طلبہ پر استادِ محترم کا احسان

جناب لطف الرحمن خان*

آسان عربی گرامر نامی کتاب ۱۹۸۹ء سے شائع ہو رہی ہے اور الحمد للہ اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایسے ہی طلبہ میں سے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ سننے کو ملا ہے کہ ’’آپ نے یہ کتاب لکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا ہے‘‘۔۔۔ ’’آپ نے یہ کتاب لکھ کر بڑا کمال کیا ہے‘‘۔ ان کے لیے میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ احسان، یہ کمال تو میرے استاد محترم (جناب حافظ احمد یارؒ) کا ہے، میں تو ان کا اسٹینو گرافر تھا اور بلا مبالغہ یہی حقیقت ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قرآن اکیڈمی لاہور کے دو سالہ دینی کورس (جس کو منضبط کر کے ایک سالہ کر دیا گیا ہے) میں عربی گرامر کی تدریس کے لیے عربی کا معلم ٹیکسٹ بک ہوتی تھی، لیکن حافظ صاحب کی تدریس میں اسباق کی ترتیب و تقسیم کتاب سے مختلف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کلاس سے اسٹاف روم میں آکر محترم حافظ صاحب اکثر اس تمنا کا اظہار کرتے تھے کہ کوئی اگر عربی کا معلم پر نظرِ ثانی کرے اور اس کی ترتیب میں مناسب ردو بدل کر دے تو کتاب کی افادیت بہت بڑھ جائے گی۔ دول سالہ دینی کورس کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس مسئلہ کا ذاتی تجربہ تھا اور حافظ صاحب کی بات میرے دل کو لگتی تھی۔ میں نے اکیڈمی کے دو اساتذہ سے بات کی لیکن بات نہ بنی۔ خود حافظ صاحب سے درخواست نہ کر سکا کہ انہوں نے لغات و اعراب قرآن کے عنوان سے ایک منفرد اور بلند پایہ تالیف کا آغاز کیا ہوا تھا۔ جب کوئی صورت نہ بن سکی تو خود ہمت کرنے کا خیال آیا، ساتھ ہی اپنی بے علمی کا احساس ہوا تو یاد آیا کہ میں نے تو عربی کا معلم پر نظر ثانی کرنی ہے اور حافظ صاحب بھی موجود ہیں۔

چنانچہ کتاب کا پہلا باب لکھ کر حافظ صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ زیرِ لب تبسم فرماتے ہوئے رکھ لیا کہ گھر جا کر دیکھیں گے۔ اگلے دن میں نے دیکھا کہ میرے مسودہ پر خط تنسیخ پھرا ہوا ہے اور پورا باب حافظ صاحب نے خود تحریرکیا ہوا ہے۔ میں تو پھر تیار ہو گیا ڈانٹ کھانے اور تنقید سننے کے لیے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ فرمایا تم لکھتے رہو، میں تمہیں بتاتا رہوں گا۔ پھر کچھ ہدایات دیں۔ ہدایات اپنی جگہ لیکن ان کی اوٹ سے جو نرمی اور شفقت چھلک رہی تھی اس نے مجھے نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ اس راہ کا راہی بنا دیا۔ اب اس راہ میں میری جو بھی کاوش ہے وہ حافظ صاحب کا صدقہ جاریہ ہے۔

جس طرح حافظ صاحب نے اس کتاب کی اصلاح کی ہے اور صرف پہلا باب ہی نہیں بلکہ آگے بھی کئی اسباق پورے پورے ان کے تحریر کردہ ہیں، اس کا حق تو یہی تھا کہ یہ کتاب حافظ صاحب کے نام سے شائع ہوتی، لیکن حافظ صاحب نے منع کر دیا۔ پھر مسودہ پر اپنے نام کے ساتھ حافظ صاحب کا نام دیا، لیکن مرحوم اس پر بھی آمادہ نہیں ہوئے۔ وجہ یہ بتائی کہ اسباق کے ساتھ جو مشقیں ہیں ان کے معیار سے وہ مطمئن نہیں ہیں اور ان پر نظرِ ثانی کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے اور طلبہ کی ضرورت کا تقاضا ہے کہ اسے بلا تاخیر شائع کر دیا جائے۔

درحقیقت پر تو تھا غنا اور بے نیازی کی اس نعمت کا جو اللہ نے حافظ صاحب مرحوم کو بدرجہ اتم عطا کی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اپنے طلبہ کے لیے سوچتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تدریس میں وہ تاثیر دی تھی جو فی زمانہ اگر نایاب نہیں تو کمیاب تو ضرور ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کے عربی کی تدریس کے اس انداز کو محفوظ کرا دیا جو چربی پگھلانے اور چٹائی تڑوانے والے طرز تدریس سے ہٹ کر بالکل سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ عربی کے طلبہ پر حافظ صاحب مرحوم کا ایک دائمی احسان ہے۔

ترکیب یعنی Analysis of Sentences ایسے طلبہ کی ضرورت ہے جو عربی گرامر پڑھنے کے بعد قرآن کے فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آج کل کی معرو ف تفاسیر میں آیات کی ترکیب کا ذکر نہیں ہے۔ تفسیر حقانی میں ہے ، لیکن وہ علماء کے لیے لکھی گئی ہے اور مبتدی طلبہ کے فہم سے بالاتر ہے۔ فہم القرآن کے طلبہ کی اس ضرورت کو حافظ صاحب مرحوم اپنی تالیف لغات و اعراب قرآن میں اپنے منفرد سادہ اور عام فہم انداز میں پورا کر رہے تھے ، لیکن بد قسمتی سے یہ کام مکمل نہ ہو سکا۔ البتہ قرآن اکیڈمی کی ترجمہ قرآن کی ایک کلاس میں حافظ صاحب کا پڑھایا ہوا پورے قرآن کا ترجمہ ریکارڈ کر لیا گیا تھا، جس میں اعرابِ قرآن کی وضاحت سے آیات کی ترکیب آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسی ریکارڈنگ کی مدد سے مطالعہ قرآن حکیم کے اسباق مرتب کیے گئے ہیں جو سہ ماہی حکمت قرآن میں قسط وار شائع ہو رہے ہیں۔ یہ فہم القرآن کے طلبہ پر حافظ صاحب کا ایک دائمی احسان ہے۔

حافظ صاحب کے نامہ اعمال میں ویسے تو اندراج کا سلسلہ بند ہو چکا ہے لیکن انہوں نے علم کا جو ترکہ چھوڑا ہے اس کا اندراج پل پل جاری ہے۔ اللہ کرے تاقیامت جاری رہے۔