حافظ احمد یارؒ۔۔۔ ایک باعمل عالم

ڈاکٹر جمیلہ شوکت

پروفیسر ایمریٹس شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی

اس سے قبل کہ مرحوم و مغفور محترم حافظ احمد یار اور ان کی مایہ ناز تالیف کے بارے میں چند افکار پریشاں رقم کروں، ضروری سمجھتی ہوں کہ عظیم باپ کے مایہ ناز صاحبزادے ڈاکٹر نعم العبد کا شکریہ ادا کروں کہ جو بڑے صبرو ضبط سے میری چند سطور کی تحریر کے لیے بار یاددہانی کرواتے رہے بلکہ میری معذرت کو بڑے حوصلے سے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطالبہ پر قائم رہے۔ چند روز قبل بڑے مہذب انداز میں مزید مہلت دی تو اب وعدہ کو ایفا کرنے کا خیال شدت سے دامن گیر ہوا اور الحمد للہ یہ چند باتیں تحریر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اللہ رب العزت قبول فرمائے۔ آمین
قرآن حکیم سے ایک مسلمان کا تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ بچہ جب سن شعور کو پہنچتا ہے تو والدین کی پہلی ترجیح اس کو کلمہ طیبہ سکھانا اور پھر رفتہ رفتہ ناظرہ قرآن کریم پڑھانا ہوتا ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ کچھ ذہین بچے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ بیک وقت یہ دونوں صفات عملاً بہت کم ہوتی ہیں۔

الحمد للہ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم و مغفور ایک ایسا روشن ستارہ تھے جو بیک وقت حافظ قرآن اور عامل قرآن بھی تھے۔ اس کا عملی اطلاق انہوں نے سب سے پہلے اپنے بچوں پر کیا کہ انہیں نہ صرف صحیح مخارج و تجوید کے ساتھ قرآن حکیم بنفسِ نفیس پڑھایا بلکہ زندگی کے معاملات میں بھی تعلیمات قرآن کے رنگ میں رنگنے کی بھرپور سعی کی۔

حافظ صاحب کے عامل قرآن ہونے کے ذاتی مشاہدات میں سے دو کے ذکر پر اکتفا کروں گی۔ ایک موقع پر انہوں نے کسی قریبی ساتھی سے کچھ رقم بطور قرض لی اور فرقان مبین کے حکم کے مطابق اس کو تحریرکرنے لگے تو فریق ثانی نے اس کو غیر ضروری سمجھا اور اصرار کیا کہ باہمی اعتماد اور تعلق کی صورت میں اس کی حاجت نہیں لیکن حافظ صاحب نے اسے اللہ کا حکم سنا کر خاموش کروا دیا۔

حافظ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ادارے انجمن خدام القرآن میں تدریس قرآن حکیم کا آغاز کیا۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبے کو تقابل ادیان کے حوالے سے استاد کی ضرورت محسوس ہوئی تو راقمہ نے ان سے طلبہ کو پڑھانے کی درخواست کی تو حافظ صاحب نے فرمایا کہ اب میرا یہ وقت اس ادارے کے لیے مختص ہے اس لئے میں وقت دینے سے قاصر ہوں۔ ازاں بعد ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر اسرار صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نے بکمال مہربانی اجازت دے دی کہ وہ شعبہ میں متبادل انتظام ہونے تک یہ فریضۃ سرانجام دیں گے ۔ بہرطور حافظ صاحب نے پڑھانا شروع کر دیا۔ جب اعزازیہ دینے کی بات آئی تو انہوں نے اعزازیہ لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرا یہ وقت انجمن خدام القرآن کے لئے ہے اور ان کی اجازت سے یہاں وقت دے رہا ہوں سو میں اس اعزازیہ کو قبول نہیں کر سکتا کہ میں اس وقت اعزازیہ وہاں سے لے رہا ہوں۔

حافظ صاحب ایک سفید پوش اور علم دوست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کثیر العیال ہونے کے باوجود اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ دینی اور عصری علوم سے متعلقہ کتب خریدنے پر خرچ کر دیتے۔ ہماری بھابھی صاحبہ نے ایک موقع پر شکایتاً یہ بات کہی تو بڑا جاندار قہقہہ لگایا اور فرمایا کہ کتاب جب تک ذاتی ملکیت نہ ہو پڑھنے کا مزا نہیں آتا۔ ایک اور اہم بات جو میں نے مشاہدہ کی کہ مہینہ کے آغاز میں سب سے پہلے مکتبہ علمیہ کا رُخ کرتے پچھلا قرض ادا کرتے اور کچھ اور کتب پھر قرض پر لے آتے۔ اپنے قرض کی تفصیل اپنے اہلِ خانہ کو بتا دیتے اور ان کی وصیت ہوتی کہ میرے بعد سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے۔

پروفیسر حافظ احمد یار کو مختلف کتب کے مطالعہ کا شوق ساری زندگی قائم و دائم رہا۔ اس سلسلے میں ان کے نہایت قریبی دوست جناب پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب رقمطراز ہیں:

جب ہم دونوں اپنے کالج سے نکلتے تو اکٹھے نیلا گنبد تک سائیکلیں لئے پیدل چلے آتے۔ انار کلی نیلا گنبد چوک پر ایک پان سگریٹ فروش کے ہاں حکومت پاکستان کا شائع کردہ عربی رسالہ الوعی اور فارسی الھلال کے تازہ شمارے کا ضرور پوچھتے اور فوراً خرید لیتے، وہ نیشنل جیوگرافک میگزین کے بھی باقاعدہ خریدار تھے۔ کتابوں سے عشق کا یہ حال تھا کہ مکتبہ علمیہ کے درویش صفت مالک عبید الحق صاحب سے تعلق اخوت استوار ہو گیا تھا۔ لیک روڈ لاہور پر واقع ان کے مکتبہ سے رابطہ رکھتے اور جب عالم عرب سے نئی کتب آتیں تو وقت ضائع کیے بغیر فوراً پہنچ جاتے تاکہ نسخے محدود تعداد میں ہونے کے سبب وہ ان سے محروم نہ رہ جائیں۔ آمدنی کا بیشتر حصہ کتب کی خرید پر صرف کرتے اس سلسلے میں بعض اوقات مقروض بھی ہو جاتے مگر جو کتاب پسند آجاتی اس کو اپنی لائبریری کا حصہ بنانے سے خود کو محروم نہ رکھ پاتے۔ (شیر محمد زمان چشتی۔ میرے حافظ صاحبؒ، ص ۲۴، ارمغان پروفیسر حافظ احمد یارؒ، گرافک ڈائی مینشن، لاہور، ۲۰۱۵ء)
محترم حافظ صاحب کا یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے باوجود رہن سہن انتہائی سادہ تھا۔ گھر کے تمام کام کاج خود کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ انہوں نے ایک گائے رکھی ہوئی تھی جس کے لیے چارہ خود اپنے کاندھوں پر رکھ کر لاتے اور دودھ بھی خود دوہتے۔ علاوہ ازیں مرغیاں بھی رکھی ہوئی تھیں تاکہ بچوں کی غذائی ضروریات میں کوئی کمی نہ رہے۔ اس اثناء میں کوئی دوست یا شاگرد آجاتا تو میزبانی کا فرض بھی احسن طریقے پر نبھاتے۔

پروفیسر حافظ احمد یارؒ کا قرآن و علوم قرآن سے دلی تعلق کا سب سے پہلا اور اہم مظہر وہ نمائش تھی جس میں انہوں نے قرآن حکیم کے نادر نسخے اور سیرت طیبہ پر نایاب کتب پیش کیں۔ یہ شاید اپنی نوعیت کی پہلی نمائش تھی۔

حافظ صاحب کی تدریس قرآن کا طریقہ بہت مؤثر تھا۔ وہ عربی سے نابلد طالب علموں کو قرآن حکیم کو سیکھنے اور سمجھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے دوران تدریس بعض دلچسپ واقعات اور لطائف بھی سناتے، خود ہنستے اور دوسروں کو بھی ہنساتے اور سامعین کی دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے۔

حافظ صاحب کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذاتی زندگی میں ہر قدم پر قرآن کے حافظ ہونے سے زیادہ اس پر عامل نظر آتے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی سے واقف کار اس بات کی گواہی دیں گے کہ اہلِ خانہ سے ان کا برتاؤ مشفقانہ اور ناصحانہ تھا۔ رسول اللہﷺ سے محبت اور عشق کا عملی اظہار ان کی خانگی زندگی میں نظر آتا ہے جو تصنع اور بناوٹ سے پاک نظر آتی ہے۔ ساری زندگی رشوت و سفارش سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور الحمد للہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ ان کے اس طرزِ عمل کی چھاپ ان کی اولاد میں بھی نظر آتی ہے۔ زندگی کا انفرادی پہلو ہو یا اجتماعی معاشی ہو یا سیاسی ان کی کوشش رہی کہ وہ اسوہ رسول ﷺ کے مطابق ہو۔

حافظ صاحب کی قرآن حکیم سے محبت کا کرشمہ تھا کہ ان کا محبوب مشغلہ کتاب بینی بن گیا تھا۔ قرآن حکیم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان پر دسترس کی حیثیت بنیادی ہے۔ انہوں نے اپنے خداداد فہم و ادراک سے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عصری علوم سے بھی تعلق جوڑ لیا تھا تاکہ نسل نو کو یہ بتایا جا سکے کہ قرآن حکیم تمام علوم کا مخزن اور منبع ہے۔ طلباء کی درسی ضرورت پوری کرنے کے لیے سورۃ اٰلِ عمران اور سورۃ النساء کی جس انداز میں تفسیر اور تشریح تحریر کی کہ اس کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ عصری علوم مثلاً علم طبیعیات، حیاتیات، نباتات و حیوانات سب کے لئے قرآن کریم ہی سے استشہاد کرتے ہیں۔ ان کی لائبریری جہاں دینی علوم کی کتب سے مالا مال تھی وہاں تاریخ عالم، جغرافیہ، نقشہ جات، طب و کیمیاء سے متعلق کتب بھی موجود تھیں تاکہ وہ قرآن حکیم کو سمجھنے کے لیے ان کا تجزیاتی مطالعہ کر سکیں۔ یہ لائبریری دنیا کے مختلف ممالک میں طبع ہونے والے قرآن حکیم کے نادر نسخوں کا خزینہ بھی تھی۔ وہ ان نسخوں میں مستعمل رسم الخط اور اعراب وغیرہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔

ان کی تصنیف و تالیف میں سب سے پہلا علمی و تحقیقی کام یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ ہے جو انہوں نے اپنے ایم۔اے اسلامیات کے ایک پیپرز کے متبادل اختیار کیا تھا۔ اس کی اشاعت تحریر کے طویل عرصے بعد بغیر کسی نظر ثانی کے ہوئی جو ان کی زمانہ طالب علمی کی عالمانہ تحقیق کا بین ثبوت ہے۔

آپ نے دستور حیاء کے عنوان سے سورۃ النساء کی تفسیر اور تشریح لکھی جو گریجوایشن کے نصاب میں شامل تھی۔ دین و ادب کے عنوان سے ایک اور کتاب بی۔اے اسلامیات (اختیاری مضمون) کے طلباء کے استفادہ کے لئے تحریر کی۔

علوم قرآن پر بہت سے تحقیقی مضامین تحریر کئے جو اپنے وقت کے معروف علمی رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ ایم اے اور پی ایچ ۔ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالات کی نگرانی احسن طریقے سے سرانجام دی اور متعدد مصری اور سعودی طلباء کے مقالات کے مشرف بھی رہے۔
دستور حیاء کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان رقمطراز ہیں:

سورۃ النساء کی نہایت عمدہ سلیس و تفسیر بنیادی طور پر کالج و یونیورسٹی کے طلباء کے لیے لکھی گئی لیکن عام قارئین کے استفادے کے لئے بھی اسے ایک بہترین تفسیر کہا جا سکتا ہے۔ (قرآن و سنت چند مباحث، ص ۹، ۱۰)
ڈاکٹر عبد اللہ رقمطراز ہیں:

دستور حیاء محض تعلیمی اور نصابی ضروریات کو ہی پورا نہیں کرتی بلکہ اس میں ایک متبحر عالم اور مفسر کی شان پوری طرح نظر آتی ہے۔ مطالعہ کی وسعت، مفید حواشی، علم کی گہرائی اور دورِ جدید کے مسائل کا ادراک اس کی اہم خصوصیات ہیں۔(ارمغان حافظ احمد یار، ص ۱۱۰)

پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کے معروف ادارے انجمن خدام القرآن سے وابستہ ہو گئے۔ اس ادارے کے روحِ رواں مرحوم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تھے۔ ڈاکٹر صاحب طب کی ڈگری کے حامل تھے لیکن انہوں نے جسمانی عوارض کے علاج کے بجائے انسان کے روحانی علاج کو ترجیح دی اور قرآن حکیم کو محور و مرکز بنایا۔ انہوں نے ہمہ جہت پہلوؤں سے قابلِ رشک خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجرِ عظیم سے نوازے۔ الحمد للہ اب یہ فریضہ بڑی مستعدی سے ان کا خاندان ادا کر رہا ہے۔ اللھم زد فزد

حافظ صاحب کے لیے خادم قرآن ہونا سب سے بڑا اعزاز تھا۔ انجمن خدام القرآن میں عربی زبان اور قرآن کی تفسیر کی تعلیم کے دوران آپ کو لغات و اعراب القرآن کے نام سے کتاب لکھنے کی تحریک ملی اور آپ نے اس عظیم کام کی ابتداء کی۔ آپ کی یہ کاوش حکمتِ قرآن میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ آپ اس کام کو مکمل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۱۰ تک پہنچے تھے کہ رب جلیل کے حضور حاضر ہونے کا وقت آگیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے اس کام کو ان کے شاگرد رشید جناب لطف الرحمٰن مرحوم اور ڈاکٹر حافظ زبیر نے استاد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچایا لیکن وہ اس کے دو پہلوؤں لغات اور ترکیب تک محدود رہے۔

اللہ رب العزت حافظ صاحب مرحوم و مغفور اور ان کے معاونین کو اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائے اور بہترین اجر سے نوازے۔ امین

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را