قراء ت صحیح کی مشق رکھنے والے قراء معقول مشاہروں پر رکھے جائیںاور تلقی و سماع کے مسنون طریقے کا احیاء کیا جائے۔بچوں کو صحت تلفظ اور نطق صحیح کے ساتھ قرآن حفظ کرانے کا بندوبست کرنا خدمت قرآن کا نہایت اہم میدان ہے۔ بد قسمتی سے بعض مجبوریوں کی وجہ سے اساتذئہ قرآن تلامذہ پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔

اسی طرح حفظ قرآن کی حوصلہ افزائی کے علاوہ اس کی صحیح لائنوں پر تکمیل وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اکثر پڑھے لکھے لوگ قراء ت ِقرآن سے ناآشنا نظر آتے ہیں‘ حالانکہ اسلامی نظام تعلیم کی بدولت تو ہر قرآن خوان اپنی علاقائی زبان پڑھنے(ریڈنگ) پر قادر ہو جاتا تھا۔لکھنے اور پڑھنے کے بعد یا کتابت و قراء ت کے علاوہ قرآن کی خدمت کا اگلا میدان قرآن سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ اس میدان میں اگلوں کی خدمات کا اندازہ کرنے کے لیے تراجم و تفاسیر قرآن کے ضخیم ذخائر کے علاوہ معاجم قرآن (ڈکشنری) اور قرآنی موضوعات پر مستقل تالیفات کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی ہے۔تاہم اتنے ذخیرہ کے فراہم ہو جانے کے باوجود کسی چیز کو حرفِ آخر نہیں کہا جا سکتا اور کسی بھی تفسیر یا ترجمہ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور ترجمہ یا تفسیر کی ضرورت نہیں۔

اس وقت ایک قابل غور امر جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ‘یہ ہے کہ آج کی زندگی میں ماہرین کے پاس بھی ضخیم کتابوں کے مطالعہ کا وقت نہیں ہے۔ زندگی کے اس رواں دواں دور میں چھوٹے پمفلٹ یا مضامین وغیرہ کے ذریعے قرآنی تعلیمات کی اشاعت کا کام کیا جائے اور درست قرآنی فہم کو عام کرنے کی کوشش کی جائے۔

قرآن کریم کے سمجھنے سمجھانے کے سلسلے میں ہی خدمت قرآن کا ایک عظیم میدان عربی زبان کی تدریس و اشاعت ہے۔ قرآن کی برکت سے اور اس کی وجہ سے عہد نبوی کی عربی زبان ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی ہے۔ قرآن کی زبان کی خدمت کے لیے مسلمانوں میں علم صرف ونحو کی ابتدا و ارتقاء کے منازل طے ہوئے۔ اس مقصد کے لیے ہی عربی معاجم کی تالیف‘شعر جاہلیت کی تدوین وغیرہ کا سارا کام ہوا۔
مسلمانوں کے لیے عربی کی علمی و ادبی اور ملی و سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے غالباً آغا خان کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی کہ پاکستان کی سر کاری زبان عربی بنائی جائے۔ ۱۹۵۱ء میں مشرقی پاکستان سے صوبائی اسمبلی کے ۶۵ ارکان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک قرار داد مرکزی حکومت کو بھیجی تھی جس میں عربی کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کی سفارش کی گئی تھی ۔پھر ۱۹۵۵ء میں کراچی کے متعدد رہنمائوں نے ایک مشترکہ قرار داد کے ذریعے مرحوم حسین شہید سہروردی سے عربی کو پاکستان کی سر کاری زبان بنا لینے کی اپیل کی تھی۔اگر اس وقت عربی کو ملی اور دینی زبان کی حیثیت سے دوسری پدری اور مادری زبانوں پر ترجیح دی جاتی اور عربی کو سر کاری زبان بنا لینے کے کسی ۲۰‘۲۵ سالہ منصوبے کی بنیاد رکھ دی جاتی تو شاید آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

بہر حال عربی زبان کی تدریس و تعلیم کے مراحل اور درجات(levels ) اور مقاصد و غایات متعدد ہو سکتے ہیں۔ لیکن قرآن کو براہِ راست سمجھنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کو پڑھے لکھے طبقے میں اتنی حد تک زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے کہ ایک پڑھا لکھا مسلمان مختلف تراجم قرآن کے تقابلی حسن و خوبی کو جانچ سکے ‘ورنہ کم از کم یَعْبُدُوْنَ اور یَدْعُوْنَ کا ایک ہی ترجمہ کرنے والوں کی غلطی یا گمراہی کو تو سمجھ سکے۔

عربی دوبئی کے لیے بھی سیکھی جا سکتی ہے اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی ‘دونوں مقصد اپنی جگہ مفید ہیں ‘مگر دوبئی والی عربی سے قرآن نہیں سمجھا جاسکے گا اور پی ایچ ڈی والی عربی پورے قرآن کا ترجمہ بالا ستیعاب پڑھنے کی فرصت ہی نہیں پیدا ہونے دے گی۔ قرآن فہمی کے لیے عربی سیکھنا نسبتاً آسان بھی ہے۔ قرآن کریم کی پوری حرکات اور علاماتِ ضبط کے ساتھ کتابت عربی سیکھنے میں مدد بھی دیتی ہے۔ قرآن فہمی کے لیے صرف اور نحوکی حد تک عربی زبان کی مضبوط بنیاد پر تحصیل کے بعد پورے قرآن کے ترجمہ سے اس طرح گزرنا کہ صرف ونحوکی حد تک ہر بات سمجھ لی جائے‘ یہ ایک نیا تجربہ ہے جو انجمن خدام القرآن نے شروع کیا ہے‘ اور قرآن کی خدمت کا ایک نیا میدان ہے۔ پچیس سال تک کالج اور یونیورسٹی میں عربی و اسلامیات کی تدریس میں بسر کرنے اور ڈگری کی حد تک استعداد و اہلیت رکھنے کے باوجود بالاستیعاب الحمد سے والناس تک قرآن کے ایک ایک لفظ کو سمجھتے ہوئے گزرنے کا اس سے پہلے خود مجھے بھی موقع ہی نہیں ملا بلکہ فرصت ہی نہیں مل سکی تھی۔اس کورس میں اگر کسی طرح جلالین یا کوئی مختصر عربی تفسیری حاشیہ بھی پڑھا دیا جائے تو آئندہ عربی عبارت پڑھنے کی بھی راہ ہموار ہو جائے گی اور حسب ضرورت عربی تفاسیر سے استفادہ بھی ممکن ہو جائے گا۔

موجودہ زمانے کے لحاظ سے قرآن کی خدمت کا ایک نہایت اہم اور ضروری میدان‘قرآن کی حقانیت کی حفاظت یا اس پر دشمنوں کے اعتراضات کا باطل شکن جواب دینا بھی ہے ۔یوں تو خود قرآن نے اہل مکہ کے قرآن پر اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا جواب دیا ہے‘ اور حقیقت یہ ہے کہ صرف الفاظ وعبارات کا جامہ بدل جائے تو اور بات ہے ورنہ اپنی اصل اور روح کے لحاظ سے آج کے دشمنوں کے تمام اعتراضات کے جواب کی اصل خود قرآن سے مل سکتی ہے۔ عبد الجبار معتزلی (م۴۱۵ھ) کی تنزیہ القرآن عن المطاعن سے لے کر عبد الفتاح قاضی اور ڈاکٹر عبد الفتاح اسماعیل شلبی اور عبد العظیم زرقانی وغیرہ کا مستشرقین کے مغالطوں کے پردے چاک کرنا‘یہ سب اسی میدان میں خدمت قرآن کے نمونے ہیں۔تاہم اس میدان میں اردو زبان میں ابھی بہت کم کام ہوا ہے اور مزید توجہ طلب ہے۔

خدمت قرآن کے ان میدانوں میں مستحکم بنیادوں پر قرآن کے لیے خدمات سر انجام دینے کے لیے ہر کوشش مسلمان کے لیے ایک بڑی سعادت ہے۔

تشریع قرآنی کے نفاذ سے بظاہر قرآن کے لیے مختلف خدمات سر انجام دینے میں بھی مزید استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے۔لیکن چاہے جو میدان ہو یا جو مرحلہ‘قرآن کی خدمت کرتے ہوئے یا خدمت کی توفیق پاتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس سے خلوصِ نیت حاصل ہونے کی دعا کرنی چاہیے۔ یوں تو نیکی کے کسی میدان میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے تاہم قرآن کے لیے اور قرآن کے نام سے کوئی کام کرتے ہوئے ضرور کسی نہ کسی مرحلے پر شیطان سے واسطہ پڑنے کے امکانات زیادہ ہیں ‘چاہے وہ اپنا نفس ہو یا کوئی خارجی قوت۔ اورشاید اسی لیے قرآن پڑھنے سے پہلے ہی شیطان سے اس متوقع تصادم سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم ہے۔

(سہ ماہی حکمت قرآن‘ جولائی ۲۰۱۲ء۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ موسس و بانی مرکزی انجمن خدام القرآن)