کتابت مصاحف اور علم الرسم حصہ دوئم

پروفیسر حافظ احمد یارؒ

(۱۸)علم الرسمپر تالیفات کے اس طویل سلسلے اور اس فن کے بارے میں اس سارے اہتمام کی غرض وغایت یہ ہے کہ کاتب مصحف کو رسم قرآنی کے احکام سے آگاہی حاصل ہو تاکہ کلام اللہ کی کتابت میں رسم قرآنی کی انفرادیت کو برقرار رکھا جا سکے اور اسے عام رسم املائی یا رسم قیاسی کے ساتھ خلط ملط نہ کر دے۔ جب رسم قرآنی اور رسم املائی کے اختلاف کی بات ہوتی ہے تو اکثر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شاید عہد نبوی یا راشدین میں دو طریق املاء موجود تھے۔ یا یہ کہ رسم قیاسی موجود تھا مگر کُتّابِ مصاحف نے (کسی وجہ سے) اس کی خلاف ورزی کی۔ یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے عہد نبوی وراشدین میں املاء عربی کی وہی صورت موجود تھی جس میں مصاحف لکھے گئے۔ رسم املائی اور اس کے قواعد تو دوسری صدی ہجری میں وجود میں آئے۔ تاہم جب عام پڑھے لکھے لوگ ان قواعد سے شناسا ہوئے اور ان کو ہر دو رسم (قرآنی اور املائی) میں فرق اور اختلاف نظر آیا تو اس کی وجوہ پر غور کیا جانے لگا۔ اور اس تحقیق و تفتیش میں رسم قیاسی کو اصل اور رسم قرآنی کو اس سے متفرع سمجھ کر گاڑی کو گھوڑے کے آگے آگے لگا دیا گیا (۵۴)۔ بہرحال ہر دو رسم کے درمیان فی الواقع موجود اختلاف (چاہے جس وجہ سے ہو!) کی بناء پر یہاں دو سوال اہل علم کے ذہن میں اُبھرے۔ اور یہ سوال آج بھی موجود ہیں:

(۱) ایک تو یہ کہ رسم املائی اور رسم قرآنی میں یہ اختلافات کیوں ہیں؟ اور خود رسم قرآنی میں بعض کلمات کی املاء میں اتفاق کی بجائے یہ اضطراب کیوں موجود ہے؟ کہ ایک لفظ کہیں ایک طریقے سے اور کہیں دوسرے طریقے سے لکھا جاتا ہے؟

(۲) دوسرے یہ کہ کیا ان اختلافات کو برقرار رکھنا ضروری ہے؟

(جواب نفی میں ہو یا اثبات میں مگر) کیوں؟ کس وجہ سے؟

پہلے سوال کے جواب میں اس وقت تک تین نظریات پیش کئے گئے ہیں:

پہلا نظریہ: یہ ہے کہ رسم المصحف توقیفی ہے اور یہ اسرار الہی میں سے ایک سرّ ہے۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں اسی “رسم” کے ساتھ لکھا گیا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ کاتبِ وحی کو ہر لفظ کی مخصوص املاء بھی بتا دیتے اور اسی کے ساتھ لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ ہماری عقل اس کی وجہ کو نہیں پا سکتی۔ ہمارا کام فقط اس کا اتباع کرنا ہے وغیرہ(۵۵)۔ پھر بعض لوگوں نے رسم قرآنی کے ان ’’اسرار وحکم‘‘ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور رسم قرآنی کی ایسی عجیب وغریب تعلیلات اور توجیہات پیش کیں جو سراسر غیر معقول اور ناقابل قبول ہیں۔ اس کی سب سے بری مثال ابو العباس مراکشی کی کتاب ہے۔ بعض نے نحوی بنیادوں پر بھی بعض تعلیلات پیش کی ہیں جن میں نسبتاً معقولیت کا پہلو پایا جاتا ہے (۵۶)۔

یہ نظریہ (توقیف) معقولیت سے بعید ہے۔ اس لیے کہ ایک تو آنحضرتﷺ کی ’’امیۃ‘‘ (لکھنا پڑھنا نہ سیکھنا)قرآن سے ثابت ہے۔ دوسرے روایتًا بھی کاتبانِ وحی کو طریق املاء کلمات کے بارے میں قطعا کوئی ہدایات ثابت نہیں ہیں۔ جب رسم قرآنی کے اتباع کے وجوب والتزام کے بارے میں بعض دوسرے معقول اور وزنی دلائل موجود ہیں تو اس بے سند اور غیر معقول استدلال کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ خیال رہے التزام رسم عثمانی الگ بات ہے اور نظریہ توقیف الگ۔ دونوں کو ایک سمجھنا غلط مبحث ہے (۵۷)۔

دوسرا نظریہ: رسم قرآنی کی اصل کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ رسم اصطلاحی ہے یعنی مصاحف عثمانیہ کے کاتبوں نے بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس قسم کا رسم الخط یا طریق املاء اختیار کیا۔ مثلاً ایک حکمت احتمال القراءات المتواترہ یا قراءت عرضۂ اخیرہ یا اشتمال الاحرف السبعہ کا اہتمام تھا۔یہ علم القراءات کے ماہرین کی توجیہہ ہے۔ اس بات کی کوئی واضح نقلی دلیل موجود نہیں ہے کہ صحابہؓ یا مصاحف عثمانیہ کے کاتبوں نے اس موقع پر بعض کلمات کے لیے کوئی خاص نیا طریق املاء ’’ایجا‘‘ کیا تھا۔ جہاں باہمی اختلاف کی صورت میں کُتّابِ مصاحف کومعاملہ حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔ تو اس میں ایک لفظ ’’تابوت‘‘ کی املاء کا معاملہ اوپر جانے کی روایت تو ملتی ہے لیکن ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ مثلاً کاتب نے کہاں ایک لفظ بحذف الف لکھنا ہے اور کہاں باثبات الف – یا (مثلاً) واو جمع کے بعد کہاں الف زائد لکھنا ہے اور کہاں نہیں لکھنا ہے وغیرہ۔ املاء کلمات کے لیے کوئی طریقہ (اصطلاح) وضع کرنے کا نظریہ اس لیے بھی معقول نہیں لگتا کہ صحابہؓ کا آنحضورﷺ کے وقت میں بلکہ ان کے سامنے لکھے جانے والے طریق املاء کو ترک کر کے اس کی بجائے کوئی نیا طریق املاء اختیار کرنا بہت مستبعد معلوم ہوتا ہے۔

البتہ علامہ ابن خلدون نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ عہد نبوی بلکہ راشدین تک عربی کے علم الاملاء کا ارتقاء ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ کتابت کو حجاز میں متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور املاء کے قواعد و ضوابط ابھی کمال پختگی کو نہیں پہنچے تھے بلکہ ایک قسم کے عبوری دَور سے گذر رہے تھے اور یہی چیز صحابہؓ کے کلمات کے لکھنے میں املاء کے اختلاف اور اضطراب کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہ ایک طرح سے اس میدان میں صحابہؓ کی ’’علمی کمزوری‘‘ کا ایک مظہر ہے۔ ابن خلدون نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس سے صحابہ کی (خدانخواستہ) توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا اس لیے کہ کتابت اور املاء کی مہارت کی حیثیت ذاتی کمال کی نہیں بلکہ ایک اضافی کمال کی ہے(۸۵)۔ تاہم اس کے اس جرأت مندانہ اور محققانہ نظریہ پر بھی تین قسم کے ردّ عمل سامنے آئے ہیں:

الف۔ رسم میں نظریۂ توقیف کے حامیوں نے تو خود ابن خلدون کو گستاخ اور جاہل بنا ڈالا اور بعض نے تو ابن خلدون کے موقف کے پہلے حصے کو بیان کیا مگر (عمداً) دوسرے حصے کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش بھی کی ہے (۹۵)۔

ب۔ رسم المصحف کے مخالفوں اور ’’ھجاء حدیث‘‘ اور ’’رسم جدید‘‘ کے حامیوں نےا بن خلدون کی رائے کو اپنے لیے ایک عمدہ ہتھیار خیال کیا۔ اسے رسم المصحف کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا زریں موقع سمجھا اور اسے اپنی زبان درازی اور صحابہ کے علم میں طعن کے لیے گویا بطور استدلال یا تائید استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال ایک مصری مؤلف محمد عبد اللطیف کی کتاب  ’’الفرقان‘‘میں ’’ھجاء القرآن ورسمہ‘‘ کے عنوان کے تحت نظر آئے گی۔ جس میں رسم المصحف کے خلاف اپنا سارا زہر اگلنے کے بعد آخر پر ابن خلدون کا اقتباس اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ ’’رسم المصحف کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے‘‘ – یہ کتاب حکومتِ مصر نے ضبط کر لی تھی (۶۰)۔

ج۔ بعض اعتدال پسند منصف مزاج اہل علم نے ابن خلدون کے نظریہ کو سراہا ہے اور اسے رسم قرآنی اور رسم قیاسی کے باہمی اختلافات کی ایک معقول توجیہہ قرار دیا ہے(۶۱) اوریہ کہ ابن خلدون ہرگز صحابہؓ کی شان میں کسی گستاخی کا مرتکب نہیں ہوا نہ اس نے کبھی یہ کہا کہ رسم المصحف کو ترک کرنا چاہیے اور نہ ہی اس نے مصری تجدد پسند عبد العزیز فہمی(۶۲) یا مؤلف ’’الفرقان‘‘ ‘‘ کی طرح صحابہؓ یا رسم المصحف کے بارے میں جہل یا سخافت وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بلکہ اس نے تو رسم المصحف کی تقدیس اور تکریم کی معقول وجہ بھی بیان کر دی ہے۔ البتہ اس نے قائلین توقیف کی غیر معقول تعلیلات پر تنقید ضرور کی ہے۔

تیسرا نظریہ: رسم قرآنی اور عام رسم املائی میں اختلافات کی توجیہہ کا ایک (تیسرا نظریہ) ہمارے زمانے میں سامنے آیا ہے۔ عربی خط (کتابت اور املاء) کی تاریخ اور اس کے ارتقاء پر اثری اکتشافات کے نتیجے میں دستیاب ہونے والے بعض نقوش و لواح اور کتابات (Inscriptions) کے حوالے سے جو جدید تحقیق ہوئی ہے(۳۶) اس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ زمانہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام (عہد نبوی وراشدین تک) حجاز میں جو قواعدِ کتابت اور طریق املاء رائج تھا اس کی اصل نبطی خط تھا (۴۶) جوشمالی علاقوں (شام وغیرہ) سے حجاز میں آیا تھا۔ اور یہ کہ اس زمانے کی عربی املاء (جو مصاحف عثمانیہ کی تیاری تک رائج تھی) کے کم از کم چار مظاہر تو صاف نبطی الاصل ہیں: (۱) نقط و شکل سے عاری ہونا (۲) وسط کلمہ میں الف کا محذوف ہونا (مالک: ملک) (۳) تائے تانیث (ۃ) کو تائے مبسوطہ(ت)
کی شکل میں لکھنا اور (۴) رسم ہمزہ کے بعض طریقے مثلاً ہمزہ مضمومہ کے بعد ’’و‘‘ لکھنا (جیسے اُولئک میں)اور یہ چاروں مظاہر رسم قرآنی میں موجود ہیں (۶۵)۔

املاء عربی کے ارتقاء کے اس عبوری نظریہ سے ایک ہی مصحف کے اندر کسی لفظ کی کتابت کے اختلاف کی بھی توجیہہ ہو جاتی ہے۔ نبطی خط میں حجاز کے اندر آنے کے وقت تک (کم از کم بھی دو صدیوں کے ارتقاء کی بدولت) املاء کے قواعد میں اگرچہ ایک حد تک پختگی تو آ چکی تھی تاہم ابھی ان میں اتنا استحکام اور اتنی یکسانیت پیدا نہیں ہوئی تھی اور بعض کلمات کو کبھی ایک ہجاء کے ساتھ اور کبھی دوسرے ہجاء کے ساتھ لکھ لیا جاتا تھا (۶۶)۔ یہ تو اسلام کی برکت سے اور کتابتِ مصاحف اور اسلامی علوم کی بدولت ایسا ہوا کہ عربی املاء نے یکسانیت اور استحکام کے سارے مدارج جلدی سے طے کر لیے اور جس کی وجہ سے ’’رسم قیاسی‘‘ ایک مستقل علم بن گیا جس پر مستقل تالیفات وجود میں آ گئیں (۷۶)۔ اور اسی (تیسرے) نظریہ سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرامؓ خصوصاً کُتّابِ مصاحف اپنے زمانے میں رائج طریقہ ہائے املاء و کتابت سے پوری طرح باخبر تھے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ابھی یہ علم خود طفولیت میں ہو۔ مگر صحابہؓ کا اس کے بارے میں علم ہرگز طفل مکتب کا سا نہیں تھا۔ ویسے یہ علم بھی اس وقت تک اپنی طفولیت سے نکل کر بلوغ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ صحابہؓ کے طریق املاء میں کلمات کی صرفی ونحوی ’’استعداد‘‘ یا ’’بنیاد‘‘ سے آگاہی کا پتہ چلتا ہے (خصوصاً قاعدہ بدل کے اطلاق میں) (۶۸)۔ بعد میں آنے والے رسم قیاسی کی اصل بنیاد یہی ظہورِ اسلام کے وقت رائج طریق املاء وہجاء ہی تھا۔ بہت کم اصول و قواعد تبدیل کرنے پڑے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اس وقت کا معیاری طریق ہجار وہی تھا جو بعد میں رسم قرآنی کہلایا اور رسم قیاسی اسی میں سے نکلا۔ اور یہی وجہ ہے بیشتر قواعد میں رسم قرآنی رسم قیاسی کے مطابق ہے۔ تمام ’’مخالفات‘‘ محدود اور محصور ہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ شاید رسم قیاسی کو مسخ کر کے رسم قرآنی تیار کیا گیا۔ رسم قیاسی تو اس وقت تک موجود ہی نہ تھا اور حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم اپنے زمانے کے معروف طریق املاء کے مطابق ہی لکھا گیا ہے۔

اور اس تیسرے نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ دَور صحابہؓ میں ایک بھی ایسا واقعہ بیان نہیں ہوا کہ رسم قرآنی – قرآن کی تلاوت یا قراءت میں کسی صعوبت یا الجھن کا باعث بنا ہو۔ یہ بات سب سے پہلے امام مالک (ت ۱۷۹ ھ) کے زمانے میں سامنے آئی۔جب رسم قیاسی کے اصول وقواعد مرتب ہو چکے تھے اور روزمرہ کی زندگی میں یہی ’’نیا‘‘ رسم قیاسی استعمال ہونے لگا تھا اور لوگ اس سے مانوس ہو چکے تھےا ور ’’پرانا‘‘ طریق املاء اب صرف کتابتِ مصاحف تک محدود ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ عجیب اور غیر مانوس لگنے لگا تھا۔ رسم قرآنی کے معاملے میں آج کل عرب ملکوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو بالکل اسی قسم کی صورتِ حال درپیش ہے ۔

(۱۹) رسم المصحف اور رسم قیاسی کے درمیان اختلاف کی توجیہہ کے بارے میں مذکورہ بالا (تین) مواقف سے ہی اس (دوسرے) سوال کے بھی مختلف جواب سامنے آتے ہیں کہ ’’کیا رسم قرآنی اور رسم قیاسی کے اس فرق و اختلاف کو برقرار رکھنا ضروری ہے؟‘‘ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ’’کیا کتابتِ مصاحف میں علم الرسم کے اصولوں [جو رسم مصاحفِ عثمانیہ پر مبنی ہیں] کی پابندی واجب ہے؟ اور ان کی خلاف ورزی واقعی حرام ہے؟‘‘

اس سوال کے جواب میں یعنی رسم عثمانی کے التزام یا عدم التزام کے بارے میں بھی تین مواقف سامنے آتے ہیں (۶۹)۔

(۱) وجوب التزام یعنی پابندی لازمی ہے – خلاف ورزی ناجائز ہے۔

(۲) جواز عدم التزام یعنی پابندی لازمی نہیں – خلاف ورزی جائز ہے۔

(۳) وجوب عدم التزام یعنی پابندی جائز نہیں – خلاف ورزی لازمی ہے۔

لہٰذا ہر ایک موقف کے قائلین اور ان کے دلائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پہلا موقف: کتابتِ مصاحف میں رسم عثمانی (یا علم الرسم کے اصولوں) کے التزام کے وجوب کے قائلین میں جمہور علماء سلف و خلف شامل ہیں۔ یعنی یہ اہل علم کی اکثریت کا موقف ہے۔ اس موقف کی تائید میں امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ، (بلکہ بقول جعبری ائمہ اربعہ)۔ تمام ائمہ رسم (مثل الدانی وغیرہ) اور بیشتر مفسرین و محدثین، مثل نظام الدین نیشاپوری، البیہقی، الطحاوی، القاضی عیاض اور عبد الرحمن المغربی وغیرھم کے اقوال وآراء پیش کئے جاتے ہیں (۷۰)۔ [تاہم یہ سب قائلین توقیف نہیں ہیں]۔ اور اس موقف کی تائید میں دلائل یہ پیش کئے گئے ہیں کہ:- (۱) آنحضرت ﷺ کے سامنے (اس زمانے میں رائج) رسم کے مطابق قرآن لکھا جاتا رہا۔ اور آنحضرتﷺ نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اسی رسم کے مطابق لکھا ہوا قرآن چھوڑا۔ گویا اس رسم کو کم از کم بھی سنت تقریری کی حیثیت تو حاصل ہے اور اگر آنحضرتﷺ کے کتابتِ قرآن سے شغف اورا س کے اہتمام کو دیکھا جائے تو یقینا اسے واجب بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

(۲) عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں مصحف کی کتابت اسی طریقے پر ہوئی – بلکہ ایک ہی کاتب کے ہاتھوں ہوئی – اور مصاحفِ عثمانیہ ہی باجماع صحابہؓ آئندہ ہمیشہ کے لیے اور سب کے لیے کتابتِ مصاحف کی بنیاد قرار پائے۔

(۳) آنحضرتﷺ کے بعد تمام صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین ائمہ مجتہدین کا (جن کے زمانے میں رسم قیاسی موجود تھا) سب کا اس رسم پر اتفاق ثابت ہے۔ کسی سے اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے (۷۱) اہل تشیع سے بھی اس کی حمایت اور تائید ثابت ہے اور وہ قاری اور کاتب ہر ایک کے لیے اس سے آگاہ ہونا ضروری گردانتے ہیں (۷۲)۔

(۴) یہ عہد نبوی کا رسمِ قرآن ہے۔ اس وجہ سے اسے ایک تاریخی اہمیت بلکہ تقدیس اور تکریم کا درجہ بھی حاصل ہے اور مسلمانوں پر اس کی حفاظت واجب ہے (۷۳)۔ اور اسی غرض کے لیے علم الرسم جیسا مہتم بالشان علم وجود میں آیا۔  (۵) یہی رسم اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ عہد نبوی سے لے کر آج تک قرآن کریم کی کتابت میں ایک حرف تک کا تغیر و تبدل نہیں۔
[
ھجاء
کلمات کے حروف گن کر جوڑنے کا نام ہی تو ہے] بلکہ کسی نبرہ (دندانہ) تک کو بھی نہیں بدلا گیا (مثلاً بِاَیْید، باَیّیکم میں) حتیٰ کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائےکہ اس رسم میں فنی قواعد کے لحاظ سے کوئی نقص یا کمی رہ گئی تھی۔ توا س کی بھی اصلاح نہیں بلکہ حفاظت کی گئی ہے۔ اور نہ ہی محض اس وجہ سے کبھی قرآن غلط پڑھا گیا ہے۔

دوسرا موقف:
رسم قرآنی کے عدم التزام کے جواز کے قائلین کا موقف یہ ہے کہ کتابتِ مصاحف میں رسم عثمانی کے التزام کی بجائے املاء قیاسی یا قواعد عامہ کا اتباع اور استعمال جائز ہے۔ اس نظریہ کے حامیوں میں علامہ ابن خلدون اور قاضی ابو بکر الباقلانی کا نام لیا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر خصوصاً اس نظریہ کے پرجوش حامی تھے (۷۴)۔ اس موقف کے حق میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں:- (۱) رسم یا املاء کی حیثیت اشارات اور علامات کی ہے لہٰذاجو طریق املاء بھی درست تلفظ پر دلالت کرتا ہے اسی کا اتباع صواب ہے۔ (۲) رسم عثمانی قرآن کی درست قراءت میں صعوبت اور التباس کا باعث بنتا ہے۔ تیسیر اور عدم حرج کے اصول شرعی کی بنا پر – جدید اور متعارف طریق املاء کو اختیار کرنا کیوں ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

(۳) قرآن، سنت یا اجماعِ امت سے کتابتِ مصحف میں کسی خاص رسم کا قطعی وجوب ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آنحضرتﷺ سے کسی کاتبِ وحی کو املاء اور ھجاء کلمات میں کوئی خاص طریقہ اختیار کرنے کی کوئی ہدایت ثابت ہے۔

(۴) قرآن وحدیث میں کسی متعین رسم کی پابندی کا حکم یا اس کی خلاف ورزی سے نہی اور یا اس خلاف ورزی پر کوئی وعید یا تہدید وارد نہیں ہوئی ہے۔

تیسرا موقف:
وجوب عدم التزام کے قائلین کا موقف یہ ہے کہ عوام الناس کے لیے کتابت مصاحف میں عام املائی قواعد کی پابندی کرنی چاہیے اور رسم عثمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رسم عثمانی کی پابندی کے ساتھ لکھے جانے والے مصاحف صرف خواص اور اہل علم کے لیے مختص ہونے چاہئیں (۷۵)۔ اس نظریہ کے قائلین میں بد الدین الزرکشی (صاحبِ البرھان) اور شیخ عز الدین بن عبد السلام شامل ہیں۔

اور اس موقف کے صرف پہلے ’’عوامی قرآن‘‘ والے حصے کے قائلین بکہ حامیوں میں مصر کے جدید علماء میں سے الشیخ حسین والی اور احمد حسن الزیات کا شمار بھی ہوتا ہے (۷۶)۔

اس موقف کے حق میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں:-

(۱) رسم عثمانی کے مطابق کتابت عوام کے لیے تلاوت اور قراءتِ قرآن میں دقت اور مشقت کا باعث بنتی ہے اور ان سے بعض دفعہ سنگین غلطی کا ارتکاب ہو سکتا ہے جو الٹا باعث گناہ ہوتا ہے۔

(۲) تاہم رسم عثمانی کو محض یادگارِ سلف ہونے کی حیثیت سے باقی رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک چیز کا یادگار ہونا اور بات ہے اور روزمرہ کے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔ اس لیے ’’رسم عثمانی‘‘ والے مصاحف صرف خواص اہل علم تک محدود رہنے چاہئیں۔

اور غالباً اسی نظریہ سے متأثر ہونے اور اسی رفع التباس کی بنا پر ہی اہل مشرق (ایشیائی ممالک) میں بہت سی چیزوں میں رسم عثمانی سے بالفعل (عملاً) خلاف ورزی کا رواج ہو گیا ہے (۷۷) اوراہل مغرب (افریقہ) میں بھی رسم عثمانی کا التزام اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں امام مالکؒ کا واضح قول ثابت ہے اور افریقہ اور مغرب میں زیادہ تر فقہ مالکی کا اتباع کیا جاتا ہے (۷۸)۔

ان دو نظریوں [جواز عدم التزام اور وجوب عدم التزام] کے قائلین کا ایک مشترکہ استدلال یہ بھی ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں کتابت عہد نبوی سے تھوڑا عرصہ پہلے متعارف ہوئی تھی۔ اور اس کے جاننے والوں کی تعداد بھی محدود ہی تھی۔ گویا عربی املاء نزول قرآن کے وقت اپنے عہد طفولیت میں تھی اور کتابت میں حاذق اور ماہر لوگ کم ہی تھے۔ اس لیے اس میں قواعد کے لحاظ سے یکسانیت اور پختگی ابھی نہیں آئی تھی (۷۹)۔ لہٰذا ایک مقدس اور متبرک یادگار کے طور پر اس (رسم) کی حفاظت تو ضرور ہونی چاہیے مگر اسے معمول بہ بنانے میں کئی مفاسد ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان مؤخر الذکر دو نظریوں کے حامیوں میں سے کسی نے صحابہؓ یا رسم المصحف کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی۔ [جس کے مرتکب دو مصری تجدد پسند عبد العزیز فہمی اور مؤلف ’’الفرقان‘‘ ہوئے ہیں] (۸۰) بلکہ ان کا موقف اور مقصد صرف قراءت قرآن میں سہولت پیدا کرنا اور التباس اور خطا کے امکانات کو روکنا ہی معلوم ہوتا ہے۔

(۲۰) بہر حال امت کی غالب اکثریت کتابتِ مصحف میں رسم المصحف یا رسم عثمانی کی پابندی کی قائل رہی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن مصاحف کے اندر رسم عثمانی کی (عموماً غیر ارادی) خلاف ورزی موجود ہوتی ہے ان کے بھی سر ورق پر ’’مطابق رسم عثمانی”
لکھا ہوتا ہے (۸۱)۔اہل مشرق میں جو رسم عثمانی کی خلاف ورزی کی زیادہ مثالیں ملتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ نقل صحیح کا التزام کرنے کی بجائے حافطہ اور قیاس سے کام لینا ہے۔ پیشہ ورانہ عجلت بھی اس کا باعث بنتی ہے اور بڑا سبب کُتّابت مصاحف کی کم علمی اور کتابت کی ماہرانہ نگرانی اور پڑتال کا فقدان ہے۔ مصاحف کے مصححین حضرات بھی رسم کی اغلاط سے یا تو خود بھی بے خبر ہوتے ہیں یا رسم کی بجائے حرکات کی اغلاط پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نظریاتی حد تک لوگ ہمیشہ رسم عثمانی کے التزام کے قائل رہے ہیں۔ بلکہ محتاط کاتب نقل صحیح کی پابندی بھی کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ منقول عنہ نسخہ میں ہی اغلاط موجود ہوں (۸۲)۔

دور طباعت میں جب رسم عثمانی کی (عملی) مخالفت کی مثالیں بکثرت سامنے آنے لگیں (قلمی دور میں ان کا دائرہ محدود تھا) تو اہل علم میں اس کے تدارک کا داعیہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں علم الرسم کے قواعد کی پابندی پر مبنی بعض مصاحف تیار ہوئے (۸۳) جن میں مصری، شامی، سعودی، تونسی اور لیبی مصاحف قابل ذکر ہیں۔ تجدد پسندوں کی انتہا پسندی کے خلاف رد عمل کے طور پر بھی رسم عثمانی کے حق میں داعیہ کی تجدید کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

جہاں تک رسم عثمانی کی وجہ سے قراءت میں التباس والے اعتراض کا تعلق ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ علم الضبط کے ذریعے اس مشکل پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔ اور یوں بھی قرآن کریم کی تعلیم صرف کتابت پر کبھی منحصر نہیں رہی۔ اس کے لیے عہد نبوی سے جاری – تلقی وسماع کے طریقے پر استاد یا شیخ سے شفوی طور پر (زبانی) تلفظ اور اداء کا سیکھنا ناگریز ہے۔ بلکہ اس طریقے کے بغیر تو آپ کسی بھی زبان کا پڑھنا یا بولنا نہیں سیکھ سکتے۔

عرب ممالک کے خواندہ لوگوں کے لیے رسم الخط کی ثنویت (روزمرہ میں رسم قیاسی اور تلاوت میں رسم عثمانی سے واسطہ پڑنا التباس اور صعوبت کا باعث بنتی ہے۔ ورنہ دنیا میں لاکھوں(بلکہ شاید) کروڑوں ایسے مسلمان ہیں جو اسی رسم عثمانی کے مطابق (بیشتر مطابقت ہی ہوتی ہے) لکھے ہوئے مصاحف سے اپنے علاقے میں رائج علامات ضبط کی بنا پر ہمیشہ درست تلاوت کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ’’عوام‘‘ کا نام تو محض ایک “نعرہ” کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ورنہ ضرورت تو پڑھے لکھے عربی دانوں کو رسم قرآن سے شناسا کرنے کی ہے رسم قرآنی کو ترک کرنا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں (۸۴)۔ جب کہ رسم عثمانی کے التزام میں متعدد علمی اور دینی فوائد کا امکان غالب ہے (۸۵)۔ (۲۱) البتہ رسم عثمانی کے بارے میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کی بنیاد روایت پر ہے اور روایت میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک طرح سے ناگریز ہے۔ یہاں بھی اختلاف روایات موجود ہے۔ خود مصاحف عثمانیہ یا مصاحفِ امصار کے اندر طریق ہجاء اور املاء کے اختلافات سے علم الرسم کی کتابوں میں بحث کی جاتی ہے اور کتب رسم میں ایک اختلاف بیان کر کے عموماً ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ اب ہمارے ہاں فلاں صورت پر عمل کیا جاتا ہے۔ مثلاً المارغنی نے لکھا ہے کہ اس کی شرح مورد کی بنیاد ’’بیان ماجری بہ العمل فی قطرنا التونسی‘‘ (اہل تونس کے معمول بہ قواعد کا بیان) ہے۔ اسی طرح علی محمد الضباع نے اکثر جگہ اختلاف روایات بیان کر کے ساتھ اس قسم کے فقرے لکھے ہیں کہ ’’جری علیہ المغاربۃ‘‘ (اہل مغرب کا عمل اس پر ہے) یا مثلاً ’’علیہ جری عملنا‘‘ (ہمارا عمل اس پر ہے) یا مثلاً ’’وعلیہ العمل‘‘ (اور عمل اس پر ہے) (۸۶) وغیرہ۔

پھر علماء رسم میں کسی اختلاف کی صورت میں ترجیح راجح کے اصول بھی بعض دفعہ مختلف ہوتے ہیں مثلاً مصری، سعودی اور شامی علماء الدانی کے مقابلے پر (بصورت اختلاف) اس کے شاگرد ابو داؤدکے قول کو ترجیح دیتے ہیں [مصری، شامی اور سعودی مصاحف اسی اصول پر تیار ہوئے ہیں]۔مگر لیبیا والے ابو داؤد کے مقابلے پر الدانی کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ لیبیا سے حال ہی میں شائع ہونے والے “مصحف الجماھیریہ” میں کم وبیش ۱۳۶ مقامات پر الدانی کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے مصری یا سعودی مصحف کی (رسم میں) مخالفت کی گئی ہے (۸۷)۔ اس مخالفت سے قراءت یا تلفظ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(۲۲) پاکستان میں حکومت اور ناشرین قرآن – دونوں ہی رسم قرآنی یا رسم عثمانی کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ سعودی علماء علم الضبط اور علم الرسم میں فرق ہی نہیں کر سکے۔ اور وہ اپنے یا عرب ملکوں کے ضبط کو وحی کا درجہ دیتے ہیں۔ اور اس کے مخالف ضبط والے مصاحف کا اپنی مملکت میں داخلہ بند کر دیا ہے اور عوام کے لیے تلاوتِ قرآن جیسے کام میں رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

1986ء میں مؤلف حج کے لیے گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں انہوں نے سعودی علماء سے پاکستان میں طبع شدہ مصاحف کے ضبط اور رسم کے صحیح ہونے پر سیر حاصل بحث کی۔ الحمدللہ اسی کے نتیجہ میں 1988ء سے مکتبہ ملک فہد مدینہ منورہ سے پاکستان میں رائج ضبط اور رسم کے مطابق قرآن شائع ہوا‘ جو اب تمام دنیا میں ملتا ہے۔ (مرتب)

ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئےضرورت اس امر کی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان میں اہل علم کا ایک بورڈ [ضروری نہیں کہ وہ منظور شدہ سرکاری ’’علماء‘‘ ہوں]
علم الرسم
الرسم کی روشنی میں متفق علیہ کلمات کی ایک فہرست تیار کرے اور پھر مختلف فیہ کلمات کی ایک پوری فہرست بنائی جائے۔ خصوصاٍ جن کا تعلق کوفی مصحف یا قراءت حفص سے ہو۔ کیونکہ اس علاقے میں یہی رائج ہیں۔ اور اگر باقی تمام مصاحف پر مبنی اور رائج رسماً مختلف فیہ کلمات کی فہرست بھی بن جائے تو یہ ایک مزید علمی خدمت ہو گی۔ اس طرح تمام مختلف فیہ کلمات کی بھی ایک جامع فہرست بن جائے جس میں اختلاف کی تمام مروی صورتیں جمع کر دی جائیں۔ اس کے بعد کتابت مصاحف کی نگرانی کا ایسا بندوبست کر دیا جائے کہ کم از کم متفق علیہ امور کی خلاف ورزی ہرگز نہ ہونے پائے۔ اور مختلف فیہ کلمات کی مروی دو یا تین صورتوں میں سے ہی کسی ایک صورت کا اختیار کرنا لازمی ہو۔ اور اس میں چاہے اپنے علاقے کے مصحف (یعنی کوفی) کے رسم کو ترجیح دی جائے۔ بہرحال بیان کردہ اور مروی مختلف فیہ صورتوں سے باہر کوئی صورت اختیار نہ کی جائے۔

اگر حکومت پاکستان کو خدا یہ توفیق دے (ویسے یہ اس کی دستوری ذمہ داری بھی ہے) کہ وہ ان اصولوں کے مطابق رسم عثمانی کے التزام پر مبنی ایک نسخہ قرآن (کا مسودہ) تیار کرائے یا بطور نمونہ ہی محدود تعداد میں شائع کر دے۔ اس کے بعد تمام ناشرین کو رسم کی حد تک اسی کے اتباع کا پابند کر دے (۸۸)۔ البتہ اس کے لیے ضبط کی علامات وہی اختیار کی جائی جو برصغیر میں عام طور پر رائج ہیں۔ ہاں اگر کہیں اس سے بہتر علامت ضبط ملے تو اسے بھی اختیار کر لینا چاہیئے۔ یا ضرورتاً کوئی نئی علاماتِ ضبط ایجاد بھی کی جا سکتی ہیں۔ تاہم عملاً اس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ہمارا نظام ضبط عرب ملکوں میں رائج ضبط سے زیادہ ترقی یافتہ بھی ہے اور ہمارے لوگوں کے لیے موزوں اور مانوس بھی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ویسے بھی اپنے اسلامی تشخص کی بناء پر پاکستان کا اس معاملے میں اپنے برادر اسلامی ملکوں سے پیچھے رہ جانا کوئی عزت کی بات نہیں ہے۔

حوالے اور حواشی

۱۔ لبیب ص: ۲۴

۲۔ یوسف علی (مقدمہ) ص: ۹

۳۔ مصحف
(مثلث المیم)
کے معنی ہیں جامع المصحف۔ اس اصطلاح کے اندر تدوین و جمع قرآن کی پوری داستان جھلکتی نظر آتی ہے [مصحف او مصحف کے معنی اور ان کے باہمی تعلق کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے D e n f f e r ص: ۴۴ اور دلیل ص۱۶]۔ عہد خلافت راشدہ خصوصاً عہد عثمانی سے لفظ ’’مصحف‘‘ نسخۂ قرآن کے معنی میں استعمال ہوتا چلا آیا ہے اس کی جمع ’’مصاحف‘‘ ہے۔ جہاں ’’نسخہ ہائے قرآن‘‘ کہنا ہو، اس کے لیے یہی لفظ (مصاحف) استعمال کرنا چاہیے۔ قرآن کی جمع ’’قرآنوں‘‘ یا ’’قرآن ھا‘‘ یا “Qurans “کا استعمال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن متعدد نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔

۴۔ دلیل ص: ۴۰، سمیر : ص: ۲۷، غانم ص: ۱۵۵

۵۔
’’املاء‘‘
بھی عربی لفظ ہے اور اس کے معنی “لکھوانا” یا (Dictation) کے ہیں۔ تاہم اردو فارسی میں یہ لفظ انگریزی Spelling کے مترادف ہے۔ عربی میں اس مقصد کے لیے لفظ ’’ھجاء‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ عربی میں اسی لفظ کے کچھ اور معنی بھی ہیں۔ ۶۔ مذکورہ الفاظ میں سے
’’الکتابۃ، الخط، الزبر، السطر اور الرقم‘‘ سے افعال اور مشتقات قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔

۷۔ مقدمہ ج: ۱ ، ص: ۷۸۴

۸۔ قلقشندی ج: ۳ ص: ۱۷۲

۹۔ حضرت عثمانؓ نے خود کوئی مصحف نہیں لکھا تھا۔ یہ مصاحف (عثمانیہ) ان کے حکم سے تیار کرائے گئے تھے۔ اس لیے ان کے طریق املاء کے لیے ’’رسم عثمانی‘‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ جن لوگوں کو بوجوہ یہ اصطلاح پسند نہیں وہ رسم مصحف یا رسم قرآنی وغیرہ کہہ لیتے ہیں۔ مراد سب کی ایک ہی ہے یعنی ’’علم الرسم‘‘۔

۱۰۔ تلخیص ص: ۵

۱۱۔ المیسر (مقدمہ)‘ ص: اول

۱۲۔ دلیل‘ ص: ۴۰، سمیر‘ ص: ۳۰

۱۳۔ تجزیہ روایات کے لیے دیکھئے البری‘ ص ۴۳- ۴۵ اور غانم‘ ص: ۱۲۶

۱۴۔ نیز دیکھئے Denffer ‘ ص: ۵۴- ۵۵، جہاں مراحل جمع قرآن کی ترتیب زمانی کو ایک سادہ مگر عمدہ چارٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۵۔ دلیل‘ ص: ۱۵-۱۶

۱۶۔ البری ‘ ص: ۴۵ ببعد، دلیل‘ ص: ۱۸

۱۷۔ البری‘ ص: ۴۷

۱۸۔ دلیل‘ ص:۱۹

۱۹۔ سمیر ‘ ص: ۱۷

۲۰۔ تفصیل کے لیے دیکھئے غانم‘ ص: ۱۹۸ اور‘ ص: ۷۳۰

۲۱۔
نخبہ
‘ ص: ۲۳

۲۲۔ یہی کتاب
(نخبہ)‘
ص: ۵۷-۵۸

۲۳۔ ابن درستویہ (ت ۳۴۶ھ) نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا ہے کہ اس سے پہلے لوگوں نے اپنی اپنی رائے کے مطابق اصول املاء وضع کئے جن میں بہت سے غلط بھی ہیں۔ اور یہ کہ اس نے اپنی کتاب کو قیاس نحوی سے زیادہ قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے ابن درستویہ‘ ص:۶

۲۴۔ ابن الندیم نے اس قسم کی کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے مثلاً ابو حاتم سجستانی کی کتاب
الخط والھجاء(الفہرست‘ ص:۸۸)
ابن درستویہ کی کتاب
المتمم
اور کتاب
الھجاء (الفہرست‘ ص: ۹۴-۹۵)
اور الکسائی کی کتاب
الھجاء (الفہرست‘ ص: ۹۸)
وغیرہ اس قسم کی مزید کتابوں کے ذکر کے لیے دیکھئے
غانم‘ ص: ۷۳۱ ببعد۔

۲۵۔ غانم‘ ص: ۱۹۸

۲۶۔ اس زمانے تک پیشہ ورانہ اور فنی خطاطی کی طرف بھی پیش رفت شروع ہو گئی تھی۔ تابعین میں سے ابو حکیمہ، مطر اور مالک بن دینار کی عمدہ خطاطی اور (پیشگی طے کئے بغیر) اجرت پر مصاحف لکھنے کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھئے
المصاحف‘ ص: ۱۳۰-۱۳۲

۲۷۔ الکردی‘ ص: ۱۳۳

۲۸۔ یہ واقعہ علم الرسم کی قریباً تمام کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے مثلاً دیکھئے
المقنع‘ ص: ۹، الکردی‘ ص: ۱۰۳-۱۰۴، دلیل‘ ص: ۲۳-۲۴، غانم‘ ص: ۱۹۹ اور سمیر‘ ص: ۱۸

۲۹۔ الخلیفہ‘ ص: ۲، دلیل‘ ص: ۴۱، سمیر‘ ص: ۲۷

۳۰۔ اور اس زمانے میں لوگ خصوصاً اہل علم تعلیمی اور دینی و علمی اغراض کے لیے حرمین میں فی الواقع طویل قیام کیا کرتے تھے۔ نہ تو آج کل کی طرح چالیس دن کے اندر حرمین سے نکل جانے کی پابندی تھی اور نہ ہی وہ لوگ خریداری (Shopping) کے دلدادہ ہوتے تھے۔

۳۱۔ اس قسم کے املائی اختلافات کی مزید یکجا امثلہ کے لیے دیکھئے الفرقان‘ ص: ۶۴، الکردی‘ ص: ۱۲۸-۱۳۱، اور المیسر (مقدمہ)‘ ص:’’و‘‘ ، ’’ز‘‘
اور ویسے تو علم الرسم کی ہر کتاب اسی قسم کے اختلافات کے بیان سے بھری پڑی ہے۔

۳۲۔ اور اس کی بڑی وجہ غالباً اس بارے میں امام مالکؒ کا مشہور فتوی بھی تھا۔ افریقہ اور اندلس میں زیادہ تر فقہ مالکی ہی رائج ہوئی اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں اب تک غالب اکثریت اسی مذہب (فقہ) کی پیرو ہے۔

۳۳۔ تفصیل کے لیے دیکھئے نامہ آستان‘ ص: ۱۵-۱۹

۳۴۔ ابن الندیم کے مذکورہ بالا حوالوں کے لیے دیکھئے الفہرست‘ ص: ۵۴، ص: ۵۵ اور ص: ۸۷۔

۳۵۔
المقنع‘ ص: ۲۲، ص: ۲۳

۳۶۔
غانم‘ ص: ۱۷۲-۱۷۳

۳۷۔ دیکھئے
المورد‘ ص: ۲۷۱ تا ۳۱۶

۳۸۔ الفہرست
‘ ص: ۸۷ ، ۹۸، ۱۰۰ اور ۱۱۲

۳۹۔ دلیل‘ ص: ۲۵-۲۶، غانم‘ ص: ۱۷۴

۴۰۔ غانم‘ ص۱۵۶
جس میں لکھا ہے کہ
’’ویظھر فیہ نزوع شدید الی استخدام مادۃ (رسم) للدلالۃ۔ خاصۃ علی خط القرآن‘‘۔

۴۱۔ یہ کتاب غالباً طبع ہو چکی ہے اگرچہ اشارہ واضح نہیں ہے۔ دیکھئے
المورد‘ ص: ۴۱۳

۴۲۔ دیکھئے ان مصاحف کے ضمیمہ ہائے
’’التعریف‘‘ – مصری مصحف‘ ص:’’د‘‘ سعودی مصحف’ ص:’’ أ ‘‘ اور لیبی مصحف‘ ص: ’’ج‘‘ اور ’’و‘‘۔

۴۳۔ غانم‘ ص: ۳۸۸ اور ص: ۱۷۹۔
ادارہ تحقیقات اسلامی کے مخطوطہ میں کنیت ’’ابن الطاہر‘‘ اور باب کا نام طاہر کی بجائے ’ظافر‘‘ لکھا ہے اور کتاب کا نام ’’فی مرسوم خط المصحف مرتباً علی سور القرآن الکریم‘‘ دیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے اسی مخطوطہ سےا ستفادہ کیا ہے۔

۴۴۔ البرھان: ج:۱ ‘ ص: ۳۸۰-۴۳۰۔
نیز اس پر تنقید کے لیے دیکھئے
صبحی‘ ص: ۲۷۷ اور المیسر (مقدمہ)‘ ص: ’’ ی‘‘ ، ’’ و‘‘ ، ’’ ک‘‘
اور اس کی بعض تعلیلات پر تبصرہ کے لیے دیکھئے
الکردی‘ ص: ۱۵۴-۱۵۶

۴۵۔ دیکھئے
المورد‘ ص: ۴۱۳- ۴۳۲

۴۶۔ ان چار مخطوطات میں سے نمبر ۲ (جامع الکلام…..) کا ذکر غانم قدوری نے اپنی کتابیات میں کیا ہے
(غانم‘ ص: ۷۸۹)۔
باقی کا ذکر مجلہ
المورد العدد العاشر ۱۹۸۱ء
میں شائع ہونے والے ابتسام مرھون الصفار کے ایک تحقیقی مضمون بعنوان ’’معجم الدراسات القرآنیۃ المطبوعہ والمخطوطہ‘‘ میں آیا ہے۔

۴۷۔ تفصیل کے لیے دیکھئے
غانم‘ ص: ۱۸۴-۱۸۵

۴۸۔ زرکلی نے اس کا نام
’’خمیلۃ ارباب المقاصد‘‘
لکھا ہے (زرکلی‘ ج:۱ ، ص: ۴۹) اور غانم قدوری نے اپنی کتابیات میں اس مخطوطہ کا نام خمیلہ (جمیلہ) دونوں طرح لکھا ہے۔ علم الرسم میں الجعبری کے اپنے قصیدہ لامیہ ’’روضۃ الطرائف‘‘ کا الگ ذکر اوپر پیراگراف ۱۲ میں نمبر ۱۰ پر ہو چکا ہے۔

۴۹۔ غانم‘ ص: ۱۷۸

۵۰۔ ذرا دیکھئے
ابن درستویہ‘ ص: ۷ تا ۹۔
(فہرست مندرجات) اسی سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ قواعد خمسہ ہی وہاں بھی موجود ہیں۔

۵۱۔ ان مؤلفین اور ان کی کتب کا تعارف مقالہ ھذا کے پیراگراف نمبر ۱۱ اور نمبر ۱۲ میں کرایا جا چکا ہے۔

۵۲۔
العقیلی‘ ورق: ۵/الف

۵۳۔ ان کتابوں کا اجمالی ذکر اسی مقالہ کے پیراگراف نمبر ۱۲ میں گزر چکا ہے۔ ارکاٹی اور العقیلی کی کتاب (مخطوطے کا فوٹو سٹیٹ) مقالہ نگار کے پاس موجود ہیں۔ باقی کتابوں کے بارے میں غانم قدوری کے بیان پر اعتماد کیا گیا ہے دیکھئے
غانم‘ ص: ۱۸۶۔

۵۴۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے
غانم‘ ص: ۷۳۴-۷۳۵

۵۵۔
‘ ص: ۲۳-۲۵، الزرقانی‘ ص: ۳۷۰ و‘ ص: ۳۷۵، الکردی‘ ص: ۱۹۳ ا
اور خصوصاً
‘ ص: ۲۲۵-۲۲۷۔
ان میں سے اکثر نے صاحب الابریز شیخ عبد العزیز الدباغ کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے۔

۵۶۔ نمونہ کے لیے دیکھئے
البرھان‘ ص: ۳۸۰ ببعد اور الکردی‘ ص: ۱۵۴ ببعد۔

۵۷۔
الکردی‘ ص: ۲۲۴ ببعد۔
خصوصاً الکردی کے ایک سوال کے جواب میں حبیب اللہ شنقیطی مرحوم کا خط جو مؤلف نے پورا شائع کر دیا ہے۔ نیز مؤلف نے نظریۂ توقیف کے ناقابل قبول ہونے پر نہایت عمدہ دلائل دیئے ہیں۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہ پوری بحث مقالہ میں لے آتے۔ جو الکردی ص‘ ۹۸- ۲۰۱ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

۵۸۔ ہم نے یہاں ابن خلدون کی رائے کی صرف تلخیص پیش کی ہے۔ مکمل بحث مقدمہ‘ ص: ۷۴۷-۷۴۸ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

۵۹۔ اس کی ایک مثال سمیر‘ ص: ۲۱ پر ملتی ہے جہاں مؤلف نے ابن خلدون کا ادھورا اقتباس دے کر اس کے نظریہ کو ’’افراط‘‘ اور صحابہؓ کی شان کے منافی قرار دیا ہے۔

۶۰۔
الفرقان‘ ص: ۵۴ تا ‘ ص: ۹۱۔
نیز دیکھئے غانم‘ ص: ۲۱۲۔ جہاں اس کتاب کا پورا قصہ لکھا ہے۔

۶۱۔ اس کی ایک مثال مصری مؤلف عبد الجلیل عیسٰی ہیں۔ جنہوں نے ابن خلدون کو داد دی ہے۔ دیکھئے
المیسر (مقدمہ)‘ ص: ’’ ی‘‘ تا ’’ ل‘‘۔

۶۲۔ یہ فھمی صاحب، مصطفی کمال کی طرح، عربی کو بھی بحروف لاطینی لکھنے کے پرجوش حامی تھے اس کے لیے اس نے ایک کتاب
’’الحروف اللاتینیۃ لکتابۃ العربیۃ ‘‘ (قاہرۃ ۱۹۴۴ء)
لکھی جس میں اس نے رسم المصحف کو سخیف (احمقانہ) لکھا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے
غانم‘ ص: ۲۱۲۔

۶۳۔ اردو میں غالباً اب تک اس موضوع پر بھی کوئی قابل ذکر تحقیقی کام (یا کسی ایسے کام کا ترجمہ تک) نہیں ہوا ہے۔ انگریزی (اور بعض دوسری یورپی زبانوں میں بھی) اور عربی میں اس پر اچھا مواد دستیاب ہے مثلاً صلاح الدین المنجد، سھیلہ الجبوری، نیبہ عبود، صفدی، ماری شمل اور غانم قدوری کی تالیفات قابل ذکر ہیں۔

۶۴۔
نامی‘ ص: ۷، عبود‘ ص: ۱۴،۳،۲۔ ذنون‘ ص: ۷ ببعد اور نقشبندی‘ ص: ۲۰۳ ببعد۔

۶۵۔
المنجد ‘ ص: ۱۹ اور المورد‘ ص: ۳۹-۴۱

۶۶۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ہمارے ہاں انگریزی کے دو ہجاء، برطانوی اور امریکی رائج ہیں۔ بلکہ اردو کے بھی دو ہجاء چلتے
ہیں ایک عام معروف ہجاء اور دوسرا انجمن ترقی اردو کا سرکاری ہجاء۔

۶۷۔ دیکھئے مقالہ ھذا کا حاشیہ نمبر ۲۴

۶۸۔ رسم قیاسی کی اتنی ترقی اور استحکام کے باوجود املاء کے بعض طریقوں میں رسم قیاسی کے مقابلے پر آج بھی رسم قرآنی زیادہ علمی اور زیادہ سائنٹفک ہے مثلاً ’’اشترلہ‘‘ کے قرآنی رسم کے مقابلے پر رسم قیاسی کا ’’اشتراء‘‘ علمی اعتبار سے یقیناً ناقص ہے مزید مثالوں کے لے دیکھئے مقالہ ھذا کا پیراگراف نمبر ۹ کے آخر پر دی گئی فہرست کلمات۔

۶۹۔
القاضی‘ ص: ۷۹ ببعد، الخلیفہ‘ ص: ۲ اور مجلۃ الکلیہ‘ ص: ۳۴۲ ببعد۔

۷۰۔ سمیر ‘ ص : ۱۸-۲۰، مجلہ الکلیہ‘ ص: ۳۴۲، الزرقانی‘ ص: ۳۷۲

۷۱۔ القاضی‘ ص: ۸۴

۷۲۔ نامہ آستان
‘ ص: ۱۵، تجوید القرآن‘ ص: ۷

۷۳۔ یہ “حفاظت ورثہ” والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسم قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’’نقطہ توجہ‘‘ یہ لکھا کہ “آثار سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضہ اولین ہے۔ ’’یہی وجہ ہے کہ انگریز شکسپیئر (یا دوسرے قدیم شعرا مثل چوسر وغیرہ) کا کلام ان ہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے۔ حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے۔ تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘ واقعہ کی اصل روایت کے لیے دیکھئے
القاضی‘ ص: ۸۶-۸۷۔

۷۴۔ الزرقانی‘ ص: ۳۷۳-۳۷۴۔ جہاں الانتصار للباقلانی کا ایک طویل اقتباس بھی دیا گیا ہے۔

۷۵۔
القاضی‘ ص: ۷۹-۸۰، مجلۃ الکلیہ‘ ص: ۳۴۸۔
قریباً یہی بات امام مالکؒ نے کہی تھی کہ بچوں کی تعلیم کے لیے رسم عثمانی سے ہٹ کر لکھنا جائز ہے (دیکھئے
دلیل‘ ص: ۲۴)

۷۶۔
القاضی‘ ص: ۸۲-۸۳

۷۷۔
القاضی‘ ص: ۸۰ ۰بحوالہ التبیان) ، الکردی‘ ص: ۱۹۷-۱۹۸

۷۸۔ افریقی ممالک میں بچہ جتنا حصہ قرآن پڑتا ہے وہ تختی پر نقل کر کے استاد کو دکھاتا بھی ہے۔ بلکہ اس مقصد کے لیے وہاں حروف سے بھی پہلے مکمل کلمات کا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ اس چیز سے وہاں مصحف کی نقل صحیح اور رسم عثمانی کی حفاظت کی روایت قائم ہو گئی ہے۔ جسے بوجوہ اہل مشرق برقرار نہیں رکھ سکے۔

۷۹۔
القاضی‘ ص: ۸۱۔
ہم اس پر ابھی پیراگراف ۸۱کے آخر پر تنقید اور تبصرہ کر چکے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ دوبارہ اسے بھی مستحضر کر لیا جائے۔

۸۰۔ ان دونوں کے متعلق بھی پیراگراف ۱۸ میں ’’دوسرا نظریہ‘‘ کے تحت بات ہو چکی ہے۔ نیز دیکھئے حاشیہ نمبر ۶۰ مقالہ ھذا۔

۸۱۔ مثلاً راقم الحروف کے پاس بمبئی سے مطبوعہ دو مصحف (ایک ۱۲۸۹ھ کا اور دوسرا ۱۳۰۴ھ کا) ایسے موجود ہیں جن پر صرف رسم عثمانی نہیں بلکہ
’’مصحف سیدنا عثمان‘‘
کے رسم سے موافقت کا خصوصی ذکر ہے۔ مگر وہ رسم کی اغلاط سے یکسر میرا نہیں ہیں۔

۸۲۔ راقم الحروف نے ایک دفعہ پیر عبد الحمید مرحوم سے (جو تاج کمپنی کے مشہور کاتب مصاحف تھے) یہ پوچھا کہ ’’آپ کتابت مصحف میں رسم عثمانی کا التزام کس طرح کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رسم عثمانی سے یکسر بے خبری کا اظہار کیا۔ میرے دوبارہ سوال پر کہ ’’پھر آپ کے پاس کلمات قرآن کی ٹھیک املاء اور درست ہجاء کا کیا معیار ہے؟‘‘ تو انہوں نے بتایا کہ ’’میں اور کچھ نہیں جانتا صرف انجمن حمایت اسلام کا مطبوعہ نسخہ قرآن سامنے رکھ کر ٹھیک ٹھیک نقل کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ انجمن کا یہ نسخہ اپنی صحت کی بجا شہرت رکھتا ہے اگرچہ رسم کے نقطہ نظر سے وہ بھی اغلاط سے خالی نہیں ہے۔

اس مقابلے پر راقم الحروف ہی کے پاس ضلع جھنگ کے ایک صاحب علم کاتب کا لکھا ہوا ایک خاندانی قلمی مصحف ایسا بھی ہے جس میں کاتب خاص خاص جگہوں پر بین السطور یا حاشیہ میں ’’بحذف الف‘‘ یا ’’بزیادۃ الواو‘‘ وغیرہ کا نوٹ دے کر بعض دفعہ ساتھ کسی اہم کتاب الرسم مثلاً ’’العقیلہ‘‘ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

۸۳۔
اس قسم کے مصاحف کی تیای کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے دیکھئے القاضی:۹۱-۹۴، غانم‘ ص:۶۰۱-۶۰۹۔

۸۴۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے
الزرقانی‘ ص: ۳۹۰ ببعد۔

۸۵۔ تفصیل کے لیے دیکھئے
سمیر‘ ص: ۲۲-۲۳۔ القاضی‘ ص: ۸۶-۸۷
اور
الزرقانی‘ ص: ۳۶۶ ببعد

۸۶۔ دیکھئے
دلیل‘ ص: ۵ اور سمیر‘ ص: ۶۷،۵۰،۴۰،۳۶
اور ۷۶ وغیرہ متعدد مقامات پر۔

۸۷۔ دیکھئے مقالہ ھٰذا کا حاشیہ نمبر ۴۲۔

۸۸۔ الازھر کی مجلس فتویٰ کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ
مجلۃ الازھر
) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسم عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے۔ اس کے بعد سے طباعت مصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہو گئی ہے۔ مگر جدید اور قیاسی املاء کے عادی خواندہ لوگوں کے لیے رسم قرآنی میں کیسے سہولت پیدا کی جائے؟ اس سوال کا ایک جواب تو دقت نظر سےاختیار کردہ علامات ضبط کا نظام ہے۔ دوسرا علاج اس کا الازھر والوں نے ۱۳۶۸ھ میں ایک دوسرے فتویٰ کی صورت میں دیا جس کی روسے یہ جائز قرار دیا گیا کہ اصل متن تو رسم عثمانی کے مطابق ہی رہے مگر نیچے ذیل (فٹ نوٹ) کے طور پر ’’مشکل‘‘ کلمات کو جدید املاء یا رسم معتاد کی شکل میں الگ بھی لکھ دیا جائے۔ چنانچہ عبد الجلیل عیسی کے حاشیہ کے ساتھ ’’المصحف المیسر‘‘ اس اصول پر علماء الازھر کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا تھا۔ یہ بھی اس مسئلہ کا ایک عمدہ حل ہے۔ تاہم غالباً پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں۔ یہ پڑھے لکھے عربوں کے مسئلہ کا حل ہے۔ ہمارے ہاں رسم عثمانی کا مکمل التزام درکار ہے۔ اور اس کے پڑھنے کے لیے ہمارا نظام ضبط اور استاد کی تعلیم کافی ہے۔

“مفتاح المـــراجـع” مقالہ کی تیاری میں جن کتب اور مجلات وغیرہ سے مددل لی گئی ہے۔ تکرار میں طوالت سے بچنے کے لیے ان کے حوالے اختصار کے ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ ذیل میں ان تمام حوالوں کی ’’مفتاح‘‘ ابجدی ترتیب کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ اس میں بیان کتابیات کے روایتی طریقے پر ہر ایک حوالے کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں۔

۱۔ البرھان: امام بدردین الزرکشی۔ البرھان فی علوم القرآن ۔ عیسی البابی۔ القاھرہ- ۱۹۵۷ء۔

۲۔ البری: عبد اللہ خورشید البری ـــ القرآن وعلومہ فی مصر دار المعارف القاھرہ، ۱۹۶۹۔

۳۔ تجوید القرآن: علی بن محمد الحسینی کا رسالہ تجوید القرآن بزبان فارسی-
یہ رسالہ ایک ایرانی مصحف
مترجم بترجمہ آقائی معزی
کے ساتھ شامل ہے جسے کتاب فروشی اسلامی تہران نے ۱۳۷۷ ھ میں شائع کیا تھا۔

۴۔ تلخیص: علی بن عثمان ابن القاصح ــــ تلخیص الفوائد وتقریب المتباعد (شرح العقیلہ للشاطبی) مصطفی البابی- القاھرہ، ۱۳۶۸ء۔

۵۔ الخلیفہ: دکتور یوسف الخلیفہ ابو بکر السودانی کا مقالہ ’’الرسم القرآنی وصعوبات التعلیم الناتجۃ عنہ‘‘ جو سعودی عرب کے اخبار ’’المدینۃ المنورہ‘‘ کی اشاعت ۱۲ شوال ۱۴۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔

۶۔ ابن درستویہ: عبد اللہ بن جعفر الشھیر بابن درستویہ کتاب الکتّاب. مطبعہ کاثولیکیہ بیروت، ۱۹۲۷ء۔

۷۔ دلیل: ابراہیم بن احمد المارغنی- دلیل الحیران شرح مورد الضمآن- مکتبہ الکلیات الزھریۃ القاھرہ- ت (سنہ ندارد)۔

۸۔ ذنون: یوسف ذنون الموصلی کا مقالہ
’’قدیم وجدید فی اصل الخط العربی وتطورہ فی عصورہ المختلفہ‘‘

جو عراق کے مجلہ ’’العد الرابع‘‘ ھ میں شائع ہوا۔

۹۔ الزرقانی: عبد العظیم الزرقانی: مناھل العرفان فی علوم القرآن- عیسی البابی، القاھرہ، ۱۳۷۲ھ۔

۱۰۔ الزرکلی: خیر الدین الزرکلی، الاعلام- الطبقہ الثالثہ- بیروت، ب- ت (سنہ ندارد)

۱۱۔
سعودی مصحف: سعودی حکومت کا شائع کردہ

۱۲۔
سمیر: علی محمد الضباع، سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین، مکتبہ ومطبعۃ المشھد الحسینی- القاھرہ ب ت (سنہ ندارد)۔

۱۳۔
صبحی: دکتور صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، دار العلم للملایین- بیروت، ۱۹۶۴ء۔

۱۴۔
عبود: انگریزی مراجع میںAbbot Nabia دیکھئے۔

۱۵۔
العقیلی: ابن الطاھر اسماعیل بن ظافر العقیلی- ’’فی مرسوم خط المصاحف‘‘
ادارہ تحقیقات اسلامی کا مخطوطہ [مقالہ کا پیراگراف ۱۲ (۶) اور حاشیہ ۴۳ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔]

۱۶۔
غانم: غانم قدوری الحمد، رسم المصحف، دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ- بغداد، ۱۴۰۲ھ
یہ کتاب عراق کی ھجرہ کمیٹی نے شائع کی ہے۔

۱۷۔
الفرقان: محمد محمد عبد اللطیف (ابن الخطیب) الفرقان، مطبعۃ دار الکتب المصریہ، القاھرہ، ۱۳۶۷ھ –
ء (حاشیہ ۶۰ اور ۸۰ پر بھی نظر ڈال لیجئے)۔

۱۸۔
الفہرست: ابن الندیم الفہرست، المطبعہ الرحمانیہ بمصر، القاھرہ، ۱۳۴۸ھ۔

۱۹۔
القاضی: عبد الفتاح القاضی، تاریخ المصحف الشریف، مکتبہ ومطبعۃ المشھد الحسینی، القاھرہ، ب – ت
(سنہ ندارد)

۲۰۔
قلقشندی: ابو العباس احمد بن علی القلقشندی- صبح الاعشی فی کتابۃ الانشاء- وزارۃ التقافۃ والارشاد القومی- مصر ۱۹۶۳۔

۲۱۔
الکردی: محمد طاھر بن عبد القادر الکردی الخطاط- تاریخ القرآن- غرائب رسمہ وحکمہ- مصطفی البابی- القاھرہ، ۱۳۷۲ھ – ۱۹۵۳ء۔

۲۲۔
لبیب: دکتور لبیب السعید۔ الجمع الصوتی الاول للقرآن، دار المعارف القاھرہ، ب ت ۔

۲۳۔
لیبی مصحف: حکومت لیبیا کا شائع کردہ ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ ، طرابلس، ۱۹۸۶ء۔

۲۴۔
مجلۃ: مجلۃ کلیۃ القرآن الکریم والدراسات الاسلامیۃ بالجامعۃ الاسلامیۃ، (المدینۃ المنورہ) العدد الاول، ۱۴۰۲ھ۔

۲۵۔
المصاحف: ابن ابی داؤد السجستانی- کتاب المصاحف- المطبعہ الرحمانیہ بمصر، ۱۳۵۵ھ – ۱۹۳۶ء۔

۲۶۔
مصری مصحف: حکومت مصر کا شائع کردہ ’’مصحف الملک‘‘ القاھرہ، ۱۳۷۷ھ۔

۲۷۔
مقدمہ: علامہ عبد الرحمن ابن خلدون- مقدمہ کتاب العبر، دار الکتاب اللبنانی، بیروت، ۱۹۶۱ء۔

۲۸۔
المنجد: دکتور صلاح الدین المنجد، دراسات فی تاریخ الخط العربی، منذ بدایتہ الی نھایۃ العصر الاموی- دار الکتاب الجدید- بیروت، ۱۹۷۳ء۔

۲۹۔
المورد: وزارۃ الثقافۃ والاعلام- عراق کے سرکاری مجلہ المورد کا عدد خاص-
العد د الرابع، ۱۴۰۷-
۱۹۸۶ء [المورد کے ۱۹۸۱ء کے ایک عدد سے بھی کچھ استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر وہیں کر دیا گیا ہے]۔

۳۰۔
المیسر: عبد الجلیل عیسی المصحف المیسر دار القلم، القاھرہ ، ۱۳۸۲ھ۔

۳۱۔
نامی: خلیل یحیی نامی کا مقالہ ’’اصل الخط العربی وتاریخ تطورہ الی ما قبل الاسلام‘‘ جو مجلہ کلیہ الآداب- الجامعہ المصریہ کے شمارہ مئی ۱۹۳۵ میں شائع ہوا تھا۔

۳۲۔
نخبہ: عبد الفتاح الخلیفہ- نخبۃ الاملاء- مطبعۃ المعاھد بمصر، القاھرہ، ۱۳۴۵ھ- ۱۹۲۶ء

۳۳۔
نقشبندی: اسامہ ناصر النقشبندی کا مقالہ ’’مبدأ ظہور الحروف العربیۃ وتطورھا لغایۃ القرن الاول الھجری‘‘ جو عراق کے مجلہ المورد- العد د الرابع ۱۴۰۷ھ میں شائع ہوا ہے۔

۳۴۔ نامۂ آستان: نامۂ آستان قدس، مشھد- ایران، شمارہ ۱ و ۲ دورہ نہم (محرم صفر ۱۳۹۱ھ)۔

۳۵۔ یوسف علی: دیکھئے انگریزی میں Yusuf Ali

ENGLISH REFERENCES

1. ABBOT, NABIA: The Rise of the North Arabic Script and its Karanic Development Chicago, 1939.
2. DENFFER, Ahmad Von: An Introduction to the Sciences of the Quran Islamic Foundation, Leicester (U.K), 1973.
3. Yusuf Ali, Allam.A: The Holy Quran, Translation & commentary. Islamic Centre, Washington D.C (N.D).