کتابت مصاحف اور علم الرسم حصہ اول

پروفیسر حافظ احمد یارؒ

(۱) “الجمع الصوتی الاول للقرآن:” کے مؤلف ڈاکٹر لبیب السعید نے اپنی کتاب کی تمہید میں علامہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن کے دیباچہ سے یہ عبارت (بصورت ترجمہ) نقل کی ہے

’’لیس فی الدنیا کتاب وضعت فی خدمتہ مثل ہذہ الکثرۃ من المواھب التی وضعت فی خدمۃ القرآن – ولا مثل ھذہ الوفرۃ من العمل والوقت والمال‘‘ (۱) اصل انگریزی عبارت یوں ہے:

“There is no book in the world in whose service so much talent, so much labour ،so much time and money have been expended as has been the case with the Quran.’’(2)

خدمت قرآن کے بیسیوں میدان اور مطالعۂ قرآن کے سینکڑوں عنوان ہیں۔ اور قرآن کریم سے متعلق یہ “علمی میدان” اور “علمی عنوان” متعدد تحریکات اور سینکڑوں – تالیفات کو وجود میں لائے ہیں۔ ان  میں سے ایک اہم اور بنیادی میدان ہے،النص القرآنی (کلمات قرآن) کی  مصحف میں (۳)) کتابت – اور اسی (کتابت مصحف) کے قواعد و ضوابط کے بیان کا علمی عنوان ہے۔ ۔ “علم الرسم” – اور اس علم کا مختصر سا تعارف ہی اس مقالہ کا مضوع ہے۔

(۲) عربی زبان میں “لکھائی” کے لیے متعدد (قریباً) ہم معنی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً الکتابۃ، الخط، الزبر، السطر، الرقم، الرشم (بالشین)، الرسم  اور الھجاء وغیرہ (۴)۔ ان میں سے قرآن کریم کی کتابت کے ضمن میں لفظ “خط” سے عموماً خطاطی اور خوشنویسی کا بیان اور اس کی تاریخ مراد لی جاتی ہے۔ اور یہ خطاط اور مؤرخ خط کا میدان ہے۔ اور “الھجاء” اور “الرسم” (اور اس کے مشتقات) اور ان پر مبنی بعض تراکیب، املاء قرآن (۵) کے اصول وقواعد کے معنوں میں ایک علم اور فن کا اصطلاحی نام بن چکے ہیں۔

گزشتہ چودہ صدیوں میں اس علم کے نام کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً ابتداء میں تو کتابت یا خط کے لفظ ہی سامنے آئے (۶) پھر آگے چل کر مختلف اسباب وعوامل کی بنا پر اس کے لیے “ھجاء” کا استعمال شروع ہوا۔ مثلاً “ھجاء المصاحف” ، “ھجاء مصاحف الامصار” ، “ھجاء التنزیل” وغیرہ۔ لفظ “الھجاء” کے لفظی معنی ہیں: حرفوں (کےناموں) کی ابتدائی آوازوں سے لفظ بنانا۔ مثلاً بکر کا ھجاء “ب ک ر” ہے۔ اس طرح ھجاء المصاحف کا مطلب ہوا: قرآن کے لفظوں کو لکھنے کے لیے ان کے حرفوں کو ترتیب وار گن کر باہم جوڑنے کا طریقہ یا اس کے قواعد۔ قریباً پانچویں صدی ہجری سے لفظ “الرسم” اور “مرسوم” کا استعمال شروع ہوا مثلاً “رسم المصحف” ، “رسم مصاحف الامصار”، “مرسوم المصاحف” ، “رسم القرآن” ، “مرسوم خط التنزیل” وغیرہ۔ ابن خلدون (ت۸۰۸ھ) نے اسے فن الرسم اور الرسم المصحفی لکھا ہے (۷)۔ قلقشندی نے اسے المصطلح الرسمی اور الاصطلاح السلفی کہا ہے(۸)۔ گیارھویں بارھویں صدی ہجری سے “رسم” کے ساتھ (ترکیب میں) حضرت عثمانؓ یا ان کی طرف منسوب مصاحف کا نام زیادہ استعمال ہونے لگا مثلاً  “رسم المصاحف العثمانیہ” ، “رسوم مصاحف عثمان” ، “رسم المصحف الامام” اور “الرسم العثمانی” وغیرہ۔ آج کل اس کے لیے جامع اصطلاح “علم الرسم” یا صرف “الرسم” اختیار کی جاتی ہے۔ اس لفظ کے علی الاطلاق استعمال کی صورت میں یعنی کسی توصیفی یا اضافی ترکیب کے بغیر – بھی اس سے مراد “رسم المصحف” ہی ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے “رسم قرآن” ، “قرآنی رسم الخط” یا “رسم عثمانی”(۹) کےالفاظ اور فارسی میں “املاء قرآن” اور بعض دفعہ “رسم مصحف” کی اصطلاح کا رواج ہے۔

الرسم کے لفظی معنی ہیں اثر یا نشان – اور اس کی جمع رسوم (آثار – نشانات) آتی ہے۔ غالباً قرآن کریم کی کتابت کے آداب و قواعد کے لیے اس لفظ کے مختص ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں عہد نبوی اور عہد راشدین کی کتابت اور طریق املاء کو ایک یادگار کے طور پر محفوظ کر لینے کا تصور شامل ہو گیا ہے۔ اسی تاریخی پہلو کی طرف اشارہ کے لیے “علم الرسم” کی تعریف ہی “الخط المرسوم فی المصاحف العثمانیہ” سے کی جاتی ہے (۱۰) اوراسے رسم عثمانی کہنے کی بنیاد بھی تاریخی ہے۔  چونکہ املاء قرآن بعض باتوں میں عام عربی املاء سے مختلف ہے اس لیے دونوں کا فرق واضح کرنے کے لیے بعض دفعہ عام املاء کے لیے بھی “رسم” کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے مگر ترکیب کے ساتھ مثلاً [الرسم القرآنی یا الرسم الاصطلاحی کے مقابلے پر] الرسم الاملائی ، الرسم القیاسی
یا الرسم المعتاد کہہ لیتے ہیں(۱۱)۔ اوران دونوں کے باہمی فرق اور اختلاف کی وجہ سے علم الرسم کی منطقی حد (تعریف) یوں بیان کی جاتی ہے “ھو علم تعرف بہ مخالفات خط المصاحف العثمانیۃ لاصول الرسم القیاسی” (۱۲) (۱۲) [علم الرسم وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف عثمانیہ کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اور اختلافات کا پتہ چلتا ہے]۔

(۳) علم الرسم کی مندرجہ بالا تعریف اور تعارف سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق حضرت عثمانؓ اور ان کے مصاحف سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ علم الرسم کی تمام کتابوں میں سب سے پہلے جمع و تدوین قرآن کے تین معروف مراحل یعنی عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں اس عمل کے دواعی اور اس کی کیفیت سے بحث کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے اس عثمانی ایڈیشن یعنی مصاحف عثمانیہ کی تیاری ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں اس کی تفصیلات میں جانا باعث طوالت ہو گا نیز اس وقت ہمارا اصل مرکزی موضوع بھی یہ نہیں ہے۔ تاہم چونکہ “علم الرسم” کی بنیاد یہی مصاحف عثمانیہ بنے، اس لیے اصل موضوع (الرسم) کی مناسبت سے ان مصاحف کے بارے میں چند امور قابل ذکر ہیں۔

۱) حضرت عثمانؓ کا زمانہ خلافت محرم۲۴ھ تا ذی الحجہ ۳۵ھ یعنی بارہ سال ہے۔ اس دوران حضرت عثمانؓ کا یہ مصاحف کی تیاری والا کام کب شروع ہوا؟ اور کب اختتام کو پہنچا؟ اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ تاریخی بحث کی تفصیل میں گئے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام ۲۵ھ تا ۳۰ ھ کی درمیانی مدت میں ہی مکمل ہو گیا تھا(۱۳)۔ گویا یہ کام آنحضرت ﷺ کی وفات سے ۱۵ تا ۲۰ سال کے اندر اندر۔ اور غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول سے پچاس سال سے بھی کم عرصے میں (۱۴) سرانجام دیا جا چکا تھا۔

۲) ان مصاحف کی کتابت میں سب سے اہم کردار حضرت زید بن ثابت کا تھا۔ انہوں نے عہد نبوی میں بھی کتابتِ وحی کا کام کیا تھا۔ عہد صدیقی می ں قرآن کریم کی صحف [چھوٹے چھوٹے اجزاء – جن میں سے ہر ایک جزء کم از کم ایک سورت پر مشتمل تھا(۱۵)] میں مکمل کتابت میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔ اس ۱۵-۲۰ سال کے عرصے میں عربی املاء کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔[یہ تغیرات پہلی صدی ہجری کے اواخر میں سامنے آتے ہیں]۔ اور اہم کاتب بھی ایک ہی آدمی رہا۔ اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت زیدؓ بن ثابت یا ان کے ساتھ کام کرنے والے کمیٹی کے دوسرے ارکان نے مصاحفِ عثمانیہ کی کتابت اسی طریق املاء کے مطابق کی جو اس وقت حجاز خصوصاً مدینہ منورہ میں رائج تھا۔ اور یہ طریق املاء یقیناً عہد نبوی میں رائج خط اور املاء سے مختلف نہیں تھا۔

۳) مصاحفِ عثمانیہ نقط اور اعجام سے معرّی تھے۔اس لیے ہر نسخہ کے ساتھ پڑھانے والا ایک مستند قاری بھی بھیجا گیا تھا۔ عہد نبوی سے ہی تعلیم قرآن کی بنیاد محض تحریر پر نہیں بلکہ تلقی اور سماع پر رکھی گئی تھی۔ لوگوں نے اپنی روزانہ تلاوت کے لیے اپنے علاقے کے صدر مقام پر بھیجے گئے مصاحفِ عثمانیہ سے اپنے لیے مصاحف تیار کرنا اور کراناشروع کر دیئے۔ اب ہر نیا مصحف مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک – یا ان سے ہو بہو نقل کردہ کسی ایک نسخہ (مصحف) – کی صحیح نقل ہوتا تھا۔ قرآن کریم کی درست قراء ت استاد کی شفوی تعلیم پر – اور قرآن کی درست کتابت مستند اصل سے ہو بہو نقل پر- منحصر تھی۔ مصاحفِ عثمانیہ کی اس ہو بہو نقل کو ہی مصاحفِ عثمانیہ کے رسم (طریق املاء) کا التزام کہا جاتا ہے۔

۴) حضرت عثمانؓ نے کتنے مصاحف تیار کرائے تھے اور وہ کس کس شہر میں بھیجے گئے؟ روایات میں ان کی تعداد چار سے آٹھ تک بیان کی گئی ہے (۱۶) دو نسخے (مصحف)تو مدینہ منورہ میں رہے ایک پبلک کے لیے مسجد نبوی میں رکھا گیا اور ایک حضرت عثمانؓ کی ذاتی نگرانی میں رہا، جسے المصحف الامام بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مکہ مکرمہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق میں ایک ایک مصحف (مع قاری) بھیجا جانا ثابت ہے [چار مصاحف والی روایت میں غالباً صرف ان مصاحف کی بات کی گئی ہے جو مدینہ منورہ سے باہر بھیجے گئے تھے۔]۔کہتے ہیں کہ ایک ایک نسخہ یمن اور بحرین کے لیے بھی بھیجا گیا تھا، بلکہ بعض نے بحرین کی بجائے مصر یں ایک نسخے کے بھیجے جانے کا ذکر بھی کیا ہے(۱۷)۔تاہم جن مصاحفِ عثمانیہ سے نقل ہو کر مزید مصاحف تیار ہوئے اور جن کے رسم کا گہری نظر سے لفظ بہ لفظ بلکہ حرف بحرف تنقیدی اور تقابلی مطالعہ کر کے “علم الرسم” کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں صرف پانچ مقامات کے مصاحف عثمانیہ [یا ان سے تیار ہونے والے مصاحف] کا ذکر کتب رسم میں کیا جاتا ہے۔ یعنی مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق کے مصاحف (۱۸)۔

۵) جغرافیائی اعتبار سے اسلامی مملکت کے مختلف حصوں کے لیے ان ارسال کردہ مصاحفِ عثمانیہ کی مرکزی حیثیت کچھ اس طرح مقرر کر دی گئی یا عملاً ہو گئی کہ مکہ اور مدینہ کے مصاحف تمام جزیرہ نمائے عرب کے لیے- بصرہ اور کوفہ کے مصاحف تمام مشرقی علاقوں کے لیے اور دمشق کا مصحف شام کے علاوہ تمام مغربی (افریقی) علاقوں کے لیے – نئے مصاحف کی تیاری کے لیے اصل کا کام دینے لگے – ان مصاحف – اور ان کی نقول کو مکی، مدنی، کوفی، بصری اور شامی کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
۶) آگے چل کر علماء رسم نے مختلف مصاحف کے ذکر کے لیے کچھ اصطلاحات مقرر کر لیں مثلاً مدینہ منورہ کے دونوں نسخوں (خاص اور پبلک والے) کا ذکر کرنا ہوتا تو “مدنیین” کہتے اور “مدنیین” اور مکی (یعنی تینوں کا) ذکر کرنا ہوتا تو “الحجازیہ” یا “الحرمیۃ” کہتے اور کوفی اور بصری (دونوں)کے لیے مجموعی طور پر “العراقیین” کی اصطلاح استعمال کرتے- تاہم یہ اصطلاحات اس وقت استعمال کرتے جب اصل مصاحفِ عثمانیہ مراد ہوتے اور اگر ان سے تیار ہونے والی نقول مراد ہوتیں تو صرف مصاحفِ عراقی، مصاحفِ اھل الشام وغیرہ کہہ کر ذکر کیا جاتا (۱۹)- کتب الرسم میں ان اصطلاحات کا استعمال عام ہے۔

(۴) ان مراکز خمسہ میں سے ہر ایک مرکزی شہر میں وہاں قیام پذیر صحابہؓ کے ہاتھوں قراء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو قراء ت کے ساتھ رسم الکلمات (کا طریقہ) بھی بیان کرتے تھے یعنی ادھر بھی توجہ دلاتے تھے – نقط و اعجام سے معرّی مصحف سے قراء ت روایت کی بنا پر اور استاد سے بالمشافہ ہی سیکھی جا سکتی تھی۔ تاہم اس مروی قراء ت کے مطابق اپنا (ذاتی) مصحف تیار کرنے کے لیے مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک سے یا اس سے نقل شدہ کسی مصحف سے نقل مطابق اصل کئے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ کیونکہ باجماع صحابہؓ یہی مصاحف صحت کا معیار قرار پائے تھے۔ اس طرح شروع سے ہی قراءت اور رسم ساتھ ساتھ چلے۔

اور یہ “نقل مطابق اصل” کا کام اس لیے بھی ضروری تھا یا یوں کہئے کہ “نقل صحیح” کے اس عمل سے یہ بات بھی سامنے آنے لگی تھی کہ مصاحفِ عثمانیہ میں ایسے کلمات بھی ہیں، جن کی کتابت میں کوئی یکساں اصول اختیار نہیں کیا گیا تھا مثلاً لفظ “کتاب” کہیں الف کے ساتھ اور کہیں بحذف الف (کتب) لکھا گیا تھا۔ یا مثلاً لفظ “نعمۃ” یا “رحمۃ” عموماًتو تائے مربوطہ (ۃ)کے ساتھ ہی لکھے گئے مگر بعض مقامات پر تائے مبسوط (ت)کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ اور ایک ہی مصحف کے اندر اس قسم کے تفاوت اور اختلاف کی متعدد صورتیں موجود تھیں۔ آگے چل کر ایسے تمام مقامات کا حصر اور کتابت مصاحف میں اس فرق کو برقرار رکھنا علم الرسم کا ایک اہم مسئلہ بن گیا۔

(۵) جیسا کہ ابھی بیان ہوا صحابہؓ نے مصاحف کی کتابت اپنے زمانے کے رائج “طریق املاء” یا رسم کے مطابق ہی کی تھی۔ اس زمانے میں یہی طریق املاء عام کتابت کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا اور یہ طریقہ تابعین (بلکہ تبع تابعین) کے دَور تک جاری رہا (۲۰)۔کہ قرآنی املاء اور عام عربی املاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ایک لفظ جس طرح قرآن میں لکھا جاتا تھا۔ شعر و ادب میں یا کسی سرکاری یا ذاتی مراسلات وغیرہ میں بھی اسی املاء کے ساتھ لکھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی قرآنی املاء (یا رسم) کے بعض طریقے عام عربی املاء میں اس طرح رچ بس گئے کہ اس کی بعض یادگاریں عام عربی املاء میں اب تک محفوظ ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر ابھی آگے چل کر آئے گا۔

(۶) جب کوفہ اور بصرہ کی چھاؤنیاں علمی مرکز کے طور پر اُبھریں اور یہاں عربی زبان و لغت اور شعر و ادب کے ساتھ ساتھ صَرف اور نحو کے علوم کی ایجاد اور تدوین ہوئی- اور علمی، سرکاری اور روزمرہ کی سطح پر عربی زبان میں کتابت کی بھی بکثرت ضرورت پڑنے لگی، تو علماء وقت نے عربی املاء کو صرفی اور نحوی اصولوں کی روشنی میں یکساں اور کلی قواعدکے ماتحت کرنا ضروری سمجھا۔ اور اس کے لیے بنیادی طور پر املاء کلمات میں ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی لفظ کو اس کے نطق یا تلفظ کے
یعنی لفظ کو اس کے نطق یا تلفظ کے مطابق لکھنے کا اصول اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی مثلاً یہ کہ:

ا الف لینہ متوسطہ کو ہمیشہ بصورت الف ہی لکھنا چاہیے (۲۱) اس لیے جو واؤ صرفی تعلیل کی بناپر الف میں بدل جائے (بلحاظ تلفظ) اسے لفظ میں بصورت الف ہی لکھنا چاہیے اس قاعدے کے تحت ’’صلوٰۃ‘‘ کو صلاۃ اور ’’نجوۃ‘‘ نجاۃ  لکھنابہتر سمجھا گیا۔ ب۔ اسی طرح واؤ جمع کے بعد زائد الف لکھنا تو تسلیم کر لیا گیا (مثلاً ضربوا اور قالوا ہیں) مگر کسی ناقص واوی کے صیغہ مضارع واحد غائب (مثلاً
یدعو، یمحو ) میں واؤ کے بعد الف لکھنا غلط قرار دیا گیا (۲۲)۔

ج۔ اسی (الف لینہ متوسطہ) والےقاعدے کے تحت جمع مؤنث سالم کی آخری ’’ت‘‘ سے پہلے الف لکھنا بھی ضروری سمجھا گیا (مسلمات، حسنات میں)۔

د۔ اسی طرح صیغہ جمع مؤنث غائب کے ساتھ التباس سے بچنے کے لیے ماضی جمع متکلم میں بھی آخر پر الف کا لکھنا ضروری قرار پایا۔ اس قاعدے کی بنا پر ہی ’’انزلنہ‘‘ کو انزلناہ کی شکل میں لکھنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم میں پہلی شکل استعمال کی گئی تھی۔ اس طرح صرفی اور نحوی قواعد کی روشنی میں ھجاء اور املاء کے قیاسی قواعد کے ارتقاء کا ایک دَور شروع ہوا اور اس کے اصول وقواعد میں تغیر وتبدل اور اصلاح وترمیم کا عمل جاری رہا(۲۳)[اور کسی حد تک یہ اب بھی جاری ہے] اور اس فن یعنی املاء قیاسی کے اصول وقواعد پر مشتمل مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں (۲۴)۔
املاء قیاسی کی اصلاح اور اس کے انضباط کی اس صرفی و نحوی مہم کے نتیجے میں لوگوں نے بہت سے کلمات کا قدیم ھجاء اور املاء ترک کر دیا اور ان کو نئے اصولوں کے مطابق لکھنے لگے (۲۵) تاہم رسم قرآنی کو ان قواعد کے تحت لانے کو قبول نہیں کیا گیا اور قرآن کریم کی کتابت بدستور “نقل مطابق اصل” کے اصول پر برقرار رکھی گئی۔ اس طرح قرآن کریم میں لوگوں کو ان قواعد نحو کی “خلاف ورزی” کی بکثرت مثالیں نظر آنے لگیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ قرآنی رسم تو کبھی ان قواعد کے تابع تھا ہی نہیں۔

(۷) املاء اور ھجاء کے قدیم اصولوں میں ان تبدیلیوں اور اصلاحات کے باوجود کُتّاب مصاحف کے ہاں عثمانی مصاحف کے طریق املاء یا رسم الخط کا اتباع جاری رہنے کی کچھ وجوہ تھیں مثلاً: الف ۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ اس ’’رسم‘‘ میں اب ایک طرح سے تبرک اور تقدیس کا پہلو پیدا ہو گیا تھا [اور رسم قرآنی کا یہ پہلو کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا گیا

ب۔ دوسرے ایک طویل عرصے کے استعمال سے کُتّاب مصاحف اس طریق املاء سے مانوس بھی رہ گئے تھے(۲۶)۔

ج۔ تیسرے یہ بھی کہ مصحف کی کتابت کسی مصحف سے ہی براہ راست اور ہو بہو نقل پر منحصر تھی۔ اس سے بھی ’’رسم‘‘ سے منحرف ہونے کی گنجائش کم ہی نکلتی تھی۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کلمات کا قدیم یا قرآنی طریق املاء (یا رسم الخط) کثرت استعمال کی بنا پر ذہنوں میں اس طرح رچ بس گیا تھا کہ اسے املاء قیاسی کے علمبرداروں نے بھی اپنی اصلی صورت پر برقرار رکھنا قبول کر لیا، بلکہ ان کلمات کو قرآنی املاء کے ساتھ لکھنا ہی درست قرار دیا۔ آج بھی عام عربی املاء (الرسم المعتاد) میں بکثرت ایسے کلمات ملتے ہیں جن کی املاء ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی نطق کے مطابق کتابت کے اصول کی بجاءے ایک طرح سے ’’تاریخی اصول‘‘ (the Historic Principle)کے تحت کی جاتی ہے۔ مثلاً:  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، لا الہ الا اللہ، الّذین، ھٰھُنا، لٰکِنْ، ھذا، ذالک، اولئک، ھؤلاءِ اُولُـوْ، ھٰاَنتم، اُولاءِ، اُولاتُ، بلٰی، حتّٰی، متٰی، اِلٰی وغیرہ۔جن کو اگر رسم املائی کے صوتی یا نحوی اصل پر مبنی قواعد کے مطابق لکھا جائے تو ان کی شکل یوں ہو جائے گی: باسم اللاَّہ الرحمان الرحیم، لا اِلاہ الا اللاَّہ، اَللَّذین، ھاھنا، لاکن، ھاذا، ذالک، اُلائِک، ھا اُلاءِ، اُولُـوْ ، ھا انتم، اُلاءِ ، اُلاتُ ، بلا ، حتّا ، متا اور اِلا ۔(۲۷)۔ (۸) دریں اثنا نقط وشکل اور علامات ضبط کی ایجاد و اختراع نے قرآنی (اور عام عربی) کلمات کا تلفظ نسبتاً آسان کر دیا تھا۔ تاہم قیاسی یا عام املاء کے مطابق لکھی ہوئی عبارت پڑھ لکھ سکنے والے آدمی کے لیے قرآنی املاء یا  رسم المصحف کا رسم قیاسی سے یہ اختلاف ایک الجھن کا باعث بنتا تھا۔اور غالباً اسی لیے امام مالک بن انسؒ (ت۱۷۹ھ) سے یہ مشہورسوال پوچھا گیا تھا کہ کیا قرآنی املاء کو بھی جدید املاء کے سانچے میں ڈھال لیا جائے؟ جس کا جواب انہوں نے نفی میں دیا تھا اور سلف کے طریقے کے مطابق رسم المصحف کو علی حالہ برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔ البتہ انہوں نے بچوں کی تعلیم میں سہولت کے لیے (قاعدے یا تختی کی صورت میں) رسم عثمانی سے ہٹ کر قیاسی املاء کے مطابق (اسباق) لکھنے کو جائز قرار دیا تھا (۲۸)۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسم قرآنی بیشتر رسم قیاسی کے مطابق ہی ہے۔ صرف ایک قلیل تعداد کلمات کی ایسی ہے جن میں اختلاف ہے۔ قرآن کریم کے ستر ہزار سے زائد کلمات میں سے قریباً نوے فیصد (۹۰ %) کلمات کی املاء عام قیاسی کے مطابق ہی ہے (۹۲)۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ عربی رسم الخط دورِ صحابہ تک اتنی پختگی کو پہنچ چکا تھا کہ اس میں ترمیم و اصلاح کی بڑی محدود سی ضرورت درپیش آئی۔

(۹) فریضۂ حج کے ذریعے وسیع اسلامی مملکت کے مغربی (افریقہ واندلس) اور مشرقی (ایشیا) علاقوں سے لوگوں کو حرمین شریفین میں آنے کا موقع ملتا رہتا تھا (۳۰) اس کے علاوہ طلب علم کے لیے بھی لوگ ایک علاقے سے دوسرے علاقوں خصوصاً بڑے شہروں کا رخ کرتے تھے۔ ان علمی اور دینی رحلات (سفروں) میں اہل علم کو اپنے اپنے مختص علم وفن کی تحصیل اور تکمیل کے مواقع میسر آتے تھے۔

قراءات اور علم الرسم کے شائقین کو اس ضمن میں مصاحف امصار [یعنی مختلف صوبائی صدر مقامات میں بھیجے گئے مصاحف عثمانیہ یا ان سے تیار کردہ اس علاقے کے مصاحف] دیکھنے، بلکہ ان کا تقابلی اور تنقیدی مشاہدہ کرنے کا مواقع ملے تو دقتِ نظر سے کام لینے والوں کو یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بعض قرآنی کلمات کی املاء یا رسم کسی ایک علاقے کے (مثلاً عراقی) مصاحف میں ایک طریقے سے اور کسی دوسرے علاقے کے (مثلاً شامی یا مکی) مصاحف میں کسی دوسرے طریقے سے کی گئی تھی۔ اس طرح علماءِ رسم کو کتابتِ مصاحف کے ضمن میں تین قسم کے املائی اختلافات سے واسطہ پڑنے لگا:

۱۔ رسم المصحف

۲۔ ایک ہی مصحف کے اندر بعض کلمات کا مختلف مقامات پر مختلف رسم میں لکھا ہوا ملنا۔

۳۔ مصاحف امصار (علاقائی مصاحف) کا بعض کلمات کے رسم میں باہمی اختلاف۔

ذیل میں بطور نمونہ ہر قسم کے اختلافات کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں:

۱۔ رسم قیاسی اور رسم قرآنی کا اختلاف:-

رسم قیاسی رسم قرآنی

اَلْئٰنَ الآن
اِیَّایَ اِیّٰـیَ
العُـلَمَاءُ العُـلَمٰؤُا
جِـیْْءَ جِایْْءَ
لِـشَیْْءٍ لِـشَایْْءٍ
لَاَذْبَحَنَّہ لَاَ اذْبَحَـنَّہٗ
دُعـاء دُعٰـؤا
ساُریکم ساُورِیْکم
لَاتَّخَذْتَ لَـتَّخَذْتَ
الَّـیْل اللَّـیْل
الاِنسٰن الاِنسان
سَلٰسِلاَ سَلٰسِلَ
یَبْنَؤْمَّ یَابْنَ أُمَّ
بِاَیْیدٍ بِاَیْدٍ
اَفَائِنْ اَفإنْ
اَلّٰتِیْ اَللَّاتِیْ
نُـنْجِیْ نُـنْجِیْ

وغیرہ

۲۔ ایک ہی مصحف میں کلمات کی مختلف املاء:-

ایک جگہ دوسری جگہ  کِتٰب کِتاب قٰل قال طَغَا طَغٰی لدا لدی اَیَّھا اَیُّہَ مانَشاءٔ ما نَشٰؤُا اِبْرَاھٖم اِبْرَاھِیمْ کَیْ لا کَـیْلا جَزاؤُا جَزاءُ اَئِذا أَءِذا یَمْحُوا یَمْحُ شَعائِر شَعٰئِرْ تَبٰرَکَ تَبارَکَ وغیرہ

۳۔ مصاحف امصار کے اختلاف:-

بعض مصاحف میں اور بعض مصاحف میں  تُکذِّبان تُکَذِّبٰن طائف طٰئف خائف خٰئفِ صٰفّٰت صافّات کِیْدُونِ کِیْدُونِی شرکاؤھم شرکائھم ذواالعصْف ذا العَصْف تجری تحتَھا تجری من تحتِھا منھا مُنقَلَبا منھما مُنْقَلَبا

۴۔ مصحف میں مماثل کلمات کی مختلف املاء:-

مائۃ میں الف ہےمگر فئۃ بحذف الف ہے اللطیف میں دو لام موجود مگر الیّل ہر جگہ صرف ایک لام کے ساتھ، ایَّاک میں تو الف ہے مگر اِیّٰیَ میں محذوف ہے۔ لدا الباب  الف کے ساتھ، مگر لدی الحناجر یاء کے ساتھ، جِایْءَ میں الف موجود مگر سِیْءَ الف کے بغیر اٰبْوٰب بحذف الف مگر اَکْوَاب باثبات الف لَاَ اذْبَحَنَّہ میں زائد الف موجود مگر لَاُعَذّبَنَّہ اس زیادۃ کے بغیر ہے۔  مِن وَرایِءحِجَاب بزیادۃ یاء مگر مِن وراءِ جُدُر بغیر زیادۃ واؤ جمع کے بعد ہر جگہ الف زائد موجود مگر صرف چار افعال جاءُو ، فَاءُو ، باءُو اور تبوءُو میں غیر موجود وغیرہ (۳۱)۔

۵۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ بعض کلمات کی قرآنی املاء، قیاسی املاء سے زیادہ سائنٹفک اور قیاس صرفی ونحوی سے زیادہ قریب اور لہٰذا بہتر ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قیاسی املاء قرآنی املاء  اشتراء کی بجائے اشترٰہ زیادہ بہتر ہے
مَثْواہ ” مَثْوٰہ “”
اِحداھما ” اِحدٰھما “”
یَغشاھا ” یَغشٰھا “”
ترضاہ ” ترضٰہ “”
نَجّاکم ” نَجّٰکم “”
تَقْواھا ” تَقْوٰھا “”

وغیرہ

ہر کاتب مصحف کا یہ فرض تھا کہ وہ کتابتِ مصحف میں ان اختلافات سے آگاہ ہو اور جس علاقے (۱۰) کے لیے وہ مصحف لکھ رہا ہو یا جس علاقے کے مصحف سے وہ لکھ رہا ہو، کتابت میں یعنی رسم کلمات میں اس علاقے کی خصوصیاتِ رسم کو ملحوظ رکھے۔ نقل صحیح میں ان چیزوں کے نظر انداز ہونے کا امکان تو نہیں رہتا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر خطاط یا خوشنویس کم علم ہوتے ہیں اور پیشہ ور خطاط جلدی کی خاطر اس قسم کی شرائط کو اکثر ملحوظ نہیں رکھتے۔ اس لیے رسم المصحف پر ماہرانہ نظر رکھنے والے اہل علم نے ایسی کتابیں لکھنا شروع کیں جو کُتّابِ مصاحف کی راہنمائی کر سکیں اور ان کو فرداً فرداً ان تمام مقامات سے آگاہ کر سکیں جہاں املاء میں رسم قرآنی کے مطابق درست املاء سے بھٹک جانے کا خطرہ موجود ہو۔

دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس علم میں بھی تالیف کی ابتداء ایسے مختصر “رسائل” سے ہوئی جن میں عموماً کسی ایک پہلو سے جزوی معلومات ہوتی تھیں۔ آہستہ آہستہ متفرق رسائل کی معلومات کو یکجا کر کے علم الرسم پر بڑے مجموعے تیار ہوئے، یہاں تک کہ تدوین عروج کو پہنچی اور اس فن کی  امہات الکتب تالیف ہوئیں۔ اس کے بعد انتخاب، تلخیص اور شروع کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ علم الرسم کی کتابوں میں سے بعض میں مصاحف عثمانیہ کی (تیاری کی) تاریخ کو بھی ساتھ شامل کر لیا گیا اور بعض کتابوں میں مرسوم المصاحف کے اختلافات کی تعلیل اور توجیہہ کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا اور بعض میں رسم عثمانی کے التزام یا عدم التزام کی بحث کو بھی لے لیا گیا۔ ان چیزوں کی ابھی آگے وضاحت آئے گی۔ مختلف اسلامی علوم کی تدوین اور ان پر تالیفات کے سلسلے میں یہ ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ بعض علوم پر کسی ایک علاقے میں زیادہ کام ہوا اور بعض علوم پر دوسرے خطے میں مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کی جمع و تدوین اور اس علم کی  امہات الکتب کی تالیف کا بیشتر کام مشرقی اسلامی ملکوں میں سرانجام پایا۔ اس کے برعکس علم الرسم کی جمع وتدوین اور اس فن کی امہات الکتب کی تصنیف وتالیف کا کام عالم اسلام کے مغربی حصے خصوصاً اندلس میں زیادہ ہوا(۳۲)۔

اہل مشرق کی تالیف کردہ کتب حدیث (بخاری ومسلم وغیرہ) کو مغرب میں پذیرائی حاصل ہوئی اور اہل مغرب کی تالیف کردہ کتب علم الرسم کو اہل مشرق نے اپنے لیے راہنما بنایا۔ بلکہ یہ کتابیں بلا اختلاف مسلمانوں کے تمام مذاہب ومسالک کے ہاں مستند مانی جاتی ہیں۔ نامہ آستان قدس شمارہ ۲،۱ دورہ نہم میں عزیز اللہ جوینی کا ایک مضمون بعنوان “املاء قرآن” شائع ہوا تھا جس میں مضمون نگار نے املاءقرآن پر اہم اور بنیادی کتابوں میں الدانی، المراکشی اور ارکاٹی کی کتابوں کو ہی گنوایا ہے۔ ان کا قدرے تفصیلی ذکر ابھی آگے آ رہا ہے۔ البتہ اس نے دو ایرانی مؤلفین کی کتابوں کا نام بھی لیا ہے۔ ان کا ذکر ہم پہلے ہی کئے دیتے ہیں۔

(۱)احمد بن حسین اصفہانی نیشاپوری (ت ۳۸۱ھ) کی “اختلافِ ہجاء قرآنی”(جو غالباً فارسی میں ہے) اور (۲) حافظ اصفہانی کی “کتاب المصاحف” (۳۳)۔  علم الرسم پر اس قدر زیادہ کام ہوا ہے کہ اس فن کی تمام کتابوں کا شمار بھی کارِ دشوار ہے۔ اس کثرتِ تالیفات کا ایک سبب غالب یہ بھی بنا کہ مصاحف کی تیاری مسلمانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا ایک جزء تھا (اور ہے)۔ ہر مسلمان کو نہیں تو کم از کم ہر مسلمان کنبہ کو ایک مصحف کی ضرورت ہوتی تھی اس بناء پر ہر ایک کاتبِ مصحف کے پاس ایک مختصر راہنمائے رسم قرآنی کی قسم کی کتاب یا رسالہ کا ہونا ضروری تھا۔ جس میں کم از کم ضروری مقامات کی املاء کے بارے میں معلومات اور ہدایات موجود ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے ایسے تمام مقامات کی سورت بسورت نشان دہی پر مبنی متعدد مختصر کتب بھی لکھی گئیں۔

ذیل میں ہم ترتیب زمانی کے ساتھ اس علم پر لکھی گئی بعض اہم”ابتدائی” اور “انتہائی” تالیفات اور ان کے مؤلفین کا مختصراً ذکر کرتے ہیں۔ جس سے اس علم کے عہد بعہد ارتقاء کا کچھ اندازہ ہو سکے گا۔

(۱۱)
علم الرسم پر تالیفات:۔
سب سے پہلے ہمیں ابن الندیم کے ہاں اس علم پر یا اس کے بعض پہلوؤں پر لکھی ہوئی کچھ کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے ایک عنوان ’’الکتب المؤلفہ فی مقطوع القرآن وموصولہ‘‘ ہےجس کے تحت اس نے تین مؤلفین کے نام لیے ہیں۔ (۱) عبد اللہ بن عامر الیحصبی (ت ۱۱۸ ھ)۔ (۲) حمزہ بن حبیب الزیات (ت۱۵۶ھ) اور (۳) علی بن حمزہ الکسائی (ت۱۸۹ھ) اسی کتاب (الفہرست) میں ’’الکتب المؤلفہ فی اختلاف المصاحف‘‘ کے عنوان کے تحت آٹھ مؤلفین اور ان کی کتابوں کے نام ملتے ہیں۔

(۱)عبد اللہ بن عامر الیحصبی (ت۱۱۸ھ)کی کتاب ’’اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق‘‘ (۲) علی بن حمزہ الکسائی (ت۱۸۹ھ) کی  ’’کتاب اختلاف مصاحف اھل المدینہ واھل الکوفہ واھل البصرۃ‘‘ (۳) خلف بن ھشام البزاز (ت۲۲۹ھ) کی کتاب ’’اختلاف المصاحف‘‘ (۴) یحیی بن زیاد الفراء (ت۲۰۷ھ) کی کتاب ’’اختلاف اھل الکوفہ والبصرہ والشام فی المصاحف ‘‘ ان کے علاوہ ابن الندیم نے ابو حاتم سجستانی (ت۲۵۵ھ)، ابو داؤد وسجستانی، المدائنی اور محمد بن عبد الرحمن الاصفہانی میں سے ہر ایک کی کتاب ’’اختلاف المصاحف‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔

ابتدائی دور میں رسم کے موضوع پر کے موضوع پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے لیے ھجاء المصاحف یا کتاب الھجاء کا نام بھی ملتا ہے۔ ’’الکتب المؤلفہ فی ھجاء المصاحف‘‘ کے تحت ابن الندیم نے تین مؤلفین کا ذکر کیا ہے: (۱) یحیی بن الحارث الذماری (ت۱۴۵ھ) (۲) احمد بن ابراہیم اوراق (ت۲۷۰ھ) اور (۳) ابن شبیب (۳۴)۔ صاحب المقنع نے الغازی بن قیس الاندلسی (ت۱۹۹ھ)کی ’’فی ھجاء المصاحف‘‘ اور محمد بن عیسیٰ الاصفہانی (ت۲۵۳ھ) کی  ’’ھجاء المصاحف‘‘ کا ذکر کیا ہے(۳۵)۔ غانم قدوری نے ھجاء المصاحف کے عنوان سے لکھی گئی چار مزید کتابوں کا اضافہ کیا ہے: (۱) ابن مقسم العطار (ت۳۶۲ھ) کی ’’اللطائف فی جمع ھجاء المصاحف‘‘ (۲) ابو العباس المھدوی (ت۴۳۰ھ) کی ’’ھجاء مصاحف الامصار‘‘ [اس کتاب کا ایک جزء مجلہ معہد المخطوطات جلد ۱۹ میں شائع ہو چکا ہے] (۳) مکی بن طالب القیسی (ت۴۳۷ھ) کی ’’ھجاء المصاحف‘‘ اور (۴) ابن معاذ الجھنی (ت۴۴۲ھ) کی ’’البدیع فی ھجاء المصاحف‘‘ (۳۶) [یہ کتاب بھی غانم قدوری کی تحقیق کے ساتھ عراق کے مجلہ المورد- العدد الرابع سنہ ۱۴۰۷ ھ میں شائع ہو چکی ہے] (۳۷)۔ ’’کتاب الھجاء‘‘ کے عنوان کے تحت ابن الندیم نے الکسائی، الفراء، ابو حاتم سجستانی اور ابن بشار الانباری (ت۳۲۷ھ) کی کتابوں کا ذکر کیا ہے (۳۸) مگر یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ ان کا تعلق “ھجاء قرآنی” سے تھا یا ھجاء قیاسی (نحوی) سے تھا۔یہاں تک علم الرسم پر تالیفات کا ابتدائی یا تشکیلی دَور ختم ہوتا ہے۔

(۱۲) اس کے بعد مذکوہ بالا آخری تین مؤلفین المھدوی، القیسی اور الجھنی کی معاصر مگر اس فن کی “دیو قامت” شخصیت سامنے آتی ہے یعنی ابو عمر و عثمان بن سعید الدانی الاندلسی (ت ۴۴۴ھ) جو اپنے زمانے میں ابن الصیرفی کے نام سے مشہور تھے اور جن کی کل تصانیف کی تعداد سو سے زیادہ بیان کی گئی ہے جن میں سے گیارہ کتابیں علم الرسم سے متعلق تھیں اور ان میں سب سے اہم سب سے مشہور اور سب سے مفید تر کتاب المقنع الکبیر تھی۔ جس کی تلخیص خود مؤلف نے المقنع الصغیر کی صورت میں کی (۳۹) اور جو ’’المقنع فی معرفۃ مرسوم مصاحف اھل الامصار‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ الدانی کی یہ کتاب علم الرسم پر لکھی گئی تمام پیشرو کتابوں کی جامع اور اپنے بعد آنے والی کتابوں کی بنیاد ٹھہری۔ اس کتاب میں الدانی نے لفظ رسم اور مرسوم بکثرت استعمال کیا ہے(۴۰)۔ چنانچہ بعد کی کتابوں کے عنوانات پر عموماً یہی لفظ غالب نظر آتا ہے اور کم از کم عنوان کتب میں لفظ ’’ھجاء‘‘ کا استعمال آہستہ آہستہ متروک ہو جاتا ہے۔ الدانی کے بعد اس علم پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے خصوصاً قابل ذکر حسب ذیل ہیں۔ اہم کتابوں کے ساتھ ہم نے کچھ مزید تعارفی نوٹ بھی بڑھا دیا ہے۔

(۱) ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی (ت۴۶۳ھ) کی ’’تلخیص المتشابہ فی الرسم‘‘ (۴۱)۔ (۲) ابو داؤد سلیمان بن نجاح الاندلسی(ت ۴۹۶ھ) کی ’’التنزیل فی ھجاء المصاحف‘‘ جو اس کی چھ جلدوں پر مشتمل ایک بڑی کتاب ’’التبیین لھجاء التنزیل‘‘ کی خود تیار کردہ تلخیص تھی۔ یہ غالباً آخری بڑی کتاب ہے جس کے عنوان میں لفظ ’’ھجاء‘‘ استعمال ہوا۔ اگرچہ یہ کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوئی تاہم اس کے کچھ مخطوطات (القاہرہ اور دمشق وغیرہ میں) موجود ہیں۔ یہ ابو داؤد الدانی کے نامور تلامذہ میں سے تھے۔ ہمارے زمانے میں شائع ہونے والے چند اہم صاحف (قرآنی ایڈیشنوں) کی تیاری میں الدانی اور ابو داؤد کی کتابوں کو ہی رسم المصحف کی بنیاد بنایا گیا ہے اور ان دونوں میں اختلاف کی صورت میں مصری، سعودی اور شامی مصاحف میں ابو داؤد کو اور لیبی ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ کی تیاری میں الدانی کے قول کو ترجیح دی گئی ہے (۴۲)۔

(۳) ابو الحسن علی بن محمد المرادی (ت۵۶۳ھ) کی ’’المنصف‘‘۔ (۴) ابن العطار الھمدانی (ت۵۶۹ھ) کی ’’اللطائف فی رسم المصاحف‘‘۔ (۵) القاسم بن فیرّہ الشاطبی (ت ۵۹۰ھ) کا قصیدہ ’’رائیہ فی الرسم الموسوم بعقیلۃ اتراب القصائد فی اسنی المقاصد‘‘۔ یہ معمولی اضافوں (کل چھ کلمات) کے ساتھ المقنع للدانی کا خلاصہ ہے۔ اسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی متعدد شروح لکھی گئیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر ابھی آئے گا۔

(۶) ابو طاہر العقیلی اسماعیل بن ظاہر (ت ۶۲۳ھ) کی ’’مختصر ما رسم فی المصحف الکریم‘‘(۴۳)۔ (۷) ابن وثیق الاندلسی (ت۶۵۴ھ) کا ’’رسالہ فی رسم المصحف‘‘۔ (۸) محمد بن ابراہیم الشریشی الخراز (ت ۷۱۸ھ) کی ’’مورد الظمآن فی رسم احرف القرآن‘‘۔ یہ منظوم کتاب ہے اور الخرازکی ہی ایک سابق تالیف ’’عمدۃ البیان‘‘ کا خلاصہ ہے۔اس کتاب کے دو حصے (یکجا) ہیں۔ پہلا علم الرسم سے متعلق ہے اور دوسرے حصے کا موضوع علم الضبط ہے اور اسے مورد الظمآن کی ذیل یا ضبط الخراز بھی کہتے ہیں۔ مورد الضمآن چونکہ اپنے سے پہلی چار اہم کتابوں المقنع، التنزیل، المنصف اور العقیلہ سےماخوذ ہے اس لیے اس کو بھی اہل علم میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں سے بعض کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔

(۹) ابو العباس المراکشی الشھیر بابن البناء (ت ۷۲۱ھ) کی ’’عنوان الدلیل فی مرسوم خط التنزیل‘‘۔ اس کتاب میں رسم المصحف کے عام خط سے مختلف ہونے کی عجیب وغریب “باطنی” قسم کی تعلیلات اور توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ اصل کتاب تو ابھی تک نہیں چھپی البتہ زرکشی نے البرہان میں اس کے طویل اقتباسات دیئے ہیں(۴۴)۔ (۱۰) برہان الدین ابراہیم بن عمر الجعبری (ت۷۳۲ھ) کی ’’روضۃ الطرائف فی رسم المصاحف‘‘ یہ لامیہ قصیدہ ہے جو شاطبی کے رائیہ کی طرز پر لکھا گیا۔

(۱۱) ابو یحیی محمد بن محمود الشیرازی السمرقندی (ت۷۸۰ھ) کی کتاب ’’کشف الاسرار فی رسم مصاحف الامصار‘‘۔ اس کتاب کے دو باب حاتم صالح الضامن کی تحقیق کے ساتھ مجلۃ المورد – العدد الرابع ۱۴۰۷ھ میں شائع ہو چکے ہیں (۴۵)۔

اس کے بعد ہمیں گیارہوں بارہویں صدی میں بعض ایسی تالیفات کا پتہ چلتا ہے جن کے نام (عنوان) میں خلیفۂ راشد حضرت عثمانؓ یا ان کے مصاحف کا نام آتا ہے۔ یہ سب مخطوطات ہیں اور بیشتر مجہول المؤلف بھی ہیں۔ مثلاً: (۱) حسین بن علی الاماسی (گیارہویں صدی ہجری) کی ’’الطارف الطریفۃ فی رسم المصاحف العثمانیہ الشریفہ‘‘۔ (۲) مؤلف مجہول – جامع الکلام فی رسم المصحف الامام۔ (۳) مؤلف مجہول – رسالہ فی بیان قواعد رسم المصحف العثمانی۔ (۴) مؤلف مجہول –  زبدۃ البیان فی رسوم مصاحف عثمان (۴۶)۔ (۱۳) علم الرسم پر تالیفات کا یہ سلسلہ چودہویں صدی ہجری کے آخر تک بھی جاری رہا ہے۔ اس متأخر دور کی کتابوں میں سے قابل ذکر حسب ذیل ہیں۔ یہ سب (کم از کم ایک دفعہ) طبع ہو چکی ہیں (۴۷)۔ (۱) الشیخ برکات بن عریشہ الھورینی کی کتاب ’’الجوھر الفرید فی رسم القرآن المجید‘‘۔

(۲) الشیخ محمد ابو زید کی ’’فتح الرحمٰن وراحۃ الکسلان‘‘۔ (۳) الشیخ عبد الرحمن محمد الھواش کی ’’تشحیذ الاذھان فی رسم آیات القرآن‘‘۔ (۴) ابو عبید رضوان بن محمد المخللاتی (۱۳۱۱ھ) نے ’ارشاد  لقراء والکاتبین الی معرفۃ رسم الکتاب المبین‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور رسم عثمانی کے مطابق ایک مصحف بھی شائع کرایا۔ (۵) المتولی محمد بن احمد بن الحسن نےایک ارجوزہ ’’اللؤلؤا المنظوم‘‘ کے نام سے لکھا جس کی شرح الشیخ حسن بن خلف الحسینی نے ’’الرحیق المختوم‘‘ کے نام سے لکھی۔ (۶) الشیخ محمد بن علی بن خلف الحسینی (۱۳۵۷ھ) نے ’’ارشاد الحیران الی معرفۃ ما یجب اتباعہ فی رسم القرآن‘‘ نام کا ایک رسالہ تالیف کیا جو دراصل (اس زمانے کے) ہندوستان سے بھیجے گئے ایک استفسار کا جواب تھا۔

(۷) الشیخ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطی (۱۳۶۳ھ) نے ’’ایقاظ الاعلام لوجوب اتباع رسم المصحف الامام‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ مرحوم رسم قرآنی کے بارے میں سختی سے نظریۂ توقیف کے حامی تھے۔ اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

(۸) محمد غوث بن ناصر الدین ارکاٹی کی کتاب ’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ علم الرسم کے موضوع پر سب سے مبسوط کتاب ہے جو سات جلدوں میں حیدر آباد دکن سے ۹۴-۱۳۳۹ھ میں قریباً دس برس میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب خدمت قرآن کے لیے استقامت سے کام کرنے اور “محنت عشق” (Love Labour)کی ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔ (۹) الشیخ علی محمد الضباع استاد جامع الازہر نے ’’سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ تالیف کیا۔ یہ چھوٹی سی کتاب بقول مؤلف المقنع، التنزیل اور العقیلہ کے مسائل کا جامع خلاصہ ہے۔ اس میں بات سمجھانے کا مختصر مگر قابل فہم انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ان کی تمام آراء سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا تاہم مجموعی طور پر کتاب پر “بقامت کہتر بقیمت بہتر” کی مثل صادق آتی ہے۔

(۱۴)
علم الرسم کی ’’امھات الکتب‘‘ میں سے الشاطبی کے قصیدہ ’’العقیلہ‘‘ اور الخراز کی ’’مورد الظمآن‘‘ کو اساتذہ ٔ فن کے ہاں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی متعدد شروح لکھی گئیں۔ علم الرسم پر اہم تالیفات کی کوئی فہرست ان شروح کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں کہلا سکتی۔ لہٰذا ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شاطبی کے ’’عقیلہ اتراب القصائد‘‘ کی اہم شروح یہ ہیں:- (۱) علم الدین علی بن محمد السخاوی (ت ۶۴۳ھ) کی شرح ’’الوسیلہ الی کشف العقیلہ‘‘۔ (۲) برہان الدین عمر بن ابراہیم الجعبری (ت ۷۳۲ھ) نے ’’خمیلۃ ارباب المراصد فی شرح عقیلۃ اتراب القصائد‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی (۴۸)۔ (۳) ابو البقاء علی بن عثمان ابن القاصح (ت ۸۰۱ ھ) نے ’’تلخیص الفوائد وتقریب المتباعد‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ یہ کتاب چھپ چکی ہے اور غالباً العقیلہ کی شروح میں سے واحد مطبوعہ شرح ہے۔

(۴) ملا علی بن سلطان القاری الھروی (ت ۱۰۱۴ ھ) کی شرح کا نام ’’الھبات السنیہ العلیہ علی ابیات الرائیہ فی الرسم‘‘ ہے۔ (۵) مشہور روسی عالم موسی جار اللہ رستو فدانی (ت ۱۳۶۸ ھ) نے بھی العقیلہ کی شرح لکھنا شروع کی تھی جو غالباً مکمل نہ ہو سکی (۴۹)۔

اور الخراز کی مورد الظمآن کی شروح میں سے اہم یہ ہیں:- (۱) الشیخ حسین بن علی الرجراجی (ت ۸۴۰ ھ) کی شرح کا نام ہے۔ ’’تنبیہ العطشان علی مورد الظمآن‘‘۔ (۲) ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عبد الجلیل التنسی (ت ۸۹۹ ھ) نے ’’الطراز علی ضبط الخراز‘‘ کے نام سے مورد الظمآن کی صرف ذیل (ضبط والے حصے) کی شرح لکھی۔ یہ ابھی تک طبع نہیں ہوئی۔ (۳) ابو محمد عبد الواحد بن احمد بن علی ابن عاشر الانصاری (ت ۱۰۴۰ ھ) کی ’’فتح المنان المروی بمورد الظمآن‘‘ سب سے مشہور شرح ہے۔ اس شارح نے حصہ رسم کے آخر پر ’’الاعلان بتکمیل مورد الظمآن‘ کے نام سے ایک تکملہ بھی لکھا،جس کا مقصد دوسری قراءات کو بھی شامل کرنا تھا کیونکہ اصل “مورد” صرف قراءات نافع پر مبنی تھی۔

(۴) الشیخ ابراہیم بن احمد المارغنی التونسی (۱۳۲۵ تاریخ تکمیل کتاب) کی ’’دلیل الحیران شرح مورد الظمآن‘‘ کے کئی ایڈیشن تونس اور مصرسے شائع ہو چکے ہیں اس کتاب کے رسم والے حصے میں ابن عاشر کی فتح المنان سے اور ضبط والے حصے کے لیے التنسی کی ’’الطراز‘‘ سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔

(۵) الشیخ احمد محمد ابو زیتحار نے ’’لطائف البیان فی رسم القرآن شرح مورد الظمآن‘‘ کے نام سے طلبہ کے استفادہ کے لیے ایک مختصر شرح لکھی ے مؤلف خود جامع الازہر کے اساتذہ میں سے ہیں۔ (۱۵) ماضی قریب میں
علم الرسم کے مسائل یونیورسٹی سطح پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے مقالات کے موضوع بھی بنے ہیں، مثلاً:

(۱) عبد الحی حسین الفرماوی نے ۱۹۷۴ء میں کلیہ اصول الدین جامعہ الازہر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا موضوع تحقیق تھا ’’رسم المصحف ونقطہ‘‘۔ (۲) غانم قدوری الحمد نے ۱۹۷۶ء میں کلیہ دار العلوم جامعۃ القاہرہ سے ایم اے کی ڈگری جس مقالہ کی بنیاد پر حاصل کی اس کا عنوان تھا ’’رسم المصحف – دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ‘‘ یہ مقالہ ایک کتاب کی شکل میں عراق کی ھجرہ کمیٹی کی طرف سے بھی شائع ہو چکی ہے۔ اور اس موضوع پر بہت جامع اور کام کی کتاب ہے۔ مقالہ نگار نے اس سے بکثرت استفادہ کیا ہے۔ گزشتہ اوراق میں  علم الرسم پر لکھی گئی پچاس کے قریب کتابوں کا ذکر آ گیا ہے (پیراگراف ۱۱ تا ۱۴ میں)۔ یہ فہرست ذرا طویل لگتی ہے تاہم اس علم کے ارتقاء کے بیان کے لیے کم از کم اہم کتابوں کا ذکر کئے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ دوسری طرف یہ فہرست علم الرسم پر لکھی گئی کثیر التعداد کتابوں کا ایک معمولی سا خاکہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علم پر لکھی گئی تمام کتابوں کا شمار بھی ایک کارِ دشوار ہے۔ اور یہ طویل سلسلۂ تالیفات جو قریباً چودہ سو سال سے بغیر انقطاع کے جاری ہے۔ اس بات پر شاہد ہے کہ اس علم پر کتنی توجہ مرکوز کی گئی ۔ اور اس کی وجہ کو سمجھنا چنداں مشکل بھی نہیں ہے۔ آخر اس علم کا تعلق قرآن کریم کی درست کتابت سے ہے جو اسلامی معاشرے کی بنیادی دینی ضرورت ہے اور ایک مسلسل اور جاری عمل ہے۔

تاہم اس طویل فہرست میں سے علم الرسم کی اصل امہات الکتب صرف چار ہی شمار ہوتی ہیں یعنی المقنع، التنزیل، العقیلہ اور المنصف۔ یا پھر وہ کتابیں جن کی تالیف ان کتب اربعہ سے استمداد پر مشتمل ہو مثلاً ’’مورد الظمآن للخراز‘‘ یا ’’نثر المرجان‘‘ جو اس علم کی تمام کتابوں کی جامع ہے۔ باقی کتابوں کی حیثیت شرح یا تلخیص کی ہے یا پھر ترتیب و تبویب اور اسلوب و انداز کا فرق ہے۔

(۱۶) علماء رسم نے تمام کلماتِ قرآن کی کتابت (املاء) کا بنظر غائر مطالعہ اور مشاہدہ (مصاحف میں) کیا اور خصوصاً ان کلمات کا تجزیہ کیا جن میں اختلاف کتابت کی کوئی صورت پائی جاتی ہے۔ پھر ان املائی اختلافات سے کچھ قواعد کلیہ مستنبط کئے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ جملہ اختلافات یا احکامِ رسم کو مندرجہ ذیل چھ قواعد کے تحت منحصر کیا جا سکتا ہے: حذفؔ ، زیادۃؔ ، ھمزؔ (رسم ھمزہ) ، بدلؔ ، وصلؔ وفصل اور ’’قراءت کا تنوع‘‘۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ رسم قیاسی کے علماء نے بھی اپنے اصول ان میں سے پہلے پانچ قواعد پر ہی استوار کئے ہیں (۵۰)۔ (صرف چھٹا قاعدہ
علم الرسم سے مختص ہے)۔ اور بیشتر صورتوں میں ان قواعد کے تحت کلمات کا طریق املاء رسم قیاسی اور رسم قرآنی میں یکساں رہتا ہے۔ [یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ رسم قرآنی نوے فیصد رسم قیاسی کے مطابق ہوتا ہے]۔ البتہ رسم قیاسی اور رسم قرآنی میں ان قواعد کے اطلاق میں فرق ہے جس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ علم الرسم کے ان ’’قواعد ستہ‘‘ کا مختصر بیان یا ان کا تعارف کچھ یوں ہے:

(۱) حذف: کے تحت ان کلمات سے بحث کی جاتی ہے جن کی کتابت میں کوئی حرف محذوف مگر نطق میں موجود ہوتا ہے یعنی وہ حرف لکھا نہیں جاتا مگر پڑھا ضرور جاتا ہے۔ یہ محذوف حرف عموماً ’’ا‘‘ ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک آدھ مثال ’’ن‘‘ یا ’’ل‘‘ کے حذف کی ملتی ہے۔ اس کی مثال ’’الرحمن‘‘ ، داؤد اور ’’النبین‘‘ کے کلمات ہیں جو دراصل الرحمان، داوود، اور النبیین پڑھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس قسم کے کلمات کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور کتب رسم میں ان سب کا فرداً فرداً ذکر موجود ہے۔

(۲) زیادۃ: سے مرادیہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کلمہ میں کوئی حرف لکھا تو جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا۔ یہ زائد حرف بھی ہمیشہ ’’ا‘‘ ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ’’مِاَئۃ‘‘ ، ’’اولٰئک‘‘ اور ’’بِاَییْد‘‘ ہیں جو علی الترتیب مِئَۃ ، الائک اور بِاَیْدٍ پڑھے جاتے ہیں۔[آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ ’’اولئک‘‘ میں حذف اور زیادۃ دونوں قاعدے کارفرما ہیں]۔

(۳)الھمز یا رسم ھمزہ: یعنی ہمزہ کی کتابت اور رسم کی مختلف صورتوں کا بیان۔ ان میں سے بعض صورتیں رسم قیاسی سے موافق ملتی ہیں اور بعض مختلف ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں کتابت ہمزہ کے قواعد خاصے طویل ہیں۔

(۴) بدل: کے تحت ان کلمات کو بیان کیا جاتا ہے جن کی املاء میں ایک حرف کی بجائے کوئی دوسرا حرف لکھا جاتا ہے حالانکہ تلفظ کا تعین وہی پہلا حرف کرتا ہے مثلاً الف کی بجائے ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ لکھنا۔ اس کی مثال الصلوۃ، بلٰی اور حتٰی یا متٰی میں ملتی ہے۔جو علی الترتیب ’’الصلاۃ‘‘ ، ’’بلا‘‘ اور ’’حتا‘‘ یا ’’متا‘‘ پڑھے جاتے ہیں۔ [یہاں بھی آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ بلی ، حتی اور متی کا  یاسی اور قرآنی رسم یکساں ہے البتہ لفظ صلوٰہ کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کی مثالیں تو اردو میں بھی متعارف ہیں مثلاً ادنی، اعلی، موسیؑ، عیسیؑ وغیرہ]۔

(۵) وصل وفصل:جسے قطع اور وصل بھی کہتے ہیں۔ اس قاعدہ کے تحت یہ بیان ہوتا ہے کہ دو کلمات (حرف اور اسم یا اسم اور اسم) کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کا قاعدہ کیا مثلاً فِی مَا اور فیما۔ اَیْن ما اور اَیْنما، اَمْ مَنْ اور امّنْ ، یَوْمَ ھُم اور یَومَھُم وغیرہ۔ (۶) قراء ت کا تنوع: یا اختلاف قراء تین۔ اس میں ان مخصوص کلمات کی املاء کا قاعدہ بیان ہوتا ہے۔ جن میں دو بالکل مختلف مگر بتواتر ثابت قراءتین ہوتی ہیں۔ اس میں محتمل القراءات رسم کے علاوہ [جس کی مثالیں قرآن کریم میں بکثرت ملتی ہیں۔ ایک مثال لفظ ’’ملک‘‘ ہےجو مالک بھی پڑھا جاتا ہے اور ملک بھی]۔ وہ کلمات بھی آتے ہیں جو مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک میں ایک قراءات کے مطابق اور کسی دوسرے میں دوسری قراءات کے مطابق لکھے گئے تھے۔ اس کی ایک مثال سورۃ الکہف کی آیت ۳۲ میں وارد کلمہ ’’مِنْھَا‘‘ کا بعض مصاحف میں ’’مِنْھُما‘‘ (بصیغۂ تثنیہ) لکھنا ثابت ہے۔ اور ورش کی قراءات میں اب بھی اسی طرح بصیغۂ تثنیہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

(۱۷)
علم الرسم کے مؤلفین میں مواد کو مرتب شکل میں پیش کرنے کے لیے عموماً دو رجحانات پائے جاتے ہیں۔

(۱)
بعض علماء اپنی کتاب کو مذکورہ بالا “قواعد ستہ” کی ترتیب کے مطابق ابواب و فصول میں تقسیم کر لیتے ہیں اور پھر ان قواعد ستہ میں سے ہر ایک کی کچھ ضمنی تقسیمات بھی کر لیتے ہیں اور ہر ایک قاعدے کے تحت آنے والے کلمات کے بیان میں قرآن کریم کی ترتیب سور کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، مثلاً: سب سے پہلے حذف کے تحت سورت بسورت الحمد سے والناس تک ان کلمات کو بیان کرتے جائیں گے جن کا تعلق قاعدہ (حذف) سے ہے۔ اور اس میں بھی پہلے محذوف للالف الفاظ، پھر محذوف الواو، پھر محذوف الیاء اور آخر پر محذوف النون اور محذوف اللام کلمات کا ذکر ہو گا۔ وھکذا المھدوی، الجھنی، الدانی، الشاطبی، الجعبری اور الخراز کی تالیفات میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے (۵۱)۔

(۲) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پورے قرآن کو الفاتحہ سے والناس تک ایک ایک سورت کو لیتے ہیں اور ہر سورت میں بہ ترتیب آیات ان کلمات کا ذکر کرتے ہیں جن کی املاء میں قواعد ستہ میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد قاعدے استعمال ہوئے ہوں۔ اس طریقے میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کلمہ پہلی دفعہ سامنے آتا ہے تو نہ صرف اس کا قاعدہ بیان کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں جہاں جہاں بھی آیا ہے اسی قاعدے کے تحت لکھا جاتا ہے یا اس کے کوئی استثناءات بھی ہیں۔ مثلاً سورۃ البقرہ میں ’’ذلک‘‘ کے متعلق بتائیں گے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں جہاں بھی آیا ہے (کیف وقع) بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے۔ [رسم قیاسی والا بھی یہی کہے گا کہ ذلک ہر جگہ اور ہر موقع پر بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے]۔ پھر ’’الکتٰب‘‘ کےمتعلق بتائیں گے کہ یہ لفظ پورے قرآن میں بحذف الف لکھا جاتا ہے۔ سوائے چار مواقع کے جن کا ذکر اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔ اسی طرح ’’اولئک‘‘ میں خذف(الف) بھی ہے اور زیادۃ (واو) بھی ہے اور جہاں بھی آتا ہے اسی طرح لکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ (۵۲)۔ اب آگے جہاں جہاں کلمات ’’ذلک‘‘ اور ’’اولئک‘‘ آئیں گےان کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا جائے گا۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ لکھ دیا جائے گا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ اگر کلمہ ’’الکتب‘‘ کا کوئی اثبات الف والا موقع آیا تو کہیں گے کہ یہاں اسے ’’کتاب‘‘ لکھنا ہے۔ اس طریقے میں چونکہ مؤلف پہلی دفعہ سامنے آنے والے کلمہ کے متعلق بات کر دیتا ہے۔ اس لیے اس لفظ کے مکرر آنے پر قاعدہ مکرر بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی کتاب کا ابتدائی حصہ قواعد کے بیان سے بھرا ہوتا ہے اور آخری حصہ مختصر رہ جاتا ہے۔ اس طریقے پر لکھی گئی کتابوں میں ابو داؤد کی التنزیل، ابو طاہر العقیلی کی (فی مرسوم المصاحف)، ابن وثیق کا (رسالہ فی رسم المصحف) اور ایک مجہول مؤلف کی کتاب (جامع الکلام فی رسم المصحف الامام) قابل ذکر ہیں۔ اور اس طریقے پر لکھی ہوئی سب سے جامع اور مبسوط کتاب ارکاٹی کی ’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ ہے (۵۳)۔