نبی ّاکرمﷺ اور مکارِمِ اخلاق

پروفیسر حافظ احمد یا رؒ

کوئی شخص ہویا جماعت‘ تحریک ہو یاواقعہ‘ اُس کے مقصد اور اُس کی اہمیت میں ایک ایسا تعلق ہوتا ہے کہ بعض دفعہ مقصد سے اہمیت پر استدلال کیا جا سکتا ہے اور بعض دفعہ اُس کی اہمیت کے پیشِ نظر اُس کے مقاصد کی تلاش کی جاتی ہے۔ سیرت کانفرنسوں‘ جلسوں (جلوسوں کو چھوڑیے) تقریروں اور مقالوں کی ا ہمیت کیا ہے؟ کیا یہ اہمیت مقررین حضرات کی ذاتی وجاہت اور شخصی شہرت میں پوشیدہ ہے؟ یا تقریر کے لذیذ انداز سے حاصل ہونے والی ’’پاکیزہ ذہنی تفریح‘‘ میں! — یہ بھی ممکن ہے کہ مقرر کے لیے اس کی اہمیت کسی اور مقصد کے اعتبار سے ہو اور سامعین کے لیے کسی دوسرے سے۔ تاہم بظاہر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کانفرنسوں اور تقریروں کی اہمیت اس لیے ہے کہ اپنے مقصد کے لحاظ سے یہ سرورِ کائناتﷺ کی سیرتِ پاک کے مختلف گوشے پیش کر کے مسلمانوں کے دل میں پیغمبرﷺ کی عظمت اور نتیجتاً محبّت پیدا کرنے اور عمل میں سُنّت کا رنگ بھرنے کی ایک کوشش ہے ‘اور شاید محترم ڈاکٹر صاحب یہ بھی کہہ سکتے ہیں ؎
تا تُو بیدار شوی ‘ نالہ کشیدم ورنہ
عشق کارے ست بے آہ و فغاں نیز کنند
(اقبال)
(میں نے اس لیے نالہ کیا کہ تُو جاگ اُٹھے‘ ورنہ عشق تو وہ کام ہے جسے بے آہ وفغاں بھی انجام دے سکتے ہیں۔)
آقائے دو جہاںﷺ کی عظمت اور بعد از خدا بزرگی و فوقیت کا اقرار تو ایک مسلمان کے ایمان و یقین کی بنیاد ہے۔ اور اس معاملے میں نکتہ ہائے دقیق سے سادہ دلانہ یقین زیادہ بہترہے‘ تاہم پیچ و تابِ خرد میں بھی ایک ’’لذ تِ دگر‘‘ ہے ‘اور شاید یہ کانفرنسیں او ر تقریریں اس پہلوسے بھی قابل ِتوجّہ ہو سکتی ہیں۔ نبی اکرمﷺ کی عظمت اور اہمیت تو تاریخ انسانی کے کسی بھی طالب علم سے نہ پوشیدہ رہ سکتی ہے ‘ نہ رکھی جاسکتی ہے۔ سوال صرف یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اس عظیم ترین شخصیت کا مقصد ِحیات کیا تھا؟ اور اس سوال کے غلط یا درست جواب پر ہی ایک غیرمسلم کے آنحضورﷺ کی رسالت کا انکار کر دینے یا آپؐ پر ایمان لانے کا دار و مدار ہے۔
یہی سوال ہمارے سامنے بحیثیت مسلمان ہونے کے یوں آتا ہے کہ آنحضورﷺ کی بعثت و نبوت کا مقصد کیا تھا؟ اور اس سوال کے جواب اور اس مقصد کے تعیّن پر ہی ایک مسلمان کے ایمان و اسلام کے زوال یا کمال کا انحصار ہے۔
کیا آپﷺ کا مقصد محض ایک اچھی (نیک لوگوں کی)حکومت قائم کرنا تھا؟
(۲) کیا آپﷺ کا اصل کام غریب وامیر کے فرق کو مٹا دینا تھا؟
(۳) کیا آپﷺ کا بنیادی کام شفاعت کے زور پر بدکاروں اور گنہگاروں کو اللہ میاں کے ’’تھانے‘‘ سے چھڑا لے جانا تھا؟
(۴) کیا آپﷺ کی اصل ڈیوٹی صرف قرآن کریم دوسروں تک پہنچانے کی تھی اور بس؟
شاید یہ سب کام‘ بلکہ کئی اور اہم کام آنحضورﷺ کی بعثت کے مقاصد کے طو رپر بیان کیے جا سکتے ہیں‘ کیے گئے ہیں‘ اور کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اپنی افتادِ طبع اور ذاتی ’’فیل شناسی‘‘ کے کمالات دکھانے کے بجائے خود اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی زبانی بھی اس مقصد بعثت کو ڈھونڈنے اور سمجھنے کی ایک کوشش کبھی تو کر دیکھیں (ممکن ہے آپ کو یہ بھی ہماری ’’فیل شناسی‘‘ کا ہی ایک مظہر معلوم ہو)۔ اس بندئہ ناکارہ نے اس مقصد کے لیے قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کیا جن میں آنحضورﷺ کے مقصد ِنبوت و بعثت کو لامِ کَـْی(تاکہ) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ‘ تو یہ باتیں سامنے آئیں:
(۱) ظلمات سے نور کی طرف نکالنا

(i) {کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰـہُ اِلَـیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} (ابراھیم:۱)

(ii) {ھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} (الحدید:۹)

(iii) }قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ} (الطلاق

قابل ِغور ہے کہ ایمان و عمل ِصالح والوں کو بھی ظلمات سے نُور کی طرف لے جانے کا ذکر ہے۔ (ایمان و عمل صالح کے بعد بھی ظلمات کے سائے کیاہو سکتے ہیں؟) )۲ ( غلبہ ٔدین کے لیے }

ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ

{ سورۃ التوبہ‘ سورۃ الصف کی آیات بتکرار ‘ غلبہ ٔدین یا اکمال و اتمامِ دین کے لیے (معانی اظہار) آنحضورﷺ کے منصب ِرفیع اور فضائل کے سلسلے میں بہت کچھ قرآن کریم میں ہے مگر لامِ کَـْی کے ساتھ مقصد نبوت پر روشنی ڈالنے والی آیات یہی ہیں۔ اسی طرح بُعِثْتُ (مَیں بھیجا گیا) سے شروع ہونے والی احادیث میں سے بعض میں آپﷺ کے فضائل یا آپؐ کے منصب رفیع کی جھلک بھی ملتی ہے — مثلاً: ((بُعِثْتُ بِالْحَنِیْفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ))(۱) ، بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ))(۲)، ((بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّـۃً))(۳)، ((بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃِ کَھَاتَیْنِ))(۴) وَغَیْرھَا —  مگر احادیث میں آنحضورﷺ کی زبان سے لامِ کَـْی(تاکہ) کے ساتھ جو مقصد ِبعثت بیان ہوا ہے‘ وہ الفاظ کے اختلاف کے باوجود ایک ہی بیان ہوا ہے :۔

)۱( ((بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاق)))۵(

)۲( ) (بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاق)) ) ۶(

)۳( ((اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق وَمَحَاسِنَ الْاَعْمَال)) )۷(

ان آیات و احادیث کو سامنے رکھیں تو ظلمات سے نور (مراحل افکار کے بعد) رذائل کی ظلمتوں سے فضائل و مکارم کے نور کی طرف آنا بھی مراد ہو سکتا ہے‘ آخر ظلمات تو متعدد ہی ہیں— غلبہ ٔدین والی آیات کو لیں تو غلبہ بذریعہ تلوار (اور محض تلوار) کے علاوہ غلبہ بذریعہ فضائل و مکارم بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ بلکہ حقیقی غلبہ وہی ہے جو سیاسی+اخلاقی ہو — (آیت التحریم سے استدلال)اگر : {لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} کے معنی پورا دین بتا دینا ہی لیے جائیں تو سیرتِ مطہرہ میں تمام مکارم کا جمع کر دینا بھی اس میں شامل ہے۔ اس طرح سے ہر لحاظ سے محاسن و مکارمِ ا خلاق ہی آپﷺ کی نبوت کا مقصد ِعظیم معلوم ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے آپﷺ کے فضائل کے ذکر میں عظمت کا لفظ صرف خلق کے ساتھ استعمال کیا ہے :{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۴}(القلم)محاسن و مکارمِ اخلاق کو اپنی بعثت کا مقصد بتانے کے علاوہ حضورﷺ نے مزید مختلف طریقوں سے ان کی طرف توجہ دلائی: (۱) مثلاً کبھی آپﷺ نے محاسن اخلاق کی فضیلت و حقیقت سمجھائی:

(i) ((اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا)) (۸)

(ii) ((اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ‘ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ وَکَرِھْتَ اَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ)) (۹(

(iii) ((اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا))) ۱۰)

(iv) ((اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا))) ۱۱)

(v) ((حُسْنُ الْخُلُقِ خُلُقُ اللہِ الْاَعْظَم))) ۱۲)

)۲( کبھی آپﷺ نے محاسن و مکارم کے لیے دعا کرنا سکھایا:
(i)

((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعَافِیَۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ)))۱۳)

(ii)

((اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی لِصَالِحِ الْاَعْمَالِ وَالْاَخْلَاقِ فَاِنَّہٗ لَا یَھْدِی لِصَالِحِھَا وَلَا یَصْرِفُ سَیِّئَھَا اِلَّا اَنْتَ)))۱۴)

(۳)یہ بھی قابل غور ہے کہ ابتدائے بعثت سے ہی آپﷺ نے توحید وردّشرک کے ساتھ محاسن ِاخلاق پر زور دیا (قرآن میں بھی)۔ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بھائی کو حضورﷺ کے دعویٰ نبوت کے متعلق تحقیق کے لیے بھیجا تو انہوں نے واپس آ کر آپؐ کے متعلق یہ الفاظ کہے :

رَاَیْتُہٗ یَاْمُرُ بِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ(۱۵)ِ

۔قصّہ بنت حاتم الطائی میں آپﷺ نے فرمایا:۔

((فَاِنَّ اَبَاھَا کَانَ یُحِبُّ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ، وَاللہُ یُحِبُّ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ)) (۱۶)

اہل ِعرب محاسن ِاخلاق سے یکسر ناواقف نہیں تھے‘ مگر یہ صفت ان میں کمیاب اور جزوی اخلاق کی حیثیت رکھتی تھی۔ آنحضورﷺ نے محاسن ِاخلاق کو حکم ِشرع و اصولِ اسلام اور آدابِ سُنّت قرار دیا۔یہ بھی قابل ِغور ہے کہ اہل ِعرب عقل و دانش کی پختگی اور شرافت و اخلاق کی جامعیت کو حکمت کہتے تھے۔ اگر حکمت کے یہ معنی سامنے رکھیں تو ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ میں ’حکمت ‘کے معنی بھی واضح ہو جاتے ہیں ‘اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ مکارمِ اخلاق کی تعبیر خالص اسلامی ہے۔ جاہلیت کی نصوص میں محاسن کا ذکر ملتا ہے ‘مگر کہیں مکارم کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ (لطفی جمعہ ‘بحوالہ شیر فارس کانفرنس ۳۵ء رُوما) محاسن سے مکارم کا درجہ زیادہ بلند ہے‘ بلکہ محاسن کے بلند تر درجے کے لیے مکارم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اگر

: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰىکُمْ }(الحجرات:۱۳)

 کو سامنے رکھا جائے تو مکارمِ اخلاق کے معنی بآسانی ذہن میں آ سکتے ہیں۔ محاسن ِاَخلاق کی تفصیلات سے کتب ِحدیث مملو ہیں۔

طریق تعلیم محاسن
(i) سوال و جواب‘ فقہی سوال کم (۱۳ مسائل) اخلاقی زیادہ
(ii) بعض اعمال پر سرزنش
(iii) جزئی روز مرہ کے واقعات پر ہر جگہ اخلاق کی تعلیم دینا (بکری کے واقعہ تک)
محاسن ِاخلاق کی اس طویل فہرست پر نظر ڈالی جائے جو کتب ِحدیث میں موجود ہے تو حسنِ خلق کے ہمارے ہاں رائج معنوں کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اوّل تو ہمارے ہاں حسنِ خلق’’خوش اخلاقی‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (صرف میٹھی زبان‘ خندہ روئی‘ ملنساری وغیرہ) باقی اعمال نظر انداز — تجارتی و سیاسی بددیانتی اور معاشرتی و تہذیبی بے حیائی —یہ زندگی کو ایک کل نہ سمجھنے بلکہ تقسیم کر لینے اور تمام افکار و اعمال و احساسات کو ایک ہی محرک کے تابع نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
حسنِ خلق کا دوسرا مفہوم زیادہ تر مخصوص شرعی آدابِ معاشرت تک محدود سمجھا جاتا ہے۔یہ بات غلط نہیں ‘مگر اسلامی اخلاق کا یہ ایک ناقص اور ادھورا تصوّر ہے۔ (ابوابِ کتب حدیث:الآداب) محاسن کے مقابلے پر مکارمِ اخلاق کی تفصیل محدود ہے: )۱( آیت }

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ۱۹۹}: (الاعراف))

(i) اَنَّ جِبْرِیْلَ نَزَلَ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَیْتُکَ بِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ}خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ۱۹۹ ){۱۷)

(ii) )) قال رسول اللہ ﷺ:۔

اِنَّ اللہَ اَدَّبَنِی فَاَحْسَنَ تَادِیْبِیْ‘ ثُمَّ اَمَرَنِیْ بِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ فَقَالَ:{خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ۱۹۹}) (۱۸))

دیگر آیات ِمکارم ہم معنی وہم موضوع :۔

(i) {وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) {حٰمٓ السجدۃ:۳۴)
(ii) {وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۶۳ ) {الفرقان)
(iii) {وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۴۳) {الشوریٰ)

حدیث کی توضیح کے مطابق مکارمِ اخلاق یہ امور ہیں:ِ

عَفْوُکَ مَنْ ظَلَمَکَ — اِعْطَاءُکَ مَنْ حَرَمَکَ — صِلَتُکَ مَنْ قَطَعَکَ اِحْسَانُکَ مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ — نَصِیْحَتُکَ مَنْ غَشَّکَ‘ حِلْمُکَ مَنْ اَغْضَبَکَ۔

اور غور کریں تو سب کی اصل وہی عفو‘ امر بالمعروف اور اِعراض عَنِ الجاھلین ہی ہے۔ خُذِ الْعَفْوَوالی آیت کا مکارم اَخلاق پر مشتمل ہونے کا دوسرا استدلال ’’خلق عظیم‘‘ کے بعد والی آیات میں معاندین کے اخلاق کے ذکر سے ہوتا ہے۔یوں مکارمِ اخلاق کی انتہا اپنے نفس پر قابو پانا اور اپنے ضمیر کو نفسانیت سے پاک کرنا ہے۔ اسی بات کو سیدالاولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا ہے : کُنْ مَعَ الْحَقِّ بِلَا خلق وَکُنْ مَعَ الخلق بلا نَفس ۔ تصوّف میں اکثر حب ِالٰہی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہے۔ حب ِالٰہی مکارمِ اخلاق کا سبب بھی ہے اور مظہر بھی (قصہ ملک بہرام) — اور مکارم و محاسن اخلاق میں یہ بھی ہے کہ خود بے عمل نہ ہو۔آج دوسری قوموں کے مقابلے پر خود مسلمانوں کی کمزوری یہی ہے کہ وہ اس نسخہ ٔبقاء و حیات کو سینے سے لگائے خود دم توڑ رہے ہیں‘ مگر دنیا کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اے لب گورِ دنیا! یہ تیرے پاس آبِ حیا ت نہیں زہر ِقاتل ہے‘ ادھر آئو آبِ حیات ہم تمہیں پیش کررہے ہیں۔ اور دوسروں کو تلقین ِاخلاق کرتے ہیں مگر خود اپنی حالت کچھ ایسی ہے : ؎
عالم فاضل بن گئے بھول گئے اخلاق
مثبت‘ منفی کٹ گئے کھاتہ ہے بے باق!
[یہ مقالہ ۲۴نومبر ۱۹۷۸ء کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ ’’سیرت کانفرنس‘‘ بمقام جناح ہال لاہور میں پیش کیا گیا۔]

 

حواشی

(۱) مسند احمد‘ کتاب باقی مسند الانصار‘ باب حدیث ابی امامۃ الباھلی…‘ ح۲۱۲۶۰۔
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب قول النبیﷺ نُصرتُ بالرعب مسیرۃ شھر‘ ومتعدد مقامات۔
(۳) صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب قول النبیﷺ جُعِلَتْ لی الارض مسجدًا وطھورًا۔
(۴) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبیﷺ بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتین و متعدد مقامات۔
(۵) موطأ مالک‘ کتاب الجامع‘ باب انہ قد بلغہ ان رسول اللہﷺ قال بُعِثْتُ لاتمم حسن الاخلاق۔
(۶) الجامع الصغیر بحوالہ مستدرک
(۷) بطل الانبیاء بحوالہ بیھقی و مسند
(۸) سنن الترمذی‘ کتاب الرضاع‘ باب ما جاء فی حق المرأۃ علٰی زوجھا۔
(۹) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تفسیر البر والاثم۔
(۱۰) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب صفۃ النبیﷺ
(۱۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب مناقب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔
(۱۲) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم۔
(۱۳) تخریج الاحیاء للعراقی : ۳/۶۲‘ راوی:عبداللہ بن عمرو i۔
(۱۴) المعجم الکبیر للطبرانی‘ باب الصاد۔
(۱۵) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب اسلام ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ ۔
(۱۶) بحوالہ تاریخ دمشق لابن عساکر۔
(۱۷) ادب الدنیا والدین للماوردی‘ راوی : محمد بن حارث الھلالی۔
(۱۸) اخرجہ ابوسعد بن السمعانی فی ادب الاملاء بسند منقطع، عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۔
(ماہنامہ میثاق‘ نومبر ۲۰۲۰ء)