قرآنی اَدب و ثقافت کا ایک پہلو

ؒپروفیسر حافظ احمد یار

قرآن کریم بنیادی طور پر کتابِ ہدایت ہے اور اس کا اصل موضوع عقیدہ اور شریعت ہے‘ تاہم ادب و لغت اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی قرآن کریم بے مثل اور بے نظیر کتاب ہے۔ اعجاز القرآن کے ضمن میں قرآن کریم کی تحدی کو زیادہ تر اسی فصاحت و بلاغت کے پہلو سے ہی سمجھا‘ سمجھایا جاتا رہا ہے۔ کم از کم نزولِ قرآن کے معاصرین کے سامنے قرآن کے اس چیلنج کا مفہوم یقینا یہی تھا۔ دوسرے پہلو (جن کا ذکر متاخرین اور ہمارے معاصرین کی تالیفات میں ملتا ہے) تو تاریخ کے عمل اور انسانی علوم کی وسعت کے ساتھ ساتھ نکھرتے چلے گئے ہیں۔

قرآن کریم نے عربوں اور مسلمانوں کے علوم و آداب پر بہت گہرا اثرڈالا۔ قرآن اور حدیث جب اَذہان اور اَفکار میں راسخ ہوئے تو اہل عرب کی قدیم عادات اور رسوم کے ساتھ ساتھ ان کے ادبی ولسانی ذوق کی بھی تہذیب و تطہیر ہوئی۔ قرآنی اسلوب کے تتبع میں اب شعر میں بھی غریب اور نامانوس الفاظ سے اجتناب کیا جانے لگا۔ ہجوتک میں فحش گوئی اور خلاف ِتہذیب عناصر سے پرہیز کیا جانے لگا۔ اس کے برعکس قرآنی الفاظ اور اسالیب و تراکیب اور نئی تعبیریں زبان میں بکثرت استعمال ہونے لگیں۔ خطابات میں اسالیب قرآن اور آیات و احادیث کے اقتباسات سے کام لیاجانے لگا۔ جو خطبہ قرآنی آیات سے خالی ہوتا مسلمان اسے’’شَوْہَاء‘‘(منحوس) کہتے تھے۔ آیات کے اقتباسات اور اسالیب قرآن کے تتبع نے شاعری کے علاوہ انشا پردازی اور نثرنویسی کو بھی ایک نیا رُخ دیا اور ایک نئی رونق بخشی۔قرآن کریم نے جو ذہنی اور سیاسی انقلاب برپا کیا اس کی بدولت زبان کے اَغراض و مقاصد بھی وسیع ہو گئے۔ اب محض چند بدویانہ مضامین کے بجائے عقائد ِدینیہ‘ احکامِ شرعیہ اور امورِ سیاسیہ و اجتماعیہ سب عربی زبان میں ادا ہونے لگے۔

بنواُمیہ کے دور میں دفتری زبان بن جانے کے بعد سے عربی کو مسلمانوں اور بلادِ اسلامیہ کی سرکاری اور علمی زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔سرکار دربار میں کوئی اعلیٰ عہدہ پانے کے لیے یا علمی دنیا میں نام پیدا کرنے اور کوئی ٹھوس علمی کام کرنے کے لیے اب عربی زبان کی مہارت لازمی ہو گئی۔ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کی بنیاد قرآن و سنت پر تھی۔ بچے کی تعلیم کا آغاز قراء ت اور حفظ قرآن سے ہوتا تھا۔ اعلیٰ سطح پر عربی کی اس اجتماعی‘ سیاسی اور علمی اہمیت نے عربی زبان میں مہارت کو وقت کی ضرور ت بنا دیاتھا۔ تفاسیر قرآن میں ادبی اور لغوی رجحان اسی لیے پیدا ہوا کہ اس کے ذریعے ہی ایک مسلمان دینی اور عربی ہردولحاظ سے اہل علم کی صف میں شامل ہونے کے قابل ہو سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ قرآنی آیات کا تتبع اور ان سے استشہاد صرف فقہی مسائل اور مواعظ یا کلامی مباحث تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں اور مجالس میں قرآنی آیات کے اقتباسات یا اسالیب قرآن پر مبنی کلام اور عبارت کے استعمال کو اس بات کا معیار سمجھا جانے لگا کہ کسی آدمی میں آیات کے استحضار اور ان کے برمحل اطلاق کی کس قدر استعداد موجود ہے۔ مطالب اور معانی کے لحاظ سے قرآنی آیات کے مناسب اور موزوں اقتباسات یا مختلف مواقع پر قرآنی اسالیب و مضامین کے استعمال سے نہ صرف تحریر و تقریر میں ایک حسن پیدا ہوجاتا ہے بلکہ قرآن کریم کے اس قسم کے ادبی استعمال سے سامع یا قاری کا ذہن بھی اسلامی سانچے میں ڈھلتا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جو اپنی عبارت اور الفاظ کے اختصار اور مضمون کی جامعیت اور ہمہ گیری کے لحاظ سے ضرب المثل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں اور تحریر و تقریر میں ان کا برمحل استعمال قرآنی ادب اور ثقافت کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔

پھر جب مسلمانوں میں تقویٰ کی کمی کے ساتھ مختلف اجتماعی خرابیاں نمودار ہونے لگیں تو تحریر و تقریر اور نظم و نثر میں قرآنی آیات کے غلط اور بے موقع اقتباس اور بعض دفعہ قرآنی مضامین کے سوئِ فہم پر مبنی غلط شاعرانہ تخیلات بھی سوسائٹی میں نمودار ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ علومِ قرآن اور مباحث ِقرآنی کے ضمن میں اس مسئلہ کو بھی علمائے حق نے موضوع بحث بنایا کہ قرآنی آیات اور مضامین کا اس طرح سے ادبی استعمال جائز بھی ہے یا نہیں۔

زرکشی نے ’البرہان‘ کی پہلی جلد کے آخر پر ایک ’’نوع‘‘(۳۰ویں) کا عنوان یہی رکھا ہے :

’’ھل یجوز فی التصانیف والرسائل والخطب استعمال بعض آیات القرآن وھل یقتبس منہ فی شعر ویغیر نظمہ بتقدیم وتاخیر‘‘

(کیا تصانیف یا خط و کتابت یا تقاریر میں بعض آیات کا استعمال جائز ہے؟ اور کیا اس سے شعر وشاعری میں کوئی اقتباس بعینہٖ یا الفاظ کی قولی تبدیلی کے ساتھ لینا درست ہے؟)

—- اسی طرح سیوطی نے ’الاتقان‘ کی فصل چہارم کا عنوان ’’فی الاقتباس وماجری مجراہ‘‘ (اقتباس اور اسی قسم کے دوسرے امور کے بارے میں )رکھا ہے۔ اور اسی فصل میں خود اقتباس کی تعریف یہی کی ہے کہ ’’قولـہٗ تعالٰی یا قال اللّٰہُ تَعَالٰیکہے بغیر قرآن کی کسی آیت یا اس کے جزء کو نظم و نثر میں برمحل استعمال کیا جائے‘‘ ۔سیوطی ہی نے اس قسم کے اقتباس کے ‘شرعی حکم کے اعتبار سے ‘تین درجے یا قسمیں بیان کی ہیں: مقبول‘ مباح اور مردود۔’’اقتباسِ مردود‘‘ کے ضمن میں مثالیں دیتے ہوئے سیوطی نے ایک تو کسی ایسے زن بر اعصاب سوار یاوہ گو شاعر کے دو ایسے شعر بھی لکھے ہیں کہ جن کا لکھنا پڑھنا بھی نقل کفر ہے — اور ایک مثال کسی حکمران کی لکھی ہے کہ جس نے غضبناک ہو کر اپنے کسی عامل یا مخالف کو دھمکی دیتے ہوئے لکھا تھا:{اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَھُمْ(۲۵) ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (۲۶) (الغاشیۃ)(بے شک ان لوگوں کو پلٹنا ہماری ہی طرف ہے‘ پھر ان کا حساب ہمارے ہی ذمہ ہے۔)قرآن کریم کی کسی ایسی آیت کو جس میں اللہ جل شانہ ‘نے ضمیر متکلم میں کلام کیا ہو ‘ اپنی طرف بطورِ نقل نسبت دینا گناہ ہی نہیں‘ ادبی کورذوقی کی دلیل بھی ہے۔ اسی قسم کے غلط اقتباس کی ایک مثال زرکشی نے اس شعر کی دی ہے :

وَلَوْ اَنَّ مَا بِیْ مِنْ جوًی وصبابۃٍ

علٰی جملٍ لَمْ یَبْقَ فِی النَّارِ خَالِدُ

(اگر اونٹ اس بلائے عشق سے دوچار ہوجائے جس سے مجھے واسطہ پڑا ہے تو کوئی بھی ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے ) خیال رہے شاعر نے شعر کا یہ تخیل آیۂ کریمہ {وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ } (الاعراف:۴۰)کے مضمون سے حاصل کیا ہے۔ (کہ وہ مکذبین و متکبرین جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل نہ ہوجائے۔)یہ شاعرانہ تخیل نرا ملحدانہ نہ سہی تاہم قرآن کے سوئِ فہم پرمبنی ہے کہ شاعر نے وجہ خلود تکذیب و استکبار کی بجائے اونٹ کا عدم نحول (لاغر نہ ہونا) سمجھ لیا ہے۔ اقتباس کے اس قسم کے ممکن غلط استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے ہی غالباً مالکیہ سے (بقول سیوطی) قرآنی اقتباسات کے کلام انسانی میں استعما ل کی مطلق تحریم منقول ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک انتہاء ہے ‘کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کریں گے‘ اقتباس حسن کی مثالیں خود آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے کلام میں ثابت ہیں۔ تاہم ہم نے اپنی بات کے شروع ہی میں اس ملحدانہ یا فاسقانہ سخن فہمی اور سخن آفرینی کی مثالوں کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ قرآنی آیات کے برمحل اور برجستہ صحیح ادبی استعمال کے لیے تین شرائط کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے:

(۱) قرآنی آیات کا استحضار۔ (۲)عربی زبان کی مہارت ———- اور اسی لیے زرکشی نے لکھا کہ  ’’جوّز ذٰلک بعضھم للمُتمکّن من العربیۃ‘‘(یعنی بعض نے اسے صرف ماہر عربی کے لیے جائز قرار دیا ہے)۔ (۳) اور سب سے اہم — صحیح دینی ذہن۔ ان شرائط کے ساتھ قرآنی آیات کا اقتباس یا اسالیب قرآن کا صوری یا معنوی تتبع نہ صرف جائز اور مقبول ہے بلکہ بعض دفعہ یہ تزیین کلام کے لحاظ سے حسن اور تاثیر معنی کے لحاظ سے قوت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے آنحضرتﷺ سے اور کلام صحابہؓ سے ثابت اقتباساتِ قرآنیہ کی مثالوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔

(۱) آنحضرتﷺ کا ’’وَجَّھْتُ وَجْھِیَ‘‘ پڑھنا نماز سے پہلے ثابت ہے جبکہ اصل آیت قرآنی  {اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ} (الانعام:۷۹) ہے۔ (۲) آپﷺ کی دعا بالفاظ  ’’اَللّٰھُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً‘‘ بھی ثابت ہے جبکہ آیت قرآنی ’’رَبَّنَا اٰتِنَا‘‘ (البقرۃ:۲۰۱) سے شروع ہوتی ہے۔ (۳) آپﷺ نے ہرقل قیصر روم والے مکتوب میں ’’سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی‘‘ لکھوایا‘ جبکہ اصل آیت میں ’’والسَّلام‘‘ (طٰہ:۴۷)ہے۔ اور اسی مکتوب میں آپﷺ نے آیۂ کریمہ {یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ} بھی (آل عمران:۶۴ سے) (بظاہر) بطور قصد ِکلام (نہ کہ بقصد ِتلاوت) استعمال کی تھی۔ (۴) آنحضرتﷺ کی ایک دعا یوں بھی ثابت ہے : ’’اَللّٰھُمَ فَالِقَ الْاِصْبَاحِ جَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا … أَقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ — اس دعا کا ابتدائی حصہ سورۃ الانعام کی آیت ۹۶ سے بتغیر الفاظ ماخوذ ہے۔

(۵) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بسیاق کلام (بغیر قصد تلاوت)  {وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۵} (الشعراء) (اور ان ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ان کو کیسی جگہ لوٹ کر جاناہے!) (۶) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے غالباً بیعت ابی بکر کے وقت کہا تھا: ’’اِنِّیْ مُبَایِعٌ صَاحِبَکُمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا‘‘۔ اس کلام کا آخری حصہ (سورۃ الانفال:۴۴ سے) بغیر قصد تلاوت ہی استعمال کیا گیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ (بطور کلام)  ’’قَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ‘‘ کہا تھا جو سورۃ الاحزاب:۲۱ سے بتغیر الفاظ ماخوذ ہے۔ اس قسم کی مثالوں سے ہی اہل علم نے قرآنی آیات کے اقتباس میں قصد کی شرط رکھی ہے۔ یعنی آدمی اسے تلاوت نہ سمجھے (قصد تلاوت کے لیے قولہ تعالٰی یا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ یاجیسے قرآن کریم میں ہے … وغیرہ کہنا ضروری ہو گا ۔)اس لیے امام نووی ؒنے آداب حملۃ القرآن میں یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر جنبی یا حائض بغیر قصد تلاوت کسی سے کہے  ’’خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ‘‘(مریم:۱۲) تو یہ درست ہو گا جب مراد کوئی اور کتاب لے رہا ہو — یا ایسا ہی آدمی کسی سواری پر سوار ہوتے وقت آیۂ کریمہ {سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ۱۳} (الز خرف) کو بغیر قصدتلاوت محض ادائے مضمون (کہ پاک ہے جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کر دیا ورنہ ہم تو ایسے نہ تھے کہ اسے قابو میں کر لیتے) کے لیے پڑھے تو یہ جائز ہو گا۔ خیال رہے ان دو عذرِ شرعی کے بغیر آدمی ایسے موقع پر یہی آیت بقصد ِتلاوت پڑھ سکتا ہے۔

اس موضوع پر اپنے مختصر سے مطالعہ اور غور و فکر کے بعد راقم الحروف اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ تحریر اور تقریر میں قرآنی آیات کے اقتباس اور قرآنی اسالیب کے صوری یا معنوی تتبع کی جائز اور مستحسن صورتوں کو پانچ عنوانات کے تحت بیان کیا جا ۔سکتا ہے:۔

(۱) ضرب المثل یا ’حکم و امثال‘ کے طور پر برجستہ و برمحل اطلاق کے ساتھ قرآنی آیات کا اقتباس۔

(۲) جامع اسلامی تعلیمات پر مشتمل مختصر آیات یا ان کے حصے۔

(۳) عام روز مرہ کی گفتگو میں قرآنی آیات کا استعمال (بغیر قصد ِتلاوت)۔

(۴) نکتہ آفرینی اور حاضر جوابی میں قرآنی آیات کا استعمال یا نظم و نثر میں اس کا اقتباس۔

(۵) اشعار اور عربی عبارات میں آیات کا اقتباس یا اسلوبِ قرآنی کا صوری و معنوی تتبع۔

اب ہم ہر ایک موضوع سے متعلق صرف چند آیات اور کچھ واقعات اور عبارات بطور مثال اور برائے توضیح پیش کرتے ہیں۔

روز مرہ کی گفتگو میں قابل استعمال قرآنی فقرے

(بشرطِ عدم قصد تلاوت محض تمرین عربیت کے لیے!)

کتابوں میں ایک خاتون کا قصہ عموماً مذکور ہے جو اپنے اظہار مافی الضمیر کے لیے مختلف قرآنی آیات کا ہی استعمال کرتی تھی اور غیر قرآن عبارت بولنے سے ہی اجتناب کرتی تھی۔ یہ اس خاتون کے استحضار آیات کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ تاہم بعض دفعہ سامع کو آیت سن کر بھی اصل مطلب تک پہنچنے کے لیے کچھ دماغی ورزش کرنا پڑتی تھی۔ قرآن کریم میں متعدد تقریریں ‘سوال و جواب‘ مکالمے اور قصے بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو عام روز مرہ کی گفتگو میں حسب موقع استعمال کیا جا سکتا ہے ‘لیکن ضروری ہے کہ اس میں عدم قصد تلاوت اور محض مشق عربیت ملحوظ رہے۔٭ اس قسم کی چند آیات درج ذیل ہیں ۔ویسے مواقع کے لحاظ سے اس قسم کی آیات کی تعداد غالباً سینکڑوں تک پہنچ سکتی ہے ‘خصوصاً جبکہ ضرب المثل اور جامع تعلیمات پر مشتمل آیات کو بھی بیشتر اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی ہم ترجمہ اور موقع استعمال کی بحث کو بخوفِ طوالت نظر انداز کرتے ہوئے صرف حوالہ آیات دینے پر اکتفا کرتے ہیں:

(۱) {قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا۷۶} (الکہف)
(۲) {فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ} (قٓ:۳۹)
(۳) {لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا} (الدھر۹)
(۴) {مَا لَكُمْ ۪ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ }۳۶(القلم)

(۵) {اَلَـیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ } (ھود۷۸)
(۶) {اِنْ اُرِیْدُ اِلاَّ الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ} (ھود:۸۸)
(۷) {وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ} (یوسف:۵۳)
(۸) {اَیْنَ الْمَفَرُّ} (القیٰمۃ۱۰)
(۹) {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنَ } (فاطر:۳۴)
(۱۰) {تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی} (النجم۲۲)

(۱۱) {ھٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَکُمْ ج} (ص:۵۹)
(۱۲) {اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ } (الشوریٰ)۴۳
(۱۳) {لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ} (الصّٰفّٰت)
(۱۴) {فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ط ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی} (النجم۳۲)
(۱۵) {ھَاْتُوْا بُرْھَانَـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ} (النمل۶۴)
(۱۶) {مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَـیْسَ لِیْق بِحَقٍّ ط} (المائدۃ:۱۱۶)

نکتہ آفرینی اور حاضر جوابی کے لیے قرآنی آیات کا استعمال

یہ بہت نازک مقام ہے اور اس کے لیے غیر معمولی استحضار آیات کے علاوہ دینی ذہن اور ایک معیارِ ذوق بھی درکار ہے ۔ذیل میں اس قسم کی چندمثالوں کا ذکر کیا جاتا ہے:۔

(۱) عباسی خلیفہ عبداللہ المامون(جسے غلطی سے عام لوگ مامون الرشید لکھ دیتے ہیں) کی شب زفاف کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے باعث بہت سے واقعہ نگاروں کے لیے ادبی حاشیہ آرائی کا سبب بنا ہے۔ نوجوان خلیفہ نے جب بے صبری کا مظاہرہ کیا تو دلہن نے برمحل کہا : امیرَ المومنین!  اَتٰی اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ (النحل:۱) (یہاں بھی ترجمہ اور اس کی ادبی لطافت کے بیان کی بجائے صرف حوالہ آیت کافی ہے) (۲) کسی اچھی شکل صورت کی ایک عورت کو جاتے دیکھ کر کسی دل پھینک قسم کے آدمی نے آیت قرآنی {وَزَیَّـنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ} (الحجر) پڑھ کر گویا ایک طرح سے فقرہ کسا — مگر وہ عورت بھی بلا کی حاضر جواب تھی۔ اُس نے فوراً اس سے اگلی آیت {وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْم۱۷} (الحجر) پڑھ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر نوجوان کو شرمندہ کر دیا — دونوں کی نکتہ آفرینی کا لطف اٹھانے کے لیے حوالہ آیت کی مدد سے ترجمہ پر نظر ڈال لیجیے اور عورت کے استحضار کی داد دیجیے۔

(۳) کبھی کبھی اس مقصد (نکتہ آفرینی) کے لیے آیت نہیں بلکہ کسی آیت کے مضمون پر مبنی مضمون کی طرف اشارہ کر دیاجاتا ہے۔ مثلاً کسی عباسی گورنر نے اپنے ایک صاحب شرطہ (پولیس کے بڑے افسر) کو مزاحاً کہا : اَیْنَ تَذْھَبُ یَا ھَامَان؟ (ہامان صاحب کہاں جا رہے ہو؟) تو اس نے جواب میں فوراً کہا : لِاَبْنِیْ لَکَ صَرْحًا (تمہارے لیے ایک بلند عمارت بنانے جا رہا ہوں) (اس میں صاحب شرطہ گورنر کو ہامان یا متکبر مشیر کہہ کر طنز کرنے کے جواب میں فرعون کہہ گیا مگر ڈھب سے —- پوری بات/ لطیفہ‘ سورۃ القصص:۳۸ اور سورۃ المؤمن:۳۶ کے مضمون پر مبنی ہے۔)

(۴) کسی طویل القامت مجرم کو کوڑوں کی سزا ملی۔ کوڑے مارنے والا آدمی پست قد کا تھا‘ اس نے مجرم سے کہا : ذرا نیچے ہو! (تاکہ کوڑا ٹھیک پڑ سکے) وہ سزا یافتہ آدمی کہنے لگا :
ویلک الی اکل الفالوذج تدعونی؟ واللہ لوددتُ أن تکون أنت أقصر من یاجوج وماجوج وأنا أطول من عوج
۔ (کم بخت توکون سا مجھے حلوہ کھانے کو کہہ رہا ہے‘ جو نیچے جھکوں؟ بخدا میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تویاجوج ماجوج سے بھی ٹھگنا ہو جائے اور میں عوج سے بھی زیادہ لمبا ہو جائوں!) خیال رہے ا س میں یاجوج ماجوج اور عوج بن عنق کے قد و قامت کے بارے میںغیر مستند مگر عوامی روایات کے مضمون کواساسِ جواب بنایا گیا ہے۔ فافھموا!

اشعار اور عبارات میں اس قسم کا استعمال آیات

اس کی مثالیں عربی کے علاوہ فارسی‘ اردو بلکہ پنجابی تک کی شاعری میں بھی متعدد جگہ مل سکتی ہیں۔ مثلاً:۔

۱۔ وحبیب کلما خاطبتُہُ قال سلامٌ

فاذا ما قلتُ زرنی قال لی ذاک حرامٌ

(اور ایسا دوست کہ جب اسے مخاطب کروں تو کہتا ہے سلام‘ اور جب اسے کہتا ہوں مجھ سے ملاقات کرو تو کہتا ہے یہ حرام ہے۔) اس شعر میں سورۃ الفرقان : ۶۳ کے مضمون کی طرف لطیف اشارہ ہے۔

۲۔ أما والذی أبکی وأضحک والذی

أمات وأحیا والذی أمرہ الأمر

(ہاں وہ ذات پاک جو رلاتا ہے اور ہنساتا ہے اور جو مارتا ہے اور جلاتا ہے ‘اور جس کا حکم ہی دراصل حکم ہے۔)

اس شعر کا مضمون سورۃ النجم:۴۳‘۴۴ سے ماخوذہے‘ بلکہ الفاظ بھی وہیں سے لیے گئے ہیں‘ صرف مصرع اول میں ضرورت شعری سے کچھ تقدیم و تاخیر کی ہے۔ فارسی زبان میں اس کی ایک مشہور مثال ہی پیش کرنا کافی ہے۔ یہ مثنوی کا شعر ہے :

ھرچہ داری خرچ کن در راہِ او

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا

اردو میں ظفر علی خان کا صرف ایک شعر لکھا جاتا ہے :۔

ہے ازبر کُلُوْا بھی تجھے وَاشْرَبُوْا بھی
کبھی یاد آیا مگر جَاھِدُوْا بھی!۔

نثری عبارتوں میں قرآنی آیات کے موزوں اقتباس اور استعمال کی مثالیں مختلف کتابوں کے دیباچوں میں بکثرت مل جاتی ہیں۔ تاہم اس کی صحیح صورت وہ ہے جہاں وعظ یا اپیل کا مضمون ہو اور وہاں زور اور تاثیر پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات کو برمحل استعمال کیا جائے۔ بعض اہل علم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ کچھ خاص اور زیادہ ہی ودیعت کیا ہوتا ہے۔ ازاں جملہ سید جما ل الدین افغانیؒ تھے۔ ان کی تحریروں خصوصاً العُروۃ الوُثقٰی کے ادارتی مقالوں — ایڈیٹوریل — میں اس کی افادیت کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ذیل میں العُروۃ الوُثقٰی سے ہی ایک دو اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں بھی ہم ترجمہ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں اصل حسن عربی عبارت میں قرآنی عبارت کے امتزاج سے پیدا کیا گیاہے اور ترجمہ میں وہ حسن و خوبی کسی طرح بھی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے مبتدی حضرات سے معذرت کے ساتھ صرف اصل عربی عبارت کے اقتباس پیش کرتے ہیں۔ البتہ اہل ذوق شائقین کے لیے العُروۃ الـوُثقٰی کے مجموعہ مقالات کے متعلقہ صفحوں کا حوالہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہ حوالے ’’العُروۃ الوُثقی‘‘ کے مکتبہ اہلیہ بیروت والے ایڈیشن (۱۹۳۳ء) کے مطابق ہیں۔

(۱) مسلمانوں کے حکمرانوں کو غیروں سے امید ہائے غم گساری رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے ازراہِ خیر خواہی کہتے ہیں۔:۔

’’ایھا الامراء العظام مالکم وللأجانب عنکم {ھٰٓأَنْتُمْ اُولَآئِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَکُمْ} قد علمتم شأنھم ولم تبق ریبۃ فی أمرھم

{اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْز وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا}

سارعو الی أبناء أوطانکم واخوان دینکم وملّتکم وأقبلوا علیھم ببعض ما تقبلون بہ علی غیرھم تجدو فیھم خیر عون وأفضل نصیر (آل عمران:۱۱۹‘۱۲۰ کا اقتباس دیکھئے)

(۲) اہل ایمان کو ابتلاء و آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ان امتحان اللہ للمؤمنین سُنَّۃ من سننہ یمیز بھا الصادقین من المنافقین قرنا بعد قرن اِلی ان تَنْقَضی الدنیا فی کل قرن یدعو اللہ المؤمنین اِلٰی قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَاِنْ یُّطِیْعُوْا یُؤْتِھُمُ اللّٰہُ اَجْرًا حَسَنًا، وَاِنْ یَّـتَوَلَّوْا یُعَذِّبْھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا (عبارت اور مضمون کے لیے سورۃ الفتح :۱۶ دیکھئے) فمیزان عدل اللّٰہ منصوب الی یوم القیامۃ وھنالک الجزاء الاوفٰی (ماخوذ از النجم:۴۱) فلا یحسبنّ الواسمون انفسھم بسمۃ الایمان القانعون منہ برسم یلوح فی مخیلاتھم‘ ان عدل اللّٰہ یترکھم وما یظنون، کلا انھم فی کل عام یفتنون (ماخوذ از التوبۃ:۱۲۶) ص ۲۲۷ (۳) علمائے امت کو ان کے فرائض سے آگاہ کرتے ہوئے صفحہ ۳۷۔۲۳۶ پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی ان کی قرآنی آیات کے اقتباسات پر قدرت کی ایک عمدہ مثال ہے۔

تاہم یہ سب کچھ عربی کے علم‘ مہارت اور ذوق کی باتیں ہیں۔ اب تو ہم مسلمانوں کا رجحان دینی سے زیادہ مادی اور ذوق عربی سے زیادہ انگریزی ہوگیا ہے ‘بقول اکبر الٰہ آبادی ؎

مسلمانوں کا وہ آئین طبع مستقل بدلا
چھٹی عربی‘ گیا قرآں! زباں بدلی تو دل بدلا!۔

(سہ ماہی حکمت قرآن‘ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۸ء)
(بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ۔ مرکزی انجمن خدام القرآن)