قرآن کریم اور ضمیر ِبیدار
پروفیسر حافظ احمد یارؒ

الحمدُ لِلّٰہ وحدَہ والصَّلٰوۃ والسَّلام علٰی من لا نبیَّ بعدَہ —-
امَّابعد : فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰنِ الرجیم ۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

(اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌ} (الطارق}

’’کوئی جان ایسی نہیں جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔‘‘

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جن باطنی قوتوں سے نوازا ہے ان میں سے دل و دماغ یا عقل و ضمیر دو نہایت اہم قوتیں ہیں۔ جس طرح بیرونی حواس کا فقدان یا ان کی صحت و سقم انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ اسی طرح انسان کی ان اندرونی طاقتوں کی صحت و قوت یا ان کا فساد و ضعف اس کی اخلاقی و روحانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور بالآخر اس کی اُخروی زندگی میں سعادت و شقاوت اور فلاح یا خسارہ کا باعث بنتا ہے۔ ہمارا آج کا موضوع لفظ ’’ضمیر‘‘ اگرچہ عربی زبان ہی کا لفظ ہے جو انسان کی باطنی و قلبی کیفیت اور داخلی شعور کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ‘تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا… اردو اور عربی میں اب یہ لفظ ’’ضمیر ‘‘عام طور پر انگریزی لفظ(conscience) کے لیے استعمال ہونے لگا ہے ‘جو انسان کی ایک اہم باطنی کیفیت یا قلبی استعداد Faculty of mindبلکہ (Highest faculty of mind) کے طور پر فلسفہ و نفسیات والوں کا ایک خاص موضوع ہے۔ عموماً اسے ایک ایسی اندرونی استعداد یا قوت سمجھا جاتا ہے جو بصورت صحت خود انسانی حواس واحساسات اور ہیجانات کے زیراثر رونما ہونے والی کمزوریوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ جنہیں اصطلاحاً temptationsکہا جاتا ہے۔ نفسیات والوں کے نزدیک ہر دو(یعنی) conscience اور temptation انسان کی شعوری خواہشات اور غیر شعوری محرکات کے درمیان ایک کشمکش کے دو مظاہر ہیں۔ مسیحی عقائد کے مطابق ضمیر کو ’’Voice of God within human soul ‘‘ کہا گیا ہے۔ایک حدیث شریف میں بیان کردہ ایک مثال میں بھی ’’ وَاعِظُ اللہِ فِی قَلْبِ کُلِّ مُؤْمِنٍ‘‘ (۱) کہہ کر اسی باطنی قوت یعنی ضمیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر اخلاقی بصیرت کی ایک جبلی استعداد بھی رکھی گئی ہے۔ عملی انحراف و فساد کے باوجود اور گمراہی کی استثنائی کیفیات کے سوا انسان کے اندر نیکی یا فضیلت کے بارے میں ایک اعتراف یا محبت اور برائی یا رذیلت کے بارے میں نفرت پائی جاتی ہے۔ دوسروں کو برا کام کرتے دیکھ کر اسے دکھ ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے ذاتی اخلاقی عیوب کو ناپسند کرتا ہے۔ اور اگر کسی ایسی چیز کا مرتکب ہوتا ہے تو یا تو اسے چھپاتا ہے یا اس پر اسے سخت ندامت ہوتی ہے۔ یا پھر عقل کی مدد سے اس کے لیے جواز تلاش کرتا ہے:۔{بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۱۴ وَّلَــوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ۱۵ } (۲) (القیامۃ)کوئی آدمی اپنے آپ کو جھوٹا‘ خائن اور دغاباز کہلانا آخر کیوں پسند نہیں کرتا؟
قرآن کریم بالعموم اپنے اخلاقی نظام کی بنیاد خیر و شر اور عدل و ظلم کے درمیان تمیز کر سکنے والے اسی عام انسانی شعور پر رکھتا ہے اور عملی ہدایات دیتے وقت ان (قدروں) کے فہم کے بارے میں انسان کی اس باطنی حس پر اعتماد کرتا ہے ۔ معروف‘ منکر‘ عدل‘ احسان‘ فحشاء‘ امانت اور خیانت وغیرہ کی شرعی وضاحت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں چالیس سے زیادہ مقامات پر خیروشر کی تمیز کے بارے میں انسان کے اس اخلاقی ضمیر اور اسی اندرونی حس پر زور دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ حس یا ضمیر ہے جو انسان کے قلب و دماغ اور اعضاء وجوارح کے اعمال میں ہم آہنگی نہ پائے جانے پر ٹھیک اسی طرح مضطرب ہوتا ہے جس طرح انسانی اعصاب کسی جسمانی اذیت سے متاثر ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اس انسانی استعداد کا ذکر مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ غالباً سب سے نمایاںبیان اس کا ’’نفس لوامہ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ سورۃ القیامہ میں اسی نفس لوامہ یا انسان کے اخلاقی ضمیر کو زندگی بعد از موت کی شہادت اور دلیل صداقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے… مفسرین نے قیامت اور نفس لوامہ میں مناسبت اور باہمی تعلق پر بعض عمدہ نکات اور نفس لوامہ کے معنی مراد کے بارے میں جو مختلف اقوال بیان کیے ہیں‘ ان میں اکثر نے اسے ضمیر انسانی کے ہم معنی بھی قرار دیا ہے۔مثلاً رازی نے ایک معنی’’النفس الشریفۃ التی لا تزال تلوم نفسھا‘‘ کیا ہے۔ طبرسی نے ایک مفہوم ’’النفس المؤمنۃ التی تلوم نفسھا فی الدنیا وتحاسبھا‘‘بیان کیا ہے۔ روح المعانی میں ایک قول یوں بھی بیان ہوا ہے ۔:’’ھی التی تنورت بنور القلب فکلما صدر عنھا سیئۃ بحکم جبلتھا الظلمانیۃ اخذت تلوم نفسھا ونفرت عنھا۔‘‘لوامہ (بار بار ندامت دلانے والا) کے صیغہ مبالغہ میں جو ایک اعادہ و تکرار کا مفہوم ہے وہ بھی اسی دنیا میں ضمیر کا عمل مراد لیے جانے پر ایک مزید دلیل ہے۔بعض مفسرین نے{اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌ۴}کی تفسیر میں اس ’’حافظ‘‘ کے معانی میں انسان کی اس باطنی استعداد اور تمیز خیر و شر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ (روح المعانی)
ایک مؤلف نے ابن درید کی کتاب الاشتقاق کے حوالے سے ’’مسلم‘‘ کے معنی میں یہ بات لکھی ہے کہ’’اشتقاق المسلم من قولہٖ اسلمتُ للّٰہ ای سلم لہ ضمیری ای خلص‘‘ ہے …ابن درید کی اس تعریف میں اسلام اور ضمیر کے تعلق کے اس ذکر سے یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ خود ضمیر حق و باطل کا معیار ہرگز نہیں۔تاہم اسے حق و باطل کا جو معیار دے دیا جائے تو پھر وہ انسان کے ظاہر وباطن میں اس معیار کے تضاد پر مضطرب اور بے چین ہو جاتا ہے اور انسان کو ایسے رویہ پر ٹوکتا ہے۔ یہ نفس لوامہ یا ضمیر حافظ یا اخلاقی بصیرت ایک زبردست قوت ہے مگر اس کی مثال کمپیوٹر کی سی ہے جو مطلوبہ جواب فوراً دیتا ہے مگر feeded data کے مطابق نیکی و بدی کا جو تصور ضمیر کو کر دیا جائے تو وہ اس کے مطابق بوقت ضرورت آناً فاناً نیکی یا بدی کے بارے میں سگنل دے گا۔

ضمیر کے اندر نیکی بدی کا یہ تصور یا مواد (data) مختلف ذرائع سے بہم پہنچایا جاتا ہے‘جس کا سب سے اعلیٰ اور درست ذریعہ تعلیمات ِ رسالت ہیں … حواس ظاہری کی طرح انسان کی یہ باطنی قوت (ضمیر) بھی اپنی قوت و فعالیت میں یکساں نہیں رہتی کہ انسان کے کردار کو ہمیشہ اپنا پابند بنا سکے۔ اس لیے اس کے ساتھ ہی اس استعداد کی تقویت یا تربیت کے لیے ایک دوسری انسانی قوت یعنی عقل و دانش اور خصوصاً اجتماعی عقل انسانی — بلکہ ہر دور کے اہل صلاح و صالحین کی تائید حاصل کرنے والے اصول و احکام سے مدد لینا بھی ضروری ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کتب سماویہ اور سابقہ انبیاء کرام علیہ السلام کی تعلیمات کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اس طرح قرآن اور اسلام کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے اس وقت ہمارا اصل موضوع مطلقاً ’’ضمیر‘‘ نہیں بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں پروردہ و تربیت یافتہ ضمیر ہے‘ جسے ہم دینی ضمیر کہہ سکتے ہیں۔ تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسی دینی ضمیر کی تربیت یا ضمیر کی دینی تربیت تھا ‘کیونکہ تزکیہ نفوس کی اصل اور مضبوط اساس یہی ہے۔
قرآن کریم کی رو سے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی دینی ضمیر کی تربیت ضروری ہے۔ جس طرح انسانی حواس بیماری‘ ضعف یا فقدان کا شکار ہو سکتے ہیں‘ اسی طرح انسان کی یہ اندرونی قیمتی استعداد’’ضمیر‘‘بھی اس قسم کی آفات کی زد میں آ سکتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس باطنی حس کو زندہ‘ استوار اور فعال و بیدار رکھنے پر نہ صرف زور دیا ہے بلکہ اس کے لیے عملی تدابیر بھی بیان کی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر محض خارجی ذرائع سے کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جب تک خود اس کے اندر تبدیلی نہ پیدا ہو۔یہ بات افراد و اقوام سب پر صادق آتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے انسان کی ان اندرونی قوتوں یعنی لب و عقل اور قلب و ضمیر کو مخاطب کیا ہے اور اپنی اس فطری استعداد سے مطلقاً کام نہ لینے والوں کو {کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ}(۳) کہا ہے۔ ضمیر کو حق شناس بنانے‘ اسے بیدار رکھنے اور اس کی تقویت اور صحیح تربیت کے لیے قرآن کریم نے حسب ذیل اقدامات و تدابیر کا ذکر کیا ہے:۔
٭ سب سے پہلی چیز ایمان باللہ ہے۔ کسی فلسفی کا قول ہے کہ عقیدہ (یاایمان) کے بغیر ضمیر کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی عدالت بغیر جج کے ہو… ایمان باللہ کے بغیر قلب ایک بنجر زمین ہے ‘لیکن جب ایمان اَعماقِ قلب تک پہنچتاہے تو ضمیر کا پودااس میں برگ و بار لانا شروع کر دیتا ہے ۔اور بقول باہوؒ قلب ِمؤمن کے پودے کی خوشبو انسان کے باطن سے نکل کر اس کے ظاہر یعنی اس کے اعمال میں سرایت کرنا چاہتی ہے۔ یہ اس کا فطری تقاضا ہے۔
٭ ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی بار بار یاد‘ اس کا اعادہ اور تکرار دینی ضمیر کی تربیت کے لیے دوسرا اہم اقدام ہے ۔اسلامی عبادات اسی لیے دینی ضمیر بلکہ اجتماعی دینی ضمیر کو زندہ وبیدار رکھنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہیں اور شاید اسی لیے تمام اسلامی عبادات کو ایک اجتماعی رنگ دیا گیا ہے۔ انفرادی سطح پر بھی عبادات انسان کے لیے اخلاقی و دینی ضمیر کی بیداری کا باعث بنتی ہیں‘ کیونکہ ہر عبادت سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً یکسانیت ہی سے ضمیر مطمئن ہو سکتا ہے۔ حواس کی لذتوں کی طرح ضمیریاباطن کی لذت کا سامان اس یک رنگی میں پوشیدہ ہے۔

٭ توبہ اور رجوع الی اللہ ضمیر انسانی کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لیے ایک نہایت مؤثر ذریعہ بھی ہے اور بیداریٔ ضمیر کی علامت بھی ہے۔ جب ضمیر کی آواز کسی ’’جہالت‘‘ کے باعث نظرانداز کر کے انسان کوئی برا کام کر بیٹھتا ہے تو قرآن کریم کے حکم کے مطابق ایسے آدمی نے گویا اپنے ضمیر کو سخت خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسے فوراً اپنے ضمیر کو موت سے بچاناچاہیے۔ جس طرح کسی گرے ہوئے مکان کے ملبہ کے اندر سے فوری کارروائی کے ذریعے کسی کی جان بچائی جا سکنے کے امکانات ہو تے ہیں اسی طرح گناہ کے اس ملبے سے ضمیر کو نجات دلانے کے لیے {یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ}(۴) پر عمل کرنا ضروری ہے۔ توبہ اور اصلاح استغفار کے سلسلے میں قرآن کریم کے تمام احکام کا مقصد انسان کی اس باطنی استعداد کو فنا سے بچانا اور اسے برقرار رکھنا ہے۔
قرآن کریم میں ’’تَوَّابِین‘‘ کا صیغہ مبالغہ ایک سے زیادہ جگہ آیا ہے ‘جس میں تکرار کا مفہوم موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہی دوسری جگہ صفاتِ مؤمنین میں {وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا}(۵) کا ذکر بھی آیا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے.: ’’مَا اَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَاِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً ‘‘(۶)

…توبہ و استغفار کا یہ عمل پیہم انسان کو اس عدم اصرار کی منزل تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
ضمیر بیدار کی اصل اہمیت گناہ سے بچانے میں نہیں بلکہ گناہ پر پچھتانے اور ندامت آشنا کرانے میں ہے۔ اصل توبہ ندامت ہی کا نام ہے۔ ’’انما التوبۃ الندم‘‘…اور ضمیر کی یہ ندامت کوئی معمولی شے نہیں ‘یہ تو اجرائے حد سے بھی سخت ترشئے ہے۔
دینی ضمیر اور خصوصاً اجتماعی دینی ضمیر کو زندہ و بیدار رکھنے کے لیے ہی قرآن کریم نے ایک نظام‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘پر زور دیا ہے … امر بالمعروف ‘تواصی بالحق والصبر اگر ضمیر دینی کے لیے باعث نشاط و قوت ہیں تو نہی عن المنکر دینی ضمیر خصوصاً اجتماعی دینی ضمیر کو موت و ہلاکت سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ قوموں اور ملتوں کی حیاتِ اجتماعیہ میں منکرات وبا کی طرح پھیلتے ہیں‘ اور اگر فوری تدارک اور مسلسل نگرا7نی نہ کی جائے تو اجتماعی ضمیر کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ قرآن وحدیث میں اس کی واضح مثال کے طور پر بیان ہوا ہے: {کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوْہُ }(۷) (المائدۃ:۷۹) کے باعث ہی وہ سخت سزا کے مستحق ٹھہرے تھے۔ اسلامی حکومت کے چار اہم اور بنیادی فرائض میں آخری نہی عن المنکر ہے :۔ {اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ. وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ } (۸ ) (الحج)
پہلے تینوں امور (صلوٰۃ‘ زکوٰۃ‘ امر بالمعروف) اگر ضمیر کی غذا ہیں تو وجودِ منکر ضمیر کے لیے سم ِقاتل ہے — نہی عن المنکر سے غفلت پہلے تین امور کے مثبت اثرات پر پانی پھیر دینے والی بات ہے۔ کیا آپ کسی کو طاقتور اور مفید غذائیں کھلانے کے ساتھ تھوڑا سا زہر کھلا دینے کو معمولی بات سمجھ سکتے ہیں؟ نماز ‘روزہ‘ زکوٰۃ کا اہتمام کرنے والے اگر صواحب ِیوسف کے ساتھ سمجھوتے بھی کرتے پھریں تو : ع ’’ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے! منکرات کو مٹانے کے اس امتحان میں عوام کے لیے تو چلئے
’’أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ ‘‘(۹) کا گریڈ حاصل کرنے کا امکان موجود ہے …مگر ’’لمبے ہاتھوں والے‘‘ اور ’’لمبی زبانوں والے‘‘ اصحابِ ابلاغ کے ایمان و ضمیر کے متعلق کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے؟
ضمیر بیدار کی رعایت کے حق میں قرآن کریم کا یہ حکم بھی قابل ذکر ہے کہ بیدار اور زندہ ضمیر والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مردہ ضمیر والے بڑے صاحبوں پر اپنی توجہات مرکوز کرنے کی بجائے باضمیر عوام کو تلاش کیجیے۔
{عَبَسَ وَتَوَلّٰی}
کے واقعہ نزول میں کیا اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
جب ایمان‘ ذکر اللہ‘ تقویٰ اور خشیۃ اللّٰہ کے ذریعے ضمیر کی تربیت و تقویت کی جائے تو وہ اس درجہ بیدار اور اتنا حساس ہو جاتا ہے کہ اس مرحلہ پر ضمیر کا فتویٰ فقہاء کے فتوئوں پر قابل ترجیح ہو جاتا ہے۔ تقویٰ کے ذریعے درجہ فرقان تک پہنچ جانے پر ہی
’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ (۱۰)کا اطلاق ہوتا ہے۔ ((اَلْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَاَنَّ اِلَیْہِ الْقَلْبُ، وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ))(۱۱) اسی درجے کے لیے کہا گیا ہے۔ دینی ضمیر کی نیند یا موت کی سب سے زیادہ خطرناک صورت علماء اور رجالِ دین کے ضمیروں کا سو جانا یا مر جانا ہے۔ قرآن کریم میں یہود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ } لَــوْلاَ یَنْہٰٹہُمُ الرَّبّٰـنِـیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِـہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ۔ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۶۳} (۱۲) (المائدۃ) ایسے بے ضمیر علماء سے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے آدمی کے لیے اپنے دینی ضمیر سے کام لینا شاید زیادہ بہتر ہے۔ معری نے اسی لیے کہا تھا : ؎
والعصا للضریر خیر مِنَ القا
ئِد فیہ الفجور والعصیان) ۱۳

قرآن کریم نے اپنے بعض احکام میں صورتِ امتثال یا کیفیت تعمیل کا فیصلہ خود ضمیر بیدار پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال {قُلِ الْعَفْوَ}(۱۴) میں اس ’’العفو‘‘ کا تعین ہے۔ ضرورت سے زائد کے اس تعین میں ہی آدمی کے ایمان و ضمیر کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ رسول اللہﷺ ‘ صحابہ کرامj اور خصوصاً حضرت عمراور حضرت علیi نے اس کی جو عملی مثال قائم کی وہ تاریخ عالم میں اپنی نظیر آپ ہے کہ حکمران ہوتے ہوئے خوراک‘ لباس اور مکان کے لحاظ سے اپنا معیارِ زندگی اس سے اونچا نہیں ہونے دیا جو وہ اپنی رعیت کے افراد کو کم از کم مہیا کر سکتے تھے۔
قرآن کریم کی آیت } اِقْرَاْ کِتٰــبَکَ .کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۱۴{(۱۵ ( سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میزانِ ضمیر ہی میزانِ آخرت ہو گی۔ ضمیر بیدار کو اسی دنیا میں محاسب ِاعمال بنانا ہی حسابِ آخرت کی سب سے بڑی اور عمدہ تیاری ہے۔
قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ }نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۴۰} (۱۶( اگر ضمیر کی بیداری کا ثبوت ہے۔ اور }اٰثَـرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاl} (۱۷( اگر ضمیر کی قطعی موت کا ثبوت نہ بھی ہو تو بھی خیریت کی علامت ضرور نہیں ہے —-اور ضمیر کی موت ہی دلوں پر لگنے والی وہ خدائی مہر ہے جس کے بعد انسان کے اندر سے کسی تبدیلی کے امکانات بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔
اعاذنا اللّٰہ من ھذا!!۔

حواشی (اضافہ از شعبہ مطبوعات)
(۱) ’’ہر مؤمن کے دل میں اللہ کی طرف سے نصیحت کرنے والا‘‘ جامع الرسائل لابن تیمیۃ :۲/۹۷ و مجموع الفتاویٰ:۱۰/۴۷۴‘۴۷۵ عن النواس بن
سمعانص
(۲) ’’بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔‘‘
(۳) ’’چوپایوں کی مانند بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔‘‘ (الاعراف:۱۷۹)
)۴) ’’پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں‘‘ (النساء:۱۷)
(۵) ’’اور وہ اپنے اس غلط فعل پر اصرار نہیں کرتے‘‘ (آل عمران:۱۳۵)
(۶( ’’جس نے استغفار کر لیا اُس نے (اپنے گناہ پر) اصرار نہیں کیا‘ اگرچہ دن میں ستربار اس کا اعادہ کرے۔‘‘ سنن ابی داوٗد‘ ح۱۵۱۴، عن ابی بکر الصدیقص
(۷) ’’یہ لوگ ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے ان منکرات سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
(۸) ’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکن عطا کر دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘ اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے ۔اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘
(۹) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح مسلم میں وارد حدیث نبویؐ کے مطابق نہی عن المنکر کا تیسرا درجہ منکرات کو دل میں برا جاننا ہے‘ اور اسے رسول اللہﷺ نے ’’ایمان کا کمزور ترین درجہ‘‘ قرار دیا۔
(۱۰) ’’اپنے دل سے فتویٰ پوچھو!‘‘
(۱۱) ’’نیکی وہ ہے جس پر انسان کا ضمیر مطمئن ہو جائے اور دل کو اطمینان حاصل ہو‘اور جو شئے ضمیر کی خلش کا باعث ہو اور اس کے متعلق سینے میں تردد ہو‘ وہ گناہ ہے!‘‘ (الاربعون النوویۃ‘ ح۲۷‘ عن وابصۃ بن معبد الاسدیص)
(۱۲) ’’کیوں نہیں منع کرتے انہیں ان کے درویش (صوفی اور پیرومرشد) اور علماء و فقہاء گناہ کی بات کہنے سے اور حرام خوری سے؟‘‘
(۱۳) ’’نابینا شخص (کی راہنمائی) کے لیے لاٹھی بہتر ہے اُس قائد سے جو فسق و فجور اور معصیت میں مبتلا ہے۔‘‘
(۱۴) ’’کہہ دیجیے جو کچھ بھی زائد از ضرورت ہو (وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دو!) ‘‘ (البقرۃ:۲۱۹)
(۱۵) ’’پڑھ لو اپنا اعمال نامہ! آج تم خود ہی اپنا حساب کر لینے کے لیے کافی ہو۔‘‘ (بنی اسرائیل)
(۱۶) ’’اُس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے۔‘‘ (النّٰزعٰت)
(۱۷( ’’دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔‘‘ (النّٰزعٰت)
(سہ ماہی حکمت قرآن‘ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۶ء)