سیرتِ طیبہ

سیرتِ مصطفیﷺ میں عصر حاضر کے لیے پیغام

’’قول و فعل میں مطابقت کی ضرورت اور اہمیت‘‘

پروفیسرحافظ احمد یارؒ

فرمان باری تعالیٰ ہے :{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ. کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ} (الصف)

’’مؤمنو! ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔ اللہ اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔‘‘

منارِ رشد و ہدایت سحاب ِرحمت و ُجود
مرے رسولؐ کا اُسوہ ‘ مرے نبی کا وجود
(تائب)

بادی ٔالنظر میں اس کانفرنس کا مرکزی موضوع ’’سیرتِ مصطفیﷺ میںعصر حاضر کے لیے پیغام‘‘ اس لحاظ سے کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ آنحضورﷺ تو اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل پیغام پہنچا چکے۔ ۲۳ برس آپؐ نے اپنے قول وفعل سے اللہ کے پیغام کی اس طرح تبلیغ فرمائی کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ’’اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟” کہہ کر لاکھوں کے مجمع سے اس حقیقت پر اور اپنی صداقت پر گواہی لے لی‘ اور پھر ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ‘‘ فرما کر قیامت تک کے لیے اللہ کے پیغام کو آگے پہنچانے اور پھیلانے کے لیے تمام مسلمانوں کو خود اپناپیغامبر مقرر فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے بھیجے ہوئے اس پیغام کو لفظاً و معناً قرآن کریم اور صاحب ِخلق قرآن کی سیرت‘ یعنی کتاب و سنت کی صورت میں محفوظ رکھنے کا وعدہ اپنے ذمہ لیا اور چودہ سو برس اس وعدہ کی صداقت پر شاہد عدل ہیں۔ کتاب و سنت سے ملنے والا یہ پیغام اور یہ ہدایت‘ تمام انسانوں اور سب زمانوں کے لیے ہے۔ پھر عصر حاضر کے لیے اب کوئی نیا پیغام دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہر زمانے اور ہر نسل کے کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں جو بعض دوسرے مسائل سے زیادہ نمایاں اور زیادہ توجہ طلب ہوتے ہیں یا کچھ خرابیاں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں باقی سب خرابیوں کا سبب بھی کہا جاسکتا ہے اور بعض دفعہ ان کا مجموعی نتیجہ بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عصر حاضر کے مسائل میں انفرادی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر جگہ ’’امن و سکون کا فقدان‘‘ پہلے نمبر پر آتا ہے۔ اس عالمی اضطراب و بے چینی کے اسباب بھی متعدد ہیں اور مظاہر بھی۔ آج کے انسان کو انفرادی سطح پر ُحب ِجاہ و مال سے اجتناب اور زہد و سادگی اختیار کرنے کی تلقین یا اجتماعی سطح پر توسیع پسندی اور استعماری عزائم کی بجائے امن اور سلامتی کی تدابیر بتانے کی ضرورت ہے۔ آج انسان دوستی‘ صلح پسندی‘ رواداری‘ اتحاد و یگانگت‘ عدل و مساوات ‘احترامِ حریت‘ فروغِ علم و حکمت اور خدمت ِخلق وغیرہ موضوعات پر بات کرنا وقت کی پکار ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک مسئلہ پر سیرتِ مصطفیﷺ میں واضح پیغام اور کافی و مکتفی رہنمائی موجود ہے۔ مگر کیا ہم ہر ملک و ملت کے مختلف قدوقامت کے لیڈروں اور اس وقت کی عالمی سٹیج کے تمام مدعیانِ ’’اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ‘‘ سے ان ہی مذکورہ مسائل و موضوعات پر دھواں دھار بیانات‘ داد طلب اعلانات اور مسحور کن مگر کھوکھلے پیغامات شب و روز نہیں سنتے رہتے؟ اور اس کے باوجود انسانیت اور شرافت ہے کہ ایک جان بلب مریض کی طرح اپنے نوسرباز معالجوں کی لفظی بازیگریوں سے لمحہ بہ لمحہ مایوسیوں میں گری جارہی ہے ۔ اگر آج کے زعمائے سیاست اپنے بین الاقوامی معاہدوں‘ اپنے تلاشِ امن و آشتی کے دعووں اور دین و مذہب کو خیر چھوڑیئے‘ صرف یو این او کے چارٹر میں اپنے دستخطوں سے دیے گئے وعدوں کی پابندی ہی اسی روح اور جذبہ سے کرتے جس کی مثال رحمۃ للعالمین اور رئوف رحیم نبیﷺ نے صلح نامہ حدیبیہ کے ضمن میں قائم فرما دی تھی تو آج انسانیت اطمینان کا سانس لے رہی ہوتی۔ عصر حاضر کے عالمی اضطراب کی وجہ تشخیص اور علاج سے نادانی نہیں‘ بلکہ اس کا اصل سبب ان ’’مستبصرین‘‘ کی نیتوں کا فتور اور دلوں کا کھوٹ ہے۔ یہ کہنا کسی طرح مبالغہ نہیں ہو گا کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا روگ اور سب سے بڑا مسئلہ دراصل ’’قول و فعل کی ثنویت اور گفتار و کردار کی دورنگی‘‘ ہے‘ جس میں اس دور کے عوام اور خواص سب ہی مبتلا ہیں۔

ہادی ٔبرحق محمد مصطفیﷺ کی سیرت پاک اور آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں اس موضوع پر گفتگو کرنا میرے نزدیک وقت کی نہایت اہم بات‘ مضطرب اور بے چین انسانیت کے لیے پیغامِ نجات اور خود مسلمانوں کے لیے درسِ حیات ہے۔ قول و فعل میں مطابقت کی تاکید اور اس کے برعکس گفتار و کردار کی دورنگی یا منافقت سے تحذیر پر‘ قرآن و سنت کی تعلیمات پیش کرنا‘ میرے نزدیک کئی وجہ سے اہم ہے:۔

(۱) اوّلاً:تو اسی لیے کہ قول و فعل کی دورنگی عصر ِحاضر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے‘ بلکہ بدقسمتی سے اسے عیب کی بجائے ہنر‘ معیارِ دانشوری اور گویا ’’فلاح کی راہ‘‘ سمجھاجانے لگا ہے۔ گائوں اور محلوں کے چوہدریوں سے لے کر ملکوں کے حکمرانوں تک اور علاقائی رہنمائوں سے لے کر یو این او کے اجارہ داروں تک ہر جگہ یہی برائی ہر طرح کے ’’وڈیروں‘‘ کی امتیازی صفت بن گئی ہے اور یہی خرابی باقی تمام خرابیوں اور مسائل کے جنم کا سبب یا پھر ان کی بقا کا موجب بنی ہوئی ہے۔

(۲) ثانیاً: ایک وجہ میرے اس موضوع کو اختیار کرنے کی یہ بھی ہے کہ سیرتِ مصطفیﷺ کا جودرخشاں پہلو سب سے پہلے دنیانے دیکھا وہ یہی قول وفعل کی مطابقت ہی تو تھا۔ محمدکریمﷺ کے ہم وطنوں نے آپؐ کو الصادق اور الامین کا لقب کیوں دیا تھا؟ صدق اور امانت کا دار و مدار اور بلند معیار قول وفعل میں ادنیٰ تفاوت کے نہ ہونے پر ہی تو ہے۔

(۳) ثالثاً:آنحضرتﷺ نے سب سے زیادہ دکھ اور پریشانی جماعت منافقین کے ہاتھوں ہی سہی۔ ایذائِ رسولﷺ کبیرہ گناہ ہے اور اس کا نفاق کے ساتھ گہرا تعلق ہے تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ کہیں ہم اپنے قول و فعل کے اس تضاد سے ایذائِ رسولؐ کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟

(۴) رابعاً:آنحضورﷺ نے صحابہ کی ایسی جماعت تیار فرمائی جس کے ظاہر و باطن کی یکسانیت اور قول و فعل کی مطابقت ہی تو اسلام کے غلبہ اور اس کی اتنی حیرت انگیز سرعت کے ساتھ اشاعت کا سبب بنی کہ ادیانِ عالم کی تاریخ میں کہیں اس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

شاید یہ کہا جائے کہ قول وعمل کی مطابقت کوئی ایسی بات نہیں ہے جو صرف پیغمبراسلام ﷺ سے ہی مختص ہو‘یہ بات تو کم و بیش تمام مذاہب اور جملہ ادیان کے مسلمات میں سے ہے اور سب ہی ہادی اور پیشوا یہی تعلیم دیتے رہے۔ ہاں یقیناً تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل تھی۔ صرف تعلیمات میں ہی نہیں بلکہ بالفعل ان کے اقوال و اعمال میں کہیں بھی اختلاف یا مخالفت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا ایمان ہے کہ تمام انبیاء معصوم تھے۔ انبیاء ؑکے ضمن میں عصمت کا مفہوم اگرچہ وسیع ہے اور تمام احکام و قضایا بھی اس میں شامل ہیں‘ تاہم قول و فعل کی مطابقت بھی تو عصمت یا معصومیت کا ہی ایک پہلو ہے۔ جب چھوٹا بچہ بھولے پن سے یہ کہتا ہے کہ ’’ابو کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر میں نہیں ہیں‘‘ تو یہ اسی معصومیت کا ایک مظہر ہوتا ہے جو ہر انسان کی فطری میراث ہے اور جسے وہ بہت سی دوسری فطری خوبیوں کی طرح ‘سن ِشعور میں کھو بیٹھتا ہے۔

اور یہ کوئی ضروری بھی تو نہیں کہ پیغمبر اسلامﷺ کا ہر پیغام کوئی نیا انکشاف ہی ہو۔ خود حضورﷺ نے ’’نَحْنُ معشر الانبیاء دیننا واحد‘‘ فرما کر جملہ ہادیانِ عالم کے اصل منبع ہدایت کی وحدت کی خبر بھی دے دی۔ البتہ آنحضرتﷺ کو زیر بحث معاملے میں بھی یہ فضیلت ضرور حاصل ہے کہ آپؐ نے قول و فعل کے تضاد کی مختلف صورتوں مختلف شعبہ ہائے حیات مثلاً تجارت‘ صنعت‘ حکمت‘ معاشرت اور عبادت وغیرہ سے اس کے تعلق اور اس ضمن میں پیش آنے والے بعض نفسیاتی مغالطوں تک کی مکمل وضاحت فرما دی ہے۔

آیئے اب اس موضوع سے متعلق کتاب و سنت کی تعلیمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:۔

(۱) قرآن کریم کے شروع ہی میں سورۃ البقرۃ میں انسانوں کے تین گروہوں کا ذکر ہے۔ مؤمن مخلص‘ کافر جاحد اور منافق مطلق۔ قلبی نفاق تو قول و عمل کی‘ دانستہ اختیار کردہ‘ شعوری اور ارادی‘ دورنگی ہے اور یہ قول وفعل کے تضاد بلکہ زبان اور دل کی عدم رفاقت کی بدترین صورت ہے۔ نفاق‘ کفر اور اسلام کے درمیان ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے اسلام میں کفر سمگل ہونے کا کام جاری رہتا ہے۔ اسی لیے نفاق کی اس قسم یعنی نفاق قلبی کے اسباب و علامات اور اس کے علاج یاہولناک انجام {فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ} (النساء:۱۴۵) کے متعلق قرآن حکیم میں بالتفصیل بات ہوئی ہے۔ کتاب و سنت کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قول و فعل کا تضاد اگرسوچی سمجھی دورنگی کی بجائے صرف ضعف ایمان یا قوت ارادی کی کمزوری کے باعث ہوتو بھی اسے نفاق ہی کہاگیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا ماحصل اور معیار یعنی صفت تقویٰ ہے اور یہ اسی انسانی کمزوری یعنی نفاقِ عملی اور قول وفعل کے تضاد کو کلیتاً مٹانے {اِتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰـتِہٖ} (آل عمران:۱۰۲) کے مطابق یا اسے زیادہ سے زیادہ کم کرنے اور {فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (التغابن:۱۶) کے مطابق گھٹانے کا نام ہے۔

(۲) قرآن کریم نے کتاب ہدایت کے علمبرداروں اور تلاوت گزاروں میں بھی قول و فعل کا تضاد پائے جانے کو سخت بے عقلی کا کام بتایا ہے :(البقرۃ){اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ۔ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ} اور یہ شاید اسی لیے کہ لوگ اسے دانشمندی اور ذہانت کا مظہر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

(۳) قرآن مجید نے شعر وشاعری کے مذموم پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعراء کی آوارگی ٔفکر اور عمل سے پہلوتہی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :  {وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ. اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ. وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ ا لَا یَفْعَلُوْنَ.} (الشعرآء) علامہ اقبال نے اپنا نام لے کر دراصل شعر و شاعری کی اسی عام خرابی یعنی اس کے ’’کارِ بیکاراں‘‘ ہونے کا مضمون یوں باندھا تھا:

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ‘کردار کا غازی بن نہ سکا!

(۴)قرآن حکیم کی سورۃ الصف کی دو آیتوں میں تو خاص کر قول بلافعل کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے مبغوض اور قابل نفرت بات قرار دیا گیا ہے:{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ. کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ} بعض نکتہ رس مفسرین مثلاً زمخشری‘ رازی اور قاسمی وغیرہ نے اس آیت میں کلمہ ’’مقت‘‘ کے اختیار کیے جانے کی بنا پر (جو بذات خود اپنے اندر انتہائی نفرت اور شدید ناپسندیدگی کے وسیع معنی رکھتا ہے) اور مزید کَبُرَ اور عِنْدَ اللّٰہِ اور پھر لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ کی تکرار کی وجہ سے اسے قول و فعل میں تضاد کی شدید اور ہمہ جہت قدحت کا ایک فصیح و بلیغ نمونہ قرار دیا ہے۔ عمل کی نیت یا ہمت نہ ہو تو محض ڈینگیں مارنایا پرفریب نعرے لگاتے پھرنا تو کوئی خوبی نہ ہوئی۔ (۵)

سورئہ ہود میں حضرت شعیب کی زبان سے{وَمَا اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُم اِلٰی مَا اَنْھٰٹکُمْ عَنْہُ}کی عبارت میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اپنے عمل سے اپنے ہی قول کی نفی کرنا اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کا طریقہ ہرگز نہیں ہوتا۔

(۶) سورئہ آل عمران کی ایک آیت میں{یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا} (آیت ۱۸۸) کے مصداق لوگوں یعنی مفت کی شہرت کے طلبگاروں کے لیے‘ سزا سے نجات کے راستے بند ہونے کا ذکر کیا گیا ہے: {فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ } (آل عمران:۱۸۸)
یہ تو تھیں وہ آیات جن میں قول اور فعل یا ان کے ہم معنی الفاظ استعمال کر کے انسانی کردار کی اس پستی کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں ظاہر و باطن اور سر و جہر کی ہم آہنگی اور مطابقت پر جو زور دیا گیا ہے‘ اس کا تعلق بھی اس موضوع سے ہے۔ مثلاً:۔
(۱) {وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ} (الانعام:۱۲۰)
(۲) {اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ} (الاعراف:۳۳)
(۳) {وَاللّٰہُ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَھْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَـکْسِبُوْنَC} (الانعام)
(وغیر ذلکَ مِنَ الاٰیات)
احادیث ِنبویہ میں بھی اسی مضمون کو مختلف پیرایہ ہائے بیان سے واضح کیا گیا ہے۔ دعوتِ فکر کے ساتھ چند احادیث پیش خدمت ہیں:۔
(۱) حضرت سفیان بن اُسیدؒ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:۔ ((کَبرتْ خِیَانَۃً اَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ھُوَ لَکَ بِہٖ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ لَـہٗ بِہٖ کَاذِبٌ)) (۱) ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات بیان کرو اور وہ تمہاری تصدیق کرے جبکہ تم اس سے جھوٹ کہہ رہے ہو۔‘‘
(۲) حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلاَّ کَانَ لَـہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِہٖ ، ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَـقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُـؤْمَرُوْنَ ، فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مَؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ، وَلَـیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ))(۲)
’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث کیا ہو‘ مگر یہ کہ اس کے لیے اس کی امت میں سے کچھ لوگ حواری اور اصحاب ہوتے تھے‘ جو اس کی سنت کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اس کے حکم کے مطابق چلتے تھے۔ پھر (ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ) ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آ جاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ تو جو شخص ایسے لوگوں کے ساتھ جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے تو وہ مؤمن ہے‘ اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے تو وہ مؤمن ہے‘ اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنے دل سے تو وہ بھی مؤمن ہے۔ اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں!‘‘

(۳) حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:((یُجَائُ بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِـقُ اَقْتَابُـہٗ فِی النَّارِ فَـیَدُوْرُ کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ ، فَـیَجْتَمِعُ اَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَـیَقُوْلُوْنَ : أَیْ فُلَانُ مَاشَأْنُکَ؟ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ: کُنْتُ آمُرُکُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَا آتِیْہِ وَاَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ)) (۳)

’’قیامت کے روز ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈالا جائے گا تو آگ میں اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا (آٹا پیسنے والی) چکی کے گرد گھومتا ہے۔ پھر اہل جہنم اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے : اے فلاں! تمہارا کیا معاملہ ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کی تلقین نہیں کیا کرتے تھے اور برائی سے نہیں روکا کرتے تھے؟ وہ کہے گا : میں تمہیں تو نیکی کی تلقین کیا کرتا تھا مگر خود اسے اختیار نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے روکا کرتا تھا مگر خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘

(۴) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
((رَأَیْتُ لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِیْ رِجَالًا تُقْرَضُ شِفَاھُھُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَارٍ، فَقُلْتُ: یَا جِبْرِیْلُ مَنْ ھٰٓـؤُلَائِ؟ قَالَ : ھٰـؤُلَائِ خُطَبَائُ مِنْ اُمَّتِکَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ اَنْفُسَھُمْ وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ)) … وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: خُطَبَائُ مِنْ اُمَّتِکَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَقْرَؤُنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَلَا یَعْمَلُوْنَ)) (۴)

 ’’جس رات مجھے (آسمانوں کی) سیرکرائی گئی‘ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے کہا : اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ اس نے جواب دیا: یہ آپؐ کی امت میں سے کچھ خطیب حضرات ہیں‘ یہ لوگوں کو

نیکی کا حکم دیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے درانحالیکہ یہ کتاب کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ کیا یہ عقل نہیں رکھتے تھے؟‘‘اور ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’’جبریل نے کہا: یہ آپؐ کی اُمت میں سے وہ خطیب حضرات ہیں جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور اللہ کی کتاب پڑھتے تھے مگر عمل نہیں کرتے تھے۔‘‘

ان کے علاوہ متعدد احادیث نبویہ میں عبادات و معاملات کے ان شعبوں اور گوشوں کی خصوصاً نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس انسانی کمزوری یا کردار کی اس خرابی کا عموماًمظاہرہ ہوتاہے۔ مثلاً بیع و تجارت (غش)‘ مواثیق و معاہدات (نقض) اور معاشرت و مخاصمت (گروپ) وغیرہ میں۔ کتاب و سنت میں جہاں جہاں بھی ریاء‘ بخل‘ بزدلی‘ خیانت‘ جھوٹ فریب‘ تلون‘ خوشامد پسندی اور سستی شہرت کی طلب وغیرہ رذائل کی مذمت و ممانعت آئی ہے سب کا تعلق بنیادی طو رپر قول و فعل کے تضاد سے ہی ہے۔
صرف یہی نہیں ‘قرآن و سنت سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قول و فعل میں مطابقت بھی اگر خلوصِ نیت پر مبنی نہیں تو وہ بھی مردود ہے۔ قرآن کریم میں مرضِ قلب‘ زیغ قلب‘ رین قلب وغیرہ الفاظ سے باطن کی اسی خرابی کا ذکر ہوا ہے۔ اسلام کے اصولِ اوّلین  توحید کے بیان کے لیے قرآن کریم کی جامع تر سورت کا نام ’’الاخلاص‘‘ رکھا گیا ہے۔ سورۃ الاسراء میں ایک جگہ نیت کے حسن و قبح کے نتائج یوں بیان ہوتے ہیں: {مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا}  ’’جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہش مند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں پھر اس کے لیے جہنم کو (ٹھکانہ) مقرر کر رکھا ہے جس میں وہ نفرین سن کر اور (اللہ کی درگاہ سے) راندہ ہوکر داخل ہو گا۔ اور جو شخص آخرت کا خواستگار ہو اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے۔‘‘

اعمال میں نیت کی خرابی سے واقع ہونے والی بربادی کے بارے میں متعدد احادیث اور عہد ِنبوی کے بعض واقعات بھی سیرت اور حدیث کی کتابوںمیں بیان ہوئے ہیں ۔ یہاں صرف ایک قدرے طویل حدیث بیان کی جاتی ہے‘ جسے مسلم ‘ ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا:  ((اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یُقْضٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہِ رَجُلٌ اسْتُشْھِدَ فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتَّی اسْتُشْھِدْتُ۔ قَالَ: کَذَبْتَ وَلٰـکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِاَنْ یُقَالَ جَرِیْئٌ فَقَدْ قِیْلَ ، ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہٖ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہٗ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا۔ قَالَ : فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہٗ وَقَرَأْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ، قَالَ: کَذَبْتَ وَلٰـکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَالم وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ ھُوَ قَارِیٌٔ فَقَدْ قِیْلَ ، ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہٖ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَأَعْطَاہُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہٖ، فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعَمَہٗ فَعَرَفَھَا، قَالَ : مَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَالَ : مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِیْلٍ تُحِبُّ اَنْ یُنْفَقَ فِیْھَا اِلاَّ اَنْفَقْتُ فِیْھَا لَکَ، قَالَ : کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ ھُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ثُمَّ اُلْقِیَ فِی النَّارِ)) (۵)

’’قیامت کے دن جن لوگوں کا فیصلہ سب سے پہلے کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس نے (بظاہر) شہادت پائی ہو گی۔ پس اسے لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی وہ نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے عطا کی گئی تھیں اور وہ ان کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: پس ان کے بارے میں تمہارا عمل کیسا رہا؟ وہ کہے گا : میں نے تیری راہ میں جنگ کی‘ یہاں تک کہ میں نے شہادت پا لی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا‘ بلکہ تو نے تو اس لیے جنگ کی تھی تاکہ تجھے بہادر کہا جائے‘ سو وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ دوسرا شخص وہ ہو گا جس نے علم حاصل کیا اور اسے دوسروں کو سکھایااور قرآن پڑھا۔ پس اسے لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ہونے والی نعمتیں اسے یاد دلائے گا اور وہ ان کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : پس ان کے بارے میں تمہارا عمل کیسا رہا؟ وہ کہے گا : میں نے علم حاصل کیا اور اسے دوسروں کو سکھایا اور میں نے تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا‘ بلکہ تونے تو علم اس لیے سیکھا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا تھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے‘ سو وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ تیسرا شخص وہ ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے رزق میں فراخی عطا فرمائی تھی اور اسے ہر قسم کے مال میں سے حصہ عطا کیا تھا۔پس اسے لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ہونے والی نعمتیں اسے یاد دلائے گا اور وہ ان کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ان کے بارے میں تمہارا عمل کیسا رہا؟ وہ کہے گا : میں نے کوئی راستہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں خرچ کرنا تجھے پسند ہو مگر میں نے اس میں مال خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا‘ بلکہ تو نے تو یہ اس لیے کیا تھا تاکہ تجھے سخی کہا جائے‘ سو وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس کو چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘

گویا جہاد ‘ تعلیم و تعلّم اور انفاق ِمال ایسے اعمال ِجلیلہ بھی حسن ِنیت اور اخلاص کے بغیر مردود ہیں۔ بات یہ ہے کہ مسلمان کا ہر عمل اور ہر قول ’’للہ‘‘ اور ’’فی اللہ‘‘ کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ یہاں صرف قول و فعل ہی میں نہیں بلکہ ان کے ساتھ نیت اور اخلاص کی ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔
قلب‘ لسان اور جوارح میں سے کسی ایک پرزے کی خرابی‘ کردار و سیرت کی پوری مشینری کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ باقی دنیا کو جانے دیجیے ‘ہم مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کو نبیﷺ کی لائی اور دی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ اپنے قول و فعل کے تضاد کے باعث ہم کس انجام کی طرف رواں دواں ہیں؟ ہم اسلام کو سب سے اعلیٰ و ارفع نظریہ ٔحیات کہتے ہوئے بھی اسے عملاً آج تک نہ اپنا سکے۔
جب ساری دنیا نے مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا اُس وقت ہم نے دین و سیاست کی یکجائی کا نرالا نعرہ بلند کر کے دشمنوں کو تو چوکنا کر دیا اور خود ایک تہائی صدی سے اپنے دین کو سیاست کا تابع مہمل بنانے کی مساعی میں لگے ہوئے ہیں٭۔

لڑ گئے غیر سے مذہب کا لگا کر نعرہ
اور خود اپنے لیے کفر سے نیت باندھی

زندگی کے ہر شعبے میںدین کے اقتدار کے قائل ہوتے ہوئے ہم نے عملاً دین کو پرائیویٹ سے بھی کچھ دور تر کر دیا ہے ؎

اتباعِ شریعت کے دعوے بھی ہیں
روح شیدائے تقلید افرنگ بھی!

پاکستان کے اہم رسائل و جرائد خصوصاً جو سرکاری یا نیم سرکاری اہتمام سے چھپتے ہیں‘ ان میں گزشتہ تیس برسوں میں شائع ہونے والے صرف ’’سیرت نمبروں‘‘ میں عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر ایوان ہائے حکومت سے جاری ہونے والے پیغامات اور بیانات کا مطالعہ کیجیے! اللہ اکبر! کیسے کیسے لوگوں نے کیا کیا خوبصورت بیانات دیے!
{وَلٰـکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ} (البقرۃ)
اور ذرا سی مدت کے اخبارات کی صرف وہ سرخیاں اور خبروں کے عنوانات جمع کیجیے جن کا آخری حرف کسی ’’صیغہ ٔوعدہ‘‘ کا ’’گا‘گے‘گی‘‘ تھا اور پھر دیکھئے کہ ہم کہتے کیا رہے اور کرتے کیا رہے؟ بوصیری نے سچ کہا تھا:۔
استغفر اللہ من قول بلا عمل
لقد نسبت بہ نسلاً لذی عقم

آج ہمارے دفاتر میں(الا ماشاء اللہ) خلوص اور محنت سے زیادہ ’’خانہ پری‘‘ کا جذبہ کارفرما ہے۔ ہماری تجارت‘ ہماری برآمدات‘ ہمارے ٹھیکے اور ٹینڈر‘ہماری صنعت و حرفت‘ ہماری دانش گاہیں حتیٰ کہ خدمت خلق کے ادارے بھی کون سی ایسی جگہ ہے جہاں قول و فعل کا تضاد موجود نہیں ہے ‘جس چیز کو اللہ عزوجل نے اپنے مقت اور غضب کا نشان بتایا‘ اسے اپنا کر کیا ہم واقعی کہیں غضب الٰہی میں گرفتار تو نہیں ہو گئے؟ اس سے بڑھ کر اور غضب کیا ہو گا؟ کہ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا۔ کوئی کسی سے مطمئن نہیں ہے۔ ہماری تقریریں اور وعظ کیوںبے اثر ہو کر رہ گئے ہیں؟ یہ قول و فعل کے تضاد کا زہر ہے جو ہر شے کو برباد کیے جا رہا ہے۔ ہمار ے نبیﷺ ‘ ان کے صحابہ کرامj اور ان کے بعد کے صوفیہ اور صلحاء نے تو اپنے قول و فعل کی ہم آہنگی سے اسلام کو ساری دنیا کے لیے جاذب نظر بنا دیا ‘مگر ہماری یہ حالت ہے کہ اپنے مطالعہ کی بنا پر اسلام کو دین حق سمجھ جانے والے لوگ بھی ہماری صفوں میں داخل ہونے سے گھبراتے ہیں۔

اسلام بذاتِ خود ندارد عیبے
ہر عیب کہ ہست از مسلمانی ماست

اور اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا : ؎
بروں آ از مسلماناں گریز اندر مسلمانی
مسلماناں روا دارند کافر ماجرائی ہا!

آج اجتماعی سطح پر ہماری یہ حالت ہے کہ ؎
راہ بتائیں اور کو آپ پھریں گمراہ
مشعل جن کے ہاتھ میں انہیں نہ سوجھے راہ

اور انفرادی سطح پر اپنی ساری تعلیم و تہذیب اور روشن خیالی کی نمائش کے باوجود عالم یہ ہے کہ :۔
اُجلے سر کے کیس ہیں من کالک کاڈھیر
باہر چھائی چاندنی اندر گھپ اندھیر
صحابہ کرامj میں سے بعض تو اپنے دل کے وسوسوں سے بھی خائف رہتے تھے اور نبی کریمﷺ سے اپنی اس روحانی اور نفسیاتی الجھن تک کا حل طلب کرتے تھے ۔ (بعض اکابر کی احتیاط کے بارے میں مروی ہے کہ وہ وعظ اور تقریر سے گھبراتے اور عذر یہ پیش کرتے: ’’تامرنی ان اقول ما لا افعل فاستعجل مقت اللّٰہ عزّوجل‘‘مگر ہماری جسارتوں کا یہ عالم ہے کہ نیت کی باریکیوں اور ضمیر کی گہرائیوں کو چیک کرنا تو درکنار اپنے قول و فعل کے صریح تضاد پر بھی کبھی پشیمان نہیں ہوتے۔ پشیمان ہوں تو توبہ نہ کر لیں کہ توبہ پشیمانی ہی کا تو نام ہے۔ ((اِنَّمَا التَّوْبَۃُ النَّدْمُ)) (حدیث) مسلمان کا سب سے پہلا‘ سب سے بڑا اور سب سے انقلاب انگیز قول کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا اعلان ہے۔ جب اس قول کو ہی دل میں جگہ نہ دی‘ جب اپنے ظاہر و باطن کو اس کے مطابق نہ ڈھالا‘ جب اپنے عمل اور کردار میں ’’الوہیت‘‘ اور ’’رسالت‘‘ پر ایمان کے تقاضوں کی کوئی جھلک پیدا نہ کر سکے‘ جب اللہ او ررسولﷺ کے ساتھ بھی معاملہ زبانی جمع خرچ تک محدود رہا تو عام انسانوں کے ساتھ قول و فعل کے تضاد میں خرابی کیسے نظر آئے؟ جلسوں جلوسوں کے نعرہ ہائے تکبیر کو چھوڑیے‘ ہم تو باقاعدہ پانچ وقت اذانوں میں ساری دنیا کے سامنے ’’اللہ اکبر‘‘ کا اعلان کرتے رہتے ہیں ‘مگر ہمارے اعمال و افعال میں اللہ کی کبریائی اور اس کے جلال کا کوئی احساس بصورتِ تقویٰ و خشیت نظر نہیں آتا۔

قول و فعل کے اس تضاد کو دور کرنے یا نہ کر سکنے پر ہی ہمارے دینی ضمیر کی زندگی یا موت کا دار و مدار ہے ۔ اگر اس دینی ضمیر میں کوئی خرابی واقع ہوگئی تو پھر سارے ترقیاتی پروگرام مل کر بھی ہمیں برے انجام سے نہیں بچا سکیں گے ؎
دنیا کو تسخیر کر ‘ ذرّے کا دل چیر
لیکن پہلے صاف کر اپنا پاک ضمیر!
قول و فعل کا تضاد جتنا کم ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی مسلمان اپنی اس اصلی ’’منزلِ ترقی و کمال‘‘ سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے ‘جہاں وہ ’’لا الٰہ کی مشکلات‘‘ کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے‘ اور جہاں ہزار خوف بھی اس کی زبان کو دل کا رفیق ہونے سے روک نہیں سکتے۔

حواشی

(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الادب‘ باب فی المعاریض۔

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان…

(۳) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق‘ باب صفۃ النار وانھا مخلوقۃ۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الزھد والرقائق‘ باب عقوبۃ من یأمر بالمعروف ولا یفعلہ وینھی عن المنکر ویفعلہ۔

(۴) مسند احمد‘ ح ۱۳۰۲۷۔
مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الآداب‘ باب الامر بالمعروف‘ الفصل الثانی۔

(۵) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار۔ وسنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی الریاء والسمعۃ۔ واللفظ لمسلم۔

]احادیث نبویہ کا اردو ترجمہ قارئین کی سہولت کے لیے ادارہ میثاق کی طرف سے شامل کیا گیا ہے۔[
(ماہنامہ میثاق‘ جنوری ۲۰۱۳ء ۔  محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ موسس و بانی مرکزی انجمن خدام القرآن)