محترم پروفیسر حافظ احمد یارؒ نے  اللہ کی توفیق و تیسیر سے جہاں علومِ قرآنی کے ضمن میں بکثرت وقیع مضامین تصنیف فرمائے، وہیں ‘‘لغات و اعرابِ قرآن  کی روشنی میں  ترجمہِ  قرآن   کی لُغوی اور نحوی بنیادیں’’ کے عنوان سے سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی 118 آیات کی مفصل صرفی و نحوی تشریح و تفسیر کا نتہائی منفرد اور مفید علمی کام سرانجام دیا۔  اس گراں قدر کام پر لگ بھگ دس سال کی محنت شاقہ صرف ہوئی اور یہ نوادراتِ علمی ماہنامہ ‘‘حکمت قرآن’’ میں شائع ہوئے۔  اس کے بعد آپ کی صحت اور مہلتِ عمر نے اجات نہ دی تو آپؒ کی وفات کے بعدآپ کے شاگرد محترم جناب لطف الرحمن خان نے ‘‘مطالعہ قرآن’’ کے عنوان سے انہی خطوط پر کام کیا جو تا حال اسی مجلہ  حکمتِ قرآن (جسے بعد ازاں سہ ماہی شائع کیا جانے لگا) میں‘‘افادات ِحافظ احمد یار’’ؒ کے ذیلی عنوان سے تسلسل  کے ساتھ شائع ہو رہا ہے ۔

            یہ کام مجموعی طور پر انجمن خدام القران کی ویب سائٹ  پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے۔ مزید استفادہ کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں  ۔

سورۃ البقرہ آیت نمبر 110 سے لے کر سورۃ النس تک

لغات و اعرابِ قرآن. کی روشنی میں. ترجمہ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیادیں

پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان چشتی

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے نامور استاد اور سربراہ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم و مغفور کا نام نامی دینی و علمی حلقوں اور علوم اسلامیہ کی تحصیل بالخصوص قرآن حکیم کی تدریس سے وابستہ اصحاب کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حافظ صاحبؒ صرف تفسیر وفقہ کے متخصص ہی نہیں تھے بلکہ دینی علوم سے ماورا جغرافیہ اور فنون لطیفہ با لخصوص فن خطّاطی جیسے میادین بھی ان کی علمی دلچسپیوں کے احاطہ میں شامل تھے۔ تاہم قرآن اور علوم قرآنی سے ان کا شغف عشق کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن پڑھنا پڑھانا، سننا سنانا، سمجھنا سمجھانا اور اپنی مشکل پسند طبعیت کے ساتھ قرآنی اسرار و رموز کا فہم و تفہیم ان کے لیے روحانی غذا تھی ۔ قرآنی علوم میں اعراب قرآن اور علم الرسم و علم الضبط کی مثلّث گویا اس عشق کا نقطۂ ارتکاز تھی ۔ ان موضوعات پر شائع ہونے والے ان کے وقیع تحقیقی مقالات ان کے علمی کمالات کے اس نادر پہلو پر شاہد ہیں۔ بلاشبہ اس فن میں منفرد حیثیت کے حامل تھے ۔ شاید ہی کسی پاکستانی فاضل نے ان سے بڑھ کر اس میدان میں کام کیا ہو۔ ان کے پاکستانی پیشرؤں میں مولوی ظفر اقبال مرحوم کا نام بہت ذی قدر اور ممتاز نام ہے۔ وہ برطانوی دور میں پنجاب کے سرِ رشتہ تعلیم میں رجسٹرار کے عہدہ پر فائز تھے۔ ہائی سکولوں کے لیے درجات الادب (برائے جماعت ہفتم و ہشتم )، دروس الادب ( برائے نہم و دہم) اور دروس العربیہ (عربی گرامر پر مبنی اردو سے عربی ترجمہ کی تمارین) جیسی مقبول نصابی کتابوں کے مصنف تھے۔ حافظ صاحبؒ انجمن حمایت اسلام کے زیراہتمام رسم عثمانی کے مکمل التزام کے ساتھ شائع کردہ نسخۂ قرآن مجید کے سلسلے میں ان کی محنت شاقّہ اور منفرد علمی خدمت کے بجا طور پر معترف و مدّاح تھے۔ اس فن کے ماہرین اب شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ یہ بات صرف پاکستان کے حوالے سےہی درست نہیں بلکہ عالمی سطح پر یہ دعویٰ کچھ زیادہ بے جا نہیں۔

مصاحف عثمانی میں اختیار کردہ طریق املاء، الفاظ اور ہجاءِ کلمات ہی اصطلاحاً ’’رسم عثمانی ‘‘ کہلاتا ہے اور کتابت مصاحف میں صحت اور درستی کا معیارِ مطلوب ہی یہ ہے کہ ہر دنیا لکھا جانے والا مصحف رسم اور املاءِ کی حد تک مصمصاحف عثمانی میں سے کسی ایک کی نقل ہو یا اس قسم کی کسی نقلِ صحیح سے نقل کیا جائے۔ امّت میں اصولی طور پر اس امر میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کہ کتابتِ قرآن میں اس رسم عثمانی کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے حتٰی کہ وہ مکاتب فکر بھی جو رسم عثمانی کی اصطلاح استعمال نہیں کرنا چاہتے بلکہ رسم قرآنی کا نام دیتے ہیں، وہ بھی اس کا اتباع ضروری قرار دیتے ہیں اور کتابت مصاحف میں اس کی پ پابندی لازمی سمجھتے ہیں۔ ’’رسم عثمانی‘‘ کی اس وضاحت کی روشنی میں ’’علم الرسم‘‘ کی جو تعریف حافظ حاحب نے ابرہیم بن احمد المار غنی کی ’’ دلیل الحیران‘‘ ، شرح ’’مورد اظمآن‘‘ سے نقل کی ہے، وہ حسب ذیل ہے:

’’ ہو علم تُعرف بہ مخالفات خطّ المصاحف العثمانیّۃ لِأ صول الرسم القیاسیی‘‘

(علم الرسم وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف عثمانی کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اور اختلافات کا پتہ چلتا ہے )

حافظ صاحب کی اس فن سے دلچسپی کا آغاز جہاں تک میں جانتا ہوں، غالباً ۶۲ /۱۹۶۱ میں قرآن کے مطبوعہ نسخوں کی اس عظیم الشان نمائش کے بعد ہوا جس کا انعقاد ان کے ذاتی اہتمام اور مثالی لگن کی بدولت ممکن ہوا، اگرچہ اس کا انتساب اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا گیا کیوں کہ حافظ صاحبؒ ان دنوں وہیں فریضہ تعلیم و تدریس سر انجام دے رہے تھے اور وہیں اس نمائش کا انعقاد ہوا۔

آج کل تو رسم القرآن کی تصریحات کے ساتھ چھپنے والے قرآنی نسخوں کی زیارت ہی کم و بیش امر محال ہے۔ حافظ صاحبؒ نے اس جہت سے مطبوعہ قرآنی نسخوں کو خصوصیت سے جمع کیا تھا۔ غالباً مطبوعہ قرآنی نسخوں کی کوئی نمائش اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنے وسیع پیمانے پر پاکستان میں کہیں منعقد نہیں ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے حافظ صاحبؒ کے حکم پر چند نسخے پاکپتن شریف سے لاکر نمائش میں رکھنے کے لیے دیے انہی میں ایک نسخہ میرے دادا جان پیر احمد بخش فریدی مرحوم کا بھی تھا۔

یہ نسخہ قران جو مطبع نظامی کانپور سے ۱۲۷۹ ھ میں باہتمام محمد عبدالرحمٰن بن حاجی محمد روشن خان شائع ہوا، ۱۲X۷ تقتیع کے کل ۲۴۶ صفحات پر مشتمل ہے ۔ ہر صفحہ پر ۱۵ سطریں اور حاشیہ پر بحر العلوم کے حوالے سے رسم کے بارے میں مفید تصریحات ہیں ۔ کسی بھی صفحے کا حاشیہ یہاں نقل کردینے سے’’رسم القران‘‘ کا مفہوم بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے ۔ مثلاً ص ۳۴۲ (سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰۱ تا ۱۱۲) پر حاشیہ کی عبارت یوں ہے:
’’ الْحُسْنٰی ‘‘ بیا و ’’اُولئِکَ‘‘ و’’خٰلدُونَ‘‘ بے الف اند و ’’ فی‘‘ از ’’ما‘‘ جُداست، و ’’تَتَلَقَّھُمُ‘‘ بیا، و ’’ھذا‘‘ و ’’ الْملئِکَۃِ‘‘ بے الف و ہمزہ زیر یاست۔۔۔۔۔۔ الخ (ترجمہ : ’’الحُسْنٰی‘‘ یاء کے ساتھ ہے اور ’’اُولٰئِکَ‘‘ اور  ’’ خٰلدُونَ‘‘ الف کے بغیر ہیں اور’’فی‘‘ جدا ہے ’’ما‘‘ سے، اور ’’تَتَلَقَّھُمُ‘‘ یاء کے ساتھ ہے اور ’’ھذا‘‘ اور ’’ المئکۃ‘‘ الف کے بغیر، اور ہمزہ یاء کے نیچے ہے۔۔۔)۔

خوبصورت نسخ، املاء میں مصحف عثمانی کا اتباع اور اعراب و حرکات وغیرہ (ضبط) میں انتہائی احتیاط کے ساتھ صحت کا التزام اس نسخے کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ یہ نسخہ اب بھی بحمدہٖ تعالٰی میرے پاس نہایت اچھی حالت میں محفوظ ہے اور مجھے فخر ہے کہ حافظ صاحبؒ اس کا شمار ان چند نسخوں میں کرتے تھے جنہیں ان کے نزدیک نمائش کا حاصل قرار دیا جاسکتا تھا۔

تفسیر قرآن بلاشبہ حافظ صاحبؒ کا نہایت ہی محبوب موضوع تھا۔ اپنے نہایت ہی محدود مالی وسائل کے باجود ان کے ذاتی ذخیرہ کتب میں تفاسیر کا وقیع مجموعہ اس پر شاہد و دالّ ہے ۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ علوم اسلامیہ کے استا د کی حیثیت سے تفسیر قرآن کے پرچے کی تدریس، مؤسس شعبہ علامہ علاءالدین صدیقی مرحوم کے بعد مسلسل ان کے ذمہ رہی۔ سورۃ النساء کی نہایت عمدہ سلیس تفسیر ’’دستور حیاء‘‘ ( لاہور، رفیق مطبوعات، اکتوبر ۱۹۶۷ء، ص ۵۷۶)بنیادی طور پر کالجوں کے طلبہ کے لیے لکھی گئی مگر عام قارئین کے استفادہ کے لیے بھی اسے ایک بہترین تفسیر کہا جا سکتا ہے ۔ اس کی اشاعت سے پہلے بی اے کے اسلامیات (اختیاری) کے طلبہ کے لیے سورۃ محمد اور سورۃ الفتح کی تفسیر پروفیسر ابوبکر غزنوی مرحوم (متوفی ۱۹۷۶ء) کے ساتھ بطور شریک مؤلف  کے شائع کی، بی اے کے طلبہ کے لیے ہی حافظ صاحبؒ کی تصنیف بعنوان ’’دین و ادب‘‘ میں مقدمہ مطالعہ قرآن اور ترجمہ و تفسیر سورہ آل عمران ( مع قائمۃ الکمات۔۔۔۔ مشکل کلمات کے معانی و مطالب) پر مشتمل جز ء بھی تسہیل معانی و مطالب قرآن کی عمدہ مثال ہے۔

تاہم فن تفسیر میں حافظ صاحبؒ کی دقت پسند طبیعت کے کمال کا مظاہرہ ان کی اعراب القرآن سے گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ انہوں نے حکمت قرآن میں لغات و اعراب قرآن پر فاتحہ الکتاب سے جس مؤقّر سلسلے کا آغاز کیا وہ جنوری ۱۹۸۹ ء کے پرچہ (۱۸) سے شروع ہوکر ان کی رحلت کے بعد چھوڑے ہوئے مواد کی طباعت و اشاعت کی شکل میں جاری رہا اور اس کی آخری قسط (نمبر ۹۳) حکمت قرآن کے جولائی ۱۹۹۸ء کے پرچہ میں شائع ہوئی۔ یہ قسط سورۃ البقرہ کی آیت ۱۱۰ پر مختتم ہوتی ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر اسے بلا شک ایک شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی دو اقساط (جو اس سلسلے کے تعارف پر مشتمل تھیں ) سے بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ذہن میں اس عظیم منصوبہ کے خدّوخال اور مقاصد کیا تھے۔ افسوس کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی اور ان کا یہ خواب شرمندٔہ تکمیل نہ ہو سکا۔ نا چیز کی جب بھی ان سے ملاقات ہوتی، ان سے یہی درخواست کرتا کہ تفاصیل و دقائق سے صرفِ نظر کرکے لغات واعراب کے اہم نکات پر اکتفا کریں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ عظیم کام ان کی زندگی میں انجام کو پہنچ جائے۔ مگر ان کی کمال پسند (Perfectionist) اور محتاط طبیعت کو اس پر قابو ہی نہیں تھا کہ وہ درجۂ کمال سے کم کسی چیز کو قبول کر سکیں۔

عزیز گرامی ڈاکٹر نعم العبد (حافظ صاحبؒ کے فرزند ارجمند) لائق تحسین و تبریک ہیں کہ انہوں نے اپنے وسائل سے اپنے ذی قدر و عالی مرتبت والد کی اس گراں قدر علمی میراث کے احیاء و اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ حافظ صاحبؒ کے اس عظیم منصوبہ کی وسعت اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی ۲۸۷ آیات میں سے ۱۱۰ آیات (پہلے پارہ میں سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۴۱ ہیں ) پر مشتمل ان کا یہ وقیع و انتہائی بیش قیمت کام حافظ صاحبؒ کے ہی تحریر کردہ مقدِّمہ سمیت کل ۹۴۴ صفحات پر محیط ہے۔ اگر عمر عزیز وفا کرتی اور حافظ صاحبؒ اپنے خواب کی مکمل تعبیر صفحات قرطاس پر منتقل کر سکتے تو اس کارِ خیر و عظیم کی پنہائی کا تصور کیجیے ۔ تاہم موجودہ کام بھی لغات و اعراب قرآن اور رسم و ضبط پر حافظ صاحبؒ کے وسیع مطالعہ اور تحقیق پر شاہد عادل ہے۔ رب علیم و کریم حافظ صاحب کی اس عظیم خدمت کو، جو اس کتاب جلیل سے ان کے عشق کا زندۂ جاوید مظہر ہے، اپنی بارگاہ میں شرف قبول سے سرفراز فرمائے اور جنت الفردوس میں انہیں مراتب عالیہ پر فائز فرمائے۔ عزیزی ڈاکٹر نعم العبد نے جس خلوص و محبت اور ایثار و استقلال کے ساتھ اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اس کے لیے خدائے ذوالجلال ولایزال کے ہاں اجر جزیل ولازوال بفضلہ سبحانہ مقدّر ہے ان شاءاللہ العزیز۔

یہاں اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا بیجانہ ہوگا کہ دقّت و تعّمق کے ساتھ حقیقی فہم قرآن کے لیے حافظ صاحب کی اس تصنیف سے استفادہ کے متمنّی حضرات کے لیے عربی صرف و نحو پر خاطر خواہ دسترس ضروری ہے۔ حافظ صاحب نے مقدمہ میں صراحت سے واضح کیا ہے:
’’ ہمارا شعار (MOTTO) یہ ہے کہ ـــ ’’عربی سیکھئے ـــ قرآن کیلئے۔ قرآن کے ذریعے‘‘ امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے عربی زبان کی صرف و نحو کا نسبتاً زیادہ مدت تک مطالعہ کرنے والوں ـــ مثلاً درس نظامی کے موقوف علیہ یا اس سے کچھ کم تک تعلیم یافتہ حضرات ـــ کو اپنا علم (صرف و نحو) ، فہم قرآن میں استعمال کرنے کا موقع ملے گا، اور نسبتاً کم وقت میں قواعدِ زبان سیکھنے والوں ـــ اور ـــ تمام قواعد کو پوری طرح ذہن نشین نہ کرسکتے والے حضرات ـــ خصوصاً ہمارے مجوزہ نصاب سے کم از کم ایک دفعہ ’’گزر جانے والے ‘‘ حضرات ـــ کو اس کتاب کے ذریعے قواعد زبان کو ذہن میں جا گزین کرنے کے لئے بتکرار ’’مشق و اعادہ‘‘ کا موقع میسر آئے گا۔‘‘

بلاشک قرآن مجید طالبان ہدایت و جُویانِ راہ حق کے لیے ایک کھلی کتاب ہے اور ارشاد ربانی اس پر وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ  اس پر شاہد و دالّ ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ژرف نگاہی کے ساتھ حکمتِ قرآن کے اسرار و رموز کی معرفت کے لیے لغات قرآن اور اعراب قرآن پر مبتدیانہ نہیں بلکہ عالمانہ دسترس شرط اوّلین ہے۔ زیر نظر کتاب قرانی بصیرت کے متلاشی نفوسِ زکیہ کے لیے مَدخل اور باب الفتح کی حیثیت رکھتی ہے۔

حافظ احمد یارؒ۔۔۔ ایک باعمل عالم

سابق پروفیسر امریطس پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ

اس سے قبل کہ مرحوم و مغفور محترم حافظ احمد یار اور ان کی مایہ ناز تالیف کے بارے میں چند افکار پریشاں رقم کروں، ضروری سمجھتی ہوں کہ عظیم باپ کے مایہ ناز صاحبزادے ڈاکٹر نعم العبد کا شکریہ ادا کروں کہ جو بڑے صبرو ضبط سے میری چند سطور کی تحریر کے لیے بار یاددہانی کرواتے رہے بلکہ میری معذرت کو بڑے حوصلے سے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطالبہ پر قائم رہے۔ چند روز قبل بڑے مہذب انداز میں مزید مہلت دی تو اب وعدہ کو ایفا کرنے کا خیال شدت سے دامن گیر ہوا اور الحمد للہ یہ چند باتیں تحریر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اللہ رب العزت قبول فرمائے۔ آمین

قرآن حکیم سے ایک مسلمان کا تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ بچہ جب سن شعور کو پہنچتا ہے تو والدین کی پہلی ترجیح اس کو کلمہ طیبہ سکھانا اور پھر رفتہ رفتہ ناظرہ قرآن کریم پڑھانا ہوتا ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ کچھ ذہین بچے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ بیک وقت یہ دونوں صفات عملاً بہت کم ہوتی ہیں۔

الحمد للہ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم و مغفور ایک ایسا روشن ستارہ تھے جو بیک وقت حافظ قرآن اور عامل قرآن بھی تھے۔ اس کا عملی اطلاق انہوں نے سب سے پہلے اپنے بچوں پر کیا کہ انہیں نہ صرف صحیح مخارج و تجوید کے ساتھ قرآن حکیم بنفسِ نفیس پڑھایا بلکہ زندگی کے معاملات میں بھی تعلیمات قرآن کے رنگ میں رنگنے کی بھرپور سعی کی۔

حافظ صاحب کے عامل قرآن ہونے کے ذاتی مشاہدات میں سے دو کے ذکر پر اکتفا کروں گی۔ ایک موقع پر انہوں نے کسی قریبی ساتھی سے کچھ رقم بطور قرض لی اور فرقان مبین کے حکم کے مطابق اس کو تحریرکرنے لگے تو فریق ثانی نے اس کو غیر ضروری سمجھا اور اصرار کیا کہ باہمی اعتماد اور تعلق کی صورت میں اس کی حاجت نہیں لیکن حافظ صاحب نے اسے اللہ کا حکم سنا کر خاموش کروا دیا۔

حافظ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ادارے انجمن خدام القرآن میں تدریس قرآن حکیم کا آغاز کیا۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبے کو تقابل ادیان کے حوالے سے استاد کی ضرورت محسوس ہوئی تو راقمہ نے ان سے طلبہ کو پڑھانے کی درخواست کی تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ اب میرا یہ وقت اس ادارے کے لیے مختص ہے اس لئے میں وقت دینے سے قاصر ہوں۔ ازاں بعد ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر اسرار صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نے بکمال مہربانی اجازت دے دی کہ وہ شعبہ میں متبادل انتظام ہونے تک یہ فریضۃ سرانجام دیں گے ۔ بہرطور حافظ صاحب نے پڑھانا شروع کر دیا۔ جب اعزازیہ دینے کی بات آئی تو انہوں نے اعزازیہ لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرا یہ وقت انجمن خدام القرآن کے لئے ہے اور ان کی اجازت سے یہاں وقت دے رہا ہوں سو میں اس اعزازیہ کو قبول نہیں کر سکتا کہ میں اس وقت اعزازیہ وہاں سے لے رہا ہوں۔

حافظ صاحب ایک سفید پوش اور علم دوست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کثیر العیال ہونے کے باوجود اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ دینی اور عصری علوم سے متعلقہ کتب خریدنے پر خرچ کر دیتے۔ ہماری بھابھی صاحبہ نے ایک موقع پر شکایتاً یہ بات کہی تو بڑا جاندار قہقہہ لگایا اور فرمایا کہ کتاب جب تک ذاتی ملکیت نہ ہو پڑھنے کا مزا نہیں آتا۔ ایک اور اہم بات جو میں نے مشاہدہ کی کہ مہینہ کے آغاز میں سب سے پہلے مکتبہ علمیہ کا رُخ کرتے پچھلا قرض ادا کرتے اور کچھ اور کتب پھر قرض پر لے آتے۔ اپنے قرض کی تفصیل اپنے اہلِ خانہ کو بتا دیتے اور ان کی وصیت ہوتی کہ میرے بعد سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے۔

پروفیسر حافظ احمد یار کو مختلف کتب کے مطالعہ کا شوق ساری زندگی قائم و دائم رہا۔ اس سلسلے میں ان کے نہایت قریبی دوست جناب پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب رقمطراز ہیں:

جب ہم دونوں اپنے کالج سے نکلتے تو اکٹھے نیلا گنبد تک سائیکلیں لئے پیدل چلے آتے۔ انار کلی نیلا گنبد چوک پر ایک پان سگریٹ فروش کے ہاں حکومت پاکستان کا شائع کردہ عربی رسالہ الوعی اور فارسی الھلال کے تازہ شمارے کا ضرور پوچھتے اور فوراً خرید لیتے، وہ نیشنل جیوگرافک میگزین کے بھی باقاعدہ خریدار تھے۔ کتابوں سے عشق کا یہ حال تھا کہ مکتبہ علمیہ کے درویش صفت مالک عبید الحق صاحب سے تعلق اخوت استوار ہو گیا تھا۔ لیک روڈ لاہور پر واقع ان کے مکتبہ سے رابطہ رکھتے اور جب عالم عرب سے نئی کتب آتیں تو وقت ضائع کیے بغیر فوراً پہنچ جاتے تاکہ نسخے محدود تعداد میں ہونے کے سبب وہ ان سے محروم نہ رہ جائیں۔ آمدنی کا بیشتر حصہ کتب کی خرید پر صرف کرتے اس سلسلے میں بعض اوقات مقروض بھی ہو جاتے مگر جو کتاب پسند آجاتی اس کو اپنی لائبریری کا حصہ بنانے سے خود کو محروم نہ رکھ پاتے۔ (شیر محمد زمان چشتی۔ میرے حافظ صاحبؒ، ص ۲۴، ارمغان پروفیسر حافظ احمد یارؒ، گرافک ڈائی مینشن، لاہور، ۲۰۱۵ء)

محترم حافظ صاحب کا یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے باوجود رہن سہن انتہائی سادہ تھا۔ گھر کے تمام کام کاج خود کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ انہوں نے ایک گائے رکھی ہوئی تھی جس کے لیے چارہ خود اپنے کاندھوں پر رکھ کر لاتے اور دودھ بھی خود دوہتے۔ علاوہ ازیں مرغیاں بھی رکھی ہوئی تھیں تاکہ بچوں کی غذائی ضروریات میں کوئی کمی نہ رہے۔ اس اثناء میں کوئی دوست یا شاگرد آجاتا تو میزبانی کا فرض بھی احسن طریقے پر نبھاتے۔

پروفیسر حافظ احمد یار کا قرآن و علوم قرآن سے دلی تعلق کا سب سے پہلا اور اہم مظہر وہ نمائش تھی جس میں انہوں نے قرآن حکیم کے نادر نسخے اور سیرت طیبہ پر نایاب کتب پیش کیں۔ یہ شاید اپنی نوعیت کی پہلی نمائش تھی۔

حافظ صاحب کی تدریس قرآن کا طریقہ بہت مؤثر تھا۔ وہ عربی سے نابلد طالب علموں کو قرآن حکیم کو سیکھنے اور سمجھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے دوران تدریس بعض دلچسپ واقعات اور لطائف بھی سناتے، خود ہنستے اور دوسروں کو بھی ہنساتے اور سامعین کی دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے۔

حافظ صاحب کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذاتی زندگی میں ہر قدم پر قرآن کے حافظ ہونے سے زیادہ اس پر عامل نظر آتے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی سے واقف کار اس بات کی گواہی دیں گے کہ اہلِ خانہ سے ان کا برتاؤ مشفقانہ اور ناصحانہ تھا۔ رسول اللہﷺ سے محبت اور عشق کا عملی اظہار ان کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے جو تصنع اور بناوٹ سے پاک نظر آتی ہے۔ ساری زندگی رشوت و سفارش سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور الحمد للہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ ان کے اس طرزِ عمل کی چھاپ ان کی اولاد میں بھی نظر آتی ہے۔ زندگی کا انفرادی پہلو ہو یا اجتماعی معاشی ہو یا سیاسی ان کی کوشش رہی کہ وہ اسوہ رسول ﷺ کے مطابق ہو۔

حافظ صاحب کی قرآن حکیم سے محبت کا کرشمہ تھا کہ ان کا محبوب مشغلہ کتاب بینی بن گیا تھا۔ قرآن حکیم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان پر دسترس کی حیثیت بنیادی ہے۔ انہوں نے اپنے خداداد فہم و ادراک سے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عصری علوم سے بھی تعلق جوڑ لیا تھا تاکہ نسل نو کو یہ بتایا جا سکے کہ قرآن حکیم تمام علوم کا مخزن اور منبع ہے۔ طلباء کی درسی ضرورت پوری کرنے کے لیے سورۃ اٰلِ عمران اور سورۃ النساء کی جس انداز میں تفسیر اور تشریح تحریر کی کہ اس کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ عصری علوم مثلاً علم طبیعیات، حیاتیات، نباتات و حیوانات سب کے لئے قرآن کریم ہی سے استشہاد کرتے ہیں۔ ان کی لائبریری جہاں دینی علوم کی کتب سے مالا مال تھی وہاں تاریخ عالم، جغرافیہ، نقشہ جات، طب و کیمیاء سے متعلق کتب بھی موجود تھیں تاکہ وہ قرآن حکیم کو سمجھنے کے لیے ان کا تجزیاتی مطالعہ کر سکیں۔ یہ لائبریری دنیا کے مختلف ممالک میں طبع ہونے والے قرآن حکیم کے نادر نسخوں کا خزینہ بھی تھی۔ وہ ان نسخوں میں مستعمل رسم الخط اور اعراب وغیرہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔

ان کی تصنیف و تالیف میں سب سے پہلا علمی و تحقیقی کام یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ ہے جو انہوں نے اپنے ایم۔اے اسلامیات کے ایک پیپرز کے متبادل اختیار کیا تھا۔ اس کی اشاعت تحریر کے طویل عرصے بعد بغیر کسی نظر ثانی کے ہوئی جو ان کی زمانہ طالب علمی کی عالمانہ تحقیق کا بین ثبوت ہے۔

آپ نے دستور حیاء کے عنوان سے سورۃ النساء کی تفسیر اور تشریح لکھی جو گریجوایشن کے نصاب میں شامل تھی۔ دین و ادب کے عنوان سے ایک اور کتاب بی۔اے اسلامیات (اختیاری مضمون) کے طلباء کے استفادہ کے لئے تحریر کی۔

علوم قرآن پر بہت سے تحقیقی مضامین تحریر کئے جو اپنے وقت کے معروف علمی رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ ایم اے اور پی ایچ ۔ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالات کی نگرانی احسن طریقے سے سرانجام دی اور متعدد مصری اور سعودی طلباء کے مقالات کے مشرف بھی رہے۔

دستور حیاء کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان رقمطراز ہیں:

سورۃ النساء کی نہایت عمدہ سلیس و تفسیر بنیادی طور پر کالج و یونیورسٹی کے طلباء کے لیے لکھی گئی لیکن عام قارئین کے استفادے کے لئے بھی اسے ایک بہترین تفسیر کہا جا سکتا ہے۔ (قرآن و سنت چند مباحث، ص ۹، ۱۰)

ڈاکٹر عبد اللہ رقمطراز ہیں:

دستور حیاء محض تعلیمی اور نصابی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک متبحر عالم اور مفسر کی شان پوری طرح نظر آتی ہے۔ مطالعہ کی وسعت، مفید حواشی، علم کی گہرائی اور دورِ جدید کے مسائل کا ادراک اس کی اہم خصوصیات ہیں۔(ارمغان حافظ احمد یار، ص ۱۱۰)

پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کے معروف ادارے انجمن خدام القرآن سے وابستہ ہو گئے۔ اس ادارے کے روحِ رواں مرحوم جناب ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب تھے۔ ڈاکٹر صاحب طب کی ڈگری کے حامل تھے لیکن انہوں نے جسمانی عوارض کے علاج کے بجائے انسان کے روحانی علاج کو ترجیح دی اور قرآن حکیم کو محور و مرکز بنایا۔ انہوں نے ہمہ جہت پہلوؤں سے قابلِ رشک خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجرِ عظیم سے نوازے۔ الحمد للہ اب یہ فریضہ بڑی مستعدی سے ان کا خاندان ادا کر رہا ہے۔ اللھم زد فزد

حافظ صاحب کے لیے خادم قرآن ہونا سب سے بڑا اعزاز تھا۔ انجمن خدام القرآن میں عربی زبان اور قرآن کی تفسیر کی تعلیم کے دوران آپ کو لغات و اعراب القرآن کے نام سے کتاب لکھنے کی تحریک ملی اور آپ نے اس عظیم کام کی ابتداء کی۔ آپ کی یہ کاوش حکمتِ قرآن میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ آپ اس کام کو مکمل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۱۰ تک پہنچے تھے کہ رب جلیل کے حضور حاضر ہونے کا وقت آگیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے اس کام کو ان کے شاگرد رشید جناب لطف الرحمٰن مرحوم اور ڈاکٹر حافظ زبیر نے استاد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچایا لیکن وہ اس کے دو پہلوؤں لغات اور ترکیب تک محدود رہے۔

اللہ رب العزت حافظ صاحب مرحوم و مغفور اور ان کے معاونین کو اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائے اور بہترین اجر سے نوازے۔ امین

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را